زور سے باہر سے آتی آواز پر درِفشاں اور اجالا نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا، پھر تیزی سے بھاگتی ہوئی باہر آئی جہاں افراء بیگم مبشرہ بیگم کو یشب کے بارے میں سنا رہی تھیں۔
"اندھیر مچا دیا ہے، غلطیاں خود کر کے اور الزام میرے معصوم ارصم پر لگا دیا ہے، میں تو کب سے اس کی کی حرکتیں دیکھ رہی تھی اور زرینہ کو بھی آگاہ کیا تھا مگر مجال ہے جواس نے دھیان دیا ہو، اب بھگت رہے ہیں، ویسے بات تو سچ ہے "بھلائی کا تو ذمانہ ہی نہیں رہا"، افراء بیگم نے مرچ مصالحہ لگا کر سنایا۔
"بھابھی!!! یشب تو ایسا نہیں ہے"۔
"تو میں کیا جھوٹ بول رہی ہوں"،افراء بیگم کو مبشرہ کی طرف داری پسند نہ آئی۔
"سرفراز تو اس سے اتنا ناراض تھا کے گھر سے نکالنے کے در پے تھا، اور اب زرینہ اسے اپنے بھائی کے پاس امریکہ بھیج رہی ہے"۔
اجالا کمرے میں آگئی اور اس کے پیچھے درفشاں بھی۔
"آپ کہاں جا رہی ہیں"، اجالا کو جوتے بدلتے ہوئے دیکھ کر درِفشاں نے پوچھا۔
"یشب کی طرف جا رہی ہوں، مجھے اس کہانی پر نہیں یقین جو باہر تائی جان سنا رہی ہیں"، اجالا نے عجلت میں کہا۔
درِفشاں نے برا سا منہ بنایا۔
"پر مجھے تو کوئی شک محسوس نہیں ہوا، مجھے تو شروع سے ہی ان کی حرکتیں پسند نہیں اور یہ جو لڑکی والی بات ہے اس پے تو مجھے سو فیصد یقین ہے، وہ توہے ہی کریکٹر لیس انسان"،درِفشاں نے آخری لفظ منہ میں دبا کر کہا۔
"نہیں وہ شرارتی ہے منہ پھٹ ہے لیکن کریکٹر لیس نہیں ہو سکتا"،اجالا نے غصے میں اس کی جانب دیکھ کر بولا۔
"میں آتی ہوں"،اجالا جلدی سے کہہ کر باہر چلی گئی۔
پیچھے سے درِفشاں نے اس کی بات پر مسکرا کر کندھے چکائے، اسے لگا اللّه نے اس سے بدلہ لے لیا ہے جو وہ اس کے ساتھ کرتا رہا ہے۔
______________________
اجالا ناک کر کے اندر آئی تو یشب بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔
یشب نے دروازہ کھلنے کی آوازپر گردن گھما کر دیکھا تو اجالا کو دیکھ کر اٹھ کر بیٹھ گیا۔
"اپی!!! آئیں نہ آپ"۔
اجالا اس کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی اور اس کا چہرہ دیکھنے لگی جو دودن میں کافی کمزور لگا تھا۔
"آپی آپ بھی کوئی الزام لگانے آئی ہیں مجھ پر"، یشب نے تڑپ کر کہا۔
"یشب میں کیوں لگاوں گی تم پر الزام، اور دوسری بات یہ کہ کوئی تمہارے بارے میں کچھ بھی کہے لیکن مجھے تم پر یقین ہے، میں تم سے کوئی تصدیق مانگنے نہیں آئی مجھے تو سن کر تکلیف ہوئی اور اسی طرح دوڑے چلی آئی"،اجالا نے اس کا شک دور کرتے ہوئے کہا۔
"خوشی ہوئی کسی کو تو مجھ پر یقین ہے ورنہ میرے اپنے ماں باپ کو تو میرا یقین نہیں"۔
"نہیں یشب ان سب کو تم پر یقین ہے"۔
ہنہ۔۔۔یشب نے سر جھٹکا،"ہاں یہ یقین ہے میری باتیں سنے بغیر مجھ پر جرم عائد کر دیا کسی اور کی ظلطی میرے پر تھوپ دی"۔
"تمہیں انہیں سچائی بتانی چاہئے تھی"۔
"کوشیش کی تھی، جو سارے کام اس نے کیے تھے وہ سارے مجھ پر ڈال دیئے اور میرے ماں باپ نے یقین بھی کرلیا"،یشب نے مایوس ہو کر کہا۔
"بہرحال!!! میں یہاں رہنا ہی نہیں چاہتا"،یشب نے گہرا سانس لے کر کہا۔
"مطلب"۔۔۔۔اجالا نے چونک کر اس کا سپاٹ چہرہ دیکھا۔
"میں ماموں کے پاس جا رہا ہوں اور وہی رہوں گا،کیونکہ آپی میں ان لوگوں کے درمیان نہیں رہ سکتا جن کو میرے پر اعتماد نہیں جو میرے کردار پر شک کرے اور مجھے ان کو صفائیاں پیش کرنی پڑے،ایسے لوگوں کا میرے ساتھ کوئی رشتہ نہیں"،یشب نے دکھ سے کہا۔
اجالا کو اس کی بات سن کر اس کے پختہ جانے کا اندازہ ہو گیا لیکن یشب کے ساتھ جو اس کی اٹچمینٹ تھی اس کے جانے کا سن کر دکھ ہوا تھا اور اسی وجہ سے اجالا کی آنکھوں میں آنسو آگے،جسے دیکھ کر یشب بھی پریشان ہو گیا۔
"آپی پلیز آپ روئیں نہیں"، یشب نے اجالا کا ہاتھ تھام کر کہا ۔میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں۔
"کب جا رہے ہو"، اجالانےیشب کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
"آج رات کو"
"اتنی جلدی !!!!!اور اگر میں نہ آتی تو تم نے تو مجھے ملنے بھی نہیں تھا آنا"،اجالا نے بے ساختہ بولا۔
"آپی میں کچھ نہ کرتے ہوئے بھی مجرم بن گیاہوں میرے اپنوں میں ہی کچھ چہرے ایسے ایسے ہیں جنہیں میں دیکھنا بھی نہیں چاہتا اس لیے جا رہا ہوں تا کہ انہیں بھول سکوں،"
" بہرحال ۔۔۔۔میں آپ کے ساتھ رابطے میں رہوں گا،"یشب نے گہری سانس لے کر کہا۔
"ٹھیک ہے اپنا بہت خیال رکھنا ،اور یہاں سب تم پر یقین کرتے ہیں اور سچائی کبھی اتنی دیر چھپتی نہیں کبھی نہ کبھی سامنے آہی جاتی ہے اپنادل کسی کی طرف سے برا مت کرو"،اجالانے یشب کا گال تھپتھپا کر بولی ۔
یشب مسکرادیا۔
______________________
جب جائشہ لاونج میں داخل ہوئی تو وہ خالی تھا، وہ صوفے پہ دونوں پاوں رکھ کر بیٹھ کر ہاتھ میں روموٹ پکڑ کر ٹی وی لگا کر دیکھنے لگی۔
کچھ ہی دیر میں افراء بیگم ہاتھ میں لفافہ لئے اندر داخل ہوئیں۔
"امی ناشتہ کب ملے گا"
"ہو گئی تمہاری صبح دوپہر کے ایک بج گیا ہے"،افراء بیگم نے گھور کر کہا۔
"اوووفوو۔ ۔۔۔امی آپ اب لیکچر دینا شروع نہ ہو جائے"،جائشہ نے بیزار ہو کر کہا۔
"یہ لیکچر ہے ۔۔۔تمہاری عمر ہے ماں سے خدمتیں کروانے کی،تمہاری عمر میں لڑکیاں سارا گھر سنبھال لیتی ہیں اور تم ماں سے کہہ رہی ہو تمہیں ناشتہ بناکے دے"۔
"آپ نے نہیں دینا ناشتہ تو نہ دے دماغ کیوں پکارہی ہیں"،جائشہ غصے سے کہنے لگی۔
"اور یہ آپ کے ہاتھ میں لفافے میں کیاہے "،جب جائشہ کی نظر اس لفافے پر پڑی تو اپنی ماں سے پوچھا۔
یہ کچھ تصویریں ہیں لڑکیوں کی فائق کی شادی کے لئے جو میں نے دیکھی ہیں"، افراء بیگم نے تصویریں جائشہ کو پکڑاتے ہوئے کہا۔
"آپ نے بھائی سے پوچھا ہے کیونکہ شادی فائق بھائی نے کرنی ہے اور آپ اچھی طرح جانتی ہیں ان میں سے وہ کوئی بھی نہیں"،جائشہ نے جتاتےہوئے کہا۔
"جانتی ہوں اسی لئے تو کررہی ہوں کیونکہ جو وہ چاہتا ہے میں ایسا نہیں چاہتی اور اجالا تو مجھے سخت ناپسند ہے"،افراء بیگم نے غصے سے کہا۔
جائشہ ان کے انداز پر مسکرائی۔
"امی پسند تو وہ مجھے بھی نہیں لیکن یہاں پسند میری اور آپ کی نہیں"۔
"یہ بھی جانتی ہوں لیکن مجھے جو کر نا ہے میں تو وہ کروں گی"۔
جائشہ نےان کی بات پر کندھے اچکا دیئے اور ٹی وی دیکھنے لگی۔
_______________________
ساڈھےچار سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سب لاونج میں بیٹھے ہوئے تھے تو افراء بیگم کو یہی مناسب موقع لگا جہاں بات کی جا سکتی ہے تو وو ہاتھوں میں لفافہ لئے اندر داخل ہوئیں۔
"یہ دیکھو فائق"۔
"یہ کیا ہے امی"،فائق نے حیران ہو کر افراء بیگم کی طرف دیکھا۔
فائق کے ساتھ ساتھ باقی سب کی نظریں بھی اس لفافے پر ٹھہرگئیں۔
ایک کے بعد دو، دو کے بعد تین تصویریں دیکھنے کے بعد فائق شاکڈ ہو کر ماں کا چہرہ دیکھنے لگا۔
"یہ کیا ہے"،فائق کے پوچھنے پر ساتھ بیٹھے ارصم نے اس کے ہاتھ سے تصویریں لے لی۔
"یہ کچھ لڑکیوں کی تصویریں ہیں ان میں سے جو تمہیں پسند ہیں بتادوتاکہ میں رشتے کی بات چلا سکوں"،افراء بیگم نے فائق کی طرف دیکھ کر بولا۔
یہ بات فائق کے لیے اتنی اچانک تھی کہ وہ کچھ لمحوں کے لیے بول ہی نہ سکا۔
"انتیس سال کے تم ہونے والے ہو میں پچھلے دوسال سے تم سے کہہ رہی ہوں شادی کر لو، لیکن تم ہر بار ٹال مٹول دیتے ہو مجھے نہیں پتہ اس ٹال مٹول کے پیچھے کیا وجہ ہےمجھے اس سے کوئی سروکار نہیں،بس۔ ۔۔مجھے تمہاری شادی کرنی ہے۔"
افراء بیگم نے کوئی موقع ہی نہیں دیافائق کو کہ وہ اجالا کا نام لے سکے اور اتنا تو وہ جانتی تھیں کہ وہ باپ کے سامنے لحاظ میں اجالا کا نام نہیں لے گا۔
"بھائی یہ والی لڑکی سب سے اچھی ہے"،ارصم نے شوخی سے کہا۔
جائشہ بھی اٹھ کر بھائیوں کے قریب آگئی۔
"افراء بیگم میراخیال ہے اتنا بڑا فیصلہ لینے سے پہلے باہمی مشورہ کر لینا ضروری ہے"،افتحار صاحب نے سنجیدگی سے بولا۔
"میں نے ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا،ابھی تو صرف تصویریں دیکھائی ہیں،فیصلا باہمی رضا مندی سے ہی ہوگا"۔
"تھیک ہے اگر تمہیں اتنا ہی شوق ہے تو کر دیتے ہیں شادی،لیکن اس کے لیے ضروری نہیں گھر گھر جا کر بچیاں دیکھے جب کہ گھر میں بچیاں موجود ہیں" افتحار صاحب نے تحمل سے کہا۔
افراء بیگم کے سر پر دھماکہ ہوا تھا جس کا ڈر تھا وہی ہوا تھا، بڑی دقت کے بعد ان کے منہ سے کوئ لفظ نکلا تھا۔
"مطلب۔۔۔۔۔۔"
"میں اجالا کی بات کر رہاہوں میں نے بہت پہلے سوچ لیا تھا کہ فائق کی شادی اجالا سے ہو گئی"۔
فائق جو کچھ دیر پہلے سوچ رہا تھا کہ اجالا کے بارے میں کیسے بتائے اپنے باپ کی بات سن کر ریلیکس ہوا۔
جائشہ نے اپنی ماں کی طرف دیکھاوہ جانتی تھی کہ وہ اس وقت اپنا غصہ دبارہی ہیں۔
"کیوں تمہیں کوئی اتراض ہے"،افتحار صاحب نے اتراض کے بارے میں تو ایسا پوچھا تھا جیسے کہہ رہے ہو اب اتراض کر کے دیکھاو۔
"جب آپ نے فیصلہ کر لیا ہے تو میں کیا کہہ سکتی ہوں"۔
"نہیں تم کہہ سکتی ہو"، افتحار صاحب نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا تھا۔
"مجھے فائق کے لیے اجالا پسند نہیں"۔
مگر کیوں۔۔۔۔افتحار صاحب نے ماتھے پر بل ڈال کر پوچھا۔
"ان دونوں کا کوئی جوڑ نہیں بنتا،آپ اجالا کی قابلیت سے اچھی طرح واقف ہیں ہر سال ٹاپ کرتی آئی ہے اور اب تو وہ ملٹی نیشنل کمپنی میں اچھی سیلری کے ساتھ اونچے عہدے ہر کام بھی کرتی ہےاور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ فائق تو پڑھا لکھا بھی نہیں ہے اوپر سے اس کی کوئی جاب بھی نہیں ہے تو ان کی طرف سے ہاں نہیں ہوگی الٹا بے عزتی ہو جائے گی"۔
"بس اتنی سی بات۔۔۔۔۔" افتحارصاحب نے جیسے ناک سے مکھی اڑائی تھی۔
"دیکھو افراء یہ تعلیم یہ شکل و صورت یہ سب باتیں غیروں میں دیکھی جاتی ہیں اپنوں میں نہیں اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ اپنی قابل بتیجھی کو غیروں میں بیھج دوں اور رہی بات ہاں یا نا کی تو میرا بھائی مجھے نا کر ہی نہیں سکتا،کیوں!!!!! فائق تمہیں تو کوئ اتراض نہیں آخر میں ان کو فائق کا خیال آہی گیا، جس کی شادی تھی اس سے بھی پوچھ لیا جائے"۔
"نہیں ابوآپ کی کی خوشی میں ہی میری خوشی ہے"۔
فائق کے مسکرا کر کہنے پر جائشہ اور ارصم نے اس کا چمکتا چہرہ دیکھا۔
"ابو ان میں سے میں کوئی پسند کر لوں"، ارصم نے تصویروں کی جانب دیکھ کر کہا۔
"نہیں بیٹا جی آپ کے لیے بھی میں نے کچھ سوچ رکھا ہے،میں اجالا کے ساتھ ساتھ درِفشاں کا بھی ہاتھ مانگنے والا ہوں"،افتحار صاحب نے افراء بیگم کے سر پر ایک اور دھماکہ کیا۔
_______________________
جاِئشہ ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھول کے اندر آئی۔
افراء بیگم جو رونوں ہاتھوں میں سر دئیے بیٹھی تھی اسے دیکھ کر کر پھر پہلے وال مراکبے میں چلی گئیں۔
"امی یہ کیا ہو رہا ہے آپ نے ابو کو منع کیوں نہ کیا ،کیا ایک اجالا آپی کو مشکل سے برداشت کرنا تھااوپر سے یہ درِفشاں مجھے بہت بری لگتی ہےمیں تو کزن ہو کر اسے پسند نہیں کرتی بھابی بنانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیا تماشالگا یا ہوا ہے اب ابو جو بھی حکم دے گئے ہم مانتے جائیں گے،کیا شادیاں بھی یوں توپی جاتی ہیں ،کل کو مجھے بھی کہے گئے کہ میں نے تمہارے لیے بھی سوچ رکھا ہے تو یہ غلط فہمی نکال دے کہ میں ان کی مرضی سے شادی کر لوں گی،اگر میرے ساتھ کسی نے زبردستی کرنے شروع کی تو میں گھر سے بھاگ ناوں گی"،جائشہ کا اتنے اشتعال کے بعد سانس پھول گیا تھا۔
"امی اپ میری بات سن رہی ہیں"جائشہ نے اپنی امی کا ریکشن نہ دیکھ کر ان کا کندھا ہلایا۔
اور افراء بیگم تو جیسے پھٹ پڑی۔
"سن لی ہے میں نے تمہاری بھی ساری بکواس، میری بلا سے جو مرضی کرتی پھرو"۔
اس سے پہلے وہ مزید کچھ کہتیں دروازہ کھول کے ارصم اندر داخل ہوا۔
"کیا ہو گیا ہے ہے سب کو ،سب لوگ کمرے میں کیوں بند ہوگےہیں۔"، ارصم نے اپنی ماں کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
"کیا ابو نے جو فیصلہ کیا ہے آپ اس سے خوش ہیں"،جائشہ نے ارصم سے پوچھا۔
"ہاں خوش بھی ہوں اور نا خوش بھی، کیوں کے میرے ساتھ درفشاں جیسی الو لڑکی ٹھیک رہے گی، مجھے زیادہ بولنے والی لڑکیاں نہیں پسند،اور دوسری بات یہ کہ میں درِفشاں کے پرپوزل سے نہ کر کےابو کی دشمنی مول نہیں لے سکتاکیوں کہ ابھی تک میں خود نکارہ ہوں اپنے باپ کے ٹکڑوں پر پل رہا ہوں کیا پتہ اس بات سے وہ مجھے گھر سے ہی نکال دے"،ارصم نے اپنی ماں اور بہن کو سمجھاتے ہو ئ
"ویسے تم دونوں بھائیوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ تم لوگوں کی ماں کے بھی کچھ ارمان ہیں"۔
"ہاں تو کرے نہ ارمان پورے،آپ کوکس نے روکا ہے"۔
"خاک پورے کروں ارمان،جہیز کے نام پر تو تنکا بھی نہیں ملنا،بیٹوں کی شادی کے لیے میں نے کیا کچھ سوچا ہوا تھا ہر یہاں تو بہووں میری پسند کی نہیں ہیں اور وہ تمہارے باپ کی چہیتیاں ابھی سے میرے سینے میں مونگ دلتی ہیں بعد میں پتہ نہیں کیا کرے گی"، افراء بیگم نے اپنی آواز میں رقت پیدا کرلی۔
"امی آپ فکر نہ کرےفائق بھائی کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن میں اپنی گارنٹی دیتا ہوں کہ درِفشاں وہی کرے گی جو آپ اس کو حکم دے گی بے شک آپ اس کے بال کینچھے ،تھپڑ ماریں ،جھاڑو لگاوائیں برتن دلوائیں مجھے کوئی اتراض نہیں"، ارصم نے افراء بیگم کو گھیرے میں لیتے ہوئے کہا۔
افراء بیگم نے اپنے ہونہار بیٹے کو دیکھا جس کے چہرے پر مذاق کی کوئی رمق نہ تھی ان کے جلتے کلیجے میں کچھ ٹھنڈک پڑی تھی۔
____________________________