"تم ۔۔" عنایا نے زین کے سر پر پہنچ کر مخاطب کیا
زین جو باہر سے کچھ سامان لے کر پہنچا تھا حیرت سے اس کی طرف پلٹا ۔۔
"بولو کوئی کام ہے "۔۔ وہ گاڑی سے سامان اتارتے ہوۓ بولا
"تم نے بات کی ہے رشتے کی ۔ زین میری مرضی کے بغیر یہ تم لوگ اچھا نہیں کر رہے "
زین اس کی بات سن کر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔۔
”کیا بول رہی ہو کونسا رشتہ" ۔ زین نے حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہوۓ کہا
"تم نے ۔میرے ۔۔اور ۔۔اپنے ۔ ۔رشتے کی بات کی ہے نا" ۔ عنایا ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولی
زین کو سارا معملہ اب سمجھ میں آیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری ۔۔دل نے ایک نئی دھن میں دھڑکنا شروع کیا
"سچ میں" ۔ وہ ایک لمحے میں آگے بڑھا ۔۔پر پھر روک گیا ۔۔ابھی نکاح نئی۔ ہوا ۔۔ اس نے خود کو سمجھایا ۔۔
عنایا تو اس کے . چہرے پر بکھرے خوشی کے رنگ دیکھ کر حیران رہ گئی ۔۔
"او۔ہیلو میں راضی نہیں ہوں اس رشتے پر ابھی کے ابھی منا کرو جا کر ۔"
اس کی بات سن کے زین کے چہرے کی خوشی ماند پڑی
"کیوں !وجہ جان سکتا ہوں "۔ اس نے آہستہ سے سنجیدہ ہوتے ہوۓ سوال کیا
"کیوں کیا !!نہیں تو نہیں میری مرضی شامل نہیں" ۔۔ عنایا اکھڑ کر بولی
"تم کسی کو پسند کرتی ہوں ہو "۔ وہ ہمت کر کے .بولا
"نہیں" ۔۔وہ اسکو گھورتے ہوۓ بولی
"پھر ۔"۔ سوالیہ نظروں سے عنایا کو دیکھا
"مجھے تم پسند نہیں ہو بس اور وجہ کی ضرورت نہیں ۔مجھ سے پوچھ کر رشتے کے بارے میں نہیں سوچاگیا ۔۔ میری بھی کوئی سیلف ریسپیکٹ ہے" ۔ عنایا کی وجہ بتانے کی دیر کی زین کی رگین تن گئیں
"تم بہت اونچا اڑ کر سوچ رہی ہو عنایا بی بی ۔"
"مجھ میں کوئی کمی نہیں ۔۔۔ آوارہ ہوں۔۔۔ نہیں !!بد کردار ہوں ۔۔نہیں ۔ کوئی مسلہ نہیں پھر بھی ۔ سیلف ریسپیکٹ۔۔۔ یہ سیلف ریسپیکٹ نہیں غرور اور اکھڑ ہے"
"۔ یہ اکھڑ اور غرور انسان کو زمین پر دے مارتا ہے ۔۔ کے وہ اٹھ نہیں پاتا کیونکہ یہ انسانی فطرت کا حصہ نہیں تو جتنی جلدی تمہارے دماغ میں آئے اچھا ہے ۔ اب یہ شادی ہو کے ہی رہے گی یہ اپنے دماغ میں بیٹھا لو "
"ممانی نے رشتہ تہ کیا ۔ہے آج تک انہوں نے تمہارے لئے کوئی کوئی غلط بات نہیں سوچی کوئی برا فصیلہ نہیں لیا ۔۔ ۔۔ تو پھر آج کیوں انحراف کرنا ۔"۔
"اللہ ۔تمھیں عقل دے ۔۔ "
یہ کہ کر وہ روکا نہیں اور عنایا کو شرمندہ چھوڑ کر وہاں سے چل دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السلام علیکم !” زمان نے ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوۓ کہا ۔
"وعلیکم السلام ! کیسے ہو بیٹا ۔"” زاہد صاحب )کومل کے چچا )بولے
پر اس کے جواب دینے سے پہلے ہی شازیہ ملک بول پڑیں
"اتنی دیر بیٹا ہم کب کے آئے بیٹھین ہیں ۔"
"وہ اب دولہا ہوں تو تھوڑا تیار تو ہونا بنتا ہے ۔ ”اس نے ایک نظر کومل کو دیکھ کر کہا
"توبہ توبہ آج کل تو شرم ہی نہیں ۔ میرا زید جو کبھی اسی بات کہے ۔۔ توبہ توبہ ۔۔" شازیہ بیگم تو گویا زید نامہ لے کے بیٹھ گئیں
جس پر زمان نے کومل کی طرف دیکھ کر اپنی آنکھیں گول گول گھومآئیں ۔جس پر گندمی رنگ اور کالی ہرنی جیسی آنکھوں والی کومل سر جھوکا کر اپنی ہنسی کنٹرول کرنے لگی
"زمان" ۔۔۔ اس بار وجدان کی آواز آئی
جس پر وہ خجھل ہو یر صوفہ پر بیٹھ گیا گیا
”میں نے سوچا ہے کے اب جلد از جلد زمان اور کومل کی شادی ہو جائے ۔ اور ساتھ زین نکاح کر دوں ۔ میں چاہتین ہوں کے اگلے ہفتے ہی ہو جائے”_ _ بی جان بولیں
زمان کی نظریں حیرانی سے بی جان کی طرف گئیں پر وہ کچھ بولا نہیں پر ابھی بی بی جان نے وجدان کا نام نہیں لیا
"جی ۔"۔ شازیہ بیگم۔ بولنے لگیں پر زاہد صاحب ان کی فطرت سے واقف تھے تو بول پڑے
"جی کوئی مسلہ نہیں ہے آپ کی ہی بیٹی ہے ۔"۔
"چلو ٹھیک ہے پھر اگلے ہفتے ۔۔جمعہ کو ۔۔ نکاح ہو گا ۔۔ "
"جی ٹھیک ہے" ۔ زاہد صاحب بولے" اس سے اچھی بات کیا ہو گی" ”۔ زرینہ بچے مٹھائی دو سب کو "۔۔ جس پر وجدان کھڑا ہو گیا
”چچی آپ بیٹھیں میں دے دوں گا "۔ وجدان کے بتس کے بتیس دانت باہر تھے
جس پر سب نے مسکرائے "۔ کتنا سمجھدار ہے" ۔۔ زاہد صاحب بولے
پر کوئی بھی بی جان اور زرینہ بیگم کے علاوہ یہ نہیں جانتا تھا کے اس کے اپنے دل۔ میں لڈو پوٹ رہے ہیں
"چلیں ۔کھانا لگ گیا ہے ۔" شازمہ بیگم۔ کے کہنے پر سب نے ڈاینگ روم کی رہ لی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بی جان ، شازمہ اور زرینہ بیگم کے ہمراہ زولقر نین ہاؤس میں موجود تھیں ۔
"اب بچے تو راضی ہیں تو میرا نہیں خیال کے ۔۔ دیر کرنا کا کوئی جواز بنتا ہے ۔ ہم چاہتے ہیں کے اس جمعہ کو ہی نکاح کی رسم ادا کر دیں ۔۔ ہمارے ہاں دو نکاح اور بھی ہیں تو کیوں نہ شاہ ویلا میں ہی تکریب ہو اگر آپ کو کوئی پریشانی نا ہو تو ۔"۔ بی جان نے تمام خلاصہ بیان کیا
”شمشاد بہن یہ کچھ جلدی نہیں ایک ہی بچی ہے ہماری ۔۔" زولقر نیں صاحب نے سمیہ بیگم کی طرف دیکھ کر کہا ۔"لیکن اگر سمیہ بچے کو اعترض نہیں تو کوئی مسلہ نہیں ہے ۔ "
"بابا مجھے تو کوئی اعترض نہیں ۔۔ اس سے اچھی بات اور کیا ہو گی ۔۔ ایک ہی بیٹی ہے میری ۔۔ باقی جن حالات میں میں نے پلا ہے اس کو وہ تو میں بیان کر ہی چکی ہوں ۔”۔ سمیہ بیگم یان کی بات کا جواب دیتے بولیں
"چلو پھر ۔۔ ہما ری بیٹی کو بولا دیں ۔۔ تصویر تو دیکھی ہے پر اب بات تہ ہے تو بچی سے مل لیتے ہیں "۔۔۔زرینہ بیگم بولیں
" جی میں نے بلایا ہے ۔۔وہ آ گئی ۔۔ آو ہانیہ بچے "۔۔ سمیہ بیگم نے ہانیہ کو آتے دیکھ کر کہا
"ماشااللہ "!جہاں زرینہ اور بی بی جان بولیں تھیں وہاں شازمہ بیگم چونکی تھیں ۔۔ اس لڑکی کو کہیں دیکھا ہے پر پتا نہیں کہاں ۔۔
"السلام علیکم ! ."۔ ہانیہ نے اندر داخل ہوتے ہوۓ کہا
"وعلیکم السلام ! "سب نے سن کر جواب دیا
"آؤ بیٹا یہاں بیٹو ۔ہمارا بس چلے تو آج ہی ساتھ لے جاییں ۔ اب تو بس جلد از جلد نکاح ہو جا نا چاہیے ۔" بی جان نے ہانیہ کی من موہنی صورت دیکھ کر کہا
بی جان کی بات سن کر ہانیہ نے تو جیسے کنکر نگلا ۔ وہ بی ان کے ساتھ صوفہ پر بیٹھ گئ۔
"جی ۔ کیوں نہیں پر ۔۔ میری ایک ہی بیٹی ہے تو اپنے ارمان تو پورے کروں گی ہی ۔" سمیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے ہانیہ کی طرف دیکھا
"ہمارا بچا تو باولا ہو رہا ہے ۔شادی کو! اب سمجھ آیا کے وجہ کیا تھی ۔"۔ شازمہ نے پہلے سمیہ ہانیہ اور پھر سمیہ بیگم کی طرف دیکھ کر کہا
"وہ مجھے کچھ کام ہے میں چلتی ہوں ۔" یہ کہتے ہی ہانیہ اٹھ کر باہر چل دی
'ارے ۔ہانیہ "سمیہ بیگم نے روکنے کو بلا یا پر وہ نہ رکی ۔
"جانے دیں ۔شرما گئی ہو گی ورنہ آجکل کے بچے تو ۔۔توبہ ۔ ایک ہمارا زمانہ تھا ۔۔" بی جان کو پھر سے اپنا وقت یاد آیا
"بی جان ! " اپنی بیٹی کے کہنے پر وہ روکیں
"کیوں نا پہلے ہم تاریخ تہ کر لیں ۔"۔ وہ بی جان سے گویا ہوئیں
"ہاں ۔ کیوں نہیں ! ہانیہ تو مجھے بہت پسند آئی ہے ۔۔ اب کسی طرف سے کوئی۔مسلہ نہیں ہے تو اگلے ہفتے کو ہی نکاح رکھ لیتے ہیں ۔۔ صرف گھر کے لوگ ہوں گے ہماری طرف ۔۔ "
میں ہانیہ کے بابا سے پوچھ کر مطلع کی دوں گی ۔ سمیہ بیگم نے وجہ بتائی
چلیں ٹھیک ہے ۔پھر ہم چلتے ہیں ۔ یہ کہ کر سب اٹھ کھڑین ہوئیں ۔
اتنی جلدی ۔ تھوڑی دیر بیٹھ جایئں ۔سمیہ بیگم ان کو اٹھتا دیکھ بولیں
نہیں ۔بچے گھر آنے والے ہونگے ۔وہ بڑی قوم بھی چھوٹوں سے کم کم نہیں ہے ۔ زرینہ بیگم بولیں
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہربان
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نا تھے
ہانیہ ۔۔ اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے سے گزر رہی تھی ۔ جب سامنے سےآتے دیکھ دوسری طرف چلنا شرو ع ہو گئی ۔۔
اس کی حرکت دیکھ وجدان کو ہنسی آئی ۔۔
"مس ہانیہ” ۔۔ وجدان نے بلا یا ۔۔
پر ہانیہ کے قدم تیز ہو گئے ۔۔” ہانیہ اگر آپ نا روکیں تو جو دو دن چھٹی کی ہے اس کے لیکچر بھی لے لوں گا ویسے سوچا رہا ہوں اچھا ہی ہے تین چار سٹوڈنٹ اور بھی ہیں ۔۔" وجدان نے اس کو روکنے کے لئے آخری حربہ تراشا ۔
ہانیہ کو چارو نا چار روکنا پڑا
"کیا مسلہ ہے؟" ۔ کیوں میرا پیچھا کر رہے ہیں
'مسلہ تو کوئی نہیں بس کہنا ہے کہ زین لوگوں کے ساتھ زیادہ بات نا کیا کریں' ۔۔ وجدان ہانیہ کا چہرہ دیکھتے بولا
"وہ کس خوشی میں اور آپ ہیں کون ۔۔ میری مرضی جس سے مرضی بات کروں ۔۔ اور کروں گی بھی" ۔۔ہانیہ ضد سے بولی
"یہ تو وقت بتائے گا میں کون ہوں ۔۔ تو پھر سب کے سامنے بولنے میں وقت نہیں لگاؤں گا کہ آپ میر وجدان شاہ کی زندگی میں کتنی اہمیت رکھتیں ہیں " ۔۔ وجدان اس کے سامنے کھڑا ہو کے بولا
"آپ انتہائی گھٹیا ہیں" ہانیہ تپ کر بولی
"اچھا چلو تمھیں پتا تو لگا "۔۔ وہ اس کے غصے سے لال پڑتے چہرے کو دیکھ کر محظو ظ ہوا
"آپ ۔۔۔۔۔.اب آپ میرا راستہ چھوڑ دیں گے" ۔۔ ہانیہ غصے سے بولی
"پہلے میری بات کا جواب دو ۔"۔ ہانیہ کو دیکھ کر وجدان کی ساری سنجیدگی ہوا ہو جاتی تھی
"نہیں د و گی اب راستہ چھوڑیں "۔۔۔۔ ہانیہ بھی ضد کی پکی تھی
"چلو نا دو ۔وہ میں خود اخذ کر لوں گا ۔ میں چلتا ہوں اب ۔پر کسی سے زیادہ فری نا ہونا" ۔ یہ کہ کر وجدان چلتا بنا وہ تو بس ایک بر بات کرنا چاہتا تھا تو اسکا مطلب پورا ہو چکا تھا
"نہیں ۔ میں کوئی آوارہ ہوں ۔اپنا جیسا سمجھ رکھا ہے "۔۔ہانیہ غصے سے تلملا تی ہوئی اپنی کلاس کی طرف چل دی ۔