ظفر صاحب کے گھر میں آج سبھی موجود تھے۔۔۔۔ سب کو موجود پا کر ظفر صاحب اپنی بیگم عائشہ سے بولے۔۔۔
بیگم ہمیں ثمراہ کی شادی جلدی کرنی ہوگی۔۔۔
ایسا کیوں پاپا ۔۔۔عائشہ تو ظفر صاحب کی بات کو سمجھی ہی تھی کہ بیچ شایان بول پڑا۔۔۔
وہ اس لئے بیٹا کہ جاوید بھائی کی کال آئی تھی رات میں کے وہ اریشہ اور تمہاری شادی کی ڈیٹ فکس کرنا چاہتے ہیں۔۔۔
وہ تو ٹھیک ہے پر ثمراہ کی شادی کا شایان کی شادی سے کیا لینا دینا۔۔۔
عائشہ نے ظفر صاحب سے بولا۔۔۔
کیوں کے میں چاہتا ہوں میرے سامنے ہی میری بیٹی رخصت ہو کے اپنے گھر کی ہوجائے۔۔
ظفر صاحب نے تھوڑا دور بیٹھی ثمراہ کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا جو کہ فیز کے ساتھ باتوں میں مگن تھی ۔۔۔
ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ پاپا اللّٰہ آپکو ہمیشہ سلامت رکھے اور ثمراہ ابھی پڑھائی کر رہی ہے ۔۔۔۔
اس کی پڑہائی کی فکر مت کرو شمس صاحب نے کہا تھا اگر وہ شادی کی بعد بھی پڑھنا چاہے تو اسے کوئی نہیں روکے گا۔۔۔
لیکن اتنی جلدی کیا ہے۔۔۔
جلدی یہ ہے کہ میں نے کچھ ٹائم پہلے ریگولر چیک اپ کروایا تھا تو میرا بی پی پرابلم بڑھ رہا ہے اور باقی ریپورٹس بھی کچھ خاص نہیں آئی۔۔۔
ڈاکٹر نے کیا کہا ۔۔۔عائشہ اپنے شوھر کی بات سن ڈر سی گئی۔۔۔
زیادہ کچھ مسئلہ نہیں ہے دوائی کھاؤ گا تو ٹھیک ہو جاؤنگا پر پتہ نہیں کیوں اب دل کر رہا ہے کہ جانے سے پہلے اپنی بیٹی کو اپ نے ہاتھوں سے رخصت کروں۔۔۔
آپ مجھے ڈرا رہے ہیں عائشہ سے سنبھلنا مشکل ہوگیا ظفر صاحب کی بات سن کر۔۔
ارے بیگم کوئی ٹینشن نہیں ہے آپ میری رپورٹ لے کے خود چیک کر لینا۔۔۔
اگر ایسا کچھ نہیں تو آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔۔۔
بیگم زندگی موت کا پتہ نہیں نہ میرا نہ آپ کا تو سوچا بچوں کی خوشیاں ہی دیکھ لیں۔۔۔
ٹھیک ہے پاپا اگر آپ یہ چاہتے ہیں تو یہ ہی ٹھیک آپ شمس انکل کو بلا لیں اور بڑے ابو کو بھی ہم اسی ہفتے شادی کی تاریخ رکھتے ہیں۔۔
ہمم۔۔ ٹھیک ہے ویسے ایک بات ہے مجھے حارث سے زیادہ صارم اچھا لگا گھلنے ملنے والا بچہ ہے ہماری شوخ چنچل سی بچی کے لئے وہ زیادہ بہتر رہتا۔۔
ظفر صاحب نے اپنی بیگم اور بیٹے کو اپنی رائے دی تو ان دونوں نے بھی حامی بھری۔۔۔
کہہ تو آپ ٹھیک رہے ہیں ظفر صاحب مجھے بھی صارم بہت پسند آیا تھا مگر وہ لوگ رشتہ حارث کے لئے لائے تھے اور صارم تو رشتہ پکا کرنے کے بعد آیا تھا تو ہم کیسے کچھ کہتے ۔۔
ثمراہ صرف سب کو باتیں کرتا ہوا دیکھ رہی تھی اسے یہ نہیں پتا تھا کہ اسکی شادی کی باتیں ہورہی ہیں۔۔ورنہ وہ کہاں خاموش رہتی ان سب میں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حارث تم نے ہم سب کو ہیاں کیوں بلایا ہے۔۔
شمس صاحب نے حارث سے پوچھا کیوں کہ وہ سبھی گھر والوں کو لئے لاؤنج میں بیٹھا تھا پر دس منٹ ہوگئے تھے وہ کچھ نہ بولا۔۔
وہ پاپا میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ میں ثمراہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔۔۔
حارث کی بات پر سبھی سکتے میں آگئے تھے۔۔
یہ تم کیا کہی رہے ہو ابھی تمہاری منگنی کو ایک ماہ بھی نہ ہوا اور تم منگنی ختم کرنے کی بات کر رہے ہو۔۔
حنا بیگم نے غصہ سے حارث سے کہا۔۔
اور برخودار تم سے پوچھ کے ہی ہم نے ہر فیصلہ کیا تھا پھر اب کیا تمہیں وہ اچھی نہیں لگ رہی۔۔۔
شمس صاحب کا بھی اب پارہ ہائی ہوگیا تھا ۔۔
پاپا مجھے وہ اچھی لگی تھی اور آپ دونوں کی خوشی کے لئے میں نے شادی سے ہاں کہا تھا ۔۔۔ مگر میں یہ نہیں جانتا تھا کہ میں انجانے میں اپنے بھائی کی سب سے بڑی خوشی چھین رہا ہوں۔۔۔
تم کہنا کیا چاہ رہے ہو ٹھیک سے بتاؤ۔۔
اب کی بار حنا بیگم پہلے سے تھوڑا آرام سے بولی۔۔
مما کیا آپ کو پتہ ہے ثمراہ ہی وہ لڑکی ہے جسے صارم پسند کرتا ہے۔۔
حارث کی بات پر سبھی حیران تھے جب کہ صارم نے آنکھیں بند کر کے سر نیچھے جھکا لیا تھا۔۔۔اسے ڈر تھا سب بات سامنے آنے پر وہ اپنے قیمتی رشتے نہ کھو بیٹھے۔۔۔
کیا حارث جو کہہ رہا ہے وہ سچ ہے؟؟؟
شمس صاحب نے صارم سے سوال کیا۔۔
بغیر سر اٹھائے صارم نے جواب دیا۔۔
جی۔۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔
حنا بیگم جو صارم کے کانپتے ہاتھ دیکھ رہی تھیں فوراً سمجھ گئیں کہ وہ ڈر رہا ہے ۔۔
صارم کے ہاں کہنے پر کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی۔۔۔
ثناء واسف اور حنا بیگم کبھی صارم کو دیکھ رہے تو کبھی شمس صاحب کو۔۔۔
کیا میں جان سکتا ہوں صارم میاں کہ تم نے کبھی ہمیں بتایا کیوں نہیں۔۔۔
شمس صاحب ابکی بار تھوڑا تحمل سے بولے۔۔۔
جی مجھے لگا تھا کہ اریشہ وہ لڑکی ہے جسے حارث کیلئے پسند کیا ۔۔۔جب سب ان دونوں کا منہ میٹھا کروا رہے تھے تب مجھے پتہ لگا۔۔
صارم نے جھجک کے جواب دیا۔۔
تو تم ہمیں اس دن بھی بتا سکتے تھے۔۔
آپ سب بہت خوش تھے بڑے پاپا حارث بھی خوش تھا میں اپنی خوشی کے لئے اتنے لوگوں کو تکلیف کیسے دیتا۔۔۔
حنا بیگم جیسے ہی صارم کے ساتھ آکر بیٹھی اس نے انہیں فوراً گلے لگا لیا ۔۔۔
پلیز بڑی مما آپ بڑے پاپا سے کہیں مجھ سے ناراض مت ہونا میں یہ بات کسی کو بتانا نہیں چاہتا تھا اسی لئے میں پیرس جانا چاہتا تھا کچھ سالوں کیلئے مگر میں نہیں گیا اور سب غلط ہوگیا ۔۔۔۔
حنا بیگم جو صارم کی کیفیت کو دیکھ گھبرا رہی تھیں کیونکہ انہوں نے اسے پالا تھا وہ جانتی تھیں کی اسے ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کی کہیں پھر سے اس کے اپنے اس سے دور نہ ہوجاہیں ۔۔۔
بن ماں باپ کی بچوں میں یہ ڈر ہوتا ہے بظاہر مضبوط نظر آنے والا لڑکا آج سب کے سامنے رو رہا تھا اس نے اپنے ماں باپ کی جدائی دیکھی تھی اسی لئے وہ کسی بھی قیمت پر ان سب رشتوں کو کھونا نہیں چاہتا تھا ۔۔
صارم ہمیشہ رشتوں کے معاملے میں حساس رہا تھا یہ بات سبھی جانتے تھے۔۔۔اسی لئے شمس صاحب اور حنا بیگم اپنے بچوں سے زیادہ اس سے پیار کرتے تھے۔۔۔
صارم میری طرف دیکھو۔۔۔
شمس صاحب نے پیار سے صارم کو پکارا ۔۔
سرخ انکھیں لئے صارم نے انکی طرف دیکھا۔۔۔
برخودار کیا اتنا مان نہیں ہے تمہیں ہماری محبت پہ کے تم ہم سے کچھ مانگو اور ہم تمہیں نہ دیں ۔۔۔کیا تم ہمیں اپنا نہیں سمجھتے ۔۔۔۔تمہیں کیا لگتا ہے ہم نے تم پہ کوئی احسان کیا ہے تمہیں پال کر ہاں بولو۔۔۔۔۔
نہیں بڑے پاپا ایسا کچھ نہیں ہے۔۔
دیکھو صارم تم ہمارے بیٹے ہو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا ۔۔۔۔ اور ماں باپ کے لئے ان کے بچوں کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔۔۔
ہم کل ہی ظفر صاحب کے گھر جائینگے۔۔۔
حارث بیٹا تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں۔۔۔
شمس صاحب نے حارث سے پوچھنا ضروری سمجھا کہ کہیں وہ ایک بیٹے کی خوشی کے لئے دوسرے بیٹے کو دکھ تو نہیں دے رہے ۔۔۔۔
ارے نہیں پاپا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے میں نے تو یہ رشتہ آپ لوگوں کی خوشی کیلئے کیا تھا ۔۔۔۔ اس نئے رشتے سے کہیں بڑھ کر مجھے میرے بھائی کی خوشی عزیز ہے ۔۔۔۔۔
شمس صاحب نے فخر سے اپنی اولاد کو دیکھا جو ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے تھے۔۔
اب تو گلے لگ جاؤ صارم میاں ۔۔۔
شمس صاحب نے صارم کو دیکھا جو تھوڑے فاصلے پہ کھڑا تھا تو اسے مخاطب کیا ۔۔۔
اس کے بڑے پاپا کے بولنے کی دیر تھی صارم نے نم آنکھیں لئے انہیں گلے لگا لیا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے اگر اس سے ماں باپ لئے تھے تو اتنے پیار کرنے والے رشتے بھی دئیے تھے.......
ظفر صاحب اپنے کمرے میں سوچوں میں گم تھے بظاہر تو وہ اپنے گھر والوں سے آدھا ادھورا سچ بتا آئے تھے مگر کبھی نہ کبھی تو انہیں سچ کا پتہ چلے گا۔۔۔
آج صبح ہی انکی ریپورٹس آئی تھی تو انہیں پتہ چلا کہ ان کے دماغ میں ایک بلڈ کلاٹ ہے جسے فوری طور پر آپریشن کے ذریعہ نکالنا ہوگا۔۔
مگر پریشانی کی بات یہ تھی کہ ڈاکٹر نے آپریشن کی کامیابی کے بس 20 فیصد ہی چانس دیئے تھے ۔۔۔
ظفر صاحب کو اب اپنی بیوی بچوں کی فکر لاحق تھی ۔۔۔۔
مجھے اپنی گڑیا کی شادی جلد سے جلد شادی کر دینی چاہئے تا کہ اگر آپریشن کامیاب نہ ہوا تو کم سے کم ایک سکون ہوگا کہ میں نے اپنا فرض ادا کردیا۔۔۔۔
سوچتے سوچتے ہی ظفر صاحب اب نتیجے پر پہنچ چکے تھے جس پر وہ اگلے دن ہی عمل کرنا چاہتے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔