یارب غم ہجراں میں اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دست دعا ہوتا
اک عشق کا غم آفت اور اس پہ یہ دل آفت
یادل نہ دیا ہوتا یاغم نہ دیا ہوتا
ناکام تمنا دل اس سوچ میں رہتا ہوں
یوں ہوتا تو کیا ہوتا یوں ہوتا تو کیا ہوتا
امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
وہ اپنی فلائٹ کا منتظر بیٹھا تھا۔ایر پورٹ پر معمول کا رش تھا۔ کہیں الوداعی ملاقاتیں، تو کوئ کسی کو خوش آمدید کہہ رہا تھا مختلف آوازیں کانوں میں پڑ رہی تھیں۔بہت منع کرنے کے باوجود مزنی اور عالیہ بیگم اسے see off کرنے آئی تھیں۔جس حد تک دوست و احباب کو جانے کے اجازت تھی ۔ اس حد کے بعد وہ دونوں واپس لوٹ گئی تھیں۔اب وہ تنہا لوہے کی کرسی پر براجمان تھا۔
"زرمین۔۔۔"
اس شور کے درمیان ایک آواز اس کی سماعت میں اتری اس کا سارا وجود کان بن گیا۔وہ میکانیکی انداز میں پلٹا تھا۔
ایک پانچ یا چھ سال کی بچی یہاں سے وہاں بھاگ رہی تھی۔اس کی ماں اسے پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اس نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کی۔
اس نام پر چونک جانا لازمی تھا۔
بچی دوڑتی ہوئی اس کے پاس والی نشست پر آکر بیٹھ گئ۔اس کا سانس پھول رہا تھا۔مگر چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
اس نے اپنی بغل میں بیٹھے خوبرو نوجوان کی سمت دیکھا وہ اسی کی طرف متوجہ تھا۔
"تمھارا نام زرمین ہے؟"
اس نے مسکرا کر استفسار کیا۔
"
ہاں ،انکل کیا آپ ہیرو ہیں؟
لڑکی نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا۔وہ اس کی بات پر مسکرا دیا۔
"نہیں بلکل بھی نہیں ،میں ہیرو نہیں ہوں۔"
"مگر آپ تو بلکل کسی ہیرو جیسے لگتے ہو۔پتہ ہے انکل میرا نام تو زرمین ہے مگر میرے پاپا مجھے" جان"کہکر بلاتے ہیں۔"
اس نے فخر سے گردن اکڑا کر کہا۔ اس خوبرو نوجوان پر جس سے وہ بری طرح مرعوب ہوئ تھی بچی اپنا بھی کچھ رعب جمانا چاہتی تھی۔
"کمال ہے تمھیں تمھارے پاپا "جان "کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔اور میری" جان" کا نام بھی زرمین ہے۔"
زرمین کے ذکر پر اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔
"بہت شرارتی بنتی جارہی ہو تم ۔کان کھینچ کر رکھنے پڑینگے تمھارے۔اپنے پیچھے لگا کر تھکا دیا مجھے۔"
بچی کی ماں ہانپتی ہوئی نزدیک آئی تھی۔
"چلو پاپا آتے ہی ہونگے۔"
اس کا ہاتھ تھام کر وہ عورت آگے بڑھ گئ تھی۔ بچی مڑ کر الوداعی انداز میں ہاتھ ہلانا نہیں بھولی تھی۔
وہ نم آنکھوں کے ساتھ مسکرا دیا۔عجیب بات تھی وہ چند لمحے قبل اس بچی سے ملا تھا اور اب اسے جاتا ہوا دیکھ اسے تکلیف ہوئ تھی۔شاید یہ اس کے نام کا اثر تھا۔چںد لمحوں میں اسے اس بچی سے انسیت سی ہوگئ تھی۔
اس کی فلائٹ کی آمد کا اعلان ہونے لگا۔وہ سر جھٹک کر سفری بیگ اٹھاتا منزل کی جانب قدم بڑھانے لگا۔
آرزو ،حسرت،امید، شیکایت آنسو
اک تیرا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا
******
موسم نے اچانک چولا بدلا تھا۔موسلا دھار بارش اور سرد ہواؤں کے زیر اثر اسے فلو ہوگیا تھا۔گذشتہ دو دنوں سے وہ اسکول بھی نہیں جا سکی تھی۔نقاہت کے مارے چلنا پھرنا دوبھر ہو رہا تھا۔اس کی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے نسیمہ چاچی کمرے میں ہی اس کا کھانا بھجوا دیا کرتی تھیں۔مگر آج خلاف توقع ایمن اسے نیچے آنے کا کہہ گئی تھی۔وہ حیران ہوتی دھیرے دھیرے سیڑھیاں اترتی نیچے آئ ۔دفعتاً صحن میں ایستادہ شخصیت کو دیکھ وہ ساکت رہ گئی۔وہ کوئ الوژن تھا یا حقیقت۔ وہیل چئیر پر براجمان دائ ماں اسی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ان کے لبوں پر مسکراہٹ تھی مگر چہرہ آنسوؤں سے بھیگا جارہا تھا۔
یہ کوئ خواب نہیں تھا۔پہلے کی نسبت نحیف و لاگر سی دائ ماں اس کے سامنے موجود تھیں۔وہ جیسے ہوش میں آئ ساری نقاہت ہوا میں تحلیل ہوگئ دوڑتی ہوئی ان کی بانہوں میں سما گئ۔
وہ کسی چھوٹی بچی کی طرح با آواز بلند روئے جا رہی تھی جبکہ دائ ماں اس کے سر کو سہلاتی بے آواز روتی جارہی تھیں۔یہ منظر دیکھ ایمن اور نسیمہ چاچی کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
"آپ آگئ دائ ماں۔مجھے یقین تھا آپ لوٹکر میرے پاس ضرور آئینگیں۔ مجھے یقین تھا، آپ کو مجھ سے ہمیشہ کے لیے الگ کردے خدا ایسا ظلم مجھ پر نہیں کرسکتا ۔آپ کے بغیر میں بہت اکیلی پڑ گئی تھی۔دوبارہ آپ مجھے چھوڑ کر کہیں مت جائیے گا۔اب کوئ صدمہ کوئ جدائی برداشت کرنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں۔"
وہ ہچکیوں کے درمیان بولتی جارہی تھی
۔
"میں تمھیں چھوڑ کر کہاں گئ تھی میری بچی ،بس خدا کی آزمائش تھی ہم دونوں کے لیے جو اب ختم ہوئ۔دیکھوں میں تمھارے پاس لوٹ آئ ۔اپنی چڑیا کے بغیر میں کیسے رہ سکتی ہوں ۔"
اس کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالوں میں لیے دائ ماں محبت سے گویا ہوئیں۔وہ مسکرا بھی نہ سکی۔جانے کیوں آج بس خوب سارا رونے کا دل کر رہا تھا۔
"ارے یہ کیا تمھارا جسم تو بخار سے تپ رہا ہے۔برسات کا آغاز ہے تمھیں احتیاط برتنا چاہیے تھا ۔موسم بدلتے ہی اس کی یہ حالت ہوجاتی ہے۔ باالخصوص برسات کے موسم میں یہ اکثر اوقات بیمار پڑ جایا کرتی تھی۔میں نہ رہوں تو اپنی فکر کرنا بلکل ہی چھوڑ دے یہ لڑکی۔"
دائی ماں فکر مندی سے نسیمہ چاچی سے مخاطب ہوئیں۔
"ان کے اس انداز پر وہ جو زرا سی سنبھلی ایک دفعہ پھر بلک بلک کر رو دی۔ اس کی فکر کرںے والی ہستی لوٹ آئ تھی۔اس کی اس حرکت پر دائ ماں بوکھلا اٹھیں۔
"ہائے میرا بچہ, نا رو میری جان۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
دائی ماں نے اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔
"دائی ماں کو دو دن قبل ہی ہوش آیا تھا۔ تمھاری علالت کو دیکھتے ہوئے اتنی بڑی خبر ایکدم سے سنانا مجھے مناسب نہیں لگا۔ میں اور ایمن ان سے ملنے جاتی رہیں، ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ ڈاکٹرس کا کہنا تھا کہ انھیں مزید کچھ دن ڈاکٹرس کے زیر نگرانی ہسپتال میں رہنا چاہیے ۔مگر جیسے انہوں نے تمھاری بیماری کا سنا گھر آنے کی ضد کرنے لگی۔ہمیں ہار ماننا پڑی بہت احتیاط کا کہہ کر ڈاکٹر صاحب نے انہیں چھٹی دے دی۔"
نسیمہ چاچی نے اصل مدعا سنایا۔وہ دائ ماں کی گود میں سر رکھے سنتی رہی۔
"چلو بیٹی تم آرام کرو تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔"
دائی ماں وہیل چیئر سے اٹھکر اسے سہارا دینا چاہتی تھی وہ زمین سے اٹھکر دائ ماں کو وہیل چیئر سے کھڑا کرنا چاہتی تھی مگر دونوں ہی ایسا کرنے سے قاصر تھیں ۔دونوں ہی پر نقاہت حاوی تھی۔
ایمن نے دائ ماں کو سہارا دے کر کھڑے ہونے میں مدد کی ان کی حالت دیکھتے ہوئے صحن سے متصل کمرے میں ان کی رہائش کا انتظام کیا گیا تھا۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی دائیں ماں اور ایمن کی تقلید میں چل پڑی۔
بدقت تمام اس نے شکرانے کی نماز ادا کی ۔باہر رات کی تاریکی پھیلتی جارہی تھی۔دائ ماں بستر پر لیٹتے ہی گہری نیند میں چلی گئی تھیں۔ان کے گال پچک گئے تھے ۔جسم لاگر سا ہو گیا تھا۔اس نے اپنے کمرے کے بجائے اسی کمرے میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔وہ اب انھیں ایک سیکنڈ کے لیے بھی تنہا نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔دائ ماں کو اپنے برابر بستر پر لیٹا دیکھ اسے لگا جیسے تپتے سہرا میں ایکدم سے شجر سایہ دار نے اسے اپنے چھاؤں میں لے لیا ہو۔ اتنے عرصے میں اس کے ساتھ کچھ اچھا ہوا تھا۔ اس کا دل پر سکون تھا دماغ شانت۔ اس کا خیال تھا کہ آج کے بعد سے وہ چین کی نیند سو سکے گی۔مگر آنکھ بند کرتے ہی اس کا چہرہ ذہن کی پلیٹ پر روشن ہوا اس نے آنکھیں کھول دیں۔کسی اپنے کو کھو دینے کا غم کسی اپنے کو دوبارہ پالینے کی خوشی پر حاوی ہو گیا تھا۔
اس نے خود اپنے لیے یہ سزا مقرر کی تھی ۔تاحیات اسے یہ سزا کاٹنی تھی۔
یہ علاج بتایا ہے طبیب نے اسے بھلانے کا
کہ رفتہ رفتہ تم اپنی یاداشت کھو بیٹھو
******
وہ عمرہ کے دس دن مکمل کر کے اپنے ملک واپس لوٹنے کی تیاری میں تھا۔ ان دس دنوں کے دورانیہ میں اس نے گھر کے کسی بھی فرد سے رابطہ نہیں کیا تھا۔اس کا فون سوئچڈ آف تھا۔وہ اپنا سارا دھیان عبادت میں لگانا چاہتا تھا۔اس کے فیصلے پر کوئ اعتراض نہیں جاسکا تھا عالیہ بیگم بھی نہیں۔جوں ہی اس نے فون آن کیا کالس کا تانتہ لگ گیا۔گھر والوں کی کالس اٹینڈ کرکے فارغ بھی نہ ہوا تھا کہ آفس کے کلیگز مبارک باد دینا شروع ہوگئے۔اس سے قبل کہ وہ مجبورا ً فون دوبارہ آف کردیتا اسکرین پر نادر کا نمبر جگمگایا۔اس کے لبوں پر میٹھی مسکراہٹ رینگ گئ۔ایک عرصے سے یار کی خبر نہیں ملی تھی ۔
" اسلام وعلیکم ،ہیلو سر کیا آپ انڈیا کے لیے نکل رہے ہیں؟"
"نہیں نادر ابھی ائیر پورٹ کے لیے نکلنے میں چند گھنٹے رہتے ہیں۔تم سناؤ ابھی فون کیوں کیا ؟کیا کوئ پرابلم ہوئ ہے وہاں؟"
وہ متفکر ہوا۔نادر کا لہجہ حسب سابق نہیں تھا۔
"کوئ پرابلم نہیں ہے سر ۔مجھ سے صبر نہیں ہو رہا تھا کہ آپ کے انڈیا پہنچنے تک کا ویٹ کر لوں،خبر ہی کچھ ایسی تھی۔
سر،۔۔۔۔
وہ ایک لمحے کو روکا۔
شاہ زر کی دھڑکن تیز ہو گئ۔
"سر دائی ماں کو ہوش آگیا ہے۔آپ کی دعائیں رنگ لائیں سر ۔وہ حویلی جا چکی ہیں میڈم کے پاس ۔"
نادر بولا فرط جوش سے اس کی آواز میں لرزش تھی۔ دوسری طرف فون تھامے اس شخص سے ،اس کی بیوی سے ،کومہ سے باہر آئیں عورت سے کسی قسم کی جزباتی وابستگی نہ ہونے کے باوجود وہ خوش تھا جانے کیوں ۔وہ نہایت ہی پروفیشنل آدمی تھا اپنے کام سے کام رکھنے والا۔آج سے قبل وہ کسی کلائنٹ کے لیے اسقدر خوش نہیں ہوا تھا جانے یہ لوگ کون تھے جو ہر کسی کو خود سے وابستہ کرلیتے تھے۔ خود کا گرویدہ بنایتے تھے۔
"اسے لگا اس سے سننے میں غلطی ہوئی۔
"کیا کہا تم نے ،دائ ماں "۔۔۔۔۔
وہ اپنی بات مکمل نہیں کر پایا۔
"آپ نے بلکل ٹھیک سنا سر، دائی ماں ہوش میں آچکی ہیں۔"
نادر نے کہا۔
تبھی مقدس شہر کی فضاء میں اذان کی صدا بلند ہونا شروع ہوئ۔
اللّٰہ اکبر ۔۔۔اللّٰہ اکبر۔۔۔۔
اس کے کمرے کی کھڑکی سے خانہ کعبہ صاف نظر آرہا تھا۔اس نے بے یقینی سے پہلے خانہ کعبہ اور پھر آسمان کی سمت دیکھا۔
کیا گناہ گاروں کی دعائیں بھی یوں قبول ہوجاتی ہیں؟ابھی ابھی تو اس کا عمرہ پایہ تکمیل تک پہنچا تھا۔
اتنے جلدی اس کی دعا قبول ہو گئ تھی۔
اس کی آنکھیں نم ہوئی تھیں
"یہ خبر سنانے کا بہت شکریہ نادر۔الّٰلہ تم کو اس کا اجر دے۔"
اس نے رابطہ منقطع کر دیا۔وہ کچھ بھی کہنے سننے کی حالت میں نہیں تھا۔
اسے خوش ہونا چاہیے تھا مگر وہ رہا تھا بچوں کی طرح بلک بلک کر گھٹنوں پر بیٹھے۔
اسقدر گناہ گار ہوتے ہوئے اسقدر خطا کار ہوتے ہوئے خدا نے اس کی دعا سن لی تھی۔ بے شک وہ رحیم ہے۔اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے۔
اس پاک سر زمین کو الوداع کہنے سے قبل اسے شکرانے کی نماز ادا کرنی تھی۔
دائی ماں کو واپس پالینے کی خوشی میں وہ فراموش کر بیٹھا اس نے اور بھی دعائیں مانگی تھی۔اس کی توبہ سچی تھی ۔اس کی ساری دعائیں قبول ہوئ تھیں۔ساری دعائیں۔
گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یارب
تری نگاہ کرم کو بھی منہ دکھانا تھا
******
دائی ماں کا ساتھ اس کے لیے رحمت کے ساتھ زحمت بن گیا تھا۔وہ ہمہ وقت اسے کھوجتی نگاہوں سے دیکھتی رہتیں۔دن تو مصروفیت کی نذر ہو جاتا تھا ایک رات ہی ہوتی تھی جب وہ یادوں کا صندوق کھول کر بیٹھ جاتی تھی ۔آنسو بہاتی تھی۔مگر اب یہ بھی ممکن نہ تھا۔
اس کے حیدر آباد کو چھوڑ کر یہاں آجانے کے متعلق دائ ماں نے کوئ سوال نہیں کیا تھا۔
”میں نے اس محلے کو چھوڑ دیا ہے دائ ماں۔وہ لوگ اس قابل نہیں تھے کہ ان کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔اب سے ہم دونوں یہیں رہینگی۔دوباره کبھی اس شہر کا رخ نہیں کرینگی۔ ہم بطور کرائے دار یہاں رہینگی روزگار کے لیے میں نے نوکری بھی کر لی ہے ۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
اتنا کہہ کر اس نے دائ ماں کو مطمئن کر دیا تھا۔
اس نے دائ ماں سے یہ کہہ تو دیا تھا مگر وہ خود متذبذب تھی۔
”کیا حقیقتاً وہ اس شہر کا رخ دوباره کبھی نہیں کرنا چاہتی تھی؟کیا اپنی بقیہ زندگی میں وہ دوباره کبھی افریدی ولا نہیں جانا چاہتی تھی؟کیا وہ اس دشمن جان کا چہرہ دوباره نہیں دیکھنا چاہتی تھی؟
اس کے ذہن میں گردش کرتے ہر سوال کا جواب نفی میں تھا۔
دائ ماں اس کے فیصلے سے متفق تھیں۔اس شہر نے، ان کے ہمسائے کے لوگوں نے انھیں اور ان کی بیٹی کو بہت دکھ دیے تھے۔ضرورت کے وقت کوئ ان کے کام نہ آیا تھا۔اس شہر کو چھوڑ دینے میں ہی ان عافیت تھی۔
وہ یکسر بے خبر تھیں کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کی چڑیا کی زندگی میں کیا کچھ ہو گذرا تھا۔مگر اس کی بدلی شخصیت ان کی نگاہ سے چھپ نہ سکی تھی۔ہمہ وقت ہنستی بولتی ان کی چڑیا کو ایک چپ سی لگ گئ تھی ۔
صحن میں بچھی کرسیوں پر براجمان نسیمہ چاچی اور دائ ماں شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں ۔وہ ابھی ابھی اسکول سے لوٹی تھی۔اپنے اور دائی ماں کے مشترکہ کمرے کی طرف بڑھنے سے قبل حسب عادت صحن میں زمین پر اترے کبوتروں کو دانہ ڈالنے بیٹھ گئ۔
"جوڑے تو آسمانوں میں بنتے ہیں۔ہم زمین والے بظاہر تو رشتے لگانے میں شادیاں کرنے میں شامل ہوتے ہیں مگر حقیقتاً سب کچھ تقدیر کا لیکھا جوکھا ہوتا ہے۔میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت کریں ۔اتفاق ومحبت سے رہنے کی کوشش کریں تو زندگی آسان ہوجاتی ہے ۔مانا کہ رضیہ اور رفیق کے خاندانوں میں پرانی دشمنی تھی۔مگر ان دونوں نے تو محبت کی شادی کی تھی۔اب ماجرا یہ ہے کہ رضیہ اپنا سسرال چھوڑ کر میکے آبیٹھی ہے۔وہ بےچارہ اس کے گھر کے چکر کاٹ رہا ہے۔اس کی منتیں کر رہا ہے۔وہ موئ کہہ رہی ہے میں نے تو تجھے اور تیرے گھر والوں کو سبق سکھانے کے لئے شادی کی تھی۔چند ماہ کے دورانیہ میں اس نے رفیق کے والدین کا جینا مشکل کر دیا۔باوجود اس کے وہ بےچارہ سب کچھ بھلا کر اسے گھر لے جانا چاہتا ہے وہ غریب اس ناگن سے محبت کر بیٹھا ہے۔ مگر وہ تو جیسے کان منہ لپیٹ کر بیٹھ گئ ہے۔بھلا بتاؤ اپنے شوہر کو کوئ یوں رسوا کرتا ہے کہیں؟آج کل کے بچے نکاح جیسے مقدس رشتے کی اہمیت ہی نہیں ںسمجھتے۔مذاق بنا کر رکھ دیا ہے شریعت کا۔"
نسیمہ چاچی باآواز بلند کسی جاننے والے کی ازدواجی زندگی میں آئے نشیب پر تبصرہ کر رہی تھیں۔
دائی ماں نسیمہ چاچی کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور تھی ۔اسے لگا جیسے باالخصوص اسے سنانے کے لیے یہ بات کہی جارہی ہو حالانکہ وہ تو اس کے ماضی سے انجان تھیں۔اس حقیقت سے ناواقف تھیں کہ وہ بھی کسی کی منکوحہ ہے وہ بھی اپنا گھر چھوڑ آئ ہے۔
"اس لڑکی کی اور میری کہانی ایک سی ہوتے ہوئے بھی مختلف ہے۔وہ بھی اپنے شوہر کو اپنے گھر کو چھوڑ آئ تھی،اس نے بھی انتقام لینے کے لیے شادی کی تھی ۔مگر سب بڑا فرق تھا ہمارے شوہروں کے جذبات کا۔ اس کا شوہر اس سے محبت کرتا تھا میرا نہیں۔اور یہی فرق سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ایک محبت کرنے والے شوہر کو چھوڑ دینا اسے تکلیف پہنچانا غیر انسانی ہے۔میں اس گھر میں انتقام لینے کی غرض سے گئ تھی۔ شاہ زر کو ذلیل کرنا میرا مقصد حیات تھا۔میرا رویہ اس کے ساتھ دشمنوں جیسا تھا باوجود اس کے وہ مجھ سے ہمدردی جتا رہا تھا۔ اپنے والد کا حکم بجا لاتے ہوئے ساری زندگی میرے ساتھ گزارنے پر رضامند تھا۔ میں وہاں کیسے رہ سکتی تھی۔میرا ضمیر مجھے اس کی اجازت نہیں دیتا ۔ جس گھر کو تباہ کرنے کی نیت سے میں وہاں گئ تھی شاہ زر کی ہمدردی کا فایدہ اٹھا کر میں اسی گھر میں بس نہیں سکتی تھی۔آفریدی ولا میں قدم رکھنے کا میرا مقصد انتقام تھا۔ مگر اس انتقام کے کھیل کے دوران مجھے اسی شخص سے محبت ہوگئ جسے رقیب مان کر چلی تھی۔میں کیا کرتی وہ ہے ہی ایسا کہ ہر دوسرا اس کی محبت میں گرفتار ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اب جب محبت ہوچکی تھی تو مقابلہ کیسا جن سے محبت ہوتی ہے ان سے مقابلہ نہیں کیا جاتا۔یوں بھی وہ بےقصور تھا سارا قصور میرا تھا میری جذباتیت کا تھا۔
"
اپنی سوچوں کے گرداب میں پھنسی زرمین کے آنسو اس کا چہرہ بھگو رہے تھے ۔تبھی ایک کبوتر ماں نے زمین سے دانے چونچ میں بھرکر گھونسلے تک پرواز بھری گھونسلے میں تین ننھے بچے تھے۔باری باری بچوں کے منہ میں دانہ ڈالنے لگی۔ممتا سے بھرے اس منظر کو دیکھ وہ بے ساختہ مسکرا دی۔
دائی ماں کی نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔عجیب دھوپ چھاؤں کا سامنظر تھا۔اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اور لب مسکرا رہے تھے۔وہ ہاتھ جھاڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی اس نے آنسو پونچھنے کی زحمت نہیں کی تھی ۔غالباً وہ انجان تھی کہ اس کی آنسو اس کا چہرہ بھگو چکے ہیں وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔دائ ماں کی نظروں نے اس کا پیچھا کیا تھا۔
رات کے کھانے کے بعد دائ ماں اس کے نزدیک آکر بیٹھ گئیں۔وہ بچوں کی امتحانی پرچے چیک کر رہی تھی۔
"کیا بات ہے میری بچی تم ہمہ وقت کھوئ کھوئ رہتی ہو، پہلے کی طرح ہنستی بولتی نہیں ہو۔کیا کوئ بات ہے جو تمھیں پریشان کر رہی ؟مجھے بتاؤ چڑیا۔تم اتنی بدل کیوں گئ ہو تم تو بہت بہادر تھی۔ کیا وہ ایک حادثہ تم پر اسقدر اثر انداز ہوا ہے کہ تم پہلے والی زرمین نہیں رہی؟"
دائی ماں اس کے بالوں کو سہلاتی متفکر سی گویا ہوئیں۔اس نے گہری سانس لیکر خود کو جھوٹ بولنے کے لیے تیار کیا۔آج نہیں تو کل یہ وقت آنا تھا۔اس کی شخصیت کا بدلاؤ دائ ماں سے چھپا نہیں رہ سکتا تھا۔
"کچھ نہیں ہوا ہے دائ ماں۔میں قطعاً پریشان نہیں ہوں۔رہی بات اس حادثہ کی تو میں اسے فراموش کر چکی ہوں آپ بھی کر دیں۔میرا یوں چپ رہنا ،ضرورت کے مطابق بولنا آپ کو عجیب لگ رہا ہوگا مگر میں کیا کرتی، آپ کے چلے جانے کے بعد بات کرنے کے لیے میرے پاس کوئ تھا ہی نہیں۔لہذا چپ رہنے کی عادت پڑ گئ، ہنسنے بولنے کی عادت چھوٹ گئی۔آپ فکر نہ کریں آپ آگئ ہیں نا اب میں بلکل پہلے والی زرمین بن جاؤنگی۔"
اس نے دائ ماں کو اپنے بازوؤں میں بھینچ کر لاڈ سے کہا وہ بس مسکرا کر رہ گئیں۔
وہ ان سے کچھ چھپا رہی تھی حقیقت کچھ اور تھی۔پہلے پہل ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ان لوٹ آنے کے بعد وہ بدل جائے گی خوش رہنے لگے گی۔ مگر یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی تھی۔کچھ تھا جو اسے اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا جسے وہ ان سے پوشیدہ رکھنا چاہتی تھی۔
دائی ماں کو بستر پر بیٹھا چھوڑ وہ غسل خانے میں گھس گئ۔وہ غسل خانے کے بند دروازے کو دیکھ کر رہ گئیں۔وہ جانتی تھیں وہ دروازہ جلدی نہیں کھلے گا۔وہ جب سے آئ تھی یہی دیکھ رہی تھیں۔ وہ غسل خانے میں جاتی تو دیر سے واپس آتی۔ اس کا چہرہ پانی سے بھیگا اور آنکھیں سرخ ہورہی ہوتیں ۔وہ اپنی چڑیا کے لیے ازحد فکر مند تھیں ۔
"غسل خانے میں کھڑی وہ لمبی لمبی سانسیں لیکر خود کو کمپوزڈ کر رہی تھی ۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا جب اس نے اپنی دائی ماں سے حقیقت کو پوشیدہ رکا تھا۔ان سے جھوٹ بولا تھا ۔اس کی اداسی و خاموشی کی وجہ محض اکیلے پن کی عادت نہیں تھی۔وہ خوش رہنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ اس کا دل ہی نہیں چاہتا تھا کہ وہ ہنسے بولے ۔اسے خوش رہنے کا کوئ حق نہیں تھا۔وہ خود کو سزا دے رہی تھی۔اس شخص کا ساتھ کیا چھوٹا اسے محسوس ہوتا تھا جیسے اس دنیا کی ساری رنگینیاں ختم ہوگئیں۔جینے کی، خوش رہنے کی وجہ ختم ہوگئ۔وہ انھیں کیسے بتاتی کہ وہ پہلے والی زرمین کبھی نہیں بن پائے گی۔
"دائی ماں کو پتہ چلے گا کہ ان کی چڑیا ان سے کیا کچھ چھپا کر بیٹھی ہے اسوقت ان پر کیا گزرے گی؟"
وہ منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر غسل خانے سے باہر نکل آئ۔
*****
عمرہ سے واپس لوٹتے ہی شاہ زر نے مزنی کی باقاعدہ منگنی کا شور مچا دیا تھا۔ سبھی اس کے اچانک مطالبہ پر متحیر تھے۔بقول اس کے وہ آفریدی ولا کے سوگوار ماحول میں چینج چاہتا ہے ۔اور کوئ زبردست تقریب ہی یہ کارنامہ انجام دے سکتی ہے۔راشد صاحب نے بلاتردد اس کی بات مان لی تھی وہ خوش تھے کہ ان کا بیٹا کچھ نارمل برتاؤ کررہا۔ پہلے اسے پارٹیوں میں انجوائے کرنا بہت پسند تھا۔ورنہ زرمین کے چلے جانے کے بعد سے اس نے تو خود کو بزنس اور آفس کے سپرد کر دیا تھا۔
اس کے اصرار کے نتیجے آج آفریدی ولا میں مزنی کی منگنی کا فنکشن تھا۔آفریدی ولا کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔لان مہمانوں سے بھرا تھا۔آج باقاعدہ طور پر اعلان کیا جانا تھا کہ مزنی زین کی منگیتر ہے۔
فل بلاک سوٹ میں ملبوس وہ مسکراہٹ چہرے پر سجائے مہمانوں سے مل رہا تھا۔کچھ مرد حضرات قصداً زرمین کا ذکر درمیان میں لاکر راشد صاحب کی تذلیل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔جبکہ مہمان خواتین کو یہ فکر لاحق تھی کہ شاہ زر کی دوسری شادی کب ہوگی۔ عالیہ بیگم کو ہدایات دی جارہی تھیں کہ ان کی جوان خوبصورت ،سلیقہ مند کنواری بیٹیاں ہیں ۔شاہ زر کی شادی کا خیال دل میں ہو تو انھیں نہ بھولیں۔
پارٹی میں یہ سب ہوتا دیکھ مزنی کا موڈ بری طرح خراب ہوا تھا۔
"یہ لوگ کیا سوچ کر آنٹی سے بھائ کے رشتے کی بات کر رہے ہیں۔کیا ان ,میں اتنے بھی manners نہیں ہیں کے کسی شادی شدہ مرد کو پرپوزل نہیں بھیجا کرتے۔زرمین بھائ کو چھوڑ کر گئ ہںے مری نہیں ہے۔وہ دونوں اب بھی ہسبنڈ وائف ہیں۔سب سے بڑی بات بھائ اس سے محبت کرتے ہیں۔ بھائ کو زرمین کو تلاش کر گھر واپس لانے پر رضامند کرنے کے بجائے یہ لوگ زرمین کو قصہ پارینہ بنانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں۔"
مزنی کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان مہمانوں کو باہر کا راستہ دکھا دیں۔سب کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے شاہ زر نے یہ قدم اٹھایا تک مگر توقع کے عین برعکس آفریدی ولا کے مکینوں کا موڈ مزید خراب ہو رہا تھا۔
صورت حال سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل تیار کرتے شاہ زر کا فون گنگنا اٹھا۔
"بولو نادر"
وہ بالائی منزل کی سیڑھیاں چڑھتا گویا ہوا۔
"سر ایک بری خبر ہے۔رمیز نام کا شخص جو حویلی کی مالکن کا رشتہ دار ہے ۔ میڈم کے لیے اپنا پرپوزل لیکر شہر سے اپنی فیملی کے ساتھ آیا ہے۔اس سے قبل ایک دفعہ وہ حویلی آیا تھا۔آپ تو واقف ہیں یہاں سب انجان ہیں کہ میڈم آپ کے نکاح میں ہیں ۔سب کی نظر میں وہ کنواری لڑکی ہیں۔ان کے لیے رشتہ کا آنا عجیب نہیں ہے۔"
اوپری سیڑھی پر پڑتا اس کا پاؤ لڑکھڑایا تھا۔نادر کی کہی بات کسی بم کے مانند اس کے سر پر گری تھی۔
وہ اس کے جواب میں کچھ کہہ نہ سکا وہ سکتے کی کیفیت میں تھا۔
"خیر اطلاع دینا میرا فرض تھا لہذا میں نے آپ کو انفارم کرنا ضروری سمجھا۔ورنہ یہ صورت حال اتنی پریشان کن نہیں ہے۔ اگر میڈم نے سب کے سامنے اپنے marriedہونے کا راز افشاں کر دیا تو بات شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو جائے گی۔"
شاہ زر کو خاموش پاکر نادر نے سلسلہ کلام جوڑا۔وہ بنا دیکھے بتا سکتا تھا کہ دوسری طرف فون تھامے ہوئے شخص کو پریشانی نے آن گھیرا ہے۔وہ کوئ جواب نہیں دے رہا تھا غالباً اس شخص کے پاس کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔
"فون رکھو نادر ،رشتہ لیکر آنے والوں کے چلے جانے کے بعد مجھے مطلع کرنا کہ پورا معاملہ کیا ہے۔"
اس نے رابطہ منقطع کر دیا۔
"میرے خدا یہ کیا ہو رہا ہے؟زرمین کے لیے پرپوزل ،میری بیوی کے لیے پرپوزل؟وہ میری منکوحہ ہے نکاح پر نکاح ممکن نہیں۔مگر وہ تو مجھے چھوڑ چکی ہے اگر اس نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا تو۔اسے یہ پرپوزل پسند آگیا تو۔یوں بھی میں اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ بنا کسی جذباتی وابستگی کے وہ میرے نام سے بندھی کیوں رہنا چاہے گی؟اگر اس نے خلع مانگ لیا تو؟"
اس کے آگے وہ کچھ سوچ نہیں پایا ۔اس کے پیشانی عرق آلود ہوگئی ۔اس لڑکی سے اپنا رشتہ ختم کرنے کا تصور بھی اس نے نہیں کیا تھا ۔اس نے تو اس کے لو ٹ آنے کی دعائیں مانگی تھیں۔اس کی محبت کا احساس زرمین کو ہوجائے اس کا منتظر تھا۔مگر یہ سب کیا ہو رہا تھا۔
وہ ٹیرس پر چلا آیا۔چھت پر خاموشی کا راج تھا پارٹی کا شور نیچے چھوٹ گیا ۔
وہ اپنے بالوں کو مٹھی میں جکڑے آسمان کی سمت دیکھ رہا تھا۔تبھی مزنی چھت پر چلی آئی۔
"بھائی آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ نیچے انکل اناونسمنٹ کرنے جارہے ہیں آپ کو بھی وہاں موجود ہونا چاہیے۔چلیے۔"
مزنی اس کے قریب چلی آئی۔مگر اس کا چہرہ دیکھ کر ٹھٹھک گئ۔وہ اضطراری انداز میں ہونٹ کانٹ رہا تھا ۔اس کی رنگت زرد پڑ رہی تھی۔
"بھائ کیا ہوا ہے؟are you all right
آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی چلیں نیچے چلیں اپنے کمرے میں چل کر آرام کریں۔"
مزنی اس کا بازو تھام کر متفکر سے گویا ہوئ۔
"مزنی I love her so muchاس سے دستبردار ہونے کا خیال بھی میرے میں دل نہیں آتا۔خدانخواستہ کبھی ایسا موقع آئے کہ وہ مجھ سے اپنے سارے جملہ حقوق واپس مانگ لے ،تب میں کیا کرونگا؟مزنی۔اسوقت میں کہاں جاؤں گا۔زندگی میں پہلی دفعہ گر وہ مجھ سے کچھ مانگے گی میں منع نہیں کر پاؤنگا۔میں اسے انکار نہیں کرسکتا ،اسے مایوس نہیں کر سکتا۔اوراس کی خواہش پوری کردینے کے نتیجے میں ، میں بلکل تہی داماں رہ جاؤنگا "۔
فضاء میں کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں مرکوز کیے وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولا۔
"کیا ہوا ہے بھائ؟کیا زرمین نے آپ سے رابطہ کیا ہے؟کیا وہ کچھ مطالبہ کر رہی ہے؟جملہ حقوق واپس لینے سے کیا مراد ہے ؟کیا آپ Divorceکی بات کر رہے ہیں ؟وہ کہاں ہیں ؟آپ میری بات کرائیں اس سے میں اسے سمجھاؤنگی۔وہ ایسا نہیں کرسکتی کبھی نہیں۔"
اب کے مزنی بھی بوکھلائ نظر آرہی تھی۔
"مزنی نیچے آؤ۔ شاہ زر کیا کر رہے ہو یار انگوٹھی پہنانے کی رسم دلہن کے بغیر کیسے ہو پائے گی میرے بھائ۔"
شاہ میر پہلی سیڑھی پر کھڑا دہائ دے رہا تھا۔
شاہ زر نے مزنی کا ہاتھ تھاما اور نیچے چلا آیا۔
زین اور مزنی نے ایک دوسرے کو انگوٹھیاں پہنائیں۔فضاء میں تالیوں کا شورگونج اٹھا۔مزنی کی اتری شکل دیکھ زین پریشان ہوا تھا۔اس کے استفسار پر مزنی نے ،"کوئ پرابلم نہیں ہے"کہہ کر اسے ٹال دیا تھا۔
انگوٹھی کی رسم پوری ہوتے ہی شاہ زر اسٹیج پر چڑھ گیا ۔
مائیک سنبھال کر گلا کھنکھارا سبھی اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔
"Hello to all .Thank you for pleasure of your company ,your generous gifts and warm wishes on special occasions of my sister's engagement.
I have an announcement for all of you.In case you all are curious about my personal life.
Dont insult my father.
Iam responsible for all this mess.She leaves me because of my faults.
Don't talk with my mother about my marriage. She doesn't need daughter in law she has one.
Iam already married.
Dont talk about my wife as if she is past.
Distance between us is temporary.
We will be together in future in sha Allah. I love her,and going to love her for rest of my life.
When I first met her ,honestly I didn't know she was gonna be this important to me.
I actually fell for her before i even realized i did.she is game changer, the kind of girl that redefines every thing you thought you knew about amazing.
One day I was looking at her ,I wonder how I got to be so damn lucky.
Dont you all dare think that iam going to love or marry some other girl .
The next girl I will ever love on this earth will be our daughter.
I will wait for her because honestly I don't want any one else.
I just wanted to say this to zarmeen,
where ever you are ,
I love you for all that you are,
all that you have been,
and all your yet to be.
Iam yours don't give myself back to me.
I left the light in my heart on ,in case you ever wanted to come back home,and you will in sha Allah . Miracle happens every day.I love you and sorry for all that I have done to you.
I will be waiting here
For your silence to break,
For your soul to shake,
For your love to wake
اپنی بات ختم کر کے وہ اسٹیج سے نیچے اترا تھا۔مجمع جیسے اس کے الفاظ کے سحر سے نکلا لان ایکدم سے تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ہزاروں دلوں پر قدم رکھتا وہ مزنی کے قریب چلا آیا۔محفل میں موجود تقریباً لڑکیوں کو چاہے وہ کنواری ہوں یا شادی شدہ، اس لڑکی کی قسمت پر رشک ہوا تھا جسے اس شخص کی بیوی ہونے کا شرف حاصل تھا۔وہاں موجود ہر فرد کو اس لڑکی کے لیے اس شخص کی محبت صاف دکھائی دے رہی تھی۔اس کی الفاظ موتیوں کی مانند خالص تھے۔
"اے کاش تم یہاں ہوتی زرمین،تم دیکھتی کے تمھارا شوہر تم سے کتنی محبت کرتا ہے ۔کتنی شدت سے وہ تمھاری واپسی کا منتظر ہے۔تمھیں اپنی قسمت پر ناز ہوتا ۔تم خدا کا شکر کرتے نہ تھکتی۔"
مزنی داخلی دروازے کو عبور کرتے شاہ زر کو دیکھ کر رہ گئ۔وہ اس کے اندورنی خلفشار سے واقف تھی۔اسٹیج پر کھڑے اس کے بھائ کے لہجے کی لرزش اور ہاتھوں کی کپکپاہٹ کو اس نے محسوس کیا تھا۔وہ ٹھیک نہیں تھا بھلے ہی اس نے سب کے سامنے اپنی محبت کا اظہار کر کے کہہ دیا تھا کہ وہ اس کا منتظر ہے ، پر امید ہے کہ وہ لوٹ آئے گی۔ مگر اندر سے وہ خود خوف زدہ تھا۔ وہ امید و نا امیدی کے درمیان جھول رہا تھا۔
مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ سب کی داد وصول کرتا اپنے کمرے میں آگیا اور سیدھے بستر پر ڈھیر ہوگیا۔ آنکھوں کے گوشے بے ساختہ نم ہوئے تھے۔
نہیں ہے کوئی شکوہ اب کسی سے
بس اپنے آپ سے روٹھا ہوا ہوں
بظاہر خوش ہوں لیکن سچ بتاؤں
میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں
*****
"کمرے کا باہر ہورہی چہل پہل سے اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ کوئ مہمان آئے ہیں۔آج اتوار تھا چھٹی کا دن تھا ۔وہ کمرے میں ہی بیٹھی رہی طبیعت بوجھل ہورہی تھی۔تبھی دائی ماں کمرے میں داخل ہوئیں۔وہ اٹھ بیٹھی۔
دائی ماں اس کے قریب بیٹھ گئیں۔
"باہر کچھ لوگ تمھارا رشتہ لیکر آئے ہیں۔لڑکا شہر میں رہتا ہے پڑھا لکھا انجینئر ہے۔خوش شکل بھی ہے۔مجھے تو وہ بہت پسند آیا ہے تمھارے لیے۔میں یہی چاہ رہی تھی کہ جلد از جلد تمھاری شادی کروا کے اس فرض سے سبکدوش ہو جاؤں۔دیکھو ہماری قسمت کتنی اچھی اس چھوٹے سے گاؤں میں اجنبی ہوتے ہوئے بھی تمھارے لیے مناسب رشتہ آیا ہے۔اب بس تم تیار ہوکر نیچے آجاؤ۔تم لڑکے کو دیکھ لینا وہ لوگ تمھارے منتظر ہیں۔"
دائی ماں بہت خوش تھیں۔مسرت ان کے لہجے سے واضح تھی۔میرون کامدار جوڑا اس کے پاس چھوڑ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئیں۔وہ سکتے کی کیفیت میں اس جوڑے کو دیکھ رہی تھی ۔یہ سب کیا ہو رہا تھا اب کون سی آزمائش اس کی منتظر تھی۔وہ بے چینی سے کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔دماغ بلکل سن ہوگیا تھا۔
"میرے خدا مجھے اس امتحان کی گھڑی سے بچا لے۔کوئ کرشمہ کردے۔میں دائ ماں سے کیا کہوں ؟کیسے بتاؤں انھیں کہ میں کسی کی منکوحہ ہوں؟"
اس کے دل سے دعا نکلی۔وہ پانچ منٹ تک ہنوز کمرے کے چکر کاٹتی رہی دفعتاً ایمن دروازے پر نمودار ہوئی۔
"باجی آپ تیار نہیں ہوئ ؟جلدی کریں نا وہ لوگ آپ ہی کا پوچھ رہے ہیں؟"
وہ اپنی بات کہہ کر جن کی طرح غائب ہوگئی۔اس گھر میں فی الوقت وہی افرا تفری کا ماحول تھا جو اکثر لڑکی والوں کے گھر رشتہ آنے پر ہوتا ہے۔
مارے گھبراہٹ کے اس کا سارا جسم پسینےمیں شرابور ہو گیا۔
"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے"
"ہاں"
اس کی ذہن میں اپنی ہی آواز گونجی۔
"قبول ہے"۔
شاہ زر کی آواز نے ذہن میں چکر لگایا ۔
"مجھے بیوی بیوی کہہ کر مخاطب کرنا بند کرو،میں تمھاری بیوی نہیں ہوں۔"
"اچھا ،حال ہی میں میرا نکاح کس کے ساتھ ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔"
"زرمین اس گھر کی بہو ہے ہماری عزت ہے۔۔۔۔۔ "
"ان سے ملیے، یہ ہیں میری بھابھی۔زرمین شاہ زر آفریدی۔۔۔۔۔۔۔
"آپ مجھے نہیں جانتی لیکن میں آپ کو جانتی ہوں ۔آپ شاہ زر چاچو کی وائف ہیں زرمین آنٹی۔"۔۔۔۔۔۔
شاہ زر سے جڑا اس کا رشتہ اس رشتہ سے جڑے سارے رشتے اسے یاد آنے لگے۔
"نہیں میں کمزور نہیں پڑ سکتی۔مجھے کچھ کرنا ہوگا۔دائی ماں کو میں سمجھا لونگی۔وہ نہیں جانتی کہ میں شادی شدہ ہوں اس قسم کی صورت حال سے نمٹنامجھے آنا چاہیے۔آخر کو اپنی بقیہ زندگی شاہ زر کے نام کے ساتھ گزارنی ہے مجھے۔"
وہ اپنی ساری ہمت متجمع کر باہر آئ تھی۔سب کی نگاہیں اس کی طرف اٹھی تھیں۔
اسے عام سے حلیے میں دیکھ دائی ماں کی پیشانی پر شیکنیں نمودار ہوئ تھیں۔
وہ دائ ماں کے پاس کرسی پر ٹک گئ۔اپنےعین مقابل اس دن اس کی ہاتھ سے چھوٹ کر گری گرم چائے کا شکار ہوئے شخص کو دیکھ اس کی طبیعت مزید مکدر ہوگئی۔
"ادھر میرے پاس آکر بیٹھو میری بچی۔ہائے چاند سا چہرہ ہے آپ کی بیٹی کا۔ یوں ہی تو نہ ہوا ہے میرا بیٹا بے چین اسے اپنی دلہن بنانے کے لیے۔اب جلدی سے ہاں کہہ کر مٹھائی کھلائیں آپ ہمیں ۔مجھے تو لڑکی انتہا سے زیادہ پسند آئ ہے۔بس شادی کی تاریخ آج ہی طے کر دیتے ہیں۔ "
قدرے فربہی مائل جسم پر عمر کا لحاظ نہ کرتے ہوئے شوخ رنگ کا لباس میں ملبوس خاتون بالا ہی بالا سب کچھ طے کر کے بیٹھی تھیں۔ انھیں تو گویا یقین تھا کہ لڑکی والوں کی طرف سے کوئ اعتراض نہیں جتائے گا۔ غالباََ اپنے بیٹے پر بڑا ناز تھا۔وہی بد تہذیب بیٹا جو بس اسی کے چہرے پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا۔اس نے بے چین ہوکر پہلو بدلا۔اس خاتون کے اسےاپنے پاس بلانے کے باوجود وہ اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں۔
دائی ماں کو ان کی ہاں میں ہاں ملاتا دیکھ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
" معاف کیجیے گا، میں یہ شادی نہیں کرسکتی۔مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ۔لہذا آپ اپنے بیٹے کے لیے کوئ اور لڑکی ڈھونڈ لیں۔میری دائ ماں چند دنوں قبل ہی کومہ سے باہر آئ ہیں۔میں ان کی دیکھ بھال کرنا چاہتی ہوں کچھ وقت ان کے ساتھ بتانا چاہتی ہوں ۔فی الحال انھیں میری ضرورت ہے۔"
اس کی بات پر صحن میں ایستادہ ہر نفس بھونچکا رہ گیا۔دائ ماں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔وہ اس کے لہجے کی لرزش کو محسوس کرسکتی تھیں۔ گویا یہ چند جملے ادا کرنے کے لیے اس نے اپنی ساری قوت لگا دی ہو ۔اس رشتے کی خبر سنتے ہی اس کی اڑی رنگت ان کی زیرک نگاہوں سے چھپ نہ سکی تھی ۔
"نسیمہ اگر رشتہ نہیں کرنا تھا تو ہمیں فون پر ہی بتا دیتیں گھر بلاکر ہمیں ذلیل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔آپ کی بیٹی کی مرضی سے تو بخوبی واقف ہونگیں آپ دونوں۔چلو بیٹا یہاں رک کر اور تذلیل نہیں کرانی ہم نے ہماری۔"
لڑکے کی ماں باآواز بلند کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔دائ ماں اور نسیمہ چاچی نے جوں ہی معزرت کرنے کے لیے لب کھولے وہ بول پڑی۔
"اگر آپ کو کچھ کہنا ہی ہے تو مجھ سے کہیں۔میرے انکار کے نتیجے آپ کو میرے بڑوں کی تذلیل کرنے کا کوئ حق نہیں ہے۔میرے انکار سے آپ کو تذلیل کا احساس ہوا ہے تو میں معذرت پیش کرتی ہوں۔باقی یہاں کہنے سننے کو کچھ نہیں بچا اس لیے اللّٰہ حافظ۔۔"
اس نے بڑے ادب کے ساتھ انھیں باہر کا راستہ دکھایا تھا۔لڑکے کی ماں بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئ ۔گھر کی چوکھٹ عبور کرنے سے قبل وہ ایک الوداعی نظر زرمین پر ڈالنا نہیں بھولا تھا ۔اس کے جواب میں زرمین نے ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی تھی۔وہ ناکام و نامراد واپس لوٹ گیا۔ان کے جاتے ہی وہ کسی سی بھی نظریں ملائیے بغیر سیدھے اپنے کمرے میں آگئ۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لیے اپنے ذہن میں الفاظ ترتیب دینے لگی۔ کوئ ایسی وجہ ڈھونڈنے لگی جو دائ ماں کو مطمئن کر سکے۔
دائی ماں اندر آئی تھیں۔اس سے کوئی سوال کیے بغیر وہ غسل خانے کی سمت بڑھنے لگیں غالباً وہ اس سے خفا تھیں۔
وہ غسل خانے سے باہر آئیں زرمین آنکھوں میں آنسوں لیے انھیں کو دیکھ رہی تھیں۔
دائی ماں وہ میں۔۔۔۔۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی
دائی ماں اس کے قریب چلی ائیں۔اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیکر گویا ہوئی۔
"میں تم سے خفا نہیں ہوں۔تمھیں شرمندہ ہونے کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔ان لوگوں کو یہاں بلانے سے قبل مجھے تم سے پوچھ لینا چاہیے تھا۔میں بس چاہتی تھی تمھارا گھر بس جائے۔شوہر اور بچوں کی مصروفیات زندگی میں آئیں گی تو تم بھی دوسری لڑکیوں کی طرح مصروف ہوجاؤگی۔تمھیں اداس رہنے کا موقع ہی نہیں ملے گا ۔لہذا میں نے تمھیں مطلع نہیں کیا۔مجھے یقین تھا لڑکے سے ملے بغیر دیکھے بغير تم رشتے سے انکار کردوگی ۔ وہ بلکل تمھارے آئیڈیل جیسا تھا جیسا تم کہا کرتی تھی کہ مردوں کو ہونا چاہیے ۔پڑھا لکھا،باشعور ،شریف۔
میرا خیال تھا سامنے سے دیکھ کر شاید وہ لڑکا تمھیں پسند آجائے اور تم ہاں کردوں۔میں جانتی ہوں رشتے کو منع کرنے کی جو وجہ تم باہر دے کر آئ ہو وہ حقیقت نہیں ہے۔کیونکہ تم جانتی ہو کہ میری طبیعت کو سکون تب ملے گا جب تم اپنے گھر کی ہوجاؤگی۔جتنی خوشی مجھے تمھیں تمھارے شوہر کے ساتھ کھڑے دیکھ کر ہوگی ،تم چاہے میری جتنی خدمتیں کر لو مجھے اتنی خوشی نہیں ہوگی۔خیر تمھیں اپنی زندگی کے فیصلے لینے کا پورا حق ہے۔تم فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتی ٹھیک ہے۔ہم اس بارے میں اور بات نہیں کرتے ۔"
دائی ماں نے اس کی پیشانی چوم کر بات ختم کر دی۔ وہ خاموش بیٹھی رہ گئ۔
وہ انھیں کیسے بتاتی کہ اب وہ آئیڈیلیزم پر یقین نہیں رکھتی۔وہ سمجھ چکی تھی یہ ضروری نہیں کہ جو افراد ظاہری طور پر ہمیں شریف النفس اور باشعور نظر آتے ہیں وہ حقیقتاً اچھے ہوں۔ جیسے فیصل۔ اور وہ افراد جو ہمیں ظاہری طور پر عیاش اور آوارہ صفت نظر آتے ہیں وہ حقیقتاً برے ہوں جیسے شاہ زر ۔
اسے جان بوجھ کر سگنل توڑنے والا،نو پارکنگ زون میں قصداً گاڑی پارک کرنے والا،
اسے اس کے محلے سے جبراً اٹھا کر لے جانے والا شخص پسند تھا۔اس دنیا میں موجود ہر شخص سے زیادہ۔
"آج تو دائ ماں نے میرے فیصلہ کو اہمیت دی۔ مگر کب تک میں ان سے حقیقت کو پوشیدہ رکھ پاؤنگی۔حیقیت سے آگاہی کی صورت میں انھیں صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہے اور حقیقت سے ناواقف ہونے کی صورت میں وہ کب تک اپنی بیٹی جو ان کی نظر میں کنواری ہے اس کو گھر بٹھا کر رکھیں گی۔میں تو ساری زندگی شاہ زر کے نام کے ساتھ جینا چاہتی ہوں، مگر اس معاشرے میں رہتے ہوئے میں ایسا کیسے اور کب تک کر پاؤنگی۔"
وہ بستر پر بیٹھی سوچتی رہ گئی۔