ماضی ۔۔تین سال پہلے
ریاض ۔۔صاحب ۔۔ مجھے لگتا ہے اب آپ کو اب کو سچائی بتا دینی چاہیے ۔۔ ریم نے ان کے پاس بیٹھتے ہوے کہا
اب کیا فائدہ ۔۔ اب تو بہت وقت بیت گیا ہے ۔۔۔ ریاض صاحب کا لہجہ ایسا سا گویا صدیوں کی مسا فت تہ کر کے آئے ہوں ۔۔۔
فائدہ کیوں نہیں ۔۔ آپ کا دل تو اب بھی سمیہ کے پاس ہے ۔۔ ریم بیگم بولیں
تو آپ مجھ پر طنز کر رہیں ہیں ۔۔ یہ بات تو آپ کو اول دن سے معلوم ہے ۔۔ کے میں آپ کو عزت تو دے سکتا ہوں مان بھی دے سکتا ہوں پر محبّت نہیں ۔۔دے سکتا ۔۔ ریاض صاحب جو لیٹے تھے اٹھ کر بیٹھ گئے ۔۔۔
میں تو بس یہ کہہ رہی تھی وہ دل جو آپ نے توڑ دیا تھا ۔۔۔ اس سے معافی تو ایک نا ایک دن ۔۔ ریم نے ان کی بات بات سن کر جواب دیا
اس دن کو میں آج بھی پچھتا رہا ہوں ۔۔۔ اب سو جاییں اس سے پہلے کے میرے دماغ کی رگیں پٹ جایئں ۔۔۔
ریم بیگم ان کی طرف دیکھتیں رہیں ۔۔ پھر لمپ بند کر کے سو گئیں ۔۔
.........
وجدان اپنے آفس کے صوفہ پر آنکھیں موندے بیٹھا تھا ۔۔ جب میگن اندر داخل ہوئی ۔۔۔
سر آپ ٹھیک ہیں آپ کو کیا ہوا ۔۔۔ کوئی مسلہ ہے سر تو آپ مجھے بتا سکتے ہیں میں آپ کو بچپن سے جانتی ہوں ۔۔۔ میگن بولی
میگن وجدان کی فیملی کو سالوں سے جانتی تھی ۔۔ اور جو کیچ وجدان کے ساتھ ہوا وہ بھی ۔۔۔ جی حادثے میں وجدان کے والدین انتقال پا گئے تھے اس میں میگن کے شوہر بھی شامل تھے ۔۔۔
سر ۔۔ وجدان بیٹا ۔۔ میگن پریشانی سے بولی ۔۔
A love-lion grazes in the soul’s pasture(رومی)
وجدان نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا ۔۔
میگن نے حیراں ہو کر اس کی طرف دیکھا ۔۔ مطلب ۔۔میں سمجھی نہیں ۔۔بھلا شیر کیسے چرسکتا ہے آپ نہیں سمجھ پائیں گی یہ جو محبّت ہوتی ہے نا یہ اس شیر کی ماند جو روح کی چرا گاہ پر چرتا ہے کبھی شیر کو چرتے دیکھا ہے ۔۔۔۔ یہ عشق ہی تو شیر کو بھی بھیڑ بنے پر مجبور کر دیتا ۔۔ پھر وہ دھیرے دھیرے آپ کی روح پر بھی قابض ہو جاتا ۔۔ کے خود پتا نہیں لگتا کے کیا ہوا ہے ۔۔اس کی آنکھوں میں مجھے زندگی دکھائی دیتی ہے وہ جو میں گزار رہا ہوں وہ اس کو جی رہی ہے میں ۔۔۔ میں ۔ زندگی کو ایک بار پھر جینا چاہتا ہوں ۔۔
وجدان ۔۔۔ میگن اس باتیں سن کر حیرت سے اس کا نام لیا ۔۔
اب میں گھر چلتا ہوں وجدان نے خود کو سمبھلتے ہوئے کہا ۔۔ کوشش کریں کے اس ہفتے میری دوپہر میں کوئی میٹنگ نا ہو ۔۔۔ اور اگلے دو تین ہفتے کا شیڈ ول بھی زیادہ نا ہو ۔۔۔ اور ہمیں ہفتے کے دن لنچ پر جانا ہے اوکے بائے
ز یک گاڑی نکالو ۔۔ وجدان نے فون پر کہا ۔۔ اور باہر نکل گیا ۔۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ سونے کے لئے لیٹی تو آنکھوں کے سامنے ۔۔ نیلی آنکھوں نے بسیرا کر لئے ۔۔ اس نے بے چین ہو کر کروٹ بدلی ۔۔۔
ہا ئے اللہ جی ! میں پاگل تو نہیں ہو رہی ۔۔۔ کب سے اس پاگل کو ہی سوچے جا رہی ہوں ۔۔۔ ۔۔ ہانیہ نے لیٹے ہوۓ سوچا ۔۔
اس کی آنکھیں کتنی خوبصورت ہیں ۔۔۔ نیلے شفاف پانیوں جیسی ۔۔۔ کتنا اچھا لگتا ہے جب ہلکا سا مسکراتا ہے ۔۔۔ پر اس کی آنکھوں پر چھائی ہوئی اداسی ۔۔ جیسے مجھے اپنی طرف کھنچتی ہے ۔۔
عجیب شخص ہے مسکراتا بھی اداسی سے ہے ۔۔۔ وہ اس کو سوچتے سوچتے کب نیند کی وادیوں میں اتری اس کو بھی خبر نا ہوئی تھی ۔۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔
اس کی گاڑی ریاض صاحب کے گھر میں آ کے رکی ۔۔ میر وجدان شاہ گہرے نیلے رنگ کے کوٹ کے بٹن بند کرتے نیچے اترا ۔۔اور ایک نظر گھر کی طرف دیکھ کر اگے بڑھ گیا ۔۔
ریم بیگم اور ریاض صاحب نے اس کا دروازے پر استقبال کیا ۔۔ ہانیہ کو وہاں نا دیکھ کر اس کا دل بے چین تو ہوا پر ریاض صاحب سے مسکراتے ہوۓ ملا ۔۔
کیسے ہیں آپ ریاض صاحب ۔۔ وجدان نے ہاتھ ملاتے ہوے کہا
میں بلکل ٹھیک ہوں ۔۔ آپ آئیں اندر ۔۔۔ ریاض صاحب نے جواب دیتے ہوۓ اندر انے کے لئے راستہ دیا ۔۔ وجدان نے کسی احساس پر گردن گھومائی ۔۔ پر کسی کو نا پا کر آگے بڑھ گیا ۔۔۔
اندر ڈرائنگ روم میں پہنچ کر ایک طاہرا نہ نگاہ ڈالی ۔۔۔ بوہت خوبصورتی سے سجا یا گیا تھا ۔۔۔ کشادا کمرہ تھا جس میں ایک طرف گلاس وال تھی کریم کلر کے صوفے تھے ۔۔۔ کافی نفیس قالین تھا ۔۔۔
دیواروں پر گولڈن اور کریم رنگ نے کمرے سجاوٹ کو چار چند لگا رہے تھے ۔۔۔
اور سنائے وجدان صاحب بز نس کیسا جا رہا ہے ۔۔ میں نے سنا ہے آپ نے جیکسن کے ساتھ پارٹنر شپ ختم کر دی ویسے اچھا کیا کافی کھاٹے کا سودا تھا ۔۔
جی ۔۔ کمپنی کو کافی نقصان ہو رہا تھا ۔۔اور بز نس میں یہ سب تو چلتا ہی رہتا ہے ۔۔ وجدان نے ان کی بات کا جواب دیا
میگن نہیں آئی ۔۔ ریم بیگم نے پوچھا ۔۔
وہ بس پہنچتی ہی ہوں گی
اچھا ٹھیک ہے ۔۔ آپ لوگ بات کریں میں ذرا کچن دیکھ لوں ۔۔ وہ کہ کر باہر کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔ وجدان اور ریاض صاحب واپس باتوں میں مشغول ہو گئے ۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ بیٹا ۔۔ دھیان سے بیٹا۔۔۔ کھڑکی سے اس طرح مت لٹکو ۔۔ ہانا نے ہانیہ کو منا کیا جو کھڑکی سے باہر چھانک کر دیکھ رہی تھی ۔۔۔
کچھ نہیں ہوتا آپ ٹینشن نا لیں ۔۔ ہانیہ باہر نذیر رکھتے ہوے جواب دیا ۔۔
پتا نہیں کیا ہوا ہے ۔۔اس کی نیلی آنکھیں مجھ سے بھولی کیوں نہیں جا رہیں ۔۔۔ اور اب میں ادھر کھڑی انتظار کر رہی ہوں ۔۔آویں خوش ہو رہی ہوں ۔۔
تبھی وجدان کی گاڑی اندر آتی دکھائی دی ۔۔۔
وا ہ واہ ! ٹاشن تو دیکھو ۔۔۔ کیا شعر یاد آیا ہے
وہ آئے ہمارے گھر خدا کی قدر ت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
یہ کہ کر وہ کھڑکی کے پٹ بند کیے تو شیشے سے ایک پل باہر دیکھا تو وجدان کو ادھر ادھر کچھ ڈھونڈتے دیکھ کے حیرت سے ہلکا سا مسکا ئی ۔۔ پھر اپنا خیا ل جھٹک دیا ۔۔ اے دلِ ناتواں نا پال خیال ایسے ۔۔۔
اور مڑ کر ہانیہ ہا نا کی مدد کرنے لگی ۔۔
ریم بیگم اندر داخل ہوئیں تو ہانیہ کو دیکھ کر اس کو مخاطب کیا
ہانیہ ۔۔ باہر میلو ڈی اور میگن آ گئیں ہیں اگر آپ ان کو کمپنی دے سکو تو ۔۔۔
جی ۔۔میرا کام ادھر ختم ہو گیا ہے ۔۔ ہانیہ اتنا کہ کر میگن اور میلو ڈی کو ملنے کے لئے چل دی ۔۔
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وجدان ریاض صاحب سے باتیں کرنے میں مشغول تھا جب اس نے دروازے کی طرف دیکھا ۔۔پر کسی کو نا پا کر پھر گفتگو میں مشغول ہو گیا ۔۔
پر اگلے لمحے ہانیہ اندر داخل ہوئی ۔۔ تو ایک دم سے سیدھا ہو کر بیٹھا ۔۔۔ پر ہانیہ کے پہلے میگن اور میلوڈی سے ملنے پر ۔۔ اس دل بیچارہ جل کر راکھ ہو گیا ۔۔ دل کیا میگن اور میلو ڈی کو ابھی کسی طرح غائب کر دے ۔۔ پر اس نے ہیری پوٹر کے ساتھ میجک کلاسز نہیں لیں تھیں ۔۔
اس لئے دل مسوس کر ریاض صاحب کا ہوں ہاں میں جواب دینے لگا ۔۔
چلیں کھانا لگ گیا ہے ۔۔ ریم بیگم نے اندر آتے ہوئے کہا ۔۔۔
سب کھانا کھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوۓ ۔۔ تبھی وجدان نے اپنا اپنا فون کان پر لگا لیا ۔۔
ایک ضروری کال ہے میں سن کر اتا ہوں ۔۔ آپ سب چلیں ۔۔ وجدان نے ریاض صاحب سے کہا ۔۔
لیکن آپ کو راستہ ہی نہیں پتا دینینگ روم کا ۔۔۔ ریاض صاحب بولے
میں ان سے پوچھ لوں گا ۔۔اس نے نوکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
چلیں ٹھیک ہے ۔۔۔ اتنا کہ کر ہانیہ کے علاوہ سب چل دیے ۔۔ جو کے چائے کے کپ سمیٹنے میں مصروف تھی ۔۔
اب iن کو بھج دیا ۔۔ اب اس کو کیسے بھجوں ۔۔۔ اس نے نوکر کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔
مجھے کافی پیاس لگ رہی ہے ایک پانی کا گلاس مل جائے گا ۔۔ وو نوکر سے مخا طب ہوا ۔۔
جو ہانیہ کی سنے بنا ہی ۔۔ جی سر کہ کر پانی لینے چل دیا ۔۔
واہ میں نے تو یہاں مونگ پھلی کی ریڑی لگائی ہوئی ہے کوئی ویلیو ہی نہیں ۔۔۔ ہانیہ منہ کھولے دروازے کی طرف تکنے لگی جہاں سے ۔۔ 45 سالہ( rick ) ریک باہر گیا تھا ۔۔۔
تمہاری ویلیو ۔۔ مونگ پھلی کی ریڑی کی سی بھی ویلیو نہیں ہے ۔۔ وجدان کی آواز قریب سے آئی ۔۔تو ہانیہ ایک دم اچھل کر سائیڈ پر ہوئی ۔۔
کوئی تمیز نہیں ہے اس نے پیچھے مڑ کر کہا ۔۔
تمیز تو اللہ کے فضل سے بہت ہے ۔۔پر آپ کے بارے میں کچھ نہیں کہ سکتا ۔۔ وجدان نے اس کی آنکھوں میں چھانکتے ہوۓ کہا
کیوں میں نے کب بد تمیزی کی آپ کے ساتھ ۔۔۔
اس سے بڑی بے ادبی کیا ہو گی کے آپ نے ہمارا حال بھی نہیں۔ گھر آئے مہمان ہیں پوچھا
ہاں تو بابا نے آپ کو بلا یا ہے میں نے تو نہیں ۔۔ نا جان نا پہچان میں تیرا مہمان ۔۔والی بات ہو گئی ۔۔ ہانیہ ۔۔ نے منہ بناتے ہوۓ کہا
ادھر آپ غلط ہیں ۔۔۔ آپ کی تصحیح کر دوں ۔۔ جان بھی ہیں ۔۔ پہچان بھی ہے ۔۔اور مہمان بھی ہم آپ کے اب ہو گئے ہیں ۔۔
توبہ ۔۔کتنے ٹھرکی ہیں آپ ۔۔ ابھی وہ کچھ بول ہی رہی تھی کے ریک اندر داخل ہوا
سر ۔۔یہ پانی ۔ ریک نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا
۔ اب پیاس نہیں ہے آپ مجھے ڈیننگ روم کا راستہ بتا دیں ۔۔ وہ کہ کر ریک کے پیچھے چل دیا ۔۔پر جانے سے پہلے ہانیہ کو دیکھ کر بھنویں اچکانا اور مسکرانا نہیں بھولا تھا
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔