کھانا کھانے کےبعد چاے کی طلب ہونے کےباوجود بیزاری کے ساتھ ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے اور شو کے ختم ہوتے ہی انہوں نے بیساختہ گہری سانس خارج کی۔
"بیگم چاے آج کی تاریخ میں مل جائے گی کہ نہیں۔"۔۔۔
افراء بیگم نے غصے سے ان کی جانب دیکھا، ایک تو اپکو ہر آدھے گنٹھے بعد چائے کی یاد بہت آتی ہے۔
"کب کوئی بیگم چار گنٹھے پہلے تو پی ہے"۔
میرا مشوارہ مانے،" تو دکان کو چوڑ کہ چاے کا ڈھابہ کول لیں تا کہ آپ بھی خوش اور میں بھی ۔"
ویسےآئیڈیااچھا ہے، عمل کیا جا سکتا ہے"،لیکن ابھی تو چاے بنا دیں بیگم"
کل سے میں بڑے دیگچھے میں چاے بنا کے رکھ دوں مجھ سے بار بار نہیں اٹھا جاتا۔افراء بیگم نے کہا۔
" نوازش ہو گی اپکی "،افتحارصاحب نے شرارت سے کہا۔
یہاں پہ سوئی گیس تو ہے نہیں سلنڈرچلتا ہے ،اور آپ بھی جا نتے ہیں کس طر ح گزراہ ہوتا ہے، پھر بعد میں مجھے ہی باتیں سنائیں گے کہ اتنا خرچہ ہو گیا۔
" ایک چا ے کے لئے اتنی لمبی تقریر سننےپڑھے گی ،اس سے اچھا تھا کہ میں خا لد اور سرفرازکی طرف چلا جا تا چا ے بھی ملتی اور ساتھ کچھ کھا نے کو بھی ملتا با تیں تو سننے کو نہ ملتی"افتحار صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔
یہ بات سنتے ہی افراء بیگم تو گویا آگ ہی لگ گئی ،"آپ کے نزدیک ساری دنیا اچھی ہے ،صرف مجھے چھوڑ کر آپ کا دل کرتا ہے کہ میں سب کہ سا منے مظلوم بن جاوں اور سب مجھے ظالم کہے کہ جو شوہر کو چاے پانی نہیں دیتی"۔
"ہاں تو اس میں جھوٹ ہی کیا ہے نہیں دیتی ،اور افتحار صا حب نے غصے میں ٹی وی لگا کہ بیٹھ گئے۔
حد ہوتی ہے ہر چیز کی، غصے میں افراء بیگم باہر چلی گئی۔
جبکہ افتحار صاحب مسکرا کر شو دیکھنے لگے۔
_______________________
وہ اسکول سے گھر واپس آئی ،تو اس کا موڈ بہت خراب تھا۔ جو گھر میں داخل ہوتے سلام کرنا بھی بھول گئی ،
کمر ے میں آتے ہی بیگ صوفے میں پھینکا اور جوتے اتار کے پھیکنے لگی۔
اتنے میں وہ شوز باہر سے آتی ہو ئی اجالا کے منہ پر لگا ۔
"کیا ہو گیا ہے درفشاں، کیو ں اس طر ح کا بیہیو کر رہی ہو؟" درفشاں رونے لگی۔
اجالا پریشان ہو کر کہنے لگی ،کہ کیا ہوا یے ؟سکول میں کسی سے لڑائی ہوئی ہے؟
"نہیں آپی جائشہ نے میرے بیگ میں سے ہوم ورک کی کاپی نکا ل لی اور جب سر نے کاپیز مانگی تو میرے بیگ میں کاپی نہیں تھی اور جب میں نے سر سے شکا یت کی تو سر الٹا مجھے ہی ڈانٹنے لگے اور میری کلا س میں اتنی انسلٹ ہوئی اور بعد میں آ کے جا ئشہ نے کا پی مجھے واپس کر دی" درفشا ں رونے لگی۔
اجالا نے اسے سا تھ لگا لیا، چلو چھوڑو تم اس با ت کو اپنا موڈ خراب نہ کرو اج میں نے تمہا رے پسند کا پکا وبنا یا یے۔چلو اٹھو منہ ہاتھ دھو کہ آو ،جب تک میں کھانا لگاتی ہوں ۔
درفشاں اٹھ کر منہ ہاتھ دونے چلی گی ۔
وہ لوگ کھانا کھا ریے تھے ،جب یشب کمرے میں داخل ہوااور سلام کیا۔
آوبیٹھو ، آج تم غلطی سے تو ادھر نہیں آگئے اجا لا نے مسکرا کر کہا۔
نہیں آپی آج اپکی پلاو کی خوشبو غلطی سے یہاں لے آئی۔
چلو کسی نہ کسی بہا نے تم ائے تو سہی ،اجالا نے کہا ۔
یشب نے دیکھا کہ درفشا ں پلیٹ پہ جھکی کھانے میں مصروف تھی۔
" کیا با ت ہے اج مس چو ہیا بہت چپ ہے "،ساتھ اسے بھی چیھڑنا فر ض سمجھا۔
اپی۔۔۔ آپ یشب بھا ئ کو بو لے وہ مجھ سے تمیز سے بو لا کر ے ،درفشاں نے سنجید گی سے کہا۔
"اوووووو۔ ۔۔۔ ایٹییٹیود "،یشب مسکرا کر کہنے لگا ۔
"ملکہ عا لیہ آپ خود ہی بتا دے آپ سے کیسے با ت کروں، اج کسی کا قتل تو نہیں کر آئی،" یشب نے شرارت سے کہا۔
" اچھااااااااا ۔۔۔۔۔۔۔تو آپ کی چمچی نے آتے ہی کارنامہ بتا بھی دیا،اور آپ یہاں تماشہ دیکھنے آئے ہیں ،مجھے آپ دونوں ہی زہر لگتے ہیں"،درفشاں نے کہا۔
" درفشاں ۔۔۔۔۔اجا لا نے غصے سے کہا ۔تمہارا بڑا بھا ئی ہے، کچھ تو لحاز کرو۔
" نہیں ہے کوئی میرا بھائ اور یہ تو با لکل نہیں "،اور درفشاں غصے سے اٹھ کر چلی گی۔
یشب اج اس کا موڈ ٹھیک نہیں ہے، اس کی طرف سے میں معزرت کر تی ہوں اجالا نے کہا۔
" اس کا موڈ ٹھیک کب ہوتا ہے، ہر وقت خراب ہی ریہتا ہے، ""مس مینڈکی"" اور رہی با ت معزرت کی تو وہ تو بس ویسے ہی تنگ کر تا ہوں،" یشب نے کہا۔
" اچھا۔۔۔اااا۔ اب میری بہن کو مینڈکی تو مت کہو ،اتنی اچھی تو ہے بس تھوڑا سا برداشت کا مادہ کم ہے ،"اجالا نے کہا۔
" تھوڑا کم نہیں ہے ہی نہیں برداشت ،بس ہر وقت مرچیں ہی چباتی رہتی ہے،" یشب نے برا سا منہ بنا کر کہا ۔
بکو مت۔۔۔۔۔ اجالا نے اس کے کندھے پر ہلکی سی چپت لگائی۔
"اچھا ۔۔۔۔۔۔۔چھوڑ یں اس با ت کو ،اج کیا پکایا ہے اپ نے؟ ،میرے پیٹ میں تو چوہوں نے اب تو باقاعدہ ریس لگا لی ہے بھوک کی وجہ سے ،اور میں نہیں چاہتا کہ وہ تڑپ تڑپ کہ بے موت مر جائے ،اس لیے جلدی سے کچھ کھانے کو لا دے "، یشب نے بے چارگی سے کہا۔
"کیوں۔۔ آج گھر میں تائی امی نے کھانا نہیں دیا تمہیں ،اجالا نے کہا ۔
"آج امی نے سبزی بنائی ہے ،اور آپ کو پتہ تو ہے مجھے سبزیوں سےکتنی نفرت ہے، پھر بھی پکا لیتی ہیں،" یشب نے برا سا منہ بناکر کہا۔
"اجالا نے پلاو کے ساتھ رائتہ اور سالاد کی پلیٹ اگے کی"، تو وہ بہت خوش ہوا۔
"آپی۔ ۔اللہ تعالیٰ اپ کو سارے جہان کی خوشیاں دے ،"یشب نے دل سے دعا دی۔
"آوئے ۔۔ آرام سے کھانا بھاگ تو نیہں رہا"،اجا لا نے کہا ۔
کھانا تو بھاگا نہیں جا رہا ،لیکن میں جلدی میں ہوں اس لئے ، دوستوں کے ساتھ کہیں جانا ہے،دیر ہو رہی ہے مجھے
، یشب نے کھانا کھاتے ہوا کہا ۔
"یشب تم اب کالج جاتے ہو، اب اور انجینئر نگ کے اتنے مشکل تمہارے سبجیکٹ ہیں اور تم اس کو اتنا لا ئیٹ لے رہے ہو ، تمہاری وجہ سے تایا ابو اور تائی امی اتنے پریشان ہیں اور تمہیں کوئی فکر ہی نہیں "،اجالا نے سنجیدہ ہو کر کہا۔
"اووو۔۔۔۔۔۔ہوووو۔ ۔۔۔امی کی تو عادت ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر پریشان ہونے کی ، اس میں کیا حرج ہے اگر میں تھوڑا سا وقت اپنے دوستوں کو دے دیتا ہوں۔"
" تھوڑا۔۔۔۔۔۔۔۔اجالا نے آنکھیں نکالی ،تم سارا سارا دن گھر میں اپنی شکل نہیں دیکھاتے اور کہ رہے ہو بس تھوڑا سا وقت۔"
"اپی پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ دیکھئے میرے جوڑے ہوئے ہاتھوں کو ،گھر میں روز صبح شام یہ لیکچر سنتا ہوں، اب آپ بھی مت شروع ہو جائے،" یشب نے بیزار ہو کر کہا ۔
"یشب تم ان کے اکلوتی اولاد ہو،ان کو تم سےبہت امیدیں وابستہ ہیں، "اجالا نے کہا ۔
"ویسے یہ اکلوتے ہونے کے بھی بہت نقصان ہیں ، ہر وقت روک ٹوک ،تنگ آ گیا ہوں اب تو میں"، یشب نے منہ بنا کر کہا ۔
"اورفائدے کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔" اجالا نے ابرو اچکا کر کہا۔
"وہ تو میرا حق ہے" یشب نے چمچہ منہ میں ڈالتے ہوا کہا۔
"اور تمہارے ماں باپ کا بھی تم پر حق ہے۔" اجالا نے کہا۔
"آپی میرے گھروالے مجھ سے شکایت تو تب کرے ،جب با ہر سے لوگ میری شکایات کرے،میرے ما رکس برے آئے ہو،یا پھر میں غلط صبحت میں بیٹتھاہوں، اچھا۔۔۔۔۔ کھانا بہت اچھا تھا، بہت شکریہ۔ ۔۔۔۔۔ بہن ہو تو آپ جیسی ورنہ ہو ہی نہ ہو، میں گھر سے باہر جا رہا ہوں اگر کوئی کا م یے تو بتائیں"۔ یشب نے اٹھتے ہوا کہا۔
اچھا آتے وقت آئس کر یم لیتے آنادرفشاں کے لئے اس کا موڈ ٹھیک ہو جا ئے گا ،اجالا نے کہا۔
"ایک تو آپ کو ہر وقت اس سڑیل کی فکر رہتی یے "یشب نے ہنستے ہوئے کہا۔
اب میری اتنی پیاری بہن کو سڑیل تو مت کہو ،اجالا نے آنکھیں دیکھائیں ۔
"اب میں اتنا بھی اچھا نہیں سڑیل کو سویٹ کہو،" یشب ہہ کہ کر رکا نہیں ۔
اور پیچھے سے اجالا کھڑی ہو کر مسکرانے لگی۔
_____________________
"عنایت صاحب کے تین بیٹے تھے،بڑا بیٹا افتحار ،اس سے چھوٹا سرفراز اور سب سے چھوٹا خالد ،افتحار نے اپنی شادی والدین کی مرضی سے افراء بیگم سے کی ،جن کو گھر کی بڑی بہو کا حق حاصل ہے"،ان کوحسد کی بہت بری عادت ہے اور ہر وقت دوسروں کی برائیاں کرتی رہتی ہیں۔
"ان سے چھوٹے ہیں سرفراز صاحب جنہوں نے اپنی پسند سےزرینہ بیگم سے شادی کی تھی اور ان کے والدین کافی عرصہ تک ان سے ناراض بھی رہے تھے لیکن زرینہ نے جلد ہی اپنی اخلا ق اور ملنسار عادت کی وجہ سے اپنے ساس اورسسر کا دل جیت لیااور بعد میں عنایت صاحب نے معاف بھی کر دیا تھا۔"ان کا ایک بیٹا یے جس کا نام یشب ہے اور وہ اپنے بیٹے کو پا کر بہت خوش ہیں۔
"اور سب سے چھوٹے ہیں خالد صاحب انہوں نے بھی اپنے والدین کی پسند سے شادی کی ۔جن کا نام مبشرہ بیگم ہے ان کو سب سے چھو ٹی بہو کی حثیت حاصل ہے اور بہت اچھے اخلاق کی مالک ہیں۔"ان کی دو بیٹیاں ہیں سب سے بڑی اجالا ،اور سب سے چھوٹی درفشاں ہے۔"
"خالد صاحب کو بیٹے کی بہت خواہش تھی ،لیکن بیٹا نہ ہونے کی وجہ سے اپنی بیٹیوں کو ہر وقت کوستے رہتے تھے ،اب ان کو کون سمجھتا کہ اولاد تو الله کی دین ہے جسے چاہے دیں جسے چاہے نہ دیں"۔
"باپ کا پیار تو نہیں ملا لیکن اجالا اور درفشاں اپنے دونوں تایاکی بہت لاڈلی تھی"۔ اور یہی بات افراء بیگم کو چبتی تھی کیونکہ ان کا بیٹا اجالا کو پسند کرتاتھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن افراء بیگم بہت لالچی خاتون تھی وہ بیٹے کی شادی امیر گھرانے میں کرنا چاہتی تھی۔ اسی وجہ سے اجالا سے چڑ تھی انہیں۔
____________________
"آئیے آئیے۔۔۔۔افراء بھابھی آج آپ کو ہمارے گھر کا راستہ کیسے یاد آ گیا"۔ زرینہ بیگمنے گلےملتے ہوا کہا۔
"چلو مجھے تو تمہاری یادآئی اور میں ملنے بھی آ گئی، تمہیں تو یہ توفیق بھی نہیں ہوئی کہ دو قدم پر گھر ہے مل ہی آوں،" افراء بیگم نے شکوہ کرتے ہوئے کہا۔
"نہیں بھابھی ایسی تو بات نہیں،دراصل مصروف زیادہ ہو ہوگئی اج کل بس اسی وجہ سے چکر نہیں لگا سکی، اچھا آپ بتائیں کیا لے گئی ٹھنڈا یا پھر گرم "،زرینہ بیگم نے ہنستے ہوئے کہا۔
"بھئی میں تو چائے پیوں گی"،اور یہ کہنے کے ساتھ ہی صوفے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
"جی ٹھیک ہے بھابی ابی لائی،"اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔
کچھ ہی دیر میں زرینہ بیگم چائے اور دیگر لوازمات کے ہمراہ لاونج میں تشریف لے آئی۔
"بھابی آپ تو کچھ لے ہی نہیں رہی، یہ نگٹس لے میں نے خود بنائے ہیں، اور پلیٹ افراء بیگم کی طرف بڑھائی، اور کافی دقت کے بعد پلیٹ میں رکھ لیا"۔
افراء بیگم جہاں کبھی جاتی تھی ، تو لوگوں کے کھانوں کے زائقوں کودیکھ کے جلتی تھی کیونکہ ان کے ہاتھ میں خود ذائقہ جو نہ تھا اور نہ ہی ان کو کچن میں کوئی دلچسپی تھی۔
پھر کچھ ادھر اُدھر کی با توں کےبعد اخر پوچھ لیا ،جس مقصد کے لئے وہ ان کے گھر آئی تھی ،"کل تمہارے گھر کون آیا تھا زدینہ"۔
"بھابھی کل میرے بھائی آئے تھے امریکہ سے تو وہ مجھ سے کل ملنے آئے تھے"، آپ کو پتہ تو ہے میرا ایک ہی بھائی ہے، زرینہ بیگم نے کہا۔
ہوں۔۔۔۔۔ اور ہنکار بھر کے چائے کے سپ لینے لگی ،اور کمرے کا جائزہ لینے لگی ،فرنیچر کچھ بدلا بدلا سا لگ رہا تھا۔
زرینہ نے کمرے کا جائزہ لیتں ہوئی افراء بیگم کو دیکھ لیا،"بھابھی کچھ چاہئے آپ کو۔"
چوڑی پکڑے جانے پر وہ سپٹا گئی،اور جلدی سے بولی نہیں میں تو یشب کو ڈونڈھ رہی تھی ،"کہاں ہے وہ نظر نہیں آرہا"۔
"ارے۔۔۔بھابھی کیا بتاوں آپ کو ،سارا دن دوستوں کے ساتھ باہر گھومتا رہتا ہے ،میں تو بہت پریشان ہوں اس کی عادت کی وجہ سے"، زرینہ بیگم نے فکر مندی سے کہا۔
اور افراء بیگم تو زرینہ بیگم کے چہرے پہ پریشانی کو گویا ٹھنڈ پڑ گئی ہو ، جوان اولاد ہے دھیان رکھا کرو اس کا،اس طرح کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تم نے،اور اوپر سے ہے بھی اکلوتا بگھڑنے میں کون سا دیر لگتی ہے ،"اب میرا ارصم ہی دیکھ لو یشب کا ہی ہم عمر ہے مجال ہے جو پوچھے بغیر گھرسے باہر نکلا ہو،اور اوپر سے باپ اور ماں دونوں کا روعب اور یوں گھر سے سارا سارا دن با ہر رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"۔
اب تو زرینہ بیگم کو اور پریشانی لاحق ہو گئی تھی ،جس طرح افراء بیگم اپنے بچوں کی تعریفوں کے پل باندھ رہی تھی اور اردگرد کے واقعات کو مرچ مصالحہ لگاکر سنا رہی تھی۔
__________________