وہ ڈرائنگ روم میں آئی تو دیکھا مہمان آچکے تھے فرہان ان کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھا وہ کل ملا کر تین لوگ تھے
اسنے آتے ہی سلام کیا تھا تبھی فرہان کے دوست کی بیوی رباب اٹھی اور ثمن کو گلے لگایا وہ ثمن سے اس طرح ملی جیسے برسوں پرانی سہیلیاں ملتی ہیں ثمن کے کانفیڈنس میں اضافہ ہوا
کیسے ہیں بھابھی آپ؟؟؟ عدیل نے سلام کرنے کے بعد ثمن کا حال پوچھا تھا
اللہ کا شکر ہے ٹھیک ہوں
مجھے امید ہے بھابھی کہ ہمارے یہ جو دوست محترم ہیں انھوں نے آپ سے ہمارا تعارف تو کیا ہی نہیں ہوگا ہے نہ ؟؟؟
ثمن جواب میں صرف مسکرائ
وہ کہتی بھی تو کیا کہتی اس انسان کے بارے میں جو اسے صرف اذیت دیتا ہے جو اس کا وجود ہی برداشت نہیں کر پاتا جو اسے اپنی بیوی کا قاتل سمجھتا ہے
میں عدیل ہوں اور یہ میری لائف مطلب کہ وائف رباب ہے اور یہ ہماری شہزادی ہے آپ جانتی ہیں اسکا نام بھی ثمن ہے وہ مسکرایا
چھوٹی سی ثمن اس کے پاس آئی
آپکا نام ثمن ہے ؟؟ اسنے ثمن سے پوچھا
جی ہاں ثمن نے مسکرا کر جواب دیا
یہ کیسی بات ہوئ بھلا آپ تو اتنی بڑی ہو پھر آپکا نام ثمن کیوں ہے ؟؟
کیوں میرا نام ثمن کیوں نہیں ہوسکتا ؟؟؟ ثمن پھر سے مسکرا دی
کیونکہ آپ تو اتنی بڑی ہو ثمن تو چھوٹے بچوں کا نام ہوتا ہے نہ
اسکی بات پر سب کا قہقہا بلند ہوا
نہیں بیٹا جب چاچی چھوٹی تھی تب انکا نام ثمن تھا اب چاچی بڑی ہوگئیں ایسے ہی آپ ابھی چھوٹی ہو پھر بڑی ہو جاٶ گی نہ
رباب نے اسے سمجھایا تو وہ چھوٹی سی بچی سمجھ گئ
کہاں ہیں بھئ ہمارے چھوٹے شہزادے ؟عدیل نے فرہان سے پوچھا
انکا فیورٹ کارٹون لگا ہے وہی دیکھ رہے ہیں محترم
میں بھی جاٶں چاچو
ہاں جاٶ گڑیا آپ بھی دیکھ لو کارٹون
تھینک یو چاچو
وہ بھاگی بھاگی حدید کے کے روم میں گئ
بھابھی فرہان آپکو تنگ تو نہیں کرتا نہ مطلب غصہ تو نہیں کرتا یا جھگڑا وغیرہ ؟؟
نہیں ، ثمن کو اپنی آواز دور کسی کھائ سے آتی ہوئی سنائی دی
کبھی کبھی جھوٹ بولنا کتنا مشکل ہوتا ہے جب آپ جھوٹ بولنا بھی چاہو لیکن زبان ساتھ نہ دے خاص کر اس وقت جب سچ بہت درد دینے والا ہو
مجھے پتہ تھا فرہان بھائ کبھی کسی کو دکھ دے ہی نہیں سکتے آپکو پتا ہے ثمن ، حنا تو میری بہت اچھی والی سہیلی تھی ہم بلکل بہنوں کی طرح تھیں (رباب ثمن سے مخاطب تھی )فرہان بھائ اور حنا ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے بہت خوش تھے دونوں آپس میں پتہ نہیں کس کی نظر لگ گئی دونوں کو
فرہان اور عدیل دونوں آپس میں کسی بات پر بحث کر رہے تھے
رباب ثمن کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی
اسی طرح وقت گزرگیا کھانے کا وقت ہوا تو ثمن کھانا گرم کرنے کچن میں چلی آئ پیچھے سے رباب بھی آگئی
ارے آپ یہاں کیوں آئیں کچھ چاہیے آپکو ؟؟؟
نہیں ۔۔۔رباب مسکرائ ہے
رباب اور ثمن کی آپس میں کافی انڈرسٹینڈنگ ہوچکی تھی بلکل برسوں پرانی سہیلیوں کی طرح
کچھ لوگ اپنی باتوں میں سحر رکھتے ہیں دو بول میں ہی آپکو اپنا بنا لیتے ہیں رباب بھی ان لوگوں میں سے ایک تھی اپنی باتوں سے سب کو اپنا بنانے والی
ثمن !!! کیا تم واقعی خوش ہو ؟؟
بلکل میں خوش ہوں بہت خوش ہوں یہ جملہ ادا کرتے ہوۓ ثمن کی آنکھیں بھر آئیں
ثمن میں چاہتی ہوں تم آج اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر ہی دو بلا جھجھک کے رباب نے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھاما جیسے کہ اسے یقین دلا رہی ہو کہ تمہارے راز ہمیشہ راز ہی رہیں گے
ثمن اپنے آنسوٶں پر قابو نہ رکھ سکی اور رباب کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی رباب نے اسے خود سے الگ کیا نہ ہی اسے چھپ کروایا کبھی کبھی رولینے سے بھی درد کافی حد تک کم ہوجاتا ہے
جب ثمن چھپ ہوئ تو رباب کو ساری کہانی سنائ
رباب کی آنکھیں بھر آئیں ثمن تم س طرح سے رہ رہی ہو یہاں اگر شوہر شادی کے فوراً بعد سے ہی نفرت کرنا شروع کردے یا ایسا ٹارچر کرتا رہے تو ایک لڑکی جو صرف اسکی خاطر اپنی دنیا چھوڑ کر آتی ہے وہ کیسے رہ سکتی ہے اس کے ساتھ
تبھی عدیل نے آواز لگائ جلدی لائیں کھانا پیٹ میں چوہوں کے دوڑنے کی ریس لگی ہوئ ہے
اچھا لاتی ہیں رباب نے جواب دیا
کھانا میز پر لگایا گیا ثمن نے منہ دھو لیا تھا تاکہ کسی کو اس کے رونے کا پتہ نہ چلے سب لوگ کھانا کھانے بیٹھ گۓ
میں سلاد لاتی ہوں ۔۔۔۔ثمن کچن کی طرف جا رہی تھی ثمن میری جان !!آٶ کھانا کھالو
شاید یہ تو فرہان کی آواز تھی کیا اس نے اسے بلایا ہے وہ بھی اتنے پیار سے ثمن نے مڑ کر دیکھا ۔۔
____________
یہ تم نے کیا کر دیا شہباز ؟؟؟ وہ مر گئی تو
ثمن شہباز پز چلا کر بولا
مرے گی نہیں کوئ نہ کوئ اسپتال لے ہی جاۓ گا یار اداس نہ ہو
تم کتنے عجیب انسان ہو ؟؟؟ شہباز تم نے غصے میں آ کر جان بوجھ کر اسے ٹکر ماری تھی میں جانتی ہوں
نہیں ایسا نہیں تھا ثمن
ایسا ہی تھا شہباز تم جوٹ نہیں بول سکتے مجھ سے
میں جان کر کیوں ماروں گا اسے میں تو اسے جانتا بھی نہیں تھا
شہباز جھوٹ مت بولو پلیز
وہ کچھ دیر خاموش ہونے کے بعد بولا
ہاں ، میں نے جان بوجھ کر اس لڑکی کو گاڑی تلے کچل دیا تھا میں بہت غصے میں تھا تن جانتی ہونہ ثمن میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں تم مجھ پر شک مت کیا کرو نہ جب تم مجھ پر شک کرتی ہو تب تب میرا غصہ آٶٹ آف کنٹرول ہوجاتا ہے
ثمن نے ایک زور دار چماٹ اسسکے منہ پر مارا شہباز کے کان ایک لمحے کیلیے سن ہوگۓ
شرم کرو تم نے غصے میں آکر ایک معصوم کی جان لے لی ہے میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی
ثمن تم ایسا نہیں کرسکتی میرے ساتھ وہ چلایا تھا
میں ایسا ہی کروں گی دیکھنا تم وہ انگلی سے وارن کرکے آگے بڑگھ گئ
وہ ادھر ہی کھڑا رہا اور اپنے گال پر ہاتھ رگڑ کر بولا پاگل لڑکی
اس تھپڑ کا بدلہ تو میں تجھ سے لے کر رہوں گا تیری زندگی برباد نہ کردی تو اپنا نام بدل لوں گا
________________________
ثمن نے مڑ کر دیکھا تو فرہان نے عدیل کی کی بیٹی کو مخاطب کیا تھا ایک امید جو جاگنے لگی تھی کہیں مر مرا گئی وہ کچن کی طرف شل دی
بچے بڑے سب کھانے میں مصروف تھے ثمن بھی سالاد لے کر آ گئ تھی کھانا خاموشی سے کھایا گیا
اس کے سب ٹی وی لاٶنج میں آگۓ ثمن چاۓ بنانے کچن میں چلی گئ
وہ سب خوش گپیوں میں مصروف تھے سب ہنس کھل رہے تھے ایک وہی تو تھی جس کی قسمت میں شاید خوشی لکھی ہی نہیں تھی
ثمن چاۓ بنا کر لائ اور سب کو سرو کی
رباب نے ثمن کو اپنے کالج کے قصے سناۓ ثمن کو اسکی باتیں بہت اچھ لگی تھی رباب کے ساتھ وقت گزارنا اس کو بہت اچھا لگا اس نے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کیا
اوکے بھابھی اب ہم چلتے ہیں آج
کیلیے اتنا کافی تھا عدیل نے ثمن کو مخاطب کیا
ارے یار ابھی جانا ضروری ہےکیا ؟؟؟اتنی دور سے آۓ ہو آپ لوگ آج رات رک کر جاتے فرہان نے جواب دیا
نہیں فرہان بھائ ہم پھر کبھی آئیں گے اور آپ لوگ کیوں نہیں آتے ہمارے گھر ثمن بھی دیکھ لے گی ہمارا گھر اور اسی بہانے آپ لوگ گھوم پھر آئیں گےاس بار رباب فرہان کو جواب دیا تھا
جی بھابھی ضرور آئیں گے اس سے پہلے کہ ثمن کوئ بہانہ بناتی فرہان بات ہی ختم کردی
وہ لوگ چلے گۓ
ثمن نے کھانے کے برتن دھونے کچن میں چلی گئ فرہان اس کے پیچھے گیا
ثمن اسے نظر انداز کرکے برتن دھونے لگی
فرہان نے پانی کا جگ اٹھایا اور گلاس میں پانی انڈھیلنے لگا
ایکٹنگ کافی اچھی کر لیتی ہو کہاں سے سیکھی ہے ؟؟
کونسی ایکٹنگ ؟ وہ ایسے ہی برتن دھوتے ہوۓ بولی
ابھی جو مہمانوں کے سامنے کی تھی( اس نے پانی کا
گلاس منہ سے لگایا )
ایکٹنگ نہیں تھی وہ ،،،وہ اب بھی ویسے ہی برتن دھوتے ہوۓ بولی
ہاہاہاہاہاہاہاہا اچھا اور ہاں چاۓ بھی اچھی بنائ تھی تن نے کونس کمپنی کا زہر ڈالا تھا اس میں ؟؟؟
ثمن نےچھپ رہنے میں بھلائی سمجھی
فرہان نے گلاس رکھنے کی بجاۓ فرش پر زور سے دے مارا گلاس فرش سے ٹکرا کر چور چور ہو گیا
ثمن نے ضبط سے آنکھیں بند کر لیں ۔۔۔۔
یہ صاف کر لینا برتن دھونے کے بعد وہ کف فولڈ کرتے ہوۓ کچن سے باہر نکل گیا
ثمن نے آنکھوں میں پانی لیے گلاس کے بکھر چکے ٹوٹے ہوۓ ٹکڑوں کو دیکھا اس کا دل بھی تو ایسے ہی ٹوٹ کر بکھر چکا تھا لیکن فرق صرف یہ تھا کہ ان ٹکڑوں کو اس نے اکھٹا کرنا تھا اور اسکے دل کے ٹکڑوں کو اکھٹا کرنے والا کوئ نہیں تھا
برتن دھونے کے بعد وہ گلاس کے بکھرے ٹکڑے اٹھانے لگی تو ایک ٹکڑا اس کے ہاتھ میں بری طرح چھبا تھا مگر اس نے یہ درد بھی خاموشی سے سہہ لیا چیونٹی کے کاٹنے پر درد سے چیخنی والی ثمن آج شیشہ چھبنے پر خاموش تھی کتنا فرق تھا اس ثمن میں اور آج کی ثمن میں زخم سے خون ایک لکیر کی صورت میں نکل رہا تھا
ماما آپکو چوٹ لگی ہے حدید بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا
نہیں چھوٹوں زیادہ نہیں لگی
میں بابا کو بتا کر آتا ہوں اس پہلے کہ وہ فرہان کے پاس جاتا ثمن نے اسے روک لیا
ماما ٹھیک ہے ماما کی جان بابا کو نہ بتائیں آپ
آر یو یوشیور ماما؟؟؟
یس مائ ڈئیر
اوکے پھر آپ روم میں جا کر آرام آرام کر لیں
اوکے میں جاتی ہوں آرام کرنے اوکے
اوکے
وہ باہر کھلینے چلاگیا اور ثمن اپنے کمرے کی طرف چل دی
___________________________
یہ جو ریگِ دشتِ فراق ہے ، یہ رکے اگر
یہ رکے اگر، تو نشاں ملے
کہ جو فاصلوں کی صلیب ہے
یہ گڑی ہوئی ہے کہاں کہاں؟
ٹی وی پر امجد اسلام امجد صاحب کی غزل کوئی سنا رہا تھا وہ کرسی کی پشت سے سر ٹکاۓ اسے سنی جا رہی تھی کتنا درد تھا اس آواز میں یہ الفاظ میں بتانے سے قاصر وہ خود بھی تھی
مرے آسماں سے کدھر گئی ؟ ترے التفات کی کہکشاں
مرے بے خبر، مرے بے نشاں
یہ رکے اگر تو پتا چلے
میں تھا کس نگر تو رہا کہاں
کہ زماں و مکاں کی وسعتیں
تجھے دیکھنے کو ترس گئیں
وہ میرے نصیب کی بارشیں
کسی اور چھت پر برس گئیں
ثمن نم آنکھوں سے مسکرا دی اسے محسوس ہر رہا تھا یہ غزل خاص اسی کیلیے لکھی گئ ہے اسکا لفظ لفظ ثمن کو سرور دے رہا تھا
ن
مرے چار سوہے غبار جاں ، وہ فشار جاں
کہ خبر نہیں مرے ہاتھ کو مرے ہاتھ کی
مرے خواب سے تیرے بام تک
تری رہگزر کا تو ذکر کیا
نہیں ضوفشاں تیرا نام تک !۔
ہیں دھواں دھواں مرے استخواں
مرے آنسوؤں میں بجھے ہوئے ، مرے استخواں
مرے نقش گر مرےنقش جاں
اسی ریگ دشت فراق میں ، رہے منتظر ، ترے منتظر
مرے خواب جن کے فشار میں
رہی مرے حال سے بے خبر
وہ ایک بار پھر مسکرا دی اور یہ درد کی انتہا تھی
تری رہگزر
تری رہگزر کہ جو نقش ہے مرے ہاتھ پر
مگر اس بلا کی ہے تیرگی
کہ خبر نہیں مرے ہاتھ کومرے ہاتھ کی
وہ جو چشم شعبدہ ساز تھی وہ اٹھے اگر
میرے استخواں میں ہو روشنی
اسی ایک لمحہ دید میں تری رہگزر
میری تیرہ جاں سے چمک اٹھے
مرے خواب سے ترے بام تک
سبھی منظروں میں دمک اٹھے
اسی ایک پل میں ہو جاوداں
مری آرزو کہ ہے بے کراں
مری زندگی کہ ہے مختصر
جو ریگ دشت فراق ہے یہ ، رکے اگر
یہ رکے اگر۔۔۔!!!
غزل ختم ہوچکی تھی لیکن اسکے آنسو جاری ہوچکے تھے وہ درد کی انتہا پر تھی اپنے ماں باپ کی لاڈلی جو کبھی نہیں روئ تھی اسکا شوہر اسے رولا رہا تھا اپنے ماں باپ سے فون پر بات کرتی تو جھوٹ بولنا پڑتا کہ وہ خوش ہے اور یہ جھوٹ کی انتہا ہوتی
تعلق بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں نا، کبھی بے سبب ٹوٹ جاتے ہیں تو کبھی چھوڑنے کی بہت بڑی وجہ ہوکر بھی نبھائے جاتے ہیں ۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی اور نم آنکھوں سے مسکرانا اگر درد کی انتہا نہیں ہے تو پھر کیا ہے کمال کا ضبط آزما رہی تھی وہ
پھر اس نے اپنی ڈائری اٹھائ قلم اٹھایا
اور لکھنا شروع کیا
میں چاہتی ہوں کہ۔۔۔
بس ایک بار اُسے میری ایسے یاد آۓ، کہ اُسکا دِل دھڑک کے قیامت کر دے۔ بس ایک لمحے کو ”وہ“ وہ سب محسوس کرے، جو مُجھ پہ گزرتی ہے۔ بس ایک بار وہ میری اذیت جی لے۔ میری ہر تکلیف آسان ہوجاۓ گی۔اسے یقین ہوجاۓ گا کی جو تکلیف وہ مجھے دیتا ہے وہ تکلیف نہیں ہے وہ موت ہے وہ روز روز مجھے بے موت مارتا ہے
کاش وہ جی لیں میری زندگی کا ایک دن ٠کاش اس کا دل بھی میرے لیے ایسے دھڑکے جیسا میرا دل اس کیلیے دھڑکتا ہے کاش وہ جی لے میری وہ سانسیں جو میں اسکو یاد کرکے بھرتی ہوں
____________________________________________
لوگ کہتے ہیں کہ عورت کمزور ہوتی ہے اور مرد کبھی کمزور نہیں ہوتا جب عورت اندر سے ٹوٹ جاتی ہے تو اس میں خود کو سنبھالنے کی طاقت ہوتی ہے لیکن جب مرد اندر سے ٹوٹ جاتا ہے تو اسے خود کو سنبھالنے میں بہت دیر لگتی ہے چاہے پھر وہ ٹوٹنا کسی کی محبت میں ہو یا پھر کسی کے بچھڑنے سے
فرہان حنا کی تصویریں ارد گرد رکھے آج بے آواز رو رہا تھا
یہ بات اور تھی کہ آج بھی حنا کی جگہ اسکا مقام فرہان کے دل میں ویسے ہی برقرار تھا پھر بھی ناجانے
کیوں وہ
جب جب ثمن کو تکلیف دیتا تھا اسے خود تکلیف ہوتی تھی
جب جب وہ ثمن کو ذہنی طور پر ٹارچر کرتا اسکا اپنا سر درد ہونے لگتا
وہ جب جب شدت سے روتی فرہان کا دل کرتا اپنا سر کسی دیوار میں دے مارے
لیکن ایک ہی بات اس کے سامنے آجاتی کہ وہ حنا کی قاتل ہے وہ اسکی بیوی کی قاتل ہے وہ حدید کی خوشیوں کی قاتل ہے
پھر سب ٹھیک ہوجاتا لیکن آج وہ زیادہ تکلیف میں تھا آج کمرے کا دروازہ بند کیے وہ ناجانے کتنی دیر سے روۓ جا رہا تھا
تبھی اسکے موبائل پر روشنی جگمگائ
اس نے اپنا موبائل اٹھا کر دیکھا
اسکی آنکھیں غصے سے لال ہوگئیں
میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا ثمن اشتیاق
نہیں کرو گا معاف۔۔۔