گھڑی کا الارم بجنے پر جو نیند میں گم تھی الارم کی آواز پر آنکھ کھول کے اپنے فون پر وقت دیکھا تو سات بج چکے تھے ہڑ براہٹ میں اٹھتے ہوے اسنے جلدی سے اپنے کپڑے لیے اور واش روم میں بھاگی جب وہ نہا کے واپس آی امی ناشتاء تیار کر رہی تھی امی کی نظروں سے بچتی ہوی وہ اسکول کے لیے تیار ہونے لگی جبھی پیچھے سے امی نے پکارا
ثمرہ۔۔ ناشتا تیار ھے کھا لو تھوڑا
امی آپکو پتا تو ھے میں ناشتا نھیں کرتی پھر آپ روز ناشتا کیوں تیار کرتی ہیں اور ساتھ اپنی نیند بھی خراب کرتی ہیں
امی نے ثمرہ کو گھوری سے نوازا
میں نے کب کہا ہے میں صرف تمہارے لیے اٹھتی ہوں ابھی فیز بھی تو اسکول جاےگا اسے اٹھانا ہے پھر شایان کو آفس اور سب سے آخر میں تمہارے پاپا نے جانا ہے
امی نے ہنستے ہوے کہا اور اپنا کام کرنے لگی ثمرہ جو جلدی جلدی آج مجبوری میں ناشتا کر رہی تھی کیوں کے اسے صبح صبح کچھ بھی کھانا نہیں پسند تھا مگر امی نے ناشتا بنا ہی دیا تو وہ امی کو غصہ دلا کر ناشتے کی جگا ڈانٹ نہیں کھانا چاہتی تھی تو جلدی جلدی ناشتا ختم کر کے امی کو خدا حافظ کہتے گھر سے اسکول کے لیے نکل گئ
۔۔۔۔۔
کراچی کے نصف پوش علاقے میں جہان سب اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف تھے وہیں اس گھر کی کہانی کوئ مختلف نا تھی 5 افراد پر مشتمل اس گھر میں محمد ظفر جو گھر کے سربراہ تھے اپنی بیوی بچوں سمیت اک عام سی زندگی گزار رہے تھے جہاں انکی بیوی عائشہ جنہوں نے اپنے شوھر کا ھر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا تھا خدا نے انہیں 3 بچوں سے نوازا تھا 2 بیٹے اور ایک بیٹی بڑا بیٹا شایان پھر بیٹی ثمرہ اور سب سے چھوٹا فیز وہ لوگ اپنی زندگی میں خوش اور خدا کا شکر ادا کرنے والے لوگ تھے ظفر صاحب ایک پرائویٹ کمپنی میں ملازم تھے انکی بیوی عائشہ جو ہاؤس وائف تھی بڑا بیٹا بھی پرائویٹ کمپنی میں ملازم ہے اور چھوٹا بیٹا ابھی ساتویں جماعت کا طالبعلم ہے بیٹی اپنی بارہویں کی پڑھائ کے ساتھ ساتھ اسکول میں پڑھاتی ہے پہلے تو ظفر صاحب نے بیٹی کو جاب کرنے سے منع کیا پر اسکی ضد اور شوق کے آگے انہوں نے ہار مان لی کیونکا پڑھانے میں کوئ ہرج نہیں اسی لیے انہوں نے اجازت دے دی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ اسکول پہنچی تو اسکی ساتھ کام کرنے والی ٹیچر جو اسکی اچھی دوست بھی تھی اسنے اسے غور سے دیکھا اور کہنے لگی
ثمرہ تم جلدی کیوں نہیں آتی تقریبن روز ہی لیٹ ہوتی ہو اور آج تیار کیوں نہیں ہوئ ضرور دیر سے اٹھی ہوگی دیکھنا مس صدف تمہاری لیٹ لگا چکی ہونگی اور تمہاری سیلری کٹے گی ۔
سمرہ جو مس صنم کی بات مسکرا کے سن رہی تھی ایک دم بول پڑی
ارے ارے مس صنم آپ اتنا پریشان کیوں ھوتی ہیں میرے لیے پہلا میں یے جاب شوق میں کر رہی ہوں میری اگر سیلری کٹے گی تو مجھے کیا فرق پڑے گا مجھے میری نیند پیسوں سے زیادہ عزیز ھے دوسری بات میں سائن کر آئ ہوں آفس میں اور 2 منٹ پہلے پہنچنے سے میری لیٹ نہیں لگی تیسری بات لیٹ آج اسلئے ہوئ آج امی نے پھر ناشتا کر وا دیا اب آپکو تو پتا ھے نا میں کتنی ھی جلدی کیوں نا کرلوں کھانا کھا نے میں بہت وقت لگا دیتی ہوں اسی لئے تیار بھی نہیں ہوئ
جبھی میں کہوں میک اپ کی دیوانی آج تیار نہیں ہوئ
تیار ہونے میں کونسا وقت لگتا ھے پرے شروع ہونے میں وقت ہے میں تب تک تیار ہو جاتی ہوں اور آپ اپنا کام بھی شروع کریں۔
صنم جو پیار سے اپنی سے کئ سال چھوٹی دوست کو دیکھ رہی تھی جو دنیا سے بے نیاز انکھیں بڑی کر کے نظروں کو ہر زاویے سے چلا رہی تھی ساتھ میں ہاتھ بھی اسکی بات پر اچانک چونک گئ
کیسا کام
بھئ میں تو آپکو وہی کام بول رہی ہوں جو آپ روز کرتی ہیں مجھے پیار سے دیکھنے کا
ثمرہ کی بات پر صنم کو ہسی آئ اور پیار بھی کیونکا وہ ایسی ھی تھی دنیا سے بے نیاز اپنی ھی دنیا میں مگن رہنے والی جسے سب سے پیار تھا معصوم دل کی مالک ضرورت سے بھی کہیں زیادہ بولنے والی گندمی صاف شفاف چہرا بدامی آنکھیں جنہیں وہ بات کرتے ہوے بڑی کر لیا کرتی تھی جیسے اپنی بات کا یقین دلا رھی ھو چھوٹی سی گول ناک جس میں سونے کی بالی پہنے ہوئ تھی بھرے بھرے گال جس میں ڈمپل پڑھتا تھا اور کال پر پڑھنے والے 2 تل جو کہ لوگوں کی نظروں میں خوبصورتی کی علامت ہیں بھرے بھرے درمیانی ہونٹ جس پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی درمیانے قد اور متوازن جسم کی مالک تھی وہ بہت حسین نہیں تھی پربہت کیوٹ تھی اپنی باتوں اور عادتوں سے وہ ہر کسی کا دل آرام سے جیت لیتی تھی ابھی بھی وہ بات کرنے کے انداز سے مس صنم کو اپنی طرف مسکرا کر دیکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔۔
ارے دیکھیں آپ مجھے فورن تیار ھوتی ھوں تیاری کے نام پر اسنے چہرے پر bb کریم لگائ آنکھوں پر لائنر لگایا جو کے اسے ہد سے زیادہ پسند تھا ہونٹوں پر پنک کلر کی لپ اسٹک لگا کے اپنے درمیانے بالوں کو پونی میں قید کر کے بلکل تیار تھی۔۔
دیکھا کتنی جلدی تیار ہوتی ہوں میں صنم جو اسکی تیاری دیکھ رہی تھی اسکی بات پر ہاں میی سر ہلا دیا پھر گھڑی میں ٹائم دیکھ کر کہنے لگی چلو پرے شروع ہونے والی ہے
آپ ہی جائیں مجھے نہیں جانا پرنسپل نے میری گیٹ کی ڈیوٹی لگا دی ھے اور ویسے بھی لوگ خاص کر ک وہ باپ جو اپنے بچوں کو اسکول چھورنے آتے ہیں وہ ٹیچرز کو ایسے گھور رھے ہوتے ہیں جیسے واہاں بچوں کی پرے نہیں کوئ شو ہورھا ھو اور سب سے بڑھ کر وہ چھیچورا لڑکا جو آفس جانے سے پہلے اسکول کے سامنے کھڑا ہونا فرض سمجھتا ہے مجھے وہاں نہی جانا ۔۔صنم جو اسکی بات خاموشی سے سن رہی تھی مسکرا کہ کہنے لگی تو اتنی پیاری لگتی کیوں ھو جو تمہے ہر کوئ دیکھے ۔
صنم کی بات پر تو جیسے وہ اچھل پری ۔۔ارے مس سب مجھے نہیں دیکھتے سبھی ٹیچرز کو دیکھتے ہیں اور رہی بات پیارا لگنے کی تو جس دن تیار نا ھو میڈم کتنا ڈانتی ھیں کے اسکول کی ٹیچر ھو خود کو مینٹین رکھو تا کے بچے آپ لوگوں سے اٹریکٹ ھوں اب اس میں میری کیا گلتی ھے بتاو زرا۔۔اچھا اچھا بس پھر تم رکو میں جاتی ہوں ورنا مجھے انچارج سے ڈانٹ پڑ جائیگی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ولا میں صبح سویرے جہاں کچھ لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے وہیں کچھ لوگ نیند کی وادیوں کا مزا لے رہے تھے اسی دوران گھڑی کا الارم بجنا شروع ہوا وہ جو بے خبر سویا ہوا تھا الارم کی آواز پر آنکھیں کھولی اور ٹائم دیکھا جو 8 بجا رہی تھی گہرا سانس لیتا ھوا وہ اٹھ بیٹھا اور ڈریسنگ روم کی طرف گیا آفس کے لیے کپڑے نیکالنے لگا تو چلتا ھاتھ ایک دم رکا اور غصے سے اپنے کمرے سے نکل کر باہر آیا
فضیلا آپا کہاں ہیں آپ ۔۔ملازمہ جو کے گھر والوں کے لئے ناشتے کا اہتمام کر رہی تھی آواز پر جلدی سے کچن سے باہر آئ
کیا ہوا بابا اتنے غصے میں کیوں ہو اسنے جب گھر کے سب سے لاڈلے بیٹے کو دیکھا جو ہمیشا مسکراتا رہتا تھا جسکا ہسی مزاق کبھی ختم نہیں ہوتا تھا وہ آج غصے میں کیسے ہے ۔
آپا میری سفید شرٹ نہیں مل رہی میری آج بہت بڑی میٹنگ ھے اور آپ جانتی ہیں میرے لئے سفید رنگ کی کیا اہمیت ہے وہ جو غصے سے بات کر رہا تھا فضیلا آپا کو دیکھا جو نظریں نیچے کئے ھوے تھیں ایک دم خاموش ہوگیا اب اسے ندامت ہو رھی تھی کے وہ ایسے ایک شرٹ کے لئے آپا پر اتنا غصہ کر گیا
معافی چاھتا ہوں آپا مجھے آپسے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی پر آپ جانتی ہیں نا مجھے اپنا سارا سامان آرگنائزڈ پسند ھے میری کوئ بھی چیز مجھے نا ملے تو مجھے غصہ آتا ہے
ارے نہیں بابا مجھے بھلا آپکی کوئ بات کا برا لگ سکتا ھے کیا بھلا
لیکن آپ مجھ سے بڑی ھیں مینے آپ سے غلط لہجے میں بات کی مجھے معاف کر دیں اور پلیز میری سفید شرٹ مجھے لا دیں مجھے جانا ہے آفس
جی ٹھیک ہے بابا ۔
تیار ہو کر ناشتے کی ٹیبل پر اسکی ملاقات شمس صاحب سے ہوئ ۔۔اور بھئ کیسا چل رہا ہے تمہارا کام شمس صاحب اپنے بھائ کی اکلوتی نشانی کو پیار سے دیکھتے ہوے پوچھنے لگے شاہ ولا میں 5 افراد رہتے تھے گھر کے سربراہ شمس صاحب انکی بیوی حنا بڑی بیٹی ثنا جسکی جلد ہی شادی اپنے خالا زاد سے ہونے والی تھی اس سے چھوٹا حارث جو کاروبار میں اپنے والد کا ہاتھ بٹا رہا تھا اور سب سے چھوٹا اور سب سے ناز اٹھوانے والا صارم شاہ جو کے شمس صاحب کے اکلوتے بھائ کی آخری نشانی ہے شمس صاحب اور حنا نے صارم کو اپنی سگی اولاد کی طرح پالا تھا اگر یوں کہے صارم انہیں انکی سگی اولاد سے بڑھ کر ھے تو غلط نا ھوگا
شمس صاحب کے سوال پر جہاں صارم جواب دینے ھی لگا تھا حنا فورأ بولی ۔۔کھانے کی ٹیبل پر آپ لوگوں کو کتنی بار منع کیا ھے کام کی بات نا کیا کریں لیکن مجال ہے کوئ بات سن لے اپنی ماں کی بات سن کر سبھی بچے مسکرانے لگے اور شمس صاحب خاموش زیر لب مسکرا رہے تھے کیونکا انھیں اپنی بیگم سے ڈانٹ نہیں کھانی تھی صارم جو مسکرا کر ناشتا ختم کر چکا تھا لاڈ سے اپنی ماں سے بھی بڑھ کے بڑی مما سے بولا بڑی مما بڑے پاپا اپسے ڈانٹ کھانے کے لئے ھی تو ھمسے اس وقت کام کا پوچھتے ھیں اب کیا کریں آپکی ڈانٹ کھائے بغیر انکا کھانا ہظم نہیں ھوگا نا۔۔ صارم نے معصومیت سے کہا تو سبھی مسکرا دیے ۔۔۔۔۔
ٹھیک 9 بجے وہ اپنے آفس پہنچا تو پورا اسٹاف اسے سلام کر رھا تھا سنجیدگی سے سب کے سلام کا جواب دیتے ھوئے وہ اپنے کیبن میں آگیا دروازہ ناک ہوا تو یس کا جواب دے کر وہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجا ہوا سامنے اسکا پی اے سعدکھڑا تھا نظریں لیپ ٹاپ پر جمائے وہ پی اے سے مخاطب تھا
سعد مجھے 10 منٹ میں آج ہونے والی میٹنگ کے تمام ڈاکومنٹس چاہئے اور ہاں میک شور کے آج کا پراجیکٹ ہمیں ہی ملنا چاہئے انڈرسٹینڈ نہایت ہی پروفیشنل انداز میں کہا گیا سعد فوری تمام پیپرز لینے چلا گیا کوئ نہیں کہ سکتہ تھا کہ جو شخص گھر مین اتنا مسخرا ھے وہ اپنے آفس میں کسی سے ہنس کے بات بھی نہیں کرتا
وائٹ شرٹ کے ساتھ بلیک ٹو پیس پہنے ھوئے سفید رنگت پر ہلکی شیو اور نیلی آنکھیں اسے جازب نظر بناتی تھی وہ ایک خوبصورت اور کامیاب انسان تھا جسے ہر لڑکی پسند کی نظر سے دیکھتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرے ختم ہونے کے بعد جب مس صنم کلاس میں واپس آئ تو ثمراہ کا غصے سے لال چہرا دیکھ وہ پریشان ہوئ کیونکہ ثمراہ انہیں بلکل اپنی چھوٹی بہن کی طرح ہی عزیز تھی اور بہت بچپنا تھا اس میں جسکی وجہ سے وہ اسکا اور بھی خیال رکھتی تھی ۔۔۔ایک نظر انچارج کو دیکھا جو اپنے کام میں مصروف تھی اور باقی تمام ٹیچرز بھی اپنی کلاس میں جا چکی تھی تو انہوں نے اپنی چھوٹی سی سہیلی سے اس کے غصے کی وجہ پوچھی
کیا ہوا تمہیں اتنا غصہ کس پر کر رھی ہو
مس کیا ایک قتل جائز نہیں ہوسکتا ۔۔۔کیوں بھئ تمہیں کسکا قتل کرنا ہے
ہے ایک بد تمیز انسان۔۔۔
صارم اپنے آفس میں کام میں مگن تھا جب اسکا موبائل بجا فون پر نظر ڈالی تو اسکی جان عزیز بہن کا نام دیکھ کے بغیر کسی تاخیر کے فون اٹھا لیا گیا
اسلام و علیکم آپی کیسی ہیں آپ اور کیسے یاد کیا
میں تمسے بہت ناراض ہوں صارم میری شادی کو چند دن ہی باقی ہیں اور تم ہو کے میرے ساتھ وقت گزارنے کے بجائے اپنے کام میں مصروف ہو
اپنی بہن کی بات سن صارم کے چہرے پر مسکان آئ
ارے آپی بھلا آپکو میں ناراض کرنے کا رسک لے سکتا ہوں کیا بھلا میں تو بس آج کی میٹنگ اٹینڈ کرنے آیا تھا اور آپنے پوچھا نہیں میری میٹنگ کیسی ہوی
ارے ہاں میں بھول گئ بتاؤ کیسی ہوئ ۔۔آپی کیا بتاؤ میٹنگ بھت اچھی تھی جس پراجیکٹ کیلئے ہم 3 مہینے سے محنت کر رہے تھے وہ ہمیں آخر کار مل گیا ۔۔
واہ صارم میا اتنی اچھی خبر تم فون پر سنا رہے ہو مجھے تو ٹریٹ چاہئے ثنا اپنے بھائ سے لاڈ سے بولی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ کچھ بھی ہوجائے وہ اسے کسی کام کا منع نہیں کرے گا
جیسا آپ کہیں آپی کہا چاہئے آپ کو ٹریٹ بتائے بندہ حاضر ہے
ٹھیک ہے تو پھر میں شاپنگ پر جارہی ہوں تم مال آجاؤ میں تمہارے ساتھ شاپنگ کرو گی اور پھر باہر ہی لنچ کرینگے
صارم نے اپنی بہن کی بات فوری مان لی کیونکہ بہت جلد وہ اسے چھوڑ کر جانے والی تھی ۔۔
ثناء کا نکاح 2 سال پہلے ہی اپنے خالہ زاد واسف سے ہوگیا تھا رخصتی 2 سال بعد رکھی گئ تھی ۔۔۔
اپنی بہن کو ہامی بھر کے وہ باہر آیا اپنے پی اے کو کچھ انسٹرکشنز دیئے اور مال کے لئے روانہ ہو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔