قدرے سنسان سڑک کے کنارے اپنی بائیک روک کر اس نے وہ لاکٹ اپنی جیب سے برآمد کیا۔اس حادثہ کے دوران یہ لاکٹ اس کی جیکٹ کی جیب میں پھنس کر آدھا باہر تو آدھا اس کی جیب میں لٹک رہا تھا ۔زرمین کو واپس اس کے گھر چھوڑنے کے بعد وہ بے مقصد سڑکوں پر کار دوڑا رہا تھا تبھی اس کی نگاہ اس پینڈنٹ پر پڑی تھی۔اس روز سے آج کے دن تک وہ اسے اپنے پاس بڑی حفاظت کے ساتھ رکھتا آیا تھا۔ہارٹ شیپ پینڈنٹ کے اندرونی حصے میں ایک عورت اور مرد کی مسکراتی ہوئی تصویر جڑی تھی۔وہ دونوں اس کے ماں باپ تھے۔ جتنی دفعہ وہ ان تصاویر کو دیکھ چکا تھا ابتک تو وہ باآسانی بتا سکتا تھا کہ زرمین نے کونسے نقوش اپنی ماں سے چرائے ہیں اور کونسے اپنے والد سے۔اس نے بازو اوپر اٹھا کر ہوا میں لٹکتے اس پینڈنٹ پر نگاہیں مرکوز کیں۔
" اس روز تمھیں تمھارے جاننے والوں کے سامنے ذلیل و رسواء کرنے کے بعد مجھے ذرا برابر بھی خوشی نہیں ہوئی ۔ایک گلٹ نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا تھا۔غصے کی آگ بجھی تو دماغ سوچنے سمجھنے کے قابل ہواکہ طیش میں آکر میں نے ایک شریف النفس پاک دامن لڑکی کے دامن پر کیچڑ اچھال کر اسے داغدار کیا ہے۔میں تمھارے ساتھ زیادتی کر بیٹھا ۔میرا انتقام perfectly equal نہیں تھا۔اور شاید اسی لیے خدا کا حکم ہے کہ انتقام لینے سے بہتر معاف کر دینا ہے کیونکہ انسان اتنا قابل نہیں ہے کہ برابری کے ساتھ کام کر سکے۔اس دن میں نے خود سے عہد کیا کہ میں بذات خود تمھیں یہ پینڈنٹ لوٹاؤنگا۔تم سے معافی مانگونگا۔حالانکہ میں جانتا تھا کہ تم مجھے کبھی معاف نہیں کروگی مگر میں محض اپنی تسکین اپنے سکون کے لیے یہ کرنا چاہتا تھا۔اس فعل کو انجام دینے کے لیے ہمت درکار تھی۔دن پر دن گزرتے گئے مگر میں تمھارا سامنا کرنے کی ہمت مجتمع نہیں کر پایا۔میں لا شعوری طور پر اس موقع کا منتظر تھا جب تقدیر خود ہمیں ایک دو سرے کے مقابل لا کھڑا کرے ایسا پہلے ہوتا آیاتھا تقدیر ہمیں ایکدوسرے سے ملاتی آئ تھی۔مگر افسوس تم نے وہ موقع نہ آنے دیا کہ میں تم سے معافی مانگتا۔تم جبراً میری زندگی میں گھس آئی ۔تمھاری اس حرکت نے میری اندر کی ندامت کو دھو دیا۔اب شاید ہی یہ ممکن ہوسکیگا کہ میں تم سے اپنے گناہ کے لیے معافی مانگوں۔کیونکہ جہاں انتقام ہوتا ہے وہاں معافی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ۔"
وہ تصور کی آنکھ سے زرمین کو دیکھ رہا تھا ۔اس نے لاکٹ اپنی جیب میں ٹھونس کر بائیک اسٹارٹ کردی۔
***
وہ ہاسپٹل سے لوٹکر دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھی۔اسے اپنا آپ نڈھال اور تھکا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔تبھی اس کے قدم غیر ارادی طور پر رک گئے۔راشد صاحب کے کمرے کا دروازہ بس زرا سا کھلا رہ گیا تھا۔ان کے لبوں پر اسکا نام تھا۔ نامحسوس طریقے اس کے کان ان کی بات سننے لگے۔
"زرمین اس گھر کی بہو ہی ھماری عزت ہے ۔میں آپ سب کے گزشتہ رویوں کے تعلق سے وضاحت طلب کرنا چاہتا ہوں۔یہاں تک ٹھیک تھا کہ آپ سبھی بمطابق میری مرضی شاہ زر سے کوئی بات نہیں کر رہے اسے نظر انداز کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی کیے پر شرمندہ ہو اسے احساس ہو کہ وہ گنہ گار ہیں ۔اس نے کوئی انتقام نہیں لیا اس نے گناہ کیا ہے ۔مگر افسوس اس سارے میں آپ سب کو اس معصوم بچی پر زرا سا بھی رحم نہ آیا۔ شاہ زر کے گناہ کی سزا اس مظلوم کو کیوں دی جارہی ہے۔میں نے غور کیا یے کہ اس گھر کا کوئی بھی فرد اسے مخاطب نہیں کرتا اور جب وہ کسی سے کچھ کہنے کی کوشش کرتی ہے تب بڑی ہی بےرحمی کے ساتھ اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔"
راشد صاحب طیش میں آچکے تھے۔
"مگر بھائی جان ،اس صورت حال کی ذمہ دار وہ لڑکی کی ہے۔اذحد جذباتی اور بے وقوف قسم کی لڑکی ہے وہ۔
زرا سی بات کا بتنگڑ بنانے کی کیاضرورت تھی اسے۔اس کی بیوقوفی کی بدولت شاہ زر کی زندگی مشکل ہو گئی ہے ۔ہم سے وہ لڑکی اس شہر میں برداشت نہیں ہورہی تھی اور آپ نے اسے اس گھر میں شاہزر کی زندگی میں شامل کر دیا ہے۔اور اب آپ چاہتے ہیں کہ ہم اسے عزت دیں اس کے ساتھ محبت سے پیش آئیں۔"
وقار صاحب نے نفرت سے سر جھٹکا۔
دروازے کے باہر کھڑی زرمین کو اپنا آپ ازحد بے وقعت محسوس ہوا تھا۔
"الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ۔شرم آنی چاہیے وقار تمھیں شاہزر کی طرف داری کرتے ہوئے۔ وہ لڑکی تمھیں جذباتی بے وقوف نظر آتی ہے اور تمھارے لاڈلے نے کونسی سمجھداری کا کام انجام دیا ہے اب تک۔اپنے غصے کا نشانہ اس لڑکی کو بنا کر اس کی زندگی کا تماشہ بنا دیا ۔کیا اس نے جذباتیت و بےوقوفی کا مظاہرہ نہیں کیا ۔اس لڑکی کے سر سےچھت چھن گئی اور یہاں آپکا بیٹا عالیشان کمرے میں آرام سے سوتا رہا اور آپ کو لگتا ہے کہ شاہ زر کی زندگی مشکل ہوئ تھی۔اور رہی بات ان دونوں کے نکاح کی تو یہ اس لڑکی کا ظرف ہے کہ اس نے شاہزر نکاح کے لیے منظوری دی ۔ورنہ کونسی شریف لڑکی اس قدر نازیبا حرکت کرنے والے کو اسے دنیا کی نظروں میں ذلیل کرنے والے کو اپنا شوہر تسلیم کرتی ہے۔خیر میں بس یہ چاہتا ہو کہ اس گھر کا ہر ایک فرد اسے اتنی ہی عزت و محبت دیں جسکی وہ حقدار ہے۔"
اپنی بات کہکر راشد صاحب شاید آٹھ کھڑے ہوئے تھے قدموں کی آہٹ پر وہ اپنے کمرے میں چلی آئی۔
آج اس پر یہ راز افشا ہوا تھا کہ اس شہر کے لوگ راشد صاحب کو اسقدر عزت و اہمیت سے کیوں نوازتے تھے۔بلا شبہ وہ اس شہر میں بسنے والے دوسروے رئیسوں سے مختلف تھے۔ وہ ایک عظیم انسان تھے۔اسے شاہ زر کی قسمت پر رشک ہوا اسکی رگوں میں ایک عظيم شخص کا خون دوڑ رہا تھا۔
****
رات کے کھانے پر شاہ زر حاضر نہیں تھا۔غالباً یہ اس کی خفگی کا اظہار تھا۔جلدی جلدی دو چار نوالوں کو حلق سے اتار کر وہ ایک بار پھر لاکٹ کی تلاش میں جت گئ تھی۔اس کی زبان دعاؤں کے ورد کرنے میں مصروف تھی اور ہاتھ مختلف درازوں کو کھولنے بند کرنے میں لگے تھے۔اسے بدحواس سی چیزوں کو الٹتے پلٹتے دیکھ وہ دروازے سے ہی واپس مڑ گیا۔اضطراب و بے چینی کی زندہ تصویر بنی وہ شاہ زر کو احساس ندامت میں مبتلا کر رہی تھی۔وہ اس کی چیز واپس لوٹانا چاہتا تھا لیکن خود اپنے ہاتھوں سے اسے وہ لاکٹ سونپنا اس کی انا کے خلاف تھا۔اسی ادھیڑ بن میں مبتلا وہ ہال میں چلا آیا تبھی اس کی نگاہ صوفے پر بیٹھی دعا پر پڑی تھی ۔دعا اشعر کی بیٹی تھی۔سارے گھر کی لاڈلی دعا بہترین جاسوس تھی۔ اس کی نظروں سے کچھ بھی بچ پانا ناممکن تھا۔وہ مسکراتا ہوا اس کے نزدیک چلا آیا۔وہ اپنی ڈرائنگ بنانے میں مصروف تھی۔اسے باتوں میں الجھا کر کمال مہارت سے اس نے وہ لاکٹ صوفے کے پاس فرش پر گرا دیا۔بہت جلد وہ لاکٹ اپنے مالک کے پاس پہنچی والا تھا۔
وہ لان کے پودوں کو پانی دے رہی تھی تبھی اسکی نظر جھولے پر بیٹھی بچی پر پڑی۔اسے خوشگوار حیرت نے آن گھیرا۔اس سے قبل اسے اس گھر میں کوئی بچی نہیں دیکھی تھی۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی اس کے پاس پہنچی۔وہ جھولے پر بیٹھی رنگین کتاب سے poem پڑھنے میں مصروف تھی۔اس سے قبل کہ زرمین اس سے کچھ پوچھتی اس کی نگاہ اس کے گلے میں لٹک رہے لاکٹ پر پڑی۔اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
"Hello aunty. How are you?I am Dua.
میں مسٹر اشعر آ فریدی کی daughter ہںوں۔"
اس نے اپنا پھولا ہںوا نرم ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تھا۔کالی چمکتی ہوئیں بڑی بڑی آنکھیں۔کالے ریشمی کمر پر گرتے بال ۔روئئ جیسے سفید پھولے ہوئے گال ۔اس گھر میں کوئی عام صورت بھی تھا یا نہیں۔ کیا سبھی رئیسوں کے گھروں میں بسنے والے تمام افراد خوبصورت ہوا کرتا ہیں یا صرف آفریدیس کو یہ شرف حاصل تھا۔اس نے حیرانی سے اسکا نرم ہاتھ تھاما تھا۔
"تم مجھے جانتی ہںوں ہم تو پہلی بار مل رہے ہیں نا؟اس نے جھولے پر بیٹھتے ہںوئے مسکرا کر کہا۔
"آپ مجھے نہیں جانتی تو کیا ہںوا میں تو آپ کو جانتی ہںوں۔آپ شاہ زر چاچو کی وائف ہںے نا۔actually میں کل ہی اپنی granny کے یہاں سے لوٹی ہںوں۔تبھی میری Mom نے بتایا کہ شاہ زر چاچو کی Marriage ہںوگئی ہںے اور گھر میں ایک نئی aunty آئی ہںے۔آپ کو دیکھتے بچوں ہںی میں سمجھ گئی کہ آپ ہی نئی آنٹی ہںو۔"
وہ اپنی عمر سے کئی زیادہ سمجھدار معلوم ہںو رہںی تھی۔وہ بظاہر اس سے محو گفتگو تھی مگر اس کا ذہن لاکٹ میں اٹکا ہںوا تھا۔
"دعا کیا یہ لاکٹ تمھارا ہںے؟"
اس کی برداشت جواب دے گئی اس نے بلآخر پوچھ لیا۔
"یہ لاکٹ میرا کیسے ہو سکتا ہںے آنٹی یہ تو آپ کا ہںے۔"
دعا نے لاکٹ اپنے گلے سے اتارتے ہںوئے مسکرا کر کہا۔
"ایکچولی کل رات مجھے ہال میں صوفے کے پاس پڑا نظر آیا۔میں نے اسے اٹھا لیا۔میری مام کے پاس بھی ایسا ہی ایک لاکٹ ہںے مگر پینڈینٹ heart shape کا نہیں ہے square ہںے۔میں نے گھر میں سب سے پوچھ لیا ہںے سوائے شاہ زر چاچو کے اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا ۔انہوں نے مجھ سے کہا یہ آپ کا ہے۔میں نے اسے اپنے گلے میں پہن لیا تاکہ جب آپ سے ملونگی تب لوٹادونگی۔"
وہ بچی پل پل اسے حیران کیے دے رہی تھی
۔
" اوہو آنٹی آپ اتنی careless کیسے ہوسکتی ہیں اپنی چیزوں کو لیکر ۔آئندہ سے دھیان رکھیے گا او کے۔"
اس نے بوڑھی نانی کی طرح نصیحت کرتے جھولے پر کھڑی ہوکر اس کی چوٹی آگے کرتے ہوئے لاکٹ اس کے گلے میں پہنایا تھا۔ بے ساختہ اسے اس بچی پر ڈھیروں پیار آیا تھا۔جس نے اس کی عزیز ترین شئے اس تک پہنچائ تھی۔
***
آفریدی ولا میں صبح کی چہل پہل دکھائی دیتی تھی۔سبھی افراد خانہ بریک فاسٹ ٹیبل پر حاضر تھے۔زرمین نے ناشتےکی پلیٹ شاہزر کے سامنے رکھی تھی۔اس نی ایک نظر ٹوسٹ پر اور دوسری نظر پراٹھوں پر ڈالی۔ گزشتہ تجربہ کی روشنی میں احتیاطی تدبیر کی طور پر ہمیشہ سے صحت کو لیکر حد سے زائد حساس رہنے والےشخص نے پراٹھوں کی سمت ہاتھ بڑھایا تھا۔
پہلا ہی نوالہ اس کے زبان پر زبردست کھٹاس چھوڑ گیا۔بےساختہ آئی کھانسی کو اس نے سختی سے منہ بند کر روکا تھا۔آج ذائقہ بگاڑنے کے لیے لیمو کا استعمال کیا گیا تھا اس نے کھا جانے والی نگاہ سے زرمین کی سمت دیکھا جو بڑے آرام سے ناشتہ کے ساتھ انصاف کرنے میں مشغول تھی ۔دو تین نوالوں میں پراٹھا ختم کر اس نے جوس کا گلاس لبوں سے لگا لیا خلاف توقع اس کا ذائقہ برا نہیں تھا ۔آج جوس پر رحم کیا گیاتھا۔
وہ پانچ منٹ کے اندر کرسی گھسیٹ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"
کہاں کے لیے چل دیے برخوردار۔ہمیں احساس ہے کہ آپ کافی سے زیادہ مصروف رہتے ہیں مگر آج ہم پر ایک آحسان کیجیے اور اپنی قیمتی وقت سے چند گھڑیاں نکال کر ہمیں بھی فیض یاب کریں کہ کچھ عرض کر سکیں ۔ہال میں ہمارا انتظارِ کیجیے۔"
بڑے ہی احترام کے ساتھ راشد صاحب نے اس پر طنز کیا تھا۔کمرے کی سمت جاتے اس کے قدم ہال کی سمت مڑے تھے ایک نئے حکم کی تعمیل کے لیے وہ تیار تھا۔
"وہ صوفے کی پشت پر گردن ٹکائے راشد صاحب کا منتظر تھا قدموں کی آہٹ پر وہ سیدھا ہوا تھا ۔ وہ اس کے مقابل براجمان ہوئے تھے۔اس کے نکاح کے بعد وہ پہلی بار ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے تھے۔
"اس لڑکی نے ہمیں اور بھی دور کر دیا ہے۔"
غصے کی لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔
"اس سےقبل جب کبھی تم سے بزنس میں ہاتھ ڈالنے کا کہا گیا تم پڑھائی کا بہانہ بنا کر کنارہ کشی اختیارکرتے آئے ہو۔مگر اب تمھارا یہ بہانہ کام نہ آئے گا۔تمھاری شادی ہوچکی ہے بہت بڑی ذمہ داری تمھارے کاندھوں پر آچکی ہے۔ اسلیے بہتر یہی ہے تم دوسری ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے سنبھالنے کی کوشش کرو۔بزنس میں ہاتھ بٹاؤ۔اب تم کالج جاکر موجیں کرنے والا کنوارا لڑکا بن کر نہیں جی سکتے۔آج سے تم کالج نہیں جاؤگے۔"
ان کی بات سنکر اسے زرا بھی حیرانی نہیں ہوئی تھی اسے ایسے ہی کسی حکم کی توقع تھی وہ بادل ناخواستہ اثبات میں گردن ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔
***
وہ جوں ہی اپنے کمرے میں داخل ہوئی اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔وہائٹ شرٹ ،بلاک ٹائ فل بلاک سوٹ میں وہ خلاف معمول فارمل ڈریسنگ میں تیار قد آور آئینے کے سامنے کھڑا تھا۔
" اوہ تم آ گئ۔اسطرح اچانک میرے آفس جانے کا کریڈٹ تم اپنے سر نہ لے لینا۔آج نہیں تو کل مجھے آفس جوائن کرنا ہی تھا۔کل سو آج کر آج کرے سو اب سو میں نے آفس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔مگر خدا کا واسطہ تم یہ نہ سوچ لینا کہ میرے زندگی میں اچانک ہونے والی اس تبدیلی سے تمہیں کوئی کامیابی نصیب ہوئی ہے۔میں نے فیصلہ محض اس لیے لیا ہے تاکہ مجھے کالج نہ جانا پڑے ۔کالج جانے میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں رہی ۔میں ہمہ وقت اس ڈر کے ساتھ نہیں جی سکتا کہ یونیورسٹی میں کسی کو تمھارے متعلق کچھ خبر ہو جائے۔اور میری انسلٹ ہوبہتری اسی میں ہے کہ میں آفس جوائن کر ڈیڈ کو خوش کرتے ہوئے اپنا الو سیدھا کرلوں۔"
اسے کمرے میں داخل ہوتا دیکھ وہ بشاشت سے گویا ہوا۔
"آفس تو تم یقیناً جاؤ گے مگر ویسے نہیں جیسے تم چاہتے ہو"۔
وہ کچھ سوچ کر مسکرائی تھی۔
وہ پورچ سے اپنی کار باہر نکال رہا تھا تبھی اس کی نگاہ زرمین پر پڑی وہ اسی کی طرف آرہی تھی کار کے نزدیک پہنچ کر اس نے دو انگلیوں کو موڑ کر شیشہ کھٹکھٹایا تھا۔ شاہ زر نے کھڑکی کی کانچ نیچے کرتے ہوئے کوفت زدہ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا ۔وہ کھڑی پر جھکی کا رکی اسٹیرنگ کو گھورے جا رہی تھی۔کچھ دیر اسے ہنوز خاموش کھڑا دیکھ شاہ زر نے سر جھٹک کر گاڑی اسٹارٹ کر دی۔تبھی وہ بولنا شروع ہوئی۔
"بلآخر آپ نے آفس جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ۔کیا کہنے آپ کے ۔ایکطرف آفس جاکر اتنا بڑا معرکہ سر کرلینے کے ایوز تعریف وصولینگے دوسری طرف عالیشان آفس کی نرم کشادہ سیٹ پر بیٹھ کر ویڈیو گیمز دوستوں کے ساتھ چیٹنگ کے مزے لوٹ لینگے۔کیونکہ آفس کا سارا کام تو آپ کے ماتحت کے سر منڈھ دیا جانا ہے۔درست کہہ رہے تھے آپ کالج جانے سے بہتر آفس جانا ہے۔کالج میں تو پھر بھی پرنسپل ،لیکچررس کی روک ٹوک ہوتی ہے اس کے بر عکس آفس تو جنت ہے ۔نہ کسی کی روک ٹوک نہ کسی کا ڈر ۔ظاہر ہے ایک پوری عمارت کے مالک پر کون روک ٹوک لگا سکتا ہے۔یقینا آج آپ کے ماتحت کام کرنے والوں کی شامت آنی ہے۔آپ جیسے رئیس زادوں کو کیا خبر کہ متوسط طبقے کے افراد کسطرح دھکے کھاتے ہوئے بسوں اور ویگنوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر آفس پہنچ پاتے ہیں۔اور دفتر پہنچ کر سارا دن آپ جیسے مالکان کی جی حضوری میں نکل جاتا ہے۔درحقیقت ان کی کمائی خون پسینے کی کمائی ہوتی ہے۔خیر میں یہ سب آپ سے کیوں کہہ رہی ہوں ۔میں تو بس اللّٰہ حافظ کہنے آئی تھی۔"
وہ ہونکوں کی طرح اسے دیکھے جارہاتھاوہ کار سے دو قدم میں پیچھے ہٹ کر الوداع کہنے کے انداز میں اپنا ہاتھ ہلا رہی تھی۔اس کا بدلا بدلا انداز ،طرز تخاطب اسے حیران کیے دے رہا تھا ۔وہ اس کی کہی باتوں کے ایک بھی جملے کو معنی نہیں پہنا سکا تھا اس کے ذہن کی سوئ "آپ"پر اٹکی تھی۔جب ذہن سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تب وہ مزید حیران ہوا آفس جانے سے قبل ہی آفس میں عیش اڑانے کی منصوبہ بندی اس نے کب کی۔اور تو اور اس منصوبہ بندی کو اس نے اپنی نئی نویلی بیوی سے کب شئیر کیا۔وہ اس کی باتوں کے جال میں الجھا تھا کہ اس کے والد نے منظر نامے میں مداخلت کرتے ہوئے اسے مزید پریشان کردیا۔
"کار سے باہر نکلو برخوردار آج تم اپنے آفس نہیں جارہے۔"
راشد صاحب نے کھڑکی ادھ کھلا شیشہ بجا کر حکمیہ انداز میں کہا۔وہ حیران ہوتا باہر نکلا وہ منظر سے غائب ہو چکی تھی۔
"میں کچھ سمجھا نہیں آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں۔"
وہ ناسمجھی سے گویا ہوا۔
"اسقدر تیار ہوکر تم کہاں کے لیے نکل رہے ہو۔"
اسے اوپر سے نیچے
دیکھتے ہوئے راشد صاحب بولے۔
"ڈیڈ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ مجھے آفس جانا
ہے سو میں جا رہا ہوں ۔اشعر بھائی اور باقی سب بھی تو اسی طرح ڈریسڈ اپ ہوتے ہیں میں نے کیا اوور کردیا ہے" ۔
وہ بری طرح بدمزہ ہوا۔
"غالباً تم نے ٹھیک سے سنا نہیں کہ میں نے کہا۔ تم اپنی آفس نہیں جارہے اس سے مراد ہے تم ماجد انقل کی آفس جاؤگے ۔وہ بھی ایک عام امپلوائ کی حیثیت سے اس لحاظ سے مجھے تو تم اوور نظر آرہے ہو ۔"
بڑے اطمینان کے ساتھ راشد صاحب نے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔
"عام امپلوائ"
اس نے بدقت تمام یہ دو الفاظ ادا کیے۔
"محض دو ہی چار دنوں میں تمہیں بخوبی اندازہ ہوجائے گا کے جس پیسے کو تم بے دریغ خرچ کرتے آئے ہو وہ کسقدر محنت سے کمایا جاتا ہے۔اور ہاں کار کو واپس اس کی جگہ پر لگا دینا عام امپلوائس کار سے سفر کر کے آفس نہیں آتے"۔
اسے ساکت کھڑا چھوڑ کر وہ گھر کے اندر چلے گئے تھے۔وہ کھولتا ہوا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں آیا تھا۔
گلے سے ٹائ کھنیچ کر اتاری کوٹ کو بستر پر پھینک کر اس نے بائیک کی چابی کی تلاش میں نظر دوڑائی تبھی وہ باتھ روم سے باہر آئی تھی۔منظر نامے میں اس کی موجودگی نے گویا شعلے کو ہوا دی تھی۔وہ لڑکی اس کی زندگی مشکل بنانے پر تلی تھی۔وہ غیض و غضب کی تصویر بنا اس کی طرف بڑھا ۔
" ڈیڈ کا حکم ہے کہ تم آفس جانے کے لیے بائیک کا استعمال نہیں کر سکتے لہذا تمہیں بس سے سفر کرکے آفس پہنچنا ہوگا"۔
وہ کمال اطمینان سے بولی تھی۔
اس کا جی کر رہا تھا کہ اس خرافاتی لڑکی کا گلا دبا دے۔اس سے قبل کہ اپنے غصے کا مظاہرہ کرتا راشد صاحب کی آواز نے اس کی توجہ اپنی طرف کرلی۔وہ باآواز بلند اسے پکار رہے تھے۔بادل نخواستہ اس نے اپنے قدم دروازے کی سمت بڑھائے کمرے سے باہر نکلنے سے قبل سائیڈ ٹیبل پر دھرے پانی کے جگ کو ہاتھ مار کر گرانا وہ نہیں بھولا تھا۔چھناک کی آواز کے ساتھ کانچ کا جگ چکنا چور ہوا تھا۔وہ سنگھار میز کو تھامے اپنی دھڑکن کو قابو میں لانے کی سعی کر رہی تھی جو مارے خوف کے حد سے زائد تیز ہو گئ تھی۔
**
جس دن سے راشد صاحب نے آفریدی ولا کے مکینوں کو آئینہ دکھایا تھا اس روز کے بعد سے سبھی کے برتاؤ میں تبدیلی آئی تھی۔سبھی تائیاں تھوڑی بہت گفتگو کرلیا کرتیں ،مرد حضرات سے بھی سلام دعا تک بات ہو رہی تھی۔مزنی سے گھر کے باہر ملنا جاری تھا۔وہ ہال میں بیٹھی کسی میگزین کی ورق گردانی میں منہمک تھی تبھی راحت بیگم اس کے پاس چلی آئیں۔
"زرمین ایسا کرو تم کچھ نئے جوڑے خرید لو جب سے اس گھر میں آئی ہو انہی چند جوڑوں میں نظر آتی ہو جو ایمرجنسی میں تمھارے کمرے میں رکھوا دیے گئے تھے۔میں مزنی سے کہونگی وہ تمہیں اپنے ساتھ شاپنگ کرانے لے جائے۔"
وہ مسکرا کر گویا ہوئیں۔
اس نے بادل ناخواستہ اثبات میں گردن ہلا دی تھی۔اس گھر میں آکر یہاں کے مکینوں کے ساتھ رہ کر اسے اندازہ ہوا تھا کہ رئیسوں کے متعلق اس کے خیالات غلط تھے۔سبھی دولت مند افراد ایک سے نہیں ہوتے۔اس گھر کے سبھی افراد دل کے صاف محبت لٹانے والے مل جل کر رہنے والے تھے۔بڑوں کے ساتھ احترام سے پیش آتے چھوٹوں کے ساتھ محبت سے۔مذہب کے پابند تھے۔بس ایک شاہ زر ہی تھا جو ان سب سے مختلف تھا ۔وہ اپنی سوچوں کے گرداب میں پھنسی تھی دفعتا کسی نےً اس کی چوٹی کو جنبش دی۔وہ چونک کر مڑی۔
"
ہیلو زرمین آنٹی آپ کہاں کھوئی ہیں ۔کہیں آپ بور تو نہیں ہورہیں؟"
بلاک فرلس سے بنے اسکرٹ اور وہائٹ ٹی شرٹ میں ملبوس دعا مسکرا رہی تھی۔
"
ارے دعا تم کب آئی؟ ویسے بور تو میں ہورہی ہوں ۔بتاؤ تم میری بوریت دور کرنے کے لئے کیا کروگی" ؟
اس نے دعا کے پھولے ہوئے گال پر پیار کرنے ہوئے کہا۔
"آج Holy maria convent school میں چھٹی ہے اسلیے آج دعا آپکو ایک سیکنڈ کے لیے بھی بور نہیں ہونے دے گی"۔
اپنے اسکول کا پورا نام لیتے ہوئے وہ پرجوش ہوئی تھی۔
" چلیے میں آپکو پورے آفریدی ولا کی سیر کراتی ہوں ۔اب سے یہ آپ کا بھی گھر ہے۔ اسی لیے اس گھر کے ہر ایک کورنر کی انفارمیشن آپ کو ہونی چاہیے"۔
دعا نے کسی بوڑھی نانی کی طرح نصیحت کی وہ اسکا ہاتھ تھام کر اسکے ہمراہ چل پڑی۔حیدرآباد کے پوش علاقے بنجارا ہیلس میں آفریدی ولا واقع تھا۔ہزاروں گز کے رقبہ پر پھیلا آفریدی ولا انتہائی آراستہ اور پرکشش تھا۔چوڑے گیٹ سے گزر کر بہت بڑا لان شروع ہوتاتھا۔جس میں چاروں طرف پھولوں کی کیاریاں اور درمیان میں فوارے اور سوئمنگ پول تھا۔لان کی دائیں طرف ایک خوبصورت لوہے سے بنا جھولا تھا۔لان کا راستہ عبور کرکے داخلی دروازے تک پہنچا جاسکتا تھااور تبھی بڑا ہی شاندار سا ہال اور اسی ہال سے دائرہ بناتی سیڑھیاں دوسمتوں میں اوپری طرف چلتی تھی۔بےشمار کمرے پہلی منزل پر دائرے کی شکل میں بنے ہوئے تھے۔پورا گھر گھما لینے کے بعد دعا اسے اس کے اور شاہ زر کے کمرے میں لے آئی تھی۔
وہ حیران ہوتی ہوئی اس کی طرف متوجہ ہوئ تبھی وہ فاتحانہ انداز میں مسکراتی بالکنی کی سمت بھاگی تھی۔وہ جب سے اس گھر میں آئی تھی اس بالکنی کا رخ اس نے کبھی نہیں کیا تھا اور شاید شاہ زر کو اس کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔دعا نے کشادہ بلاکنی کے شیشوں سے بنے دروازے کھول دیئے ہوا کا ایک تیز جھونکا اس کے بالوں کو چہرے پر بیکھیر گیا۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی بالکنی میں چلی آئی۔
" اور یہ ہے اس گھر کا سب سے بیوٹی فل کارنر ۔آپ کو پتہ ہے آنٹی شاہ زر چاچو کے کمرے کی میرا مطلب ہے آپ دونوں کے بیڈروم کی اس بالکنی بہت سارے ماؤنٹینس بہت قریب سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔سب سےمزے کی بات یہ ہے کہ شام ہوتے ہی بہت ساری برڈس یہاں بالکنی میں آکر بیٹھ جاتی ہیں۔"
وہ بہت خوش ہوکر اس کی معلومات میں اضافہ کر رہی تھی۔
خوبصورت ہرے درختوں سے ڈھکے پہاڑ ان میں بہتے بے شمار جھرنے جن کی آواز باآسانی سنی جاسکتی تھی ۔ روح کو طمانیت بخشتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں۔ادھ ادھر اڑتے رنگ برنگے ان گنت پرندے۔ کسقدر پرسکون تھا وہ نظارہ وہ بے خود رہ گئ۔اس سے خوبصورت منظر اتنے قریب سے اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
" آنٹی آپ بور تو نہیں ہورہیں نا؟"
مستقل بولتی دعا نے تشویش سے اس کا ہاتھ ہلا کر استفسار کیا تھا۔وہ نفی میں گردن ہلا کر مسکرائی تھی اس کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو جھلملائے تھے بعض اوقات سکون بھی آپ کو رلا دیتاہے۔پتہ نہیں کیوں اس کا جواب کوئی نہیں جان پایا تھا۔
***
آفریدی ولا میں رات کا سکون چھایا تھا۔کھانے سے فارغ ہوکر سبھی ہال میں بیٹھے محو گفتگو تھے۔تبھی وال کلاک نے دھن بجا کر گیارہ بجنے کی خبر دی۔ہال کا دروازہ کھلا اور شاہزر اندر داخل ہوا۔سبھی جملہ افراد کی نگاہ اس پر پڑی تھی۔ماتھے پر بکھرے بال ،شکن زدہ قمیض،جھکے ہوئے کاندھے،تھکن زدہ چال وہ سر سے پاؤں تک بری طرح تھکا ہوا لگ رہا تھا۔مرد حضرات کو قہوہ سرو کرتیں عالیہ بیگم کا دل کٹ کر رہ گیا۔وہ سلام کرتا ہوا ہال کی سیڑھیاں چڑھتاسیدھے اپنے کمرے میں روپوش ہوگیا۔گذشتہ کئ دنوں سے چپ شاہ کا روزہ رکھیں عالیہ بیگم بول پڑیں۔
"یہ سب کیا ہو رہا ہے اس گھر میں ۔کس حال کو پہنچ گیا ہے میرا بچہ کیا ۔کسی کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔آپکو خدا کا واسطہ اس پر یہ ظلم نہ کریں ۔اسے معاف کر دیں"۔
انہوں نے راشد صاحب سے منت زدہ لہجے میں کہا۔
"آپ صبر سے کام لیں عالیہ بیگم ۔اس کی حالت پر ترس کھانے سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔اس پر کوئی ظلم نہیں ہورہا اسے اس کی غلطی کا احساس کرانے کی اسے ایک ذمہ دار شخص بنانے کے کوشش کی جارہی ہے۔آپکی یہ جذباتیت ہماری ساری محنت پر پانی پھیرنے کے لیے کافی ہے۔زرا سے ہمدردی پانے پر کچھ بعید نہیں کہ وہ پہلے کی روش پر چل پڑے گا۔میں نہیں چاہتا کہ ایسا ہو لہٰذا اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کریں۔اور جو ہو رہا ہے ہونے دیں"۔
راشد صاحب نے قہوہ کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا ۔اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتیں وہ کچن میں چلی آئیں۔ وہ کچن کاؤنٹر کے پاس کھڑی سب کے لیے چائے بنا کر ابھی فارغ ہوئی تھی ۔اپنی ساری ہمت کو مجتمع کر اس گھر کے کچن میں آکر سب کے لیے چائے بنانے پر بمشکل اس نے خود کو آمادہ کیا تھا۔ وہ اپنے فیصلے پر پچھتائے بنا نہ رہ سکی۔اور سب سے چھپتے چھپاتے اپنے کمرے میں چلی آئی۔واش روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی ۔دھڑکتے دل کے ساتھ وہ بیڈ کے کنارے ٹک کر بیٹھ گئ۔باہر بکلنے پر اس کا ردعمل کیا ہوگا یہ تصور اسے خوفزدہ کیے دے رہا تھا۔
باتھ روم کا دروازہ کھلا تھا۔وہ ٹاول سے بالوں کو رگڑتا صوفے پر ڈھے گیا۔اس سے کچھ کہنا تو دور دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا تھا۔وہ جی بھر کر حیران ہوئی تھی۔تبھی وہ اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا وہ غیر ارادی طور پر اس کے پیچھے آئی تھی۔اس کا رخ کچن کی سمت تھا۔وہ ستون کی اوٹ میں ہوکر جھانکتی رہی۔وہ فریج میں سے ڈبوں میں رکھے رات کے کھانے کو باہر نکال رہا تھا۔عموما رات کا کھانا دوستوں کے ساتھ کھانے والا شخص آج بھوکا گھر لوٹا تھا۔کچھ لمحے ان ڈبوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد اس نے تین ڈبوں کو دوبارہ فریج میں رکھ دیا کچن کاؤنٹر پر بریانی کا ڈبہ رہ گیا تھا۔تبھی بالائی منزل کی سیڑھیاں اترتیں مشعل بھابھی نظر آئیں ان کا رخ کچن کی سمت تھا۔کچن میں داخل ہوتے ہی انہوں نے کاؤنٹر پر رکھا ڈبہ اٹھا لیا۔
"تم بیٹھو شاہ زر میں کھانا گرم کر دیتی ہوں"۔
وہ عجلت میں فریج سے مختلف ڈبے کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے بولیں۔واقف سبھی خواتین تھی محبت بھی سبھی اس سے کرتی تھیں دل بھی سبھی کا دکھا تھا مگر نیچے آکر اس کا سامنا کرنے کی ہمت کسی میں نہیں تھی نتیجتاً مشعل نیچے آئی تھی۔سب کا خیال تھا کہ مشعل سے اس کی بھابھی ہے ان دونوں کے درمیان احترام کا رشتہ تھا۔ وہ اسے منع نہیں کر پائے گا ۔
"آپ رہنے دیں بھابھی میں کرلوں گا آپ جاکر سو جائیں ۔
میں بچہ تھوڑے ہی ہوں کہ خود سے کھانا لیکر نہیں کھا سکتا"۔
مشعل کے ہاتھ سے ڈبہ لیکر اس نےواپس کاؤنٹر پر رکھا تھا۔وہ بظاہرمسکرایا تھا مگر اس کے لہجے کی قطیعت کو محسوس کر وہ کچھ بول نہ سکی اور خاموشی کے ساتھ کچن سے باہر نکل آئ۔ان کی آنکھوں میں بے ساختہ جھلملائے آنسو زرمین سے پوشیدہ نہ رہ سکیں ۔ان دونوں کے درمیان ویسا رشتہ نہیں تھا جو شاہ زر کا اس گھر کی دوسری خواتین کے ساتھ مگر پھر بھی ایک رشتہ تھا اپنائیت کا۔ وہ محبت تھی جو گھر کا ہر ایک مکین لاشعوری طور پر دوسرے مکین سے کرتا ہے۔ان کی آنکھوں میں آنسوں آئے تھے انہیں بھی شاہ زر کے لیے تکلیف ہوئی تھی۔
ان کے جاتے ہی شاہ زر نے جلتے ہوئے گیس کو بند کرتے کچن میں موجود چھوٹی سی میز اور کرسی پر بیٹھ کر ٹھنڈی ہی بریانی کھانا شروع کر دی۔بے ساختہ ایک احساس جرم نے اپنا حصار اس کی گرد کسا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بدولت اس گھر کے کسی بھی فرد کو رتی برابر بھی دکھ پہنچے۔ان کے ساتھ رہتے ہوئے ایک لگاؤ سا پیدا ہو گیا تھا۔مگر یہ ناممکن تھا کہ شاہ زر کو تکلیف پہنچے اور انہیں دکھ نہ ہو۔وہ سب اس سے بے پناہ محبت کرتے تھےاسے خوش دیکھنے کے خواہاں تھے۔ وہ تنہا تھی جو اس نفرت کرتی تھی اسے تکلیف میں دیکھنا چاہتی تھی۔ اس عالیشان عمارت میں بلکل تنہا۔
***
رات کے کس پہر وہ کمرے میں آیا تھا اسے احساس تک نہیں ہںوا تھا۔فجر کی اذان کے ساتھ وہ اٹھ بیٹھی۔بلا ارادہ ہی اس کی نظر صوفے کی طرف اٹھی تھی۔نیند میں بھی وہ کافی مضطرب نظر آرہا تھا۔چہرے سے تھکن کے آثار واضح تھے۔اس نے رخ پھیر لیا۔وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔نماز کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہی حسب معمول وہ رو پڑی۔اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔منہ پر ہاتھ رکھکر اسنے ہچکی کی آواز کو روکا تھا۔اس نے رخ موڑ کر صوفے کی سمت دیکھا۔اس کی توقع کے عین مطابق وہ تکیہ سے سر اٹھائے عجیب سی نظروں سے اسی کی سمت دیکھ رہا تھا۔اس نے فوراً اپنے آنسو پونچھے اور جائے نماز لپیٹ کر کھڑی ہںو گئی۔وہ اٹھ بیٹھا غالبا سونے کا ارادہ ترک کر چکا تھا۔باتھ روم سے چہرے پر پانی کی چھینٹے مارلینے کے بعد وہ اسٹیڈی ٹیبل پر کچھ فائلوں میں منہ دے کر بیٹھ گیا۔وہ بے نیازی کا مظاہرہ کرتے منہ تک کمبل اوڑھ کر لیٹ گئی۔صبح سوا سات بجے کے قریب اس کی آنکھ کھلی تھی۔وہ فریش ہںوکر کمرے سے باہر نکلنے ہی والی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔وہ پہاڑ بنا دروازے کے عین درمیان ایستادہ تھا۔وہ اس کے
مقابل کھڑی اس کے ہٹنے کا انتظار کررہی تھی۔لیکن اس کو ہنوز کھڑا دیکھ کر وہ جی بھر کر بد مزہ ہںوئی۔اس نے سائڈ سے نکلنے کی سعی کی تبھی اپنا ہاتھ دیوار پر رکھ کر باہر نکلنے کے واحد راستے میں شاہ زر نے اپنا بازو حائل کردیا۔ماتھے پر چمکتی پسینے کی بوندیں،جاگنگ سوٹ یہ واضح کر رہے تھے کہ وہ ابھی ابھی جاگنگ سے لوٹا تھا۔
"راستہ دو۔"شاہ ذر کے گمبھیر تاثرات اسکی گھبراہٹ کو بڑھا رہے تھے۔
"اتنی جلدی بھی کیا ہںے مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہںے۔"اس نے دروازہ بند کرتے ہںوئے کہا۔
"مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی میرا راستہ چھوڑو۔مجھے جانے دو۔"اس نے دروازے کے ناب کو گھماتے ہںوئے کہا۔
"لیکن مجھے بات کرنی ہںے۔ایکچولی میں یہ جاننا چاہتا ہںوں کہ تمھارے ذہن میں اور کتنی خرافات بھری ہے؟کس حد تک جانے کا ارادہ ہے؟تمھارے فیوچر پلانس کیاہے؟" شاہ زر نے ناب پر رکھے اس کے ہاتھ پر سختی سے اپنا ہاتھ رکھتے ہںوئے کہا۔
"اپنا ہاتھ ہٹاو۔مجھے جانے دو میں تمہارے کسی بھی سوال کا جواب دینے کی پابند نہیں ہںوں۔"
اس نے اپنے ہاتھ کو اس کے ہاتھ سے چھڑانے کی کوشش کی مگر اس کی گرفت مضبوط تھی۔
"کیا ہںوا ڈر لگ رہا ہںے؟یوں منتیں کرتی ہںوئی تم بالکل بھی اچھی نہیں لگتی۔فی الحال تمہیں اس حال میں دیکھکر ہر دیکھنے والا اس غلط فہمی میں مبتلا ہںو جائےگا کہ کوئی معصوم و مظلوم لڑکی کسی مصیبت میں گرفتار ہںے۔مگر درحقیقث تم نہایت ہی چالاک و شاطر لڑکی ہںو۔"
اس نے ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ اپنے گرفت سے آزاد کیا تھا۔اس کا سفید ہاتھ دباؤ کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا۔
"مجھے تم سے ڈر نہیں لگتا شاید کبھی لگے گا بھی نہیں ۔میں تم سے صرف ایک بار ڈری تھی جب تم مجھے گھسیٹتے ہوئے میرے محلے سے اٹھا کر لے گیے تھے۔اس سے قبل میں اتنی خوفزدہ کبھی نہیں ہوئ تھی۔"
کسی انہونی کے تصور سے میری روح تک کانپ رہی تھی۔ایک قیامت تھی جو گزر گئ اور اسی دن میرا سارا ڈر ختم ہںو گیا۔ کیوں کیا ہںوا بہت غصہ آرہا ہںے مجھ پر ۔بہت تکلیف ہںو رہی ہںے۔یہ تو بس شروعات ہںے تم نے مجھ سے ایک گھنٹے کا حساب لیا تھا نا میں تم سے پورے ایک ماہ کا حساب لونگی۔تمہیں ہر اس اذیت ہر اس تکلیف سے گزرنا ہںوگا جو میں نے تمہارے بدولت محسوس کی تھی۔ اب تک تو تمہیں اندازہ ہںوگیا ہںوگا کہ اکیلےپن اور تنہائی کا احساس کیا ہںوتا ہںے۔ کیسا محسوس ہںوتا ہںے جب اس بھری دنیا میں ہم تنہا رہ جاتے ہیں۔اچانک ہماری زندگی بدل جاتی ہںے۔کیسا محسوس ہںوتا ہںے جب وہ لوگ جو کبھی ہمارے اپنے ہوا کرتے تھے وہ ملامت کرتی ہںوئی نگاہوں سے ہمیں دیکھتے ہیں۔خیر میں نے تم سے انتقام کا عہد کیا ہںے اور اب میں اپنے موقف سے کسی قیمت پیچھے نہیں ہٹوں گی۔یہ دنیا دارلمکافات ہںے اور اب تمہاری باری ہے۔"وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔اس کا تنفس تیز تیز چل رہا تھا۔
"تم مجھے تکلیف پہنچا نا چاہتی ہںو؟اپنوں سے دور رہنے کی تکلیف، تو یوں سمجھ لو کہ تم کامیاب ہںوئی۔میں اپنی فیمیلی کے بغیر نہیں رہ سکتا۔جس اذیت سے میں ان چند دنوں میں گزرا ہںوں اس کا میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔میرے زندہ رہنے کے لیے ان کا ساتھ ان کی محبت اشد ضروری ہںے۔ان سب کے بغیر میں خود کو بہت تنہا محسوس کرتا ہںوں۔"
وہ شکستہ لہجے میں بولا تھا۔غصے سے سرخ ہںوتی آنکھوں میں اچانک یاسیت در آئی تھی۔اس کے بدلے بدلے انداز پر وہ ششدر رہ گئی۔وہ اپنی بات ختم کر کے کمرے سے باہر نکل گیا۔
وہ دروازے کو تھامے ساکت کھڑی رہ گئی۔
*****