وہ فجر کی نماز پڑھ کر فارغ ہو چکی تھی۔اس کی نگاہیں شاہ زر کے چہرے پر ثبت تھیں۔وہ صوفے پر آڑا ترچھا لیٹا گہری نیند میں تھا۔
"کیا حقیقتاً اس سے کسی کے آنسو برداشت نہیں ہوتے ؟اسقدر نرم دل اور ہمدرد طبیعت کا مالک ہوسکتا ہے وہ؟کیا واقعی یہ ممکن ہے کہ کوئی اس دنیا میں کسی سے نفرت نہ کرے؟تو کیا وہ مجھ سے بھی نفرت نہیں کرتا؟"
بیک وقت کئی سوالوں نے ذہن پر حملہ بول دیا۔سوالوں کا سلسلہ آخری سوال پر آکر تھم گیا۔
"یہ کیا ہوتا جا رہا ہے مجھے؟میں اس شخص کو کیوں سوچے جارہی ہوں؟وہ مجھ سے نفرت کرے یا نہ کرے مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔کیونکہ میرے دل میں اس کے لیے محض نفرت کے جذبات ہیں۔میں اس سے نفرت کرتی ہوں اور کرتی رہونگی۔میرا مقصد حیات ہے اس کا چین وسکون غارت کرنا۔"
اس نے خود کووہی سبق پڑھایا جو تقریباً ہر دن دہراتی آئی تھی۔
ناشتے کی ٹیبل پر وہ موجود نہیں تھا زرمین کی سفارش کرنے کے بعد سے راشد صاحب نے اس پر سختی کرنا بلکل ہی چھوڑ دیا تھا۔اب اس پر بروقت ناشتے کی ٹیبل پر پہنچنے کی پابندی عائد نہیں تھی۔
"اشعر تم شاہ زر کے ساتھ city center پہنچ جانا ہمدانی صاحب کے ساتھ ضروری میٹنگ ہے ساڑھے آٹھ بجے ۔"
ماجد صاحب کے کہنے پر زرمین کے کان کھڑے ہوگئے۔اس بات سے یکسر بے خبر کے وہ سورہا ہے اشعر نے اثبات میں سر ہلا دیاتھا۔اس کا خیال تھا وہ آفس کےلیے تیار ہورہا ہوگا۔گذشتہ کچھ دنوں سے اس کا یہی معمول تھا۔
اشعر اس بات سے بے خبر تھا کہ شاہ زر آدھی رات تک جاگتا رہا تھا بروقت اس کی آنکھ کھل جانا ناممکن تھا۔
وہ کمرے کے چار چکر کاٹ چکی تھی وہ ہنوز سو رہا تھا۔گھڑی کی سوئیاں اپنی رفتار سے حرکت کر رہی تھیں ۔وہ متذبذب تھی۔اسے جگائے یا نہ جگائے۔
"وہ اسی طرح سوتا رہ گیا تو وقت پر میٹنگ کے لیے نہیں پہنچ پائے گا نتیجتاً انکل اس کی خوب عزت آفزائی کرینگے۔"۔
اس کے دل سے آواز آئی ۔شاہ زر کو ذلیل کرانے کا ایک سنہرا موقع تھا۔یہ سوچنے کے باوجود وہ کمرے کے وسط میں کھڑی اپنی نچلے ہونٹ کو دانتوں سے زخمی کر رہی تھی۔پتہ نہیں کیوں دل مطمئن نہیں ہوپا رہا تھا۔
"زرمین آنٹی کہاں ہیں"؟
کمرے کے باہر سے دعا کی آواز آئی ۔وہ اسے ڈھونڈ رہی تھی۔اسے یقین تھا دعا کے ساتھ جانے پر بروقت کمرے میں واپس آنا ممکن نہ تھا۔
نجانے اس لمحے اسے کیا ہوا وہ تیز تیز قدم اٹھاتی صوفے کے نزدیک آئی اپنا ہاتھ اس کی سمت بڑھایامگر پھر رک گئی۔
اسے چھونا صحیح نہیں لگا بیدار ہوکر نجانے وہ کون کونسی خوش فہمیاں پال لیتا۔
اسے جگانے کا کوئی طریقہ سوجھ نہیں رہا تھا کہ وہ بیدار ہوجائے اور اسے پتہ بھی نہ چلے کہ اسے نے اس نے جگایا ہے ۔دفعتا اس کی نظر کانچ کے گلاس پر پڑی۔اس نے گلاس اٹھایا اور پوری قوت سے فرش پر پٹخ دیا ۔چمکیلیے ٹائلس سے کانچ ٹکرائی۔چھناکے کی آواز کے ساتھ گلاس چکناچور ہواتھا۔وہ بجلی کی تیزی سے کمرے کے باہر نکل گئ۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔فرش پر کانچ کے ٹکڑے بکھرے تھے۔گلاس کو دانستہ یا نادانستہ زمین بوس کرنے والی شخصیت کمرے میں نہیں تھی۔تبھی اس کی نظر وال کلاک پر پڑی وہ اچھل کر صوفے سے اترا تھا میٹینگ میں محض آدھا گھنٹہ بچا تھا۔کمرے کی حالت دیکھ اسے صورت حال کا پس منظر سمجھ آگیا۔وہ زیر لب مسکرایا تھا۔
وہ فریش ہوکر عجلت میں ڈائنیگ ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا۔اس سے قبل کہ وہ ممی کی پکار لگاتا ناشتے کی ٹرے لیے وہ کچن سے برآمد ہوئی تھی۔گذشتہ کچھ دنوں سے عالیہ بیگم ہی اسے سرو کررہی تھی راشد صاحب نے بھی اعتراض نہیں جتایا تھا ۔اس کی سزا ختم ہوئی تھی۔مگر آج با الخصوص اسے ٹرے اٹھائے اپنی سمت آتا دیکھ اس کی چھٹی حس نے اشارہ دیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔اپنی بے ساختہ مسکراہٹ کو وہ روک نہ سکا۔
پٹخنے کے انداز میں اس نے ٹرے ٹیبل پر رکھی۔شرافت کے جامے میں رہتے ہوئے اس نے ذائقہ سے پر بریڈ آملیٹ کا نوالہ منہ میں ڈالا۔ذائقہ زبان پر آتے ہی اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔اسے یوں مسکراتا دیکھ وہ بل کھا کر رہ گئ۔
بےتحاشہ نمکین بریک فاسٹ وہ مزے لیکر کھارہاتھا ۔بریڈ آملیٹ چٹ کرجانے کے بعد وہ کمال اطمینان گلاس کو لبوں سے لگائے جسے مرچی کا گھول زیادہ جوس کم کہا جاسکتا تھا دو ہی گھونٹ میں حلق کے نیچے اتار گیا ۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔ڈائنیگ ٹیبل پر فی الوقت وہ تنہا تھا وہ چاہتا تو پہلے نوالے کے بعد ہی ناشتہ کی ٹرے کو پرے دھکیل سکتا تھا۔مگر وہ تو بڑے آرام سے ناشتہ ختم کرچکا تھا۔ اس کی مسکراہٹ کو دیکھ لگ رہا تھا گویا بہت ذائقہ دار ڈش نوش فرمائی ہو۔نیپکین سے ہاتھ پونچھتا وہ اٹھ کھڑا ہوا۔اپنے غصے کو دباتی ٹرے اٹھا کر وہ جانے کے لیے پلٹی۔
"نیند سے جگانے کے لیے تھینکس"۔
وہ ورتہ حیرت میں مبتلا اس کی طرف پلٹی اس کے ایک ہاتھ میں ٹرے تھی جبکہ دوسری ہاتھ کی کلائی شاہ زر کی مضبوط گرفت میں تھی۔
وہ مسلسل اس کی مسکراتی نظروں کی زد میں تھی۔
بڑی ڈھٹائی سے اس کی کلائی تھام کر وہ اسے تھینکس کہہ رہا تھا۔
حیرت کی جگہ غیض و غضب نے لے لی۔
"خوش فہمیاں پالنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔اور آج تم اس حد کو پار کرچکے ہو۔وہ گلاس غلطی سے میرے ہاتھ سے پھسل گیا تھا۔میں نے تمھیں جگانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔میرا بس چلے تو تمھیں تاحیات سوتے رہنے کی کوئ دوا کھلا دوں۔میری بات ذہن نشین کرلو میں اپنے دشمنوں کی ہیلپ کرنے کی قائل نہیں ۔وہ بھی ایسے دشمن جن سے میں بے تحاشہ نفرت کرتی ہوں۔"
ایک جھٹکے سے اپنی کلائی چھڑا کر ٹرے ٹیبل پر پٹختے ہوئے وہ غرائ۔
"میں نے تو کسی گلاس کا ذکر نہیں کیا تھا ۔ گلاس کا ذکر کر کےتم نے ازخود میرے شک پر یقین کی مہر ثبت کردی ہے۔once again thanks alot میری پرواہ کرنے کے لیے۔رہا سوال تمھاری مجھ سے نفرت کا تو کیا میں یہ سمجھوں کہ ابھی جو ناشتہ تم نے مجھے سرو کیا تھا وہ تمھاری بے انتہا نفرت کا اظہار ہے۔
oh god ,you are so cute i cant even hate you.
وہ ہنسا تھا۔
بعض اوقات مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا تم مجھ سے زیادہ خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش میں ہلکان ہوتی رہتی ہو کہ تم مجھ سے نفرت کرتی
ہو۔خیر تمھاری نفرت ایسی ہے تو خدا جانے محبت کیسی ہوگی۔فی الحال تو ہم تمھاری نفرت میں ہی خوش ہیں۔"
اس کے چہرے پر جھولتی لٹ کو انگلی سے چھیڑ کر وہ بائے کے انداز میں ہاتھ ہلاتا ہال کی چوکھٹ کو عبور کر گیا۔
وہ ٹیبل کو تھامے ساکت کھڑی رہ گئ۔
**
وہ لان میں جھولے پر بیٹھی کسی غیر مرئی نقطے پر نگاہیں مرتکز کیے شاہ زر کے بدلے ہوئے انداز کے متعلق سوچ رہی تھی۔
"کہاں کھوئی ہںو؟ کیابھائی کے خیالوں میں گم ہو ؟ "
اچانک مزنی نے عقب سے اس کے شانو پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوئے کہا۔
اس کی اچانک آمد سے زیادہ وہ اس کے الفاظ سنکر ہڑبڑا گئ تھی۔
"درست اندازہ لگایا تم نے۔میں اسی کے متعلق سوچ رہی تھی مگر سوچ کی نوعیت تمھارے اندازے سے مختلف ہے لوگ اکثرمحبت میں گرفتار ہوکر پہروں کسی کو سوچتے ہیں لیکن میں تمھارے بھائی کی نفرت میں مبتلا اسے سوچ رہی ہوں۔تم تو واقف ہو کہ میں اس گھر میں کس نیت سے آئ ہوں۔ظاہر ہے میرے شب و روز انہی سوچوں میں گزرتے ہیں کہ کسطرح شاہ زر کا جینا مشکل کروں"۔
اس نے فوراً اپنی گھبراہٹ پر قابو پاکر کہا۔
"تم بھائ سے نفرت نہیں کرتی۔تمھیں اس فعل سے نفرت ہے جو انہوں نے انجام دیا تھا۔اور سچ کہوں تو تمھارے انتقام لینے کے طریقے بھی تمھاری طرح کافی کیوٹ ہوتے ہیں جن سے پہلے پہل تو بھائ کو پرابلم ہوتی تھی پر اب بلکل نہیں ہوتی ۔وہ تمھیں سمجھنے لگے ہیں۔میری صلاح مانو تو تم بھی پچھلی باتوں کو فراموش کرکے آگے بڑھو۔میں مانتی ہوں بھائی سے غلطی ہوئی تھی۔ اس دنیا میں ڈھونڈنے سے بھی ایسا شخص نہیں ملےگا جس نے اپنی زندگی میں کوئ غلطی نہ کی ہو۔انسان خطا کا پتلا ہے۔اسی لیے معاف کر دینے کا رواج ہے اس دنیا میں۔تم بھائی کو معاف کردو۔اپنی لائف نئے سرے سے شروع کرو۔"
جھولے پر اس کی بغل میں بیٹھی مزنی کی بات پر وہ طیش کے مارے کھڑی ہوگئ۔
"تم کہنا کیا چاہ رہی ہو؟مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔اس دنیا میں تم واحد ہستی ہو جو باخبر ہے کہ میں کس کرب سے گزری ہوں۔اور تم چاہتی ہو کہ میں تمھارے بھائی کو معاف کردوں ،اپنی زندگی نئے سرے سے شروع کروں اگر واضح لفظوں میں کہا جائے تو تم کہنا چاہ رہی ہو کہ میں تمھارے بھائی کو اپنا شوہر تسلیم کر لوں۔تمھارے ذہن میں یہ بات آکیسے گئ کہ میں شاہ
زر جیسے مغرور اور characterless شخص کو اپنا ہم سفر مان لونگی۔"
"لسن زرمین بھائی نا تو مغرور ہیں ناہی characterless ان کے ساتھ اتنے دن گزارنے کے بعد تم بھی اس حقیقت سے واقف ہوچکی ہو۔اگر تم انھیں ان کے اطراف گھومتی لڑکیوں کی وجہ سے انہیں characterless کے خطاب سے نواز رہی ہو تو thats unfair۔وو اپنی اسمارٹنیس کی وجہ سے لڑکیوں میں پاپولر ہیں ۔جس سوسائٹی میں ہم مو کرتے ہیں وہاں لڑکیوں سے بات کر لینا عام بات ہے۔یہ لڑکیاں بھائی کے پیچھے پڑی رہتی ہیں اس میں بھائی کا کیا قصور ہے۔ان کی ابتک کی زندگی میں کسی بھی لڑکی سے انکا اس نوعیت کا رشتہ نہیں رہا جیسا تم سوچ رہی ہو۔بھائ کو ان لڑکیوں میں کوئ دلچسپی نہیں ہے۔تم بے بنیاد باتوں کو وجہ بناکر بھائی کو اپنا ہیسبنڈ ماننے سے انکار کردوگی تو کیا اس سے حقیقت بدل جائے گی ۔تم مانو یا نا مانو تم دونوں husband wife ہو thats it."
اپنی بات ختم کرکے مزنی گھر کے اندر چلی گئی۔ پہلی دفعہ مزنی اس پر ناراض ہوئ تھی۔مگر وہ یہی چاہتی تھی۔وہ اس پر اپنے کمزور پڑتے دل اور ارادوں کو عیاں ہونے نہیں دینا چاہتی تھی۔وہ اسے یقین دلانا چاہتی تھی کہ اب بھی وہ شاہ زر سے نفرت کرتی ہے وہ اپنے ارادوں پر سختی سے قائم ہے۔مگر یہ حقیقت نہیں تھی۔وقت تیزی سے بدل رہا تھا ۔ اس کے جذبات بدل رہے تھے۔
**
آج آفس میں میٹنگز کے چلتے
گھر لوٹنے میں دیر ہوئ تھی۔وہ کمرے میں داخل ہوا۔بستر پر وہ پوری طرح کمبل میں چھپی لیٹی تھی ۔آہٹ پر اس کے وجود میں جنبش نہیں ہوئ تھی۔وہ فریش ہوکر صوفے پر دراز ہوگیا ۔اس کا رخ زرمین کی سمت تھا۔تبھی اس کے چہرے سے کمبل سرکا تھا۔وہ گہری نیند میں تھی۔اس سے قبل اس نے کبھی اسے سوتے میں نہیں دیکھا تھا وہ خود کو مکمل طور پر کمبل سے ڈھک کر سوتی تھی۔اس کی آنکھیں بند تھیں۔چوٹی دائیں طرف کو ڈالی ہوئی تھی۔وہ کسی بچی کی طرح معصوم لگ رہی تھی۔کیا سوتے ہوئے بھی کوئی اسقدر حسین لگ سکتا ہے وہ حیران تھا۔وہ دم بخود دیکھے گیا۔دفعتاً اس کے ماتھے پر شکنیں نمودار ہوئیں۔سکون سے بند آنکھیں سختی سے میچ لیی۔بند آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اس نے کمبل کو اپنی مٹھیوں میں جکڑ لیا۔ کمرے میں اے۔سی چل رہا تھا باوجود اس کے وہ پسینے میں بھیگ گئی۔
آن کی آن میں پرسکون مورت اضطراب و خوف کی زندہ تصویر بن گئ۔اس اچانک افتاد پر وہ بجلی کی سرعت سے بیڈ پر آیا تھا۔حواس باختہ سا وہ اس کی بند مٹھی کو تھامے اسے جگانے ہی والا تھا کہ وہ چیخ کر اٹھ بیٹھی۔اگلے ہی لمحے اس پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔وہ اس کی بانہوں میں سمائ چھوٹی بچی کی مانند بلک رہی تھی۔اس کا وجود پر لرزہ طاری تھا۔وہ دم سادھے بیٹھا رہا۔اسے یقین تھا گر اس نے کسی بھی ردعمل کا اظہار کیا تو وہ حواسوں میں لوٹ آئے گی۔فی الحال اسے سہارے کی ضرورت تھی۔وہ اس کا سہارا بننا چاہتا تھا۔اس نے سانس تک روک لی۔ وہ اپنے آنسوؤں سے اس کی قمیص بھگوتی رہی۔کچھ دیر آنسو بہا لینے کے بعد وہ جیسے ہوش میں آئ تھی۔ ذہن لاشعور سے شعور کی طرف آیا۔شںناسا کلون کی مہک اس کے سانس میں اتر گئی۔اس نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا۔وہ بلکل ساکت بیٹھا اسی کو دیکھ رہا تھا۔
"تم تم یہاں کیا کر رہے ہو؟تم بیڈ پر کیوں آئے ؟"
وہ بوکھلا کر ایک جست میں بیڈ سے نیچے اتری تھی۔وہ اس ایسے دیکھ رہی تھی گویا اس سے کوئی خطرناک جرم سرزد ہوگیا ہو۔
"وہ actually تم نیند میں چیخی تھی۔ کافی گھبرائ ہوئ لگ رہی تھی ۔ تو میں نے سوچا تمھیں جگا دوں کوئی برا خواب دیکھا ہوگا۔مگر جیسے ہی میں تمھیں جگانے کی نیت سے بیڈ پر آیا...." وہ کسی مجرم کی طرح صفائی پیش کر رہا تھا ۔
"بس ،بس کرو ۔"
زرمین نے درمیان میں ہی اس کی بات کاٹ دی وہ بخوبی واقف تھی کہ اس کے آگے وہ کیا کہنے والا تھا۔یہ سننے سے بہتر تھا وہ چلوں بھر پانی میں ڈوب مرتی۔
"میں نیند میں روؤں چیخوں ،چلاؤں چاہے جو کروں تمھیں اس کوئ مطلب نہیں ہونا چاہیئے سمجھے تم۔میرے سامنے یہ اچھائ اور ہمدردی کا ڈھونگ کرنے کی کوشش مت کرنا۔میں تمھاری گل فرینڈز میں سے نہیں ہوں جو تمھارے زرا سے التفات پر نثار ہو جاؤں۔میں پہلے بھی تمھیں وارن کرچکی ہوں دوبارہ کرتی ہوں، مجھ سے دور رہو۔"
اپنے گرد دوپٹہ اچھی طرح لپیٹتے ہوئے وہ غرائی۔ شاہ زر کو اس سے کچھ ایسے ہی ردعمل کی توقع تھی۔
"میں کوئی ڈھونگ نہیں کر رہا۔با الخصوص اچھائی کا ڈھونگ تو قطعاً نہیں۔ہاں اگر بار بار تمھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ میں واقعی اچھا انسان ہوں اور تم خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہو کہ یہ کوئی ناٹک ہے تو اس سارے میں میں بےقصور ہوں۔پہلی بات تم نے بلکل غلط کہی ہاں لیکن دوسری بات صد فی صد درست کہی کہ تم میری گرل فرینڈز میں سے نہیں ہوں کیونکہ تم واحد شخصیت ہو جسے میری بیوی ہونے کا شرف حاصل ہے ۔جہاں تک التفات کا سوال ہے وہ میں نے تم پر نہیں تم نے مجھ پر کیا ہے۔تم اپنی مرضی سے کچھ دیر قبل میری بانہوں میں سمائی تھی۔"
وہ اپنے شوخ موڈ میں لوٹ چکا تھا۔
"شٹ اپ ،بند کرو یہ بے ہودہ بکواس ۔تم سے اسی قسم کی لغویات کی توقع کی جاسکتی ہے۔خبردار جو آئندہ مجھے بیوی کہہ کر مخاطب کیا۔میں تمھاری بیوی نہیں ہوں۔"
شرم اور غصے کے ملے جلے جذبات نے اس کے چہرے کو سرخ بنا دیا تھا ۔ وہ بیڈ سے تکیہ اٹھا کر صوفے کی سمت بڑھ گئی۔وہ حیران ہوا۔
"کہاں چل دی محترمہ ۔صوفے پر تو میں غریب ہی بڑی مشکل سے اڈجسٹ کرپاتا ہوں کجا کہ تم بھی ۔ہم دونوں کے سونےکے لیے صوفہ ناکافی ہوگا۔"
وہ مزید پھیلا۔
زرمین کو لگا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔شرم کے مارے اس کے کان کی لوئیں تک سرخ ہوگئیں۔
وہ پلٹی اور سنگھار میز پر دھرے کرسٹل کا گلدان اسے دے مارا جسے بڑی مہارت سے کیچ کر لیا گیا۔
"تھینک گاڈ میں کرکٹ میں اچھا تھا۔"
اس نے گلدان کو دیکھتے ہوئے شکر کا کلمہ پڑھا۔
" میں نے تم جیسا بے ہودہ شخص آج تک نہیں دیکھا۔مجھے اس قسم کی بکواس سے حد درجہ نفرت ہے۔آئندہ سوچ سمجھ کر میرے سامنے بولنے کی ہمت کرنا ورنہ آج تو بچ گئے تمھاری قسمت اچھی تھی آئندہ میں بنا چکے تمھارا سر پھوڑ دونگی۔اور ہاں آج سے میں صوفے پر سوونگی تمھیں بیڈ پر سونا ہے تو بخوشی سو جاؤ ورنہ دروازہ کھلا ہے۔"
وہ جھانسی کی رانی بنی بولی۔
”کیا دن آگئے ہیں اپنی ہی کمرے سے دربدر کیا جا رہا ہے مجھے۔خیر ہوتا وہی ہے جو تم چاہتی ہو سو آج بھی وہی ہوگا۔"
اس نے مسکین شکل بناکر کہا۔البتہ وہ سر سے پیر تک چادر تانے صوفے پر دراز تخلیہ کہہ چکی تھی۔
وہ بیڈ پر لیٹ گیا۔
بظاہر مطمئن نظر آرہا تھا مگر وہ الجھا ہوا تھا
"ایسا کیا دیکھا تھا اس نے خواب میں۔"
وہ پریشان تھا ۔نیند ایک بار پھر روٹھ گئ تھی۔
***
وہ ناشتے سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔شاہ زر آفس جاچکا تھا۔وہ ڈریسنگ ٹیبل پر بکھرے سامان کو ترتیب دینے لگی۔ دفعتاً اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی کرنسی نوٹوں کی گڈی پر پڑی وہ حیران ہوتی ہوئی سیدھی ہوئی تبھی اس کی نظر آئینے پر چسپاں نوٹ پر پڑی۔اس نے پڑھنا شروع کیا۔
"میں جانتا ہوں کہ شروع میں تمھیں اس نوٹ کو دیکھ کر حیرانگی ہوگی پھر جیسے جیسے تم اس پیغام کو پڑھتی جاؤگی تمھاری حیرانی طیش میں بدلتی جائے گی بلآخر تم اس نتیجے پر پہنچوگی کہ ایک بار پھر میں اچھا بننے کی کوشش کر رہا ہوں۔یقین جانو میں کوئی ڈھونگ نہیں کر رہا ڈریسنگ ٹیبل پر پڑے یہ روپے میں نے تمھارے لیے چھوڑے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ان پیسوں کو دیکھ تمھیں زرہ برابر بھی خوشی نہیں ہوئی ہوگی ۔تم میرے ہاتھوں سے دیے روپے قبول کر لو یہ ناممکن تھا اس لیے براہ راست تمھیں یہ روپیے دینے کے بجائے ٹیبل پر چھوڑے جارہا ہوں۔میں جانتا ہوں اس گھر میں تمھیں پیسوں کی کمی کبھی محسوس نہیں ہوئ ہوگی کیونکہ میں لاکھ imperfect صحیح میرے پیرینٹس فرفیکٹ ہیں وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانا بخوبی جانتے ہیں۔ خیر دیر آئے درست آئے کا مصداق آج اپنا فرض نبھانے کی سعی کر رہا ہوں۔عین ممکن ہے کہ میری غیر موجودگی میں بھی تم ان پیسوں کو ہاتھ نہیں لگاؤگی۔مگر اس امید کے سہارے کہ تم اسے اپنا حق سمجھ کر رکھ لوگی میں نے یہ قدم اٹھایا ہے ۔میری ہر چیز پر تمھارا حق ہے۔ایسا کرنے سے تمھاری فیلینگ کا تو میں اندازہ نہیں لگا سکتا مگر مجھے بلکل شوہروں والی فیلنگ آرہی ہے۔تمھارے شوہر کے خون پسینے سے کمایا رزق حلال قبول کرو ۔پلیز۔۔۔۔"
آخر میں پلیز کے ساتھ ایک اسمائلی بنائی ہوئی تھی۔ اس کی توقع کے عین مطابق اس نے کرنسی نوٹوں کی گڈی کو اسٹڈی ٹیبل کے دراز میں ٹھونس دیا۔
"یہ کیا ہوتا جارہا ہے اسے کتنی آسانی سے مجھ پر اپنا حق جتاتا جارہا ہے۔'"
وہ ڈریسنگ ٹیبل کو تھامے سوچ کر رہ گئ۔وہ حیران تھی اسے غصہ نہیں آرہا تھا پتہ نہیں کیوں۔
تبھی میسج کی ٹون نے اس کا دھیان اپنی طرف کرلیا۔
شاہ زر کا موبائل اسٹڈی ٹیبل پر پڑا تھا۔ اس کے لیے نوٹ چھوڑنے کی ہڑبڑاہٹ میں وہ اپنا فون یہیں بھول گیا تھا۔
مسسل بجتی میسیج ٹون سے تنگ آکر اس نے موبائل اٹھایا اور سوئچ آف کا بٹن تلاشنے لگی فون کی اسکرین اس کی انگلی سے سوائپ ہوئ اور حال ہی میں آیا میسج اوپن ہو گیا۔وہ حیران ہوئ اس کا فون لاک نہیں تھا۔ اج کے اس دور میں کوئ شخص اسقدر دودھ کا دھلا نہیں ہوتا کہ اپنا فون لاک نہ کرے۔مگر یہ شخص۔۔
“The shortest word i know is
"I"
The sweetest word i remember is
" love" and
The person which i never forget is "you"
اس قسم کے پیغامات سے ان باکس بھرا پڑا تھا جنھیں کھول کر پڑھنے کی زحمت نہیں کی گئی تھی۔حتی کہ میسیجس بھیجنے والیوں کے نام تک سیو نہیں کیے گئے تھے۔
اس کا خون جوش مارنے لگا۔
"کسقدر کم ظرف ہوتی ہیں یہ لڑکیاں۔حیا کسے کہتے ہیں ،عزت کیا ہوتی ہے،کردار کی پاکیزگی کس چڑیا کا نام ہے انہیں کچھ خبر نہیں ہے۔حیرت کی بات ہے کہ یہ لڑکیاں اس شخص کی پیچھے اپنا وقت ضائع کر رہی ہیں جو انہیں رتی برابر اہمیت نہیں دیتا"۔
وہ تاسف سے سوچے گئ۔
"شاید مزنی درست کہہ رہی تھی کہ اسے ان لڑکیوں میں کوئ دلچسپی نہیں ہے۔یہ ساری وارفتگیاں یک طرفہ تھی۔جب اس کے دل میں کوئ چور نہیں تھا تو وہ اپنا فون لاک کیوں کرے۔"
یہ مجھے کیا ہوگیا ہے میں اس کی سائڈ کیو لےرہی ہوں۔وہ آوارہ ہے۔ عیاش ہے اسی کی دی ہوئی شہ کی وجہ سے یہ لڑکیاں اس کی پیچھے پڑی ہیں۔آجکل جناب کے سر پر ہمدردی او رذمہ داری کا بھوت سوار ہے ۔ شوہروں والی فیلینگ سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ توکیوں نا انہیں ہمارے رشتے کی نوعیت کا احساس کرایا جائے۔"
اس نے اپنے دل کو ڈپٹا۔
تھوڑی دیر بعد وہ اس کے موبائل سے کچھ نمبروں پر ایک میسیج بھیج کر بھر پور انداز میں مسکرا رہی تھی۔وہ اپنے رنگ میں واپس آچکی تھی۔
وہ آنکھیں پھاڑے لان میں بچھی کرسیوں پر براجمان جدید فیشن کے لباس میں ملبوس لڑکیوں کی سمت دیکھ رہا تھا۔ان کی تعداد بیس پچیس سے اوپر تھی۔
اس کا فون اس کے پاس نہیں تھا آفس کے فون پر کال کرکے اسے فوراً سے پیشتر گھر آنے کا حکم ملا تھا۔
"چھوٹے صاحب یہ لڑکیاں آپ سے ملنے آئیں ہیں ۔میں نے کہا بھی کہ آپ گھر پر نہیں مگر یہ لوگ جانے پر رضامند نہیں ہوئیں ان کا کہنا ہے کہ آپ نے ان سب کو یہاں بلایاہے ۔بڑے صاحب بہت غصے میں ہیں۔"
صفدر بھاگ کر اس کے قریب آیا تھا۔وہ ہکلا رہا تھا مہمانوں کی اس قسم کو "خوش آمدید" کہنے کی اسے عادت نہیں تھی۔
وہ حیرت کے مارے ساکت کھڑا تھا صفدر کی بات پر جیسے ہوش میں آیا۔
"وہاٹ؟میں نے بلایا ہے؟"
وہ چیخ پڑا۔
"ٹھیک ہے تم اندر جاؤ میں دیکھتا ہوں"۔
صبرو تحمل سے کام لیتے ہوئے وہ گویا ہوا وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ان کی طرف آیا۔
"شاہ زر"
اس سے قبل کہ کوئ والہانہ انداز میں اس سے لپٹ جاتی وہ بے ساختہ دو قدم پیچھے ہٹا تھا۔
"کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم سب کون ہو اور یہاں میرے گھر میں کیا کر رہی ہو؟"
تمیز کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ بولا۔
"وہاٹ کیا تم ہمیں نہیں جانتے؟
میں فلک ،میں رومی اسے چھوڑوں میں توتمھیں یقیناً یاد ہونگی میں elizabeth ۔"
وہ ساری بڑھ چڑھ کر اسے یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ انھیں جانتا ہے۔قریب ہی تھا کہ وہ ساری آپس میں لڑ پڑتیں تبھی ان میں سے ایک نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا۔
"مانا کہ ہم تم پر جان چھڑکتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ تم اپنے گھر بلا کر ہمیں ذلیل کرو یہ مذاق کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔"
وہ خفگی سے بولی۔
"اس قسم کے واحیات مذاق کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔میں نے تم سب کو یہاں نہیں بلایا۔یقینا یہ کسی missunderstanding کا نتیجہ ہے۔اب جلد سے جلد تم سب یہاں سے چلی جاؤ یہ میرا گھر ہے کالج کیمپس نہیں جو جب جی میں آئے کوئ منہ اٹھا کر چلا آئے۔"
اس نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔
"ہمیں کوئ غلط فہمی نہیں ہوئی ہے تم نے خود ہم سب کو میسیج کیا تھا کہ آج تم ہمارے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہو۔یہاں موجود
ہر لڑکی یہاں پہنچنے سے قبل یہی سمجھتی رہی کہ تم نے صرف اسے بلایا مگر یہاں پہنچ کر کیا دیکھتے ہیں کہ مجمع لگا ہے ۔"
سرخ لباس زیب تن کیے ایک اور لڑکی گویا ہوئی۔
"دیکھو یہ میسیج کی گتھی میں بعد میں سلجھا لونگا فی الحال تم سب ابھی اسی وقت واپس لوٹ جاؤ میں تم سب سے کسی اور دن مل کر تفصیل سے بات کرونگا ۔"
ملنے کے وعدے کے سوائے انہیں ٹالنے کا اسے کوئ اور طریقہ نہیں سوجھا۔
دوبارہ ملنے کے وعدے کے سہارے وہ ساری واپس لوٹ گئیں۔
وہ سر جھکائے ہال میں داخل ہوا ۔راشد صاحب صوفے پر براجمان اسی کے منتظر نظر آرہے تھے۔ان کی عدالت میں اس کی پیشی ہونی تھی۔
راشد صاحب اور وقارصاحب کے علاؤہ باقی مرد حضرات روزگار کے سلسلے میں گھر سے باہر تھے۔ گھر کی خواتین بالائی منزل پر مجمع لگائے نیچے جھانک رہی تھیں۔
سب کے درمیان کھڑی وہ اپنی کامیابی پر مسکرا رہی تھی ۔
"ڈیڈ دراصل"
اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا راشد صاحب دہاڑ اٹھے۔
"خبردار جو ایک لفظ بھی تم نے اپنے لبوں سے ادا کیا۔چند دنوں کے لیے زرا سی چھوٹ کیا مل گئ شرافت کے جامے سے باہر آنے میں تم نے دیر نہیں لگائ۔کالج جانے پر پابندی کیا لگ ان بے غیرتی کی تصویروں کو گھر پر ہی دعوتیں دی جانے لگیں۔اس ڈھٹائی سے میرے مقابل کھڑے ہوکر تم کیا کہنے والے ہو ۔معذرت کرنے والے ہو یا صاف مکرنے کا ارادہ ہے کہ، ان لڑکیوں کو تم نے نہیں بلایا۔معزرت پیش کرنے کا ارادہ ہے تو ٹھیک لیکن اگر مکر جانے کا ارادہ ہے تو ان کی یہاں موجودگی کا الزام کس کے سر ڈالوگے۔تم نے انہیں بلایا تھا تو کیا میں نے انہیں میرے گھر آنے کی دعوت دی تھی۔"
وقار صاحب نے بمشکل اپنی ہنسی روکی تھی۔
وہ سر جھکائے کھڑا رہا کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں معذرت وہ قبول نہیں کرتے اور مکر جانا اس کے بس میں نہیں تھا۔
"عالیہ بیگم اس سے کہہ دو کہ آئندہ اس نے ایسی حرکت کی تو میں اسے آفریدی ولا سے نکال باہر کرونگا۔"
بلاواسطہ اپنی دھمکی اس تک پہنچا کر وہ واک آؤٹ کر گئے۔
مزنی کا بے ساختہ قہقہہ ہال میں گونج اٹھا۔بالائ منزل کی سیڑھیاں اترتی وہ ہنستی جارہی تھی۔باقی خواتین کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی سوائے عالیہ بیگم کے۔ خشمگیں نگاہوں سے اسے دیکھ کر وہ کچن کی سمت بڑھ گئی وہ دوڑ کر ان کی راہ میں حائل ہوا تھا۔
"سوری ممی ،سو سوری بہت دنوں سے ڈیڈ کی ڈانٹ نہیں سنی تھی اسی لیے مذاق کا موڈ بن گیا آپ خوامخواہ اتنی سیریس ہورہی ہیں۔"
"ان کی گردن میں بازو حمائل کرتے وہ انھیں منانے کی سعی کر رہا تھا۔
وہ حیران رہ گئ بڑی آسانی سے وہ سارا الزام اپنے سر لے رہا تھا۔
وہ متذبذب سے اپنے کمرے میں آگئ وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔
wow what a talent.
آج توواقعی تم نے کمال کر دیا۔خالص روایتی بیویوں والی حرکت کی ہے تم نے۔میری عدم موجودگی میں میرے موبائل کا کیا خوب استعمال کیا ۔
ویسےًمیں دیکھنا پسند کرتا کہ تم نے میسیج میں کیا لکھا تھا٫لیکن یقیناَ تم نے میسیج بھیج کر اس کے سارے ثبوت مٹا دیے ہونگے۔
لاجواب!کسی کو شک نہیں ہوا ہوگا کہ یہ تمھاری کارستانی ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہ تم نے کیا ہے کیونکہ میں اپنی بیوی کی رگ رگ سے واقف ہوں۔ "
ڈریسنگ ٹیبل سے ٹیک لگائے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا وہ مسکرا رہا تھا۔
"مجھے بیوی ،بیوی کہنا بند کرو۔سمجھ گئے تم۔"
وہ محض اتنا ہی کہہ پائ۔ایکطرف وہ اسے زچ کرنے کو سو جتن کررہی تھی دوسری طرف وہ لطف اندوز ہورہا تھا۔اس پر تو جیسے کچھ اثر ہی نہیں ہورہا تھا۔
"میں جانتا ہوں کہ اجکل تمھیں مجھے پریشان کرنے میں زرا بھی مزا نہیں آ رہا ہوگا۔کیونکہ میں بجائے زچ ہونے کے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔یقین جانو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے نجانے کیوں لاکھ کوششوں کے باوجود مجھے تمھاری کسی حرکت پر غصہ نہیں آتا ۔میں وہ پہلے والا شاہ زر نہیں بن پارہا جسے تم سے اللّٰہ واسطے کا بیر تھا۔
i think
تم مجھے اچھی لگنے لگی ہو۔"
وہ اس کے مقابل کھڑا بڑے آرام سے سے کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔
اور اسے لگا کہ اس کے دل کے سارے دروازے ایکدم سے کھل گئے۔اپنی تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ اس نے گھبرا کر ادھ ادھر دیکھا۔راہ فرار نظر نہیں آرہی تھی۔
"أنٹی پلیز میری اسٹوری کمپلیٹ کرنے میں میری ہیلپ کردیں نا"۔
دعا دوڑتی ہوئی کسی فرشتے کی طرح منظر نامے میں داخل ہوئی۔وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کے ہمراہ کمرے سے باہر نکل گئ ۔وہ مسکراتا ہوا اس کی پشت کو دیکھتا رہا۔
تمھارے معاملے میں خودمیرا دل
میرے مد مقابل ڈٹ گیا ہے
***
خلاف معمول آج آفریدی ولا میں کافی جہل پہل دکھائی دیتی تھی۔جس کی وجہ تھی دعا کی سالگرہ۔مستعدی سے صفائی میں مصروف ملازمین پر نظر ڈالتی وہ لان میں چلی آئی۔مشعل اور مزنی سمیت گھر کی سبھی خواتین کسی بحث ومباحثہ میں مصروف نظر آرہی تھیں۔
"تمہارا کیا خیال ہے زرمین، ہمیں سالگرہ کے موقع پر ساری پہننا چاہئیے یا کچھ اور ٹرائے کرنا چاہئیے۔"مزنی نے اسے گفتگو میں گھسیٹا۔
"جو آپ دونوں کو پسند آئے وہی ٹھیک رہے گا۔"
وہ جزبز ہںوئی تھی۔
"ہم دونوں تو جو لباس پسند آئے وہی زیب تن کرنے کی قائل ہیں مگر اس بار ایک مسئلہ درپیش ہے کہ تم پارٹی کے لیے کس طرح کا لباس پسند کرتی ہںو۔"
مشعل نے اس کی تشویش کو مزید بڑھایا۔
"میں"
اس نے حیران ہوتے ہوئے خود اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
اس کی حرکت پر سبھی مسکرا اٹھے۔
"ہاں تم ۔ آفریدی خاندان کی لڑکیوں نے ایک رول بنایا ہے۔ڈریس کوڈ رول۔ خاندان کی کسی بھی تقریب میں شرکت کرنے والی ہر لڑکی ایک جیسا لباس زیب تن کرےگی۔ڈیزائن سیم ہوگا بس رنگ مختلف ہونا چاہیے۔اس تقریب میں تمھاری
شرکت ضروری ہے اس لیے تمھارے رائے بھی ضروری ہے کہ تم کس طرح کے ڈریس میں comfertable محسوس کروگی۔"
مزنی نے معلومات بہم پہنچائ۔
"میں میں کچھ بھی پہن لونگی آپ دونوں میرے لیے پریشان نہ ہوں"۔
اسقدر پذیرائی پر وہ بری طرح بوکھلا گئی۔
"نو،تمھیں ڈریس کوڈ فولو کرنا ہی ہوگا۔تم اپنی رائے نہیں دینا چاہتی تو ٹھیک ہے ۔میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پارٹی والے
روز ہم سب لڑکیاں کس طرح کی ڈریس زیب تن کریں گی۔
اور ہاں میری ایک بات ذہن نشین کرلو، تم ڈریس کی شاپنگ کے لیے شاہ زر بھائی کے ساتھ جاؤگی ان کی چوائس بہترین ہوا کرتی ہے۔تمھاری اکلوتی نند کی یہ بات تمھیں ماننی ہوگی۔
مزے سے مسکراتی "مزنی نے اس کے سر پر بم پھوڑا۔سب کی موجودگی میں وہ اعتراض نہیں جتا سکی۔پہلی بار اسے مزنی کی مسکراہٹ اچھی نہیں لگی تھی۔
"آنٹی آپ میرے برتھ ڈے پر سب سے pretty ڈریس پہنینگی نا؟"
موقع ملتے ہی اس کے گود میں چڑھ کر دعا نے بڑی آس سے سوال کیا۔
بادل ناخواستہ اس نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلا دیا۔
سیاہ نیٹ کے سوٹ میں نیٹ کا دوپٹہ اوڑھنے وہ بے دلی سے قدم اٹھاتی کار تک آئ۔وہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان تھا۔اس سے قبل کہ وہ عقبی دروازہ کھولتی شاہ زر نے سرعت سے کار کا فرنٹ ڈور وا کردیا۔اس کار کے مقابل اپنی کار میں بیٹھی یہ منظر سے لطف اندوز ہوتی بھرپور انداز میں مسکرائ۔
بادل ناخواستہ وہ ڈرائیونگ سیٹ کے بغل والی سیٹ پر بیٹھ گئ۔
حسب معمول وہ سادہ سے انداز میں"تیار "ہوئی تھی۔میک آپ سے عاری چہرہ،کمر تک آتے ریشمی بالوں کو چوٹی کی شکل دی گئ تھی۔کچھ آوارہ لٹیں چوٹی کی قید سے آزاد ہوکر چہرے پر جھول رہی تھیں۔زیور کے نام پر ایک واحد لاکٹ اس کے گردن کی زینت بنا ہوا تھا۔اس سادگی کے باوجود جانے کیوں وہ اسے ہمیشہ سے زیادہ حسین لگ رہی تھی۔
دفعتاًزرمین نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا اسے اپنی طرف دیکھتا پاکر وہ بری طرح سٹپٹا گئ۔
اس کے تاثرات دیکھ وہ خجل سا ہوگیا اور فورا گاڑی راہ راست پر ڈال دی۔
سگنل پر کار کو بریک لگانا پڑا تھا۔وہ سگنل کے کھلنے کا منتظر اطراف کا جائزہ لے رہا تھا تبھی اس کہ نگاہ زرمین کی طرف والی کھڑکی سے نظر آتے شخص پر پڑی۔
ان کے کار سے کچھ فاصلے پر اپنی toyota میں بیٹھا بنا پلک جھپکے زرمین کے چہرے پر وہ نظریں گاڑے ہوئے تھا ۔
یہ منظر دیکھ اس کے تن بدن میں آگ سی لگ گئ۔فوراً سے پہلے اس نے زرمین کی طرف والی کھڑکی کا شیشہ اوپر کر دیا۔وہ جو کھڑکی سے باہر نیلے آسمان کو تکے جارہی تھی اچانک سے کھڑکی بند ہو جانے پر اس کی محویت ٹوٹی۔اس نے گردن موڑ کر ناگواری سے اسے دیکھا۔جبکہ وہ خود کا لاتعلق ظاہر کرتا ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتا رہا۔
"یہ مجھے کیا ہوتا جارہا ہے اس لڑکی کو لیکر میں اسقدر possessive کیوں ہوتا جارہا ہوں۔مجھے اتنا غصہ کیوں آرہا ہے ۔جی کر رہا ہے اس ذلیل شخص کی آنکھیں نوچ لوں۔
زرمین کی جگہ مزنی ہوتی تب بھی مجھے اتنا ہی غصہ آتا ۔سب کچھ ٹھیک میرا برتاؤ نارمل ہے۔"
اس نی جیسے خود کو دلاسہ دیا۔
کار ایک شاندار عمارت کے سامنے رکی تھی۔سورج کی کرنوں میں ہیرے کہ مانند چمکتی شیشوں سے بنی عمارت کو دیکھ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔بے تحاشہ مہنگی اشیاء سے بھری اس طرح کی کسی عمارت سے شاپنگ کرنے کا تصور بھی اس نے نہیں کیا تھا ۔
وہ اس کی تقلید کرتی مال میں داخل ہوئی تھی۔ابھی کچھ ہی قدموں کا فاصلہ طے پایا تھا تبھی اس کی نظر escalatorپر پڑی۔اسےان حرکت کرتی سیڑھیوں سے بے انتہا خوف محسوس ہوتا تھا۔
وہ escalatorپر پیر رکھنے کی تیاری میں تھا تبھی اس نے مڑ کر دیکھا وہ اس سے دوچار قدم کے فاصلے پر کھڑی پھٹی پھٹی آنکھوں سے escalator کو دیکھے جارہی تھی۔وہ اس کے قریب آگیا۔
"کیا ہوا تم رک کیوں گئ؟are you all right."
وہ متفکر سا گویا ہوا۔
"میںescalator سے اوپر نہیں جاؤنگی مجھے ڈر لگتا ہے۔"
اس نے کسی خوفزدہ چھوٹی
بچی کی طرح بے ساختہ کہا۔
وہ حیران ہوا پھر ایک مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر در آئ۔اسوقت وہ اسے بہت معصوم لگی۔
"کچھ نہیں ہوگا ہمت کرو۔ باقی لڑکیاں بھی تو اوپر جانے کے لیے اسی کا استعمال کر رہی ہیں۔ escalator نہ استعمال کرنے کی صورت میں ہمیں سیڑھیوں کے ذریعے بالائی منزل تک پہنچنا ہوگا ان سیڑھیوں کی قطار دیکھ کر مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ آدھے سفر میں ہی تم پسینہ پسینہ ہوجاؤگی۔تم گھبراؤ نہیں میں تمھارا ہاتھ تھامے رکھونگا۔"
اس کی مرضی جانے بغیر اس نے زرمین کا ہاتھ تھاما اور escalator پر چڑھ گیا۔
وہ بوکھلائ ہوئی کود کر حرکت کرتی سیڑھی پر چڑھ گئ۔آنکھیں بند کیے شاہ زر کے ہاتھ کو سختی سے تھامے وہ زیر لب دعاؤں کا ورد کررہی تھی۔وہ مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔چند سیکینڈس بعد وہ دونوں بالائی منزل پر تھے۔اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں سر چکراتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔فرش پر پیر رکھتے ہی برف جیسے ٹھنڈے فرش کے لمس نے احساس کرایا کہ اس کے ایک پیر کی سینڈل غائب تھی۔سینڈل کی تلاش میں اس کی نگاہیں حرکت کرتی سیڑھیوں سے ہوتی ہوئی گراؤنڈ فلور پر جارکیں۔بوکھلاہٹ میں escalator پر پیر رکھتے وقت سینڈل اس کے پیر سے نکل کر وہیں گر گئ تھی۔
"میری سینڈل"
وہ روہانسی ہوگئ ان حرکت کرتی سیڑھیوں کوواپس طے کر کے سینڈل لیکر آنا اس کےلیے کسی عذاب سے کم نہ تھا۔اسے لگا جیسےاس کی سینڈل چند قدموں کی دوری پر نہیں ملوں کی دوری پر تھی۔
روہانسی سی آواز میں کہے گئے دو لفظ شاہ زر کی سماعت میں اترے۔اس کی نظروں کے تعاقب میں اس نے دیکھا۔اس کی نازک سیاہ سینڈل گراؤنڈ فلور پر پڑی نظر آئ۔
"تم یہی رکو میں تمھاری سینڈل لیکر آتا ہوں"۔
اس کی روتی صورت دیکھ وہ حیران ہوتا گویا ہوا۔یہ لڑکی اتنی چھوٹی سی بات پر روہانسی کیوں ہورہی تھی۔کیا اس کے سینے میں کسی چڑیا کا دل فٹ تھا۔
وہ نیچے کی سمت جاتےescalatorکی سیڑھیاں پھلانگتا نیچے پہنچا اور اس کی سینڈل اٹھا کر واپس ہولیا۔
شہر کا سب سے عیاش ،مغرور رئیس زادہ اس کی سینڈل ہاتھوں میں اٹھائے اس کی طرف آرہا تھا۔وہ اسے انہی القاب سے نوازتی آئ تھی۔مغرور،عیاش،آوارہ۔
اسے کا خیال تھاکی مردوں کے لیے عورت کی جوتی کوہاتھ تک لگانا باعث شرم ہوتا ہوگا۔باالخصوص رئیس مردوں کے لیے۔مال میں آتے جاتے مردوں کی حیرت بھری نگاہیں یہ ظاہر کر رہی تھیں کہ یہی حقیقت تھی۔ اس کی جگہ کوئ اور مشرقی مرد ہوتا تو شاید ایسا نہ کرتا۔مگر وہ مختلف تھا۔
یہ شخص اس کی زندگی مشکل کر رہا تھا۔وہ اس کے دل پر بڑی تیزی سے قابض ہورہا تھا
۔حرکت کرتی سیڑھیوں سے لمحہ بہ لمحہ اس کے قریب آتے اس شخص کو دیکھتی رہ گئ۔
مردوں کے برعکس لڑکیاں رشک بھری نگاہوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔
This guy sure knows how to melt a girls heart.
اس کے قریب سے گزرتی کسی لڑکی نے رشک بھرے لہجے میں کہا تھا۔
وہ اپنی دھن میں اردگرد سے بے نیاز اس کے قریب آگیا۔
جھکتے ہویے اس کے پیر کے قریب سینڈل رکھکر وہ سیدھا ہوا ۔اسنے فوراً اس کے چہرے سے اپنی نظریں ہٹا کر اپنا دایاں پیر سینڈل میں قید کرلیا۔
"اب چلیں"۔
اسے ہاتھ کے اشارے سے چلنے کا کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔وہ اس کے پیچھے ہولی۔