آج آفریدی ولا میں زین کی استقبال کی تیاری کی جارہی تھی۔کچن سے اشتہا انگیز پکوانوں کی خشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔اتوار کا دن تھا لہذا سبھ مرد حضرات بھی گھر ہی پر ناشتے کے بعد خوش گپیوں میں مصروف تھے۔دفعتا لان سے بچے کی دلخراش چیخ کی آواز آئی تھی۔
سبھی لان کی سمت بھاگے تھے۔رشیدہ بوا کا پوتا مدثر جس کی عمر لگ بھگ گیارہ یا بارہ برس تھی بری طرح گھائل تھا ۔
اس کے سر سے بےتحاشہ خون بہہ رہا تھا غالباً کھیلتے ہوئے گر پڑاتھا۔واچ مین اپنے ہاتھ سے زخم کی جگہ کو دبا کر خون کے بہاؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔شاہ زر نے آگے بڑھ کر اسے گود میں اٹھایا اور گاڑی میں ڈال کر مین گیٹ سے باہر نکل گیا۔سبھی کی توجہ بچے کی طرف تھی۔تبھی مزنی پلٹی تو زرمین کو لان کی گھاس پر بے سدھ پایا۔حیرت کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔
وہ ہوش میں آئ تو خودکو اپنے کمرے کے بستر پر پایا۔
"کیا ہوگیا تھا اچانک تمھیں۔ چوٹ مدثر کو آئ تھی اور بے ہوش تم ہو گئی۔ تمھاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟۔"
اسے ہوش میں آتا دیکھ مزنی نے چھوٹتے ہی سوال کیا۔مزنی کے علاوہ راحت بیگم اور مشعل بھابھی بیڈ کے سرہانے کھڑی تھیں وہ شرمندہ سے اٹھ بیٹھی۔
"ہاں میری طبیعت بلکل ٹھیک ہے بس زرا سا چکر آگیا تھا۔پلیز آپ لوگ میرے لیے پریشان نہ ہوں۔"
اس نے خفیف سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
اس کا جواب سنکر مشعل اور راحت بیگم مسکراتی ہوئیں اسے اپنا خیال رکھنے کی ہدایت دیتیں باہر نکل گئیں۔
"وہ دراصل بہت زیادہ خون دیکھتے ہی میری طبیعت خراب ہونے لگ جاتی ہے"۔
مزنی کو اکیلا پاکر اس نے اصل وجہ بتائی۔
"کیا تم heamophobic ہو ۔مجھے یقین ہی نہیں ہورہا کہ بظاہر اتنی بہادر نظر آنے والی لڑکی اندر سےً اتنی کمزور نکلے گی۔کب سے ہے یہ پرابلم تمھیں۔"
مزنی حیران ہوئی تھی۔
"بچپن سے "۔
اس نے سر جھکا کر مختصر جواب دیا۔
"جہاں تک مجھے پتہ ہے عموماً زیادہ ترheamophobic افراد کم عمر میں کسی خطرناک ایکسیڈنٹ یا voilence کو دیکھ لینے سے یا خود اس کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس فوبیا کے شکار ہوتے ہیں۔کیا تم بھی"
مزنی نے اپنی بات ادھوری چھوڑی تھی۔
"پتہ نہیں کونسی وبا پھیلی تھی تب ہر دوسرا انسان خون کی الٹیاں کررہا تھا۔ میرے ماں باپ بھی میرے سامنے خون کی الٹیاں کرتے ہوئے دم توڑ گئے۔"
وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ بولی۔اس کی بات سنکر مزنی کے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ کتنا کچھ سہا تھا اس لڑکی نے۔
"تم یہ سب باتیں چھوڑو اور بتاؤ مدثر کیسا ہے۔کیا اسے ہاسپٹل لے جایا گیا؟"
مزنی کو خاموش پاکر اس نے بات بدل دی۔
تبھی مشعل جوس کا گلاس اٹھائے کمرے میں داخل ہوتی اس کی بات سنکر بولی۔
"تمھیں اس گھر کے ملازمین کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں شاہ زر تنہا کافی ہے اس نیک کام کے لیے۔رشیدہ بوا سے تو اس کی اسپیشل بانڈگ ہے اب دیکھنا مدثر کی مرہم پٹی کرواکر جب وہ گھر واپس آئے گا تو رشیدہ بوا سے کہےگا
" بوا آپ کچھ دنوں کے لئے اس گھر کے اندر قدم بھی نہ رکھیں اور مدثر کا خیال رکھیں کام دوسرے ملازمین کرلیں گے۔"
۔آج تو پھر بھی کوئی وجہ بنتی ہے فکر مندی کی لیکن شاہ زر بلاوجہ ملازمین کو چھٹیاں دینے میں ماہر ہے۔ بہت سر چڑھا رکھا اس نے ملازمین کو۔"
مشعل نے ہنستے ہوئے جوس کا گلاس اسے پکڑایا ۔
"اسقدر مغرور شخص ملازمین کی فکر کیسے کر سکتا ہے ۔ہنہ ڈرامے بازیاں"۔
اس نے دل میں سوچا وہ کسی قیمت پر شاہ زر کے اندر رتی برابر بھی اچھائی ہونے پر یقین نہیں کرنا چاہتی تھی۔
تبھی اس کی نظر مزنی کی نظروں سے ملی تھی ۔اسے لگا وہ اس کے چہرے پر کچھ کھوجنا چاہ رہی ہے جیسے اس کے چہرے کے راستے اس کے دل میں کیا کچھ چل رہا ہے جان لینا چاہتی ہو۔اس نے فوراً جوس کا گلاس لبوں سے لگا لیا۔
مزنی کی موجودگی میں شاہ زر کی تعریف پر وہ عجیب سی کیفیت کا شکار ہو جاتی تھی۔
***
ذین کے آتے ہی سب کی خوشی دگنی ہوگئی تھی۔ذین کو اس سے بطور خاص ملوایا گیا تھا۔دل کی کسی کونے میں وہ بھی اپنی عزیز ترین دوست کے منگیتر کو دیکھنے کی خواہاں تھی۔مگر اس سے ملکر وہ ششدر رہ گئی تھی۔وہ پہلا شخص تھا جس نے اسے ”بھابھی ”کے لقب سے نوازا تھا۔شاہ ذر کے دوسرے کزنس اسے شاذونادر ہی مخاطب کیا کرتے تھے۔اور اسے مخاطب کرنے کےلیے اس کے نام کا ہی استعمال کیا جاتا تھا۔سب کے سامنے اس طرح پکارے جانے پر وہ بری طرح خجل ہںو گئی تھی۔
اس کے بر عکس شاہ زر نے اس لمحے خود کو لاتعلق ظاہر کرنے کی ساری حدیں پار کردیں تھی۔گویا اسے بھابھی کسی اور کے حوالے سے پکارا جا رہا ہںو۔یہ جان کر اسے ازحد افسوس ہںوا تھا کہ اور بھی کزنس ہںونے کے باوجود زین کا سب سے قریبی دوست شاہ زر ہی تھا۔
گھر واپس آتے ہی زین نے
'مشن ملاپ' پر کام کرنا شروع کردیا تھا۔جس کا مقصد تھا شاہ زر اور مزنی کی باہمی رنجش دور کرنا۔
"مزنی آخر تمہیں ہںو کیا گیا ہںے۔تم اتنے دنوں تک شاہ زر سے بات کیے بنا کیسے زندہ ہںو؟"
وہ ٹیریس پر مزنی کے پیچھے چلا آیا تھا۔
"میں ان دنوں ذہنی کشمکش سے گزر رہی ہںوں۔مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کروں۔"
اس کا لہجہ تھکن زدہ تھا۔
"come on
مزنی میں اتنے دنوں سے تم سے پوچھ رہا ہںوں آخر کیا وجہ ہںے کہ تم اسے معاف کرنے پر آمادہ نہیں ہںو۔اس سے ایک غلطی ہوئی تھی۔اس پر گھر کے سبھی افراد ناراض تھے۔مگر اب سب کچھ ٹھیک ہںو گیا ہے سب نے اسے معاف کر دیا ہیں۔پھر اکیلی تم اسے کس جرم کی سزا دے رہی ہںو۔مجھے بتاؤ پرابلم کیا ہے؟"
زین نے استفسار کیا۔
مزنی نے اسے زرمین سے اپنی پہلی ملاقات سے لے کر اب تک کی ساری داستان من وعن سنا دی۔
"بس اتنی سی بات اس میں اتنا ٹینشن لینے کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔تم شاہ زر کی وائف سے شاہ زر کی لاعلمی میں مل سکتی ہںو تو شاہ زر سے کیوں نہیں؟یہ سراسر نا انصافی ہںے۔تمہیں شاہ زر سے بھی اس طرح ملنا چاہیے کہ اس کی وائف کو خبر نا ہںو۔اس طرح وہ دونوں کے ساتھ تم بھی خوش رہوگی ۔وہ دونوں ہی اس خوش فہمی میں مبتلا رہیں گے کہ تم اس کی طرف ہںو۔"
اس کی بات سنکر وہ حیران رہ گئی۔کس قدر احمق تھی جو اتنی سی بات کو لے کر پریشان تھی۔زین نے اس کی کشمکش کو منٹوں میں ختم کردیا۔تشکر کے مارے اس کی آنکھیں بھر آئی اس نے اپنا سر اس کے شانو پر رکھ دیا۔ذین نے بڑی محبت سے اسے سمیٹ لیا۔
وہ آفس کہ مین گیٹ کو عبور کرنے ہی والا تھا کہ اس کی نگاہ ریڈ Nissan پر پڑی سیکنڈ سے کم وقفے میں وہ پہچان گیا وہ مزنی کی کار تھی۔
تبھی کار کا دروازہ کھلا وہ باہر نکلی تھی۔ شاہزر کو اپنے مقابل دیکھ اس نے دور سے ہاتھ ہلایا تھا۔وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔حیرانی کی وجہ مزنی کی وہ مسکراہٹ تھی جو اس نے دور سے اس کی طرف اچھالی تھی۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کے قریب چلی آئی۔
مسکرا کر اسے دیکھا اور اس کے سینے سے لگ وہ ہونقوں کی طرح منہ کھولے کھڑا رہ گیا۔
"اوہو بھائ اپنا منہ تو بند کر لیں اس حالت میں آپ بلکل بھی ہینڈسم نہیں لگ رہے۔".
اس سےالگ ہوتے ہوئے وہ قہقہ لگاتی ہوئی بولی۔
"Icant believe this
مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہورہا"۔
وہ جیسے ہوش میں آیا۔
"اسقدر حیران ہوکر آپ مجھے شرمندہ کر رہیں ۔کیا میں اتنا بھی حق نہیں رکھتی کہ کچھ دن آپ سے ناراض رہ سکوں۔"
وہ مصنوعی خفگی سے بولی۔"
"بے شک تم مجھ سے خفا رہ سکتی ہو۔ خفا تو سب تھے مگر صرف تمھاری خفگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔'"
ساری باتیں یہاں کھڑے کھڑے ہونی ہے کہ آپ مجھے کسی اچھے سے ریسٹورنٹ لے چلیں گے۔
مزنی کو احساس ہوا وہ دونوں آفس کے مین گیٹ پر کھڑے تھے۔
"ریسٹورنٹ تو ضرور لیے چلونگا مگر تمھیں مجھے لفٹ دینی ہوگی ۔میں اس حالت میں نہیں کہ اس خوشی کے موقع پر تمھیں اپنی کار میں بیٹھا کر لے جاؤں اور کسی شاندار سے ہوٹل میں پارٹی دوں۔گذشتہ کچھ دنوں سے تمھارا بھائی بس سے سفر کرنے پر مجبور ہے۔"
شاہزر نے مسکرا کر کہا وہ دونوں کار کی طرف بڑھ گئے۔
دس منٹ کے سفر کے بعدوہ دونوں کرما ریسٹورنٹ کی کرسیوں پر ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے تھے۔
"آیم سوری بھائی اتنے دنوں تک
آپ سے بات نہ کر پانے کے لیے۔ایکچوئلی گھر میں سب کچھ اتنا جلدی جلدی ہو گیا کہ میں خود کو سنبھال ہی نہیں پائی۔میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پائی۔میں شاک میں تھی۔"
اس نے سلسلہ کلام وہی سے جوڑا جہاں بات ادھوری رہ گئی تھی۔
اس کی بات پر شاہ زر نے نظریں چرائیں۔
"میں مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی سرزد ہوئی تھی ۔جو کچھ ہوا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ سب کچھ خود گھر والوں کے لیے شاکنگ ہوگا۔مگر کیا کسی نے میرے متعلق سوچا کہ اچانک اس لڑکی کا میرے گھر میں آنا ،میرا اس کے ساتھ نکاح کردیا جانا یہ سب میرے لیے کسقدر شاکنگ تھا ۔
جس لڑکی کی بدولت مجھے بے قصور ہوتے ہوئےجیل جانا پڑا تھا اسی لڑکی سے ڈیڈ نے میرا نکاح کروادیا۔ کیا تمھیں یہ خبر ہے کہ ایکسیڈنٹ کے دن میں ڈرنک اسپائکینگ کا شکار ہوا تھا۔بے قصور ہوتے ہوئے اس نے مجھے جیل بھجوا دیا۔یہ درست ہے کہ جیل سے نکلنے کے بعد میں نے جو کیا وہ ٹھیک نہیں تھا مگر یہ سب اس لڑکی نے شروع کیا تھا۔اس نے میرے ساتھ زیادتی کی تھی۔ڈیڈ اس لڑکی کو معصوم سمجھتے ہیں اس کے برعکس وہ لڑکی ہر دن مجھے ذچ کرنے کے نت نئے طریقوں پر عمل کرتی نظر آتی ہے۔تم نہیں جانتی اس گھر میں کوئی نہیں جانتا کہ محض مجھ سے انتقام لینے کے لیے اس نے مجھ سے نکاح تک کرنے سے گریز نہیں کیا۔میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میری چھوٹی سی غلطی کی مجھے یہ سزا دی جائے گی۔شادی مذاق نہیں ہوتی۔نکاح کا استعمال کرکے وہ احمق لڑکی انتقام کا کھیل کھیلنا چاہتی ہے۔"
وہ افسوس ناک لہجے میں بولا۔
"مجھے گھر کے کسی بھی فرد نے حادثہ کے پیچھے کی وجہ نہیں بتائی باوجود اس کے مجھے یقین تھا کہ آپ بے قصور ہونگے۔
خیرعجیب وغریب ذائقہ سے پر ناشتہ اتنی بڑی سزا بھی نہیں ہے"۔
سینڈوچ کا بائٹ لیتے ہوئے مزنی نے مسکرا کر کہا۔اس نےاپنے اور زرمین کے رشتے کو شاہ زر سے فی الحال مخفی رکھنے میں ہی عافیت سمجھی۔
"اوہ تو گھر میں سبھی واقف ہیں کہ ہر دن ناشتے پر میری زبان اور معدے پر کیا گزرتی ہے۔"
وہ حیران ہوا۔
"سب کا تو نہیں پتہ میں ضرور جانتی ہوں "۔
اس کی بات پر وہ دونوں مسکرا دیئے۔
"آپ کی مسکراہٹ گواہ ہے بھائی کہ آپ کے لیے زرمین کا وجود اتنا ناقابل برداشت بھی نہیں ہے ۔آپکو اس کی عادت ہو گئ ہے۔خدا کرے یہ حادثاتی نکاح آپ دونوں کے درمیان محبت کی ڈور بنا دے۔یہ ڈور تاحیات آپ دونوں کے ایک دوسرے سے جدا نہ ہونے دے۔"
شاہ زر کے مسکراتے چہرے کو دیکھ اس کے دل سے بے ساختہ دعا نکلی تھی۔
وہ قبولیت کی گھڑی تھی اس کی دعا قبول ہوئ تھی مگر صرف آدھی دعا ۔
***
گھڑی کی سوئیاں گیارہ کے ہندسے پر جا رکیں اور وہ گھر میں داخل ہںوا۔حسب معمول کھانے کے بعد چائے کا دور چل رہا تھا۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ان کی طرف چلا آیا گھر کے بڑے سونے کے لیے اپنے کمروں میں جا چکے تھے جوانوں کی محفل جمی تھی۔
"اور کھانا کھا لیا سب نے"۔
اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بات برائے بات کہا ۔اتنے دنوں کے بعد سب کے ساتھ بیٹھا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بات کرے۔الفاظ کہیں گم سے ہوگیے تھے۔
"ہم سبھی نے کھانا کھا لیا تم ہماری فکر چھوڑو اور اپنی فکر کرو ۔کچھ اندازہ ہے بڑے تایا کب تک تمھاری جان بخشی کرائینگے اس مشقت سے۔
بس کے دھکوں کا اثر تمھارے چہرے کے ساتھ ساتھ کپڑوں پر بھی نظر آنے لگا ہے۔"
زین نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے کہا۔
اس کے چہرے پر تھکن صاف دکھائ دیتی تھی مگر کپڑوں والی بات وہ سمجھ نہ سکا۔قدرے ناسمجھی سے نے وضاحت طلب نظروں سے زین کی سمت دیکھا۔اشعر کے سوائے سبھی مسکرا رہے تھے۔اشعر کے چہرے پربرہمی کے تاثرات تھے گویا اس کی حالت دیکھ غصہ چڑھا ہو۔
اب کے زین اس کے عقب میں کھڑا نجانے کس کی تصویر لے رہا تھا۔
" کیوں جناب لڑکیوں نے جان نہیں چھوڑی تمھاری ابتک ۔کالج چھوٹ گیا مگر پھر بھی نے ان چڑیلوں سے نجات نہیں مل پائ ۔ویسے بہانے سے کسی کے اوپر گرنے کے لیے بس بہترین جگہ ہے۔تم ہزار بار کسی کی گود میں گر جاؤ کوئ کچھ نہیں کہتا۔ہم نے تو یہ سب بس فلموں میں ہوتے دیکھا تھا آج حقیقتا ثبوت دیکھ کر حیرانی ہورہی ہے ۔اس ملک میں لڑکیوں کی harassment کے لیے لاکھوں قانون ہیں۔مگر بے چارے شاہ زر جیسے لڑکوں کے لیے کوئ قانون نہیں بنا افسوس۔لڑکوں کو چھییڑنے والی لڑکیوں کو بھی سزا ہونی چاہیے۔گھبراؤ مت پیارے ہم تمھارے لیے آواز اٹھائینگے۔"
موبائیل کی اسکرین اس کی آنکھوں کے سامنے نچا کر زین نے
اس کی حمایت میں تقریر پیش کی۔باقی کزنس کے بے ساختہ قہقہے ہال میں گونجے تھے۔
تصویر میں اس کی پشت پر گہری سرخ لپسٹک کا داغ واضح تھا۔بے ساختہ اسے وہ لڑکی یاد آئ جو بس میں سیٹ خالی ہونے کے باوجود اس کی سیٹ کے پاس کھڑی تھی۔جب جب بس اسپیڈ بریکر پر سے گزرتی وہ آوچ کی آواز کے ساتھ اس کی گود میں گرنے کی کوشش کرتی۔بڑی مشکل سے اس نے اس بد کردار لڑکی کو اپنی گود میں بیٹھنے سے باز رکھا تھا۔
انہی کوششوں کے چلتے وہ داغ اس کی سفید شرٹ کو داغ دار کرگیا تھا۔ مجبوراً جب اسنے اپنی سیٹ بدلی تب کہیں جاکے سکون کی سانس نصیب ہوئ۔
وہ سب کے سامنے کھسیا کر رہ گیا۔اس کولیکر لڑکیوں کا پاگلپن ان لڑکوں سے پوشیدہ نہیں تھا۔
تبھی عالیہ بیگم ہال میں داخل ہوئیں سب کی ہنسی کو بریک لگے تھے ۔
"شاہ زر جلدی سے فریش ہںو جاؤ اور آکر کھانا کھا لو رات بہت ہوگئ ہے بیٹا ۔میں کچن میں تمھارا انتظار کر رہی ہوں"۔
وہ جی کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
اپنے کمرےمیں داخل ہوتے ہی اس کی نظر چادر میں چھپے موجود پر ٹھر گئ کوئ جنبش نہیں ہوئ تھی۔ غالباً وہ سو چکی تھی۔
وہ اپنا بیگ صوفے پر پھینک کر غسل خانے کی سمت بڑھا۔
تبھی بےتحاشہ کھانسنے کی آواز پر وہ مڑاتھا۔وہ بستر پر بیٹھی مسلسل کھانسے جا رہی تھی۔اس اچانک افتاد پر وہ گھبرا گیا۔فوری امداد کی طور پر اس نے سائڈ ٹیبل پر موجود جگ سے پانی گلاس میں انڈیل کر اس کی طرف بڑھایا تھا۔ غالباً نیند میں گلا خشک ہںونے کی وجہ سے وہ کھانس رہی تھی۔زرمین نے پہلے پانی کے گلاس کی طرف پھر اس کی طرف دیکھا اور اپنا رخ دوسری سمت پھیر لیا اس کی کھانسی رک چکی تھی۔
اس کے چہرے پر "مجھے نہیں چاہیںے "والے تاثرات کو دیکھ شاہ زر نے پانی کا گلاس سائڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔
"نہیں چاہیںے۔as you wish بھلائی کا زمانہ نہیں رہا۔"
وہ طنزیہ لہجے میں کہتے ہںوئے پلٹا۔
زرمین کی نظر سیدھے اس کی پشت پر جگمگاتے سرخ لپسٹک کے نشان پر جم گئی۔سیکنڈ سے بھی کم وقفے میں اس کا غصہ نقطہ ابال سے اوپر چلا گیا۔
"مجھے تمہاری مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہںے ۔تم سے مدد لینے سے بہتر میں مرنا پسند کرونگی۔اور ہاں میرے سامنے بھلائی کا ڈھونگ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہںے۔یہ تماشہ ان لوگوں کے سامنے کرنا جو تمہیں اچھا اور بھلا انسان سمجھتے ہیں۔میں تمہاری اصلیت سے بخوبی واقف ہںوں کہ تم کتنے بھلے انسان ہںو۔"
اس کے ایک جملے کے جواب میں وہ دس جملے سنا کر وہ سونے کے لیے لیٹ گئی۔نہ جانے اس لپسٹک کے نشان کو دیکھ کر اسے اس قدر غصہ کیوں آیا تھا۔وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔
شاہزر نے اس کی مدد کرنی چاہی جس کے جواب میں وہ اسے بے نقط سنا کر لیٹ چکی تھی۔
"اتنی بد گمانی اس قدر نفرت کتنا زہر بھرا ہںوا ہںے اس کے دل میں میرے لیے۔مانا کہ مجھ سے غلطی ہںوئی تھی۔طیش میں آکر میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔مگر میری سزا بھی تو اسی نے طے کی تھی۔اب کیا چاہتی ہںے وہ مجھ سے؟"
وہ ساکت کھڑا سوچتا رہ گیا۔
اس نے اپنی زندگی میں کئی لڑکیاں دیکھی تھیں۔جو اس کی ایک نگاہ کو ترستی تھیں۔نفرت کرنا تو دور وہ اس کی نفرت کا جواب بھی محبت سے دیا کرتیں۔اس کی وجاہت اور امارت سے حد سے زائد متاثر پروانہ صفت ںسطحی لڑکیاں۔اسے ان بد کرداد لڑکیوں سے گھن آتی تھی۔ اور پھر ایک دن یہ لڑکی اس کی زندگی میں آئ۔وہ پہلی اور شاید واحد لڑکی تھی جو اس سے نفرت کرتی تھی۔جسے اس کی وجاہت، امارت کچھ بھی متاثر نہیں کرپایا تھا۔اور لڑکیاں اس کی محبت میں برباد ہونے کو تیار رہتیں مگر یہ لڑکی اسے برباد کرنے کا عہد کر چکی تھی۔وہ مختلف تھی ۔اس کا انداز اسے دوسروں میں ممتاز کرتا تھا۔وہ غیر ارادی طور پر اسے سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔وہ کسی مقناطیس کی طرح اس کی طرف کھینچتا چلا جا رہا تھا۔
وہ شاور کے نیچے کھڑا اس کے متعلق سوچے جارہا تھا۔وہ فریش ہو کر باہر آیا تبھی اس کی نگاہ اس شرٹ پر پڑی جو وہ ابھی ابھی اتار کر صوفے پر پھینک گیا تھا۔لپسٹک کا نشان واضح تھا۔اس نے فورا سے پیشتر شرٹ اٹھای اور لانڈری باسکٹ میں ڈال دی۔
"خدا نخواستہ اس لڑکی نے یہ نشان دیکھ لیا تو نجانے دن میں کتنی بار عیاش ہونے کا طعنہ سننے کو ملیگا۔بلا کسی تردد کے وہ مجھے لڑکیوں کے ساتھ عیاشی کرنے والے مردوں کی فہرست میں شامل
کردیگی۔یوں بھی اس کی نظر میں دنیا کا عیاش ترین رئیس زادہ میں ہی ہوں۔"
اس نے سوچتے ہوئے جھر جھری لی تھی۔
نا محسوس طریقے سے وہ دونوں من ہی من میں شوہر بیوی کی طرح پیش آرہے تھے
****
فجر کی نماز قضاء ہونے میں کچھ ہی وقت بچا تھا تبھی اس کی آنکھ کھلی۔وہ سرعت سے اٹھ بیٹھی تھی۔اس سے قبل کہ وہ واش روم کی سمت بڑھتی غیر ارادی طور پر اس کے نگاہ صوفے کی طرف اٹھی ۔
وہ اس کا ایک بازو سینے پر دوسرا ماتھے پر تھا ۔وہ گہری نیند میں تھا۔اس کے چہرے سے تھکن واضح طور پر عیاں ہو رہی تھی۔نیند کی کمی کہ باعث آنکھوں کے گرد قدرے سوجن آگئ تھی۔دفعتا اس کی نظروں کے سامنے اس شخص کا چہرہ گھوم گیا جس پہلی دفعہ وہ ایک سڑک پر ملی تھی۔اس ہشاش بشاش چہرے میں اور اس چہرے میں بہت تضاد تھا ۔اس کے دل میں بے چینی سے ہونے لگی ۔اپنے اضطراب کی کوئ وجہ نہیں سمجھ آئی اسے۔اس نے شاہ زر کے چہرے سے اپنی نگاہ ہٹالی۔وہ خود کی کیفیت پر متحیر تھی۔
"نجانے عالیہ آنٹی کسقدر بدزن ہونگی مجھ سے۔کیا سوچتی ہونگی میرے متعلق۔مجھے دیکھتے ہی ان کے دل سے بد دعا نکلتی ہوگی۔ان کےعزیز ترین بیٹے کی اس حالت کی وجہ میں ہوں۔شہزادے کہ مانند اپنی اب تک کی زندگی بسر کرنے والے بیٹے کی یہ حالت دیکھ ان دل کتنا دکھتا ہوگا،کسقدر تکلیف ہوتی ہوگی۔انھیں اسطرح اپنے بیٹے کے غم گھلتے میں نہیں دیکھ سکتی۔اس سارے میں ان کا تو کوئی قصور نہیں نکلتا پھر وہ تکلیف کیوں سہیں۔میں آج ہی انکل سے بات کرونگی۔عام امپلوائ کی حیثیت سے آفس جاکر کام کرنے کی سزا سےاسے نجات دے دیں ۔
مجھے یہ کرنا ہوگا اس کی فیمیلی کے لیے۔میری دشمنی اس سے ہے ان لوگوں سے نہیں۔میں یہ صرف اور صرف اس کی ماں کے لیے کر رہی ہوں ان کا مجھ پر احسان ہے۔ من ہی من انہیں مجھ سےنفرت ہوگی اس کے باوجود ان کا رویہ میرے ساتھ برا نہیں رہا۔میرا بھی فرض بنتا ہے کہ انھیں کوئ تکلیف نا ہونے دوں۔میرے دل میں شاہ زر کے لیے نفرت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے نہ ہی میرا دل پسیجا ہے۔"
اس نے خود کو دلاسہ دیا تھا۔
ناشتے کہ وقت حسب معمول ان نئ خبر اس کی منتظر تھی۔
"شاہ زر چونکہ تم آفس کی زمہ داریاں اٹھانے کے لا ئق ہوچکے ہو ہم نے فیصلہ لیا ہے کہ آج سے تم مالک کی حیثیت سے اپنی آفس جوائن کر سکتے ہو ۔"
راشد صاحب نے اطمینان سے کہا۔ٹیبل کے گرد بیٹھے سبھی افراد نے خوشگوار حیرت سے شاہ زر کی طرف دیکھا تھا مگر اس کے نظر بے ساختہ زرمین کی طرف اٹھی تھی۔وہ لاتعلق بنی ناشتہ کرنے میں منہمک نظر آرہی تھی۔اسے بخوبی اندازہ تھا کہ یہ کرم فرمائ کس کی سفارش پر کی جارہی ہے۔
"اوہ تو میڈم مجھ پر احسان کرنے چلی ہیں۔ اس کے ذہن میں کل رات زرمین کہے الفاظ تازہ ہوگئے
"مجھے تمھاری مدد کی ضرورت نہیں ہے"۔
"ڈیڈ میرا خیال ہے کہ چند اور دن مجھے اسطرح کام کرناچاہیے۔اس سے میری نالج میں اضافہ ہوگا بزنس کے داؤ پیچ کو اچھی طرح سمجھنے کا موقع ملےگا۔experience بڑھے گا۔"
اس نے سنبھل کر کہتے ہوئے زرمین کی سمت دیکھا گویا آنکھوں سے کہہ رہا ہو
"مجھے بھی تمھارے رحم وکرم کی ضرورت نہیں "۔
وہ حیران ہوتی اس کو دیکھ رہی تھی۔
"برخوردار ہم فیصلہ لے چکے ہیں تمھیں اطلاع دی جارہی ہے تمھاری رائے نہیں طلب کی جارہی۔آج سے تم اپنی آفس سنبھالوگے۔"
راشد صاحب ہمیشہ کی طرح اس کی بات رد کرتے حکم صادر کرچکے تھے۔اس نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ شاہ زر کو دیکھا وہ بل کھا کر رہ گیا۔
ان دونوں کے درمیان آنکھوں سے ہورہی سرد جنگ سے لطف اندوز ہوتی مزنی کھل کر مسکرا دی تھی۔
****
پورچ میں اپنی کار کھڑی کر وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا لان میں داخل ہوا۔ آج اپنی آفس میں بطور باس اس کا پہلا دن تھا اور پہلے ہی دن نہایت اہم کاغذات وہ گھر پر بھول گیا تھا۔اس کے ستارے گردش میں تھے ۔ دفعتاً اس کی نگاہ لان میں پودوں کو پانی دیتیں دعا اور زرمین پر پڑی۔جبکہ لان کے جھولے پر بیٹھی مزنی چائے کی چسکیاں لینے میں مصروف تھی۔ پانی کے پائپ کو پودوں کی کیاری میں چھوڑ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہی تھیں ۔
زرمین دعا کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔وہ صورت حال کا جائزہ لیتا پول کے نزدیک پہنچ گیا۔موقع پاکر دعا شاہ زر کی اوٹ میں ہوگئ۔شاہ زر کی آمد سے یکسر بے خبر وہ پلٹی تھی ایکدم سے اسے اپنے سامنے پاکر وہ ٹکراؤ سے بچنے کے لیے بے ساختہ دو قدم پیچھے ہٹی۔اس بات سے بے خبر کے اس کے عین عقب میں سوئمنگ پول تھا۔پول کے اطراف ٹائلس پر پانی ہونے کے باعث اس کا پیر پھسلا ۔اس کی چیخ لاشعوری تھی۔اس نے خود کو پول میں گرتا ہوا محسوس کیا ۔تبھی شاہ زر نے ہوا میں معلق اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔نتیجتاًوہ اس کے سینے سے جالگی ۔دونوں ہی کا توازن ایک ساتھ بگڑا تھا لاشعوری طور پر زرمین نے اس کمر کے گرد کی شرٹ کو سختی سے مٹھیوں میں جکڑ کر خود کو لڑکھڑانے سے باز رکھا جبکہ شاہ زر نے اسے کندھوں سے تھام کر توازن سنبھالا تھا۔
اس نے چہرہ اٹھا کر شاہزر کو دیکھا۔وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔گہری کتھئی آنکھیں وہ پہلے ہی بھی بارہا ان آنکھوں میں براہ راست دیکھ چکی تھی۔مگر ان آنکھوں میں اور آج اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی ان آنکھوں میں ایک فرق تھا۔جذبات کا فرق ۔
ان میں ہلکورے لیتے جذبات مختلف تھے۔اس سے قبل اس نے شاہ زر کی آنکھوں میں ان جذبات کو تیرتے نہیں دیکھا تھا۔اس نے بمشکل خود کو ان آنکھوں کی گہرائی میں ڈوبنے سے بچایا ۔عجیب سا سحر تھا ان آنکھوں میں کوئی کشش جو اسے اپنی سمت کھینچ رہی تھی۔وہ ان آنکھوں سے چاہ کر بھی نظریں نہیں ہٹا پا رہی تھی۔ اس کے ہاتھ شاہ زر کی شرٹ کو جکڑے ہوئے تھے شاہ زر کے دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر تھے۔وہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ چند سیکنڈ گزر گئے۔ سحر کو ان دونوں کے دائیں طرف کھڑی دعا کی تالیوں کی گونج نے توڑا۔
”واو چاچو آپ نے بلکل correct timing پر آنٹی کو بچا لیا ۔آپ سچ میں ہیرو ہیں۔“
وہ دونوں جیسے ہوش میں آئے تھے ۔سیکنڈ سے بھی کم وقفہ میں وہ دونوں ایک دوسرے سے کرنٹ کی تیزی سے دور ہوئے تھے۔شرم کے مارے زرمین کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ مزنی کی موجودگی نے صورت حال کو مزید awkward بنا دیا تھا۔
" یہ کیا بد تمیزی ہے how dare you touch me۔"
ضبط کرتی وہ آواز دبا کر بولی مبادا آواز مزنی کے کانوں تک نہ پہنچ جائے۔
"بد تمیزی کونسی بدتمیزی ؟میں نے تمھاری ہیلپ کی ہے ۔میڈم اگر میں تمھیں ٹچ نہیں کرتا تو ابتک تم پول میں گر چکی ہوتی ۔ اور تو اور یہ سب sudden تھا ۔مجھے کوئ شوق نہیں ہے تمھیں ںٹچ کرنے کا۔میں نے تمھیں ٹچ کیا تو کیا تم نے مجھے ٹچ نہیں کیا حساب برابر"۔
اس نے اپنی شرٹ پر پڑی شکنیوں کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا زرمین کی مٹھیوں کی گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے کمر کے گرد شرٹ سکڑ گئ تھی۔
"اوہ تو تم نے میری ہیلپ کی ہے۔ کیا میں نے تم سے ہیلپ مانگی تھی۔اوکے فائن حساب برابر کرتے ہیں ۔میں نے تمھاری شرٹ پکڑی تھی تمھیں ٹچ نہیں کیا تھا اب میں تمھیں ٹچ کرونگی ۔"
اس کی بات پر شاہ زر کو حیرانی کا زبردست جھٹکا لگا وہ کیا کہہ رہی تھی وہ سمجھ نہیں پایا تھا ۔
اپنی بات ختم کرکے ان دونوں کے درمیان دو قدم کا فاصلہ مٹاتی وہ اس کے قریب آئی اس کے دونوں بازوؤں کو اپنی نازک ہاتھوں کی گرفت میں لیا اسے اپنی جگہ پر لا کھڑا کیا اب شاہزر کی پشت پول کی سمت تھی۔
وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں اس کے اشاروں پر چلتا گیا۔
" میں تمھاری طرح ill mannerd نہیں ہوں اسی لیے .
so sorry for touching you
اس کے سینے پر اپنی دونوں ہتھیلیاں جما کر ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ وہ بولی ۔
اس کےاسقدر قریب کھڑی اس کے سینے پر ہاتھ رکھے وہ مسکرارہی تھی اس کے دل کو کچھ ہوا گردن میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئ۔
اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھ پاتا اپنی پوری قوت لگا کر زرمین نے اسے پول میں دھکیل دیا۔
غیر متوقع حملے کے لیے وہ تیار نہ تھا پورے قد سے پول میں گرا۔ بہت سارا پانی اس کے اندر گرنے پر باہر چھلکا تھا۔
اپنے ساتھ ساتھ دعا کو بھی پیچھے کھینچ کر اس نے بھیگنے سے بچایا تھا۔
well thats unfair ”
مزنی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔اسے پانی کی نذر کر وہ جاچکی تھی۔اس کے ہیرو چاچو کی ہیروئن نے
انھیں پانی میں دھکیل دیا تھا
دعا کو رنج والم نے گھیر لیا ۔اسے مزنی پر ایک بار پھر غصہ آیا چاچو کی یہ حالت تھی اور وہ ہنسے جارہی تھیں ۔
وہ پول گہرا نہیں تھا۔ باآسانی اس میں کھڑا ہوکر وہ اپنے پانی سے تر جسم کو دیکھ نفی میں سر ہلاتا مسکرا رہا تھا ۔وہ لڑکی unpredictable تھی۔پتہ نہیں کیوں اس لڑکی کے سامنے وہ بے وقوف بن جایا کرتا تھا۔اس کی ساری ہوشیاری ہوا میں تحلیل ہو جایا کرتی۔ہر بار وہ اس پلاننگ کا شکار ہو جایا کرتا ۔اسے غصہ نہیں آیا تھا اپنی اس کیفیت پر وہ خود ششدر تھا۔ اسے ابھی اسی وقت آفس پہنچنا تھا مگر وہ پانی سے تر جسم کے ساتھ سوئمنگ پول میں کھڑا مسکرا رہا تھا ۔آفس کے پہلے ہی دن وہ لیٹ ہونے والا تھا۔
***
دائ ماں کے حوالے سے ڈاکٹرس نے کوئ حوصلہ افزا بات نہیں کہی تھی۔
من بہلانے کی غرض سے وہ کچن میں چلی آئی ۔ عالیہ بیگم اور رشیدہ بوا کے علاوہ کچن میں کوئی نہیں تھا۔دوپہر کے کھانے کا مینو ترتیب دیا جا رہا تھا۔چکن کڑاہی کا نام سنتے ہی وہ کھل اٹھی۔
"آنٹی کیا میں چکن کڑاہی بنادوں۔ میں بہت ہی ذائقہ دار چکن کڑاہی بنا لیتی ہوں۔"
وہ پرجوش ہوکر ان قریب آئی۔
عالیہ بیگم نے اس کی طرف دیکھ کر بادل ناخواستہ گردن اثبات میں ہلائ اور کچن کے باہر نکل گئیں ۔
اس کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو تیر گئے۔ان کا برتاؤ اس کے ساتھ برا نہیں تھا تو اچھا بھی نہیں تھا۔گھر کے سبھی افراد اس سے گھل مل گئے تھے۔مگر عالیہ بیگم کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی تھی۔وہ بخوبی واقف تھی کہ اپنے بیٹے کی زندگی میں اسطرح گھس آنے پر عالیہ بیگم اسے کبھی معاف نہیں کریں گی۔باوجود اس کے ہر بار خود کو نظر انداز کر دیے جانے پر اس کی آنکھیں بھر آتیں۔
بے دلی سے چکن کڑاہی بنا کر وہ اپنے کمرے میں چلی آئی تھی۔
وہ کب سے اپنے کمرے کی بالکنی کے عین نیچے کھڑا صفدر کا منتظر تھا مگر وہ تو جیسے غائب ہی ہو گیا تھا۔وہ اپنی کار کی چابی کمرے میں ہی چھوڑ آیا تھا۔واپس جاکر چابی لانے کی زحمت سے بچنے کے لیے اس نے یہ کام گھر کے ملازم صفدر کو سونپا۔
قریباً پانچ منٹ سے وہ بالکنی کے نیچے کھڑا منتظر تھا کہ وہ چابی نیچے پھینکے گا مگر افسوس وہ ندارد تھا۔تنگ آکر اس نے سیٹیاں بجانی شروع کردیں ۔اسے یقین تھا کہ سیٹیوں کی آواز سنکر اس احمق صفدر کو یاد آجائےگا کہ اس کے مالک نے اسے کوئ ذمہ داری سونپی تھی کیونکہ سوائےشاہ زر کے اس گھر میں کوئی بھی اسطرح سیٹیاں بجا کر کسی کو بلانے کی ہمت نہیں کرسکتا تھا ۔
وہ اپنے کمرے میں میگزین کھول کر بیٹھی مسلسل بجتی اس سیٹی کی آواز سنکر مسکرا رہی تھی۔
جوں ہی صفدر کمرے میں چابی لینے کی غرض سے آیا بنا چابی دیے ہی اس نے اسے چلتا کر دیا تھا ۔شاہ زر کو زچ کرنے کا ایک بھی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی۔
کچھ لمحوں کے گزر جانے کے بعد وہ بالکنی میں آئی۔
صفدر کے بجائے اسے باہر آتا دیکھ وہ ٹھٹکا۔اس نے چابی ہاتھ میں پکڑ کر ہوا میں لہرائ تھی۔اس سے قبل کہ وہ چابی دیکھا دیکھا کر اسے زچ کرتی اس کے عقب میں کھڑے راشد صاحب کو دیکھ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
" کیا آپ ذرا سا بھی صبر نہیں کر سکتے سیٹیاں بجا کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا ۔ لا رہی تھی میں چابی بس ڈھونڈنے میں دیر ہوگئی آپ کوئی بھی چیز اس کی جگہ پر نہیں رکھتے۔"
سیکنڈ سے بھی کم وقفہ میں دل جلانے والی مسکراہٹ کی جگہ دلفریب مسکراہٹ نے کے لیے تھی۔ فوراً چابی اس کی سمت اچھال کر وہ اندر چلی گئ۔ اور وہ جس کا خیال تھا کہ بغیر چھینے وہ چابی آج اس کے ہاتھ نہیں لگنے والی وہ حیران تھا۔
" پہلے تو چابی دکھا دکھا کر میرا صبر آزما رہی تھی پھراچانک شرافت کے جامے میں کیسے آگئ۔خیر اچھا ہی ہوا اس لڑکی سے بحث کرنے کا وقت نہیں تھا میرے پاس ۔"
وہ سوچتا ہوا پلٹا اپنے عین مقابل راشد صاحب کو کھڑا دیکھ وہ حیران ہوا۔
"ڈیڈ توواک کے لیے گئے تھے ۔کب واپس لوٹے اور یہاں کتنی دیر سے کھڑے ہیں میرے خدا کہیں ڈیڈ نے مجھے سیٹی بجاتے اور زرمین کو باہر آتے تو نہیں دیکھ لیا"۔
اس نے ڈرتے ہوئے ان کی طرف دیکھا خشمگیں نگاہوں سے وہ اسے دیکھ رہے تھے ان کے تاثرات سے واضح تھا کہ اس منظر کو دیکھ چکے تھے جسے نا دیکھنے میں ہی شاہ زر کی عافیت تھی۔
"
کچھ تو شرم کرو ۔اپنی بیوی کو سیٹی بجا کر بلانے کا نایاب طریقہ تم نے کہاں سے سیکھا ہے یا تم خود ہی اس کے موجد ہو۔سدھر جاؤ اب بھی وقت ہے۔"
ملامت کرتی نظر اس پر ڈال کر وہ گھر کی چوکھٹ کو عبور کر بالائی منزل کی سیڑھیاں چڑھ گئے وہ ان کے پیچھے اپنے کمرے میں آیا تھا۔
"میں نے صفدر کو بھیجا تھا چابی لینے کے لیے پھر تم کیوں آئی۔ پاپا کی موجودگی سے باخبر تھی تم ہے نا۔ تبھی تم نے نے ایسے ظاہر کیا گویا میں تمھیں ہی سیٹی بجا کر بلا رہا تھا۔ ڈیڈ کی نظروں میں مجھے ذلیل کرنے کا کوئ موقع تم ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ حیرانی ہوتی ہے مجھے اس قسم کی خرافات تمھارے ذہن میں آتی کہاں سے ہیں؟"
"وہ اس کے سر پر کھڑا زچ ہوکر بولا ۔
"تو سارا ماجرا تمھیں سمجھ آگیا ہے ۔گڈ، یقین جانو اگر میں اس خرافات پر عمل نہ کرتے ہوئے بالکنی میں نا آتی تب بھی انکل یہی سمجھتے کہ تم مجھے ہی بلا رہے ہو کیونکہ اس حقیقت سے تو محض میں اور تم واقف ہیں کہ تم صفدر کو بلا رہے تھے تمھارے ڈیڈ کے نظریے سے دیکھا جائے تو تمھارے کمرے سے اس وقت تمھاری بیوی ہی برآمد ہوسکتی ہے ۔"
وہ کمال اطمینان سے میگزین کے صفحات پلٹتی بنا اس کی سمت دیکھے بولی۔
اس کی بات پر وہ ٹھٹکا۔ذہن کی سوئی "تمھاری بیوی "ان دو الفاظ پر اٹک سی گئ۔
اسے کچھ نہ کہتا دیکھ زرمین نے سلسلہ کلام جوڑا۔
"تہم اسقدر پریشان کیوں ہورہے ہو۔تمھیں سڑک چھاپ لوفروں والی حرکت کرتا دیکھ تمھارے ڈیڈ قطعاً حیران نہیں ہوئے ہونگے۔وہ تمھاری عادات واطوار سے بخوبی واقف ہیں۔“
کمال اطمینان سے کہتی وہ اس کے قریب سے نکلتی ہوئی کمرے کے باہر چلی گئی ۔وہ جو سخت سے سخت سنانے کی ٹھان کر آیا تھا۔ساکت کھڑا رہ گیا۔وہ اپنی ہی ذہنی کیفیت پر حیران تھا۔یہ آج کل اسے کیا ہوتا جارہا تھا۔وہ بلا ارادہ اسے سوچنے پر مجبور تھا اس کی دل جلانے والی حرکتوں پر اسے بے نقط سنا کر حساب برابر کرنے کے بجائے وہ کبھی اس کی باتوں میں کبھی اس چہرے کے نقوش میں تو کبھی اس کے وشخصیت کے اتار چڑھاؤ میں الجھ جاتا۔فی الحال وہ اپنے کمرے کے وسط میں کھڑا یہ سوچنے پر مجبور تھا۔
"کیا اس نے یہ رشتہ قبول کرلیا ہے کیا ۔اس نے مجھے اپنا شوہر تسلیم کر لیا ہے"۔
***
عشاء کی نماز کے بعد دعا کی لیے اس نے ہاتھ اٹھائے حسب معمول آنسوؤں نے اسکا چہرہ بھگو دیا۔
وہ آہستگی کے ساتھ بنا کوئی آواز کیے کمرے میں داخل ہوا مبادا وہ جاگ نہ جائے۔
اسکی توقع کے عین خلاف وہ جاگ رہی تھی اور جاء نماز پر بیٹھی نماز پڑھنے میں مصروف تھی۔ بہت دنوں بعد سب کے ساتھ کھانے کے بعد خوش گپیوں میں مصروف وقت گزرنے کا پتہ نہیں چلا تھا۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا صوفے کی سمت بڑھا دفعتاً اس کی نظر اس کے وجود پر پڑی وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔دھیمی دھیمی ہچکیوں کی آواز سے واضح تھا کہ وہ رو رہی تھی۔وہ جس دن سے اس گھر میں آئی تھی اکثر اوقات شاہ زر نے اسے اسطرح روتی ہوئے دیکھا تھا دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتی اور بس روتی جاتی۔ اس کی اس حرکت پر وہ کافی ڈسٹرب ہواکرتا تھا ۔اپنا دھیان بٹانے کےلیے وہ اسٹڈی ٹیبل پر کسی فائل میں منہ دے کر بیٹھ گیا۔ ہیچکیوں میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
روز کی نسبت آج وہ زیادہ بے چینی محسوس کر رہا تھا۔اسطرح رونا اس کے لیے روزانہ کا معمول تھا مگر اس کی موجودگی کا لحاظ کرتے ہوئے وہ اپنی آواز کو دبالیتی تھی لہذا وہ بمشکل اس کی ہچکیوں کی آواز سن پاتا تھا مگر آج اس کے اسطرح کھل کر رونے سے واضح تھا کہ وہ اس کی موجودگی سے لاعلم تھی۔چند منٹوں بعد اس کا صبر جواب دے گیا۔وہ فائل بند کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ان کے درمیان فاصلہ عبور کرتا وہ اس کے دائیں طرف ایک زانو ہوکر بیٹھ گیا۔
فروزی رنگ کا ڈوپٹہ اس کے چہرے کے گرد لپٹا ہوا تھا ۔بند آنکھوں سے ٹپکتے آنسو ،کپکپاتے ہونٹ ،لرزتا وجود وہ لحظہ بھر کو دم بخود رہ گیا۔اسے لگا وہ پاکیزہ وجودسیدھے اس کے دل میں اتر رہا ہے ۔اسی لمحے ایک آنسو پلکوں سے ٹوٹ کر رخسار پر پھسلا اس سے قبل کے وہ چہرے کا سفر کرتا اس کے دوپٹے میں جذب ہوتا اس نے اسے اپنی مٹھی میں قید کرلیا۔کسی کی موجودگی کے احساس سے زرمین نے فوراً آنکھیں کھولیں ۔اسے اپنے اتنی قریب بیٹھا پاکر وہ بدک کر پیچھے ہٹی تھی۔
"تم روزانہ ہر نماز کے بعد اتنی شدت سے کیوں رو پڑتی ہو؟مجھے پتہ ہے تم میرے سوال کا جواب نہیں دوگی درحقیقت اس سوال کا جواب جاننا میرے لیے اتنا اہم بھی نہیں ہے کیونکہ شاید میں اس سوال کا جواب جانتا ہوں ۔اچانک تمھاری زندگی میں ایک طوفان آیا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔طوفان لانے والا شخص میں ہوں۔تم مجھ سے نفرت کرتی ہو مجھ سے انتقام لینا چاہتی ہو اپنی تذلیل ورسوائی کا۔غالباً انتقام کے ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تم اسقدر عاجزی کے ساتھ دعا مانگتی ہو۔یا یہ بھی ممکن ہے ان آنسوؤں میں غم کے جذبات بھی گھلے ہوں۔ایکدم سے دنیا بدل جانے کا غم ۔اپنی پہلے کی زندگی بدل جانے کا غم ۔خیر میں بخوبی واقف ہوں کہ تم میرے سوالات کے جواب نہیں دوگی پھر بھی میں پوچھتا ہوں کہ کیا مجھے تکلیف دینے سے تمھارا انتقام پورا ہو جائے گا؟تمھارا مقصد پورا ہوجائےگا؟کیا مجھے درد دے کر تمھارے درد میں کمی آجائے گی؟"
کسی معصوم بچے کی طرح اس نے استفسار کیا تھا۔وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی ۔وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا۔
"تم یقین نہیں کروگی مگر پھر بھی میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں مجھے احساس ہوا ہے کہ تمھارے آنسوؤں سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔غصے سے سرخ ہوتی آنکھیں ، بےخوف انتقام لینے کا جذبہ رکھنے والی جرنلسٹ زرمین فاروقی ہی مجھے اچھی لگتی ہے۔تمھیں آنسوں بہاتا دیکھ یوں لگتا ہے ان آنسوؤں سے لاکھ درجے بہتر تو تمھاری وہ مسکراہٹ ہے جو با الخصوص
مجھے زچ کرنے کے بعد تمھارے ہونٹوں کا احاطہ کرتی ہے۔"
اس کے آنسو کو کسی نایاب موتی کی طرح مٹھی میں سنبھالے وہ کھوئے کھوئے سے لہجے میں گویا ہوا ۔
حیرت کے سمندر میں غوطہ زن اسے یقین ہوگیا کہ وہ اپنے حواسوں میں نہیں تھا۔اس نے سرعت سے جاء نماز اٹھایا اور بستر پر آگئ۔البتہ وہ کچھ دیر اسی پوزیشن میں فرش پر بیٹھا رہا پھر اٹھکر صوفے پر لیٹ گیا۔
شاہ زر کی مخالف سمت میں کروٹ لیکر وہ لیٹ گئ۔مگر اس کی نگاہوں کی تپش کو وہ اپنی پشت پر محسوس کرسکتی تھی ۔ اس کے بدلے ہوئے انداز پر وہ حیرت کے ساتھ ساتھ گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔نیند جیسے روٹھ گئے تھی اور دوسری سمت کروٹ بدلنا مشکل تھا۔اچانک اسے کیا ہوا تھا وہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔
تبھی اس کے ذہن میں مزنی کے الفاظ ایکدم سے تاذہ ہوئے۔
"ایک ایسا شخص جس سے کسی اجنبی کے آنسو تک برداشت نہیں ہوتے وہ کسی سے نفرت کیسے کر سکتا ہے"۔
"اوہ تو جناب کو آنسوؤں میں بہہ جانےکا مضر مرض لاحق یے۔"
وہ جیسے اس کے بدلے ہوئے رویے کی تہہ تک جاکر مطمئن ہوئی۔اور نیند نے اسے اپنے آغوش میں لے لیا ۔اس کے برعکس شاہ زر کی رات آنکھوں میں کٹی تھی۔
***