سلطان مہراب علی کا شمارملک کے امیر ترین جاگیرداروں میں ہوتا تھا وہ جاگیر دار ہونے کے ساتھ ساتھ مشہور بزنس مین بھی تھے ـ ان کی شادی ان کی پسند سے ہوئی مگر شاید تقدیر کو ان کا ساتھ منظور نہ تھا اس لیے ان کی محبوب بیوی سلطان فرجاد کی پیدائش پر ان سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں ـ یہ خبر ان کے لیے کسی شاک سے کم نہ تھی صدمہ اتنا گہرا تھا کہ وہ کچھ عرصہ تک دنیاو مافیا سے بے خبر رہے پھر آہستہ آہستہ فرجاد کی خاطر خود کو سنبھال لیاـ فرجاد ہو بہو ماں کی کاپی تھا وہ ایک لمحہ بھی اسے خود سے دور نہ کرتے فرجاد بھی باپ کے نزدیک آگیا آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا سلطان مہراب کی بہن نے ان پر بہت زور دیا کہ وہ دوسری شادی کر لیں مگر وہ کسی طور نہ مانے ـ دو سال گزرے تو مہراب کو لگا کہ اس گھر کو ایک عورت کی ضرورت ہے اُس وقت فرجاد دو سال کا تھاـ جب ان کی بہن کی کوششوں سے سلطانہ بیگم ان کی بیوی بن کراس گھر میں آگئیں شروع شروع میں تو انہوں نے فرجاد کو خوب پیار کیا وہ بھی ماں سے مانوس ہو گیا یہ دیکھ کر سلطان مہراب علی سلطان فرجاد کی طرف سے بے فکر ہوگئے اور بزنس میں اس قدر مصروف ہو گۓ کہ کئی کئی دن گھر نہ آتے نتیجتاً فرجاد باپ سے دور ہو گیا ادھر سلطانہ بیگم کے ہاں جب ان کا بڑا بیٹاسلطان عباد پیدا ہوا تو انہوں نے اپنی تمام تر توجہ اسکی طرف کر لی اور فرجاد سے کھینچی کھینچی رہنے لگیں فرجاد کو اپنے چھوٹےبھائی سے بہت پیار تھا وہ بھاگ بھاگ کر اس کے پاس جاتا مگر سلطانہ بیگم جیسے ہی اسے دیکھتیں کمرے سے نکال دیتیں ـ یوں فرجاد کی عباد سے نفرت کا آغاز ہوا ـ عباد کے بعد سلطان فرہاد اورسلطان ایاد پیدا ہوئے ـ وہ دونوں بہت شرارتی تھے ہر وقت لڑتے رہتے ان دونوں کی ایک منٹ کے لیے نہ بنتی تھی ـ ایاد سب بھائیوں سے زیادہ خوبصورت تھا ہر وقت فرجاد کے ساتھ چپکا رہتا چونکہ ایاد کی پیدائش کے بعد سلطانہ بیگم بیمار رہنے لگیں تھیں اس لیے وہ ایاد کو فرجاد سے دور رکھنے میں ناکام رہیں تھیں وہ زیادہ وقت فرجاد کے ساتھ گزارتا تھا فرجاد کو بھی ایاد سے بے تحاشہ محبت تھی سلطان فرجاد نے گریجوایشن کے بعد بزنس کی بجائے جاگیرداری میں دلچسپی ظاہر کی تو سلطان مہراب نے بخوشی اس کا خواہش کو پورا کر دیا ـ وہ ایک بارعب جاگیردار تھا اس کے لہجہ میں کچھ ایسا تھا جو سب کو اس سے دور رکھتا وہ کبھی کسی بے قصور کو سزا نہ دیتا تھا اور قصوروار کو چھوڑتا نہ تھا سواۓ ایاد کے کسی میں اس سے کھل کر بات کرنے کی ہمت نہ تھی ـ عباد کے خلاف جو نفرت کا بیج اس کے دل میں بچپن سے بویا گیا تھا وہ عباد کی بے تحاشہ محبت بھی ختم نہ کر سکی
* * * * * *
عباد اور مزنہ کی دوستی یونیورسٹی سے شروع ہوئی تھی مزنہ بخاری ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی وہ اپنی سوتیلی ماں اور سوتیلے بھائی کے ساتھ رہتی تھی باپ کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوا تھا اسکی ماں اور بھائی اسے اچھا نہیں سمجھتے تھے مگر وہ براہ راست اسے کچھ نہ کہتے تھے کیونکہ گھر اور کچھ دکانیں مزنہ کے نام تھیں ـ سلطان عباد کو وہ پسند آئی تھی اسے اسکی معصومیت اور حیا بھا گئی تھی لیکن مزنہ اسے صرف ایک اچھا دوست سمجھتی تھی ـ شاید مزنہ عباد کی ہو ہی جاتی اگر سلطان فرجاد درمیان میں نہ آتا
* * * * * *
" انعم انعم میری بات سنو " انعم اپنے کمرے میں جا رہی تھی جب غانیہ نے اسے پکارا
"ہاں کہو " وہ پلٹی
" وہ ـ ـ احد کہاں ہے ؟؟" اس نے سہمےسے انداز میں پوچھا جسے محسوس کر کےانعم کو یکلخت ندامت نے آگھیرا
"وہ انگلینڈ چلا گیا ہے فار ہائیر ایجوکیشن " یہ کہہ کر وہ کمرے میں چلی گئی جبکہ غانیہ وہیں کی وہیں کھڑی رہ گئی اتنی بے رخی کہ وہ اس سے مل کر بھی نہیں گیا تھا" یا خدا" وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رو پڑی
* * * * * * *
"گیٹ کھلا اور دو گاڑیاں آگے پیچھے اندر داخل ہوئیں ـ پہلی گاڑی میں سے سلطان مہراب باہر آۓ اور دوسری میں سے سلطان فرجاد اور سلطان عباد نکلے ـسلطان عباد نے آگے بڑھ کر سلطان فرجاد کو سہارا دیا ـ کمزوری و نقاہت کی وجہ سے اس سے ٹھیک سے چلنا مشکل تھا فرجاد نے ممنون نظروں سے اسے دیکھا وہ اس سے بے حد شرمندہ تھا جسنے اسے نفرت کے بدلے ہمیشہ محبت اور عزت ہی دی ـ جونہی وہ گھر میں داخل ہوئےسلطان ایاد بھاگ کر سلطان فرجاد کے گلے لگ گیا " بھیا ـ ـ بھیا " اب وہ اونچی آواز میں رو رہا تھا " بھیا آپ کو میرا زرا خیال نہیں آیا ایک بار بھی نہیں سوچا میرے بارے میں " سلطان عباد نے آگے بڑھ کر اسے الگ کرنا چاہا
" اے کیوں عورتوں کی طرح بین کر رہے ہو "مگروہ ٹس سے مس نہیں ہوا ـسلطان فرجاد نے اُسے کندھوں سے پکڑ کر الگ کیا " افوہ یار مرا نہیں ہوں ابھی "
" اللہ نہ کرے آپ کو کچھ ہو آپکو عباد بھائی کی بھی عمر لگ جائے " وہ شرارت سے کہہ کرپھر سے گلے لگ گیا اسکی بات پر فرجاد نے عباد کو دیکھا اور مسکرا دیا
* * * * * * *
سلطان فرجاد کی شادی سلطانہ بیگم کی بھتیجی سے ہوئی وہ ایسا ہرگز نہیں چاہتا تھا مگر سلطان مہراب نے پہلی بار اس سے کچھ مانگا تھا اور وہ انہیں انکار نہیں کر سکا تھا ـ سلطانہ بیگم چاہتیں تھیں کہ فرجاد ان کے ہاتھ میں رہے کیونکہ سارا جاگیرداری نظام وہ سنبھال رہا تھا ـ اس لیے بہت سوچ سمجھ کر انہوں نے یہ داؤ کھیلا تھا ـ ثمانہ بیگم اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی تھی ساری جائیداد کی اکلوتی وارث ـ اس کے والد شیر علی اپنے علاقے کے بڑے جاگیردار تھے وہ جانتی تھی کہ ایک جاگیردار ہونے کے ناطے سلطان فرجاد دولت دیکھ کر ثمانہ بیگم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے مگر ان کا یہ داؤ بھی ناکام گیا جب سلطان فرجاد نے دوسری شادی کا فیصلہ کیا
* * * * * *
" جی کہیے آپ نے مجھ سے کچھ بات کرنی تھی " عباد نے انعم کو دیکھتے ہوئےکہا ـ وہ شیزہ اور پھو پھو کے ساتھ وہاں آئی تھی شیزہ کی کوششوں سے وہ دونوں آج ایک دوسرے کےروبرو تھے انعم نے سر اٹھا کے اسے دیکھا سفید کاٹن کے شلوار سوٹ میں وہ بے حد وجیہہ لگ رہا تھا وہ ذیادہ دیر اس کی طرف دیکھ نہ سکی اور نظریں جھکا لیں
"مس آپ کو جو بھی کہنا ہے پلیز جلدی کہیں " اس نے قدرے ناگواری سے کہا تو وہ چونکی اور بہت ہمت کر کے بولی " م ـ میں آپ سے ـ ـ " انعم نے جھجھکتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا وہ سوالیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا " مجھے آپ سے محبت ہے " اس نے تیزی سے بات مکمل کی
" واٹ" اور وہ اتنی ہی تیزی سے کھڑاہوا " جی پلیز آپ مجھے کوئی ایسی ویسی لڑکی مت سمجھنامیں بہت ہمت کر کے آپ تک آئی ہوں پلیز " وہ ملتجی لہجے میں بولی
عباد نے گہرا سانس بھر کر اس کامنی سی لڑکی کو دیکھا " آپ کیا جانتی ہیں میرے بارے میں ؟؟"
" سب کچھ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ مزنہ سے محبت کرتے تھے اور ـ ـ ـ"
" یہ سب کس نے بتایا آپ کو ؟؟" اس نے قدرے غصیلے لہجے میں اس سے پوچھا
" آپ ایک بار سلطانہ آنٹی کے ساتھ ہمارے گھر آۓ تھے تب میں نے آپ کو دیکھا تھا ثمانہ بھابھی نے بتایا تھا مجھے یہ سب "
" ہوں " وہ سمجھ گیا تھا کہ ثمانہ بھابھی نے کیا کیا بتایا ہو گا " آپ کہہ رہی ہیں آپ غلط لڑکی نہیں ہیں اگر آپ غلط نہ ہوتی یوں اکیلے مجھ سے ملنے نہ آتیں شریف لڑکیاں یوں تنہائیوں میں نہیں ملا کرتیں مس آپ کا کیا پتا کس کس سے یہ اظہار کر چکی ہوں ـ ـ "
الفاظ تھے یا نشتر وہ سُن رہ گئی اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھاوہ اور بھی کچھ کہہ رہا تھا مگر وہ تیزی سے وہاں سے نکل آئی عباد نے چونک کر اسے جاتا دیکھا اور سرجھٹک دیا
* * * * * * * *
اس دن مزنہ عباد کے ساتھ پہلی بار اس کے گھر آئی تھی وہ آنانہیں چاہتی تھی مگر عباد اسے زبردستی لے آیا تھا " تم یہیں رکو میں اپنے روم سے فائل لے کر آتا ہوں " اس نے اسے لاوٴنج میں بٹھایا اور خود کمرے میں چلا گیا ـ تبھی فرجاد کسی ملازم کو گریبان سے پکڑے اندر لے آۓ اور زمین پر پٹخ دیا وہ رو رو کر فریاد کر رہا تھا " مجھے چھوڑ دیں سائیں خدا کا واسطہ " مگر اس پر تو کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا
" غداری.... تم غداری کر رہے تھے اور غداری کی سزا صرف موت ہے " سلطان فرجاد گرجدار آواز میں بولا "اٹھا کر لےجاوٴ اسے خیرو اور بتاو اسے کہ ہمیں دھوکہ دینے کی سزا کیا ہوتی ہے " ملازم اب اسکے پاوں پکڑ کر اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا سلطان فرجاد کی نظر ابھی مزنہ پر نہیں پڑی تھی
مزنہ یہ دیکھ کر تھرّا گئی اتنا ظلم نہ جانے اس میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی وہ تیزی سے آگے بڑھی اور سلطان فرجاد کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی
" کس مٹی کے بنے ہو تم ذرا برابر انسانیت نہیں ہے تم میں کیا ؟؟ جب کوئی ،معافی مانگ لے تو خدا بھی معاف کر دیتا ہے مگر تم جیسے دولت کے نشے میں پور پور ڈوبے ہوئے جابر لوگ نہ جانے خود کو کیا سمجھ بیٹھتے ہیں کبھی خود کو اس جگہ پر رکھ کر دیکھو تو تمہیں پتا لگے گا اس اذیت کا جو تم دوسروں کو دیتے ہو " اسنے جی بھر کر اپنی بھڑاس نکالی اور غصے سے اسے گھورتے وہاں سے چلی گئی
" چھوڑ دو اسے " اس حکم پر ملازم نے حیرت اسے دیکھا مگر وہ تیزی سے کمرے کی طرف بڑھ گیا
* * * * * *