تم سے شادی کرنا تو محض ایک بدلہ تھا ، تم قاتل ہو ،تم نے ایک معصوم لڑکی کو اپنے گاڑی تلے کچل دیا تم نے ایک چھوٹے بچے سے اس کی ماں کو چھین لیا تم نے مجھ سے میری حنا کو چھین لیا ہے اور تم کہتی ہو تمہیں یاد نہیں ؟؟
فرہان کی باتیں اس کے ذہن میں بلکل ایک لٹو جیسے گھوم رہی تھی اپنے کمرے میں وہ ٹھنڈے فرش پر بے سدھ سی گری پڑی تھی
وہ گناہ گار تھی وہ بہت بڑا گناہ کر بیٹھی تھی اب کیا کرتی وہ سواۓ پچھتاوے کے
کاش وقت کا پہیہ گھوم سکتا ۔۔۔کاش گزرا وقت واپس لوٹ سکتا ۔۔۔۔کاش وہ اپنی غلطیوں کا مداوا کرسکتی
لیکن اب دیر ہوچکی تھی اب اس کے بس میں کچھ بھی نہیں رہا تھا سب ختم ہوچکا تھا کچھ بھی باقی نہ رہا تھا
اب تو بس مکافات عمل شروع ہوچکا تھا اسے انتظار تو بس اس کے اختتام کا جو مرضی نتیجہ نکل آتا وہ اسے قبول کر لیتی
لیکن وہ قاتل کیسے ہوسکتی ہے ؟؟ جس نے زندگی میں ایک مکھی تک نہ ماری ہو وہ بھلا کیسے کسی انسان کو قتل کر سکتی ہے اسکا زہن ان سب باتوں کے حصار میں تھا
وہ قاتل نہیں تھی لیکن کیا فرہان اسکی باتوں کا یقین کرے گا کیا وہ اسے معاف کرے گا کیا وہ اسے چھوڑ دے گا نہیں ۔۔۔۔نہیں اب تو وہ اس کے بغیر جینا گوارا نہیں کر سکتی تھی لیکن کیوں؟؟؟؟؟؟
کیا اسکو فرہان علی سے محبت ہوگئ ؟؟؟ نہیں
اس نے خود سے سوال کرکے خود کو خود ہی جواب دیا تھا
ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﺎﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﻨﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺟﯿﺴﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﺸﮑﻮﻝ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻧﻔﺲ ﺍﮈﮬﯿﺮ ﮐﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻤﺎ ﺩﮮ
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔شاید اسکو فرہان کی عادت ہوچکی تھی اور محبت سے عادت زیادہ خطرناک بیماری ہے لیکن فرہان اس سے کبھی میٹھے لہجے میں بات ہی نہیں کرتا
ساری دنیا پر چاہتیں اور محبتیں نچھاور کرنے کے بعد اُس کے پاس ثمن کیلیے صرف بیزاریت اور لہجے کی تلخی بچتی ہے
ان تمام سوچوں کے حصار میں اسکا دماغ سن ہوتا جا رہا تھا اسکا سر درد حد سے بڑھ چکا تھا اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا سر بھاری محسوس ہو رہا تھا آنکھیں بند ہونے جا رہی تھیں وہ زمین پر گرتی جا رہی تھی۔۔۔۔
______________________
کالج سے چھٹی ہو چکی تھی سب لوگ اپنے اپنے گھر کی طرف روانہ تھے کچھ اکیلے تھے تو کچھ ایک ٹولی کی صورت میں تھے
فاریہ اور نوشین ،ثمن کے ساتھ ساتھ تھیں
ہاں تو تمہارے گھر والے مانے کہ نہیں شہباز کے بارے میں ؟؟ نوشین نے ثمن سے سوال کیا جو پریشان سی ان کے ساتھ چل رہی تھی
وہ کبھی نہیں مانیں گے وہ لوگ نوشی تم جانتی ہو تو سوال کیوں کر رہیں ہو ؟؟؟ ثمن نےبیزاریت سے جواب دیا
تمہارے گھر والے اچھا ہی کر رہے ہیں مجھے یہ شہباز ایک آنکھ نہیں بھاتا ہر لڑکی پر ٹرائ مارتا ہے تم بھی بھول جاٶ اسکو وہ دھوکےباز ہے
فاریہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی وہ جانتی تھی ثمن کو سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانا ہے لیکن پھر بھی اس نے ایک ٹرائ کی تھی
تم جانتی ہوں نہ مجھے کتنی محبت ہے شہباز سے اور وہ بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتا ہے ثمن نے جیسے فاریہ کا منہ بند کرنا چاہا تھا
وہ دیکھو شہباز ادھر ہی آ رہا ہے نوشین نے ہاتھ کا اشارہ کرکے ثمن کو بتایا وہ دور سے آتا ہوا دکھائ دیا
آج میں شہباز کے ساتھ جاٶں گی گھر ثمن نے تو جیسے ان دونوں کے سر پر بم پھوڑا تھا
تمہیں پتہ ہے نہ تمہارے گھر والے شہباز کو بلکل پسند نہیں کرتے پھر بھی تم اس کے ساتھ جا رہی ہوں ثمن کیا تم بھول گئ پچھلی بار جب شہباز تمہیں گھر ڈراپ کرنے گیا تھا تو کیا ہوا تھا وہ حادثہ تم کیسے بھول سکتی ہو اس نے غصہ میں آکر کسی لڑکی کو گاڑی تلے کچل دیا تھا
فاریہ نے اسے شہباز کا گناہ یاد کروایا تھا
شششششششششش ثمن نے فاریہ کو چھپ کروایا تھا یاد مت دلاٶ نیند نہیں آتی رات کو پھر
نیند آۓ یا نہ آۓ مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں لیکن شہباز ایک قاتل ہے یہ مت بھولو تم ایک قاتل سے کیسےمحبت کر سکتی ہو
فاریہ اسے مسلسل منع کر رہی تھی کیونکہ ثمن ایک غلط انسان سے محبت کر بیٹھی تھی اور غلط انسان سے محبت انسان کء زندگی تباہ کر دیتی ہے
تب تک شہباز بھی ان تک پہنچ گیا
چلیں بے بی ؟؟؟
ثمن ، فاریہ اور نوشین کو نظر انداز کرتی ہوئ شہباز کے سنگ روانہ ہوئ
فاریہ اور نوشین بس گردن ہلاتی رہ گئیں
________________________
ثمب کی آنکھ کھلی تو وہ لحاف اوڑھے بیڈ پر لیٹی ہوئ میں یہاں کیسے ؟؟؟ وہ دل ہی دل میں بولی
سامنے دیکھا تو فرہان وائٹ شرٹ اور بلیو پینٹ میں ملبوس کافی کا مگ ہاتھ میں لیے کھڑکی کے آگے کھڑا ہوکر باہر دیکھنے میں مصروف تھا
باہر زور و شور سے بارش برس رہی تھی کھڑکے کے شیشوں پر پانی ٹپ ٹپ برس رہا تھا
ہوش آ گیا تمہیں میڈم ؟؟؟؟؟
وہ مڑے بغیر بولا شاید اس نے ثمن کی آہٹ سن لی تھی
ثمن نے کوئ جواب نہیں دیا
میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے وہ دھاڑا تھا اور مڑتے ساتھ ہی کافی کا مگ زمین دے مارا
ثمن یک دم سے خوفزدہ ہوگئ تھی
ڈرنے کی ایکٹنگ کافی اچھے سے کر لیتی ہو تم تو ،،ایک کام کرو ایکٹنگ سٹارٹ کردو بہت فیمس ہوجاٶ گی
پلیز فرہان ایسا نہ کہے اس نے ہاتھ جوڑے تھے اس کے آگے آپ کسی غلط فہمی ک شکار ہیں میں نے کچھ نہیں کیا میں نے کسی کا قتل نہیں کیا میں قاتل نہیں ہوں
ہاہاہاہا جھوٹ بھی اچھا بول لیتی ہوں مس لیکن سوری میں جھوٹ اور سچ کے درمیان باتوں کو پہچان لیتا ہوں
فرہان میں بے قصور ہوں میں نے کچھ نہیں کیا وہ گڑ گڑا رہی تھی اس کے سامنے مگر سامنے والا اسکا یقین نہیں کر رہا تھا
اگر تم پر یہ قتل ثابت ہوا تو یاد رکھنا میں تمہاری زندگی موت سے بدتر بنا دوں گا
اور اگر میں بے قصور نکلی تو ؟؟؟؟
تو میں تمہیں آزاد کردوں گا چھوڑ دوں گا تمہیں تمہارے گھر ہمیشہ وہی رہو گی پھر کیونکہ شادی کا ڈھونگ صرف میرے بدلے تک محدود ہے
وہ اپنی بات کہہ کر رکا نہیں چلا گیا اور اپنے پیچھے دروزہ زور سے بند کر دیا
حنا نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے اس کی آنکھو ں برسات جاری تھی
__________________________
صبح کا وقت وہ جاگی تو گھر میں کچھ لگ تھے جو اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوۓ تھے کوئ پینٹ کر رہا تھا کوئ جھاڑو لگا رہا تھا کچن میں کوک ناشتہ بنا رہے تھے
اس نے نظر گھما کر فرہان کو تلاش کرنا چاہا تو وہ سامنے ہی چند لوگوں کے درمیان میں کھڑا انکو کچھ سمجھا رہا تھا اس کو دیکھا تو انکو کام پر لگا کر اس کے پاس آیا
میرا دوست اپنی فیملی کے ساتھ آ رہا ہے وہ ہماری شادی میں نہیں آ سکے تھے تو اسکی بیوی تم سے ملنا چاہتی ہے
اپنا حلیہ درست کر لینا تیار ہوکر ملنا ان لوگوں سے میرے کمرے جاٶ وہاں الماری میں سرخ ساڑھی رکھی ہوگی وہ پہن لینا خریدی تو حنا کیلیے تھی مگر تم پہن لو اپنی مطلب کی باتیں بتا کر وہ چلا گیا اس کی کوئ بھی بات بھی نہیں سنی
وہ حیرت کا پتلا بنی وہی کھڑی اسکی دیکھی جا رہی تھی جو سب کو کام سمجھا رہا تھا
تبھی حدید اپنی گاڑی لیے بھاگا بھاگا اس کی طرف آیا
بابا میری کار ٹوٹ گئ
اوہ بابا کی جان آٶ ٹھیک کرتے ہیں وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسکی کار ٹھیک کر رہا تھا
پھر وہ مرے مرے قدموں سے فرہان کے کمرے کی طرف گئ
الماری کھولی تو دیکھا کپڑوں کے ساتھ ہی بہت ساری تصویریں رکھی ہوئ تھیں اس نے دیکھا تو وہ شاید حنا ہی تھی
فرہان اور حنا کی ساتھ ساتھ مسکراہٹ بھری تصویریں تھیں وہ تصویریں نکال کر دیکھنے لگی حدید چھوٹا سا تھا تب کی تصویریں بھی تھی یہ سب تصویریں حنا اور فرہان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت تھیں
کتنی خوش قسمت تھی نہ حنا اس کے پاس وہ سب کچھ تھا جو ثمن کے پاس نہ تھا لیکن اسکی زندگی یا ایسی ہی رہے گی کیا فرہان کبھی اس کو پسند کرے گا یا شاید مرنے کے بعد تو یاد کر ہی لے گا
وہ ضبط سے مسکرا دی اسے تبھی شعر یاد آیا
_میں کیسے یاد رہوں گا تمہیں
میرے تو ہم نام بھی بہت کم ہیں۔
ثمن کی آنکھیں بھر آئیں اس نے وہ ساڑی نکالی جس کا فرہان اسے کہہ رہا تھا اور نم آنکھیں لیے کمرے سے باہر چلی گئ
ایک تصویر الماری سے نیچے گر گئ تھی باقی تو وہ رکھ چکی تھیں یہ ایک تصویر وہ دیکھ نہیں پائ تھی اس میں حنا کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آ رہا تھا ۔۔
______________
کچھ ہی دیر میں وہ تیار ہوئ سرخ ساڑھی میں وہ حد سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی اس کے کالے بال آج کیچر سے آزاد تھے سرخ رنگی کی ہیل اس کے پاس پہلے سےموجود تھی جو اسنے اپنے سرخ کلر کے فراق کے ساتھ خریدی تھی بڑی بڑی آنکھیں کاجل سے لبریز تھیں
ہاتھوں میں سرخ چوڑیاں اسکی سفید کلائ کو اور خوبصورت بناۓ ہوۓ تھیں وہ اپنے کان میں ایئر رنگز ڈال رہی تھی جب اسے ملی جلی آوازیں سنائ دینے لگیں شاید مہمان آ چکے تھے اس نے اندازہ لگایا
تبھی دروازے پر دستک ہوئ
کم ان !
وہ وائٹ پینٹ اور بلیو کوٹ میں ملبوس تھا کوٹ کے نیچے وائٹ شرٹ پہنی ہوئ تھی تازہ شیو نی ہوئ جیسے کہ ابھی ابھی بنائ ہو ڈارک براٶن بال ہمیشہ کی طرح اسٹائل سے ماتھے پر گرے ہوۓ تھے
فرہان اندر داخل ہوا تو ثمن کو دیکھ کر کچھ لمحے کیلیے اسکے سحر سے نکل ہی نہ سکا کیا حنا سے بھی زیادہ کوئ لڑکی خوبصورت ہوسکتی تھی نہیں کوئ لڑکی حنا سے زیادہ خوبصورت نہیں ہوسکتی تھی سواۓ ثمن کے
خود کو ہوش میں لانے کیلیے فرہان کو اپنا گلہ کنگھارنا پڑا تھا
وہ لوگ آچکے ہیں ذرا جلدی آجانا اور ہاں وہ مڑتے ہوۓ بولا کوئ ڈرامہ مت کرنا مجھے مہمانوں کے سامنے تماشہ کرنا پسند نہیں ہے اپنا جملہ مکمل کرکے وہ رکا نہیں دبے پاٶں پلٹ گیا وہ اگر رکتا تو شاید اس کی زبان اس سے بغاوت کرکے ثمن کے حق میں کچھ تعریف کر لیتی
ثمن کا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو کر رہا تھا کیا ہوجاتا اگر وہ دو لفظ اس کی تعریف میں کہہ دیتا یا پیار سے ہی بات کرلیتا شاید اسکی محبت بے مقصد ہے شاید وہ اس سے کبھی محبت نہیں کرے گا اسکی آنکھیں نم تھیں دل ہر چیز سے اچاٹ ہوچکا تھا مرے مرے قدم اٹھا کر وہ کمرے سے باہر نکلی تھی
سنبھالا ہوش جب سے ہے
مقدر سخت تر نکلا
پڑا ہے واسطہ جس سے
وہی زیرو زبر نکلا
سبق دیتا رہا مجھ کو
صدا روشن خیالی کا
اسے جب پاس سے دیکھا
تو خود بھی تنگ نظر نکلا
سمجھ کر زندگی جس سے
محبت کر رہے تھے ہم
اسے جب چھو کہ دیکھا تو
فقط خاکی بشر نکلا
محبت کا نشہ اترا
تو تب ثابت ہوا مجھ کو
جسے منزل سمجھتے تھے
وہ بے مقصد سفر نکلا
________________________
یہ واقع 26 اکتوبر کا تھا جب شہباز دوسری لڑکیوں کے ساتھ گھوم رہا تھا ثمن نے سے رنگے ہاتھوں پکڑا
شہباز تم ایک نمبر کے دھوکے باز ہو فریبی ہو کیوں دھوکہ دے رہے ہو مجھے ؟؟؟
ثمن اسے سر پر آ کھڑی ہوئ تھی
میں نے کب دھوکہ دیا تجھے پاگل لڑکی ؟؟؟
شہباز کا موڈ بگڑ گیا تھا
تو یہاں کیا کر رہے ہو تم پھر ان لڑکیوں کے بیج بیٹھ کر تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکتے سمجھے تم
وہ غصہ سے بولی
شششششش چھپ !!!وہ پاگل پن کے آخری درجے پر کھڑا تھا
اوکے ڈن !!! جا رہی ہوں میں گھر تم سے بریک اپ کرکے آئیندہ میرے سامنے مت آنا
وی اسے وارن کرکے مڑنے لگی تھی کہ شہباز نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
رکو !! آج کل بہت اترانے لگی ہو خود پر ہمممم ، تمہیں کیا لگتا ہے کہ بس تمہارا پلو پکڑ کر چھوٹے بچے کی طرح تمہارے آگے پیچھے ہاتھ جوڑے گھومتا رہوں
میں نے ایسا کب کہا؟؟؟ تمہاری مرضی ہے جو مرضی کر لو میں نے کہا نہ ہمارا بریک اپ ہوچکا ہے سمجھ نہیں آ رہی تمہیں میری بات ؟؟ وہ غصے سے لال پیلی ہو رہی تھی
شہباز نے زبردستی اسکے ہاتھ سے گاڑی کی چابی چھین لی
اب بتاٶ کیا کر لو گی تم ،، تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتی یاد رکھنا
وہ گاڑی کی طرف بڑھا
شہباز رک جاٶ میں نے کہا رکو
وہ اس کے پیچھے تیز تیز قدموں سے بھاگتی ہوئ بولی
تب تک وہ گاڑی میں بیٹھ چکا تھا
شہباز یہ کیا بد تمیزی ہے ؟ وہ گاڑی کے اس کھڑی ہوکر بولی
بیٹھو اندر!! وہ غصیلے لہجے میں بولا
اوکے فااااااائن وہ ہار مان کر اندر بیٹھ گئ
اس کے بعد شہباز فل اسپیڈ میں دیوانہ وار گاڑی چلانے لگا
شہباز اسٹاپ !!
شہباز کے کان پر جوں تک نہ رینگی
گاڑی آہستہ چلاٶ کسی کو کچل دو گے شہباز ،، مجھ پر غصہ ہو نہ تو پر مجھ پر ہی نکال دو سارا غصہ لیکن پلیز گاڑی آہستہ کرو
تبھی گاڑی بے قابو ہوگئ اور حنا کو کچل کر رکھ دیا
اوہ مائ گاڈ
ثمن نےدونوں ہاتھ منہ پر رکھے تھے
شہباز نے گاڑی آگے بڑھادی
گاڑی روکو شہباز اس لڑکی کو اسپتال لے کر جاتے ہیں چلو
ن_نہیں میرا دماغ نہیں خراب
وہ گھبرایا ہوا تھا
پلیز شہباز گاڑی روکو
وہ جواب دیے بغیر گاڑی آگے لے گیا۔