زرمین کو بلاخر مہر کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی تھی۔شروعات میں مہر اسے کافی عجیب شخصیت کی مالک معلوم ہںو تی تھی ۔
مگر جیسے جیسے اس کی ہمراہی میں وقت گزرتا گیا۔ اسے یہ احساس ہوا تھا کہ مہر نہایت ہی مخلص لڑکی ہںے جو محض پیار باٹنا اور حق جتانا جانتی تھی۔
بقول مہر کہ اپنی بات منوانے کا یہ نہایت ہی کامیاب نسخہ ہںے کہ دوسرے پر اپنا حق جتا کر اپنی مرضی تھوپ دو۔
جسے وہ ہمیشہ استعمال کرتی آئی تھی۔اس کے ساتھ بھی مہر نے یہی کیا تھا۔
مہر اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔اس کا تعلق کسی رئیس گھرانے سے تھالیکن گھمنڈ اسے چھو کر نہیں گزرا تھا۔
وہ ہمہ وقت اس کا من بہلانے کے لیے اپنے گھر والوں کی باتیں کیا کرتی تھی جسے وہ غائب دماغی سے سنتی تھی۔
زندگی ایک ہںی ڈھب پر گزرتی جا رہی تھی۔
اداس و سوگوار۔
***
جس دن سے زرمین اس کے ساتھ رہنے پر آمادہ ہوئی تھی۔اس روز سے اس کی یہی کوشش رہتی تھی کہ زرمین نارمل ہںو جائے۔
مگر اس کی کاوشوں کا کوئی خاص نتیجہ حاصل نہیں ہںو پا رہا تھا۔
وہ گھنٹوں اندھیرے میں بیٹھی رہتی،لمبی لمبی نمازیں ادا کرتی،دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے ہںی شدتوں سے رو پڑتی،ہاسٹل کی چار دیواری سے باہر نکلنے کے تصور سے گھبرا جاتی،راتوں کو چیخ کر اٹھ جاتی۔مہر زرمین کی اس حالت کو لے کر از حدپریشان تھی اور اسی طرح ایک ہفتہ گزر گیا۔
وہ جوں ہی روم میں داخل ہوئی زرمین اسکی توقع کے عین مطابق عشاء کی نماز ادا کررہی تھی۔
پچھلے آدھے گھنٹے سے اس کی نماز ختم ہو کے نہیں دے رہی تھی۔وہ بیڈ کے کنارے ٹک کر اس کی نماز ختم ہو نے کا انتظار کرنے لگی۔
سلام پھیر کر زرمین اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
مہر اس کے نزدیک جائے نماز پر دوزانو ہوکر بیٹھ گئ اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی۔
" tell me every thing about you.
میں اس راز کے متعلق جاننا چاہتی ہںوں جو تمہارے سینے میں دفن ہںے۔اس غم کے متعلق جاننا چاہتی ہںوں جو ہمہ وقت آنسو بن تمھاری آنکھوں سے بہتا ہںے۔
مجھے بتاؤں زرمین،خود کو اندر ہی اندر مت مارو۔ایسا کیا ہںوا ہںے جو تم اس حالت کو پہنچی ہںو۔"
مہر کی بات پر اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا اور کھڑی ہںو گئی۔اس سے قبل کہ وہ آگے بڑھتی مہر نے دوبارہ اس کا ہاتھ تھام لیا۔
"آج نہیں زرمین،گذشتہ ایک ہفتے سے تم مجھے ٹال رہی ہںو۔مگر اب بہت ہںو گیا۔اگر تم نے مجھے اپنی دوست مانا ہںے تو مجھے سب سچ سچ بتادو۔"
اسنے بے بسی سے اس لڑکی کی طرف دیکھا جسے نا کہنا ناممکن تھا۔اس نے بلاخر اپنی زندگی کی کتاب مہر کے سامنے کھول کر رکھ دی۔
"مجھے تو یہ بھی علم نہیں کہ دائی ماں کونسے ہاسپٹل میں ہںے۔میں چاہوں تو زینت بھابھی سے رابطہ کرکے معلوم کرسکتی ہںوں مگر مجھے ان سے شرم آتی ہے۔ اس زندگی میں دوبارہ کبھی میں ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔"
ہچکیوں کے درمیان وہ بولی تھی۔مہر نے ایک ٹھنڈی سانس لی ۔
"اگر میری نظر سے دیکھا جائے تو محض سگنل توڑنے اور نو پارکنگ زون میں گاڑی پارک کرنے پر کسی کی خبر اخبار میں شائع کروا رینا بےوقوفی ہںے۔ایسا کرکے تم نے جذباتیت کا مظاہرہ کیا ہے۔یہ سب تو اس ملک کی سڑکوں پر دن میں ہزاروں بار ہوتا ہے ۔ بلخصوص رئیس زادے ہی کیوں عام لوگ بھی قانون کی پرواہ نہیں کرتے اور یہی سب کرتے ہیں۔
خیر تمہیں سمجھنا چاہیے تھا کہ اکیلی تم اس ملک کو نہیں بدل سکتی۔
لیکن ہاں نشے کی حالت میں گاڑی چلاکر کسی کو ہاسپٹل پہنچانے والے کو سزا ملنی ہی چاہیے تھی۔ تم نے ایسا کرکے بلکل ٹھیک کیا۔
مگر اس شخص نے تمھیں کڈناپ کرکے تمھارے ساتھ زیادتی کی ہے۔
تم دونوں کےایک گھنٹے میں سب سے بڑا فرق تم دونوں کی صنف کا تھا۔کسی لڑکے کا ایک گھنٹہ جو اس نےجیل میں گزارا ہو اور کسی لڑکی کا ایک گھنٹہ جو اس نے کسی کڈناپر کے ساتھ گزارا ہو برابر نہیں ہوسکتے ۔
اس کا انتقام ایکول نہیں تھا ۔اس نے تمھارے لڑکی ہونے کا فائدہ اٹھا یا ہے۔
خیر اس سارے میں شکر کرنے والی بات بھی ہے ۔وہ یہ ہے کہ تم پاک دامن ہو۔دنیا چاہے جو کہہ لے تم تو جانتی ہو نا کہ تم پاک دامن ہو۔تمھیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کچھ برا نہیں ہوا۔تم ایک جرنلسٹ ہو ۔ایک بہادر جرنلسٹ ۔ہمت سے کام لو بی بریو ۔
تمھاری دائی ماں ابھی زندہ ہیں۔ وہ ٹھیک ہو جائیں گی ۔انھیں ٹھیک ہونا ہوگا تمھارے لئے۔
تمھارے برعکس کچھ لڑکیوں کی عزت چند لمحوں میں نیلام ہو جاتی ہے ۔انہیں کڈناپ کرنے والے پاک دامن واپس نہیں چھوڑتے۔ باوجود اس کے وہ لڑکیاں تمھاری طرح اپنی بد نصیبی پر آنسو نہیں بہاتی انصاف کے لیے لڑتی ہیں۔
یادرکھنا زرمین اس دنیا میں لوگ محض دوسروں کی خوشیوں میں شریک ہونا پسند کرتے ہیں۔ ہمارے مشکل وقت میں یہ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ تمھارے آنسوؤں کی قیمت صرف تم جانتی ہو۔ یہ تمھارا درد ہے جو تمھاری آنکھوں کے راستے باہر نکل رہا ہے۔ مگر دوسروں کے لیے یہ صرف پانی ہے نمکین پانی۔
ترس نہ کھائے گا کوئی تمھاری حالت پر
تم اپنی آنکھ کبھی اشکبار مت کرنا
مہر نے شاعرانہ انداز میں اس کے آنسو کو انگلی کی پور پر اٹھاتے ہوئے کہا۔
اس کی شخصیت کی طرح دلاسہ دینے کا اس کا انداز بھی مختلف تھا۔وہ آنسوؤں کے ساتھ مسکرا دی۔
" اس طرح رو رو کر تم کسی دن ضائع ہو جاؤ گی۔کیا تم آنسو بہا بہا کر مرجانا چاہتی ہو ۔ہماری ہمت کی اصل آزمائش مرجانے میں نہیں زندہ رہنے میں ہوتی ہے۔
خودکشی کرنے والوں کو یہ دنیا بزدل کہتی حالانکہ یہ دنیا والے جانتے ہیں کہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی جان لینے کے لیے کتنی ہمت درکار ہوتی ہے۔ وہ ایسا اسیاسلیے کہتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ خود کشی کرنے والے جتنی ہمت مرتے وقت دکھاتے اتنی زندگی میں دکھاتے تو باآسانی زندگی کی پریشانیوں کو فیس کرلیتے۔
تمھیں بھی ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔اٹھو جاؤ جاکر دکھا دو اس شخص کو کہ تم کیا کر سکتی ہو۔ اسے اس کی غلطی کی سزا دو ۔بلکل پہلے والی زرمین بن جاؤ ۔ تمھیں اسی جذباتیت اور پاگل پن کی اشد ضرورت ہے جو تمھاری شخصیت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔
Now you have to give him a taste of his own medicine ."
اپنی بات ختم کر وہ چلی گئی جبکہ زرمین سوچ میں پڑ گئی۔
**
قریباً ایک ماہ لگا تھا زرمین کو زندگی کی طرف واپس آنے میں اور یہ مہر کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔
گزشتہ ایک ماہ میں ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا تھا جس دن مہر نے اسے خود پر ہوئے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے نہ اکسایا ہو۔
کچھ مہر کی باتوں کا اثر تھا تو کچھ غم کے بوجھ تلے دبے انتقام کے جذبے کا اثر کہ اس نے شاہزر کو سبق سکھانے کا عہد کیا۔
اتنا تو وہ جان چکی تھی کہ میڈیا اور قانون اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔
وہ کچھ ایسا کر جانا چاہتی تھی جس سے شاہ زر کی نجی زندگی میں طوفان آجائے۔
عجیب جنون ہے یہ انتقام کا جذبہ
شکست کھاکے وہ پانی میں زہر ڈال آیا
***
آج گرمیوں کی چھٹیوں کا دوسرا دن تھا ۔ ہاسٹل کی تقریباً لڑکیاں چھٹیوں کے لیے اپنے گھر جارہی تھیں ۔مہر بھی انہیں میں شامل تھی۔
مہر نے اس سے کہا تھا کہ وہ جب تک چاہے یہاں رہ سکتی ہے مگر اس نے انکار کردیا تھا ۔اسے بہت سے کام کرنے تھے جو وہ یہاں رہ کر انجام نہیں دے سکتی تھی۔
ان سبھی کے ساتھ وہ بھی جانے کے لیے تیار تھی۔ اس ہاسٹل میں آج اس کا آخری دن تھا۔
اپنا بیگ گھسیٹ کر کمرے سے باہر نکلتی ہوئی مہر آنسوؤں سے لبریز اس کی آنکھوں کو دیکھ مسکرا دی ۔"
" اوہ زرمین تم بھی نا حد سے زیادہ ایموشنل ہوجاتی ہو ۔ہم کونسا ہمیشہ کے لیے الگ ہو رہے ہیں۔تم جہاں کہیں بھی رہنا میرے کانٹیکٹ میں رہنا۔خدا نے چاہا تو ہم دونوں جلد ملیں گی۔"
مہر نے اسے گلے سے لگایا تھا۔
" تم بہت اچھی ہو مہر ۔میں نے تم جیسی مخلص لڑکی آج تک نہیں دیکھی ۔تم مجھے بہت یاد آؤگی۔"
اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
اور اس کی معصومانہ تعریف پر مہر کھکھلا کر ہنس دی۔
" پھر ملیں گے اپنا بہت خیال رکھنا" ۔
ایک دوسرے کو الوداع کہتی وہ دونوں الگ الگ راستوں کی طرف چل دی تھیں۔
اس بات سے بے خبر کے تقدیر انھیں بہت جلد ایک دوسرے سے ملوانے والی تھی۔
***
اسلام و علیکم میرا نام زرمین فاروقی ہے۔ پیشے سے میں جرنلسٹ ہوں۔
میں " آج کی آواز " اخبار کے لیے کام کرتی تھی۔
جناب راشد صاحب میں آپ سے نہایت ہی اہم بات کرنا چاہتی ہوں۔
کیا آپ مجھے اپنا قیمتی وقت دے سکتے ہیں۔"
ہال کے دروازے سے داخل ہوئی شخصیت کو دیکھ سبھی مرد حضرات کو جھٹکا لگا تھا۔اسے تعارف کی ضرورت نہیں تھی اس گھر کا ہر ایک فرد اسے جانتا تھا۔
راشد صاحب نے اسے صوفے پر بیٹھنے کے لیے کہا ۔صوفے پر براجمان شاہ میر اور شارق فوراً سے پہلے اپنی اپنی نشست سے اٹھ کر صوفے کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے۔اشعر ،راشد صاحب اور ماجد صاحب مقابل کے صوفے پر براجمان تھے۔
وہ دھیرے سے صوفے پر بیٹھ گئی ۔راشد صاحب کی نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔
"میں نے آپ کی بہت تعریفیں سنی ہیں کہ آپ شہر کے کئ مشہور یتیم خانوں ،
،فلاحی اداروں ،کالجوں میں old age homes میں فنڈز دیتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ عورتوں کی فلاح وبہبود ان کی امداد کرنے میں آپ پیش پیش رہتے ہیں۔"
وہ تحمل سے گویا ہوئ۔
" ان باتوں سے تمھارا کیا تعلق ہے ۔
اس حقیقت ،سے سارا شہر واقف ہے۔کیا یہ کہنے کے لیے تم یہاں آئ ہو۔اصل مدعے پر آؤ۔"
اشعر نے تیکھے چتون سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ راشد صاحب خاموش تھے۔
" سنا تو میں نے یہ بھی ہے کہ آپ صحیح اور سچ کا ساتھ دیتے ہوئے انصاف کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج میں آپ کے سامنے حاضر ہوئ ہوں۔
سنا تو میں نے بہت کچھ ہے مگر آج اپنی آنکھوں سے دیکھنے آئی ہوں ۔
یوں سمجھ لیجئے کہ میں ان اداروں کی عورتوں میں ہی سے ایک عورت ہوں جن کی امداد کرنے سے آپ پیچھے نہیں ہٹتے۔مجھے انصاف چاہیے اور آپ وہ واحد شخص ہیں جو مجھے انصاف دلا سکتے ہیں۔
میں چاہتی ہوں کہ آپ میری پوری بات سنکر جذبات کے دھارے میں نہ بہتے ہوئے غیر جانبداری سے فیصلہ کریں اور مجھے میرا کھویا ہںوا مقام واپس لو ٹائیں۔"
"بیٹا،آپ کیا کہنا چاہتی ہںو صاف صاف لفظوں میں کہو۔"
راشد صاحب کی پیشانی پر شیکنیں نمودار ہوئی تھیں۔
"میں سمجھ سکتی ہںوں کہ کسی بھی شریف باپ کے لئے یہ سب سننا شرمناک اور تکلیف دہ ہںوگا۔
مگر یہ حقیقت ہے اور آج آپ کو حقیقت کا کڑوا جام پینا ہںوگا۔اس بات سے تو آپ سبھی واقف ہںونگے کہ ایک ماہ قبل نشے کی حالت میں گاڑی چلانے اور حادثے کو انجام دینے کے جرم میں آپ کے بیٹے کو جیل ہںوئی تھی۔ اور محض ایک گھنٹہ بعد وہ جیل سے باہر تھا۔"
اس نے طنزیہ انداز میں کہا۔
"جی ہاں اس دن کو ہم کیسے بھول سکتے ہیں۔واقف تو ہم اس بات سے بھی ہںے کہ بے بنیاد ثبوت کی بنا پر وہ F.I.R تم ہی نے درج کروائی تھی۔میرا بھائی بے قصور تھا اسی لئے ایک گھنٹے بعد جیل سے باہر تھا۔
تمھیں اس کی بے گناہی کا ثبوت دینے کے ہم پابند نہیں ہیں۔
خیر یہ سب تو ایک ماہ پہلے کی بات ہںے ۔مگر آج ان سب باتوں کو دھرانے کے پیچھے تمھارا کونسا مقصد پوشیدہ ہے۔"
اشعر نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"ان باتوں کو دھرانے کے پیچھے میرا ایک ہی مقصد ہے کہ میں آپ کے بھائی کےاس گناہ کا ذکر کرنا چاہتی ہںوں جو اس نے جیل سے نکلنے کے بعد انجام دیا تھا۔
اس نے مجھے اس غلطی کی سزا دی جو میں کی ہی نہیں تھی۔آج سے ٹھیک ایک ماہ قبل آپ کے بھائی شاہ زر آفریدی نے مجھے میرے پورے محلے کے سامنے ذلیل کیا تھا۔
وہ مجھ اس ایک گھنٹے کا حساب مانگنے آیا تھا جو اس نے میری بدولت جیل میں گزارا تھا۔اس نے مجمع کے سامنے مجھے دھمکی دی کہ وہ مجھے ایک گھنٹے کی قدروقیمت کا احساس دلائے گا۔
وہ مجھ پر ثابت کرنا چاہتا تھا کہ محض ایک گھنٹے میں انسان کی حیثیت کتنی بدل سکتی ہے ایک عزت دار شخص کس قدر بے عزت ہو سکتا ہے۔
چاہے اس نے ساری عمر کتنا ہی نام کمایا ہو۔
میرے محلے کا ہر ایک فرد جو اس دن وہاں موجود تھا گواہ ہے کہ2اپریل کو سارے محلے والوں کے سامنے تماشہ کرلینے کے بعد صبح 9بجے آپ کا بیٹا جبرا مجھے اپنی کار میں بیٹھا کر اپنے ساتھ لے گیا اور ٹھیک 10 بج کر 15 منٹ پر وہ مجھے دوبارہ وہی چھوڑ گیا جہاں سے لے گیا تھا۔"
وہ سانس لینے کو روکی ۔
راشد صاحب کی نگاہیں فرش پر ثبت تھی۔اشعر دوبخود کھڑا تھا۔شاہ میر اور شارق نے اس ازحد سنجیدہ معاملہ سے باہر نکل جانے میں ہی عافیت جانی اور ہال سے غائب ہو گئے۔
"
اور وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔میرے جاننے والوں کی نظروں میں اب میں ایک بے عزت لڑکی بن چکی تھی۔
اتنا ہی نہیں کل تک جو لڑکی شریف النفس کہلاتی تھی آج اچانک بدکردار ہو گئی تھی ۔وہ لڑکی یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ اس سارے میں اس کا کیا قصور تھا ۔مگر یہ ہمارا ملک ہے یہاں ایسے معاملات میں قصور لڑکی کا ہی نکل آتا ہے۔
'اس قدر ذلت ورسوائی کے بعد بھی میری آزمائش ختم نہیں ہوئ تھی اور اس دن کے ختم ہونے سے قبل کچھ ایسے حالات رونما ہوئے کہ مجھے اپنے ہی گھر سے فرار ہونا پڑا۔"
اس نے سپاٹ لہجے میں بات ختم کی۔ اشعر اور ماجد صاحب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔راشد صاحب کو کچھ نہ کہتے پاکر وہ ایک لمبی سانس اندر کھینچ کر گویا ہوئ۔
" ارے یہ کیا آپ سب تو حد درجہ پریشان ہو گئے تو لیجئے میں آپ سب کی پریشانی کم کیے دیتی ہوں۔
ابھی جو کہانی آپ سب نے سنی ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جسے دنیا والے جانتے ہیں کہانی کا دوسرا رخ بھی ۔
جس سے میرا رب، میں اور آپ کا بیٹا واقف ہیں۔
اور وہ یہ ہے کہ اس روز میں پاک دامن واپس لوٹی تھی۔آپ کا بیٹا مجھے کسی سنسان زیر تعمیر عمارت کے ایک کمرے میں نظر بند کر کے چل دیا تھا ۔
وہ جیت گیا تھا ایک گھنٹے بعد جب میں اپنے گھر پہنچی میری زندگی بدل چکی تھی۔
خیر آپ کے سامنے یہ سارا واقعہ دوہرانے کے پیچھے میرا یہی مقصد ہے کہ میں چاہتی ہوں جو کچھ اس نے میرے ساتھ کیا ہے آپ کا بیٹاساری دنیا کے سامنے اپنا گناہ قبول کریے اور مجھ سے معافی مانگے۔
اورضرورت پڑنے پر سزا بھی کاٹے۔میں چاہتی ہوں آپ مجھے انصاف دلائیں۔"
اپنی بات ختم کرکے اسنے ٹیبل پر رکھے جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر پانی کا ایک گھونٹ بھرا تھا ۔
" یہ جھوٹ ہے شاہ زر ایسا نہیں کر سکتا۔ہم تمھاری بات پر بھروسہ کیوں کریں"۔
اشعر جیسے ہوش میں آیا تھا ۔
"یہ سچ ہے یا جھوٹ اس کی تہہ تک جانا آپ کا درد سر ہے۔ میں پولیس یا وکیل نہیں ہوں جو ثبوتوں کے ساتھ بات کرونگی ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ لوگوں کا زمیر زندہ ہے تو اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے بنا آپ لوگ راتوں کو سو نہیں پائینگے۔ میں وکٹم ہوں۔
اور مجھے انصاف صرف راشد صاحب دلا سکتے ہیں ۔اس لیے میں یہاں پر آئی ہوں۔ اگر آپ اپنے بیٹے کو بے گناہ ثابت کرنا چاہتے ہیں تو معاملے کی چھان بین کروائیں۔ اس کے بعد میں دیکھنا چاہونگی کہ ایک مظلوم عورت اور آپ کے بیٹے کے درمیان آپ کس کا انتخاب کرتے ہیں۔ انسانیت کے رشتے کا یاباپ اور بیٹے کے رشتے کا۔"
ہال میں سبھی خواتین و مرد کا مجمع لگ چکا تھا ۔
اپنی بات کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑی مگر اس کے عین مقابل ایستادہ دو شخصیات کو دیکھ وہ ساکت رہ گئی ۔
ان دونوں میں سے ایک اس کا گناہ گار تھا۔ وہ اس کے گھر میں کھڑی تھی یہاں اس کی موجودگی حیران کن نہیں تھی۔مگر دوسری شخصیت وہ یہاں کیا کر رہی تھی ۔وہ لڑکی اس کی محسن تھی۔بہت احسانات کیے تھے اس لڑکی نے اس پر ۔
وہ لڑکی اسے بہت عزیز تھی۔مگر وہ اس کے حریف کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالیں کیوں کھڑی تھی۔
" میرے ڈیڈ بزنس مین ہیں۔.....
میرے انقل اس شہر کی most influential ہستیوں میں سے ہیں.......
یوں تو میرے دو سگے بھائی ہیں مگر میں اپنے تایا زاد سے سب سے زیادہ attached ہوں.......
ہم دونوں کو دیکھکر اکثر اوقات لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں کہ ہم دونوں سگے بھائی بہن ہیں۔.........ہم دونوں کی آنکھیں بلکل ایک جیسی ہیں....
اوراس کی نظریں ان دونوں کی آنکھوں پر جم گئی۔
گہری کتھئی آنکھیں جن میں سبز رنگ گھلا معلوم ہوتا تھا ۔ہاں وہ آنکھیں بلکل ایک جیسی تھیں۔اسے لگا گزشتہ ایک ماہ سے جٹائی ہوئی ہمت ہوا میں تحلیل ہوگئی۔
اسے لگا وہ بے ہوش ہو جائے گی مگر نہیں وہ کھڑی تھی پورے ہوش وحواس کے ساتھ۔
اس نے دوسری بار انتقام لینے کی کوشش کی تھی۔ پہلی بار کی طرح دوسری بار بھی تقدیر نے اس کے منہ پر طمانچہ مارا تھا ۔
وہ اس شخص سے ہار جاتی تھی۔ ہر بار
اس دفعہ تو کھیل شروع ہونے سے قبل ہی وہ بازی ہار گئ۔
مقابل کے تاثرات بھی کچھ مختلف نہ تھے۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ دونوں اس کی بات کہاں تک سن پائے ہیں کیونکہ اس سے انہیں فرق بھی نہیں پڑتا وہ دونوں اس کی زندگی کے اس باب سے بخوبی واقف تھے۔
سنہرا رنگ ، بھورے بال ،
،کتھئ آنکھیں وہ ایک دوسرے کس قدر مشابہ تھے ۔کوئ اجنبی بھی با آسانی کہہ سکتا تھا کہ وہ دونوں بھائی بہن ہیں مگر وہ پہچان نہیں پائ تھی۔ تقدیر نے اس کے ساتھ مزاق کیا تھا۔
وہ تینوں اپنی جگہ ساکت تھی تبھی راشد صاحب اس کے نزدیک آئے تھے۔
" ہمیں اس معاملے کی تہہ تک جانے کے لیے چھان بین کی ضرورت درپیش ہو اس سے قبل خود شاہ زر سے پوچھ لیتے ہیں کہ اس نے یہ گناہ کیا ہے یا نہیں "۔
راشد صاحب کی بات سنکر وہ ششدر رہ گئ۔ اس دنیا کا کونسا چور تسلیم کرتا ہے کہ اس نے چوری کی ہے۔یہ کیسی عدالت تھی ۔جہاں مجرم سے گواہی لی جارہی تھی ۔
یہ سب وہ راشد صاحب سے نہیں کہہ پائ وہ کچھ بھی کہنے سننے کی حالت میں نہیں تھی۔
راشد صاحب دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے شاہ زر کے مقابل آ کھڑے ہوئے۔
" جنتنی دیر سے تم یہاں کھڑے ہو اس لڑکی کی باتوں کا سارا نہ سہی کچھ حصہ تو تم سن ہی چکے ہوگے۔اس نے تم پر کچھ الزام عائد کئے ہیں۔ اس لحاظ سے تم اس کے گناہ گار ثابت ہوتے ہو۔ کیا تم اس لڑکی کو جانتے ہو؟ کیا یہ لڑکی سچ کہہ رہی ہے؟"
راشد صاحب نے شاہ زر کی آنکھوں میں دیکھ کر سوال کیا۔ہال میں موجود تمام نفوس ساکت تھے۔اسوقت ہر ایک کے دل سے بس یہی دعا نکلی تھی اس کا جواب نا ہو۔وہ لڑکی جھوٹی ہو یا پھر شاہ زر جھوٹ بول دے۔،
"واقف ہیں اپنے قتل کے ہر فیصلے سے ہم
قاتل ہمارا خود بھی گواہوں کے ساتھ ہے
شاہ زر کو ہنوز خاموش کھڑا دیکھ راشد صاحب نے اپنا سوال دہرایا تھا۔
" میں تم سے پوچھ رہا ہوں کیا تم اس لڑکی کو جانتے ہو۔کیا یہ سچ کہہ رہی ہے"۔
اس وقت راشد صاحب کاروواں روواں دعاگو تھا کہ ان کے بیٹے کا جواب نفی میں ہو۔
"ہاں یہ سچ کہہ رہی ہے۔"
شاہزر نے زرمین کی سمت دیکھ کر دھماکہ کیا تھا
۔اور آج کے دن میں اسے حیرانی کا دوسرا جھٹکا لگا۔اس نے اپنا جرم قبول کر لیا تھا سب کے سامنے۔
وہ جھوٹ بول کر خود کو بچا سکتا تھا۔ پھر بھی اس نے ایسا کیوں کیا ۔
وہ دم بخود رہ گئ۔
فضاء کے سکوت کو تھپڑ کی آواز نے توڑا تھا۔راشد صاحب کا ہاتھ اٹھا اور شاہ زر کے گال پر اپنا نشان چھوڑ گیا۔
***