رمضان کے مبارک ماہ کا آخری عشرہ شروع ہوچکا تھا۔
سہری سے فارغ ہوکر وہ حسب معمول لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا تھا۔نادر نے پارٹی کی رات ہی کال کر کے اسے خوش خبری سنا دی تھی کہ زرمین نے رشتہ سے منع کردیا ہے۔یہ خبر سنکر اسے جتنی خوشی ہوئ تھی انکار کی وجہ جان کر اتنا ہی افسوس ہوا تھا۔وہ کسی کے نکاح میں ہے یہ بات زرمین نے سب سے پوشیدہ رکھی تھی۔غالباً وہ اس حقیقت کو سب سے پوشیدہ ہی رکھنا چاہتی تھی۔
ایکطرف وہ اس کے لوٹ آنے کا منتظر تھا ،پر امید تھا کہ اس کے دل میں زرمین کے لیے جو جذبات ہیں وہ اس تک پہنچ جائینگے۔اللّٰہ اس کے لیے کوئ معجزہ کر دے گا۔دوسری طرف اسے یاد رکھنا تو دور ،اس کی محبت کو محسوس کرنا تو دور وہ کسی کو یہ تک بتانے پر آمادہ نہیں تھی کہ وہ اس کے نکاح میں ہے۔
"اگر وہ کسی کو اس کے اور میرے درمیان رشتے کی حقیقت سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی ، میں اس کے لیے کوئ اہمیت ہی نہیں رکھتا تو اس نے رشتے سے انکار کیوں کیا؟وہ مجھ سے خلع کا دعوا کرسکتی تھی۔شادی کرکے اپنی زندگی میں آگے بڑھ سکتی تھی۔بقول نادر کے وہ لڑکا قابل انجنیر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش شکل بھی تھا۔اس نے انکار کیوں کیا؟کیا واقعی انکار کی وجہ دائی ماں ہی ہیں ؟
اور اگر وہ شادی سے انکار کر رہی ہے اور مجھ سے خلع کا سوال بھی نہیں کر رہی، تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ مجھ سے محبت کرنے لگی ہو۔ وہ ساری عمر میرے نام سے وابستہ رہنا چاہتی ہو ؟وہ شادی کرنا ہی نہیں چاہتی ہو۔۔۔۔۔
نہیں یہ میں کیا سوچ رہا ہوں ۔۔۔اس نے بارہا مجھ سے کہا تھا کہ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے۔۔۔۔یہ ناممکن ہے۔۔۔۔۔انکار کی وجہ کچھ اور ہوگی ۔۔۔۔۔غالباً اسے وہ شخص پسند نہیں آیا ہوگا۔۔۔
مگر دائ ماں کو وہ لڑکا پسند تھا۔۔کیا وہ اپنی پسند کو دائ ماں کی پسند پر ترجیح دے سکتی ہے۔۔۔۔۔ انکار کرکے وہ دائ ماں کے فیصلے کے خلاف کھڑی ہوگئ۔ ۔۔۔۔۔۔ایسی کون سی وجہ تھی جس نے اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبور کیا؟۔۔۔۔۔
اس کا ذہن پھر بری طرح الجھ گیا ۔دکھتے سر کے ساتھ وہ جاگنگ کے لیے نکل گیا۔
زرمین کے لیے پرپوزل آیا تھا ،اس نے انکار کر دیا تھا ۔ہوا وہی جو وہ چاہتا تھا ۔باوجود اس کے
اسے سکون نہیں مل رہا تھا۔
وہ اسکول جانے کی تیاری کر رہی تھی۔تبھی اس کی نگاہ الماری کے اندرونی خانے سے جھانک رہے لباس پر پڑی۔وہ دروازے میں پھنس گیا تھا۔اس نے الماری کا دروازہ کھولا۔
یہ وہی لباس تھا جو شاہ زر نے اس کے لیے خریدا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کرنسی نوٹوں کی گڈی رکھی تھی۔وہ دن میں کئ بار ان دونوں بے جان چیزوں کو دیکھتی تھی،چھو کر محسوس کرتی تھی۔یہ واحد چیزیں تھیں اس کے پاس جو شاہ زر سے وابستہ تھیں۔اسے دائ ماں کی نظروں سے بچا کر الماری کے اندرونی خانے میں رکھا تھا۔ جانے کیسے بےخیالی میں ڈریس کا کونا دروازے میں پھنس کر الماری کے باہر جھانک رہا تھا۔غنیمت تھی دائی ماں کی نظر اس پر نہیں پڑی تھی۔ورنہ ان کے سوالوں کے جواب دینا مشکل ہوجاتا۔وہ اس قسم کے لباس نہیں پہنتی تھی ۔اسقدر قیمتی لباس کو اس کی الماری میں پڑا دیکھ دائ ماں کے ازحد حیران ہونے کا اندیشہ تھا۔دائ ماں بخوبی واقف تھیں کہ اسے فضول خرچی قطعاً پسند نہیں تھی کجا کہ اس قسم کا لباس خریدنا۔
وہ الماری کے دروازے کو ٹھیک سے مقفل کرکے کمرے کے باہر آگئ۔
"ہائے اس نے ایسا کارنامہ کردیا مجھے تو یقین نہیں آرہا تھا اپنی سماعت پر۔میرا یقین کریں ندرت بیگم ،حمزہ انتہا سے زیادہ شریف لڑکا تھا پورے گاؤں میں اس کی برابری کا کوئ نہ تھا ۔ گاؤں والے تو اپنے لڑکوں کو شہر بھیجنے سے گریز برتتے ہیں۔ بری صحبت میں پڑ کر ان کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسے قابل بھروسہ جان کر اس کے والدین نے ہی قدم اٹھایا۔
پنج وقتہ نمازی،بڑوں کی عزت کرنے والا چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنے والا ماں باپ کے لبوں سے نکلی بات اسی لمحے پوری کرنا اس کا عین فرض تھا۔جانے شہر جاکر اتنے سونے منڈے کو کیسا بخار چڑھ گیا۔بہت بلانے کے بعد گھر آتا ہے، کسی سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتا اور تو اور پورے گاؤں میں اس کی بدتمیزی کی ہوا تب پھیلی جب اس نے اپنی بچپن کی منگیتر سے شادی سے انکار کر دیا۔اس کی ماں بے چاری تو اپنی بہن کی بیٹی کے غم میں بستر سے لگ گئ ہے۔
اس پوری کایا پلٹ کی ایک ہی وجہ منظر عام پر آئی ہے ۔شہر میں کالج جاکر عیاش رئیس زادوں کی صحبت میں پڑ گیا ہے۔
ہائے مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ یہ دولت مند والدین اپنے بچوں کی کس انداز میں تربیت کرتے ہیں کہ ان کی صحبت میں اچھا بھلا انسان بھی جانور بن جاتا ہے۔
بس روپیہ پیسہ بے دریغ خرچ کرنا، دوسرے طبقہ کے افراد کو اپنا غلام سمجھنا ،ان کا استعمال کرنا یہی ان کے محبوب مشغلے ہوتے ہیں۔والدین کی عزت کرنا تو جیسے انہیں آتا ہی نہیں ۔ کسی رشتے کے تقدس کا پاس نہیں ہوتا انہیں۔ کردار کے بہت ہلکے ہوتے ہیں یہ سارے۔خود تو بیک وقت ہزار لڑکیوں سے دوستی گانٹھ کر رکھتے ہیں حمزہ کو بھی یہی سکھا دیا ہوگا ۔اب اس نے کونسی شادی کرنی ہے۔ اب اسے شریف لڑکی تھوڑی نا بھائے گی۔ "
نسیمہ چاچی باآواز بلند گاؤں کے کسی شریف لڑکے کے اچانک بگڑ جانے کا سارا الزام شہر میں بسنے والے رئیس زادوں پر ڈال رہی تھی۔وہ خاموش نہ رہ سکی۔جانے اس سمیت نسیمہ چاچی جیسے درمیانی طبقے کے لوگ تمام دولت مند والدین کو مغرور و بے حس اور ان کی اولادوں کو عیاش اور بد تہذیب ہی کیوں سمجھتے تھے ۔
"میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتی۔مانا کہ دولت مند افراد کی اکثریت بے راہ رو ہوتی ہے۔مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہم سارے طبقے کو ایک ہی نظر سے دیکھیں۔سبھی دولت مند والدین اور ان کی اولادیں ایک سی نہیں ہوتیں۔کچھ والدین ہوتے ہیں جن کے پاس بے تحاشہ دولت ہوتے ہوئے بھی وہ مغرور نہیں ہوتے ،خدا کی ذات کو نہیں بھولتے ۔اپنے بچوں کو صحیح تربیت دیتے ہیں۔اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔ان کی تربیت میں کوئ کھوٹ نہیں ہوتا ۔ان کے بچے انسان ہوتے ہیں جانور نہیں۔کچھ رئیس زادے ایسے بھی ہوتے ہیں جو کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتے۔
طبقاتی فرق کو کوئ اہمیت نہیں دیتے۔اپنے ملازمین کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھتے ہیں جو اپنے عزیزوں کے ساتھ رکھنا پسند کرتے ہیں۔وہ رئیس زادے جنھیں دنیا تو بدتمیز کہتی ہے اپنے باپ کے سامنے کبھی منہ نہیں کھولتے۔اس کا ہر حکم بجا لاتے ہیں۔محض اپنے باپ کے کہنے پر کسی اجنبی لڑکی سے نکاح تک کر لیتے ہیں۔ساری زندگی اس ایک لڑکی کے ساتھ وفادار رہنے کو تیار رہتے ہیں۔جنھیں دنیا عیاش اور بدکردار سمجھتی ہے کسی غیر لڑکی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے ۔یہاں تک کہ ایسی لڑکی جس نے کسی امیر زادے کی تذلیل کی ہو وہ لڑکی گھنٹہ بھر اس کی دسترس میں ہو باوجود اس کے وہ اسے ہاتھ تک نہیں لگاتا ۔یوں ہوتا ہے کچھ امیر زادوں کا کردار۔ان کی شخصیت۔
اس شخص کے بگڑ جانے کے پیچھے کسی امیر زادے کا نہیں خود اس کا ہاتھ ہے۔یہ بھی تو ممکن تھا کہ وہ شہر جاکر بھی شرافت کے جامے میں رہتا اپنے جیسے لوگوں سے دوستی کرتا۔ مگر اس نے قصداً ان امیر زادوں کا انتخاب کیا جو بگڑے ہوئے تھے۔اور بس اسے وہ ساری بدتمیزیاں جو آج تک نہیں کر پایا تھا کرنے کا سرٹیفیکیٹ مل گیا۔وہ چاہے جو کر ے الزام اس کی بری صحبت پر جائے گا ۔اگر صحبت ہی انسان کو بنانے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتی تو والدین اپنے بچوں کی اچھی تربیت کے لیے تگ ودو ہی کیوں کرتے۔
ہیں کہ خدا نخواستہ ان کی اولاد بری صحبت میں پڑ بھی جائے، تب بھی وہ اس کے اثر سے بچے رہیں۔صحبت اور تربیت میں سے تربیت کا وزن زیادہ ہوتا ہے۔دوسروں کا رنگ تبھی چڑھتا ہے جب اپنا رنگ کچا ہو۔آپ اس نقطہ سے کیوں نہیں سوچتیں کہ اب تک حمزہ اچھائ کا ناٹک کررہا ہو تاکہ اسے قابل بھروسہ جان کر اسے شہر جانے کی اجازت مل جائے۔اور ہاں ممکن ہے وہ گاؤں کی ہی کسی لڑکی کے چکر میں پڑ گیا ہو۔ اور آپ سب شہر کی لڑکیوں کو کوسنے میں اپنی قوت صرف کر رہی ہیں ۔ اس شخص کے کردار کی کمزوری کے لیے اس کی بدتمیزی کے لیے، اس کی بے راہ روی کے لیے، آپ ان امیر زادوں کو کیوں کونس رہی ہیں جنھیں آپ جانتی تک نہیں ۔
"وہ جیسے بنا سانس لیے کہتی جارہی تھی۔نسیمہ چاچی کی بات سنکر جانے کیوں اسے لگا تھا وہ شاہ زر کے تعلق سے آفریدی خاندان کے تعلق سے برا کہہ رہی ہیں۔حالانکہ ایسا نہیں تھا غالباً وہ شاہ زر کے حوالے سے آفریدی خاندان کے حوالے سے کچھ زیادہ ہی obsessed ہو گئ تھی۔اس اپنے ہی جذبات اپنے ہی الفاظ پر قابو نہیں تھا۔
اس کی جذباتی تقریر کو سن کر صحن میں ایستادہ تینوں نفوس متحیر تھے۔ اس کا رویہ غیر متوقع تھے۔اس سے قبل ایمن اور نسیمہ بیگم نے اسے اسقدر غصے میں نہیں دیکھا تھا۔سب سے زیادہ حیران دائ ماں تھیں۔
ان کی چڑیا کے خیالات میں اتنی بڑی تبدیلی کب اور کیسے آگئ وہ متحیر تھیں۔پہلے تو زرمین کے خیالات امیر طبقے کے تعلق سے نسیمہ بیگم سے مختلف نہ تھے۔ اچانک کیا ہوا تھا؟ وہ ایسا کیوں کہہ رہی تھی؟
جبکہ وہ ازخود گواہ تھی کہ رئیسوں سے دشمنی مول لینے کی نتیجے میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی زندگی میں کیسا طوفان آسکتا ہے ۔
"باجی آپ اسقدر غصہ کیوں ہورہی ہیں۔بڑی بی تو بس امیر لوگوں کی حقیقت بیان کر رہی تھی ۔آپ کو غلط فہمی ہوئ ہے وہ لوگ ویسے نہیں ہوتے جیسا آپ سوچتی ہیں۔وہ لوگ تو بڑے۔۔۔
اس کے سرخ چہرے اور پھولی ہوئی سانسوں کو دیکھ ایمن نے حیرت زدہ لہجے میں کہا تھا اس کی بات مکمل بھی نہ ہو پائی تھی کہ وہ بول پڑی۔
"مجھے کوئ غلط فہمی نہیں ہوئی میں سب جانتی ہوں ۔آپ سب سے زیادہ جانتی ہوں۔میں نے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے حیوان اور اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے فرشتوں کو دیکھا ہے۔"
اس نے اپنے چہرے پر یوں ہاتھ پھیرا گویا اپنے تاثرات کو ہٹا رہی ہو۔
سب کو متحیر زدہ نگاہوں سے اپنی سمت دیکھتا پاکر وہ حویلی کی چوکھٹ عبور کر گئی۔
اس کا غصہ کا گراف اب بھی نیچے نہیں اترا تھا۔
******
دوپہر سے مزنی کچن میں گھسی تھی۔وہ افطار کے لئے کوئ خاص ڈش تیار کر رہی تھی۔وہ کھانا بنانے کے معاملے میں بلکل اناڑی تھی مگر اسے اس حقیقت کا علم نہیں تھا۔
اللّٰہ اللّٰہ کرکے افطار کے وقت دوسری ڈیشیس کے ساتھ مزنی کے ہاتھوں بنے چکن رولز بھی ڈائینگ ٹیبل تک پہنچ ہی گئے تھے۔
اذان کی آواز بلند ہوئ سبھی نے روزہ کھولا ۔سب باخبر تھے کہ کسی بھی چیز کو چکھنے سے قبل مزنی کے ہاتھوں بنے چکن رولز چکھ کر اسے داد دینا ان کا عین فرض تھا۔
ڈرتے ڈرتے سبھی لڑکوں نے لقمہ توڑا تھا۔گھر کے بڑے کمال اطمینان سے دوسرے لوازمات کے ساتھ انصاف کر رہے تھے۔مزنی کی ڈش سب سے پہلے چکھ کر اسے داد دینے کی زمہ داری بس نوجوان نسل کے کاندھوں پر تھی۔
حسب توقع چکن رولز کا ذائقہ کم از کم اس دنیا سے تعلق رکھتا معلوم نہیں ہو رہا تھا۔زین نے دو ہی لقموں میں پورا رول ختم کرکے اس کی تعریف کر منگیتر ہونے کا فریضہ انجام دیا تھا ۔باقی بچے لڑکوں کو بھی اس کی تقلید کرنا تھی ۔
اس سے قبل بھی کئ بار آفریدی ولا کی نوجوان نسل مزنی کے ہاتھوں بنے پکوانوں کا شکار ہوتے رہے تھے۔وہ اچھا کھانا نہیں بنا سکتی تھی باوجود اس کے وہ کھانا بنا کر دوسروں کو کھانے پر مجبور کیوں کرتی تھی۔اس کی وجہ تھی مزنی کی ایک انوکھی عادت۔وہ اپنا بنا کھانا چکھتی تک نہیں تھی ۔ڈش کیسی بنی ہے یہ جاننے کے لیے وہ دوسروں پر انحصار کرتی تھی۔اور جن پر وہ انحصار کرتی تھی وہ بڑے آرام سے جھوٹ بولتے آئے تھے کہ وہ اچھا ہی نہیں بلکہ بہترین کھانا بنا لیتی ہے۔جس کے نتیجے میں وہ خوش ہوکر کوئی اور نہئ ڈش ٹرائے کرنے کی ٹھان لیتی ۔یہ روایت آفریدی ولا میں تب سے رائج تھی جب مزنی 17 سال کی ہوئ تھی۔اور اس نے پہلی دفعہ کچن میں قدم رکھا تھا۔
وہ ٹکٹکی باندھے شاہ زر کو دیکھ رہی تھی ۔
اس کی رائے مزنی کے لیے دوسروں سے زیادہ اہم تھی ۔
شاہ زر نے پہلا لقمہ توڑا۔
لقمہ زبان پر رکھتے ہی رولز میں نمک کی زیادتی نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیئے۔
وہ مزنی کی سمت دیکھ محبت سے مسکرا دیا۔
اس کی یہ مسکراہٹ+ A کا سر ٹیفکیٹ تھی۔وہ فخریہ انداز میں گردن ہلاتی چکن رولز کو ہاتھ لگائے بغیر دوسرے لوازمات سے انصاف کرنے لگی۔
وہ ذائقہ چکھتے ہی اسے بہت کچھ یاد آیا تھا۔
تیکھا جوس،نمکین ٹوسٹس،اور کھٹاس بھرے پراٹھے۔
چکن رول کا نوالہ اس کی حلق میں اٹکنے لگا ۔پانی کا گھونٹ بھر کر اس نے نوالے کو حلق سے نیچے اتارا تھا۔
اس کی یاد اپنا راستہ بنا ہی لیتی تھی۔کسی بھی وقت کسی بھی پہر ۔
وہ ایمن کے ساتھ افطار کرکے فارغ ہوئ تھی۔نسیمہ چاچی اور دائی ماں اپنی ضعیف عمری اور بیماری کے چلتے روزے رکھنے سے قاصر تھیں۔
مغرب کی نماز پڑھ کر وہ قرآن شریف اٹھانے کے لیے الماری کی سمت بڑھی تھی۔تبھی ایمن دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
"ایمن تم ابھی تک گئ نہیں۔جاؤ تمھاری سانس منتظر ہونگیں۔"
اسے اپنے فون میں گھسا دیکھ وہ خفگی سے بولی۔
"ہائے باجی،چلی جاؤنگی نا۔پہلے آپ مجھے سمجھا دیں کے یہ سونا منڈا کیا کہہ رہا ہے سویرے سے خوار ہورہی ہوں اس ویڈیو کے پیچھے ایک لفظ پلے نہیں پڑ رہا۔انگریزی سے جان جاتی ہے میری۔سات جماعتیں پڑھی ہیں پر اتنی انگریزی نا سیکھ سکی کہ یہ کیا بول رہا سمجھ سکوں، لعنت ہے ایسی پڑھائی پر۔خیر آپ تو انگریزی پڑھاتی ہیں نا مجھے ترجمہ کردیں اس کا۔
ہائے اتنا سونا منڈا میں نے اپنی زندگی میں نہ دیکھا۔بہت وائرل ہوئ پڑی ہے یہ ویڈیو۔
پتہ ہے انہوں نے شیئر کی ہے یہ ویڈیو میرے ساتھ۔ کہہ رہے تھے یہ منڈا جو کچھ کہہ رہا ہے اپنی بیوی کے لیے ،میرے جذبات بھی تیرے لیے بلکل ویسے ہی ہیں۔اس کے جذبات کیا خاک مجھے سمجھ آنے ہیں جب اس خوبصورت لڑکے کے الفاظ ہی میرے پلے نہیں پڑ رہیں۔"
ایمن اسمارٹ فون ہاتھ میں اٹھائے پریشان سی گویا ہوئ۔
"ایمن جب سے تمھارے شوہر نے تمھیں فون خرید دیا ہے میں دیکھ رہی ہوں ،تم سارا سارا دن یہ social networking sites پر اپنا وقت ضائع کرنے لگی ہو۔یہ بری عادت مت لگاؤ۔یہ سب کچھ وقت کا ضیاء ہے اور کچھ نہیں ۔"
اس نے قرآن مجید کو دوبارہ الماری میں رکھتے ہوئے کہا ایمن آسانی سے ٹلنے والی نہیں تھی۔
"باجی میں کہاں ٹائم پاس کرتی ہوں، ایسا کہہ کر آپ میرا دل نہ دکھائیں۔میرے شوہر نے اتنے پیار سے کہا تھا دیکھنے کو ،تو سوچا ایک بار دیکھ لوں سن لوں یہ لڑکا اپنی بیوی کے لیے کیا کہہ رہا ہے۔"
ایمن نے منہ پھلا لیا۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے تم ویڈیو شروع کرو میں سن کر بتاتی ہوں وہ کیا کہہ رہا ہے۔"
"ہائے باجی اتنا سونا منڈا ہے آپ اسے دیکھیں گی نہیں ؟کتنے دل سے کہہ رہا وہ ہر ایک لفظ۔"
"تمھیں ترجمہ سننا ہے یا نہیں میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔مجھت تلاوت کرنی ہے ۔"
وہ خفا ہوئ۔
"ارے نہیں باجی خفا تو نہ ہوں ۔ سننا ہے مجھے بس آپ مجھے ترجمہ کردیں جلدی سے۔"
ایمن نے فوراً ویڈیو شروع کر دیا۔
"Hello to all.
اس کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئ تھی۔وہ آواز شاہ زر جیسی تھی۔وہ متحیر تھی کیا دو لوگوں کی آوازیں اسقدر مشابہ ہوسکتی ہیں۔
اس نے خود کو سنبھالا۔ویڈیو چلتی رہی اور وہ ترجمہ کرتی رہی۔
" وہ اس کی بہن کی منگنی پر آئے مہمانوں کا شکریہ ادا کررہا ہے۔ غالباً اس کی بیوی اسے چھوڑ کر چلی گئی ہے۔وہ کہہ رہا ہے کہ اس کی بیوی کے چلے جانے کی وجہ وہ خود ہے۔ قصور وار وہ خود ہے۔ اس کے والدین نہیں۔
وہ کہہ رہا ہے کہ اسے دوسری شادی نہیں کرنی۔
ان دونوں کے درمیان فاصلہ عارضی ہے۔وہ اس کا انتظار کرے گا۔وہ اس سے محبت کرتا ہے۔"
اپنے حساب سے اس شخص کی تقریر کی ترجمانی کرتی وہ حیران ہوتی جارہی تھی۔عجیب سے احساسات اسے اپنے حصار میں لے رہے تھے۔
تبھی اس نے اپنا نام سنا ۔اور ایکدم سے اسے اپنے خوف و اضطرار کی وجہ سمجھ آگئی۔
اس نے فون ایمن کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔
وہ شاہ زر تھا۔مائیک ہاتھ میں تھامے وہ اپنا پیغام اسے دے رہا تھا۔
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے موبائل کی اسکرین کو دیکھ رہی تھی۔
وہ آواز کسی اور کی نہیں تھی شا زر کی تھی۔وہ الفاظ کسی اور کے لیے نہیں تھے ۔اس کے لیے تھے۔
وہ اس کی آنکھوں کی نمی کو دیکھ سکتی تھی اس کے لہجے کی لرزش کو محسوس کرسکتی تھی۔وہ بہت افسردہ بہت ٹوٹا ہوا لگ رہا تھا۔
یہ کیا کہہ رہا تھا وہ ۔مجھ سے محبت کرتا ہے،میرا منتظر ہے،مجھ سے معافی مانگ رہا ہے۔
وہ میری محبت کے بیدار ہونے کا منتظر ہے۔
میرے مولا یہ میں کیا سن رہی ہوں ۔
اس کا سانس ایکدم سے اکھڑنے لگا۔جسم پسینے میں بھیگ گیا ۔وہ بے دم سی بستر پر بیٹھ گئی۔موبائیل اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا۔ایمن اس کی حالت دیکھ بوکھلا اٹھی۔
"کیا ہںوا باجی آپ کی طبیعت خراب ہورہی ہے کیا ؟ باجی ۔۔۔۔۔۔۔باجی۔۔۔۔۔۔۔۔"
مگر وہ تو جیسے کچھ سن ہی نہیں پارہی تھی ۔بستر پر بیٹھی بڑی بڑی سانسیں لے رہی تھیں۔ایمن دوڑ کر کمرے کے باہر نکل گئی۔
کچھ دیر بعد وہ دائی ماں اور نسیمہ چاچی کے ساتھ لوٹی تھی۔
وہ بستر پر لیٹی بے حس و حرکت چھت کو گھورے جارہی تھی۔آنکھوں کے کنارے سے آنسو بہہ کر بستر میں جذب ہںوتے جارہے تھے۔
"زری ۔۔۔۔۔۔زری۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہںوا ہے بیٹا, تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ مجھے بتاؤ۔"
دائی ماں متفکر سی اس کے سرہانے بیٹھی گویا ہںوئی۔
وہ ہنوز ساکت و جامد لیٹی رہی۔اس کے وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی نگاہیں چھت پر ثبت تھیں۔گویا وہ قوت سماعت سے محروم ہوچکی ہو۔
"بڑی بی ، میں نے تو بس باجی کو ایک ویڈیو سمجھانے کےلئے کہا تھا۔ تب تک تو ٹھیک ہی تھیں پھر اچانک انہوں نے فون میرے ہاتھ سے چھین لیا اور جیسے ہی انہوں نے اس ویڈیو والے آدمی کو دیکھا ان کی طبیعت بگڑنے لگی۔مجھے تو سمجھ نہیں آ رہا بڑی بی کہ اصل ماجرا کیا ہے؟
"ایمن نے گھبرا کر اپنی پوزیشن صاف کرنے کی کوشش کی۔
"کیسی ویڈیو؟ کونسا آدمی مجھے دکھاؤ ۔"
دائی ماں نے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش میں پہلا قدم اٹھایا۔
"یہ لڑکا کون ہںے؟ اور کیا کہہ رہا ہںے؟ زرمین؟ کون زرمین؟کس زرمین کی بات کررہا ہںے یہ لڑکا ؟
دائی ماں ویڈیو دیکھ کر محض زرمین کے نام کے علاوہ کچھ سمجھ نہ سکی تھی۔وہ ان پڑھ تھیں انگریزی کیسے سمجھ پاتیں۔
"بڑی بی باجی نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی بیوی اس کو چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ وہ اپنی بیوی کا انتظار کررہا ہںے ۔وہ اس سے بے انتہا محبت کرتا ہے ۔یہ سب کچھ کہتے وقت تو باجی بالکل ٹھیک ہی تھیں۔مگر جوں ہی انہوں نے اپنا نام سنا تو فون میرے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔اس کے بعد انکی یہ حالت ہںوگئی۔"ایمن اس اچانک افراد پر گھبرا گئی تھی۔
"اپنا نام سے کیا مراد ہے تمھاری؟ وہ اپنی بیوی کے متعلق بات کررہاتھا۔اس سب سے زرمین کا کیا تعلق ہے؟
زرمین نام کی اور بھی کئی لڑکیاں ہیں اس دنیا میں۔"
دائی ماں نے دوپٹے سے ماتھے پر آیا پسینہ پوچھتے ہوئے کہا۔
وہ صورتحال کو سمجھ نہیں پارہی تھی یا سرے سے سمجھنا ہی نہیں چاہ رہی تھی۔
"ندرت بیگم آپ نے بجا فرمایا کہ اور بھی زرمین ہںوں گی اس دنیا میں۔مگر زرمین کی اس حالت سے یہ واضح ہںے کہ وہ شخص جس زرمین کہ متعلق بات کررہا ہے وہ کوئی اور زرمین نہیں اپنی زرمین ہںے۔"
نسیمہ چاچی نے دائی ماں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
"یہ آپ کیسی باتیں کررہی ہیں نسیمہ بیگم وہ شخص اپنی بیوی کے متعلق بات کررہا ہے ۔اس کی بیوی میری زرمین کیسے ہوسکتی ہے؟ میری زرمین غیر شادی شدہ ہںے۔اس بات کا تو کوئی سوال ہںی پیدا نہیں ہوتا۔"
دائی ماں کو نسیمہ چاچی کی بات بری لگی تھی۔
"آپ برا نا منائیں ندرت بیگم ،مگر جہاں تک مجھے سمجھ آرہا ہے۔حقیقت یہی ہںے کہ وہ شخص زرمین کا شوہر ہںے۔
اچانک آپ کے کومہ میں چلے جانے سے وہ بلکل تنہا رہ گئی ہوگی۔جوان تنہا لڑکی کو اس معاشرے میں زندگی گزارنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔عین ممکن ہے ناگریز حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔جوان خون ہے ۔آج کل کے بچے زرا سی لڑائ کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔کسی آپسی اختلاف کے بعد وہ یہاں چلی آئ ہوگی۔آپ کے ہوش میں آجانے کے بعد آپ کی نازک طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے فی الوقت حقیقت کو پوشیدہ رکھنے میں ہی عافیت سمجھی ہوگی۔یوں بھی یہ سب کچھ سن کر آپ کو شاک ہی لگنے کا اندیشہ ہوگا اسے، کیونکہ اپنی شادی کو اچھےانجام تک پہنچا نہ سکی وہ ۔یوں بھی اس روز رشتہ سے انکار کی کوئ مناسب وجہ نہیں دے سکی تھی وہ ۔ آپ کو نہیں لگتا انکار کی اصل وجہ اس کا پہلے سے شادی شدہ ہونا ہوسکتا ہے۔"
نسیمہ چاچی نے اپنے اندازے سے ساری کہانی ترتیب دے دی۔
ان کی بات سنکر دائ ماں نے دل تھام لیا۔
"زری ۔۔۔زری۔۔۔۔۔ مجھے بتاؤ حقیقت کیا ہے؟یوں چپ مت رہو میری بچی۔کہہ دو کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔تمھاری کوئ شادی نہیں ہوئ۔"
دائی ماں نے اس جھنجھوڑ ڈالا مگر وہ ساکت بیٹھی خالی خالی نگاہوں سے انہیں تکتی رہی ۔
"مجھے تمھارے آنسوؤں سے تکلیف ہوتی ہے
۔۔۔۔۔۔کہاں تھی تم؟
......تمھاری آنکھیں کیوں سوجی ہوئی ہیں؟کیا تم روتی رہی ہو۔؟۔......
I think I like you
.......میں تمھیں اتنی خوشیاں دونگا کہ تم سارے غم بھول جاؤگی
۔۔۔۔۔۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کسی کی بھی بات سننے سے قاصر تھی اس کے ذہن میں بس ایک ہی شخص کے الفاظوں کی بازگشت ہورہی تھی۔بستر سے اٹھکر وہ کسی روبوٹ کی مانند چلتی غسل خانے میں چلی گئی۔
کمرے میں موجود تینوں نفوس اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لینے پر مجبور تھے۔وہ فی الوقت کچھ بھی کہنے سننے کی حالت میں نہیں تھی۔وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔
غسل خانے کے دیوار گیر شیشے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھ وہ طنزیہ انداز میں مسکرا دی۔
"میں زرمین شاہ زر آفریدی۔۔۔۔۔نہیں زرمین فاروقی کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔۔۔کیونکہ میرے نام کا اس کے نام کے ساتھ جڑ جانا محض اس کی تکلیف کا باعث بنتا ہے۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔میں اس شخص کو کبھی کوئ خوشی نہیں دے سکی۔۔۔۔ جب اس سے نفرت کرتی تھی تب اس کی ذلت ورسوائی کا باعث بنی ۔۔۔۔۔المیہ تو یہ ہے کہ اس سے محبت کرنے پر بھی میں نے اسے دکھ ہی دیے۔۔۔۔۔غالباً میں اسے تکلیف پہنچانے ،دکھ دینے کے لیے ہی اس سے ٹکرائی تھی۔۔۔۔میں احمق اس کی خالص محبت کو ہمدردی کا نام دیتی رہی۔۔۔۔۔میں اپنی محبت کے غم میں اسقدر ڈوب گئی تھی کہ اس کی محبت دیکھ ہی نہیں پائ۔۔۔۔۔۔میں ہمیشہ سے خود غرض ثابت ہوئی ہوں۔۔۔۔اپنی نفرت میں بھی اور محبت میں بھی۔۔۔۔۔اس
سے نفرت کی تو یہ تک جاننے کی زحمت نہ کی کہ حقیقتاً وہ قصوروار ہے بھی یا نہیں۔ بس اس کی نفرت کے الاؤ میں جلتی رہی۔۔۔انتقام کے منصوبے بناتی رہی۔۔۔۔اور جب اس سے محبت کی تو یہ تک نہ دیکھا کہ کہیں وہ بھی اس مرض میں مبتلا تو نہیں ہوگیا۔۔۔۔۔میرے لیے بس میرے جذبات مقدم رہے ۔۔۔۔۔بڑی ہی شان سےاس سے علیحدگی کا فیصلہ لیا تھا ۔یہ سوچ کر اس میں اس کی عافیت پوشیدہ ہے۔۔۔۔اس کی زندگی سے ذمہ داری کا بوجھ ہٹ جائے گا۔۔۔۔وہ پہلے کی طرح آزاد ہو جائے گا۔۔۔۔مگر ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی میں اسے فائدہ نہ پہنچا سکی۔۔۔۔ایک دفعہ پھر اس کی تکلیف کا سبب بن بیٹھی۔۔۔۔اسے بھی اسی غم کی آگ میں جلنے کے لیے چھوڑ آئ جس میں خود جل رہی ہوں۔۔۔۔نہیں میرا اور اس کا غم برابر ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔مجھے تو عادت ہے تنہا زندگی گزارنے کی مگر اسے تو اپنوں کے بغیر جینا عذاب لگتا ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اگر وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو مجھے بھی وہ اپنوں میں گردانتا ہوگا۔۔۔۔۔۔اگر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔میں جانتی ہںوں وہ جھوٹ نہیں بولتا۔۔۔۔ ۔۔وہ سچ کہہ رہا تھا۔۔۔۔ اس پوری دنیا میں اس سے زیادہ سچا شخص نہ ہوگا۔۔ ۔۔۔میں نے اسے تکلیف کے سوائے کچھ نہیں دیا۔۔۔۔میں اس قابل نہیں کہ مجھ سے محبت کی جائے۔۔۔۔میں ایسی شخصیت نہیں ہوں کہ مجھ سے محبت ہوجائے۔۔۔باوجود اس کے اگر وہ میرے سامنے کھڑا ہوکر اقرار محبت کرتا تو میں یقین کرلیتی۔۔۔۔مجھے یقین آجاتا ہے اس کی کہی ہر ایک بات پر۔۔۔۔۔
وہ خود سے مخاطب تھی ۔
اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔الفاظ کا سلسلہ ختم ہوا تو سکتہ ٹوٹا۔انسووں کا سیلاب بند توڑ کر آنکھوں کے رستے باہر نکل آیا۔وہ غسل خانے کے فرش پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
کمرے سے باہر بیٹھی اس کی بلند ہوتی ہچکیوں کی دلسوز آواز کو سنتی دائ ماں پہلی دفعہ قسمت سے شاکی ہوئ تھیں۔پہلی بار انھیں اپنی اور اپنی چڑیا کی تقدیر بری لگی تھی۔ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔
تقدیر بنانے والے تونے کمی نہ کی
اب کس کو کیا ملا یہ مقدر کی بات ہے
******
علی الصبح وہ واہٹ ٹی شرٹ بلاک جیکٹ اور بلاک جینس میں ملبوس کمرے سے باہر آ یا تھا۔اسے روز کی نسبت
informal dressing
میں دیکھ سبھی چونکے تھے۔آج غالباً آفس جانے کا ارادہ نہیں تھا اس کا۔
" کہیں جا رہے ہںوں شاہ زر ؟" راشد صاحب نے سوال کیا۔
"جی ڈیڈ آپ کو یاد ہیں نا یاسر صدیقی میرا دوست جو امریکہ شفٹ ہںوگیا تھا۔خاص طور پر اپنی شادی کےلیے وہ انڈیا لوٹا ہںے۔اپنی آباؤاجداد کے گاؤں کی آبائی حویلی میں اس نے فنکشن رکھا ہںے۔وہ بضد ہے کہ میری حاضری ضروری ہے۔گاؤں شہر سے چند گھنٹوں کی دوری پر ہے بر وقت پہنچنے کے لیے مجھے ابھی نکلنا ہںوگا۔"
شاہ زر نے معلومات بہم پہنچائی۔
"ٹھیک ہے بیٹا خیر سے جانا خیر سے لوٹنا اللّٰہ تمہیں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔"
اسے دعا دیتے ہوئے راشد صاحب حسبِ معمول واک کے لیے نکل گئے۔
وہ مسکراتا ہوا پورچ کی سمت بڑھ گیا۔
وہ دونوں ہی ساری رات جاگتی رہی تھیں۔کل کی نسبت زر مین کچھ نارمل برتاؤ کر رہی تھی۔سحری کے بعد نماز پڑھ کر وہ تلاوت کرنے بیٹھ گئی تھی۔سورج نکل آیا تھا پچھلے دو گھنٹے سے وہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی محو تلاوت تھی۔
"زرمین تم اسکول جاؤگی۔"
دائی ماں نے سوال کیا تھا۔کل دوپہر سے ان دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ وہ کسی روبوٹ کی مانند اپنا ہر کام کرتی جارہی تھی کسی کو مخاطب کیے بغیر۔
"نہیں "
ایک لفظی جواب دے کر وہ دوبارہ تلاوت میں مصروف ہوگئ۔
"بس کردو چڑیا کافی دیر سے تم تلاوت کر رہی ہںو،تھک گئی ہںونگی۔"
دائی ماں متفکر ہںوئیں۔
ان کی بات پر اس نے قرآن شریف کو بند کر لحاف میں لپیٹا اور الماری میں رکھ دیا۔اور پاؤں میں سلیپر پہن کر کمرے سے باہر نکل گئی ۔
دائی ماں بے بسی سےاسے جاتا دیکھتی رہیں۔ انہیں حقیقت سے آگاہ کرنا تو دور وہ تو کسی سے بات تک کرنے کی روادا نہیں تھی۔
دائی ماں کمرے سے باہرنکل آئیں ۔ وہ حویلی سے باہر نکل گئ تھی۔
ایمن جھاڑو لگا رہی تھی جبکہ نسیمہ چاچی کبوتروں کو دانہ ڈالنے میں مصروف تھیں۔
"کچھ کہا زر مین نے آپ سے؟"
نسیمہ چاچی نے استفسار کیا۔
"نہیں کل رات اس کے آنسوؤں کا سیلاب تو تھم گیا۔ مگر منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا ہے ۔نہ جانےمیری بچی کو کیا ہوگیا ہے۔میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے ۔میری چڑیا شادی شدہ ہے یا نہیں وہ شخص اس کا شوہر ہے بھی یا نہیں ؟اور اگر یہی حقیقت ہے ،تو اتنا سب کچھ کب اور کیسے ہوا میری چڑیا کی زندگی میں ؟ ساری ان سلجھی گھتیاں مجھے ہولا رہی ہیں۔"
دائ ماں کی آواز بھرا گئی۔
"بڑی بی آپ فکر نہ کریں میں نے اپنے شوہر سے کہہ دیا ہںے۔ وہ ساری معلومات اکھٹا کر لے گا باجی کی زندگی کے تعلق سے۔ یہ انٹرنیٹ کا دور ہے کسی کی زندگی میں کیا چل رہا ہے اور کیا کچھ گزر چکا ہے سب پتہ چل سکتا ہے اس کے ذریعے ۔یوں بھی وہ شخص کافی امیروکبیر معلوم ہو رہا تھا ۔مجھے یقین ہے اس کے تعلق سے خبریں آتی ہوگی انٹرنیٹ پر ۔رہا سوال باجی کا تو وہ بھی کوئی عام سی لڑکی تو نہ تھی ،خیر سے مشہور صحافی رہ چکی ہیں۔ ان کے متعلق بھی بآسانی معلومات حاصل ہوجائیگی"۔
ایمن نے کافی سمجھداری کا ثبوت دیا تھا ۔
ایمن کی بات پر دائ ماں پُرامید ہوئی تھیں۔
_ کیا یہ ممکن ہے ؟ہمیں ساری حقیقت کا پتہ چل سکتا ہے؟"
"ہاں ہاں، کیوں نہیں بڑی بی آپ فکر نہ کریں۔ عنقریب یہ گُتھی سلجھ جائے گی ۔باجی شادی شدہ ہے یا نہیں ،وہ اس شخص کی بیوی ہیں یا نہیں ،وہ اس حالت کو کیوں پہنچی ہیں؟ سب پتا چل جائے گا۔"
ایمن نے دائ ماں کاحوصلہ بڑھایا ۔
کھیت سے لگی پگڈنڈی پر چلتی ہوئی سوچوں میں گم تھی۔
یہ کیا ہوگیا ہے مجھے؟......میں کسی سے بات کیوں نہیں کر پا رہی ہوں۔؟۔۔۔۔۔ ۔میں خود سے ناراض ہو یا ساری دنیا سے؟۔۔۔۔۔ اپنی غلطیوں کی سزا میں دائ ماں کو کیوں دے رہی ہوں؟۔۔۔۔۔۔شاہ زر مجھ سے محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔ تو اب کیا؟۔۔۔میں کیا کرسکتی ہوں؟۔۔۔۔۔اس مسئلہ کا کوئ حل نہیں ہے...... میں اس کے پاس واپس نہیں جا سکتی........ میں اس کی اور آفریدی ولا کے ہر مکین کی گنہگار ہوں۔۔۔۔۔۔میں اس کی محبت کے لائق نہیں ہوں۔۔۔۔۔مجھے یہ جدائ کی سزا کاٹنی ہوگی اور اسے بھی۔۔۔۔۔یہی ہمارا مقدر ہے۔۔۔۔۔تقدیر سے کوئی نہیں جیت سکتا۔۔۔۔۔شاید ہم ملے ہی تھے بچھڑنے کے لیے۔۔۔۔۔۔اچھا ہوا کہ مجھے آج اس کی محبت کا علم ہوا ۔۔۔ ۔ اس کے ساتھ رہتے ہوئے مجھ پر یہ عقدہ کھلتا تو اسے چھوڑ کر آنا میرے لیے ناممکن ہو جاتا۔۔۔۔۔اس کی ہمدردی سے دستبردار ہونا اسقدر جانلیوا تھا۔۔۔۔۔اس کی محبت سے دستبرداری کیونکر ممکن ہوپاتی۔۔۔۔۔مجھے خود کو سنبھالنا ہوگا۔۔۔۔دائ ماں کی خاطر۔۔۔۔۔اب تک حقیقت کا تھوڑا بہت علم ہوچکا ہوگا انہیں۔۔۔۔مناسب وقت دیکھکر مجھے انہیں ساری حقیقت سے آگاہ کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔
وہ گھر لوٹ آئی داخلی دروازہ عبور کرتے ہی اس نے مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا لی۔
" دائ ماں, نسیمہ چاچی ، ایمن سب تیار ہو جاؤ ہم سب فیملی پکنک پر جا رہے ہیں ۔ گاؤں کے باہر ایک بہت ہی خوبصورت گارڈن بنایا گیا ہے حال ہی میں۔ میرے اسٹوڈنٹس بات کر رہے تھے اس کے متعلق۔ایمن تم کچھ کھانے پینے کا سامان پیک کرلو دائ ماں اور نسیمہ چاچی کے لیے ،ہم دونوں بھی افطار وہیں کرینگی۔"
اچانک اس کی سیر کے منصوبے کو سن وہ تینوں متحیّر تھیں۔دائ ماں اس کی ذہنی حالت کو لیکر مزید پریشان ہوگئیں۔
"تمھاری طبعیت تو ٹھیک ہے نا میری بچی۔"
دائی ماں اس کے قریب چلی آئیں ۔
"مجھے کیا ہونا ہے۔ میں بلکل ٹھیک ہوں دائ ماں۔بس آپ تینوں جلدی سے تیار ہو جائیں بس آنے میں محض آدھا گھنٹہ رہتا ہے۔۔"
وہ عجلت میں کہتی ہوئی کمرے میں روپوش ہوگئ۔
قریباً پندرہ منٹ بعد وہ چار عورتوں کا قافلہ ہنگامی اور اچانک پکنک کے لیے نکل پڑا تھا۔
اس قافلہ میں کوئ بھی خوش نہ تھا سب اپنی اپنی سوچوں میں گم تھے۔
*****
گاڑی اپنے سفرپر راواں دواں تھی ۔اسے ڈرائیو کرتے ہوئے لگ بھگ دو گھنٹے کا وقت گزر چکا تھا۔سڑک سنسان تھی لہٰذا اس کی کار کی رفتار بھی قدرے تیز تھی ۔دفعتاً ایک ٹرک مخالف سمت سے آتا دکھائی دیا ۔اس نے رفتار دھیمی کرتے ہوئے کار سڑک کے کنارے پر لے لی۔
اچانک نہایت ہی بھاری ٹرک کبھی سڑک کے دائیں تو کبھی بائیں بل کھانے لگا۔
اس اچانک افتاد پر شاہ زر متحیر تھا۔اس کے آگے نکل جانے کا راستہ بھی بلاک کر دیا تھا اس بھاری بھرکم ٹرک نے ۔ یاتو ٹرک کا بریک فیل ہوا تھا یا ڈرائیو نشے میں تھا۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھ پاتا، ٹرک تیز رفتاری سے اس کی کار کو زوردار ٹھوکر مارتا ہوا آگے نکل گیا۔
اس اچانک حملے کے نتیجے اس کا سر اسٹیرنگ سے ٹکرایا۔ ایک جھٹکے سےکار کا دروازہ کھلا اور وہ کسی گیند کی مانند لڑھکتا ہوا نیچے گرنے لگا اور لڑھکتا ہی چلا گیا۔وہ لڑھکتا ہوا کسی چیز کو پکڑنے کے لیے ہاتھ پاؤں چلا رہا تھا مگر ہاتھ میں صرف خشک پودوں کی ٹہنیاں آرہی تھیں جو سہارا دینے کے بجائے خود بے وزن ہو کر اس کے ہاتھ میں آرہی تھیں۔
گرتے گرتے اچانک وہ رک گیا، ڈھلان پر ایک چٹان نما پتھر ایستادہ تھا ۔اسی کی بدولت وہ مزید نیچے گرنے سے بچ گیا۔
درد کی ایک ٹیس اس کی سر میں دوڑ گئی جسم میں جگہ جگہ درد کا احساس اور جھاڑیوں کی چبھن محسوس ہورہی تھی۔اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔
کچھ دیر بعد وہ درد وہ تکلیف کے احساس سے بیگانہ ہوگیا۔
یہ پہلا ایکسیڈنٹ تھا جس میں اس کی کوئ غلطی نہیں تھی۔یہ پہلا ایکسیڈنٹ تھا جو اس کے لیے فایدہ مند ثابت ہونے والا تھا۔اس کی تکلیفیں ختم ہونے والی تھیں۔اس کے والد کی دعائیں قبول ہوئ تھیں ۔خدا نے اس کے لیے خیر کا انتخاب کیا تھا۔
خدا کرے وہ تیری عمر میں گنے جائیں
وہ دن جو میں نے تیرے ہجر میں گزارے ہیں
*****