روشنیوں سے سجے لان میں داخل ہںوتے ہی شہر کی قریباً تمام معزز و مقبول ہستیوں کو موجود پاکر اس کے ہںوش اڑ گئے۔اس سے قبل کے وہ کسی کونے میں جا چھپتی مزنی نے اسے جالیا۔
"کہا تھی تم نہ جانے کتنی دیر سے میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی۔بھائی تمہارے منتظر ہے جاؤ ان کے ساتھ کھڑی ہںوجاؤ۔آج راشد انکل تمہارا تعارف سب سے کرواینگے اور Grand level پر منعقد کیے جانے والے تمہارے اور بھائی کے ولیمے کا اعلان کرینگے ۔جو ٹھیک اس ہںفتے کے آخر میں ہںونا طے پایا ہںے۔
"مزنی نے بڑے ہی اطمینان سے اس کے سر پر بم پھوڑا تھا۔اس کا چہرہ فق پڑ گیا۔مزنی کیا کہہ رہی تھی؟دعا کی برتھڈے پارٹی میں اس کا تعارف کیوں کروایا جارہاہںے؟وہ یہ سوچ کر دہل کر رہ گئی کی وہ ان رئیس مہمانوں سے کیا کہے گی کیا یہ کہ وہ شاہ زر کی بیوی ہے جوکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔اسے شاہ زر کی زندگی میں جبراً شامل کیا گیا ہے۔ یا یہ کہ راشد صاحب کی ضد کی بدولت وہ شاہ زر جیسے رئیس زادے کی بیوی بنادی گئی تھی۔ہزاروں دلوں کی دھڑکن شاہ زر آفریدی کی بیوی وہ لڑکی تھی جس نے اسے جیل بھجوادیا تھا۔راشد صاحب اپنے مہمانوں سے کیا کہیں گے اچانک شاہ زر کی بیوی کہاں سے وارد ہوگئ۔
اس کا وجود لرزنے لگا۔
اسکا فق پڑتا چہرہ دیکھ مزنی نے ایک کرسی گھسیٹ کر اس پر اسے بیٹھایا اور خود اس کے مقابل دوزانو ہوکر بیٹھ گئ۔اپنے عزیز ترین بھائ کی عزیز ترین بیوی کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں لیتے ہوئے وہ گویا ہوئ۔
"Don't be afraid .be brave.تم کیوں خوفزدہ ہو جب تم نے کیوں غلطی ہی نیہں کی۔اپنی ماضی کو بھول جاؤ اور حال میں جینے کی عادت ڈال لو۔تم آفریدی خاندان کی بہو ہو۔شاہ زر آفریدی کی بیوی ہو۔تم سے کوئی کچھ نہیں کہےگا۔تمھیں یہاں اتنی ہی عزت دی جائے گی جتنی بھائ کو دی جاتی ہے۔آج تمھیں تمھارا کھویا مقام و عزت
"واپس مل جائے گی ۔"
آنسو ایک تواتر سے اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔اس نے خالی خالی نظروں سے مزنی کی طرف دیکھا تھا۔
"مجھ سے یہ سب نہیں ہوپائے گا۔مجھے کوئ مقام کوئ عزت واپس نہیں چاہیے۔انکل سے کہو وہ کسے سے نا کہیں کہ میں کون ہوں اس گھر میں کیا کر رہی ہوں۔"
وہ بھرائی آواز میں بولی۔
اس کی بات پر مزنی کا انداز پل بھر میں بدلا تھا۔فل شاکنگ پنک گاؤن پر پنک حجاب لپیٹے وہ ایکدم سے کھڑی ہوئ تھی۔
"کم آن رونا بند کرو۔اور بنا سر پیر کی باتیں مت کرو چلو اٹھو۔"
اس کا ہاتھ کھینچ کر ایک جھٹکے سے اسے کھڑا کر وہ اس کا ہاتھ تھامے شاہ زر کے نزدیک آرکی۔
"آپکی وائف آپکے حوالے۔"
یہ کہکر مزنی اسے شاہ زر کے پاس چھوڑ کر چلی گئ۔
"یہ کیا مظلوموں والی شکل بنائی ہوئی ہے تم نے۔ گویا تمھیں پھانسی کی سزا سنائی جانی ہے۔مظلوموں والی شکل تو مجھے بنانی چاہیے رات دن ہنس ہنس کر تمھارے ظلم برداشت کرتا ہوں میں۔"
وہ مسکرا کر دانستہ اسے چھیڑنے کے لیے بولا تھا تاکہ وہ اپنے موڈ میں لوٹ آئے اس سے لڑے۔ مگر خلاف توقع وہ خاموش تھی۔
اس سے قبل کہ وہ فرار کی راہ ڈھونڈتی شاہ زر نے اس کا ہاتھ تھاما اور کچھ معزز ہستیوں کے درمیان جا کھڑا ہوا۔
ابھی اس کا تعارف بھی نہ ہو پایا تھا کہ کیک کٹنے کا اعلان کیا گیا۔
کیٹ کاٹا گیا اپنے ممی پاپا اور چاچو کو کیک کھلالینے کے بعد دعا نے اس کی طرف کیک کا پیس بڑھایا تھا۔پارٹی میں آئے تقریباً افراد نے قدرے حیرانی سے اس ڈری سہمی لڑکی کو دیکھا تھا جسے آفریدی ولا کے مکین خصوصی توجہ سے نواز رہے تھے۔دفعتا راشد صاحب نے اسٹیج پر چڑ ھکر مائک سنبھالا۔وہ جو دعا سے اسقدر پذیرائی پر اور سب کو اپنی طرف متوجہ پاکر بری طرح نروس ہںو رہی تھی۔مائیک کی کھڑکھراہٹ سن کر مزید بوکھلا گئی۔
"برائے کرم سبھی guests یہاں متوجہ ہوں۔آج اس پارٹی کے انعقاد کے دو خاص مقاصد ہیں۔اول یہ کہ آج میری لاڈلی پوتی دعا کی سالگرہ ہںے۔دوم میں آپ سبھی کو اپنی چھوٹی بہو 'زرمین شاہ زر آفریدی '
سے متعارف کروانا چاہتا ہوں۔مجھے اندازہ ہںے کہ یہ خبر سن کر آپ سبھی متعجب ہںونگے کے شاہ زر کا نکاح کب اور کیسے ہںوا؟دراصل یہ سب اسقدر جلدی میں ہںوا کہ میں اپنے احباب و رشتےدار کو مدعو کرنے کا وقت بھی نہیں نکال پایا۔اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں۔البتہ شاہ زر کے ولیمے کا انعقاد اس ہفتے کے آخر میں ہںونا طے پایا ہںے۔آپ سب سے شرکت کی گزارش ہیں۔دعوت نامے آپ سبھی کے گھر پہنچا دیے جائینگے۔"
اپنی بات ختم کر راشد صاحب اسٹیج سے نیچے اترے تھے۔
اعلان کا اختتام ہںوتے ہی اسٹیج کے اطراف موجود تقریباً سبھی افراد شاہ زر کے قریب کھڑی لڑکی کی طرف متوجہ ہںوئے تھے۔مگر زرمین کی توقع کے عین خلاف کسی نے بھی حیرانی کا اظہار نہیں کیا تھا۔
upper class
طبقے میں اس قسم کی شادیاں عام بات تھی۔وہ تو راشد صاحب تھے جنہوں نے اپنے جاننے والوں کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا تھا۔شرافت کا تقاضا تھا۔ورنہ اس طبقے سے تعلق رکھنے والے کچھ رئیس زادوں کی شادی کی خبر بھی تب ہوتی جب اخباروں میں ان کی طلاق کی خبر شائع ہوتی تھی۔
سب سے پہلے مزنی اپنی سہیلیوں کو لیے اس کے نزدیک آئی تھی۔
"ان سے ملیے یہ ہیں میرے بھائی کی وائف misses Shahzar aafredi"
اپنے سہیلیوں کے بڑے سے گروہ کے ساتھ مزنی نے اسے گھیرا تھا۔
She is beautiful
.شاہ زر کو اپنی ٹکر کی بیوی نصیب ہوئ ہے۔'
ایک لڑکے نے اس کی خوبصورتی سے مرعوب ہوتے ہوئے کہا۔
"ملی نہیں ہے ڈھونڈ نکالی ہیں ۔بھائ نے love marriage کی ہے۔"
مزنی نے ڈھٹائی سے مسکراتے ہوئے سفید جھوٹ بولا تھا۔وہ ششدر رہ گئی۔
"واو،جسطرح شاہ زر لڑکیوں کو زرا سی بھی لفٹ نہیں کرواتا تھا ہمیں تو یقین ہوچلا تھا کہ اس کی marriage arrangeہوگی۔مگر دیکھ لو ہوا کیا۔درحقیقت شاہ زر جیسے لڑکے اپنی ساری محبت کسی ایک لڑکی کے لیے سنبھال کر رکھتے ہیں۔"
دوسری لڑکی نےاظہار خیال کیا تھا۔وہ مسکرا بھی نہ سکی۔تبھی پریوں جیسے سفید فرلس سے بنے فراک میں ملبوس دعا ان کے قریب آئی تھی۔
"آنٹی چلیں جلدی چلیں مجھے اپنی فرینڈز کو دکھانا ہے کہ میری آنٹی کسی پرنسس سے کم نہیں ہیں"۔
وہ اس کا ہاتھ تھام کر تیاریوں میں ایک دوسرے کو مات دیتی ننھی منھی لڑکیوں کے درمیان لے آئ۔
"واؤ دعا تمھاری آنٹی تو سچ میں پرنسس کی طرح لگتی ہیں۔"
سرخ فراک میں ملبوس لڑکی نے بے ساختہ کہا باقی لڑکیوں نے اثبات میں گردن ہلا کر اس کی تائید کی ۔دعا نے فخر سے اپنی گردن کچھ اور اکڑا لی۔
"ہیلو میسیس شاہ زر آفریدی"۔
دفعتاً اس کے عقب سے شناسا آواز ابھری تھی۔
وہ پلٹی اپنے عین مقابل عائشہ اور حسین کو ایستادہ دیکھ اسے حیرت نہیں ہوئ تھی۔وہ دونوں صحافت پیشہ تھے اس قسم کی تقریبات میں ان کی موجودگی یقینی تھی۔آج اگر وہ یہاں misses Shahzar aafredi کی حیثیت سے ان کے مقابل نہ کھڑی ہوتی تو یقیناً وہ جرنلسٹ کی حیثیت سے ان دونوں کے ساتھ کھڑی ہوتی۔
"کتنی گھنی ہو تم زرمین، شادی کرلی اور اپنی دوست کو بھنک تک نہ پڑنے دی ۔"
اس کا ہاتھ تھامے عائشہ مصنوعی خفگی سے بولی تھی۔
" میں تفصیل سے تم دونوں سے بات کرنا چاہتی تھی مگر موقع نہیں ملا۔"
وہ پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جھوٹ بول رہی تھی۔درحقیقت وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ وقت آئے جب اسے اپنی زندگی کے ان لمحوں کے متعلق انہیں بتانا پڑے جنھیں وہ کسی سے شیر نہیں کرنا چاہتی تھی۔
"ارے چھوڑو اب تم کہاں ہمیں گھاس ڈالوگی ۔اب تو تم زرمین فاروقی نہیں رہی,زرمین آفریدی بن چکی ہو۔خیر ہم تو اتنے میں ہی خوش ہیں کہ کل کے اخبار کے لیے سنسنی خیز خبر ہمارے ہاتھ لگی ہے۔
"آج کی آواز کے لیے کام کرنے والی ابھرتی ہوئی جرنلسٹ زرمین فاروقی نے ہزاروں دلوں کی دھڑکن شاہ زر آفریدی کا دل چرا لیا۔"
عائشہ خوش ہوتے ہوئے بولی تھی۔حسین خاموش کھڑا تھا۔اس پارٹی میں شرکت کرنے والے تقریباً افراد کی طرح وہ دونوں بھی حقیقت سے لاعلم ہونے کا ڈھونگ کر رہے تھے۔ایک ایک خبر کے لیے جان مارنے والی اس لڑکی کو آج احساس ہوا تھا کہ روزانہ شائع ہونے والے ہزاروں اخباروں میں قریبا پچاس فیصد خبریں جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں۔حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود یہ صحافت پیشہ افراد غلط خبریں شائع کرواکر لوگوں تک غلط خبریں پہنچاتے تھے۔اسے میڈیا اس لفظ سے ایکدم سے نفرت محسوس ہوئی۔
وہ مسکرا بھی نہ سکی ۔وہ دونوں اس سے الوداعی کلمات کہتے تقریب کا جائزہ لینے چل دیے کل کے اخبار کے لیے ایک ہی خبر کافی نہیں تھی۔
دفعتاً کسی نے سختی سے اس کی کلائی تھام کر اس کا رخ اپنی سمت کرلیا۔
اپنے عین مقابل شاپنگ مال میں زہر اگلنے والی لڑکی کو دیکھ اس کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔ڈریس کوڈ کے مطابق وہ بلاک بغیر آستینوں والے گاؤن میں ملبوس تھی۔
"اوہ تو تم شاہ زر کی وائف بنی سب سے مبارکباد وصول کررہی ہو۔غالبا یہی وجہ تھی کہ اس دن شاپنگ مال میں تم کافی سے زیادہ confidentنظر آرہی تھی۔میں نے تو محض سن رکھا تھا کہ مڈل کلاس لڑکیاں shamelessہوتی مگر آج دیکھ بھی لیا۔کسقدر ڈھٹائی اور بےشرمی سے تم میسیس شاہ زر آفریدی بنی گھوم رہی ہو۔تمھیں کیا لگتا ہے یہاں کوئ تمھاری اصلیت سے واقف نہیں ۔غلط فہمی ہے تمھاری۔تمہیں congratulateکرتے یہ لوگ بخوبی واقف ہیں کہ کسطرح تم شاہ زر کے سر مڈھ دی گئی ہو۔"
وہ زہر خند لہجہ میں گویا ہوئ۔
اسے اس لڑکی سے یہی توقع تھی۔مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ خاموش کھڑی رہی۔اس کے منہ لگ کر وہ بدمزگی نہیں
پھیلانا چاہتی تھی۔
"تمھاری لائف کے Aسے لیکر Z تک ہر چھوٹی بڑی حقیقت سے واقف ہوں میں۔جس ایکسیڈنٹ کی وجہ سے تم نے اسے جیل بھجوادیا اس کے جواب میں اسنے تمھیں ایک گھنٹے کے لیے کیڈنیاپ کرلیا تھا۔وہ ایکسیڈنٹ میری وجہ سے ہوا تھا۔میں نے اس کی ڈرنک میں نشہ آور گولیاں ملائ تھیں۔اسے حاصل کرنے کی اور کوئ تجویز مجھے نہیں سوجھی تھی۔میرا پلان کامیاب ہوہی جاتا گر اس روز وہ اپنے گھر کے لیے روانہ نہ ہوتا۔نشہ نے اپنا اثر دکھایا اور اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ۔کچھ دنوں تک میں بہت سوری فیل کرتی رہی کہ میری بدولت اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ۔مگر جب مجھے پتہ چلا کہ اس ایک ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اسے جیل جانا پڑا ،اس ایک ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اس نے تمھیں kidnap کیا۔ and iam sureاس ایک گھنٹے کے دورانیہ میں اس نے تمھیں ہاتھ تک نہیں لگایا ہوگاباوجود اسکے اسی ایکسیڈنٹ کی وجہ سے راشد انکل نے تمھیں اس کی بیوی بنا دیا۔تب میرے دل میں شدت سے ایک خواہش نے سر اٹھایا کہ کاش وہ اس حادثہ میں مر جاتا۔میں اس کی لاش دیکھ سکتی ہوں مگر اسے کسی اور لڑکی کے ساتھ کھڑا نہیں دیکھ سکتی ۔میں نے اس رات اسے حاصل کرنے کے لیے اس پلان کا سہارا لیا تھا مجھے یقین تھا کہ میری اور شاہِ زر کی چند نازیبا تصاویر ہی میرا کام بنادینگی۔راشد انکل بنا کسی تردد کی مجھے اس کی وائف کے عہدے پر فائز کرددینگے۔مگر ہوا کیا تمھارا مڈل کلاس ذہن اور بھی شاطر نکلا۔راشد انکل کو emotionally manipulate کرکے بڑے آرام سے تم شاہ زر کی لائف میں گھس آئی۔مگر یاد رکھنا، تم میری غلطی کی وجہ سے شاہ زر کی زندگی میں آئ ہو تو تمھیں اس کی زندگی سے باہر پھینکے بغیر میں چین کی سانس نہیں لونگی۔"
اس لڑکی نے ایک ایک لفظ اپنی نفرت میں ڈبو کر مارا تھا۔
الفاظ تھی کہ قیامت ۔اس کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئ تھی۔وہ ساکت رہ گئی۔انتقام کی وہ کہانی لکھنے والی لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی۔وہ لڑکی کونسی کہانی سنا گئ تھی۔افسوس ،بے بسی،غصہ،نفرت یکبارگی کئ جذبات نے اس کے ذہن پر یلغار کی تھی۔بلاخر غصہ ان جذبات پر سبقت لے گیا۔فضاء میں اس کا ہاتھ اٹھا اور اس لڑکی کہ رخسار پر اپنا نشان چھوڑ گیا۔
"مجھے افسوس ہوتا ہے اس حقیقت پر کہ تم جیسی لڑکیاں اس روئے زمین پر سانس لیتی ہیں۔قصوروار تم تھی اور سزا شاہ زر کو ملی جبکہ تم آزاد گھوم رہی ہو۔تمھیں تو سیدھے پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے تاکہ تمھارے ناپاک اور غلیظ ترکیبوں سے شاہ زر جیسے مرد محفوظ رہیں۔تم جیسی لڑکیوں کا آزاد گھومنا معاشرے کے لیے کسی جان لیوا وبا کہ پھیل جانے سے زیادہ خطرناک ہے۔گھن آرہی ہے مجھے تم سے"۔
وہ چیخ کر بولی تھی اس کاتنفس تیز تیز چل رہا تھا۔
لزا شاک کی کیفیت میں تھی۔ اپنے مقابل کھڑی دھان پان سی لڑکی سے اسے ایسے ردعمل کی توقع نہیں تھی۔
چند لمحوں کے گزر جانے کے بعد وہ جیسے ہوش میں آئ تھی۔اس سے قبل کے وہ تھپڑ کا جواب تھپڑ سے دیتی فضاء میں معلق اس کا ہاتھ کسی نے تھام لیا۔
"تم سے مل کر ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی۔
تم تو بڑی ہی shameless نکلی بنا انویٹیشن کے ہی چلی آئی۔"
اس کے ہاتھ کو جھٹک کر اپنے ہاتھ کو رومال سے پوچھتے ہوئے شاہ زر نے طنزیہ انداز میں کہا۔گویا اس لڑکی کو چھو لینے سے اس کے ہاتھ میلے ہںوگئے ہںوں۔
"I am impressed shazar
تم نے جورو کا غلام بننے کی ساری حدیں پار کردیں ہیں۔مگر believe me یہ مڈل کلاس wastage تمہیں بالکل سوٹ نہیں کررہی ہںے۔"
وہ زہر خند لہجے میں بولی۔
"You better watch your words girl.
تم میری وائف کے بارے میں بات کررہی ہںو۔خیر میری بیوی نے تمہیں تمہاری اصل اوقات دکھا دی ہںے۔Now you can leave ورنہ مجھے سیکیورٹی کی مدد لینی ہںوگی وہ باعزت تمہیں گیٹ تک چھوڑ آئینگے۔"
ان کے اطراف پارٹی میں آئے افراد دائرے کی شکل میں جمع ہوگئے تھے۔تذلیل کے احساس سے لزا پاگل ہںوئی جا رہی تھی۔کھاجانے والی نظر زرمین پر ڈالتی وہ واک آؤٹ کر گئی۔
"Everything is fine. all of you carry on."
شاہ زر نے فضاء میں ہاتھ بلند کر تالی بجاتے ہوئے باآواز بلند کہا۔مجمعہ چھٹ گیا۔
پارٹی سابقہ انداز میں لوٹ آئی جبکہ وہ گیٹ کیپر کی خبر لینے تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔
پارٹی کے اختتام تک وہ کسی روبوٹ کی طرح مجمعے کا حصہ بنی رہی۔
اس کا ذہن سوچنے اور سمجھنے کی قوت سے مفلوج ہوچکا تھا۔پارٹی اپنے اختتام کو پہنچی۔سبھی مہمان رخصت ہو چکے تھے۔وہ ہال کی ایک کرسی پر بےحس وحرکت بیٹھی تھی تبھی مزنی اس کے پاس چلی آئی۔
"اتنا زبردست کارنامہ انجام دے کر تم یہاں چھپی بیٹھی ہو۔تم نے جو کیا ٹھیک ولڑکی یہی deserveکرتی تھی۔تمھیں فیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔چلو دعا تمھیں پوچھ رہی ہںے۔"
مزنی اس کا ہاتھ پکڑ کر
لان میں گھسیٹ لائی۔
لان میں جوانوں کی محفل سجی تھی۔سب کی توجہ کا مرکز دعا تھی۔
"لو آگئی تمہاری پرنسس آنٹی اب بولو کیا وش ہںے تمہاری؟"
شاہ میر نے دعا سے سوال کیا۔
"میری wish ہںے کہ شاہ زر چاچو اور پرنسس آنٹی مجھے ایک پارٹی ڈانس dedicate کریں۔"
دعا نے اترا کر آرام سے اس کے سر پر بم پھوڑا۔سبھی لڑکوں نے سیٹی بجا کر اس کی تائید کی تھی۔ اس سے قبل کہ وہ اعتراض جتاتی گرے فل سوٹ اور وہائٹ شرٹ میں ملبوس وہ کسی پرنس کی شان سے چلتا ہوا اس کے قریب آرکا۔ماتھے پر اس کے براؤن بال آرہے تھے ہمیشہ کی طرح اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اس نے کبھی اسے کلین شیو نہیں دیکھا تھا۔سنہری رنگت قمقموں کی روشنی میں دمک رہی تھی۔ وہ حسب معمول حسن اور وجاہت کا مجسمہ لگ رہاتھا۔
شاہ زر نے آپ ہاتھ آگے بڑھایا۔
"How dare you do this to me.۔۔۔۔۔۔
بنا کسی ثبوت کے تم یہ کیسے کرسکتی ہو۔۔۔۔۔۔۔
اس رات میں نے شاہ زر کی ڈرنک میں نشہ آور گولیاں ملائ تھیں۔۔۔۔۔۔۔
تمھیں میری باپ کی تذلیل میری ماں کے آنسوؤں کا حساب دینا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔
میں بس اتنا کہونگی کہ بھائ شراب نہیں پیتے۔۔۔۔۔۔۔
میں نے اسے حاصل کرنے کی لیے اس پلان کا سہارا لیا تھا۔۔۔۔۔۔
ایک ساتھ کئی آوازوں کی بازگشت اس کے زہن میں گونجنے لگیں۔
وہ ساکت کھڑی ایک ٹک اس کے چہرے پر نگاہیں مرکوز کیے ہوئے تھی۔اسے ہاتھ نا بڑھاتا دیکھ شاہ زر کچھ پریشان ہوا تھا۔تبھی مزنی جو زرمین کے ذہن میں چھڑی جنگ سے یکسر بے نیاز تھی نے مداخلت کرتے ہوئے اس کا ہاتھ شاہ زر کے ہاتھ میں تھمایا تھا۔
"جب تک یہ اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دیگی، کل کا سورج طلوع ہو جائےگا۔چلیں میوزک ان کریں۔"
باآواز بلند کہتی وہ دوبارہ اپنی نشست پر براجمان ہوگئ۔
اس کا ٹھنڈا یخ ہاتھ شاہ زر کے گرم ہاتھ کی گرفت میں آیا تھا ۔اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتے ہوئے اس نے بازو اوپر کیا اور اپنا دوسرے ہاتھ سے اس کی کمرکو تھاما تھا۔
اس کے لمس کے احساس سے وہ جیسے ہوش میں آئ تھی۔ شاہ زر کا ایک ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا جبکہ دوسرا اسکی کمر پر۔وہ بے ساختہ اپنے آپ میں سمٹی تھی۔
اس کی قربت اسے بری طرح نروس کردیتی تھی۔
"Are you uncomfortable?"
اسے قدرے حواس باختہ دیکھ شاہ زر نے استفسار کیا تھا۔
اس کی حالت اس بچے کی سی تھی جو چاہتا تو ہے کہ خود کو مضبوط ظاہر کرے مگر کسی اپنے کے استفسار پر کہ وہ خوفزدہ ہے یا نہیں ؟
غیر ارادی طور پر اس کی گردن اثبات میں ہل جاتی ہے۔
شاہ زر کے استفار پر غیر ارادتا اس کی گردن اثبات میں ہلی ۔
اس نے فوراً سے پیشتر اپنا ہاتھ اس کی کمر سے ہٹا لیا۔
"میرے خدا یہ شخص اتنا اچھا کیوں تھا؟ میرے دل میں اور جگہ بچی ہی نہیں ہے اس شخص کو سونپنے کے لیے۔
اے کاش میں اس روز نو پارکنگ میں کھڑی گاڑی کو نظر انداز کردیتی۔یا یوں ہوتا کہ تمھارے بجائے اس کار میں کوئ اور سوار ہوتا۔تو پھرآج میری زندگی مختلف ہوتی۔
اس دنیا میں کوئ بھی باپ راشد انکل جیسا نہ ہوگا جو ایک ناواقف لڑکی کو انصاف دلانے کے لیے اپنے بیٹے کا نکاح اس لڑکی سے کرادے۔
اس دنیا میں کوئ بیٹا تمھارے جیسا نہیں ہوگا جو بڑی آسانی سے اپنی غلطی کی پاداش میں اپنے باپ کے حکم پر کسی اجنبی لڑکی سے نکاح پر رضامند ہو جائے۔
تمھاری جگہ کوئ بھی مرد ہوتا تو مجھے یقین ہے چاہے وہ کتنا ہی نیک دل ہوتا میں اس کی محبت میں گرفتار نہ ہوتی۔نفرت کرنے والوں کو خود سے محبت کرنے پر مجبور کرنے کا ہنر صرف تمھیں آتا ہے۔صرف تمھیں۔
شاہ زر نے اپنا ہاتھ اس کی کمر سے ہٹا کر اسکا دوسرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا۔اس کا صبر جواب دے دیا گیا ۔آنسوؤں کا سمندر بند توڑ کر نکلنے کو بےتاب ہوگیا۔فی الوقت وہ اس پوری دنیا میں سے محض ایک شخص کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔اور وہی شخص اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیے مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا ۔اس سے قبل کہ وہ اس کے سامنے ہی بلک بلک کر رو دیتی اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے ہاتھوں سے کھینچے اور بھاگتی ہوئی مین گیٹ کے باہر نکل گئ۔۔
وہ ششدر سا اس کے پیچھے جانے کی تیاری میں تھا کہ مزنی نے اسے روک لیا۔
"Leave her alone.
بھائ اسے کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دیں۔تم سب سے کسی بھی عقلمندی کی توقع عبث ہے۔کیا ضرورت تھی سیٹیاں اور تالیاں بجا کر شور ڈالنے کی اچھا خاصا پذل کردیا بےچاری کو"
وہ لان کی کرسیوں پر براجمان لڑکوں کو دیکھ کر بولی تھی۔
دعا کا موڈ بگڑا تھا۔
"کوئ بات نہیں ہم تمھیں خوبصورت سا پارٹی ڈانس dedicate کیے دیتے ہیں۔"
ذین نے کھڑے ہوکر مزنی کا ہاتھ تھامے ہوئے کہا۔دعا کی طرف دیکھ مزنی نے زین کی تائید کرنے میں ہی عافیت جانی۔
گو کہ شاہ زر قدرے پریشان تھا مگر بظاہر وہ مسکرا رہا تھا۔
دفعتاً دعا رونے لگی سبھی پریشان سے اسکی طرف بھاگے تھے۔اچانک اس کے پیٹ میں شدید درد شروع ہوا تھا۔شاہ زر نے فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔آدھے گھنٹے بعد اس کی طبیعت سنبھلی تھی۔ کھانے ۔یں غیر احتیاطی برتنے کی وجہ سے پیدا ہوئ زرا سی گیس نے اس کا یہ حال کیا تھا۔
وہ بے آواز روتی سیدھی سنسان سڑک پر چلتی جارہی تھی۔ذہن منتشر تھا دل آزردہ ۔سب کچھ غلط ہوگیا تھا۔اس کہانی کا آغاز ہی غلط فہمی کی وجہ سے ہوا تھا۔بنا تفتیش کیے اس نے ناکردہ گناہ کے لیے اسے جیل بھجوادیا تھا۔راشد صاحب کی، آفریدی خاندان کی تذلیل کا باعث بنی تھی۔
وہ بےقصور تھا پھر وہ اس سے انتقام کیوں نہ لیتا۔اپنے باپ کی تذلیل کا حساب کیوں نہ لیتا۔ اس شخص نے اپنی تذلیل کے بدلے اس تذلیل کی بھی تو کس انداز میں ۔وہ چاہتا تو اسے اپنی ہی نظروں میں ذلیل کردیتا ۔مگر وہ اسے باعزت اس کے گھر کے دروازے پر چھوڑ گیا۔وہ ایسا کرتا بھی کیسے وہ اعلیٰ ظرف تھا،شریف انفس تھا۔اس کا زمیر اسے یہ گناہ کرنے ہی نہ دیتا۔اس روز اسے اس شخص سے خوف آیا تھا۔وہ اسے برا سمجھتی تھی۔مگر وہ مختلف نکلا۔برے تو وہ لوگ نکلے جن پر اس نے اعتماد کیا تھا۔برا تو وہ شخص تھا جسے اس نے بھائ کا درجہ دیا تھا وہ محلے والے تھے جنکے طعنوں نے اس کی روح کو چھلنی کردیا تھا ۔وہ احمق رئیسوں سے نفرت کرتی آئ تھی مگر یہ متوسط طبقے کے لوگ تھے جنہوں نے اسے اپنے ہی گھر سے فرار ہونے پر مجبور کردیاتھا۔
یہ رئیس افراد تو اعلیٰ ظرف نکلے تھے۔ان رئیسوں کے درمیان آکر وہ اس شخص سے ملی جس نے اپنے بیٹے پر ناواقف لڑکی کو فوقیت دی تھی۔اور ان سے بھی زیادہ اعلیٰ ظرف وہ شخص تھا جس کی ایک "ہاں"نے بنا ثبوت و گواہ کے اس کی کہانی پر صداقت کی مہر ثبت کردی تھی۔وہ چاہتا تو مکر سکتا تھا۔اس کی ایک ہاں نے اس جیل پہنچانے والی لڑکی کو اس کی منکوحہ بنا دیا تھا۔
اور وہ احمق نکاح کو سیڑھی بنا کر اسے تباہ کرنے چلی تھی آج اسی سیڑھی نے اسے عرش سے فرش پر لا پٹخا تھا۔اسے بلکل تہی داماں کردیا تھا۔رشتہ داروں سے تو پہلے ہی محروم تھی ایک دل تھا وہ بھی گنوا بیٹھی تھی۔وہ دل اس شخص کا ہوچکا تھاجو جبراً
ً اپنی زندگی میں اس سے انتقام لینے کی نیت سے شامل ہوئ لڑکی سے نفرت کرنا تو دور ہمدردی جتا رہا تھا۔ اسے اہمیت دے رہا تھا گویا کسی جرم کی تلافی کر رہا ہو مگر وہ تو بے قصور ثابت ہوا تھا۔قصور وار تو وہ تھی۔بے جان ہوتے جسم کے ساتھ وہ سڑک کے کنارے ایک درخت سے ٹیک لگائے زمیں پر بیٹھ گئی۔وہ با آواز بلند رو رہی تھی۔اس کی ہچکیاں رات کے سناٹے میں گونج رہی تھیں ۔
تین عیاش شراب کے نشہ میں دھت اس سڑک سے گزر رہے تھے تبھی ان کی نگاہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی لڑکی پر پڑی۔ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
"ارے یہ پری آسمان سے اتری ہے کیا؟لباس سے تو ایسا ہی معلوم ہو رہا ہے۔"
لڑکھڑاتے لہجے میں کسی غیر شناسا آواز کو سن کر اس نے اپنا سر اٹھایا تھا۔
تین لڑکے جن کی عمر بیس پچیس کے درمیان ہوگی۔اس کے اردگرد کھڑے نظر آئے۔ قیمتی جیکٹ اور جینس زیب تن کیے ان کی وضع قطع سے واضح تھا کہ رئیس زادے تھے۔ اور ہاتھ میں تھامی شراب کی بوتل ظاہر کررہی تھی کہ وہ تینوں نشہ میں تھے۔
وہ بجلی کی سرعت سے کھڑی ہوئ۔
"میرا راستہ چھوڑو مجھے جانے دو"-
وہ رعب دار لہجے میں بولی۔
"اگر راستہ نہیں چھوڑیں گے تو کیا کروگی؟"
ان میں سے ایک نے طنزیہ انداز میں کہا تھا۔
"تم جانتے نہیں ہو کہ میں کون ہوں۔میری ایک چیخ پر یہاں مجمع لگ جائےگا۔خبردار جو تم لوگوں نے میرے ساتھ بد تمیزی کرنے کا خیال بھی اپنے دل میں لایا۔"
وہ پر اعتماد لہجے میں گویا ہوئ۔
"تم پرائم منسٹر کی بیٹی ہی کیوں نہ ہو یہاں تمھیں بچانے کے لیے کوئ نہیں آئےگا ۔یہ رعب اپنے گھر میں دکھانا ۔شیر بھی اپنے علاقے میں ہی گرمی دکھاتا ہے تم تو بلی ہو ۔cute سی بلی۔"
شراب کی بوتل کو ہوا میں نچا کر دوسرا غلیظ نظریں اس پر گاڑتے ہوئے بولا ۔اس نے چونک کر اطراف کا جائزہ لیا۔اسٹریٹ لائٹ کی پیلی روشنی میں دور جاتی سنسان سڑک اور اکا دکا درخت کے سوائے وہاں کچھ نہ تھا۔بےخیالی میں وہ آبادی والے علاقے سے دور نکل آی۔
ایک لمحے میں اس کا سارا اعتماد ہوا میں تحلیل ہوگیا۔اسے درپیش خطرے سے بے پناہ خوف محسوس ہوا۔
"مجھے جانے دو ورنہ تم پچھتاؤ گے۔"
اس کی آواز میں لرزش تھی۔
"
اتنی بھی کیا جلدی ماہ جبین ہمارے ساتھ تھوڑا وقت بتالو پھر ہم خود تمھیں تمھارے گھر چھوڑ آئینگے۔"
خمار آلود آواز میں بولتا وہ آگے بڑھا تھا۔شراب کی بو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی ۔خوف کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔اس نے پھرتی اس اپنے مقابل کھڑے لڑکے کو پوری قوت سے دھکا دیا وہ اچانک حملے پر لڑکھڑایا راستہ ملتے ہی وہ بھاگ کھڑی ہوئ۔
مگر چند ہی قدموں کی دوری پر ہیل والی سینڈل میں مقید اس کا پیر بے طرح مڑا ایک دلخراش چیخ کے ساتھ وہ زمین بوس ہوئ تھی۔اس کا تعاقب کرتے وہ تینوں لڑکے اس کے قریب آگئے ۔ان میں سے ایک نے اس کی کلائ
تھامی اور گھسیٹتا ہوا اسے لیے جنگل کی طرف چل پڑا۔
دعا کی طبیعت سنبھلی تب شاہ زر کو احساس ہوا کہ زرمین کو گئے کافی دیر ہوچکی تھی مگر وہ لوٹی نہیں تھی۔آن کی آن میں گھر کا ماحول بدل گیا۔شاہ زر سمیت سبھی اپنی کار لیے اس کی تلاش میں روانہ ہوگئے۔دعا نے ایک بار پھر رونا شروع کر دیا تھا۔
وہ دیوانوں کے مانند کار کو سڑک پر دورہا تھا۔اس کی نظریں سڑک کے اطراف زرمین کی متلاشی تھی۔لمحہ بہ لمحہ اس کی دماغ کی شریانوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔
"میرے خدا اسے محفوظ رکھنا۔ خدا نخواستہ اسے کچھ ہںوگیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کرپاؤنگا۔اسے تیری امان میں رکھنا۔
اسکا دل خدا کے حضور میں دعاگو تھا۔"
وہ تینوں اسے گھسیٹتے ہںوئے جنگل میں لے آئے تھی۔وہ مسلسل چینختی جا رہی تھی۔
ہیلپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ زر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ زر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تینوں اس کے اطراف گھیرا سا بنا چکے تھے۔وہ سہمی ہںوئی ایک پیر سے چمٹ گئ ۔
بلو جیکیٹ زیب تن کیے لڑکے نے شراب کی بوتل نیچے پھیکی اور اس کا حجاب کھینچ پھینکنے کی نیت سے اپنا ہاتھ اس کے طرف بڑھایا۔اپنے حجاب کو دونوں مٹھیوں میں بھینچ کر وہ پوری قوت سے چلّائی۔
شاہ زر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سنسان سڑک سے گزر رہا تھا تبھی چینخ کی آواز اس کی سماعت میں اتری وہ اس آواز کو بے ہںوشی کی حالت میں بھی پہچان سکتا تھا۔اس نے فوراً بریک لگایا اور چیتے کی تیزی سے باہر نکلا۔آواز جنگل کی طرف سے آئی تھی۔وہ باآواز بلند روئے جا رہی تھی۔وہ تینوں اس کے اردگرد بیٹھے اسکو روتا بلکتا دیکھ رہے تھے۔
" قاتل حسن اوپر سے یہ حزن وملال،ہائے مار ہی ڈالوگے۔"
اس کے اسکارف کو ہاتھ پر لپیٹتا وہ سینے پر ہاتھ مارتا گویا ہوا ۔ آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے اس نے ان تینوں کے عقب میں دیکھا۔وہ تینوں نے اپنی سمارٹ فون کی لائٹیں جلا رکھی تھی۔دھیمی روشنی میں اس کا عکس نظر آرہا تھا۔وہ وہی تھا۔وہ کوئی الوژن نہیں تھا۔ایکدم سے اس کے بے جان وجود میں توانائی کی ایک لہر سی دوڑ گئی۔اس نے سرعت سے اپنے مقابل بیٹھے لڑکے کو پیچھے کی طرف دھکیلا۔راستہ ملتے ہی دوڑتی ہوئی شاہ زر کی طرف چلی آئی۔
اسے صحیح سلامت اپنی طرف دوڑتا دیکھ اس کی جان میں جان آئی۔وہ محفوظ تھی۔
اس کی حرکت پر آگ بگولہ ہوکر تینوں اٹھ کھڑے ہںوئے۔شناسا چہرے کو دیکھ وہ تینوں کا منہ بگڑ گیا۔شاہ زر نے اپنے اسمارٹ فون کی لائیٹ جلاکر باری باری ان تینوں کے چہرے دیکھیے۔
" I treated you so
well.How did you grow up to be thug? "
شناسا چہروں کو دیکھ کر اس نے غصہ ضبط کرتے ہںوئے کہا۔
"Bloody emotional bad ass."
تو پھر عین موقع پر ٹپک پڑا۔اس سے پہلے بھی تو ہمارے معمالات میں ٹانگ اڑا چکا ہںے۔بہتر یہی ہںوگا تو اپنے راستے ہںولے اور ہمیں اکیلا چھوڑ دے۔اس شہر کی ہر لڑکی کی حفاظت کا ٹھیکہ نہیں دیا ہے کسی نے تجھے۔ہیرو بننے کی کوشش مت کر ہم تین ہیں اور تواکیلا بری طرح پِٹے گا۔"
ان میں سے اس ایک نے طنزیہ انداز میں کہا تھا۔
معاملہ بگڑتا دیکھ زرمین نے شاہ زر کا بازو پکڑ اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔
"تمہاری گن کہا ہںے؟ جلدی سے اپنی گن نکالو۔ابھی ان سب کے ہںوش ٹھکانے آجائیں گے۔"
اور وہ جس کا خیال تھا وہ ڈری سہمی اس کا بازو پکڑ کر اس کے پیچھے چھپ جائے گی۔اس کا سوال سن کر وہ ششدر رہ گیا۔وہ لڑکی عجیب تھی پل بھر میں بدل جاتی۔کبھی شبنم کبھی شعلہ۔
وہ اس حقیقت سے لا علم تھا کہ اس لڑکی کی یہ ہمت اس کی موجودگی کی بدولت تھی۔ جنگل کی تاریکی میں اس شخص پر پہلی نظر پڑتے ہی اس لڑکی کو اندازہ ہوا تھا کہ تحفظ کا احساس کیا ہوتا ہے۔ اس کا سارا خوف سیکنڈ کے اندر غائب ہو گیا تھا۔دماغ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا تھا۔
"میں گن ساتھ نہیں لایا۔"
اس نے حیرانی پر قابو پاتے ہںوئے زرمین کی طرف دیکھ کر کہا۔
"کیا ؟ تم اپنی گن ساتھ نہیں لائے۔ایسی حالت میں حفاظتی اقدام کے بغیر گھر سے نکلنا کم عقلی کا ثبوت ہے۔اب یہاں کھڑے رہنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔جلد از جلد یہاں سے بھاگ لینے میں ہی ہماری بھلائی پوشیدہ ہے"۔
وہ دبی آواز میں چینخی تھی۔اس کی بات پر اسے بُری طرح غصہ چڑھا تھا۔کیا وہ اسے اتنا ناکارہ سمجھتی تھی کہ وہ تین نشے میں دھت لڑکوں کو دھول نہیں چٹا سکتا تھا۔
اپنی بات ختم کر وہ رکی نہیں تھی۔اپنے نازک ہاتھ میں اس کا مضبوط ہاتھ تھام کر وہ آگے بڑھنے لگی۔ایک. نہایت ہی سنگین صورتحال کو غیر سنجیدگی سے لیتے ہوئے وہ دونوں کو واپس جاتا دیکھ ان میں سے ایک غیض و غضب کی تصویر بنا زرمین کی طرف بڑھا تھا۔اس سے قبل کہ وہ زرمین تک پہنچتا شاہ زر نے اس کی کلائی پکڑ کر موڑ دی۔ہڈی چٹخنے کی آواز آئی تھی۔یہ منظر دیکھ کر وہ چیخ پڑی۔
"یہ کیا کیا تم نے اس کا ہاتھ توڑ دیا۔کس قدر بے رحم قسم کے شخص ہںو تم۔کیا ضرورت تھی تمہیں ہیرو بننے کی۔"
تھوڑی دیر قبل جس شخص کی محبت میں وہ بے دریغ آنسو بہائے جارہی تھی اسی شخص کو بری طرح لتاڑ کر وہ جانے کے لیے مڑی۔درد کی شدت سے وہ لڑکا زمین پر پڑا چیخ رہا تھا
۔پہلے کی یہ حالت دیکھ باقی دو بھاگ کھڑے ہوئےتھے۔
کچھ دیر قبل جن بدمعاشوں کو وہ گن دکھا کر ڈرانے کا ارادہ رکھتی تھی ۔اچانک اس بدمعاش سے اسے ہمدردی محسوس ہںوئی۔
"ہڈی نہیں ٹوٹی ہںے۔بس ذرا سی مڑ گئی ہوگی۔"
زمین پر پڑے اس کے اسکارف کو اٹھاتے ہوئے وہ شرمندہ سا گویا ہںوا۔
"اسی طرح تم لوگوں کی ہڈیاں توڑ کر لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوگے۔وہی میں سوچوں کہ محض خوبصورت چہرہ اور شاندار پرسنالٹی لڑکیوں کو اسقدر دیوانہ نہیں بناتی۔تمھاری یہ ہیرو بننے کی عادت کا اس میں سب سے بڑا ہاتھ ہے۔"
وہ ایکدم سے روایتی بیویوں کی طرح بڑبڑاتی ہںوئی سڑک پر آگے بڑھے جارہی تھی۔ اس وقت وہ اسے بہت پیاری لگی ۔
تبھی درد کی ایک ٹیس اس کے پیر میں اٹھی۔
وہ بے ساختہ نیچے بیٹھ گئی۔
وہ اس کا violet اسکارف ہاتھ میں اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہ جا رہا تھا تبھی اسے سڑک بیٹھتا دیکھ فورا اس کے قریب چلا آیا۔
سی کی آواز لبوں سے نکالتے ہںوئے اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی نتیجتا لڑکھڑائی۔
اس سے قبل کہ وہ گر پڑتی شاہ زر نے اسے اپنی بانہوں میں اٹھالیا۔اسکی اس حرکت پر وہ ششدر رہ گئی۔
"اگر میرے Reflexes اتنے اچھے نہ ہںوتے تو اب تک تین مرتبہ تم زمین بوس ہںوچکی ہںوتی۔خدا کا شکر کروکہ اس نے تمہیں Reel نہیں Real زندگی کے ہیرو سے نوازا ہںے۔کیونکہ حقیقی زندگی میں Retake نہیں ہںوتے۔"
بڑے آرام سے اسے بانہوں میں اٹھائے وہ گویا ہںوا۔
"مجھے نیچے اتارو ابھی۔"
وہ اس کی بانہوں میں مچلی تھی۔دل کی دھڑکن حسب عادت تیز ہںوگئی تھی۔
"آرام سے میڈم مانا کہ تمہارا وزن زیادہ نہیں ہںے۔مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہںے کہ تم بالکل ہی بے وزن ہںو اور تمہاری اس اچھل کود سے میری ریڑھ کی ہڈی پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا۔"
اس کے کہنے پر وہ خجل سی ہںوگئی۔بیک ڈور کھول کے اس نے اسے عقبی سیٹ پر بیٹھایا اور اسکارف اس کے قریب رکھ دیا۔
وہ خود کو نارمل ظاہر کرنے کی پوری کوشش کررہا تھا مگر دل تھا کہ بلیوں اچھل رہا تھا۔
"اس نے مجھے پکارا تھا ۔۔۔۔۔یقینا اس نے مجھے پکارا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس مشکل وقت میں اس نے مجھے یاد کیا۔۔۔۔
اس سے یہ ثابت ہںوتا ہںے کہ اس کے دل میں بہت نہ سہی کم از کم تھوڑی جگہ بنانے
میں کامیاب ہوا ہوں میں ۔"
"میں اشعر بھائ ،شاہ میر بھائ اور شارق بھائ کو پکار رہی تھی۔مجھے یقین تھا کہ اتنی دیر سے میری غیر حاضری کا سنکر راشد انکل نے سبھی کو میری تلاش میں روزانہ کیا ہںوگا۔باری باری سب کو پکارتے ہںوئے نا چاہتے ہںوئے میں نے تمھارا بھی نام لے لیا۔میری قسمت اچھی تھی کہ تم نے سن بھی لیا۔"
اس کو مسکراتا دیکھ اس نے صریحا جھوٹ بولا۔وہ اسے بھنک بھی نہیں لگنے دینا چاہتی تھی کہ وہ اس سے محبت کرنے لگی ہںے اور جنگل کی تاریکی میں اس وقت اس کا رواں رواں اسے ہی پکار رہا تھا۔
شاہ زر کے چہرے کا رنگ ایکدم سے بدلا ۔اس کے ارمانوں پر اوس پڑگئی۔
"بہت ہی اچھا کیا جو تم نے اس فہرست میں مجھ ناچیز کا نام بھی شامل کرلیا، کیونکہ اس روٹ پر میں ہںی تمہاری تلاش میں نکلا تھا باقی سب دوسری روٹس پر روانہ ہںوئے ہیں۔
"اس نے فورا خود کو سنبھال کر کہا ۔اس کی بات پر زرمین خجل سی ہںوگئی۔
وہ اسے سوتا جانکر آہستگی سے واش روم کا دروازہ بند کرکے باہر آئی مبادا وہ بیدار نہ ہںوجائے۔ اس کی توقع کے عین خلاف وہ اٹھ بیٹھا۔وہ نگاہیں چراتی صوفے کی طرف بڑھی تھی۔دفعتاً شاہ زر نے اسے پکارا تھا۔
"زری"
وہ حیرت و استعجاب کے عالم میں پلٹی۔پہلی دفعہ شاہ زر نے اسے اس طرح پکارا تھا۔
"میں جانتا ہوں کہ میری بدولت تمہیں بہت تکلیفوں سے گزرنا پڑا ہںے۔شاید تم یقین نہیں کروگی مگر حقیقت یہی ہے کہ اس دن تمہیں ذلیل کرنے کے بعد سے میں بے چین رہنے لگا تھا۔تم سے انتقام لینے کے باوجود میں خوش نہیں تھا۔طیش میں آکر میں انسانیت کی سطح سے گر گیا تھا۔تمہارا متورم چہرہ میرے ذہن پر آسیب کی طرح سوار ہںوگیا تھا۔میں نے تمہیں ایک ناکردہ گناہ کی سزا دی تھی حالانکہ نے وہی کیا جو ایک جرنلسٹ کو کرنا چاہیے۔اس دن کے بعد میں نے خود سے عہد کیا تھا کہ میں تم سے معافی مانگوں گا ۔مگر میں تمہارے مقابل کھڑے ہںوکر معافی مانگنے کی ہمت مجتمع نہیں کر پایا۔میں تمہارا مجرم ہںوں مجھے معاف کردو۔یہ احساس ہںی میرے لیے سوہانِ روح ہںے کی تم نے مجھے معاف نہیں کیا۔
For God sake.
please forgive me.
وہ ملتجی لہجے میں کہتا امید بھری نگاہوں سے اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔"
وہ جو پہلے ہںی گھائل تھی اس کی باتوں نے اسے مزید توڑ پھوڑ کر رکھ دیا۔ضبط کی طنابیں ہاتھوں سے سرکتی جا رہی تھی۔وہ فوراً رخ پھیر گئی۔اس کے اس ردعمل کو اسکی ناراضگی جانکر وہ سابقہ انداز میں گویا ہںوا۔
"I know
تم مجھ سے نفرت کرتی ہںو اور یہ سب تمہارے لیے آسان نہیں ہںوگا۔تم چاہے جتنا وقت لے لو مگر مجھے معاف کردو۔میں انتظار کرلونگا۔وعدہ کرتا ہںوں میں تم سے ،جتنی اذیت تمہیں میں نے تمہیں پہنچائی ہںے میں اس کا ازالہ کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔میں تمہیں اتنی خوشیاں دونگا کہ تم سارے غم بھول جاؤں گی۔بس ایک موقع دے دوں تم مجھے۔ میں نے ارادہ کرلیا ہںے کی اب سے تمہاری دائی ماں ہمارے ساتھ رہے گیں۔تمہارے بغیر وہ بالکل تنہا ہںو گئی ہںونگی۔مجھے یاد ہںے اس دن تم دائی ماں کے لیے کس قدر فکر مند تھی۔تمہیں اپنی نہیں دائی ماں کی فکر تھی۔ہم کل ہی انہیں لینے جائینگے۔پھر دیکھنا تمہاری یہ اداسی پل بھر میں ٹھیک ہںوجائے گی۔"
وہ کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں مرکوز کیے اس سے مخاطب تھا۔اس کے چہرے پر خوشکن مستقبل کے خیال سے ہی میٹھی سی مسکان بکھر گئی تھی۔
"میرے خدا کیا وہ دائی ماں کی حالت سے انجان تھا؟ وہ بے خبر تھا کہ دائی ماں کومہ میں ہںے؟وہ شخص جو پہلے ہی اپنی ناکردہ جرم کی تلافی کرنے کی کوشش میں تھا گر اسے خبر ہںوگئ کہ دائی ماں اس حادثہ کے بعد کس حالت کو پہنچی ہیں تو اس پر کیا گزرے گی؟
کیا وہ یہ صدمہ برداشت کر پائے گا؟وہ جو سب کچھ ٹھیک کرنا چاہتا تھا کیا اس کا احساس جرم اسے جینے دےگا ؟
نہیں اسے کبھی خبر نہیں ہونی چاہیے کہ دائی ماں کس حال میں ہیں۔
آنسوؤں کا گولہ حلق سے نیچے اتار کر اپنے لہجے کو بظاہر سخت بناتے ہوئے وہ بولی۔
"میری دائی ماں جس حال میں بھی خوش ہیں ۔تمھیں ان کی فکر کرنے کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔مجھ پر ترس کھا کر تم کیا ثابت کرنا چاہ رہے ہو؟یہی کہ تم بہت اعلیٰ ظرف انسان ہو ۔ایک ایسے شخص ہو جو جبراً اپنی زندگی میں شامل کی گئی بیوی کم دشمن سے ہمدردی جتا رہا ہے۔"
باوجود ضبط کے اس کے لہجے میں لرزش در آئی۔اس کی بات پر اس نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا۔کتنی آسانی سے اس لڑکی نے اس کی محبت کوترس وہمدردی کا نام دے دیا تھا۔اپنی بات ختم کر کے وہ واش روم میں گھس گئی۔جب کے وہ واش روم سے آتی پانی کی آواز کو سنتا رہ گیا۔اس نے واش روم کے سارے نل کھول دیے تھے۔ بہتے پانی کے شور میں وہ اپنی ہچکیوں کی آواز کو دبانا چاہتی تھی۔
"میں جس گناہ کا مرتکب ہںوا ہںوں اس کی سزا تو مجھے ملنی ہی تھی۔مجھے یقین ہے کہ تمہاری محبت کو پانا اتنا آسان نہیں ہںوگا۔تم مجھ سے چاہںے جتنی نفرت کرلو میری محبت میں کمی نہیں آئے گی۔آخر کب تک تم میری نفرت کی آگ میں جلتی رہںو گی۔ایک نہ ایک دن میں تمہیں مجھ سے محبت کرنے پر مجبور کردونگا۔خدا میری کاوشوں کو رائیگاں نہیں جانے دےگا۔مگر تب تک میں اپنی محبت کی توہین برداشت نہیں کر سکتا۔بس کل کا سورج طلوع ہونے کا انتظار ہے۔کل کا دن اظہارِ محبت کا دن ہںوگا۔آج کے بعد تم اسقدر سفاکی سے میری محبت کو ترس و ہمدردی کا نام نہیں دے پاؤگی۔میں تمہیں یقین دلا کر رہںونگا کہ تم میری لیے کتنی اہمیت رکھتی ہںو۔میرے دل میں تمہارے لیے جو جذبات پوشیدہ ہیں وہ ترس و ہمدردی کے زمرے میں نہیں آتے۔میں تم سے محبت کرتا ہںوں بے انتہا محبت۔"
اس رات وہ چین کی نیند سویا تھا۔خوشی اس کے چہرے سے نیند میں بھی واضح ہںورہی تھی۔کل کا دن اس کے لیے بے حد خاص تھا۔وہ لاعلم تھا کے اس رات اس کی محبت سو نہیں پائی تھی۔
وہ روتی رہی تھی آنسوؤں کا سیلاب تھما تھا تو ایک مستحکم فیصلے کے ساتھ ۔اسے ایسا محسوس ہںو رہا تھاگویا رات بہت تیزی سے گزر رہی تھی۔اچانک دل میں خواہش اٹھی کے وقت یہی تھم جائے۔اس رات کے بعد طلوع ہونے والا سورج اس کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی لانے والا تھا۔
****
رات کے کسی پہر وہ صوفے سے نیچے اتری تھی۔اس نے گھڑی کی طرف دیکھا گھڑی کی سوئیاں تین کے ہندسے پر براجمان تھیں۔اس نے وضو بنایا اور نماز کے لیے کھڑی ہںوگئی۔دعا کےلئے ہاتھ اٹھاتے ہںی جیسے سوچنے سمجھنے کی قوت ہںوا میں تحلیل ہںوگئی۔وہ خالی خالی نظروں سے کبھی اپنے پھیلے ہںوئے ہاتھوں کو تو کبھی بستر پر سوئے اس شخص کو دیکھتی رہی۔بلآخر جائے نماز تہہ کر کے کھڑی ہںوگئی۔دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی وہ اسٹیڈی ٹیبل کے نزدیک آ رکی اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔دراز سے پین اور کاپی برآمد کرکے اس نے لکھنا شروع کیا قریباً آدھے گھنٹے بعد وہ مزنی کے نام ایک خط لکھ کر فارغ ہںوئی تھی۔جس صبر وتحمل کا دامن تھامے اس نے اس خط کو اختتام تکا پہنچایا تھا سوتے ہوئے اس شخص کے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی وہ دامن چھوٹ گیا۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی بیڈ کے سرہانے آرکی۔وہ محو خواب تھا۔روز کی نسبت آج اس کے چہرہ زیادہ مطمئن نظر آرہا تھا۔اس کے چہرے پر اسی معصومیت کا راج تھا جو ننید کے آغوش میں جاتے ہی اس کے چہرے پر قبضہ کر لیا کرتی تھی۔اس کے بھورے بال ماتھے پر بکھرے تھے۔
"اے کاش میں اس شخص سے اسطرح نہ ملتی ۔خدا میرے نصیب میں اسی شخص کو لکھتا مگر کسی اور طرح۔یہ میرا شوہر بنتا مگر اسطرح نہیں۔اس شخص سے میری پہلی ملاقات سے لیکر ابتک کہ میرے ہر امر پر مجھے افسوس ہے۔مگر اس شخص کے لیے میرے دل میں پیدا ہوئ محبت پر نہیں ۔میں ایک بار نہیں اپنی زندگی میں کئ بار اس شخص کی محبت میں گرفتار ہونا چاہونگی۔یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔اس زندگی میں تو میں اس شخص سے دستبردار ہورہی ہوں مگر اس زندگی کے بعد والی زندگی میں اسی شخص کا ساتھ یقیناً چاہونگی۔اس زندگی میں شاید ہم دونوں ملے ہی تھے بچھڑنے کے لیے۔خدا کرے کے کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی میں مجھے تمھارا ساتھ نصیب ہو جہاں نہ تو اتفاق ہوں نہ انتقام۔"
اس کے سرہانے کھڑی وہ ایک ٹک اس کے چہرے کو دیکھتی رہی۔اس دشمن جاں کے ہر ایک نقش کو وہ ازبر کر لینا چاہتی تھی۔دل میں ایک خوف سا تھا اس کے بغیر گزرتے ماہ وسال میں وہ اس چہرے کو بھول نہ جائے۔
آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ وہ پلٹی زاد راہ کی طور پر کچھ روز قبل اسٹڈی ٹیبل کی دراز میں بے نیازی سے ٹھونس دی گئی کرنسی نوٹوں کی گڈی برآمد کی وہ گاؤن جو اس نے کچھ ہی دیر قبل اتارا تھا اسے تہہ کیا ۔ دونوں چیزوں کو پرس میں ڈالا اور ایک آخری نظر سوتے ہوئے شاہ زر پر ڈال کر خط اور پرس کو ہاتھ میں اٹھائے کمرے سے باہر نکل گئی ۔
پھر یوں ہوا کہ ساتھ تیرا چھوڑنا پڑا
ثابت ہوا کہ لازم و ملزوم کچھ نہیں