آج سب لوگوں نے مل کر مال جانے کا پلانے بنایا۔وجدان کو ساتھ لے کے جانے کے لئے ہانیہ کو بھی ساتھ شامل کر لیا ۔ ان لوگوں پر نظر رکھنے کے لئے زرینہ اور سمیہ بیگم بھی ساتھ آئیں تھیں ۔جبکہ شازمہ بیگم کسی کام۔ کی وجہ سے نہ آ پائیں تھیں ۔ ارسل شیزہ رباب سب کو ملا کر یوں محسوس ہو رہا تھا کے گویا کوئی بارات جا رہی ۔یہ سولہ لوگ چار گاڑیوں پر سوار ہوئے
مال میں پہنچ کر زمان ،کومل اور وجدان ، ہانیہ نے اپنے راستے الگ کرلئے جبکہ عنایا بیگم کو ہوش بھی نہ تھا ۔بقول زین۔ کے وہ خود ہی کباب میں ہڈی بنتی ہے
"کومل کھانا کھانے چلتے ہیں ۔" زمان نے کومل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
"جیسا آپ کو بہتر لگے مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا۔میں کونسا کبھی مال گئی ہوں ۔" کومل بے دھیانی میں بول گئی
۔ چاچو کے گھر میں اس کی مرضی کم۔ ہی پوچھی جاتی تھی ۔ زمان اس کی چچی کی فطرت سے واقف تھا ۔ ورنہ چچا کے حالت اتنے برے نہ تھے کے وہ مال میں شاپنگ نہ کر سکیں ۔اس چیز کا زمان کو ملال تھا ۔
"تم !! آؤ میرے ساتھ میں تمھیں بتاتا ہوں سب کچھ اور ساتھ شاپنگ بھی کرتے ہیں ۔پھر کھانا کھائیں گے اور ساتھ سلفیز بھی لیں گے ۔ " زمان نے کومل کو اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے کہا ۔
"پاگل " کومل نے مسکرا کر پیار سے اس کو دیکھا ۔ اس کی زندگی میں اتنے اچھے ہمسفر کو پا کر اپنے رب کی شکر گزار تھی ۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
وجدان اور ہانیہ بھی ساتھ ساتھ گھوم رہے ۔ جبکہ ساری شاپنگ ہانیہ ہی کر رہی تھی ۔
"ہانیہ! میرا نہیں خیال کے اس زیادہ شاپنگ بیگز میں اٹھا پاؤں گا ۔" وجدان نے ہاتھ میں پکڑے سات شاپنگ بیگز کی طرف دیکھ کر کہا
"اوہو ! وجدان آپ اتنا بھی نہیں کر سکتے میرے لئے ۔بس ایک جگہ اور روکنا ہے پھر چلتے ہیں ۔" وہ کہتے ہوۓ آگے بڑھ گئی ۔
" آج کل محبت کرنا بھی ساتھ سمندر تیر کر پار کرنے کے برابر ہے۔ " وجدان بڑبڑایا
"آپ نے کچھ کہا ۔ " ہانیہ کی آواز پر وہ چونکا ۔
"نہیں چلو ۔" وجدان کہہ کر اس کے ساتھ چل پڑا ۔
وہ لوگ شاپنگ کر کے باہر آئے تو وجدان نے سب کو جانے کے لئے کہہ دیا کے وہ ہانیہ کے ساتھ آ جائے گے ۔
سب لوگ گھر کی رہ ہو لئے
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
"وجدان میرے خیال میں ہم لوگوں کو بھی گھر چلے جانا چاہیے ۔ " ہانیہ نے اپنا سر دباتے ہوئے کہا
" شوپنگ کی جا سکتی ۔ بس میرے ساتھ نہیں آ سکتیں ۔"
"اچھا اچھا چلیں کہاں جانا ہے ؟ " ہانیہ نے اس کو ناراض ہوتے دیکھ کر کہا ۔
"آ ئس کریم کھانے چلتے ہیں " ہانیہ نے خود ہی مشورہ دے ڈالا
"مجھےایک جگہ کا پتا ہے اگر آپ کی شان میں گستاخی نہ نہ ہو تو ۔" ہانیہ نے وجدان کی طرف دیکھ کر کہا
"نہیں ہو گی آپ بولیں تو سہی " وجدان نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کہا ۔
وجدان نے ہانیہ کے بتائے ہوئے آئس کریم پار لر کے سامنے گاڑی رکی ۔
"ایک کام کرتی ہوں کے میں وہاں جا کے بیٹھتی ہوں آپ بھی وہیں آ جانا اور میرے لئے بلیو بیری فلیو ر ۔۔" یہ کہ کے ہانیہ گاڑی سے باہر نکل کر چل دی
"زیادہ دور مت جانا ۔" وجدان پیچھے سے بولا ۔ لیکن ہانیہ آگے جا چکی تھی ۔
"یہ لڑکی کبھی زندگی میں میری بات سنے گی بھی ۔"
وہ کہتے ہوئے باہر نکلا اور شاپ کی طرف چل دیا ۔ شاپ پر کافی رش تھا ۔
کچھ دیر بعد وہ آ ئس کریم لئے ہانیہ کے پاس پہنچا ۔
"اس سے اچھا تھا ہم کسی ریسٹورانٹ میں کھا لیتے ۔" اس نے بڑبڑاتے ہوئے اپنا سر اٹھایا تو اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین کسک گئی
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
ہانیہ پارک میں بیٹھ کر اپنے موبائل پر شیزہ کو میسج کر رہی تھی جب کسی کی آواز پر پلٹی ۔
"ارے !! مسز خیام کسی ہیں آپ ؟ اور رانیہ کیسی ہے ۔ میں نے اس سے کچھ نوٹس مانگے تھے اچھی پڑوسن ہے جو میری مدد نہیں کر سکی ۔" ہانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
"نہیں !! بیٹا وہ بس اپنی ایک کزن کی شادی میں بزی ہے ۔" مسز خیام نے جواب دیا ۔۔
"ہانیہ بیٹا کیسی ہیں ۔" خیام صاحب بھی پیچھے سے آئے ۔
"میں ٹھیک ہوں انسپکٹر انکل آپ کیسے ہیں میں بلکل ٹھیک ہوں بیٹا ۔ آپ اکیلی آئی ہیں ۔" انہوں نے ہانیہ کو اکیلے بیٹھے دیکھ کر کہا ۔
"نہیں میرے ہسبنڈ بھی ساتھ ہیں۔ابھی نکاح ہوا ہے ۔" وہ وجدان کے ذکر پر مسکرائی ۔
"کب ؟ مبارک ہو بیٹا ۔"اب کے مسز خیام بولیں ۔۔تب ہی خیام صاحب کے فون پر میسج آیا
"مبارک ہو میری طرف سے بھی ۔ابھی ہم لوگوں کو چلناہو گا ۔ مجھے ایک ضروری کام پر جانا ہے ۔ پھر کبھی آپ کے ہسبنڈ سے ملاقات ہو گی ۔ " وہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے
"میں آئس کریم کھائے بغیر نہیں جاؤں گی ۔پہلے بھی آپ نے ایسے ہی کیا تھا ۔ "مسز خیام بولیں
"اچھا چلو ٹھیک ہے ۔ "خیام صاحب نے تیزی سے چلتے ہوئے کہا
ہانیہ مسکرا کر واپس بیٹھی ہی تھی کہ اس کی نظر سامنے کھڑی ایمان پر پڑی ۔۔ ایمان کو کھڑا دیکھ کر اس کو حیرانی ہوئی ۔ لیکن اس سے زیادہ شاک اسکو اس کی ابتر حالت پر ہوا
ا"یما تم ٹھیک تو ہو نہ یہاں کیا کر رہی ہو؟" ہانیہ نے اپنی سیٹ سے اٹھتے ہوئے کہا
"نہیں ہانیہ ڈارلنگ ! ابھی تو میں بلکل بھی ٹھیک نہیں ہوں ۔لیکن جب تم مر جاؤ گی ۔تو میں بلکل ٹھیک ہو جاؤ گی۔'' وہ ہز یانی کفیت میں ہنسی
" کیا !!!" ہانیہ سے ایمان کی طرف یوں دیکھا گویا اسے ایمان کی بات سمجھ نہ آئی ہو ۔
"ایمان تم کیسی باتیں کر رہی ہو ؟ دیکھو تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ۔تم آرام سے بیٹھو ہم بات کرتے ہیں ۔"
ہانیہ کے گرد خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں ۔
"تمھیں میں پاگل لگتی ہوں ۔ تم ۔۔۔۔تم نے میرے وجدان کو مجھ سے چھین لیا ۔ تم ہم لوگوں کے بیچ آئی ۔ورنہ وہ تو ہمیشہ سے میرا تھا بچپن سے لے کے آج تک ۔ میں نے تمھیں اس سے دور کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ۔وہ پیکس وہ ریکارڈنگ ہر چیز پیسا پانی کی طرح بہایا ۔ تاکہ میں وجدان کی ملکہ بن کے رہ سکوں لیکن تم پھر سے ہم دونوں کے درمیان میں آ گئی ۔ "
یہ کہتے ہوئے اس کی آواز خوف ناک حد تک سپاٹ اور برف جیسی سرد تھی ۔ایمان کی بات سن کر اس کی ڑیڑ ھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑ گئی ۔
"وہ سب تو ۔۔ جیس نے کیا تھا ؟" ہانیہ نے یک قدم پیچھے ہوتے ہوئے کہا۔ جس پر ایمان نے اپنے بیگ میں ڈھونڈتے ہوئے اپنا منہ اوپر اٹھایا اور کسی ہارر مووی کے جوکر کی طرح مسکرائی ۔ ہانیہ دو قدم اور پوچھ ہوئی اسے ایمان کی دماغی حالت پر شک ہوا ۔
"وہ ۔ بیچاری جیس ۔ اس دل میں نفرت بھی میں نے ہی بوئی تھی کے تمہیں وجدان نہیں اس کے پیسے سے محبت ہے ۔ معصوم سی۔۔ جیس ۔۔۔۔میرے جال میں پھنس گئی ۔میں نے اس لڑکے کو جیس کا نمبر دیا اور اس سے بلکل جیس کے گیٹ اپ میں ملی ۔"
یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا چہرے کسی چھوٹے بچے کی طرح کندھے کی طرف سے جھکا یا ۔
"پر میرا پلان ناکام ہو گیا ۔ صرف اس میلوڈی کی وجہ سے"" اس نے نخو ت سے کہا ۔اور گن ہانیہ کی طرف تان دی
"پر اب تو پلان کی ضرورت ہی نہیں ہے
نہ رہے گی ہانیہ، نہ ہوگی وجدان کو ہانیہ سے محبت ۔ "یہ کہتے ہی اس نے ٹریگر دبا دیا ۔
"ایمان نہیں !!!!! " ہانیہ چلائی
" ہانیہ !!!!! " وجدان کی آواز بلند ہوئی
ہانیہ کی سانس گویا بلکل سا کن ہو گئی ۔
ہانیہ کو بچانے کے چکر میں گولی وجدان کے پھپھڑوں کے پاس جا لگی ۔
"وجدان !!!! " ہانیہ کی دل خراش چیخ فضا میں گونجی تھی ۔ بہار کے موسم میں کھلنے والے پھول ایک پل میں زردی مائل ہوئے ۔
ہا ۔نیہ !! وجدان درد سے بھری آواز میں اس کو پکارا
"وج۔۔ وجدان کچھ نہیں جو گا آپ کو ۔آپ حوصلہ ۔" ہانیہ نے ٹوٹے ہوئے لفظ ادا کئے اس کے ہاتھ خون سے رنگیں ہو چکے تھے
وجدان کی آنکھیں ہانیہ کے چہرے پر ٹھکیں تھیں ۔اس کے آنکھوں کے پانوں پر فلم چل رہی تھی ۔ ہانیہ سے ملاقات سے لے کے آج تک کی سب باتیں یاد آ رہیں تھیں
وجدان کو سانس لینے میں دشواری محسوس ہو ئی ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کالے نقطے آنے لگے ۔ سائرن کی مدہم آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہیں تھیں ۔
"ہا ۔۔ہانیہ !! تمھیں پتا ہے ۔۔۔۔۔
پروانہ شمع کو اپنے عشق کا یقین کیسے دلاتا ہے ۔۔۔"
اس نے ہانیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ کو کمزور گرفت میں لیتے ہوئے کہا۔
ہانیہ رو رہی تھی لیکن وجدان نے ہلکا سا مسکرانے کی ناکام کوشش کی ۔
"راکھ بن کر۔۔۔۔" وہ کہتے ہوئے ہلکا سا مسکرایا
" میں ہمیشہ خود ۔۔ کو ۔خوش ۔۔ نصیب ۔۔ محسوس ۔ کرتا ۔۔ ہوں ۔ کہ مجھے ۔تم ۔سے ۔ محبت ہوئی" وجدان کے ہاتھ کی گرفت دھیلی پڑی
"وجدان ہوش میں رہو ۔دیکھو مجھ سے بات کرو "۔وجدان
ہانیہ بولی ۔
" میم۔۔۔ پلیز جلدی۔۔ کریں ۔" وہ کانپتی ہوئی آواز لئے مسز خیام سے بولی
"ہانیہ بیٹا !! حوصلہ کریں ٹھیک ہو جائے گا سب ۔"۔ اانہوں نے ڈرائیونگ کرتے ہوئے کہا
"یا اللہ ۔۔" وجدان درد کی شدد سے بولا ۔ اور کچھ مدہم آواز میں بول رہا تھا پر ہانیہ کو کچھ سنائی نہیں دیا ۔
"وجدان !! " ہانیہ چلائی لیکن وہ ہوش و خر د سے بے گانہ ہو چکا تھا ۔۔
زرد سائے لئے اداسی کے
دل کے آنگن میں شام اتری ہے ۔۔۔
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁