جنوری کی سرد دوپہر تھی.پچھلے دو ہفتوں سےہونےوالی بارش اور دھند کے بعد آج دھوپ نکلی تھی.اس لئے موسم کا فائدہ اٹھانے کےلئےآج یونیورسٹی گراؤنڈ میں کافی رش تھا
جگہ جگہ طالبعلم نظر آرہے تھے گراؤنڈ مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہا تھا.اوراس دھوپ کالطف لینے کےلئے ہانیہ اور اس کی دوستوں کا گروپ بھی موجود تھاجس میں شیزا،رباب،عنایا،دعا شامل تھے
عنایا اور رباب کے علاوہ سب دوستیں وقتی پڑھاکو تھیں. لیکن آج دھوپ کی وجہ سے سب ہی ادھر موجود تھیں.
شیزا جو بولنا اپنا فرض سمجھتی تھی.پیزے کا ٹکڑا اٹھاتے ہوے اپنے خیالا ت کی تر جما نی کی .
تو کتنا خوبصورت ہے فدا دیدار پر تیرے
پھر ان کی طرف دیکھ کے بولی
..ارے میری پیاری پیاری بہنوں دیکھو موسم کتنا اچھا ہو کیا ہے.چلو کہیں باہر گھومنے چلتے ہیں.
.تمہیں اپنی زندگی پیاری نہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی کوبھی پیاری نہیں. میری اماں جان نے کرفیو لگایا ہوا ہے یونیورسٹی سے گھر اور گھر سے یونیورسٹی کوئی سالگرہ نہیں کوئی گھومنا پھرنا نہیں. پچھلی بارتیری سالگرہ میں دیر ہو کئی تھی جس کی سزا آج تک بھگت رہی ہوں.رباب شیزاکو آنکھیں دیکھاتے ہوئے بولی
..یار اس میں میری کیا غلطی ہے ےتم نے ہی دو دو منٹ کہہ کے گھنٹہ لگا دیا تھا تم کو خود ہی مستیاں سوجھی تھیں ہم کا کیا قصور .. شیزا نے بھی رباب کو آنکھیں دکھائیں
..اوف . کتنا بولتی ہو تم لوگ.. ہانیہ نے ان کی لڑائی سے تنگ ہوتے ہوئے کہا.جس پر دعا شیزا دونوں نے ایک دوسرے کو گھور کر دیکھا
ہانیہ بھوری آنکھیں خوبصورت نقش نین اور صاف دل والی لڑکی تھی جو کہ ان سب میں کم ہی بولتی تھی مگر شرارتی بھی بہت تھی. اپنی دوستوں کی طرح.
..ارے وہ دیکھو ..وہ آ رہے ہیں بادشاہ سلامت اور انکے وزیر. سوری وزراء. .شیزا نے ارباز ،شہروز،شاہ زین اورارسل کواپنی طرف آتےدیکھ کر کہا.
اور ساتھ ہی عنایا کی طرف دیکھ کر دانت نکوسے..کیونکہ عنایا اور شاہ زین دونوں کزن تھے۔ شاہ زین عنایا کو پسند کرتا تھامگر عنایا نے کبھی اپنی پسند ظاہر نہیں کی تھی.اس کی یہ حرکت عنایا کو ایک آنکھ نا بھائی تھی ۔۔اگر کوئی بدتمیزی کی نا تو یہ بتسی توڑ دینی میں نے تمہاری ۔۔ عنایا نے شیزا کو غصے سے دیکھ کر بولا
۔جس پر شیزا نے پھر اپنے دانتوں کی نما ئش کی ۔ اوف۔۔اوف میری کمر پوڑ دی بتمیز لڑکی جان سینا کی بہیں نا ھو تو ۔۔ شیزا چیخی جب عنایا نے اس کی بات سن کے ایک دھپ لگائی اتنی دیر میں لڑکوں کا ٹولہ بھی ان کے پاس پہنچ چکا تھا
.۔اور لڑکیوں کیا کر رہی ہو ادھر کلاس نہیں آج تم لوگو کی ۔۔ ارباز نے ان کے قریب آتے ہی پوچھا
”کلاس تو ہے ارباز بھائی مگر ہم نے آج بانک مارا ہے “اب کی بار ہانیہ نے دعا کی طرف دیکھتے ہوے جواب دیا ارباز دعا کی بات بچپن سے ہی تے تھی پر وہ ارباز اور دعا ہی کیا جو آرام سے ایک دوسرے سے بات کر لیں دونو ں ہی ایک دوسرے کے پکے دشمن تھے دل سے دونو ں ہی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے پر ماننا کوئی بھی نہیں چاہتا تھا
ارباز کو دیکھ کے پہلے ہی دعا کا منہ ایسے ہو گیا جیسے کچا کریلا چبا لیا ہو وہ چاروں بھی ان پانچوں کے پاس ہی گراؤنڈ پر بیٹھ گیۓ
” ۔اور تم لوگوں کو یہ جان کر خوشی ہو گی ک ہم نے بھی اس حسین موسم کا مزہ لینے کے لئے آج کلاس بنک کی ہے ” شاہ زین نے عنایا کے قریب بیٹھتے ہوۓ کہا
عنایا اس کی یہ حرکت دیکھتے ہی دور کسکی تھی ۔اس بار ہانیہ نے ہانک لگائی ” ارے عنایا تم کیا پیچھے پیچھے کسکی جا رہی ہو درخت پر چھڑنے کا ارادہ ہے کیا "ہانیہ نے اپنی آنکھیں پٹپٹاتے ہوۓ کہا عنایا نے ہانیہ کو ایسے گھور ا گویا کہہ رہی ہو تو بچ بیٹا مجھ سے جس دن تو میرے ہاتھ آئی نہ تو بچ نہیں سکے گی ۔
” ارے یہ ہماری رباب آج کیوں اتنی چپ ہے شیزا نے رباب کو چھپ دیکھ کر کہا
”ہاں یار کیا ہوا آج کیا کوا نہیں ملا کھانے کو ۔شہروز نے جان بوجھ کر رباب کو چھڑا
”نہیں شہروز بہروز سوچا تھا تمہارا دماغ کھا لوں گی پر وہ تو تمہارے پاس ہے ہی نہیں ” اس لئے بھوکی بیٹھی ہوں “اچھا اچھا اب زیادہ بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔ شہروز نے منہ بناتے ہوۓ کہا
تب ہی کالج کا ایک طالبعلم ڈور تا ہوا نظر آیا جس پر صدیوں کے شرارتی شاہ زین بولا ” یہ تیرے منہ پر 12 کیوں بج رہے ہے عشق وشق تو نہیں ہو گیا ”
پر وہ لڑکا اس کو نظر انداز کر ہوۓ کیمسٹری ک ڈیپارٹمنٹ ک سامنے اونچی آواز میں سب کو متوجہ کر کے نئے ٹیچر کی آمد کے بارے میں بتانے لگا اس پر مایا جو پوری یونی کی سب سے ماڈرن لڑکی تھی شولڈر کٹ بال ، سالیو لس ٹاپ اور جینس پہنے ہوے بولی ” اگر وہ کوئی بوڑھا ھو تو رہنے ہی دو تم “
ارے نہیں مایا ڈارلنگ میں اپنی ان کناہ گار آنکھوں سے دیکھ کے آ رہا ہوں ایسا ہنڈسم بندہ میں نے کبھی نہیں دیکھا ک میں زمر کتابی کیڑا بھی جیلس فیل کر رہا ہوں ۔۔ زمر عرف کتابی کیڑے نے تمہید باندھتے ہوے کہا
رئیلی۔۔پھر تو ان سر سے ملنا ہی پڑے گا ۔۔مایا نے جواب دیا ۔
اوہ۔۔نو مایا ڈارلنگ میں نے سنا گئی کے جو سٹوڈنٹ ایک بار ان کی کلاس لے لے دوبارہ کلاس میں جانے کا سوچتا بھی نہیں ہے ۔۔ جتنے ہنڈسم ہیں اتنے ہی جلاد صفت ٹیچر بھی ہیں ۔ہیں تو بہت امیر پر یہاں ڈین کی ریکویسٹ پر اۓ ہیں۔ زمر نے ایک ہی سانس میں اپنی بات ختم کی۔
اچھا یہ تو بتاؤ ہیں کونسے ڈیپارٹمنٹ کے ۔ ہانیہ نے پوچھا
بزنس کے ڈیپارٹمنٹ میں پڑھائیں گے لیکن کیمسٹری کے بی ایس کو بھی سٹیٹکیس پڑھیں گے زمر نے جواب دیا ۔ اچھا ۔۔یہ کہہ کر اس نے واپس ہیڈ فون لگا لئے
۔اچھا ذرا نام تو بتا دو ان کا ۔شاہ زین نے پوچھا
میر وجدان شاہ نام ہے
۔۔کیا ۔جس پر عنایا اور دعا نے ایک دوسرے کو اور شاہ زین اور شہروز نے ایک دوسرے کو حیرانی سے دیکھتے ہوے کہا کہیں تم نیلی آنکھوں بھو رے بالوں لمبے تکڑے سے بندے کی بات تو نی کر رہے ۔۔شاہ زین نے اس بات سے سب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔۔
ہاں یار کچھ ایسا ہی ہے۔۔زمر نے حیرانی سے کہا
وہ تو میرا کزن ہے ۔۔ زین بولا
سچ میں ۔
۔ ہاں لیکن تم لوگوں کو اس سے بچنے کا ہی مشورہ دوں گا
خیر چھوڑو اب تم لوگ ان باتوں کو ٹائم ہو گیا ہے چٹھی کا دعا نے سب کو جسے یاد کروایا
ہانیہ ان سب سے بے خبر ہیڈ فون لگا ۓ اپنی ہی دنیا میں مگن تھی اپنی ہی سوچوں میں
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئ
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
ارے کن سوچوں میں گم ہو اٹھو جلدی کرو گھر نہیں جانا شیزا نے ٹھوکا لگایا
ہاں چلو یار ۔۔ اف آج پھر ڈرائیور بھر ویٹ کر رہا ہو گا آج tیو ماما سے ڈانٹ پڑی ہی پڑی ہانیہ بڑبڑ راتے
ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اچھا پھر اللہ حافظ ۔۔
پھر سب ہی گھر جا
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
میر وجدان شاہ زیادہ تر سنجیدہ طیبعت کا انسان تھا۔ پر جب مذاق کرنے ک موڈ میں ہوتا تو سب کو پیچھے چھوڑ دیتا ۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کے پیدا ہونے کی وجہ سے انا اور ضد اس کی طیبعت کا خاصا تھے جس چیز کو وہ اپنا سمجھ لیتا وہ پھر اس کی ہی ہوتی دوسرے کیا سوچتے ہیں
اس سے اس کو کوئی سروکار نہیں تھا
اپنی ہر چیز ک بارے می سخت پوزیسو تھا ۔۔وو جس اپنا ما ن لیتا اس کو اچھے برے وقت میں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا تھا سوا ۓ ایک شخص کے ۔جو اس کو چھوڑ گیا تھا ۔ جس کی محبت اس کی رگوں می خون بن کے ڈور تی تھی بلکے ڈور تی ہے کہا جائے تو غلط نا ہوگا میر وجدان شاہ میر فرقان شاہ کا اکلوتا بیٹا تھا میر فرقان اور ان ان کی بیگم صبا شاہ کی وفات ایک حادثے میں ہوئی تھی تب وجدان محض بارہ سال کا تھا اس واقع نے اس کو اور سنجيده کر دیا تھا
میر فرقان کے چھوٹے بھائی میر خضر شاہ اس ک چچا بھی تین سال پھلے اس دنیا سے کوچ کر گیۓ تھے اب ان کی بیگم زرینہ شاہ تھیں ان کے تین بیٹے زمان ، شایان شاہ ، ارباز شاہ اور ایک بیٹی عنایا اور ایک ا آئمہ تھیں تھیں سب سے بڑا زمان پھر ارباز اور اس کے بعد عنایا پھر شایان ۔ائمہ سب سے چھوٹی تھی اس کی عمر میں اور عنایا کی عمر میں 7 سال کا فرق تھا اس کی پھوپھو شازمہ شاہ اپنی کزن کے ساتھ بہائی تھی ان کے دو بیٹے تھے شہروز شاہ اور شاہ زین اور دو ہی بیٹیاں تھیں امبرین اور دعا ۔ شاہ زین اور دعا دونو ٹوئن تھے ان سے چھوٹا شہروز شاہ پھر امبرین تھی یہ لوگ فرقان ہاؤس کے ساتھ والے بنگلو میں ہی رہتے تھے ان سب کی سربراہ شمشاد بیگم وجدان کی دادی تھیں
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
"ارے وجی یار کہاں رہتے ہو یار دکھائی نہیں دیتے کہاں مصروف ہو“ شاہ زین نے وجدان کو سیڑهیاں چھڑ تے دیکھ کے کہا
پہلی بات تو یہ کے میرے نام وجی نہیں وجدان ہے اور آپ کو مجھ سے شکایت ہے کے میں نہیں ملتا تو ملتے تو آپ بھی نہیں ہیں مسٹر شاہ زین ۔وجدان نے روک کر جواب دیا
ا”چھا یار چھوڑو اس بات کو بات کو یہ بتاؤ یہ تم کیا ٹیچنگ کے چکر میں پڑھ رہے ہو“ ۔زین کیونکہ بزنس ہی پڑھ رہا تھا اس لئے جانتا تھا کے اگر اس کے وجی بھائی نے پڑھایا تو اس کی شامت پکی ہے
کیوں تمیں کیوں ڈر لگ رہا ہے “ وجدان نے مسکراہٹ چھپاتے ہوے پوچھا زین کی رگ رگ سے جو واقف تھا
ارے بھائی میں کیوں ڈروں گا بھلا آپ تو جان ہیں اپنی بس کہ رہا تھا آپ بزنس بھی ہینڈل کرتے ہیں تو مشکل نا ہو جائے کہیں زین نے پھر سے کہا
نہیں مشکل کیسی اسے بھی صدیقی صاحب نے ریکویسٹ کی ہے سو مان لی اب اپنے چھوٹے سے ذهن پر زور مت ڈالو وجدان یہ کہتا سیڑهیاں چڑھ گیا ۔
لو جی زور نا ڈالو ذہن پر ۔۔ اب تو شامت ہی شامت زین بڑ بڑ اتا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا
~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~~
شیزا،دعا ، عنایا ہانیہ رباب ان پانچوں کا گروپ آج پھیلی ہی satatics کی کلاس میں لیٹ تھا
ہاۓ کیا امپرشن ہوگا سر پر پہلا کیا کیا سوچیں گے
کچھ نہیں ہو گا آرام سے چلو دماۼ کھا لیا ہے رباب کی بات سن کر دعا نے جواب دیا
سب کلاس کے سامنے پہنچی تو سکھ کا سانس لیا کے سر نہیں آے تھے ابھی
اف شکر ہے ٹائم پر آ گئے ہم لوگ نہیں تو۔۔ ہاں ہاں پتا ہے امپریس کا بیڑا گر ک ہو جائے گا۔۔ اب ک ہانیہ نے چڑ کر جواب دیا
سب کلاس میں جگہ ڈھونڈ کر بیٹھ گیئں اور انتظار کرنے لگیں تم کیا بار بار پین نیچے گرا رہی ہو ۔۔۔ شیز ا نے ہانیہ کو کہا
میں کب گرا رہی ہوں اس پن کو خود ہی میرے قد موں میں گرنے کا شوق چھڑا ہے وہ جھک کر پین اٹھانے لگی تب ہی ٹیچر کلاس میں داخل ہوے تو سب نے نیے ٹیچر کو سلام کیا
جی تو کلاس وعلیکم السلام ! میں آپ کا نیا ٹیچر ہوں و یسے تو یہ سبجیکٹ سر ریحان نے پڑھانا تھا لیکن ان کو کچھ پرسنل ریزن کی وجہ سے لندن جانا پڑا ۔۔ اتنا کہنے کے بعد اس نے پوری کلاس پر نظر دوڑا ی پھر سر جٹھک کر بولا
اور ایک بات میں آپ پر وازیہ کر دوں میں پڑھائی می کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتا آپ محنت کرنے والے ہیں میں آپ کی ہر ممکن مد د کروں گا اسٹڈیز میں لیکن اگر آپ نے مذاق میں لیا تو پھر اپنی سزا کے لئے بھی تیار رہے گا ۔۔
و ہ ایک منٹ کے لئے روکا کسی چیز ک احساس پر اپنی نظریں دوہرا یں پر پھر اپنے خیالات کو جھٹک کر پھر کلاس سے مخاطب ہوا
میری بات سب کو سمجھ میں آ گی یا نہیں۔
جی سر ۔۔۔ وہ لڑکیاں جو ابھی ابھی اس کے حسن پر فدا ہوئی تھیں اس کے اس انداز میں بات کرنے پر کوس رہیں تھیں اس کو ۔۔۔مجھے تو لگ رہا ہے زبان کی جگہ اری فٹ کروا کے آئے ہیں وجی بھائی ۔" دعا نے منہ بنا کر رباب سے کہا ۔۔
رباب تو ڈر کے مارے چپ ہی رہی ۔۔ اس پوری کلاس میں ایک وجود ایسا بھی تھا جو اس کی آواز سن کر دوبارہ اپنی جھکی ہوئی گردن نا اٹھا پایا تھا وہ وجود تھا ہانیہ کا ۔۔۔
ادھر وجدان وصی شاہ نے پوری کلاس کو اپنا تعارف کروانے کو کہا تھا ۔۔
سب بچے بتا رہے تھے پر ادھر ہانیہ نے نجانے کس مشکلوں سے خود سمبھا لا تھا دل تھا کے پھٹ جانے کو تھا
دل کر رہا تھا کے وو اٹھ کر بھاگ جائے پر وہ بزدل نہیں تھی اس لئے سمبھل گیئ اتنے میں پوری کلاس اپنا تعارف کروا چکی تھی شیزہ ک بعد اس کا نمبر تھا اس کی باری آ ئی تو آرام سے اپنی سیٹ سے کھڑی ہوئی
سر!میرا نام ہانیہ ملک ہے میں 7th سیمسٹر میں اے گریڈ سے پاس هوں ہوں اور organic chemistry میرا میجر سبجیکٹ ہے ۔۔
یہ کہ کروہ تو بیٹھ گئی پر سامنے والا جا مد ہو چلا تھا اس کو لگا اس کے اندر بجلی کی سی ایک لہر دوری ہے