شاہ زر نے اپنی مٹھیاں سختی سےبھیچ لیں،ذلت کے احساس سے اس کا چہرا سرخ ہںوگیا۔ ہال موجود سبھی افراد راشد صاحب اور شاہ ذر کی طرف متوجہ تھے۔تبھی اشعر مزنی کی طرف بھاگا تھا۔وہ ہںوش کھو چکی تھی۔ اس سے قبل کہ وہ زمین بوس ہںوتی اشعر نے اسے تھاما تھا۔سبھی خواتین اس کی سمت دوڑیں سوائے عالیہ بیگم کہ وہ ساکت کھڑیں اپنے شوہر اور بیٹے کی طرف متوجہ تھی۔
"آج میں خود کو بہت کمزور محسوس کررہا ہںوں۔تم نے مجھے ذلیل کردیا شاہ ذر۔
آج مجھے اس حقیقت پر افسوس ہںو رہا ہںے کہ میں تمھارا باپ ہںوں۔
آج کے بعد میں سر اٹھا کے کی نہیں پاؤنگا۔"
شدید ضبط کے باوجود ایک آنسو ان کی آنکھ سے ٹوٹ کر گرا تھا۔وہ لڑکھڑائے تھے۔ شاہ ذر بے ساختہ انھیں سہارا دینے کے لئے آگے بڑھا۔
مگر انھوں نے اس کے ہاتھ کو نفرت سے جھٹک دیا اور تنفر بھری نگاہوں سے شاہ ذر کی طرف دیکھا۔
ان نگاہوں میں اس کے لئے صرف نفرت ہی تھی۔وہ سن رہ گیا۔
وہ خود کو اس ماحول میں کافی مس فٹ محسوس کررہی تھی۔ مہر اور راشد صاحب کی یہ حالت دیکھ کر اس پر لرزہ طاری ہںونے لگا تھا
۔وہ جلد از جلد اس منظر سے غائب ہںو جانا چاہتی تھی۔
بھاگ جانے کے انداز میں وہ پلٹی۔
"رک جاؤ بیٹی،کہا جا رہی ہںو اپنے مجرم کو سزا سنائے بغیر جا رہی ہںو۔"
راشد صاحب نے ٹوٹے ہںوئے لہجے میں کہا۔
جو راہ فرار چاہتی تھی سب کو اپنی طرف متوجہ پاکر پسینہ پسینہ ہںو گئی۔
می .......میں چلتی ہوں۔"
وہ بوکھلائی ہںوئی گویا ہںوئی۔
"نہیں بیٹی،اگر آج تم چلی گئی تو میں تا حیات اپنے آپ کو معاف نہیں کر پاؤنگا۔میں تمھارا مجرم ہںوں۔یہ گناہ میرے بیٹے نے کیا ہںے لیکن قصور وار میں ہںوں۔
میری پرورش میں کوئی کمی رہ گئی ہوگی جو وہ غلط روش پر چل پڑا۔
بولو کیا چاہتی ہو تم کونسی سزا مقرر کی ہںے تم نے تمھارے گنہ گار کے لئے؟" وہ ٹوٹے ہںوئے لہجے میں بولے۔
اس کا جسم ہںولے ہںولے کانپ رہا تھا۔وہ اس منظر سے غائب ہںو جانا چاہتی تھی۔
"دیکھیں میں کسی کو کوئی سزا نہیں دینا چاہتی۔ ابھی تھوڑی دیر قبل آپ جان چکے ہیں کہ میں کیا چاہتی ہںوں۔
آپ کے بیٹے سے کہیئے کہ وہ ساری دنیا کے سامنے اپنا جرم قبول کرے۔مجھ سے معافی مانگے اور مجھے میری کھوئی ہںوئی عزت و مقام واپس لوٹائے۔"
اس کی آواز کی لرزش کو ہال میں موجود تمام نفوس نے واضح طور پر محسوس کیا تھا-
"کیا اس کے ساری دنیا کے سامنے اپنا جرم قبول کرلینے سے تمہیں تمھاری کھوئی ہںوئی عزت و مقام واپس مل جائیگا؟ کیا تمھارے جاننے والے تمہیں پہلے کی طرح عزت دینے لگ جائںیگے۔
کیا وہ تمھاری کردار کشی کرنا چھوڑ دیں گے؟کیا تم دوبارہ اسی گھر میں جا کر رہ سکوگی جہاں سے تمہیں فرار ہونا پڑا تھا۔"
راشد صاحب کے سوالات سن کر وہ حیران ہوئ تھی ۔ان سوالوں میں سے کسی کا بھی جواب مثبت نہیں تھا۔وہ بخوبی واقف تھی کے شاہ ذر کے معافی مانگ لینے ،دنیا کے سامنے سارا سچ کہہ سنانے کے باوجود بھی اس کی زندگی پہلے جیسی نہیں ہوگی۔
"ٹوٹی کانچ کی کرچیاں چننے والوں کے ہاتھوں میں زخم نہ آئے یہ ممکن نہیں ہے ۔اسی طرح مجھے بھی اپنی بکھری زندگی کو پھر سے جینے کی کوشش میں تکلیفیں اٹھانی ہونگی ۔میں اپنی زندگی کیسے جیونگی یہ آپ کا درد سر نہیں ہے۔اس لیے آپ میری فکر نہ کریں۔ "
اس نے سنبھل کر کہا ۔آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھرتی جارہی تھیں۔
" تمھاری زندگی کو ٹوٹی کانچ کہ مانند بکھیر دینے والا میرا بیٹا ہے۔میں تمھاری فکر کیسے نہ کروں ۔تم نے درست کہا کہ ٹوٹی کانچ کی کرچیاں چننے کی کوشش میں ہاتھوں کا زخمی ہونا لازمی ہے مگر تمھارے ہاتھوں کے ساتھ دو اور ہاتھ وہ کرچیاں چننے میں تمھاری ساتھ دیں تو زخموں کی تعداد میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔
یا عین ممکن ہے کہ تمھارے ہاتھوں پر زخم آئیں ہی نہ گر وہ ہاتھ تمھیں کرچیاں اٹھانے سے باز رکھیں۔"
راشد صاحب کے بات پر اس نے ناسمجھنے والے انداز میں ان طرف دیکھا۔
"عالیہ بیگم آپ زرمین کو اندر لیکر جائیں میں میرے بھائیوں سے مشورہ کرکے آگے کی بات کرونگا"۔
ان کی بات پر سبھی حیران تھے۔اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی عالیہ بیگم نےکسی روبوٹ کی مانند حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسے بازو سے پکڑا وہ کسی ٹرانس میں ان کے ہمراہ ہو لی ۔
وہ ایک خوبصورت کمرے میں تقریباً 15منٹوں سے منتظر تھی کہ کوئی آئے اور اسے یہاں سے جانے کو کہے۔
کونسا مشورہ ،کونسی بات۔ راشد صاحب کیا کرنے والے تھے سوچ سوچ کر اس کا سر دکھ گیاتھا۔
تبھی دروازہ کھلا اور راشد صاحب کے ہمراہ عالیہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔
"بیٹی میں سمجھ سکتا ہوں کہ جو وقت گزر چکا ہے اسے واپس لاکر سب کچھ ٹھیک نہیں کیا جاسکتا۔
مگر جو بگڑ چکا ہے اسے بنانے کی کوشش ضرور کی جاسکتی ہے۔
اور میں تمھیں اس سماج میں تمھاری کھوئی عزت واپس لوٹانے کی ادنیٰ سی کوشش کرنا چاہتا ہوں۔
شاہ زر کی غلطی کو سدھارنے کا ایک ہی حل ہمیں نظر آیا ہےکہ تمھیں شاہ زر کے نکاح میں دے دیا جائے۔
ہم سبھی اس فیصلے سے متفق ہیں اور شاہ زر نہ کر نہیں پائے گا ۔اب فیصلہ تمھارے ہاتھوں میں ہے۔"
راشد صاحب نے نظریں جھکا کر کہا تھا ۔اسے لگا اس سے سننے میں غلطی ہوئی ہے لیکن نہیں راشد صاحب نے وہی کہا تھا جو اس کے کانوں نے سنا۔
"واہ کیا خوب انصاف کیا ہے آپ نے راشد صاحب ۔ گناہ آپ کا بیٹا کرے اور سزا میں بھگتوں۔آپ ہوش میں تو ہیں۔
بلآخر آپ نے باپ کی محبت کے آگے گھٹنے ٹیک دییے۔
کیامیں نے آپ کو متنبہ نہیں کیا تھا کہ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کیجیے گا کیونکہ میرے گناہ گار کو آپ کا بیٹا ہونے کا شرف حاصل ہے۔
مجھے معاف کہیجیےگا کہ میں یہ کہہ رہی ہوں مگر یقین جانیئے مجھے آپ کی ذہنی حالت پر شبہ ہورہا ہے۔"
وہ طنزیہ انداز میں ضبط کی آخری حدوں کو چھوتی گویا ہوئی ۔
"مجھے اندازہ ہے کہ یہ تمھارے لئے اسان نہیں ہوگا۔اس شخص سے نکاح کر لینا جو تمھارا گنہ گار ہے جس سے تم نفرت کرتی ہو،اس دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ہیں۔
مگر اس کے علاوہ کوئ اور راستہ بھی نہیں نظر آ رہا سب کچھ ٹھیک کرنے کا۔
یہ دنیا بہت ظالم ہے باالخصوص تم جیسی شریف لڑکیوں کے لئے جو اس معاشرے میں کسی مرد کے سہارے کے بغیر زندگی جی رہی ہوتی ہیں ۔
تمھیں ایک گھر کی ضرورت ہے۔ تحفظ کی ضرورت ہے۔اور میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا تمہیں یہ سب دے وہ تمھاری شیلڈ بنے۔تمھاری زندگی میں طوفان لانے کا ذمہ دار شاہ زر ہے ۔
میں چاہتا ہوں تمھاری زندگی میں سکون و عزت لانے کا باعث بھی وہی بنے ۔تم اسے آوارہ ،عیاش ہی کیوں نہ سمجھتی ہو مگر اس کے کردار کی پختگی کی گواہ تم خود ہو ۔
وہ جیسا بھی ہے بر کردار نہیں ہے ۔اور کردار کی پختگی اور پاکیزگی ہی تو شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔انسان غصے میں جانور بن جاتا ہے اور کچھ ناقابل تلافی غلطیاں کر جاتا ہے۔اود اس نے بھی یہی کیا۔خیر فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے۔مجھے اس کی غلطی سدھارنے کا ایک موقع دے دو ۔خدارا مان جاؤ بیٹی۔"
اور اپنی بات کے آخر میں وہ اس کے سامنے گھٹنوں پر بیٹھ گئے۔
شہر کا مشہور معزز ترین شخص اس کے سامنے گھٹنوں پر بیٹھا منت کررہا تھا۔اسوقت پتہ نہیں کیوں اسے خود پر بہت شرم آئ تھی۔
اسے لگا وہ اس دنیا کی سب سے بری لڑکی ہے۔خود پر ہوئی ساری زیادتیاں اسے بھول گئیں۔وہ اپنا غم بھول گئی۔
اس وقت وہ بس اس شخص کا درد محسوس کررہی تھی۔ان کے ساتھ کھڑی بے بسی کی انتہاؤں کو چھوتی اس عورت کے صبر کی شدت کو محسوس کر رہی تھی۔ جو اپنے شوہر کو گھٹنوں پر بیٹھے منت کرتے دیکھ رہی تھی۔
"میں نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں"۔
اس نے خود کو بولتے ہوئے سنا۔
راشد صاحب کھڑے ہوگیے ان کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا۔
" اللہ تمہیں اس کا اجر دےگا بیٹی"۔
اس کے سر پردست شفقت رکھکر وہ کمرے سے باہر نکل گیے۔عالیہ بیگم نے ان کی تقلید کی تھی۔وہ ساکت کھڑی یہ سوچ رہی تھی کہ یہ سارا شہر ان کے طلسم میں کیوں گرفتار تھا۔
ان کے الفاظ کا جا دو ان کی شخصیت کا رعب آپ کو کب اپنے حصار میں لے لیتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا ۔
حواسوں میں آتے ہںی اس نے اس کشادہ کمرے کا دروازہ بند کیا اور اسی دروازے سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھ گئ۔
آنسو بند توڑ کر نکلے پانی کی طرح بہنے لگے۔اس نے منہ پر ہاتھ رکھکر اپنی ہچکی کی آواز کو روکا تھا۔
وہ رونا نہیں چاہتی تھی پھر بھی رو رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسے خوش ہو نا چاہںیے یا رونا چاہہے۔
وہ یہ سب سوچ کر یہاں نہیں آئی تھی۔ سب کچھ بہت جلدی جلدی ہو رہا تھا۔
اس نے صحیح فیصلہ کیا تھا اسے گھر کی ضرورت تھی۔ تحفظ کی ضرورت تھی۔ اور اس گھر میں رہ کر اسے یہ سب کچھ مل سکتا تھا-
ویسے بھی یہ شادی شادی نہیں ہے ایک معاہدہ ہے۔
اسے بس اپنے انتقام سے سروکار ہونا چاہیے۔شاہ زر کی زندگی عذاب بنانے کے لیئے اس کی زندگی کا حصہ بننا ضروری ہے۔"
مہر وہ کیا سوچے گی۔میں اپنی ہی محسن کے گھر میں آگ لگانے چکی آئی۔"
دل کے کسی کو نے سے آواز آئی تھی۔
"وہ ایسا کیوں سوچے گی۔ اس نے تو مجھے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کو کہا تھا ۔اپنی جنگ لڑنے کے لیے اکسایا تھا۔میرا گنہ گار اس کا بھائی نکل آیا تو کیا اس کے خیالات بدل جائیں گے۔کیا اب میں اس کے لئے مظلوم نہیں رہونگی۔
مگر میں یہ سب کیوں سوچے جا رہی ہوں میری زندگی کا ایک ہی مقصد ہےشاہ زر سے انتقام لینا اور اب میں اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہے سکتی ۔
پتہ نہیں یہ میری غلطی تھی یا اسکی جو اس نے کبھی مجھے اپنے بھائی کا نام نہیں بتایا اور میں کبھی اپنے مجرم کا نام اپنی زبان پر نہ لائ۔
یاشاید غلطی کسی کی نہیں تھی بس تقدیر کا کھیل تھا ۔
گر مجھے پتہ چل جاتا کہ اس کا شاہ زر سے کیا رشتہ ہےتو یقینا میں اس کے احسانات قبول نہ کرتی اور اگر اسے پتہ چل جاتا کہ میرا شاہ زر
کے ساتھ کیا رشتہ ہےتو شاید وہ مجھ پر احسان کرتی ہی نہیں۔
جب تک مجھے تسکین نہیں مل جاتی کہ میں نے شاہ زر کو اس کے گناہ کی سزا دے دی ہے تب تک مجھے اس گھر میں رہنا ہی ہوگا۔"
اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کو سختی سے پونچھ ڈالا دل اور دماغ کی جنگ میں دماغ کو فتح حاصل ہوئ ۔
دل کا سرمایہ غم دل کی حفاظت میں رہے
گھر کے سامان کو باہر نہیں رکھا جاتا
***
"What the hell are you talking about.
میرا نکاح وہ بھی اس لڑکی کے ساتھ،یہ کبھی نہیں ہو سکتا ۔never ever
بھائ اگر آپ سب نے مجھے فورس کرنے کی کوشش کی تو I swear میں اس آفت کی جڑ کو جان سےماردونگا ۔"
وہ جنونی انداز میں چیخا ۔
اس سے قبل کہ اشعر کچھ کہتا راشد صاحب کمرے میں داخل ہوئے تھے۔
"اشعر اس سے کہو کہ ہال میں آکر نکاح نامہ پر دستخط کرئے۔قاضی صاحب آچکے ہیں۔"
اپنی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ اتنی آسانی سے انھیں کرتا دیکھ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکا۔
"کیا سوچ رہے ہںو برخوردار،اتنا سوچ بچار اس لڑکی کو ذلیل کرنے سے پہلے کرتے تو آج صورت حال مختلف ہںوتی۔
you made the mess you clean it up.
اپنی ذمہ داری نبھاؤ اس لڑکی کو اس کا کھویا مقام واپس لوٹاؤ۔
سنو شاہ زر میں تمھاری نہ نہیں سننا چاہتا۔اگر تم نے نکاح کرنے سے انکار کیا تو میں تمہیں اس گھر سے ،جائیداد سے بے دخل کردونگا۔"
ان کے چہرے پر چٹانوں کی سی سختی تھی۔اس نے بے یقینی سے ان کی طرف دیکھا تھا ۔ایک اجنبی لڑکی کی خاطر وہ اپنے بیٹے کو گھر سے نکال باہر کرنے کو تیار تھا۔اس کا دل پکے پھوڑے کہ مانند دکھا تھا
۔وہ چپ چاپ ہال میں پہنچا تھا۔ اپنے عین مقابل صوفہ پر اس کو براجمان دیکھ کر اس کا خون جوش مارنے لگا۔
اس نے اپنی نگاہیں پھیر لیں۔نہ جانے قاضی صاحب کیا کچھ پڑھے جا رہے تھے وہ چونکا تو تب تھا جب قاضی صاحب نے دوسری بار یہ جملہ دوہرایا تھا۔
"جناب شاہ ذر آفریدی کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہںے؟"
اس کی بے ساختہ نگاہ راشد صاحب کی طرف اٹھی تھی لیکن ان کی نگاہیں فرش پرثبت تھیں۔
"جی،قبول ہںے۔"اس نے بددقت تمام یہ تین لفظ ادا کئے تھے۔ عالیہ بیگم کے سوائےگھر کی سبھی خواتین کمروں میں دبک گئی تھیں اور مرد حضرات اس اچانک وحیران کن صورت حال سے بچنے کے لیے آفریدی ولا سے باہر ہو لیے تھے۔
اس کے بر عکس زرمین نے بڑے آرام سے قبول ہے کہہ کر کاغذات پر دستخط گھسیٹے،اور اس کمرے کی طرف چل دی تھی جہاں وہ گزشتہ آدھے گھنٹے سے بیٹھی ہوئی تھی۔
شاہ زر نے ایک قہر آلود نگاہ اس کی پشت پر ڈالی۔اس سے قبل اپنے ہںی گھر میں اسگ اس قدر گھٹن کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
وہ اس ماحول سے نکل جانا چاہتا تھا۔اس سے قبل کہ وہ باہر کی طرف قدم بڑھاتا راشد صاحب نے اسے کندھے سے تھام لیا تھا۔
"عقد کا مطلب سمجھتے ہںو تم۔it means Transfer of responsibilities.وہ ساری زمہ داریاں جو اب تک اس لڑکی کے بڑے اٹھاتے رہے ہیں ۔وہ آج سے تمھاری ہوئیں۔
وہ تمھاری بیوی ہںے اور اس گھر کی بہو ہںے اسے اتنی ہی عزت و اہمیت ملنی چاہیے جس کی وہ حقدار ہںے۔اسے تکلیف پہنچانے کا خیال بھی اپنے دل میں مت لانا۔"
راشد صاحب نے حکمیہ انداز میں کہا اور وہ جو ضبط کی انتہاؤں پر تھا بنا مڑے گھر کی چوکھٹ عبور کر گیا۔
زمین پر تدبیر کرکے انتقام لینے والے لوگوں نے آسمان والے کی تدبیر سے شکست کھائی تھی۔اور بے شک وہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
****
وہ رات کے دو بجے کے قریب تھکا ہارا اپنے کمرے میں داخل ہںوا تھا۔
روم کی سبھی لائیٹس بجھی ہںوئی تھیں اور وہ بڑے استحاق سے اس کے بیڈ پر دراز خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہی تھی۔غم کے بوجھ تلے دبا غصہ ایک بار پھر جوش مارنا لگا۔
"میرےبیڈسےنیچےاترو،ابھی۔"وہ دھاڑا۔
"مسٹر شاہ زر آفریدی ،مسز شاہ زر آفریدی ہںونے کی حیثیت سے اس کمرے کی ہر ایک یک شے پر میرا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ تمھارا۔اس لیئے میں نے یہ فیصلہ لیا ہںے کہ آج سے تم صوفے پر سوؤگے اور میں بیڈ پر"۔
کمال اطمینان سے اس نے جمائی روکتے ہوئے کہا۔اس کی بات پر وہ جارہانہ انداز میں آگے بڑھا غالباً اسے بیڈ سے اٹھاکر نیچے پھینکنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
"اور میری نہایت اہم شرط ذہن نشین کرلو،اس کمرے میں تمہیں مجھ سے چھ قدم کی دوری پر رہنا ہںوگا،ہمیشہ۔
یوں تو چار قدم بھی ٹھیک تھے مگر اس کمرے کی کشادگی کو دمد نظر رکھتے ہوئے میں نے چھ قدم متعین کئیے ہیں۔
تمہیں جو کچھ بھی کہنا ہںے چھ قدم کے فاصلے پر رہ کر کہو میں سن رہی ہںوں۔"
اس نے اپنی سمت بڑھتے ہںوئے اس کے قدموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
"میرے گھر میں ہوتے ہوئے میرے کمرے میں رہ کر تم مجھے آرڈر دے رہی ہوں ۔شرائط عائد کر رہی ہو۔ یہ تمھاری خوش فہمی ہے کہ میں انہیں فولو کرونگا ۔
آسمان کی سیر ختم ہوئی میڈم زمین پر آ جاؤ۔اپنی اوقات میں رہو۔"
اس نے کمال ضبط سے کہا تھا ۔
اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس خرافاتی لڑکی کو کھڑکی سے باہر پھینک دے۔
۔
"ڈیڈی،ڈیڈی۔" اچانک اس کے زور زور سے چیخنے پر شاہ زر نے ناسمجھی کے عالم میں اس کی طرف دیکھا۔
ڈیڈ یہاں تمھارے ڈیڈ کون ہیں؟
وہ متعجب گویا ہںوا۔چند ہی سیکینڈس گزرے تھے کہ راشد صاحب اور عالیہ بیگم اس کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔
"کیا ہںوا،بیٹی تم چینخی کیوں؟"
",وہ....وہ....."اس نے قصداً اپنی بات ادھوری چھوڑ کر شاہ زر کی طرف دیکھا تھا۔اس کی نظروں کے تعاقب میں راشد صاحب نے ملامتی نظروں سے شاہ زر کی سمت دیکھا۔اس سے قبل کہ وہ اس کی ادھوری بات کا نامعلوم کونسا مفہوم اخذ کرتے۔وہ بول پڑی۔
"وہ چھپکلی تھی۔چپھکلیوں سے مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔اس لئے بے ساختگی میں آپ کو پکار بیٹھی ۔مجھے معاف کیجئے گا میری وجہ سے آپ ڈسٹرب ہوئے۔"
اس نے مسکین شکل بناتے ہوئے کہا۔
" کوئی بات نہیں بیٹی تمھیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ہمیں بے جھجھک کہہ سکتی ہو۔اب سو جاؤ رات بہت ہو گئ ہے"۔
اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئے۔شاہزر کے اوپر ایک نگاہ ڈالے بغیر۔
اس کا دل کٹ کر رہ گیا۔غلطی اس کی تھی وہ دروازہ مقفل کرنا بھول گیا تھا۔ دروازہ بند ہوتا تو اس کی چیخ کی آواز باہر نہیں جاتی۔
" کیا پوچھ رہے تھے تم یہاں میرے ڈیڈ کون ہیں ۔کیا تمھیں کچھ دیر قبل کہی میرے حقوق والی بات سمجھ نہیں آئی ۔تمھارے ڈیڈ ہی اب میرے ڈیڈ ہیں۔اب سمجھ آئی تمھیں میری اوقات ۔اس گھر میں فی الحال میری اوقات تم سے زیادہ ہے۔"
وہ کمال اطمینان سے دروازہ بند کرتے ہوئے بولی۔
"رات کے دو بجے چیخ کر سب کو اپنی طرف متوجہ کرکے تم کیا ثابت کرنا چاہتی ہو۔تم نے یہ چیپ حرکت کیوں کی کیا؟ سوچتے ہونگے ڈیڈ میرے متعلق"
اس کی آواز صدمہ سے بھاری ہوئی تھی۔
" میں کچھ ثابت نہیں کرنا چاہتی ہوں بس تمھارے گھر والوں کی نظروں میں تمھیں ذلیل کرنا چاہتی ہو۔
وہ یہی سوچ رہے ہونگے کہ تم نے اپنی نئ نویلی دلہن پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی ہوگی اور وہ بے چاری مظلوم مدد کے لیے چیخی ہوگی۔"
اس نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے ڈرامائی انداز میں کہا۔
" تم میری توقع سے زیادہ شاتر ہو ۔اگر میری صلاح مانو تم اپنا خرافاتی دماغ دوڑانہ بند کردو ورنہ تم بہت پچھتاؤگی۔"
وہ زہر خند لہجے میں بولتابستر سے تکیہ اٹھاتا ہوا صوفے کی سمت بڑھا تھا۔ تکیہ پر سر رکھتے ہی اسے نمی کا احساس ہوا اس نےنا سمجھنے والے انداز میں تکیہ کو سر کے نیچے سے نکال کر آنکھیں سکیڑے دیکھا ۔آدھی تکیہ نم تھی اس نے سر جھٹکا اور تکیہ پلٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔
"سو جاؤ شاہ زر ممکن ہے کہ یہ سب بس ایک خواب ہو۔ کل صبح جب تمھاری آنکھ کھلے سب کچھ پہلے جیسا ہو ۔"
اس نے جیسے خود کو دلاسہ دیا ۔
وہ دونوں اس رات سو نہ سکے ایک دوسرے سے لاتعلق وہ دونوں جاگتے رہے تھے ۔رات دھیرے دھیرے گزرتی جا رہی تھی۔
***
اگلی صبح فجر کے وقت باتھ روم سے آتی پانی کی آواز نے اسے جگا دیا تھا۔
وہ کچی نیند سوتا تھا زرا سی آہٹ پر اس آنکھ کھل جایا کرتی تھی۔
تھوڑی دیر بعد وہ گیلے چہرے کے ساتھ واش روم سے نکلی تھی۔بغیر کمرے کی لائٹس جلائے وہ جاء نماز بچھا کر نماز پڑھنے کے لیے کھڑی ہوگئی۔وہ اسی لباس میں ملبوس تھی جسے پہن کر گزشتہ روز وہ اس گھر میں آئ تھی۔
اسنے نفرت سے اپنا رخ موڑ لیا اور ایک بار پھر سونے کی کوشش کرنے لگا۔
دوسری دفعہ جب اس کی آنکھ کھلی گھڑی کی سوئیاں ساڑھے سات بجنے کا سندیسہ دے رہی تھی۔بستر کھالی تھا وہ کمرے میں نہیں تھی۔اس نے سکون کی سانس لی اور فریش ہوکر ڈائنگ ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا۔
" مام ،میرا بریک فاسٹ"۔
وہ باآواز بلند کچن کی سمت دیکھ کر بولا۔کچھ دیر بعد جب کچن سے کوئی جواب موصول نہ ہوا وہ چیخ اٹھا۔
". رشیدہ بوا میرا بریک فاسٹ کہاں ہے ۔کیا کسی کو میری آواز سنائ نہیں دے رہی".
اس کی چیخ پر رشیدہ بوکھلائ ہوئی کچن سے برآمد ہوئیں۔
" وہ شاہ زر بیٹا اس گھر میں کسی کو بھی آپ کے لیے ناشتہ سرو کرنے کی اجازت نہیں ہے۔"
وہ ہانپتے ہوئے بولیں۔
"سوائے میرے "
وہ ناشتے کی ٹرے ہاتھون میں اٹھائے بڑے ہی ناز سے چلتی ہوئی اس کے نزدیک آکر رک گئی۔
"What ?
یہ کیا بکواس ہے ۔کس
نے بنایا ہے یہ واحیات رول؟اب کیا میرے اتنے برے دن آگئے ہیں جو میں تمھارے ہاتھوں سے سرو کیا ہوا کھانا کھاؤنگا۔
It's impossible."
وہ دہاڑاتھا۔اس سے قبل کہ وہ اپنے سامنے رکھی ٹرے کو پھینک دیتا راشد صاحب بالائی منزل کی سیڑھیاں اترتے ہوئے دکھائی دیئے۔
"میں نے بنایا ہے یہ واحیات قانون ۔آج سے تمھیں بریک فاسٹ ہو ،لنچ یا ڈنر تمھاری بیوی سرو کرےگی ۔ اس گھر کے کسی اور فرد کو اس کی اجازت نہیں ہے۔ اور بلا چوں چراں کہ تمھیں اسے نوش فرمانا ہوگا۔شکر مناؤ کہ آج تمھیں یہ نصیب ہو رہا ہے کل سے اگر ٹھیک ساڑھے سات بجے تم ٹیبل پر نہ پہنچے تو یہ بھی نصیب نہیں ہوگا۔"
ان کی بات سنکر وہ تعجب کے مارے کھڑا ہوگیا وہ اپنی بات کہہ کر باہر نکل گئےاور وہ سیدھے کچن میں آیا تھا۔
"ممی ،آنٹی یہ سب کیا ہو رہا ہے ۔اور کتنی انسلٹ کرینگے ڈیڈ میری۔کل جو کچھ ہوا کافی نہیں تھا جو اب دو وقت کا کھانا بھی مجھ پر حرام کیا جا رہا ہے۔"
وہ ضبط سے بولا مگر عالیہ بیگم اور راحت بیگم اپنے اپنے کاموں میں یوں مصروف رہیں جیسے اس کی بات سن نہ سکی ہوں۔
"
ممی میں آپ سے مخاطب ہوں آپ جواب کیوں نہیں دے رہی ہیں۔"
اس نے عالیہ بیگم کا رخ اپنی سمت کیا تھا۔
" شاہ زر اپنی ممی کو تنگ مت کرو۔ وہ تم سے بات نہیں کرنا چاہتی ۔اس گھر کا کوئی بھی فرد تم سے بات نہیں کرنا چاہتا ۔پلہز کچن کے باہر چلے جاؤ اور جیسا تمھارے ڈیڈ کہہ رہے ہیں ویسا کرو" ۔
عالیہ بیگم کہ بجائے راحت بیگم کی طرف سے جواب آیا تھا وہ ششدر رہ گیا۔کیا یہ وہی راحت آنٹی تھیں جو اس کہ خاطر اس کی ممی سے تک لڑ جایا کرتی تھی۔کس قدر سفاکی سے انہوں نے یہ جملے ادا کیے تھے۔اسے ساکت چھوڑ وہ دونوں کچن سے باہر نکل گئیں۔
"کیا واقعی تم بریک فاسٹ نہیں کرنا چاہتے۔کیا میں اسے واپس رکھ دوں"؟
زرمین ناشتے کی ٹرے ہاتھوں میں اٹھائے کچن میں داخل ہوئی۔وہ مسکرا رہی تھی کچن میں اس کے اور اس گھر کی خواتین کے مابین ہوئ گفتگو کو وہ بخوبی سن چکی تھی۔
اپنے سامنے اس صورتحال کی حال کی وجہ کو دیکھ اس کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا لان میں چلا آیا لمبی لمبی سانسیں لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کی ۔
اس کا دم گھٹتا محسوس ہورہا تھا اپنے ہی گھر کے اس ماحول میں۔وہ بائیک لےکر اس گھر سے دور نکل گیا۔
**
وہ کچن میں داخل ہوئی تو عالیہ بیگم اور راحت بیگم کو کچن میں کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ ملازمین کو ہدایات دینے میں مصروف پایا۔وہ تذبذب کے عالم میں آگے بڑھی۔
"آنٹی کیا میں کچھ مدد کروادوں۔"
اس نے دھیمی آواز میں استفسار کیا۔
"ارے نہیں بیٹی اتنے ملازموں کے ہوتے ہوئے ہمیں مدد کی ضرورت پیش آسکتی ہے بھلا۔تم ایسا کرو سب کے ساتھ بیٹھ باتیں کرو سب سے گھلنے ملنے کی کوشش کرو۔"
راحت بیگم مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئیں۔عالیہ بیگم نے اس کی طرف متوجہ ہونا ضروری نہیں سمجھا تھا۔اسے محسوس ہوا جیسے انھیں اس کا کچن میں آنا ناگوار گزرا ہو۔آنسوؤں کا گولہ نگلتی ہوئی وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ اسے یقین تھاوہ اس گھر میں کبھی ایڈجسٹ نہیں ہوپائے گی۔اس کی اہم وجہ تھی آفریدی ولا کے مکینوں کے دل میں دبی نفرت۔وہ لوگ اس سے نفرت کرتے تھے۔اور کیو نا کرتے وہ اس شخص کی زندگی میں زبردستی گھس آئی تھی جس سے وہ لوگ بے انتہا محبت کرتے تھے۔وہ یہاں شاہزر کی زندگی مشکل بنانے آئی تھی مگر اس گھر میں اس کا ہر ایک منٹ بھاری گزر رہا تھا۔جن ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اس نے نکاح نامے پر دستخط کیے تھے ان ارادوں کی تکمیل کرنا ناممکن معلوم ہو رہا تھا۔
وہ واقف تھی کہ جب تک وہ اپنا انتقام نہیں لے لیتی اسے اس گھر میں رہنا ہوگا اور یہ آسان نہ ہوگا۔
باوجود اسکے پتہ نہیں کیوں اس کی آنکھوں میں بار بار آنسو آجاتے تھے۔کچھ دیر تک آنسوؤں کو بے دریغ بہا لینے کے بعد وہ لان میں چلی آئی تھی۔لان کی نرم نرم گھاس پر پیروں کو رکھتے ہی ایک طمانیت کس احساس اس کے جسم میں دوڑ گیا۔ابھی وہ چند ہی قدم چلی تھی کہ اس کی نگاہ لان کے جھولے پر بیٹھی مہر پر پڑی ۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی جھولے کے نزدیک آئی تھی۔اسکی موجودگی محسوس کرلینے کے باوجود مہر نے اپنا سر نہ اٹھایا اور اسمارٹ فون کی اسکرین پر انگلی گھماتی رہی۔
اپنی ساری ہمت اکٹھا کر زرمین نے لب کھولے۔
"مہر ،....میرا مطلب ہے مزنی..... میں.۔۔۔۔تم......مجھے یقین ہے تم مجھ سے ۔ ۔۔۔۔خفا ہوگی۔۔۔۔۔۔مگر ۔۔۔یقین جانو مجھے علم نہیں تھا کہ۔۔۔۔۔تم ۔۔۔۔وہ تمھارا۔۔۔۔بھائ۔۔۔۔۔تمھارا گھر۔۔۔۔۔اس نے نامکمل جملوں کے زریعے اپنی بات کہنی چاہی ۔وہ جو کہنا چاہ رہی تھی گھبراہٹ و شرمندگی کے مارے کہہ نہیں پارہی تھی۔اس کے سامنے بیٹھی ہوئی لڑکی مہر نہیں مزنی تھی۔ اسے اس گھر میں سب یہی بلاتے تھے۔
وہ اس سے اپنے دل کی بات نہیں کر سکتی تھی جیسے مہر سے کیا کرتی تھی۔ تب وہ مزنی نہیں تھی شاہزر کی بہن نہیں تھی۔
اپنے ٹوٹے پھوٹے جملوں کو ادا کرنے کے بعد اس نے بےبسی سے مہر کے چہرے پر نگاہیں مرکوز کیں۔اس کا چہرہ کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری تھا۔وہ اپنی نشست سےاٹھی اور اس کے قریب سے ہوتی ہوئی نکل گئ اس کا بازو اس کے بازو سے مس ہوا تھا۔ وہ جھٹکا کھاکر دو قدم پیچھے ہوئ تھی۔ جھٹکا بازو کے ٹکراؤ کے باعث نہیں دل کے ٹوٹنے کی وجہ سے لگا تھا۔ وہ بے جان وجود کی طرح لان کی گھاس پر بیٹھ گئی۔اس کی نظروں نے دور تک مزنی کی پشت کا پیچھا کیا تھا۔
پرائے پن کی اس وسیع وعریض دنیا میں
یہ خوشی کی بات ہے کہ دکھ اپنا ہے
**