"انکل میں نہیں چاہتی کہ اس گھر کے مکینوں کو میرے کسی بھی عمل سے تکلیف پہنچے۔میری آپ سے درخواست ہے کہ اس گھر کے سبھی افراد کو شاہ زر سے لا تعلق رہنے کے لیے اسے نظر انداز کرنے کے لیے فورس نہ کریں۔یہ میری نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آپ کے اس حکم کی تعمیل کے دوران سبھی کو دکھ پہنچتا ہے انھیں تکلیف ہوتی ہے۔شاہ زر کے ساتھ ایسا برتاؤ روا رکھنے کی وجہ سے سبھ اداس رہنے لگے ہیں باالخصوص عالیہ آنٹی۔اسی لیے آپ سبھی کو جبراً شاہ زر سے بدسلوکی پر مجبور نہ کریں۔انہیں اس کے ساتھ اسی طرح پیش آنے دیں جیسے ان کا دل کہتا ہے۔"
وہ لان میں راشد صاحب کے مقابل کھڑی نگاہیں زمین پر ثبت کیے اپنی درخواست پیش کر رہی تھی۔راشد صاحب کی نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں ۔
"میری بس یہی گزارش تھی ۔باقی آخری فیصلہ آپ ہی کا ہوگا ۔اب میں چلتی ہوں۔"
راشد صاحب کو پرسوچ انداز میں خاموش بیٹھے دیکھ اس نے سلسلہ کلام جوڑا۔
"جیسا تم چاہوگی وہی ہوگا۔"
ہنکارا بھر کر راشد صاحب گویا ہوئے۔
لان سے گزرتے شاہ زر کے قدم راشد صاحب اور زرمین کو محو گفتگو دیکھ رکے تھے۔وہ ناریل کے درخت کی اوٹ میں ہوگیا تھا۔ان کے مابین ہوئی گفتگو سنکر وہ حیران ہوا تھا۔وہ ڈیڈ کو انکل کہہ کر مخاطب کر رہی تھی اس واضح تھا کہ نکاح کی پہلی رات انہیں ڈیڈ کہہ کر پکارنا محض اس کو چڑھانے کے لیے تھا۔اس کی درخواست پر حیران ہونا لازمی تھا ۔وہ ایسا کیوں کہہ رہی تھی یہ سمجھنے سے وہ قاصر تھا۔کیا واقعی اسے اس کے گھر والوں کی تکلیف کا احساس تھا یا یہ گذارش بھی کسی پلاننگ کا حصہ تھی۔وہ دبے قدموں سے لان عبور کرتا گیٹ کے باہر نکل گیا۔
آج گزشتہ کئی روز کے بلکل برعکس آفریدی ولا کی رسوئی میں کافی چہل پہل نظر آتی تھی۔عا لیہ بیگم نے اپنے ساتھ ساتھ سبھی تا ئیوں کو بھی شاہ زر کے پسندیدہ پکوان کی تیاری میں لگایا ہوا تھا۔جس لمحے سے راشد صاحب نے اس گھر کے سبھی افراد کو شاہ زر سے بلکل پہلے کا سا سلوک رکھنے کی اجازت دی تھی عالیہ بیگم کے پاؤ زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔دوپہر کے کھانے پر لزیز پکوان سے ڈائنیگ ٹیبل کو سجا دیا گیا۔سبھی مرد حضرات کو با الخصوص شاہ زر کو دوپہر کے کھانے پر حاضر رہنے کی ہدایت دی گئی۔سبھی بہت خوش کھانے پر موجود تھے۔شاہ زد نے اتنی ساری تیاریاں اور سب کا اس کے ساتھ پہلے جیسا برتاؤ دیکھ حیران ہونے کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ۔گویا وہ بے خبر تھا کہ یہ خوشگوار تبدیلی ہونے والی ہے۔
اس خوشی کے موقع پر آفریدی ولا کے مکین اس شخصیت کو فراموش کر بیٹھے جسکی بدولت وہ سب ایک ساتھ بیٹھے پرمسرت دل کے ساتھ سیر ہوکر کھانا کھا رہے تھے۔زرمین ڈائنیگ ٹیبل پر موجود نہیں تھی ۔اس کی غیر حاضری شاہ زر نے محسوس کی تھی مگر اسے حیرانی نہیں ہوئی تھی اسے یقیین تھا وہ اس فیمیلی گیٹ تو گیدر میں شرکت نہیں کرےگی۔کیونکہ وہ اس فیمیلی کا حصہ نہیں تھی۔ اور جو کچھ ہو رہا تھا سب اسی کی بدولت ہورہا تھا۔اس نے اپنا دھیان سب کی طرف لگا دیا وہ اس خوشی کے موقع پر اسے سوچ کر اپنا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی راشد صاحب نے زرمین کو بلاوا بھیجا تھا۔زرمین کا نام سنکر سب اپنی اپنی جگہ چور سے بن گئے۔وہ نہیں آئی تھی۔اس نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا لیا تھا۔وہ جانتا تھا وہ نہیں آئے گی مگر پھر بھی پتہ نہیں کیوں وہ اتنا خوش نہیں تھا جتنا ہونا چاہیے تھا ۔وہ خود اپنی کیفیت پر حیران تھا۔
وہ اپنے کمرے کی بالکنی میں بیٹھی خود کے ارادوں کو مضبوط بنانے کی سعی کر رہی تھی۔اسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ اس گھر میں زیادہ دنوں تک نہیں ٹک پاۓ گی۔کتنے خوش تھے وہ سب اس کی غیر حاضری میں ۔اس کی موجودگی ان کی تکلیف کا باعث تھی۔جس دن سےوہ اس گھر میں آئی تھی شاہ زر کا تو اسے اندازہ نہیں تھا مگر اس گھر کے مکینوں کی زندگیوں میں زبردست تلاطم پیدا ہواتھا۔ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے یہ احساس ہو رہا تھا کہ وہ شاہ زر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔شاید وہ ٹھیک ہی کہتا تھا کہ وہ ایک کمزور لڑکی وہ کچھ نہیں کر پائے گی۔وہ جیت جائے گا وہ ہار جائے گی۔وہ خود کو بہت کمزور اور ٹوٹا ہوا محسوس کررہی تھی۔
وہ آسمان میں اڑتے پرندوں کو دیکھتے سوچے گئ۔
" یا رب العزت میری مدد کر،مجھے سیدھا راستہ دیکھا۔ بے شک تو ہی ہدایت دینے والا ہے۔ میری زندگی آسان کردے میرے مولا۔"
وہ نیلے آسمان کی طرف دیکھ کر سسک اٹھی۔
***
وہ ابھی ابھی ہاسپٹل سے لوٹی تھی دل کے ساتھ ساتھ جسم بھی بوجھل محسوس ہو رہا تھا۔دفعتاً دعا دوڑتی ہوئی اس کے پاس چلی آئی۔
"اف آنٹی آپ کہاں چلی گئی تھی میں کب سے سارے گھر میں آپ کو ڈھونڈ رہی تھی۔"
پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان اپنی بات کہتے ہوئے دعا نے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔
"she is not feeling well .
اس لیے تم آنٹی سے بعد میں بات کر لینا فی الحال انہیں ریسٹ کی ضرورت ہے۔“
اچانک مزنی فرینچ فرائز کی پلیٹ ہاتھ میں اٹھائےکچن سے باہر آئی تھی۔
" اٹس آل رائٹ مزنی میں بلکل ٹھیک ہوں اور دعا کی کمپنی میں میری طبیعت کافی سے زیادہ بہتر ہو جاتی ہے۔"
اس نے دعا کے گال کو پیار سے سہلاتے ہوئے کہا۔
دعا کو گھور کر مزنی ہال کی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
"آپ سے ایک بات کہوں actually i dont like her"
دعا نے اس کے کان میں سر گوشی کی تھی ۔
"کیوں؟"
اس نے مصنوعی حیرانگی سے منہ کھولا ۔
"کیا وہ آپ کو چاکلیٹ نہیں لیکر دیتیں،گھمانے نہیں لیکر جاتی یا اسٹوریز نہیں سناتیں ؟"
اسے ہنوز منہ پھلائے دیکھ وہ بولی۔
" چاکلیٹس تو بہت سارے دلاتی ہیں ۔oftenly اپنے ساتھ واک پر بھی لیکر جاتی ہیں۔ وہ دن میں تو گھر پر available ہوتی ہیں مگر رات کو ہاسٹل میں ہوتی ہیں اسلیے اسٹوری ان سے سننے کا چانس ہی نہیں ملتا ۔آج کل وہ ان کی summer vacation پر آئ ہوئی ہیں اسلیے رات کو بھی یہی رہتی ہیں۔بس مجھے اس بات سے چڑ ہے کہ وہ کہتی ہے نیوی بلیو کلر بورنگ ہے ان کا فیوریٹ کلر پنک ہے نا اسی لیے۔ مجھے پنک کلر بلکل پسند نہیں ہے میرا فیوریٹ کلر نیوی بلیو ہے نا مجھ سے اس کی برائ برداشت نہیں ہوتی۔"
اس اپنی چھوٹی سی ناک چڑھا کر کہا۔اس کا تفصیلی جواب سنکر اس نے اپنے بے ساختہ قہقہے کو روکا تھا۔
" ایسا مت کہو پنک بھی تو بہت اچھا کلر ہے۔بس اس ایک reason کی وجہ سے تم ان سے نفرت کرتی ہو ۔ویری بیڈ she is your one and only phuphu."
اس نے دعا کو سمجھانے کے انداز میں کہا۔
" آپ بھی پنک کی سائیڈ لے رہی ہیں۔اوہ اچھا اب میں سمجھی آپ کے گال پنک ہیں نا اسی لیے آپ کو بھی وہی پسند ہوگا۔لیکن ایک اور reason ہے میرے پاس انہیں hate کرنے کا ۔میں نے ان سے کتنی دفعہ کہا میری اسٹوری کی پرنسس بن جائیں۔مگر انہوں نے صاف No کہہ دیا۔وہ کہتی ہیں کہ تمھاری پرنسس کی eyes تو ڈارک براؤن ہیں حالانکہ میری eyes تو gray ہیں ۔میں اس رول میں سوٹ نہیں کرونگی۔ان کے نہ کہنے کی وجہ سے میں کتنے دنوں سے اپنی پرنسس ڈھونڈ رہی ہوں۔"
وہ رو دینے کو تھی۔
" اوکے بابا نیوی بلیو کلر ہی سب سے بیسٹ ہے اور رہی بات پرنسس بنانے کی تو تم اپنی مام کو بنا لو پرنسس۔وہ بھی تو کتنی بیوٹی فل لگتی ہیں مزنی آنٹی کی طرح۔"
اس نے اس کا مسٔلہ چٹکی میں حل کرنا چاہا تھا۔
"اوفو آنٹی میں آپ کو کیسے سمجھاؤں ممی کی eyes black ہیں میری طرح۔ میری پرنسس کیeyes تو ڈارک براؤن ہیں جیسے کبھی مٹی کا کلر ہوتا نہیں جیسے Cinnamon کا کلر ہوتا نہیں وہ بھی نہیں، جیسے ....
وہ اپنی بات پوری بھی نہیں کر پائی تھی کہ اس کی گہری کالی آنکھیں اس کی آنکھوں پر جم گئی۔
"آنٹی آپ کی eyes کتنی بیوٹی فل ہیں جیسے دو کافی ڈراپس ہوں اور آپ کے بال او مائ گاڈ آنٹی آپ مجھے پہلے کیوں نہیں ملی۔"
وہ خوشی سے چیختی ہوئی اسے گلے لگ کر جھوم رہی تھی۔وہ ناسمجھی سے اس کے ساتھ دائیں بائیں جھولنے پر مجبور تھی۔
"آنٹی آپ انڈین نہیں ہو ہے نا ۔آپ بلکل بھی انڈین نہیں لگتی۔"
وہ اس الگ ہوتی اچھل کر بولی۔
" یہ ت ت تم کیا کہہ رہی ہو اس سے پہلے تو کسی نے مجھ سے یہ نہیں کہا۔کیا میں اتنی عجیب لگتی ہوں تمہیں ۔"
وہ ہڑبڑا کر بولی تھی۔جیسے کسی چور کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا ہو۔ بچپن میں وہ اپنے پورے محلے میں خوب مشہور ہوا کرتی تھی ۔سبھی بچے اسے فرنگی کہہ کر چڑھاتے تھے۔ غیر معمولی رنگ کی آنکھیں اور اسی رنگ کے بال اس دوسرے بچوں سے ممتاز کرتے تھے۔اس کی نانی انگلینڈ سے تعلق رکھتی تھی۔اور اس کی آنکھوں اور بالوں کا عجیب رنگ ان سے نواسی کے تعلق کی دین تھا۔جب کبھی اس سے کوئی کہتا کہ تم انڈین نہیں لگتی یہ بات اسے کسی تازیانے کی طرح لگتی تھی۔اب تک تو بالوں کا رنگ کچھ حد تک گہرا ہوگیا تھا پھر بھی اس چھوٹی سی بچی نے اسے پکڑ لیا تھا۔
"نہیں آنٹی آپ بہت بہت بہت بیوٹی فل ہو۔آپ جانتی ہیں مزنی آنٹی اور شاہزر چاچو مجھے اس پورے گھر میں سب سے بیوٹی فل لگتے ہیں۔ پتہ ہے کیوں ، کیونکہ وہ لوگ بھی انڈین نہیں لگتے آج سے آپ ہی میری پرنسس ہو۔ yahoooo
وہ نعرہ لگاتی صوفے پر اچھل رہی تھی ۔اسے اسقدر خوش پاکر اس کا بوجھل دل ایکدم سے ہلکا ہوگیا۔کوئ تو تھا اس گھر میں جسے اس کی وجود سے نفرت نہیں تھی۔وہ اس کے لیے خوشی کا باعث تھی۔اس کے متعلق اچھی رائے رکھتی تھی۔وہ بھی کھلکھلا کر ہنس دی۔
***
وہ آج پھر رات کے گیادہ بجے لوٹا تھا۔البتہ آج وہ تھکن اور نقاہت اس کے چہرے سے مفقود تھی جو گذشتہ کئ دنوں سے اس کے چہرے کا ایک احاطہ کیے ہوئے تھی۔غالباً یہ گھر والوں کے پیاد و توجہ واپس مل نے کی وجہ سے تھا۔دل پر کوئی ںوجھ نہ ہںو تو کوئ بھی کام بھاری نہیں پڑتا۔مشقت سے بھرا کام بھی آسان لگنے لگتا۔شاہ زر کو دیکھ اس کے دل میں یہی خیال آیا تھا۔
عشاء کی نماز پڑھکر وہ حسب معمول نئی امید اور حوصلے کے ساتھ دائی ماں کی زندگی کے لیے دعا مانگنے لگی ۔
جس دن وہ دائی ماں کا چہرہ دیکھ کر واپس آتی شاہ زر کے تیئں اپنے دل میں نفرت کے جذبات کو بڑھتا ہوا پاتی۔اس سے انتقام لینے کا ارادہ اور مضبوط ہو جاتا تھا ۔دائی ماں کو کھودینے کا غم ،ذلت ،رسوائ دربدری کیا کچھ نہیں سہا تھا اس نے شاہ زر کی بدولت۔بس چند دنوں میں وہ خود کو بھی کھو چکی تھی۔بہادر،پراعتماد بلند حوصلہ زرمین فاروقی مر چکی تھی۔اور اس کا قاتل تھا شاہ زر۔وہ اس کی شخصیت کے قاتل کو چین کی نیند سونے نہیں دےگی۔
وہ اپنی سوچوں کے جال میں پھنسی تھی۔تبھی وہ غسل خانے سے باہر آیا تھا۔جاء نماز طیے کرتے وہ پلٹی تھی۔وہ متحیر رہ گئ۔وہ سیٹی بجاتا ہوا بنا شرٹ پہنے ہی باہر آگیا۔اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔گردن سے ٹاول لٹک رہی تھی۔غالباً وہ شرٹ پہننا بھول گیا تھا۔وہ اپنی دھن میں سیٹی بجاتا آئینہ کے مقابل کھڑا ہوا تب اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔اس نے بے ساختہ مڑ کر زرمین کی سمت دیکھا۔خود کو لا تعلق ظاہر کرنے کے لیے اس نے میگزین اٹھالی تھی۔وہ میگزین کے اوراق پلٹنے میں مصروف نظر آنا چاہتی تھی مگر اس چہرے کے ساتھ کان لویں تک سرخ ہوگئی تھیں۔اس کے تاثرات کا بغور جائزہ لیکر وہ پھر اپنے عکس کو آئینے میں دیکھتے ہوئے بال سکھانے لگ گیا ۔غالباً شرٹ پہننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی اسے۔زرمین کے چہرے کا رنگ تیزی سے بدلا تھا۔وہ اس بار غصہ سے لال ہورہی تھی۔اس کا خیال تھا کہ شاید اسے دیکھ کر اسے اپنی غلطی کا احساس ہو اور شرٹ پہن لے مگر اس کی توقع کے بلکل برعکس وہ نہایت ہی بے شرم اور بدتمیز ثابت ہوا تھا۔زدمین نے آئینے میں جھلکتے اس عکس کو دیکھا تو مزید کھول اٹھی۔وہ بذریعہ آئینے کے اس کے تاثرات کا جائزہ لے رہا تھا ۔اس کی اس کیفیت پر مزے لے رہا تھا۔دل جلانے والی اس کی مسکراہٹ دیکھ اس کا صبر جواب دے گیا میگزین کو بستر پر پھینک کر وہ باہر نکل گئی۔
"بہت مزہ آرہا تھا نا مجھے نظریں چراتا دیکھ کر میری اس حالت پر۔ اب دیکھ لینا میں تمھارے ساتھ کیا کرتی ہوں۔تب میں دیکھونگی کہ کون embarrass ہوتا ہے۔"
ہال میں جلے پاؤ کی بلی کی طرح چکر کاٹتے ہوئے اس نے سوچا تھا۔
فجرکی نماز ادا کرکے وہ بستر پر لیٹی شاہ زر کو زچ کرنے کے نت نئے طریقے سوچتی ہوئی نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔سات بجے کا الارم بجتے ہی وہ اٹھ بیٹھی اور بجلی کی تیزی سے باتھ روم گھس گئ۔قریباً آدھا گھنٹہ انتظار کر لینے کے بعد شاہ زر کا صبر جواب دے گیا۔
"کیا کر رہی ہو تم اندر اتنی دیر سے۔ وہ سونے کی جگہ نہیں ہے۔باہر آؤ ابھی۔میں جانتا ہوں یہ بھی تمھاری کسی سازش کا حصہ ہے زیادہ اسمارٹ بننے کی کوشش مت کرو۔باہر نکلو مجھے أفس کے لیے دیر ہو رہی ہے۔"
اس نے دروازہ پیٹ ڈالا۔
وہ مزے سے پانی سے لبالب بھرے باتھ ٹب کے کنارے پر بیٹھی اس کی طیش میں ڈوبی آواز کو سن کر خوش ہورہی تھی ۔اس سے قبل کہ وہ دروازہ توڑنے کی کوشش کرتا وہ باہر أئی تھی۔ایک قہر آلود نگاہ اس پر ڈالتا وہ باتھ روم میں گھسا دھاڑ کی آواز کے ساتھ دروازہ بند ہوا تھا۔وہ بڑے آرام سے کمر تک آتے اس کے ریشمی گیلے بالوں کو ڈرائر سے سکھانے لگی۔اس کی ساری توجہ واش روم سے آتی آواز کی طرف تھی۔بڑے ہی صبر سے وہ اس کی متوقع چیخ یا دہاڑ اپنی سماعت میں اترنے کی منتظر تھی۔پانچ منٹ گزر گئے کوئی چیخ یا دہاڑ سنائی نہیں دی۔وہ بے حد مضطرب سی کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔
" کہیں میرا بنا بنایا پلان فیل تو نہیں ہوگیا۔یہ ناممکن ہے ایسا نہیں ہوسکتا۔میں نے گیزر آن کیا تھا وال بھی ٹھیک سے چیک کئے تھے پھر بھی وہ بچ نکلا کیسے؟"
اس کا دماغ تیزی سے چل رہا تھا۔دفعتاً دروازہ کھلا اور وہ باہر نکلا ۔آج وہ قمیض پہننا نہیں بھولا تھا۔اس کے باوجود ہاف سلیوز سے جھانکتے سرخ ہورہے بازو ، بے تحاشہ سرخ ہورہی گردن ،انگارے اگلتی آنکھوں نے سب عیاں کر دیا تھا۔وہ کھولتے پانی کا شکار ہںوا تھا۔اس کی یہ زبو حالی دیکھ سکون ومسرت کی ایک لہر اس کی جسم میں دوڑ گئی۔
"ماننا پڑے گا تمھاری جرات کو۔ کمال کے مرد ہو تم کھولتا پانی جسم پر گرا اور تم نےایک چیخ تک نہیں نکلنے دی ۔واو
ٔ iam impressed "
وہ سنگھار میز کے سامنے رکھی کرسی کو تھامے ہنسی اور پھر ہنستی ہی چلی گئی ۔بے ساختہ ہنسی ۔اسے اسطرح کھلکھلا کر ہنستا دیکھ وہ جو سخت سے سخت سنانے کی نیت کیے باہر آیا تھا ٹھٹھک گیا اس کی ساری صلواتیں منہ میں رہ گئیں۔کسقدر مسحور کرنے والی خنک تھی اس ہنسی میں۔اسے لگا اس کے اطراف جلترنگ بج اٹھے۔ لگا جیسے اس کے ساتھ اس کمرے کی ہر ایک شئے ہنس دی ہو۔وہ خوبصورت تھی اور اس حقیقت سے وہ خود بھی واقف ہوگی مگر شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی ہنسی بے تحاشہ خوبصورت ہے۔وہ مہبوت رہ گیا۔ ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے۔آنسو کو انگلی کی پور سے پوچھتے ہوئے اس نے ساکت کھڑے شا زر کی سمت دیکھا۔اس کی ہنسی رکی سحر ٹوٹ گیا ۔وہ جیسے ہوش میں آیا تھا۔وہ قدرے ناسمجھی سے اس کی سمت دیکھ رہی تھی۔اس کی حرکت پر اسے بری بھلی سنانے کے بجائے وہ خاموش کھڑا تھا۔اسے بت بنا دیکھ وہ بری طرح سٹپٹا کر باہر نکل گئ۔
وہ اسے اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا۔
"یہ کیا ہوگیا تھا مجھے۔میں نے اسے جانے دیا اسنے اسقدر گھٹیا حرکت کی اور میں نے کچھ نہیں کہا ۔اوہ گاڈ گرم پانی کے اثر سے میرا دماغ خراب ہوتا معلوم ہو رہا ہے۔"
اس نے اپنے بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے خود کو دلاسہ دیا تھا۔سحر زدہ لمحوں کے دوران جلن کا احساس بھی نہیں ہورہا تھا سحر ٹوٹا تو جلن پھر شروع ہوگئی۔اس کا علاج حد سے زائد ٹھنڈا پانی کر سکتا تھا۔
****
حسب معمول اس کے سامنے میز پر آفس کی چند فائلیں بکھری تھی۔کام کا اس قدر ںوجھ ہںونے کے باوجود وہ غیر ارادی طور پر اسی کے بارے میں سوچے جارہا تھا۔
”اس نے میرے اور میری فیمیلی کے تعلقات بحال کرنے کے لیے ڈیڈ سے بات کیوں کی۔وہ بخوبی واقف ہے کہ میری فیمیلی میرا weak point ہںے۔انھیں تکلیف پہنچا کر وہ بلا واسطہ مجھے تکلیف پہنچا سکتی تھی۔یہ جاننے کے باوجود اس نے ایسا کیوں کیا۔کیا واقعی اسے میری فیمیلی کی فکر ہںونے لگی ہںے۔ کیا محض چند دنوں میں اس کے دل میں ان سب کے لیے لگاؤ پیدا ہںوگیا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی وجہ ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ مجھ سے تو اسے شدید نفرت ہے وہ خواب میں بھی مجھے رتی برابر خوشی سے نوازنے کا نہیں سوچ سکتی۔مجھے ذرا سی بھی رعایت ملے یہ اسے گوارا نہیں ہوگا۔یقیناً اس نے گھر والوں کی خوشی کے لیے یہ قدم اٹھایا ہوگا۔مگر میں اسے کیوں سوچے جا رہا ہوں۔ یہ مجھے کیا ہوتا جارہا۔"
اس نے جیسے خود کو ملامت کی۔تبھی مینیجر اشفاق اس کی کیبن میں داخل ہوئے۔
"یہ بہت ہیں سر۔ ان میں سے کچھ کی ذمہ داری میں اپنے سر لے لیتا ہوں"۔
اس کی ٹیبل سے کچھ فائلوں کو اٹھاتے ہوئے وہ بولے۔
"نو اشفاق انکل یہ آپ کیا کہہ رہے ہںے، میں آپ کے ماتحت کام کر رہا ہںوں یا آپ میرے ماتحت کام کر رہے ہیں۔آپ میرے کام کہ بوجھ کو کم کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں اور پلیز آپ مجھے 'سر' کہہ کر نا بلایا کریں۔مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا جب آپ مجھے اس طرح مخاطب کرتے ہیں۔خدانخواستہ ڈیڈ کو خبر ہںوگئی تو میری شامت آجائے گی۔کچھ بعید نہیں وہ مجھے پیون کی پوسٹ سونپ دیں۔ پھر مجھے 'سر' کہہ کر پکارنے کی ہمت کوئی نہیں کرےگا۔"
اس نے ان کے ہاتھوں سے فائلیں لے کر واپس ٹیبل پر رکھ دیں۔
اشفاق ملک گذشتہ کئ سالوں سے اس کمپنی میں مینیجر کے عہدے پر فائز تھے۔وہ راشد صاحب کے سب سے زیادہ بھروسے مند اور ایماندار employees میں سے تھے۔وہ ان کی بہت زیادہ عزت کرتا تھا۔
"راشد سر چاہے جو کہہ لیں وہ حقیقت کو نہیں بدل سکتے۔یہاں سبھی واقف ہیں کہ آپ کی حیثیت کیا ہںے۔"اسے پیون کی پوسٹ سونپے جانے والی بات سن کر قہقہہ لگا تے ہںوئے وہ گویا ہںوئے تھے۔
"اوہ گاڈ انکل آپ میری حیثیت کا تعین کرنا چھوڑیں اور آئندہ مجھے 'سر' کہہ کر مت بلائیےگا۔آپ مجھے بیٹا بھی تو کہہ سکتے ہںے نا۔"اس کی بات پر وہ شفقت سے مسکرا دیے۔
ملک صاحب نے اسے پہلی بار تب دیکھا تھا جب وہ محض پانچ سال کی عمر میں اپنے والد کی انگلی تھامے آفس آیا تھا۔وہ ان کے سامنے جوان ہںوا تھا۔ان کے خیال میں وہ نہایت ہی مخلص اور نیک دل لڑکا تھا۔اوروں کی طرح وہ شاہ ذر کے متعلق کوئی غلط رائے نہیں رکھتے تھے۔
آفریدی ولا کے آنگن میں شام کے سائے پھیلے ہںوئے تھے۔پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ آج آفس میں ہاف ڈے تھا لہذا وہ جلدی گھر لوٹا تھا۔ وہ جوں ہی ہال میں داخل ہںوا ،دعا کہیں سے وارد ہںوئی اور اس کا راستہ روک لیا۔
"Welcome home Prince chachu.
آج کل آپ مجھے بالکل ٹائم نہیں دیتے۔میں آپ سے خفا ہںوں۔"وہ اپنا رخ پھیر کر کھڑی ہںو گئی۔
"اچھا میری چھوٹی موٹی princess اب جلدی سے بتائیے
کہ چاچو آپ کی خفگی دور کرنے کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟"اس کے عین مقابل گھٹنوں پر بیٹھ کر اس کے دونوں
ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہںوئے وہ بولا۔
"افوہ!چاچو آپ ہمیشہ میرا موڈ خراب کر دیتے ہیں۔میں آپ کی پرنسس نہیں ہںوں۔میں آپ کو پرنس بلاتی ہںوں مگر میں آپ کی پرنسس نہیں ہںوں۔اگر آپ مجھے پرنسس بلائینگے تو آپ کی real والی پرنسس کو برا لگ جائے گا۔وہ سامنے بیٹھی ہیں۔آپ ٹائمینگ تو دیکھ لیا کریں کچھ بولنے سے پہلے۔"
صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہںوئے وہ گردن اکڑا کر بولی۔
صوفے کی سمت دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔وہ صوفے پر براجمان دعا کی story book پر جھکی ہںوئی تھی۔اس کے چہرے پر پھیلے ناگوار تاثرات سے واضح تھا کہ وہ دعا کی بات بخوبی سن چکی تھی۔
"What?"
وہ بے ساختہ چیخا۔
زرمین کی موجودگی میں اس کے سامنے دعا اسے اسکا پرنس چارلس بنانے پر تلی تھی۔حیرانی سے زیادہ شرمندگی نے اسے گھیرا تھا۔
"آپ shocked کیوں ہںو رہے ہیں چاچو میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہںے کیا؟"
دعا نے کمر پر ہاتھ رکھ خالص لڑاکا عورتوں والے انداز میں استفسار کیا۔ یہ اس کی طرف سے جنگ کا اعلان تھا۔
وہاٹ نہیں میرا مطلب تھا wow.ز بان پھسل گئی تھی tongue slip یو نو نا کبھی کبھی ہںو جاتی ہیں۔"
اس نے فورا اپنی حیرت کو بشاشت میں تبدیل کر کہا تھا۔دعا کو غصہ دلا کر وہ جنگ کی شروعات نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"بٹ چاچو پرنسس تو بہت beautiful dresses پہنتی ہیں تو پھر زرمین آنٹی ویسے dresses کیوں نہیں پہنتی؟آپ ایسا کریں آنٹی کے لیے بالکل Cinderella جیسی dress لے کر آئیں۔آپ انھیں پہننے کے لیے کہینگے تو وہ منع نہیں کر پائینگی۔ممی بھی پاپا کو نا نہیں کہہ پاتی ہیں۔"
ایک نئے سوال کے ساتھ ایک نئی فرمائش بھی سامنے آئی تھی۔
دعا کی بات پر اس کی نگاہ بے ساختہ زرمین کی طرف اٹھی تھی۔اس کی ہلکے گلابی رنگ کی قمیض پر سفید دھاگے کی کڑھائی کا ورک تھا۔سفید رنگ کا چوڑیدار پاجامہ کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ تھا جس کے کنارے گلابی رنگ کی موتیاں لٹک رہی تھی۔اس کے چہرے کا رنگ بھی قمیض کا ہم رنگ معلوم ہںو رہا تھا۔سنہری دراز پلکیں جھکی تھیں۔ریشمیں گھنے بالوں کی چوٹی دعا کی سٹوری بک پر جھول رہی تھی۔کچھ آوارہ لٹیں اس کے چہرے کو بار بار چھو نے کی جسارت کر اسے پریشان کیے دے رہی تھی۔جنھیں کانوں کے پیچھے دھکیلنے میں وہ مصروف تھی۔سر سری سی نظر ڈال کر شاہ ذر نے باریکی سے اسکا جائزہ لیا تھا۔
وہ اسی قسم کے ہلکے رنگ کے سادہ ملبوسات میں نظر آتی تھی۔وہ خوبصورت تھی اور ہر لباس میں خوبصورت لگتی تھی۔مگر اس کا لباس دعا کی پرنسس کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا۔وہ اپنی گردن پوری طرح جھکاتے ہںوئے خود کو لا تعلق ظاہر کرنے کی کوشش کررہی تھی۔
دعا کے سوال کا شاہ ذر سے کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا تھا۔تبھی مزنی کی آواز نے اس کی الجھن سلجھا دی تھی۔
"دیکھو دعا زرمین آنٹی کو اسی طرح کے کپڑے پسند ہیں اسی لیے وہ ایسے dressed up ہںوتی ہیں۔تم اس قسم کے unneccessary سوال اور فرمائیش کرنا بند کردو۔جاؤ تمھاری مام تمہیں بلا رہی ہیں۔"
ہال سے بالائی منزل کو جاتی سیڑھیوں کے درمیان کھڑی وہ نہ جانے کب سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔وہ تینوں اس کی موجودگی سے بے خبر تھے۔
دعا کچن کی طرف بھاگی تھی۔ہال میں موجود دونوں شخصیتوں نے بیک وقت پر تشکر نگاہوں سے اسے دیکھا تھا۔عین موقع پر حاضری دے کر اس نے ان دونوں ہی کو awkward صورتحال سے نکا لا تھا۔
انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتی وہ دائیں سمت سے بالائی منزل کو جاتی سیڑھیاں چڑھ گئ۔ اورشاہ زر بائیں سمت سے اوپر کو جاتی سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے میں روپوش ہوگیا۔وہ صوفے پر بیٹھی رہ گئ ۔
مزنی اور شاہ زر کے موجودگی میں دعا نے اس کا نام شاہ زر کے ساتھ جوڑا تھا وہ سخت بدمزہ ہوئ تھی۔
****
"تھینکس٬ڈیڈ کو رضامند کرنے کے لئے"۔
وہ غسل خانے سے باہر آئی تبھی وہ بولا تھا۔
"کیا مطلب"۔
حیران ہوتی ہوئی وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔
" لان میں تمھارے اور ڈیڈ کے درمیان ہورہی گفتگو میں نے سن لی تھی ۔اسی لیے تھینکس میری اور میرے گھر والوں کی مشکل آسان کرنے کے لیے۔"
اس نے سلسلہ کلام جوڑا تھا۔اس سے بات کرتے ہوئے نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز کرنے کہ بجائے وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جیسے یہ کہتے ہوئے سبکی کا احساس ہورہا ہو۔
"میں نے انکل کو رضا مند کرلیا اور اس گھر کا ماحول پہلے جیسا ہوگیا اس سے تم یہ مطلب ہرگز نہ اخذ کرلینا کہ تمھیں رعایت دینے کا خیال میرے دل میں آیا ہے۔میں نے یہ سب اس گھر کے مکینوں کی خوشی کے لیے کیا ہے ۔میں انہیں تکلیف نہیں دینا چاہتی ۔میرے قصوروار تم ہو اس لیے سزا کے مستحق بھی تم ہو وہ لوگ نہیں ۔لہذا خوش فہمی سے دور رہو اور اپنا تھینکس اپنے پاس ہی رکھو۔"
اسے ٹکا سا جواب دے کر وہ بستر پر لیٹ کر چادر میں چھپ گئ۔وہ چادر میں لپیٹے اس کے وجود کو دیکھ رہ گیا ۔اس کچھ ایسے ہی جواب کی امید تھی۔
وہ صوفے پر لیٹ گیا رات دھیرے دھیرے صبح کی طرف بڑھ رہی تھی۔تبھی شاہ زر کے فون کی رنگ نے ماحول کے سکوت کو توڑا۔اس نے فون ریسیو کیا۔
"ہاں بھائی میں جانتا ہوں وہ فائل کل کی میٹینگ کے لیے بہت اہم ہے۔کل صبح تک میں اسےکمپلیٹ کر آپ کو سونپ دونگا آپ خومخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔"
اشعر نجانے فون پر کیا کچھ کہہ رہا تھا وہ سن نہیں سکتی تھی ۔ شاہ زر نے اس کی یقین دہانی کرکے فون کاٹ دیا۔اس وسیع وعریض گھر میں کسی ضروری بات کو ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے طویل راہداری عبور کر آمنے سامنے بیٹھ کر اپنا مدعا بیان کرنے کے بجائے عموماً بذریعہ فون کے معلومات کا تبادلہ ہوتا تھا۔
اس کے ذہن کی سوئی" اہم فائل " ان دو الفاظ پر اٹک کر رہ گئی تھی۔
” تومسٹر شاہ زر آفریدی اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ میرے ارادے کمزور پڑ رہیے ہیں۔ان کے تیئں میری نفرت میں کمی آگئی ہے۔ کیوں نہ ان کی خوش فہمی دور کردی جائے ۔میری نظر میں ان کی کیا حیثیت ہے اس کا احساس کرایا جائے۔“
وہ کسی پلاننگ کو ذہن میں ترتیب دیتے نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔
فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی وہ صوفے سے ندارد تھا۔اس نے اطراف میں نظر دوڑائی اس کا سر اسٹڈی ٹیبل پر تھا اطراف میں ایک فائل کھلی پڑی تھی۔انگلیوں میں پکڑے پین پر اس کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑی تھی۔ غالباً ابھی ابھی اس کی آنکھ لگی تھی۔اگرچہ وہ گہری نیند میں ہوتا تو پین اس کے ہاتھ سے گر چکا ہوتا ۔
وہ بغیر کوئی آواز کیے آہستگی کے ساتھ اپنے کام انجام دیتی رہی ۔وہ چاہ رہی تھی کہ وہ سوتا رہے۔اس کی نیند کچی تھی زرا سی آہٹ پر اس کے بیدار ہوجانے کا اندیشہ تھا۔
وہ ناشتہ کی ٹیبل پر موجود نہیں تھا۔
" شاید وہ رات بھر جاگ کر کام کرتا رہا ہے۔ بہتر ہے اسے سولینے دیا جائے۔"
راشد صاحب کے استفسار پر اشعر کا جواب سنکر وہ خاموش ہوگئے۔
ناشتے کے فوراً بعد وہ ٹرے ہاتھوں میں اٹھائے اپنے کمرے میں چلی آئی۔
وہ ہنوز سو رہا تھا پین انگلیوں کی گرفت سے آزاد ہو کر ٹییبل پر گری تھی۔
"گڈ مارننگ مسٹر شاہ زر آفریدی ۔آپ کا بریک فاسٹ حاضر ہے۔اپنے پہلے کے رنگ میں واپس لوٹتے ہوئے آج پھر آپ بریک فاسٹ کے وقت غیر حاضر تھے لہذا آپ کی والدہ محترمہ نے بڑے احترام کے ساتھ یہ بریک فاسٹ آپ کی لے بھجوایا ہے۔نیند کی وادیوں سے باہر آجائیں اور نوش فرمائیں۔"
انگلیوں سے میز بجا کر زرمین نے اعلان کرنے کے انداز میں کہا۔وہ ہڑبڑا کر بیدار ہواتھا۔اس سے قبل کہ وہ اس کا ذہن لاشعور سے شعور کی طرف آتا اس کی نظر ناشتے کی ٹرے پر پڑی تھی۔زرمین نے لاپرواہی سے ٹرے قدرے ٹیڑھی کر کے اٹھا رکھی تھی۔ںتیجتا چائے کا کپ بھی ٹرے کے کنارے پھسلا تھا چائے کپ سے چھلک کر سیدھے اس کی "اہم فائل"پر گر رہی تھی۔
carefull.
وہ بدحواس سا بجلی کی تیزی سے ٹرے پرے دھکیل کر چیخا تھا۔مگر دیر ہو چکی تھی فائل کھولی ہونے کی بدولت چائے سیدھے صفحات پر گری تھی۔کل ساری رات جاگ کر کی ہوئی محنت سیاہی بن کر فرش پر ٹپک رہی تھی۔وہ بے یقینی سے کھڑا ہوکر صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہاتھا۔کوئی بچت نہیں ہوئی تھی اسکی محنت ضائع ہوچکی تھی۔وہ سکتے کی کیفیت میں دوبارہ کرسی پر گر گیا۔بڑے ہی اطمینان سے اس کی ابتر حالت کو دیکھ اپنی آنکھوں کو تسکین پہنچالینے کے بعد وہ جانے کے لیے مڑی تھی۔
رکو"۔
اس کی آواز پر وہ رکی۔
وہ بغور ناشتے کی ٹرے کو دیکھ
رہا تھا۔
"اس گھر کا ہر ایک فرد واقف ہے کہ میں چائے نہیں پیتا ۔ممی سے یہ بھول کبھی نہیں ہوسکتی کہ وہ میرے لیے چائے بھجوائیں۔پہلے تو کبھی زرمین میرے لیے کمرے تک ناشتہ لیکر نہیں آئی پھر آج اچانک کیسے"۔
چائے کہ کپ کو دیکھ سارا ماجرا اسے سمجھ آگیا۔
"ممی جانتی ہیں، ممی کیا اس گھر میں سب جانتے ہیں کہ میں چائے نہیں پیتا سوائے تمھارے ۔اس سے قبل تو روایتی بیویوں کی طرح تم کبھی ناشتہ کی ٹرے لیکر کمرے تک نہیں آئی پھر آج اچانک اس چینج کی وجہ کیا ہے".
اس کے چہرے کو نظروں کی گرفت میں لیتے ہوئے اس نے تصور کو الفاظ کی شکل دی تھی ۔
"جب سارا ماجرا تمھاری سمجھ میں آچکا ہے تو پھر یہ بے تکا سوال کرکے تم خود بے وقوف ثابت کرنے پر کیوں تلے ہو۔"
وہ کمال اطمینان سے ٹرے میز پر رکھتے گویا ہوئ۔
"کیوں کیا تم نے یہ۔تمھاری دشمنی مجھ سے تھی تو مجھ تک محدود رکھتی بزنس کے معاملات میں مداخلت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔تم جانتی بھی ہو کتنی اہمیت رکھتی تھی یہ فائل آج ہونے والی میٹینگ کے لیے۔ڈیڈ نے مجھ پر بھروسہ کر یہ فائل مجھے سونپی تھی۔ اب کیا کرونگا میں۔ کیا جواب دونگا انہھیں؟"
اس کے لہجے میں یاسیت در آئی۔
"تمھارے ڈیڈ بخوبی واقف ہیں کہ تم کتنے قابل ہو لہذا تم ان کی طرف سے بے فکر ہو جاؤ۔ وہ اس تلخ حقیقت کوقبول کر چکے ہیں کہ تم صرف اور صرف ان کا نقصان کرنے کے لیے ان کے بیٹے بنکر اس دنیا میں آئے ہو۔یہ خبر سنکر انہیں زیادہ حیرانی نہیں ہوگی۔"
وہ طنزیہ انداز میں کہتی دروازے کی سمت بڑھی تھی۔وہ بجلی کی تیزی سے اس کے پیچھے آیا
تھا۔
"تمھیں تو میں"۔
کھلتے ہوا دروازہ دھاڑ کی آواز کے ساتھ واپس بند ہوا تھا۔شاہ زر نے اپنا آہنی ہاتھ دروازے پر جما کر دانت چبا کر کہا ۔
”کیا کروگے ؟مار ڈالوگے۔مارڈالوں میری طرف سے اجازت ہے ۔مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا اس زندگی میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔یقین جانو تمھارے ہاتھوں سے مرنے میں میرا ہی مفاد پوشیدہ ہے ۔ کیونکہ تمھیں ایک بار پھر جیل کی ہوا کھانے پڑےگی۔ قتل کرنے والوں کو ایک گھنٹے کے اندر بیل نہیں ملا کرتی ۔تمھیں جیل میں چکی پیستا دیکھ میری روح کو تسکین مل جائے گی۔"
وہ کمال اطمینان سے اپنا رخ اس کی سمت کرتے ہوئے بولی ۔وہ اس لڑکی کی جرات پر ششدر رہ جایا کرتا ۔بےخوف اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ اسے بے نقط سنایا کرتی تھی۔شاید وہ سچ ہی کہتی تھی کہ اس کے اندر کا سارا ڈر ختم ہوچکا تھا ۔یا پھر وہ جانتی تھی کہ وہ اسے نقصان نہیں پہنچتا سکتا ۔ اسقدر بےخوفی سے جان لینے کی بات کر دینا اسی یقین کی دین تھا کہ اس کے سامنے کھڑا شخص اتنا بہادر نہیں ہےکہ کسی کی جان لے لے۔اس لڑکی کا خیال تھا کہ جان لینے کے لیے بہادر ہونا اہم ہے جبکہ حقیقتاً اس کے لیے بہادری کی نہیں سنگ دلی کی ضرورت ہوتی ہے۔اور وہ پتھر دل کا مالک نہیں تھا۔وہ من ہی من سوچ کر رہ گیا۔
اس نے اپنا سارا غصہ دروازے پر نکالا مکے کے زور سے پورا دروازہ ہل گیا ۔ فائل ہاتھ میں لئےوہ تن فن کرتا باہر نکل گیا تھا ۔وہ اپنی تیز دھڑکن کو قابو کرنے کی کوشش کرنے لگی۔چند لمحوں بعد وہ خود کو کمپوذڈ کرکے کمرے سے باہر آئی۔سبھی جملہ افراد کی موجودگی میں ہال کے صوفے پر براجمان راشد صاحب اس کی عزت افزائی کر رہے تھے ۔
"جوں ہی مجھے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ تم میں تبدیلی آئی ہے۔ اب تم کسی لائق بن سکتے ہو اہم ذمہ داریاں اٹھا سکتے ہو عین اسی وقت تم مجھے غلط ثابت کردیتے ہو۔تم سے کچھ نہیں ہو پائے گا تم محض آوارہ گرردی کرنے کے لیے پیدا ہوئے ۔میں ہی احمق تھا جو تم سے توقعات وابستہ کر بیٹھا۔اشعر فوراً اسے ٹھیک کرو میں میٹنگ کچھ گھنٹوں کے لیے ڈیلے کیے دیتا ہوں۔ان صاحب کے بھروسے گر ہم بیٹھ جائیں تو آن آن کی میں آفریدی امپائر پانی میں ڈوب جائے گا۔"
اشعر کی طرف زرمین کا نشانہ بنی فائل بڑھاتے ہوئے راشد صاحب بولے تھے۔شارق اور شاہ میر کو اس سنجیدہ صورت حال میں بھی ہنسی آرہی تھی۔وہ دونوں ہال سے باہر نکل گئے۔ورنہ ان کی شامت آتی۔
وہ خاموشی کے ساتھ اپنے حصے کی ڈانٹ سر جھکائے سن رہا تھا ۔ایک بار پھرراشد صاحب اور اسکے درمیان گفتگو ہورہی تھی مگر گفتگو کی نوعیت مختلف نہیں تھی۔وہ ڈانٹ رہے تھے وہ سن رہا تھا۔تبھی اس کی نظر اوپر اٹھی تھی بالائی منزل پر عین اس کے اوپر ریلنگ کو تھامے وہ کھڑی فاتحانہ انداز میں مسکرا رہی تھی۔اس کی طبیعت مزید مکدر ہوگئی۔
***