کیونکہ ہانیہ کے نوٹس سے لگائے گئے نشانے سے عنایا تو بچ گئی پر سر وجدان شاہ نہیں بچ سکے
یہ بدتمیزی کس نے کی ہے ؟
وجدان نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے دشمانِ جان نظر آئی پہلے تو اس کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ آئی پھر ہانیہ کی خوف میں ڈوبی شکل دیکھ حیرانی ہوئی پھر ہوش میں آئے تو اپنی ہنسی کو مشکل سے کنٹرول کرتے ہوئے مز نو ی غصے میں کہا
یہ کس کی حرکت تھی وجدان بھائی ۔۔ میرا مطلب ہے سر۔۔ دعا کے ساتھ ساتھ سب کی انگلییا ں ہانیہ کی طرف اٹھیں ۔۔
مس ہانیہ ابھی میرے پاس ٹائم نہیں لیکن ٹھیک آدھے گھنٹے بعد آپ میرے آفس میں تشریف لے آیئے گا ۔۔
ہانیہ کو تو سانپ ہی سونگ گیا تھا ۔۔۔ مس ہانیہ اوکے آ جا جائیں گی آپ۔۔
جی سر ۔۔ ہانیہ نے ہلکے سے منمنا ؠئی
اوکے پھر ادھے گھنٹے بعد میں آپ کی خبر لیتا ہوں ۔۔یہ کہہ کر وجدان تو چل دیا چہرے پر مسکراہٹ لئے پر ہانیہ کا تو خون خشک ہو رہا تھا۔۔۔وجدان کے غصے سے بھی واقف تھی کے نا گؠؠؠئی تو اور شامت آئے گی ۔۔
لو جی گئی ہانیہ پانی میں ۔۔۔ شیزہ بولی ۔۔ ہانیہ نہیں بھینس ۔۔ رباب نے اس کی تصحیح کی ۔۔
یا اللہ رحم کرنا ہانیہ پر ۔۔آ مین سب نے یک زبان ہو کر کہا
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ادھے گھنٹے بعد وہ وجدان کے آفس کے سامنے تھی ۔۔
ہا ۓ اب کیا کروں ۔۔ جاؤں یا نا جاؤں ۔۔ ابھی اس ہی کش ما کش میں تھی کے چپراسی دروازہ کھل کر باہر آیا ارے آپ ہانیہ ہو ۔۔جی بابا۔۔۔
آپ کو صاحب اندر بولا رہے ہیں ۔۔
جی ۔۔ہانیہ منمنا تے ہوے اندر داخل ہوئی ۔۔
وجدان جو سیگڑ ا یت پینے میں مشغول تھا اس کو دیکھ کر اپنی سیگرٹ مسلی ۔۔
بیٹھیں مس ہانیہ ۔۔ہانیہ کو دیکھتے ہوے وجدان بولا نہیں سر میں ٹھیک ہوں
ٹھیک ہیں ہانیہ جیسی تمہاری مرضی ۔۔تمیں بس بتانے کے لئے بلایا ہے اگر کسی اور کا خیال پال لیا ہے تو چھوڑ دو کوئی فائدہ نہیں وجدان نے مسکراتے ہوۓ کہا
آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو میں اتنی گری پڑی یا دل پھنک لگتی ہوں ۔۔ ہانیہ کا تو پار ا ہی وجدان کی بات اور لہجے پر ہی چڑ گیا ۔۔
اور جس کے ساتھ میرا دل کرے گا دل لگاؤں گی آپ کون ہوتے ہیں 'ہانیہ'۔۔۔۔۔۔ آج تو کہ لیا تم نے آئندہ بکواس نا سنو میں
اس کی بات وجدان کو غصہ دلا گئی تھی ۔دل کیا ٹیبل پر پڑا پیپر ویٹ دیوار پر دے مارے ۔۔اور میرے دل سے پوچھو کے تم کیا ہو ۔۔ خیر آئندہ میں ایسی بات نا سنو مجھے جو کہنا تھا میں کہہ چکا ہوں
now you can go ?
پر ہانیہ آنکھیں پھاڑ ے دیکھ رہی تھی ۔۔
You have got any question ?
نہیں سر ۔
Then why you are still standing here? Or you dont wanna leave me alone.
اس کے لہجے پر ہانیہ سٹپٹا تے جلدی سے موڑی اور تکریباً بھاگتے ہوے باھر نکلی ۔۔
درس گاہ کو اپنے مقصد کے لئے استمعال کرنا کوئی اچھی بات نہیں سمجھی جاتی ۔۔ جاتے ہوے کہنا نہیں بھولی تھی وجدان کو شرمندگی تو ہوئی پر پر جھٹک کر اپنے کام میں مشغول ہو گیا
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پتا نہیں خود کو کیا سمجھ رکھا ہے پاگل نظر آتی ہوں کیا ۔۔ ہانیہ بڑبڑ اتے ہوۓ سیدھا شیزہ سے جا ٹکرائی
ہا ئے !کیا ہو گیا کس چیز کٹ لیا ہے تمھیں جو یوں جا رہی ہو
شیزہ اپنے پاؤں کو سرخ پاۏں کو دیکھ کر افسوس سے بولی
ہاں کاٹ لیا ہے ایک ولایتی۔۔۔۔ چمگادڑ ۔۔نے۔ ہانیہ غصے سے بولی
ہانیہ کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر پانی پیتی عنایا کے منہ سے فو ارہ نکلا جو سیدھا ہانیہ کے پاؤں پر گرا
واہ سر کی ڈانٹ سے تو آج معجزہ ہی ہوگیا ۔۔ہانیہ بی بی اور ایسی گفتگو ۔۔ رباب نے بڑی بڑی آنکھیں نکال کر بولا ہا نیہ کبھی بھی ٹیچرز کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال نہیں کرتی تھی
اب اگر تم لوگوں نے میرا دماغ خراب کیا نا تو سر پھاڑ دوں گی تم لوگوں کا ۔۔ ہانیہ ان لوگوں کو ڈانٹتی ہوئی وہاں سے چلی گی ۔
دعا تم مانو نا مانو مجھے تو لگ رہا دال کالی نہیں بلکے کالے چنے پک رہے ہیں ہیں ۔۔۔۔ شیزہ کی راۓ پر سب نے ہاں میں سر ہلایا فلحال تو چل کر organic کی کلاس لیتے ہیں ۔۔ شیزہ نے سوچ میں ڈوبے ہوے کہا ۔ اور کلاس کی طرف چل دی
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
ماضی تین سال پہلے
ہانیہ ۔کسی ہیں آپ ۔ریاض صاحب نے ناشتے کی میز پر ہانیہ سے پوچھا تھا۔
ٹھیک ہوں ۔۔۔بریڈ پر بٹر لگاتے ہوئی بولی ۔۔
چلیں ٹھیک ہے کوئی پرابلم ہو تو بتا یئے گا ۔۔
اوکے پھر میں چلتا ہوں اپنی بیگم سے گویا ہوے۔۔
اور ہانیہ آپ نے کہیں گھومنے جانا ہو تو میڈ کو ساتھ لے جائے گا ۔۔ آپ کو سیر وغیرہ کروا دے گی۔
جی ٹھیک ہے ۔۔ہانیہ نے جواب دیا ۔۔
اوکے پھر اللہ حافظ ۔۔۔۔
میں بھی روم میں چلتی ہوں ۔۔ ہانیہ روم میں جاتے ہوے ریم کی آواز پر روکی ۔۔
میرا حق تو نہیں بنتا پر کیا میں سمیہ کا پوچھ سکتی ہوں ۔۔کسی ہے وہ ۔۔؟
نہیں آپ نہیں پوچھ سکتیں اور پلیز مجھ سے ایسے سوال نہ پوچھیں ۔۔ ہانیہ کہ کر اپنے روم می چلی گیی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج لندن کا موسم بہت دلکش منظر پیش کر رہا تھا ۔۔۔ چھوٹے چھوٹے روئی کے گالے اس کے چہرے کو چھو رہے تھے ۔۔۔۔
وو اپنے روم ٹیرر س پر کھڑی تھی ۔۔۔ وہ پہلے بھی خوبصورت تھی پر اس موسم میں تو برف کی پری محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔۔
کیا بور ہی ہو گئی ہوں ۔۔ماما ٹھیک ہی کہ رہی تھیں آویں ہی آ گئی میں ۔۔۔وہ خود کلامی کرتے ہوے بولی
چلو کوئی نہیں میں باہر ہی گھوم آتی ہوں بس اگلے بلاک تک ۔۔۔ پھر اپنے بات پر عمل کرتے ہوۓ وہ ۔۔۔ باہر سٹریٹ پر آ گیئی ۔۔
اور چہل قدمی کرنی لگی ۔۔
چلتے ہوئے اس کو کافی وقت ہو گیا تو سائیڈ بینچ پر ہی بیٹھ گئی ۔۔جب پانچ منٹ بعد ٹائم دیکھا۔۔۔ تو احساس ہوا کے محترمہ پچھلے تکریبن ایک گھنٹے سے چل رہی ہیں ۔۔۔۔
اہ نو ۔۔۔۔۔ آج تو ہانا(شف ) کی مدد کرنی تھی کچن میں ۔چپل کباب بنانے میں ۔۔ وہ اچھل کے کھڑی ہوئی اور تیز تیز قدم اٹھانے لگی ۔۔۔پر ہا ۓ رے قسمت ۔۔۔ گلی کا موڑ موڑ تے ہی کسی سے ٹکرا کے نیچے گر گؠئی اس کے بالوں نے اس کے چہر ے کا احاطہ کر لیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ ہاۓ ا۔۔یہ راستے میں کنٹینر کس نے کھڑے کر دے ہیں وہ بھی پتھر کی طر ح سخت ۔۔۔۔
جب کے مقا بل کے چہرے پر غصے کے وازیہ آثار نما یا ہوۓ