حال
ہانی !یہاں اکیلے کیوں بیٹھی ہو بچے ۔۔۔اپنی ماما ( سمعیہ )کی آواز پر وہ چو نکی تھی
بس اسے ہی مما ۔۔
ماما ایک بات پوچھوں ۔۔ ہانیہ نے سمعیہ بیگم سے پوچھا
ہاں پوچھوں بیٹا ۔۔۔ ماں ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھی دوست بھی تھیں ہانیہ کی ۔۔
میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کے کیا ہم کسی سے نفرت کر کے بھی محبّت کا جذبہ رکھ سکتے ہیں ۔۔۔ کیا کسی کی ماجود گی آپ کی روح کو تو سکون دیتی ہے پر آپ کو بے چین کر دیتی ہے ۔۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے ۔۔ ہانیہ نے کھوۓ ہوۓ انداز میں پوچھا تھا
ہانی بیٹا آپ ٹھیک ہو نہ ۔۔ سمعیہ نے چونک کر اپنی بچی کو دیکھا تھا ۔۔
یہ تم کیوں پوچھ رہی ہو ۔۔ سمیہ بولیں
ویسے ہی .. سوچ رہی تھی
میری جان ۔۔ اگر کوئی ہمارے دل کو تکلیف دے پر اس نفرت اور ناراضگی کے باوجود بھی عزیز رہے تو اس سے عشق ہوتا ہے
اور میری جان عشق۔۔ عشق اکثر لا حاصل ہی ہوا کرتا ہے اور جو لا حاصل ہوتا ہے اس سے ہی انتہا کا عشق ہوتا ہے
اور عشق تو جان مانگنے سے بھی گریز نہیں کرتا ۔
اور اس عشق و محبت میں تو ہم روز ہی قربانیاں دیتے ہیں ۔۔۔ چھوٹی بچی اپنی بہن کے لئے جب کسی پسندیدہ کپڑوں کی قربانی دیتی ہے ۔۔۔
جب بھائی دوسرے بھائی کو کرکٹ میں اپنی باری دے دیتا ہے ۔۔ یہ بھی محبّت ہے ۔۔۔ محبّت کے تو گئی رنگ ہیں
اف مما آپ واقعے ہی اردو کی ٹیچر لگ رہی ہیں۔۔۔ ہانیہ نے سمعیہ کو حیرت سے دیکھتے ہوے کہا
بہت شام ہو گئی ہے لڑکی شام کو باہر نہیں بیھٹے یوں ..سمعیہ نے سمبھلتے ہوے کہا مما آپ بھی نا چلیں اندر چلتے ہیں۔۔
چھوٹی بی بی بڑے صاحب آ گئے ہیں اور آپ لوگوں کو اندر چا ۓ پر بولا رہے ہیں
زو لقر نین صاحب کی آمد کا سن کر دونون جلدی اندر بڑھ گئیں ۔۔
*********************
کمرے میں اند ھیرے کا راج تھا ۔۔ پورا کمرہ د ھوں دھوں تھا۔۔
وو سگریٹ کے کش پر کش لے رہا تھا
تم اتنی بےرخی سے کیسے بات کر سکتی ہو مجھ سے کیسے سرد لہجے میں بول سکتی ہو ۔۔۔ میرے ساتھ اتنا سرد ۔ میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں معافی بھی مانگ لوں گا پر ۔۔ میں تمیں پا کر ہی رہوں گا۔۔ میری رگ رگ میں بستی ہو آخر کب تک دور رہو گی ۔۔
وجدان کو وہ لڑکی یاد آئی
وہ جس کی آنکھیں بھی بولا کرتی ۔۔
باد صبا اس کی زلفوں سے اٹھکھلیاں کرتے گزرتیں تھیں
جس کی نظر یں جب وجدان کا چہرہ دیکھتیں تھیں تو ہزاروں جگنو ں کی روشنی ان میں جگمگا تی تھی ۔۔۔
وہ جس کی مسکراہٹ قو سِ قزا جیسی رنگیناں بکھر تی تھی
اور اب ۔۔۔ اب بس سرد سا تاثر تھا
اداس چہرہ تھا ۔۔ اور آنکھیں زرد موسموں کا تاثر لئے ہوۓ تھیں ۔۔۔ وجدان سے یہ بے چینی اور تکلیف برداشت نا ہوئی تو دل پر ہاتھ رکھ کے اٹھ بیٹھا ۔۔
اففف ۔۔ یہ کیا کر دیا میں نے ۔۔۔ ساحل پر پہنچنے سے پہلے ہی کشتی جلا ڈالی ۔۔ ساحل پر پہنچ جاتا تو شائد ڈوبنے سے تو بچ جاتا
میری غلطی کی سزا میں اور تم دونوں بھگت چکے ہیں اب اور نہیں
تم میری ہو یہ بات تو تمیں ماننی ہی پر گی زرد موسم ہمشہ رنگنی کی طرف ہی جاتا ہے ھمشہ ایک سا موسم نہیں رہا کر تا جان وجدان ..... ایک مسکراہٹ نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا
پر پہلے اس احساس کو محرم بنانا ہوگا ۔۔۔
اتنا درد اتنی تکلیف اتنی بےبسی اب برداشت نہیں ہوتی ۔۔ مجھے اپنے رب پر پورا یقین ہے ۔۔ میں روز اس کے حضور سجدہ کرتاہوں ہر روز دعا کرتا ہوں کے اب میری زندگی میں یہ خزاں رتیں نا رہیں ۔۔ یہ زرد موسم یہ پت جھڑ اب میری زندگی میں نہ رہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ سب ٹائم پر ہی کلاس میں پہنچ گئی تھیں
اب کم سے کم ۔۔۔جلاد کو کوئی ۔۔۔موقع نہیں ملے گا ہمیں ٹار چر کرنے کا ۔ ۔ دعا نے تیز تیز چلتے ہوے کہا
ہاں بلکل وہ اس صورت میں اگر آپ خود ٹار چر سیل میں نا جائیں۔۔ لیکچر میں جب بھی سر کی نظر مجھ پر پڑتی ہے تو سانس ایسے روک روک کے چل رہی ہوتی ہے جیسے آپ چھپے ہوں اور جن آ کے ایک دم چاہ کر نے والا ہے جیسے موویز میں نہیں ہوتا شیزہ نے منہ بنا کے کہا
وہ کلاس میں داخل ہوئیں تو ہانیہ ساری کلاس خالی ہونے کے باوجود آخری بنچ پر جا بیھٹی ۔۔
ارے ہانیہ ! ادھر آ گے کی بنچ پر بیٹھو ۔۔ عنایا نے اسے حیرات سے کہا
نہیں ادھر سے وائٹ بورڈ سہی دکھائی دیتا ہے وہاں اگے ڈ یس آ جاتا ہے ۔۔ہانیہ نے جواب دیا
ہمہم.....ہم بھی پھر پیچھے ہی چلتے ہیں۔ رباب بولی
ابھی وہ اٹھی ہی تھیں کے وجدان اندر داخل ہوا ۔۔ان سب کو 15 منٹ پہلے دیکھ کے روکا ۔۔
آپ سب اتنی جلدی... ہانیہ کو دیکھ کر ہلکا سا مسکرایا ...
علم کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں ۔۔ ہمیشہ کی طرح شیزہ کی زبان پھسلی ۔۔۔ مر گئے ۔۔۔ شیزہ نے آہستہ سے کہا
آپ لوگوں سے ایسی امید نہیں ہے ۔۔اور آپ سب کبھی آگے بھی بیٹھ جایا کریں ۔ اس نے شیزہ کو نظر انداز کر کے ہانیہ کی طرف دیکھا جو اپنی کتابیں سمیٹ کر اگے آ رہی تھی ۔۔
وہ جا کے اپنی کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔ اپنی نظر کی چشمہ لگا کر پڑھنے کی ایکٹنگ کرنے لگا ۔۔ اس کی نظریں بار بار اس کو اپنے حصار میں لیتیں تھیں
ادھر ہانیہ کو سخت چڑ ہو رہی تھی ۔۔۔ اس کی ان حرکتوں پر ۔۔ کتاب اٹھا کر منہ کے سامنے کر لی
مس ہانیہ آپ پڑھ رہیں ہیں ۔۔ وجدان نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوے کہا
جی سر ۔۔ انتہائی بیزار ی سے بولی
وجدان ایک لمحے کو چپی لگی ۔۔ پھر بولا مس ہانیہ کیا الٹی لفظ بھی آپ کو سمجھ آتے ہیں
ہانیہ نے پہلے اوپر دیکھا. .. پھر کتاب کو دیکھا۔۔۔۔ یار افف میں بھی نا ۔۔ بک الٹی پکڑی دیکھ کے ہانیہ سٹپاٹائی
وجدان مسکرایا ۔
پھر سٹوڈنٹس آنا شرو ع تو سب کلاس کی طرف متوجہ ہو گئے
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
اب کیوں بیچھے پڑا ہے ... پہلے کرتوت کم ہیں..
افف ۔۔ دل کرتا ہے قتل ہی کر دوں ۔۔۔
پتا نہیں خود کو کیا سمجھتا ہے اتنی گری پڑی ہوں کیا ۔۔
ہانیہ نے اپنے کمرے میں لیٹے ہوے غصے سے سوچا
میر وجدان شاہ کمزور مت سمجنا مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی. تین سال پہلے
آج ہانیہ لندن کی ہواؤں کو محسوس کر رہی تھی ۔۔۔
ارے فضل بابا آپ ابھی بھی جاب کرتے ہیں ۔۔ اس نے فضل بابا سے پوچھا جو اس کو ایئر پورٹ لینے تھے
فیاض ملک سے پہلے ہی کوئی امید نہیں تھی پر دل میں ایک درد ابھی بھی اٹھا تھا جس کو چھپا گئی تھی
ارے کہاں بیٹا بس تمہارا آنے کا سنا تو چلا آیا ۔۔ وہ فیاض صاحب تھوڑا مصروف تھے نہ ۔۔فضل بابا نے اس کو بتانا چاہا
بابا رہنے دیں آپ بھی جانتے ہیں میں بھی ۔ وہ ہر وقت مصروف ہی رہتے ہیں ۔۔ چلیں گھر چل کر ہی مل لوں گی ۔ہانیہ نے منہ بناتے ہوے کہا
یہ کہ کر وہ کار میں جا کے بیٹھ گئی ۔۔
ایئر پورٹ سے گھر تک کا سفر کیسے تہ ہوا تھا اس کو یاد نا تھا ۔۔اس بس یاد تھا تو یہ کے نہ تو موسم بدلہ ہے نہ لوگ ۔۔ پتا نہیں کب بابا کب رشتوں پر توجہ دیں گے
یہ نہیں تھا کے ریاض صاحب برے تھے ۔۔۔ پر بہت کچھ پانے کی چاہ میں بہت کچھ کھو بھی دیا تھا ۔۔
وہ فضل بابا کے ساتھ جو ہی اندر داخل ہوئی تو ریم بیگم سے اس کا سامنا ہوا ...جو فون پر بات کر رہی تھی ۔۔ کیسی ہو " ریم بیگم کی آواز سن کر وہ رکی.
ٹھیک ہوں.... پھر فضل بابا سے بولی
بابا مجھے میرا کمرہ دیکھا دیں ۔۔
ریم بیگم نے اس کے رویہ پر تضحیک محسوس کی پر کچھ بولیں نہیں ۔۔
ہانیہ اپنے کمرے میں آ کے لیٹی تو پھر اجنبی ملک میں اکیلے کے احساس سے آنکھوں میں نمی آ گئی ۔۔ پتا نہیں امی نے ابھی کال کیوں نہیں کی ۔۔ چلو تھوڑا آرام کر لیتی ہوں پھر فون کروں گی ۔۔پھر لمپ کی روشنی بند کر کے سو گیی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
حال
اور سناؤ ہانیہ یار بڑے دن سے میں نوٹ کر رہی ہوں کہ تم اپنی ہی دنیا میں گم ہو ۔۔ دعا نے ہانیہ کو گم سم بیھٹے دیکھ کر کہا
ہا ۓ ۔۔۔ہانی کہیں عشق کا روگ تو نہیں لگا بیھٹی ۔۔
بے خودی بے سبب تو نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
شیزہ نے بھی اپنے مخصوس انداز میں پوچھا ۔۔۔۔
جس پر ہانیہ کی طرف سے اس کی ایک د ھپ موصول ہوئی ۔۔۔
"تم لوگوں کا تو دماغ ہی خالی ہے کسی اچھی چیز کی امید تو کی ہی نہیں جا سکتی "
اب تو پکا کوئی "س " ہے اردو والا ۔۔۔ عنایا بھی اپنا حصہ ڈالتے ہوے بولی
تمہارا تو ادھر میں "س " بناتی ہوں وہ بھی انگلش والا ۔۔ تنگ آ کر ہانیہ نے اپنے رول کے ہوئے نوٹس کا نشانہ عنایا کی طرف لگایا
جس پر سب کے منہ حیرت اور ڈر سے کھولے ہی رہ گے ۔۔ کیونکہ ہانیہ کا نشانہ چونک گیا تھا ...