یسمیہ بیگم نے کانپتے ہوئے ۔اپنے فون پر نمبر ملایا دوسری بیل پر فون اٹھا لیا گیا تھا ۔
"ہیلو ۔ یہ ،ایس ار کمپنی ہے بولیے آپ کس سے بات کرنا چاھتے ہیں" ۔ انگریزی لہجے میں پوچھا گیا سوال سمیہ بیگم کی سماعتوں سے ٹکڑا یا
انہوں نے گھرا سانس لئے اور مخا طب ہوئیں ۔
"میں مسٹر ریاض سے بات کرنا چاہتی ہوں ۔ ان سے بولیں ایک ضروری کال ہے ۔"
"میم سر اس وقت میٹنگ میں ہیں ۔ آپ پیغام بتا دیں ۔ میں سر تک پہنچآ دوں گی "۔ اس لڑکی نے ان کو خبر دی
نہیں آپ ان کو ایک دفع پیغام بیھج دیں ۔ ان سے کہیں سمیہ زوالقرنین کا فون ہے ۔ "سمیہ بیگم ہمّت جتا کر بولیں
"جی ۔ ٹھیک ہے" ۔۔ اس لڑکی نے جواب دیا
دوسری طرف ریاض صاحب میٹنگ میں مصروف تھے ۔ تب ہی ان کا فون بجا ۔
”ہاں ۔ "مس زارا بولیں ۔
"سر ایک میم کی کال آئی ہے میں نے ان کو بتایا ہے آپ بزی ہیں پر وہ ریکویسٹ کر رہیں ہیں "۔ زارا نے جواب دیا
"میں ابھی بزے ہوں آپ ان کو بعد کا کہ دیں ۔"۔ ریا صاحب کھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوۓ بولے
"جی سر میں میم سمیہ کو بتا دیتی ہوں ۔ "زارا کے جواب پر ریاض صاحب کے ہاتھ سے فون گرتے گرتے بچا
"لائن پر لائیں ان کو ۔۔” پھر اسٹاف کی طرف دیکھ کر بولے "میٹنگ اس ڈسمیسڈ "
"جی سر"۔ زارا نے یہ کہ کر فون سمیہ کی طرف ڈائریکٹ کر دیا
"السلام علیکم ! سمیہ ۔۔” وہ کچھ حوصلہ کر کے بولے
سمیہ بیگم کو تو سانپ سونگ گیا ۔ہونٹ سیل سے گئے ۔
"سمیہ ۔ "دوبارہ ریاض صاحب بولے
"وعلیکم السلام ! ریاض صاحب۔۔۔۔۔ زیادہ وقت نہیں۔ لوں گی ۔"
انہوں نے گھرا سانس لیا ۔
" بس یہ بتانے کے لئے فون کیا ہے ۔ کہ ہانیہ کا رشتہ تہ ہو گیا ہے ۔ اگلے ہفتے نکاح ہے آپ کی بیٹی ہے اس لئے آپ کو مطلع کر دیا ۔ نکاح ور آنا چاہیں تو آ جایئں" ۔ یہ کہ کر سمیہ بیگم نے فون رکھ دیا ہمّت جواب دے گئی آنکھوں سے موتی نکل گال پر گرے
دوسری طرف ریاض صاحب ۔ جو سن سے ہوئے سجن رہے تھے ۔ کتنے عرصے بعد آواز سنی تھی سمیہ کی ۔۔ ان کی آواز آج بھی ان کے دل میں .بے ربط تسلسل پیدا کر دیتی تھی ۔
"کم سے کم مجھے بتانے کا خیال تو آیا ۔ "انہوں نے افسوس سے سوچا
" میرا خیال ہے سمی اب وقت آ گیا ہے کے تم سچائی سے روشناس ہو جاؤ ۔ ریم بیگم تو چلی۔ گئیں ۔ اب مجھے بھی واپس پاکستان چلے جانا چاہیے ۔ تمیں دیکھے گئیں صدیاں بیت گئیں ۔۔گئیں زمانے بیت گئے "
یہ کہتے ہی وہ واپس اپنے آفس کی طرف بڑھ گئے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بابا "۔۔سمیہ بیگم نے زوالقرنین صاحب کو پکار ا ۔
"جی بچے "۔۔ ان کے ہاتھ کھانا کھاتے ہوۓ روکے
"بابا ۔ریاض ہانیہ کے نکاح میں آ رہیں ہیں ۔ "وہ ان کے چہرے کے تصورات جانچتے ہوۓ بولیں
ا"س کو خبر کس نے د ی ۔۔ وہ اس چیز کا حق نہیں رکھتا ۔ اپنی بچی کو پال نہیں سکا ۔۔ تم دونوں کو گھر سے نکال دیا ۔" وہ ایک لمحے میں غصے میں آئے
"بابا ۔میں نے فون کیا تھا اخر جو بھی ہے وہ ہانیہ کے والد ہیں ۔آپ پلیز ان کو نکاح میں کچھ مت کہیے گا نہیں تو بد مزگی ہو جائے گی ۔۔ ہانیہ کے دل میں ویسے بھی میں باپ کا کھوٹ نہیں ڈالا ۔۔تو وہ بھی سوال کر ے گی ۔ ہانیہ کے لئے ۔۔" سمیہ بیگم نے ین کو سمجھنا چاہا ۔۔
"ٹھیک ہے ۔پر مجھ سے کوئی اچھے رویے کی امید نا رکھے "
وہ کہ کر وہاں سے اٹھ کر چل دئے ۔۔
۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی تین سال پہلے
ہانیہ پچھلے ایک ہفتے سے ڈرائیونگ سیکھ رہی تھی
وہ اس وقت . بالکونی میں بیٹھی تھی جب فون کی آواز نے ماحول میں ارتعاش پیدا کیا
اس نے فون اٹھایا تو میلوڈی کا نمبر دیکھ کر پک کر لیا ۔۔
"ہاں میلو ڈی بولو ۔۔کوئی کام تھا ۔۔"
"نہیں کام تو کوئی نہیں ہے ہم دوست ہیں تو میں فارغ ہوں تو سوچا اگر تم گھومنا چاہو لندن تو ۔۔"
"ہاں کیوں نہیں ۔۔ کب اور کہاں ملوں ۔" ہانیہ نے کرسی سے اٹھتے ہوۓ کہا
"تم ایک کام کرو (millienum wheel (london eye کے پاس آ جاؤ پہلے وہ دیکھنے چلتے ہیں "۔۔ شائد کھلا ہو تو بیٹھ بھی جاییں گے
"میں آ تو رہی ہوں ور مجھے اونچائی سے ڈر لگتا ہے تم ہی بیٹھنا " ۔۔وہ کمرے کی طرف بڑھتے ہوۓ بولی
"تم آؤ تو سہی" ۔۔ یہ کہ کر میلو ڈی نے فون رکھ دیا
ہانیہ فون رکھتے ہی ۔ ڈریسنگ روم میں چلی گئی ۔۔ کوئی ایک گھنٹے کی تنگ و دو کے بعد تیارہو کر نیچے اتری ۔۔
"کہاں جا رہی ہو آپ "۔۔ ریم بیگم کی آواز پر وہ رکی ۔۔
"میں بس میلوڈی کے ساتھ جا رہی ہوں اور میں جہاں بھی جاتی ہوں
فضل بابا کو بتا کے جا تی ہوں ۔"
وہ جلدی جلدی بتا کر باہر نکل آئی ۔۔
"فضل بابا آپ مجھے millienum wheel لیں چلیں گے ۔"۔
وہ فضل بابا کو دیک کر بولی ۔۔
"تھوڑا دور ہےیہاں سے پر چلیں میں آپ کو لے چلتا ہوں بچے ۔" انہوں نے گاڑی کی چابی نکالی ۔۔ تو ہانیہ گاڑی میں جا بیٹھی ۔۔ ہم کب تک پہنچ جایئں گے
"چالیس منٹ تو لگیں گے ”۔۔ فضل بابا نے جواب دیا ۔
"چلیں ٹھیک ہے" ۔۔اس نے اتنا ٹائم سن کر بیزاری سےکہا پھر میلوڈی کو ٹیکسٹ کر کے بتایا کے وہ اتنی دیر میں پہنچ جائے گی ٹیکسٹ کر کے وہ کھڑکی کے باہر کے مناظر دیکھنے لگی جب کے گاڑی اپنے راستوں پر رواں دواں تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ وہاں پہنچے تو فضل بابا کو اس نے گھر بیھج دیا ۔۔ جب میلو ڈی کے پاس پھنچی تو وہاں ز یک اور وجدان کو دیکھ کر حیران ہوئی پھر کھبرا نا شروع ہو گئی
"تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کے یہ لوگ بھی آ رہا ہیں ” اس نے میلو۔ ڈی کے سر پر پہنچ کر کہا
"کیوں ۔۔یہ لوگ نہیں آ سکتے ۔ "میلو ڈی نے سوالیہ نظروں سے اس کو دیکھا
"نہیں آ سکتے ہیں "۔ اس نے سمبھال کر کہا ۔۔" پتا نہیں کیا بز نس ہے کے ہر وقت فارغ پھر رہے ہوتے ہیں ۔۔"
”آپ نے کچھ فرمایا ہے "۔۔ہانیہ کو خبر ہی نا ہوئی کے کب وجدان اس کے سر پر پہنچا
"نہیں ہماری اتنی ہمت کہاں ۔۔ "
ہانیہ بول کر پیچھے موڑی تو وجدان کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی ۔۔ شکل سے تو کوئی سپر ماڈل لگ رہی تھی ۔۔ ہانیہ کا تو دل ہی بجھ گیا ۔۔
”ہانیہ یہ ایمان ہے ۔میری پچپن کی دوست جب میں بابا کے ساتھ اتا تھا لندن کبھی تو ایمان کے ساتھ ہی کھیلتا تھا اور ایمان یہ ۔۔"وجدان کی بات درمیان میں ہی رہ گئی
"یہ ہانیہ ہے ۔۔بہت پیاری ہے ۔ وجدان تمہار ا بہت ذکر کر رہا تھا فون پر وہ ۔"
"۔ ایما کو تو بس بولنے کی عادت ہے چلو سب گھومنے چلتے ہیں" ۔۔ وجدان نے ایمان کی بات کاٹتے ہوۓ کہا وہ ایما کو کھینچتے ہوۓ لے گیا ۔۔ کے موبادا محترمہ راز افشاں کی نا کر دیں ہانیہ نے الٹے سیدھے منہ بنا کے ان کو دیکھا پھر میلو ڈی کو ۔۔
"کیا ہوا تمہارا موڈ کیوں خراب ہے" ۔۔میلو ڈی بولی
" کچھ نہیں چلو "۔۔ اس نے ایک نظر ان کو دیکھ کر میلو ڈی کو کہا
۔۔۔۔۔۔
”ویل کھلا ہے اگر تم آنا چاہو میں تو جا رہی ہوں" میلوڈی نے ہانیہ کو کہا
"یار پر مجھے تو اونچائی سے ڈر لگتا ہے ۔"۔ ہانیہ نے اتنے بڑ ے جھو لے کا سائز دیکھ کر کہا ۔۔
"آؤ تو سہی میں ہوں نا ۔"۔ میلو ڈی کے اتنا کہنے پر اس نے کیپسول (capsule)میں قدم رکھا ۔۔
پیچھے سے وجدان بھی آیا" تم لوگوں نے ہمارا انتظار ہی نہیں کیا"
وہ سانس بحال کرتے بولا
زیک ۔میلو ڈی وجدان ہانیہ ایمان سب نے ایک ہی کیپسول میں جھو لا لئے جب ویل روکا تو ہانیہ کو پکڑ کر نیچے اترنا پڑا
"اف ۔میرے خدا۔۔اتنے چکر آ رہے ہیں ۔۔ لگتا ہے زمین کے ساتھ گھوم رہی ہوں ۔۔ " ہانیہ سرپکڑ کر بولی
”حوصلہ کرو ۔ میں پانی لے کر اتا ہوں"
وجدان نے اپنا ہڈ تھوڑا پیچھے کر کے کہا
"تم بھی حوصلہ کرو" ۔ ایمان نے وجدان کی پریشانی والی شکل دیکھ لقمہ دیا
جس پر وہ بس مسکرا ہی سکا ۔"میرے خیال میں اب گھر چلنا " وجدان نے سب کی طرف دیکھ کر بولا
"نہیں کیوں ابھی تو میں نے sea life aquarium بھی دیکھنا ہے ۔"۔ وہ وجدان کی طرف دیکھ کر بولی
"شکل دیکھی ہے اپنی سی لائف ایکوریام دیکھنے والی* ۔۔ وہ اس کی پیلی پڑتی رنگت دیکھ کر بولا
"تو ہم نے کونسا( mount everst) مو نٹ اورسٹ پر چڑ کر دیکھنا ہے ۔۔ یا (pacific ocean) پا سفک اشن میں ڈوبکی لگانی ہے کچھ نہیں ہوتا چلو ۔۔" وہ تھوڑی دیر بعد اٹھ کر کھڑی ہو گئی
"ہاں چلو اب ٹھیک ہو نا۔"۔ میلوڈی بولی
"ہاں ٹھیک ہوں" ۔۔ وہ پانی کا گھونٹ پی کر بولی
"پھر (brigde) برج بھی دیکھنا ہے ۔ جب وہ بحری جہاز کے لئے کھلتا ہے ور برٹش لائبریری اور بگ بن بھی ۔۔"
”بس کرو ایک ہی دن میں نہیں دیکھ سکتے ”۔۔ وجدان نے اس معصومیت پر مسکرا کر اس کو دیکھا ۔۔
اس کی مسکرا ہٹ ۔ پریشانی ۔ ہانیہ کے لئے۔۔وہاں موجود باقی تینو ں نفوس نے بھی دیکھی تھی
کہ وجدان کی محبّت چھپآئے نہیں چھپ رہی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔