مختلف ڈیزائنرز سے کے خوبصورت ملبوسات سےبھری شاپ میں وہ اس کے ہمراہ داخل ہوا۔
اس شاپ میں خلاف توقع کافی بھیڑ تھی۔بھیڑ میں زیادہ تر لڑکیاں شامل تھیں۔بلاک گول گلے والی ٹی شرٹ پر سفید جینس زیب تن کیے آنکھوں پر کالے گوگلز چڑھائے وہ عام سے حلیے میں شاپ کے اندر داخل ہوا تھا باوجود اس کے وہاں موجود تقریباً ہر لڑکی نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا تھا۔وہ اس کے پیچھے کھڑی بری طرح نروس ہورہی تھی۔شاہ زر کی وجہ سے وہ بھی سب کی نظروں کی زد میں تھی ۔رشک ،حسد ،ستائش،تعصب مختلف لڑکیوں کے آنکھوں میں مختلف جذبات ہلکورے لے رہے تھے۔
"کم آن آگے آؤ تم بار بار کہاں کھو جاتی ہو۔"
اس خود سے پیچھے گم سم کھڑا دیکھ شاہ زر نے اس کی کلائی تھام کر اسے اپنے برابر کھڑا کر دیا۔
اس سے قبل کہ وہ شاپ کیپر سے کچھ کہتا اس کا فون گنگنا اٹھا۔وہ فون اٹھاتا ایکسکیوز کہتا ہوا شاپ سے باہر نکل گیا۔
"ہیلو میڈم ،آپ کس طرح کی ڈریس دیکھنا پسند کرینگی۔"
شاپ کیپر پروفیشنل انداز میں اس سے مخاطب ہوا۔
"میں وہ".
وہ جیسے ہوش میں آئ مزنی نے اسے بتایا ہی نہیں تھا کہ اس نے پارٹی کے لیے کس طرح کی ڈریس کو فائنل کیا ہے۔اس نے مڑ کر کانچ کے دروازے کی سمت دیکھا دروازے کے باہر شاہ زر کی پشت نظر آرہی تھی وہ محو گفتگو تھا۔
"وہ میرے ہس۔۔۔ ہسب۔۔۔ ہسبنڈ کو آلینے دیں وہی ڈریس پسند کرینگے۔"
اس نے بمشکل ہسبنڈ کا لفظ ادا کیا تھا۔شاپ کیپر مسکرا دیا۔
"کون ہو تم ؟نام کیا ہے تمھارا ؟یہاں شاہ زر کے ساتھ کیا کر رہی ہو؟
اچانک دو لڑکیاں جدید فیشن کے ماڈرن لباس زیب تن کیے اس کے نزدیک آئیں۔وہ حیران ہوئے بنا نہ رہ سکی۔
"یہ پوچھنے والی آپ کون ہوتی ہیں؟
برجستہ جواب آیا۔ اس کا اعتماد لوٹ آیا تھا۔
"میں شاہ زر کی گرل فرینڈ ہوں۔تم مجھے ان لڑکیوں کی طرح قطعاً نہ سمجھنا جو شاہ زر کی ایک نظر کو ترستی ہیں اور وہ انہیں کوئ اہمیت نہیں دیتا۔میں شاہ زر کے لیے اتنی ہی اہم ہوں جتنا وہ میرے لیے ہے۔ہم دونوں کافی کلوز ہیں۔ لہٰذا میں یہ سوال کرنے کا پورا حق رکھتی ہوں کہ تم کون ہو؟اس سے قبل تو تمھیں کبھی اس کے آس پاس پھٹکتے نہیں دیکھا گیا۔کہیں تم ان لڑکیوں میں سے تو نہیں جو ایک رات کی دوستی نبھانے میں ماہر ہوتی ہیں۔ "
میرون گھٹنے تک آتے اسکرٹ اور بنا آستینوں والی ٹی شرٹ میں ملبوس اس لڑکی نے زہر خند لہجے میں کہا۔
وہ جو خود کو بااعتماد ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی اس کی بات پر سن رہ گئی۔
شاپ کیپر ان کی گفتگو باآسانی سن سکتا تھا شرم وذلت کے احساس سے اس کا چہرہ تمتما اٹھا آنکھوں کے گوشے نم ہوگئے۔
اسے لگا جیسے وہ پوری قد سے گر پڑےگی ایکدم سے دل کی دھڑکن دھیمی پڑ گئ پیر بے جان ہوگئے۔قریب ہی تھا کہ وہ گر پڑتی ۔
Who are you?
اسے خاموش پاکر وہ لڑکی چیخی۔
تبھی زرمین کو اپنے شانو پر ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا وہ لوٹ چکا تھا۔
"She is misses Shahzar aafredi.now will you please excuse us.
لزا کو اپنے مقابل کھڑا دیکھ اسے بہت کچھ یاد آیا تھااپنا غصہ کو ضبط کرتا ہواوہ زرمین کو تھامے ہوئے آگےبڑھ گیا۔اس لڑکی نے نفرت سے ہیلس والی سینڈل میں مقید پیرفرش پر پٹختا تھا۔
"کیا ہوگیا ہے تمھیں؟ان shamelessلڑکیوں کے سامنے خاموش کیوں کھڑی تھی تم؟مجھ پر تو ہمہ وقت بڑا رعب جمانے کی کوشش میں رہتی ہو تو پھر ان لڑکیوں کے سامنے بھیگی بلی بن کر کیوں کھڑی تھی؟جانے کیا بکواس کی ہوگی اس بے غیرت لڑکی نے؟she is insaneکیا کہہ رہی تھی وہ تم سے؟
وہ اسے یوں ڈانٹ رہا تھا گویا وہ کوئ چھوٹی بچی ہو ۔
وہ اپنی اس حالت پر ششدر تھی۔
"میں ایسی تو کبھی نہیں تھی۔ڈرپوک ،بزدل،خاموشی سے کڑوی باتوں کو سہہ جانے والی۔ان لڑکیوں کے سامنے میں کچھ بول کیوں نہیں پائی۔میں خود کو اتنا کمزور کیوں محسوس کرنے لگی۔اس لڑکی کے کہے ایک جملے نے میری ساری ہمت جھاگ کی طرح بیٹھا دی۔کتنے استحقاق سے وہ شاہ زر کا نام لے رہی تھی گویا برسوں کی شناسائی ہو۔مگر شاہ زر نے تو اسے یکسر نظر انداز کر دیا تھا۔یہ مجھے کیا ہوگیا ہے۔میرا دل اتنا کیوں دکھ رہا ہے۔مجھے ٹھیس کیوں پہنچی ہے۔"
وہ سوچے گئ۔
"ہاں یہ ڈریس مجھے پرفیکٹ لگ رہی ہے۔"
گولڈن اور وائلٹ کامبینیش میں ریشمی کپڑے اور نیٹ سے بنی گاؤن پر موتیوں کا کام تھا۔
وہ
اس کی طرف پلٹ کر مخاطب ہوا۔
"یہ ڈریس میں پہنونگی؟"
وہ بے ساختہ گویا ہوئ۔اس نے اپنی ابتک کی زندگی اسطرح کا لباس زیب تن نہیں کیا تھا۔
”ہاں تم یہی ڈریس پہنوگی،مزنی اور پارٹی میں شرکت کرنے والی باقی لڑکیاں بھی اسی طرح کی ڈریس زیب تن کرنے والی ہیں۔ after all
دعا کی برتھ ڈے ہے۔سبھی لڑکیاں Disney Princess
طرح نظر آنے کی کوشش کرینگی۔ تم تو دعا کی پرنسس ہو تمھیں سب سے خوبصورت دکھنا ہوگا۔"
وہ بڑے آرام سے مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا گویا ان دونوں کے درمیان کافی خوشگوار تعلقات رہے ہوں۔
"لیکن دعا کا فیوریٹ کلر نیوی بلو ہے۔"
اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
"دعا کا فیوریٹ کلر نیوی بلیو ہے میرا تو نہیں ہے نا۔میرا خیال ہے کہ تمھیں اپنے ہسبنڈ کی پسند کے کلر کا لباس پہننا چاہئیے۔"
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔جانے کیوں وہ اسے بہت اپنا اپنا سا لگا۔
مجھے چھوڑ دے میرے حال پر تیرا کیا بھروسہ اے زندگی
تیری مختصر سی نوازشیں میرا درد اور بڑھا نہ دیں
"ہے زری ،دفعتاً کسی نے اسے پکارا تھا۔اسے اس نام اسے بہت قریب سے جاننے والے پکارتے تھے۔وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آئی تھی۔
" کہاں غائب ہو گئ تھی تم؟تم جانتی بھی ہم سب تمھارے لیے کسقدر پریشان تھے۔"
اپنے عین مقابل حسین کو ایستادہ دیکھ اس کا چہرہ فق پڑ گیا۔ اس نے شاہ زر کی سمت دیکھاوہ شاپ کیپر سے محو گفتگو تھا۔وہ سرعت سے شاہ زر سے قدرے فاصلے پر کھڑی ہوگی۔
"میں تم سے ملکر تفصیل سے سب بتاؤنگی فی الحال میں جلدی میں ہوں ۔"
اس نے جلد ازجلد گفتگو سمیٹنی چاہی۔
"ارے ارے رکو میڈم ۔یہ کیا بات ہوئ۔اچانک کسی دن غائب ہوجاتی ہو پھر مہینوں بعد خوش قسمتی سے کہیں نظر آجاؤ تو کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہو۔ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟
دائی ماں کی کچھ خبر نہیں ہے تمھارے محلے والوں سے پوچھو تو عجیب و غریب سی کہانی سنارہے تھے۔کم از کم تم تو مجھے بتاؤ کہ حقیقت کیا ہے ۔"
وہ جانے کے لیے پلٹی تھی تبھی حسین کے الفاظ پر اس کے قدم رکےتھے۔
اس کے چہرے سے گھبراہٹ واضح تھی۔وہ اس منظر سے غائب ہوجانا چاہتی تھی اس کے سوالوں کے جواب میں وہ کیا کہتی۔اسے ڈر تھا کہ کہیں حسین اسے شاہ زر کے ساتھ نہ دیکھ لے۔
مگر ہوا وہی جس کا ڈر تھا۔
"چلیں"۔
بڑا سا شاپر ہاتھ میں اٹھائے وہ اس کے قریب آکر گویا ہوا۔
"اوہ تو ہمارے کانوں میں پڑتی افواہیں محض افواہیں نہیں ہے۔تم حقیقتاً مس فاروقی سے
misses afredi
بن چکی ہو ۔"
شاہ زر کو اس کے ساتھ کھڑا دیکھ حسین طنز کیے بنا نہ رہ سکا۔
"میں چلتی ہںوں۔"
وہ حسین کی تیکھی نظروں کی تاب نہ لا کر پلٹی تھی۔
شاہ زر نے ایک چبھتی ہوئی نظر اس شخص پر ڈالی جو بڑے استحاق سے اس کی بیوی سے مخاطب تھا۔
escalator
پر سوار ہوکر نیچے کی سمت جاتے ہوئے اس دفعہ وہ گھبرائ نہیں تھی ۔اس کا دھیان کہیں اور تھا۔وہ دونوں مال سے باہر نکل آئے۔
"کون تھا وہ؟کیا رشتہ ہںوگا اس کا زرمین کے ساتھ؟اس کا انداز خاصا بے تکلف تھا۔گویا ایک عرصے سے زرمین کو جانتا ہںو۔ زرمین خوبصورت ہںے،پر اعتماد ہے۔آج کے دور کی لڑ کی ہںے۔آج کل تقریباً ہر لڑکی اپنے لائف پارٹنر کا ا نتخاب خود کرتی ہے۔وہ لڑکا مجھے تیکھی نگاہوں سے کیوں دیکھ رہا تھا۔اس کے سامنے زرمین اسقدر گھبراہٹ کا شکار کیوں ہوئ تھی۔میں زرمین کی گذشتہ زندگی کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا کہیں زرمین اور وہ شخص۔"
اس کے آگے وہ کچھ سوچ نہیں سکا۔
اس کے دماغ میں جھکڑ سے چلنے لگے۔سینے میں ایک لاوا سا بھڑک اٹھا۔وہ سختی سے ہونٹ بھینچے کار ڈرائیو کرتا رہا۔اس نے ایک نگاہ بغل میں بیٹھی زرمین پر ڈالی۔وہ اپنی گود میں دھرے ہاتھوں پر نظر گاڑیں بے حس و حرکت بیٹھی تھی۔
اس کے چہرے سے کسی بھی قسم کے تاثرات کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔
"اس نے ایک لڑکے سے بات ہی تو کی ہیں ۔ممکن ہے وہ اس کا رشتہ دار ہو،یا کوئ جاننے والا ہو،یا ممکن ہے کہ "۔
اس سے آگے وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔
شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ
ایک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئ
دھیان بٹانے کے لیے اس نے ان ڈیش اسٹیریو آن کردیا۔
Every body deserves some body
But girl nobody can love you like I do
Iam not perfect but you are so worth it
I wanna change the world for you
So baby don't settle for less
You deserve the best
You, re better than the rest
I can be the best
So baby don't settle for less
گانے کے بول سنتے ہی ہڑبڑا کر اس نے اسٹیریو بند کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تین چار بٹنس دبنے کے بعد مطلوبہ بٹن پر ہاتھ پڑا تھا۔
اس کی ہڑبڑاہٹ دیکھ وہ حیرت زدہ سی اس کی طرف متوجہ ہوئ تھی۔وہ ہونٹ کاٹتا ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہا تھا۔
وہ ہڑبڑا اٹھا تھا۔وہ الفاظ اس کے جذبات کی عکاسی کر رہے تھے۔اسے لگا جیسے اس کے ذہن میں فی الوقت آگے پیچھے دوڑتے خیالات کو ایکدم سے کسی نے ترتیب وار با آواز بلند پڑھ دیا ہوں۔
***
رات کے کھانے کے بعد لان میں بیڈ مینٹن کا کھیل کھیلا جارہا تھا۔
شاہ زر نے زرمین کی تلاش میں اطراف میں نظر دوڑائی۔وہ لان میں نہیں تھی۔وہ اس کو تلاش کرتا کمرے میں چلا آیا۔تبھی اس کی سماعت میں دعا کی آواز اتری تھی۔
"آنٹی آپ کو پتا ہںے میری فرینڈ کے ساتھ میری fight ہںوگئی۔"
دعا روہانسی ہںو کر بولی تھی۔وہ دونوں بالکنی میں کرسیوں پر بیٹھی بیٹمینٹن کے مقابلے سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
"کیوں ایسی کیا بات ہوگئ؟"
وہ تشویش زدہ لہجے میں بولی۔
"وہ کہہ رہی تھی کہ تمہارا نام weird اور uncommon ہںے۔تمہارا نام سن کر ہنسی آجاتی ہے۔"
"کیا اس نے ایسا کہا۔تم نے اچھا کیا اس سے fight کی غلط بات پر خاموش نہیں رہنا چاہیئے۔اگر وہ تمہاری اچھی فرینڈ ہںوتی تو کبھی ایسا نہ کہتی۔تمہارا نام بہت ہی پیارا ہںے۔تمہیں پتا ہںے آج میں شاپنگ مال گئی تھی وہاں مجھے میرا ایک دوست مل گیا۔اس کی چھ سال کی بیٹی ہںے۔اس کا نام بھی دعا ہںے۔وہ بھی تمھاری طرح پیاری ہے۔uncommon تو بلکل نہیں ہے یہ نام۔مجھے تو تمہارا نام بہت پسند ہںے۔"
اس نے دعا کو پچکارتے ہوئے کہا۔گو کہ اس نے دعا کو مطمئن کرنے کے لیے یہ بات کہی تھی مگر اس کی بات سن کر ان دونوں کے عقب میں کھڑے شاہ زر کو لگا کہ اس کے اطراف ٹھنڈے پانی کی پھوار برسنے لگی۔وہ ایک دم سے ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔اس کے لب آپ ہی آپ مسکرادیے۔
"Thank God
وہ لڑکا اس کا فرینڈ ہںے وہ بھی شادی شدہ ۔"
وہ مسکراتا ہںوا کمرے سے باہر نکل گیا۔اس رات وہ چین کی نیند سویا تھا۔
وہ فجر کی نماز پڑھ کر تلاوت کی نیت سے الماری کی سمت بڑھی تھی۔ دفعتاً اس کا پیر مڑا۔اس سے قبل کہ وہ منہ کے بل گرتی اچانک شاہ زر نے اسے تھام لیا۔سنبھل کر کھڑی ہںوتے ہوئے اس نے مڑ کر دیکھا۔وہ اسے سوتا جانکر مصروف عبادت اس بات سے قطعی لا علم تھی کہ در حقیقت وہ جاگ رہا تھا۔اور اپنی ساری توجہ اسکی حرکات و سکنات پر مرکوز کیے ہںوا تھا ورنہ اسے کیونکر خبر ہںوتی کی وہ گرنے والی ہںے۔
زرمین نے فوراً سے پیشتر اپنی کمر سے اسکا ہاتھ ہٹایا۔گوکہ شاہ زر نے اسے منہ کے بل گرنے سے بچایا تھا مگر اس کا نقصان بھی درپیش تھا۔روزانہ چھپ چھپ کر اسے دیکھنے کا راز کھل گیا تھا۔وہ اپنی بے اختیاری پر شرمندہ تھا۔شرم کے مارے وہ نگاہ نہیں اٹھا پارہی تھی۔الماری سے کلام پاک نکال کر وہ کمرے کے باہر نکل گئ۔
"کیا ضرورت تھی اسطرح چوری سے اسے دیکھنے کی۔کوئ اپنی بیوی کو چوروں کی مانند گھورتا ہے کہیں۔"
اپنے سر پر چپت رسید کر وہ خود کو سرزنش کرتا واپس صوفے پر لیٹ گیا۔
قرآن کو سینے سے لگائے صبح کے سوا پانچ بجے ٹھنڈے لان کے جھولے پر بیٹھی وہ اپنے دل کی دھڑکن کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"میرے خدا یہ کیا ہوتا جا رہا مجھے۔مجھے اس پر غصہ کیوں نہیں آرہا؟اس سے نفرت کیوں نہیں ہورہی؟یہ وہی شخص ہے جس کی بدولت دائی ماں زیست موت کے بیچ جھول رہی ہیں۔اور میرا دل ہے کہ اسی شخص کی طرف جھکتا جا رہا ہے۔اس کے زرا سے التفات پر نازاں ہوئے جارہا ہے۔یہ وہی شخص ہے جسے میں عیاش ،مغرور ،آوارہ رئیس زادہ گردانتی تھی۔مگر آج یہی بات کسی اجنبی لڑکی سے سنکر مجھے برا کیوں لگ رہا ہے؟مجھے کیوں یقین ہے کہ شاہ زر ایسا نہیں کرسکتا وہ ان لڑکیوں کو نہیں جانتا۔وہ مضبوط کردار کا مالک ہے ۔ایک رات کی دوستی نبھانے والی لڑکیوں سے اس کا کوئ واسطہ نہیں ہوسکتا۔وہ آفریدی خاندان سے ایک عزت دار گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔وہ کسی لڑکی اس نوعیت کا رشتہ استوار نہیں کرسکتا۔
وہ لڑکی جھوٹی ہے۔
مجھے اس شخص پر اسقدر اعتماد کیوں ہیں؟اس نے تو کبھی مجھے اعتماد کا کوئی جگنو نہیں پکڑایا۔کبھی اپنی صفائی پیش نہیں کی۔
اف !میرے مولا مجھ پر رحم کر۔میری مشکل آسان کر۔
جی تو کرتا ہے کبھی آگ لگا کے دل کو
پھر کہیں دور کھڑی ہوکہ تماشہ دیکھوں
****
Trust is first step of love
( اعتماد محبت کی پہلی سیڑھی ہںے)۔
لان میں پودوں کو پانی دیتے اسکے ہاتھ دعا کی آواز پر رکے تھے۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی اس کے قریب چلی آئی۔لان کی ہری گھاس پر بیٹھی دعا بآواز بلند اپنی بک پڑھنے میں مصروف تھی۔
"کیا پڑھا تم نے ابھی ابھی؟"
اسکے لہجے سے گھبراہٹ واضح تھی۔
"آنٹی مجھے میری ٹیچر نے ہںوم ورک دیا ہںے۔مجھے یہ quote یاد کرنا ہںے۔
Trust is first step of love.
میری ٹیچر کہتی ہیں کہ ہمیں ہمارے parents اور elders پر ٹرسٹ کرنا چاہیے ۔ان سے ہر بات شیٔر کرنی چاہیئے۔اسطرح پیار بڑھتا ہے۔ جہاں ٹرسٹ نہیں ہوتا وہاں loveبھی نہیں ہوتا۔اسی لیے بس یہ کہہ دینا کہ ہم ہمارے پیرینٹس سے loveکرتے ہیں کافی نہیں ان پر ٹرسٹ کرنا بھی ضروری ہے۔"
ٹیچر کی کہی بات دعا کو جتنی سمجھ آئی تھی وہ زرمین کو سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی۔
"مجھے شاہ زر پر اسقدر اعتماد کیوں ہے۔کہیں میں اس سے محبت۔۔۔۔"
اس کے آگے وہ کچھ سوچ نہیں پائ تھی۔کل رات سے انسلجھی گتھی ایکدم سے سلجھ گئ۔وہ گھبرا کر کھڑی ہوئ اور دوڑتی ہوئی گھر کے اندر چلی آئ۔
اسے اچانک اسطرح جاتا دیکھ دعا آواز دیتی رہ گئ۔
اس کے دل کی دھڑکن ایکدم دھیمی پڑ گئ۔حلق میں جیسے اچانک سے کاٹے آگ آئے۔
جس سے راہ فرار چاہتی تھی اسی سے سامنا ہوگیا سوٹ پہنے آفس جانے کے لیے تیار وہ جوس کا گلاس اٹھائے ہال سے باہر نکل رہا تھا۔
وہ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔
"کیا بات ہے wifey آج تم نے ناشتے کو مزےدار نہیں بنایا۔وہ کیاہے نا مجھے تمھارے ہاتھوں سے بنے ذائقہ دار بریک فاسٹ کرنے کی عادت سی ہوگئی ہےاور تم ہو کہ آج کل مجھ پر رحم کرتی جارہی ہو۔ لہٰذا میں نے جوس نہیں پیاہے تاکہ تم خصوصی ingredientکو اس میں ملادو پھر میں اسے پی لوں۔"
وہ اسی کی تلاش میں گلاس اٹھائے باہر نکل رہا تھا۔جوس کا گلاس اسے دیکھا کر مسکراتے ہوئے وہ بولا۔
ضبط کی آخری حدوں کو چھوتی اس نے سائڈ سے نکل کر جانے کی سعی کی تبھی شاہ زر نے اس کا راستہ روک لیا۔
"کوئ بات نہیں میں خود اجزائے خصوصی اس میں ملا دیتا ہوں"۔
اس نے مسکراتے ہوئے گڑیا کی شکل کی ننھی سی شیشی اپنی جیب سے برآمد کی جسے وہ کچن سے اٹھا لایا تھا۔ڈھیر ساری مرچی جوس میں چھڑک کر وہ دو ہی گھونٹ میں جوس پی گیا۔
وہ ساکت کھڑی رہی۔
"کیا ہوا ؟تمھیں خوشی نہیں ہوئ کیا؟ تم مسکرا کیوں نہیں رہی۔میں نے یہ سب اسی لیے کیا ہے تاکہ تمھاری مسکراہٹ واپس آجائے ۔وہی مسکراہٹ جو مجھے زچ کرنے کے بعد تمھارے لبوں کو چھوتی ہے۔وہی مسکراہٹ جو کل سے تمھارے اردگرد نہیں پھٹکی"۔
گلاس کو ٹیبل پر رکھتا وہ اس کی طرف پلٹا اسے خاموش دیکھ وہ قدرے پریشان ہوا تھا۔آنسو بند توڑ کر بہنے کو بے قرار تھے۔اس نے شاہ زر کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پرے دھکیلا اور بھاگتی ہوئی بالائی منزل کی سیڑھیاں چڑھ گئ۔
وہ متفکر سا ہال کے وسط میں کھڑا رہ گیا۔
***
وہ مجھے اچھی لگنے لگی ہے اتنی اچھی کہ جب میں اس کی طرف دیکھتا ہوں تو اس کے چہرے سے نگاہ ہٹانا بھول جاتا ہوں۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس پوری دنیا میں اس لڑکی سے زیادہ حسین،معصوم اور پاکیزہ لڑکی نہیں ہوگی۔پھر سوچتا ہوں کہ جس لڑکی کو ایک نظر دیکھنا تک مجھے گوارا نہ تھا میرے لیے وہ اسقدر اہم کیسے بن گئ۔کیا واقعی نکاح کے بولو میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ ایک ناواقف شخص کے لیے ہمارے جذبات ایکدم سے بدل جاتے ہیں۔ایکطرف تو اس کے چہرے پر میری نگاہ پڑتے ہی ایک انجانی سی خوشی میرے دل کو چھو جاتی تو اسی لمحے ایک خوف میرے گرد اپنا حصار کس لیتا ہے۔وہ انتہا سے زیادہ معصوم اور جذباتی ہے مزنی۔اس دنیا کی سمجھ نہیں ہے اسے۔
کسی ناواقف کی مدد کرنے کے لیے،سچ کا ساتھ دینے کےلیےوہ کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔آج بھی وہ دن میرے حافظے میں اچھی طرح محفوظ ہے جب وہ پہلی دفعہ مجھ سے ملی تھی۔پھر اتفاق در اتفاق تقدیر ہم دونوں کو ایک دوسرے سے ملواتی رہی۔ہر ملاقات میں وہ مجھ سے صحیح کے لیے لڑتی۔محض مجھے سبق سکھانے کے لئے اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔اس تصور سے میری روح تک کانپ اٹھتی ہے کہ بجائے میرے وہ کسی اور عیاش سے ٹکرا جاتی تو کیا ہوتا۔میں خدا کے حضور میں شکر کے جتنے سجدے کروں ناکافی ہیں کہ اس نے اس لڑکی کو میرے لیے چنا۔اس شہر میں ہزاروں لڑکے روزانہ قوانینِ کی خلاف ورزی کرتے ہیں مگر اس کی نظر مجھ پر پڑی۔
بعض اوقات میرا دل کرتا ہے کہ اسے شاطر اور غلیظ لوگوں سے بھری اس دنیا کی نظروں سے چھپا لوں۔وہ تاحیات میری حفاظت میں رہے "
جذبات کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔حسب عادت اپنے دل کی بات مزنی سے شئیر کرکے وہ ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔
"وہ آپ کو صرف اچھی نہیں لگتی بھائی ، اس جذباتی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوگئے ہیں آپ۔"
من ہی من سوچ کر مزنی مسکرا دی۔
***
دائ ماں کی حالت میں سدھار نہ ہوتا دیکھ اس کی طبیعت مذید بوجھل ہوگئ تھی۔وہ جوں ہی ہاسپٹل سے لوٹی ہال میں قدم رکھتے ہی شاہ زر نے اسکا راستہ روک لیا۔
"کہاں تھی تم؟
اس کی بےقراری اس کے لہجے واضح تھی۔حسب عادت اسے یکسر نظر انداز کرتی وہ آگے بڑھ گئ۔اس نے سرعت سے اس کی کلائی تھام لی۔
"تم روتی رہی ہو؟تمھاری آنکھیں کیوں سوجی ہوئی ہیں؟کیا ہوا ہے؟ اگر پریشان ہو تو پہلے کی طرح لڑ جھگڑ کر اپنا سارا frastration نکال دو مجھ پر۔اتنا عجیب برتاؤ کیوں کر رہی ہو؟.
وہ تشویشناک لہجے میں بولا تھا۔
تواب اسے بھی احساس ہورہا ہے کہ میں کمزور پڑ گئ ہوں ۔پہلے کی طرح لڑ جھگڑ نہیں پا رہی ہوں۔میرے خدا کہیں اسے یہ پتہ تو نہیں چل گیا کہ میں اس سے نفرت نہیں کر پارہی میں اس سے۔۔۔۔۔
وہ جیسے ہوش میں آئ تھی۔
"میں کہیں بھی جاؤں ،رووں یا ہنسوں تمھیں اس سے کوئ مطلب نہیں ہونا چاہیے"۔
اس نے اپنے لہجے کوحتی الامکان سخت رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا اورایک جھٹکے سے اپنی کلائی اس کی گرفت سے آزاد کی ۔
"یہ ہوئ نا بات۔اب مجھے تسلی ہوگئ ہے کہ زرمین شاہ زر آفریدی کی شکل میں کوئ بہروپیا اس گھر میں نہیں گھس آیا ہے"۔
وہ مسکراتا ہوا بڑے استحاق سے اس کے نام کو اپنے نام سے جوڑتا ہوا باہر نکل گیا۔
مجھے خود کو سنبھالنا ہوگا ۔میں یہاں اس شخص کی محبت میں گرفتار ہونے نہیں آئ تھی۔میں اسی طرح پیش آتی رہی تو کچھ بعید نہیں کہ یہ عقدہ کھل جائے گا میں اس سے ۔۔۔"
اس کے آگے وہ کچھ سوچ نہیں پائ تھی۔
وہ ایک خوبصورت وادی تھی۔چاروں سمت آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا ہرا سبزا پھیلا ہوا تھا۔ دو پہاڑوں کے درمیان سے شفاف چمکیلے پانی کا جھرنا بہہ رہا تھا جس کے اطراف تقریباً ہر رنگ کے پھولوں کی کیاریاں ہوا کے دوش پر لہرا رہی تھیں۔رنگ برنگے پرندے ٹھنڈے شفاف بہتے پانی کے چشمے سے چونچ بھر کر پانی پی رہے تھے۔وہ دونوں چشمے کے ٹھنڈے پانی میں پیر لٹکائے محو گفتگو تھے۔اس لڑکی نے وہی لباس زیب تن کررکھا تھا جو اس نے اپنی پسند سے اس کےیے خریدا تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھی وہ لڑکی خوش تھی انتہا سے زیادہ خوش۔
خوشی اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھی۔ دفعتا وہ کسی بات پر ہنسی تھی۔اطراف کا منظر ایکدم سے مزید خوبصورت ہوگیا۔
وہ اس کی دلنشین مسکراہٹ میں کھو سا گیا۔تبھی وہ اٹھی اور جھرنے میں اتر گئ۔جھرنے کے بہتے پانی سے کھیلتے ہوئے وہ ایک خوبصورت سرخ پھول کو توڑنے کی غرض سے جھکی اسی لمحے اس کا پیر پھسلا اور وہ کھائ میں گرتے چشمے کے دہانے پر جھول گئ۔ اس نے ایک پتھر کو تھام رکھا تھا۔وہ بد حواس سا بجلی کی سرعت سے اس تک پہنچا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔پانی کا بہاؤ دہانے پر تیز تھا اس سے قبل کہ وہ اسے اوپر کھینچتا اس لڑکی کا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ایک دلخراش چیخ کے ساتھ وہ خوفناک کھائ کی گہرائی میں گم ہوگئی۔۔۔
زرمین"
وہ ہزیانی انداز میں چیخا ۔
چیخ کے ساتھ وہ بیدار ہوا تھا۔اس کی پیشانی پسینے سے بھیگ چکی تھی۔سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اس نے اطراف میں نظر دوڑائی ۔ وہ اپنے کمرے کے بستر پر تھا۔اس کی بے قرار نظریں صوفے پر جاکر تھم گئیں۔
وہ مندی مندی آنکھوں سے کہنی کے سہارے اپنے آدھے جسم کو صوفے سے اوپر اٹھائے اسی کو دیکھ رہی تھی۔غالباً اس کی چیخ سنکر بیدار ہوئ تھی۔یہاں کوئ وادی نہیں تھی۔وہ لڑکی اس کے عین مقابل موجود تھی ۔وہ ایک خواب تھا۔بے انتہا خوفناک خواب۔
اس نے بازو کو ماتھے پر پھیر کر پسینہ پوچھا تھا ۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی بیڈ کے نزدیک آئی سائیڈ ٹیبل پر رکھے گلاس میں پانی انڈیل کر اس کی طرف بڑھایا۔
"تم ٹھیک تو ہو؟ڈراؤنا خواب دیکھا ہوگا۔اعوذ پڑھکر بائیں طرف تھوک دو آیتہ الکرسی پڑھکر دوسری کروٹ پر سو جاؤ۔"
اس نے یوں ہدایت دی گویا وہ کوئ بچہ ہو۔شاید اس کی حالت پر رحم آگیا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں۔"
اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تھام کر وہ ایک ہی سانس میں پی گیا۔بدقت تمام یہ تین لفظ ادا کرکے وہ دوسری کروٹ پر لیٹ گیا ۔
فجر کی اذان تک ہونے تک وہ آنکھیں کھولے چت لیٹا رہا۔وہ حسب معمول فجر کی نماز کے لیے اٹھی تھی۔حسب توفیق وہ اسے نماز پڑھتا دیکھتا رہا۔زیرو لیمپ کی مدھم روشنی میں وہ خدا کے حضور میں اسے سجدے کرتا دیکھتا رہا۔اچانک اس کے دل میں ایک خواہش نے سر اٹھایا کہ وہ بھی نماز ادا کرے ۔خدا کے حضور میں شکر کے سجدے کرے ۔اس نے کن کن نعمتوں سے اسے نوازا تھا۔ان نعمتوں میں سے ایک نعمت اس کےعین مقابل خدا سے گفتگو میں منہمک تھی۔وہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہتا تھا ان ساری نعمتوں کے لیے جن سے اس نے اسے نوازا تھا۔ اور اس بات کے لیے بھی کہ وہ خواب محض ایک خواب تھا حقیقت نہیں۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھا وارڈروب سے سفید کرتا پاجامہ اور توپی برآمد کی اوع واش روم میں گھس گیا۔ تھوڑی دیر بعد کمرے سے باہر نکل گیا۔وہ حیرانی سے اسے جاتا دیکھتی رہ گئ۔
لان میں پہنچتے ہی گھر کے سبھی حضرات اسے گیٹ سے باہر نکلتے نظر ائے۔اس گھر کا ہر ایک فرد سوائے اس کی پنج وقتہ نمازی تھا۔سفید کرتے پاجامے میں ملبوس سفید جالی دار ٹوپی سر پر سجائے وہ بڑے اہتمام کے ساتھ مسجد جانے کو تیار نظر آرہا تھا اسے دیکھ ایک ساتھ کئی ماشاءاللہ لان کی فضاء میں گونجے تھے۔
"دیر آئے درست آئے برخوردار"
فرط جذبات سے راشد صاحب نے اسے گلے سے لگا لیا ۔وہ جھینپ کر سر کھجانے لگا۔وہ اپنی بالکنی میں کھڑی اسے گیٹ سے باہر نکلتا دیکھتی رہی۔
اقبال تیرے عشق نے سب بل دئے نکال
مدت سے آرزو تھی سیدھا کرے کوئی
***
وہ آفس جانے کے لیے تیار ہںورہا تھا۔جبکہ وہ بالکنی میں کھڑی گلے سے لٹکتے پنڈنٹ کو مٹھی میں دبائے کسی گھری سوچ میں ڈوبی تھی۔ڈریسینگ ٹیبل کے سامنے کھڑے شاہ زر کو یہاں سے اس کا نیم رخ دیکھائی دے رہا تھا۔
"کس قدر خوش نصیب ہںونگے وہ لوگ جو تمہیں اسقدر عزیز ہیں۔تمہارے لیے اتنی اہمیت رکھتے ہیں۔"
اس نے حسرت سے زرمین کی پشت کو دیکھ کر سوچا تھا۔
دروازہ بند ہںونے کی آہٹ پر وہ مڑی تھی۔وہ جا چکا تھا۔وہ اس کا سامنا کرنے سے گریز برت رہی تھی۔ایک خوف سا لگا رہتا کہ اس سے سامنا ہںونے پر خدانخواستہ وہ اس کی آنکھوں میں رقم تحریر نہ پڑھ لے۔جسے وہ خود سے بھی چپھائے پھر رہی تھی۔سچ ہی کہا کرتے تھے اس کے دوست و احباب کہ" وہ ایک جذباتی لڑکی ہںے۔"جذبات کی رو میں بہہ کر وہ کسی بھی حد تک جا سکتی تھی۔ان کا کہا سچ ثابت ہںوا تھا۔صحیح غلط کے لیے لڑتے لڑتے اول وہ اپنی نیک نامی، دوم وہ اپنی دائی ماں اور اب اپنا دل گنوا بیٹھی تھی۔اس نے کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ ایک ایسے شخص کی محبت میں گرفتار ہںوجائے گی۔جس سے کبھی اس نے بے انتہا نفرت کی تھی۔جس شخص کی بدولت اس کی دنیا بدل گئی تھی،اس کی دائی ماں اس کے ساتھ نہیں تھی۔اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔ دو آنسوں اس کے رخسار پر ڈھلک آئے تھے۔
رات کے کھانے کے بعد شاہ زراور مزنی لان میں ایک دوسرے کے مقابل کرسیوں پر براجمان تھے۔گذشتہ رات والا خواب مزنی کے گوش گزار کر وہ متفکر نظر آرہا تھا۔
"میں بہت پریشان ہو ں۔
It was the worst nightmare I have ever seen .
وہ بھیانک خواب تھا۔میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ محض ایک خواب دیکھ کر میری حالت اتنی خراب ہوسکتی ہںے۔اس خوبصورت خواب کا اختتام دیکھ مجھے لگا جیسے میرے جسم سے جان نکل گئی ہںو۔تم ہی بتاؤ اس خواب کا کیا مطلب ہںو سکتا ہںے؟دن تک تو ٹھیک تھا مگر اب تووہ راتوں کو بھی وہ میرے حواسوں پر حاوی ہونے لگی ہںے۔"
اس کا لہجہ تھکن زدہ تھا۔اس کی توقع کے عین خلاف چائے کی چسکیاں لیتی مزنی مسکرا دی۔
"تم مسکرا رہی ہو ۔iam serious"
وہ خفا ہوا۔
"I am too Bhai.
"محبت کرنے والوں کی دنیا میں آپ کا استقبال ہے۔میں اسی لیے مسکراہ رہی ہںوں کہ اب میری بھابھی میرے بھائی کے خوابوں میں بھی آنے لگی ہںے۔آپ فکر نہ کریں اور اپنی کافی پیئے جو ٹھنڈی ہو رہی ہںے۔خوابوں کی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔جیسے کچھ خواب دن بھر ہمارے ذہن میں آگے پیچھے دوڑتے خیالات سے مراد ہںے ہمارے ذہنی اختراع کا نتیجہ ہںوتے ہیں۔جبکہ کچھ خواب اللّٰہ کی طرف سے بھیجے گئے غیبی اشارے ہںوتے ہیں۔یہ اشارے ہمیں مستقبل میں درپیش اچھے یا برے وقت کے تعلق سے خبردار کرنے کےلئے ہںوتے ہیں۔اور کچھ خواب ایسے ہوتے جن سے ہم پر یہ عقدہ کھلتا ہے کہ کچھ لوگ ہمارے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔آپ کا خواب بھی انہیں خوابوں کے زمرے میں آتا ہے۔"
"کیا مطلب؟"وہ قدرے نا سمجھی سے گویا ہںوا۔
"Oh god
بھائی آپ بھی نا کبھی کبھی بالکل اناڑیوں کی طرح behave کرتے ہیں۔ابھی کل ہی آپ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ وہ آپ کو اچھی لگنے لگی ہے ۔وہ آپ کو محض اچھی نہیں لگنے لگی، آپ اس سے محبت کرنے لگے ہیں۔جب ہم کسی سے محبت کرنے لگتے ہیں تو اس خوبصورت جذبے کے ساتھ ایک خوف بھی ہمارے دل میں پناہ لے لیتا ہںے۔اس شخص کو کھو دینے کا خوف۔محبت جس قدر شدید ہںوتی جاتی ہںے۔خوف بھی اتنی شدت اختیار کرتا جا تاہںے۔یہ ڈر ہمہ وقت ہمارے ذہن پر سوار رہنے لگتا ہںے اور بعض اوقات راتوں کو بھیانک خواب کی شکل میں نمودار ہںوکر ہمارے نیندیں تک چرا لے جاتا ہںے۔چند ماہ قبل نفسیات کی ایک بہت اچھی کتاب میں نے اس کے متعلق پڑھا تھا۔"
مزنی کی بات ختم ہوتے ہی اس کا فون بجا تھا وہ ایکسکیوز کرتی اپنی نشست سے اٹھ کھڑی ہوی۔
وہ کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں مرکوز کیے بے حس وحرکت بیٹھا رہا۔
***
بلآخر وہ دن آگیا جس کا سبھی کو بے صبری سے انتظار تھا۔آفریدی ولا کا ہر ایک مکین مصروف تھا۔دعا کی تیاریاں ختم ہںوکے نہیں دے رہی تھیں۔اپنی تیاریوں کے پیچھے اس نے گھر کی تمام خواتین کو لگا رکھا تھا۔چند گھنٹوں بعد خواتین کو بھی تیار ہںونے کا موقع نصیب ہںوا۔وہ جانے کتنی دیر سے اپنے کمرے میں چھپ کر بیٹھی تھی۔اس کی منتظر مزنی کا صبر جواب دے گیا۔دھاڑ کی آواز کے ساتھ وہ کمرے میں داخل ہںوئی۔اس کے لاکھ منع کرنے کے باوجود مختلف اقسام کے میک اپ کا سامان، نگوں سے مزین ہیڈ اسکارف اور بیش قیمتی بریسلیٹ اس کے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولی۔
"آفریدی ولا کی لڑکیاں کھلے سر مردوں کے سامنے نہیں جاتی۔ ویسے تمھیں یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں ہے پھر بھی کہہ رہی ہوں اس اسکارف کو حجاب کی شکل میں اوڑھ لینا۔کیونکہ ہم سب حجاب میں ہونگی اسلیے جویلری کی ضرورت نہیں ہے۔سنو زرمین اپنا موڈ ٹھیک کرو۔ تمھیں پارٹی میں سب سے بہتر نظر آنا ہے ورنہ دعا کا غصہ جانتی ہو۔"
مزنی دھمکی آمیز لہجے میں کہتی باہر نکل گئی۔
وہ بے دلی کے ساتھ وہی گاؤن زیب تن کر چکی تھی جو اس نے شاہ زر کے ہمراہ خریدا تھا۔violet اور golden کامبینیش کا گاؤن جو کمر سے اوپر چست نیچےجاکر قدرے گھیروں میں بدل گئی تھی۔اس کے سراپے کو مزید دلکش بنا رہی تھی۔بالوں کو جوڑے کی شکل دے کر اس نے میک اپ کے سامان کی سمت دیکھا۔بالوں کا جوڑا اس کی گردن کو مزید صراحی دار بنارہا تھا۔وہ میک اپ کی شوقین نہیں تھی۔اس نے اپنی اب تک کی زندگی میں شاید ہی کبھی میک اپ کیا تھا۔کسی پارٹی یا فنکشن میں جانے سے قبل محض مسکارہ اور لیپ اسٹک کا استعمال اس کی تیاری کو مکمل بنا دیا کرتا ۔مذید میک اپ کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔حسب عادت مسکارہ کی مدد سے اپنی آنکھوں کو مزید قاتلانہ بناکر ہونٹوں پر نسبتاً ہلکے شیڈ کی لیپ اسٹک لگائے اس نے آئینے میں اپنے عکس کو دیکھا۔وہ بچپن سے سنتی آئی تھی کہ اس کی خوبصورتی غیر معمولی ہےبقول اسکی سہیلیوں کے اس کو دیکھ کر کسی شہزادی کا گمان ہوتا ہے وہ ان کی بات ہنس کر ٹال جاتی۔مگر آج خود کے عکس کو دیکھ وہ حیران رہ گئ۔وہ خوبصورت لگ رہی تھی۔
اپنے سراپے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتی وہ پلٹی تھی ایک دھیمی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پربے ساختہ دوڑ گئی تھی۔اس سے قبل کے وہ بیڈ پر دھرے ریشمی ہیڈ اسکارف کو اٹھاتی۔خوشبو ایک جھونکے کے ساتھ وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔
وائن کلر کے سوٹ میں وہائٹ شرٹ میں ملبوس
وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔
Gorgeous,
توبہ شکن مسکراہٹ چہرے پر سجائے وہ پلٹی تھی۔اس پر نظر پڑتے ہی وہ بے اختیار بول اٹھا۔وہ حیران ہوتی سیدھی ہوئ۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا تھا۔اس کی نظریں زرمین کے چہرے پر ثبت تھی۔اس کی سادگی بھی اس پر قیامت ڈھاتی تھی کجا کہ یہ تیاریاں۔وہ اسے قتل کرنے کے اوزاروں سے لیس نظر آرہی تھی۔وہ بےخود سا اس کے قریب آرہا تھا۔وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا۔وہ بے ساختہ دو قدم پیچھے ہٹی نتیجتاً دیوار سے جا لگی۔وہ اس کے قریب چلا آیا۔ان دونوں کے درمیان ایک قدم کا فاصلہ رہ گیا۔مارے گھبراہٹ کے اس کا حلق خشک ہو گیا۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس دائیں بائیں دیوار پر جما دیے اور قدرے جھک کر اپنا چہرہ اس کے چہرے کے برابر لے آیا ۔وہ اس کی سانسوں کو اپنے چہرے پر محسوس کر سکتی تھی ۔اس کے دل کی دھڑکن ایکدم سے بڑھی۔اسے لگا وہ بے ہوش ہو جائے گی۔اس نے بے حس و حرکت لٹکے ہاتھ سے ڈریسنگ ٹیبل کے کنارے کو تھامنے کی کوشش کی۔
وہ کیا کرنے والا تھا۔وہ یقیناً اپنے حواسوں میں نہیں تھا ۔میرے خدا میں کیا کروں۔
شاہ زر کی نگاہیں اسکے خوبصورت چہرے سے ہوتی ہوئیں اس کی آنکھوں پر جارکیں۔وہ پتھرائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔وہ بری طرح خوفزدہ لگ رہی تھی۔وہ جیسے ہوش میں آیا تھا۔
"Did I scare ?so sorry I was just caught in a moment.
وہ سرعت سے دیوار سے اپنے ہاتھ ہٹا کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔
تبھی زرمین کا ذہن سوچنے سمجھنے کے قابل ہوا ۔ڈریسنگ ٹیبل پر دھرا گلاس اس کے ہاتھ سے ٹکرایا۔ کچھ ہی دیر قبل پانی پیکر وہیں رکھ دیا تھا۔گلاس آدھا بھرا ہوا تھا۔اس نے پانی کا گلاس اٹھایا اور اس کے منہ پر انڈیل دیا ۔وہ شاک کی کیفیت میں دو قدم پیچھے ہٹاتھا۔
"Don't you dare cross your limits."
اسی کی زبان میں جواب آیا تھا۔اس کے ردعمل کے بلکل برعکس اس کی آواز کی لرزش اس کے اندر کا حال بیان کر رہی تھی۔بیڈ سے ہیڈ اسکارف اٹھا کر وہ تقریباً بھاگنے کے انداز میں کمرے کے باہر نکل گئ۔
اس کے چہرے سے ہوتے ہوئے بیش قیمتی سوٹ پر ٹپکتے پانی کی بوندوں کو دیکھ وہ نفی میں سر ہلاتا مسکرا دیا۔
وہ اس لڑکی کو کیسے سمجھاتا کی وہ تو پوری سر سے پاؤں تک اس کی حدوں میں آتی تھی۔
بے خودی میں اس کی سمت بڑھتے ہوئے اس کے لاشعور میں یہ بات تھی کہ وہ لڑکی اس کی منکوحہ ہے۔مگر جب ذہن نے لاشعور سے شعور کا سفر طے کیا تو ادراک ہوا کہ اس کے منہ پر پانی پھینک کر جانے والی محض اس کی بیوی نہیں تھی وہ لڑکی زرمین فاروقی تھی۔جرنلسٹ زرمین فاروقی۔
"بعض اوقات میں اوور ہوجاتا ہوں"۔
اس نے خود کو سرزنش کیا تھا۔
دل آشنائے درد محبت ہے کیا کروں
اس کا ستم بھی باعث لذت ہے کیا کروں
وہ راہداری کے ستون کو تھامے اپنی سانسیں بحال کر رہی تھی۔اس کی ٹانگیں اب بھی کانپ رہی تھیں۔