یہ کہہ کروہ تو بیٹھ گئی پر سامنے والا جا مد ہو چلا تھا اس کو لگا اس کے اندر بجلی کی سی ایک لہر دوری ہے
ماحول میں ارتعاش سا پیدا ہوا ۔ بہت سے باتیں۔ بہت سی یادیں ذہن کے پانو ں سے گزر یں۔۔۔
وجدان شاہ وہاں ہی سن کھڑا رہتا مگر کسی ٹیچر نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کو ہوش آیا
وجدان یہ تم اپنے نوٹس وہیں چھوڑ آے تھے " مس ساشا نے ایک ادا سے اپنے بال بیچے کیے
بہت شکریہ مگر آج کے بعد آپ مجھے سر کہہ کر ہی مخاطب کریں تو اچھا لگے گا یہ کہ کر وجدان نے دروازہ بند کر دیا
اس بات پر ساری کلاس کے منہ کھلے کے کھلے رہ گے ۔۔ وجدان نے اپنا سر جھٹک کر ہوش میں انے کی کوشش کی
جی تو کلاس اپنی اپنی نوٹ بکس نکا لیں آج ہم سٹا ٹیکس کی بیسک پڑھیں گے کیو نکہ آپ کیمسٹری کے سٹوڈنٹس ہیں تو آپ کو کیمسٹری statistical analysis میں کام آ ئے گا اس لئے بھی انٹروڈکشن کروانا ضروری ہے "
اتنا کہ کر وجدان نے پھر سے کلاس پر نظر دوری دشمن جان چپ تھی
مس ہانیہ
(are you paying attention to the lecture ?)
کیا آپ لیکچر کو توجہ سے سن رہیں ہے ¿
یس سر ! ہانیہ کی آواز انتہائی سرد تھی جس پر وجدان کیا ساتھ بیٹھی اس کی دوستوں نے بھی نوٹس کیا تھا
جواب سن کر وہ وائٹ بورڈ پر لیکچر کے پوائنٹس لکھنا شروع ہو گیا دل میں ایک زخمی سی مسکراہٹ لئے۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکچر کے بعد سب کلاس سے باہر آئے تو شیزہ پوچھے
بنا نا رہ سکی "ہانیہ کیا ہوا کوئی پرابلم ہے آج کلاس میں بھی سٹاچو بن کر بیھٹی تھی زیادہ بولی بھی نہیں میں نے دو بار تمھیں مخاطب کیا لیکن جواب نادارت ۔"
کچھ نہیں ہوا یار بس ویسے ہی آج آنے کا من نہیں تھا سو بس اس لئے ۔"
چلو تم کہتی ہو تو مان لیتی ہوں لیکن میری نظر تم پر ہی ہو گی ۔۔شیزہ بولی ہاں جی کوئی دیکھے نا دیکھے شیزا تو دیکھے گی سب کو رپورٹس جو دینی ہوتیں" دعا بولی
چپ کر دعا مسنی تیری رپورٹس دوں ذرا ادھر ادھر ہاں "شیزا نے ترکی با ترکی جواب دیا
یہ کونسی رپورٹس ہیں اب کے عنایا بھی ادھر متوجہ ہوئی
دعا کی تو آنکھیں ہی باہر انے والی ہوگیئں ۔ہاں یہاں کیا چل رہا ہے ذرا ہمیں بھی پتا چلے اب جب ہانیہ کی طرف سے سب کا دھیان اٹھ گیا تو وہ بھی بولی۔
کچھ بھی نہیں ہے وہ کل میں لیٹ ہو رہی تھی تو ارباز سے کہا کے ڈراپ کر دے لیکن اس شیزا کی آنکھوں میں تو دور بین فٹ ہے ۔۔ نو جی ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ اس نے دیکھا نا ہو “ دعا تنگ آ کے بولی
اہ ہا لیٹ ۔۔۔ہمہمہم تو تم ڈرائیور کے ساتھ آ جاتی یا ارباز نے سوچا چلو نیک کام کرکے حاتم تا ئی کی قبر پرلات مارتے ہیں اب کے رباب نے بھی اس کی کِٹ لگائی
.مس ہانیہ آپ کو مس سمارا بولا رہی ہیں ایک سٹوڈنٹ کی آواز پر وہ سب چو نکی
اوپس ۔۔ اب تو میں گئی ہانیہ بربڑائی "کیوں کیا ہوا ہے دعا نے پوچھا یار فزیکل کیمسٹری کی اسینمنٹ نہیں جمع کروائی میں آئی ابھی ۔۔
یہ کہتے ہی ہانیہ تو جسے اپنی جگہ سے چو منتر ہی ہو گئ چلو ہم اگلی کلاس میں چلتے ہیں عنایا بولی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے فکیلٹی روم میں چیک کیا تو چپرا سی نے بتایا کے وہ سب نئے ٹیچر کو ویلکوم پارٹی دے رہے ہیں جس پر پہلے تو دل کیا نا ہی دے پر آج سبمٹ کروانے کا لاسٹ ڈے تھا تو مارے بندے چلی گئی وہ تیزی سے اپنی دھیان میں جا رہی تھی جب زور سے اس کی ٹکر ہوئی کے سر ہی گھوم گیا
اافف ۔۔اب کیا دیواریں بھی ہیری پوٹر کی سیڑھیوں کی طرح iدھر ادھر شفٹ ہونا شرو ع ہو گئیں ہیں جب اوپر دیکھا تو منہ حلق تک کڑوا ہوا سامنے سر عشر کو دیکھ کے ۔۔
السلام علیکم سر کیسے ہیں آپ ؟اس نے اکتا ہٹ سے بولا
اررے مس ہانیہ آپ تو ہمیں بھول ہی گئیں جب سے کمپوٹر کی کلاسس ختم ہوئی ہیں ۔
نہیں سر بس پڑھنے میں بزی ہوں مجھے ابھی اسینمنٹ جمع کروانی ہے اللہ حافظ سر
یہ کہتے ہو ئے اس نے خو کو اولمپک کا چیمپئن سمجھتے ہوئے دوڑ لگا دی
لو اس کو کیا ہوا لگتا ہے اب اس کے والدین سے ہی ملنا ہو گا عشر نے مسکراتے ہوئے کہا
تمیں تو اب ڈاکٹر سے ہی ملنا پڑے گا کچھ فاصلے پر موجود وجدان نے غصے سے اپنی مٹھیا ں بند کرتے ہو ئے سوچا یہ سوچتے اس کے چہرے پر ایک سرد مسکراہٹ دوڑ گئی۔۔۔۔ پھر ہال کی طرف چل پڑا
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ ہال میں پہنچی تو وجدان کو نا پا کر سکھ کا سانس لئے پھر مس سمارا کی طرف چل پڑی
مس یہ میری اسینمنٹ ۔۔ جو چھٹی کی وجہ سے میں جمع نہیں کروا پائی تھی ہانیہ نے مس سے کہا
ہاں ہانیہ بیٹا آپ کو ہی بلایا تھا میں نے آپ سے اس غیر ذمداری کی تو قع نہیں تھی آپ کو لیو ہی لے لینی چاہئے تھی
آج تو نا ڈانٹے میم سمارا میرا فرسٹ ڈے ہے ٹیچنگ کا اور آپ آج بھی ڈانٹنے لگی
وو جواب دینے ہی لگی تھی جب وجدان کی آواز اس کے قریب سے ائی وہ تو ڈر کے اچھلی اور پاؤں کے مڑ نے سے وجدان سے ٹکرا ئی جس نے جلدی سے اس کا ہاتھ پکڑ کر گرنے سے بچایا تھا
جو چیز جس کی ہوتی ہے اس کے پاس ہی آتی ہے یہ دل میری ملکیت میں ہے ۔۔تم چاہ کر بھی واپس نہیں حاصل کر پاؤ گی کبھی ۔۔ یہ میر کا وعدہ ہے ۔۔ وجدان نے ہانیہ کو گرنے سے بچاتے ہوے کان میں بولا
سمبھل کر مس ہانیہ ۔۔۔ جب وہ سمبھل کر کھڑی ہوئی تو وجدان بولا
اس کی اس حرکت سے ہانیہ کی ڑیڑ کی ہڈ ی میں سنسی سی دوڑ گیی ارے ہانیہ بیٹا آپ ٹھیک ہو مس سمارا کے پوچھنے پر وہ حال میں لوٹی
جی میم بلکل ٹھیک ہوں میں چلتی ہوں ۔۔ اتنا کہ کر وہ تیزی سے وہاں سے چلی گیی
پتا نہیں عجیب ہی برتاؤ کر رہی ہے آج یہ بچی وجدان اس کو جاتے دیکھ کے ایک بار مسکرایا پھر میم سمارا کی طرف متواجہ ہوا
پر اب اس کی آنکھوں میں اب وہ نرمی نہیں تھی جو ہانیہ کو دیکھتے ہوۓ تھی
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
نانا ۔۔۔ مان جاییں نا میرے پیارے نانا نہی ۔۔ ہانیہ نے دنیا کی معصومیت چہرے پر لا تے ہوے کہا تھا
ہانیہ میرے بچے مجھ سے ایسی چیزیں مت مانگو جو مجھے اور باقی سب گھر والوں کو تکلیف دیں ۔۔
نانا جی بس دو مہینے کی ہی تو بات ہے جانے دیں نہ لندن ۔۔ میں تو بس لندن دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔ اب بابا نے بلایا ہے تو ۔۔ ۔۔ پلیز ۔۔۔
ہانیہ نے ضد کرتے ہوۓ کہا
چلو ٹھیک ہے لیکن صرف دو مہینے کے لئے ایک دن اوپر نہیں ۔۔یہ کہ کر زولقر نیں صاحب وہاں سے چلے گے
آر و اہ اب تو مزے ۔۔ہانیہ خوشی سےنعرہ لگاتے ہوۓ اندربھا گ گیئی
*****************
بابا میں نے اس کو آپ کے پاس اس لئے بیھجا تھا کے آپ اس کو منا کر دیں گے ۔۔ مگر آپ تو راضی ہو گے۔۔ بابا آپ سے یہ امید تو نہیں تھی
آپ منا کر بابا دیں سمیہ زولقر نیں التجا یا انداز میں بولیں
حوصلہ کرو سمعیہ ۔۔۔ دو مہینے کی ہی تو بات ہے ہانی آ جائے گی واپس ۔۔ زو لقر نیں صاحب بولے
پر بابا ۔۔سمیہ نے کچھ کہنا چاہا ۔۔
بس اب بہت بحث ہو گئی ۔۔ اگر وہ چاہتی ہے تو جانے دو۔۔
جی بابا ۔۔۔ ٹھیک ہے اگر آپ کو لگتا ہے تو ۔۔ وہ یہ کہہ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیئں ۔