وہ اپنے بال برش کر رہی تھی جانے آج اس کے کتنے بال ٹوٹ کر گر رہے تھے اس کی وجہ فرہان تھا جس نے اتنی بے دردی سے اس کے بال کھینچے تھے اسکا سر اب بھی درد ہو رہا تھا
بال بہت زیادہ تعداد میں ٹوٹ کر گر رہے تھے اپنے بالوں کے ٹوٹنے کا افسوس منانے کے سوا اس کے علاوہ کوئ چارہ نہیں تھا
اس کو اچانک یاد آیا کہ کس طرح اس کی امی بچپن میں اس کے بالوں میں بادام کے تیل کی مالش کرتی تھی
اس کے بال کتنے سیاہ ،لمبے اورچمکدار تھے
ہمیشہ اسکی سہیلیاں پوچھا کرتی تھیں
ثمن بتاٶ نہ تمہارے بال اتنے پیارے کیسے ہیں ؟؟
وہ انھیں چڑانے کیلیے کہتی یہ ایک سیکرٹ ہے
کیا وہ دن تھے اور کیا یہ دن ہیں
تبھی ڈرائیور حدید کو سکول سے لے کر آ گیا وہ بھاگا بھاگا ثمن کے کمرے میں آیا
آگیا میرا شونا ثمن گھٹنے کے بل بیٹھ کر اسے لاڈ جتاتے ہوۓ بولی
یس ماما!!! وہ بھی لاڈ کرتے بولا
بھوک لگی میرے لعل کو؟؟
بہت زور کی ، وہ پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھ کر بولا
ہمممم تو کیا کھائیں گے چھوٹے میاں ،؟؟
نوڈلز
اوکے آپ منہ دھو لو میں آپ کے لیے نوڈلز بناتی ہوں وہ اس کے سر ہر ہاتھ سے شرارت کر کے بولی
وہ چھوٹا بچہ ہنسا
ثمن نے نوڈلز بناۓ تب تک حدید تیار ہوکر نیچے آیا
کھانے کے میز پر اس نے نوڈلز رکھے ہوۓ تھے
اس سے پہلے کہ حدید وہ نوڈلز کھاتا فرہان جانے کب آیا اور یک دم نوڈلز اٹھا کر فرش پر پھینک دیے
میں نے کہا تھا نہ کہ میرے بیٹے سے دور رہا کرو وہ ثمن کو وارن کرتا ہوا بولا
جو یک دم خاموش کھڑی تھی اسکے اسطرح چیخنے پر ڈر گئ
حدید روم میں جاٶ میں باہر سے منگواتا ہوں نوڈلز تمہارے لیے
اوکے بابا جان !! حدید بھی فرہان کے لہجے سے ڈرا ہوا تھا تو بھاگ کر اپنے کمرے میں چلا گیا
تم ک زبان میں سمجھو گی بتاٶ ؟ وہ ثمن کو انگلی کا اشارہ کرکے بولا اور فوراً اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوا
ثمن وہی کھڑی رہ گئ جانے کس چیز کی سزا اسے مل رہی تھی خیر اب اسے اس انسان کا غصہ پہلے جتنا برا نہیں لگتا تھا لیکن پھر بھی جب بغیر کسی غلطی کے وہ اس کے ساتھ ایسا کرتا تو ثمن اندر ہی اندر مرتی
___________________
حنا کی موت کو دو سال پورے ہوچکے تھے
علی اسکی تصویر سے روز باتیں کیا کرتا تھا کہ اس نے سارا دن آفس میں کیسے گزارا سارا دن حدید ک خیال کیسے رکھا کیا کیا لنچ اور ڈنر میں بنایا
حنا کے چلے جانے کے بعد اس نے کوئ نوکر یا نوکرانی نہیں رکھی وہ سارے کام خود کرتا تھا کیونکہ حنا کو نوکر چاکر پسند نہیں تھے
ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اس کی تصویر کو سینے سے لگاۓ ہوۓ بیٹھا تھا جب اسکو حنا کی باتیں یاد آئیں
وہ اپنی موت کا زکر کرتی تو علی اسکو ڈانٹ دیا کرتا تھا لیکن جب علی اپنی موت ک زکر کرتا تو وہ کہتی علی میری عمر بھی آپکو ہی لگے علی کی آنکھیں بھر آئیں
بابا ! آپ میرے ساتھ فٹ بال کھیلیں گے ؟ حدید جو اچانک اندر آیا اپنے باپ کو روتا دیکھ کر بولا
وہ چھوٹا سا بچہ اپنے باپ کے غم کو کم کرنا چاہتا تھا باقی بچوں کی طرح اسنے اپ باپ سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آپ کیوں رو رہے ہو
علی نے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کی تھی لیکن حدید وہ آنسو دیکھ چکا تھا
آپ باہر جا کر کھیلو بابا فریش ہوکر آتے ہیں اوکے
اوکے بابا
وہ باہر چلا گیا
علی نے بے بس نظروں سے حنا کی تصویر کو دیکھا
کیوں یہ دن دکھاۓ مجھے جب مجھے سب سے زیادہ تمہاری ضرورت تھی
کیوں چھوڑ گئ مجھے جب میں تمہارے بغیر کتنا بدل چکا ہوں
کیوں چلی گئ جب ہم دونوں نے اپنے بیٹے کا بہترین فیوچر پلان کرنا تھا
کیوں چلی گئ تم جبکہ تم جانتی تھی تمہارے بغیر مر جاٶں گا
میں زندہ لاش بن چکا ہوں حنا میں کب کا مر چکا ہوتا اگر تم مجھے حدید نہ تھما تھی
حنا کی مسکراتی تصویر اس کے آنکھوں کے سامنے تھی
تبھی موبائل کی گھنٹی بجی
اس نے ٹیبل پر پڑا اپنا موبائل دیکھا سکرین پر جگمگاتا نمبر اس کے سیکرٹری کا تھا
ہیلو ؟ دس از فرہان علی اسپیکنگ
ہیلو! سر اس گاڑی کے مطلق معلومات مل چکی ہے وہ گاڑی جس سے حنا میم کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اس دن وہ گاڑی ایک لڑکی ڈرائیو کر رہی تھی
وٹ ؟؟؟ آر یو شیور؟!
یس سر وہ لڑکی ہی تھی
کچھ پتا چلا اس لڑکی کے بارے میں
جی سر !! اس لڑکی کا نام ثمن اشتیاق ہے اور وہ کالج کی اسٹوڈنٹ ہے پورا ایڈریس پتا کروالیا ہے میں نے
بہت شکریہ تمہارا تمہارا کام ختم ہوا یہ انفارمیشن مجھت مجھے میسج کردو اور کسی کو کوبھی مت بتانا
اوکے سر !! آپ پولیس کو انفارم کر دیں
نہیں پولیس کا یہاں کوئ کام نہیں میرا ذاتی بدلہ ہے میں اپنے طریقے سے لوں گا
اوکے سر !!!
اس نے فون بند بندکردیا
ایک نظر حنا کی مسکراتی تصویر پر ڈالی
اور موبائل کی جگمگاتی سکرین پر ساری انفارمیشن اس کے سامنے تھی
میں آ رہا ہوں مس ثمن
وہ استہزائیہ ہنسا
____________
تقریباً رات کے 12 بجے فرہان لاٶنج میں بیٹھ کر حدید کی ہوم ورک نوٹ بکس چیک کر رہا تھا اسے حدید کی اسٹڈی کی بہت فکر تھی وہ ہمیشہ اپنے فری ٹائم میں اسکی نوٹ بکس چیک کیا کرتا تھا کیونکہ وہ چاہتا تھا اسکا بیٹا کسی بھی میدان میں کسی سے بھی پیچھے نہ رہ جاۓ
تبھی ثمن بھی سر درد کی وجہ سے سو نہیں پائ تھی وہ بھی پانی پینے کیلیے کچن میں آگئ جوکہ لاٶنج کے بلکل مقابل تھا
ایک نگاہ فرہان پر ڈال کر اس نے گلاس میں پانی لیا اور منہ سے لگا لیا
فرہان کی نظریں ابھی بھی نوٹ بکس پر تھیں
ثمن نے میز پر رکھے موبائل کی طرف دیکھا کاش وہ بھی باقی بیویوں کی طرح اپنے شوہر سے اپنے دل کء خواہش بیان کر پاتی کی مجھے میرے گھر والوں سے بات کرنی ہے کاش وہ بھی باقی بیویوں کی طرح فرہان سے بنا جھجک بات کر پاتی کاش ۔۔۔۔
اچانک اس نے اپنا سر جٹک دیا یہ کیا سوچی جا رہی تھی میں وہ خود سے بولی تھی
اس سے پہلے کہ وہ اپنے کمرے کا رخ کرتی فرہان نے اسے آواز دی
رکو !!!!
جی،،،،
اس نے مڑ کر دیکھا تو فرہان ابھی بھی نوٹ بکس پر جھکا ہوا تھا
بات کرو گی اپنے گھر والوں سے ؟؟؟؟
ثمن کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ اسے کچھ سنائ نہ دیا ہو
ج جی ؟؟
بات کرنا پسند کریں گی اپنے گھر والوں سے مس ثمن آپ ؟؟؟ اسکا موڈ آف تھا شاید اس بار وہ ثمن کی طرف دیکھ کر بولا
ج جی ب بلکل
فرہان نے اپنے موبائل کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کچھ ٹائپ کر کے موبائل ثمن کی طرف بڑھایا
ثمن نے نا سمجھنے والے انداز میں فرہان کی طرف دیکھا
کر لو بات ،،
ثمن نے کانپتے ہاتھوں سے موبائل تھام لیا اور موبائل کان سے لگا لیا
رنگ جا رہی تھی کچھ ہی دیر میں فون اٹینڈ ہوگیا ثمن بات کرتے کرتے وہی لاٶنج میں اس کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئ
فرہان نے اپنا لیپ ٹاپ نکالا اور اس ہر ٹائپنگ کرنے لگا نوٹ بکس وہ چیک کر چکا تھا
ثمن وہی صوفے پر بیٹھ کر اس کے سامنے ہنس ہنس کر بات کر رہی تھی
اسنے غور کیا تو پتہ چلا کہ اسکی اسکی ہنسی بہت پیاری تھی پھر سر جٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گیا
_____________________
ماما میں نے کہا نہ میں شادی کروں گی تو صرف اور صرف شہباز سے پلیز ماما مان جائیں نہ پلیز پلیز پلیز پلیز
وہ بچوں کی ضد پر اڑی ہوئ تھی جیسے کہ ایک ضدی بچہ اپنا من پسند کھلونا لینے کیلیے ضد کرتا ہے
دیکھو ثمن وہ لڑکا تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے تم نے دیکھا نہیں کتنا آواره سا ہے کالج کے سامنے کس طرح لڑکیوں کو تاڑتا رہتا ہے ۔۔۔۔مجھے تو بہت زیادہ برا لگتا ہے
لیکن ماما ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں
ثمن تم اب بچی نہیں رہی تم جانتی تمہارے بھائ اور بابا میں سے کوئ بھی اس رشتے کیلیے ہامی نہیں بھرے گا
ماما آپ منا لیں انکو ورنہ میں کبھی شادی نہیں کروں گی یاد رکھیے گا
ثمن خدا کیلیے بس کردو اب چھپ رہو تمہاری خالہ نے تمہارے لیے ایک بہترین رشتہ دیکھا ہے ہم لڑکا دیکھ لیا بہت اچھا بچہ ہے
کیا ؟؟؟ آپ لوگوں نے میرے لیے رشتہ دیکھ لیا اور مجھے بتایا بھی نہیں آپ جانتی ہے نہ کہ میں شہباز سے محبت کرتی ہوں اس کے علاوہ میری زندگی میں کسی کیلیے کوئ جگہ نہیں ہے میں کسی اور کے بارے میں نہیں سوچ سکتی پلیز ماما
ثمن تم پاگل ہوگئ ہو میں جا رہی ہوں کچن میں کھانے کا بندوبست کرنے خود تو تم کسی کام کی نہیں ہو
ماما رکے نہ سنیں تو سہی میری بات
اچانک موبائل کی رنگ بجی اسنے موبائل کی طرف دیکھا تو سکرین پر شہباز کا نام جگماگاتا ہوا نظر آ رہا تھا
اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئ اور موبائل کان سے لگا لیا
________________________
ثمن نے بات کرلی تو موبائل فرہان کے سامنے میز پر رکھ دیا
شکریہ وہ مسکرا کر بولی
وہ جو مسلسل لیپ ٹاپ پر ٹائپنگ میں مصروف تھا اس سنگ دل کے زبان سے جو لفظ ادا ہوا وہ تھا
ہمممم
چاۓ پئیں گے ؟
جب سامنے والا کچھ نہ بولا تو اس نے ہی بات شروع کردی
فرہان نے دھڑام سے لیپ ٹاپ بند کردیا
زہر ہے تو وہ کھلا دو
ثمن نے اپنے چہرے کے تاثرات پر قابو پا لیا جانے کب اس نے یہ ہنر سیکھ لیا تھا جانے کب چھوٹے بچوں جیسی ضدی ثمن اتنی بڑی ہوگئ تھی
اچھا ٹھیک ہے کافی بنادیتی ہوں
فرہان کھڑا ہوا اور ایک زوردار مکا میز پر دے مارا
تم کیا چاہتی ہو لڑکی ؟؟؟؟ بتاٶ مجھے کیا سنا نہیں میں نے کیا کہا تم سے زہر ہے تو کھلا دو مجھے مار دو مجھے بھی قاتل تو پہلے سے ہی ہو ایک قتل کر چکی ہو ایک اور کرنے میں تمہیں کوئ مسلہ نہیں ہوگا
قتل ؟؟ ثمن کی آنکھیں پانیوں میں ڈوبی ہوئ تھیں
فرہان نے استہزایہ قہقہہ لگایا
کتنی معصوم ہو نہ تم ؟؟بھول گئ ہو تو بتا دوں تمہیں گاڑی کے نیچے کسی کو کچل دینا کتنا آسان ہوگا نہ تمہارے لیے ؟؟ اس کام میں تمہیں کافی مزہ آتا ہوگا نہ ؟؟؟
آپ کیا کہہ رہے میں کچھ سمجھ نہیں پا رہی ،،،،
تم نے اپنی گاڑی کے نیچے ایک لڑکی کو بے رحمی سے کچل دیا تھا کیا تمہیں یاد نہیں ؟؟؟
تم نے اس وقت گاڑی روکنے کی زحمت بھی نہیں کی کیا تمہیں یاد نہیں؟؟؟؟
تم نے ایک معصوم انسان کی جان لی کیا تمہیں یاد نہیں ؟؟؟
تم نے ایک چھوٹے سے بچے کے سر سے ماں کا سایہ چھین لیا کیا تمہیں یاد نہیں؟؟؟
تم نے کسی کو زندہ لاش بنا دیا کیا تمہیں یاد نہیں ؟؟؟؟؟
تم نے میری حنا کو مجھ سے چھین لیا کیا تمہیں یاد نہیں؟؟؟؟
فرہان کی آنکھوں میں پانی تھا
ثمن اپنے پاٶں پر کھڑے رہنے کی قابل نہ رہی تھی اس نے میز تھام لیا ورنہ وہ گرجاتی
میں اپنی حنا سے بہت محبت کرتا تھا بلکہ کرتا ہوں میں کبھی شادی نہ کرتا لیکن تم سے شادی کرنا تو محض ایک بدلہ تھا
جس لڑکی کو تم نے بے دردی سے موت ے کنویں میں دھکیل دیا ہے نہ وہ میری بیوی تھی میری زندگی تھی وہ میرے بیٹے کی جنت تھی وہ
اس بار فرہان نے اس کی کلائ مروڑ دی تھی وہ درد سی سسک رہی تھی
اس لیے کہتا ہوں دور رہو میرے بیٹے سے میں جانتا ہوں تمہاری سچائ یہ سب تم نے اپنے اس یار کے ساتھ مل کر کیا ہے نہ کیا نام تھا اسکا ہاں شہباز
ثمن نے ایک زناٹے دار تھپڑ فرہان کے گال پر دے مارا یہ اچانک ہوا تھا ثمن کے ہاتھ سے تھپڑ کیسے ؟؟؟ یہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی
کیونکہ ایک عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے لیکن اپنے کردار پر ایک لفظ بھی برداشت نہیں کر سکتی اگر کوئ بولے تو
یہیں حال ثمن کا بھی تھا وہ کیسے برداشت کرسکتی تھی کہ کوئ اسکے کردار پر داغ لگاۓ چاہے وہ شخص اسکا شوہر ہی کیوں نہ ہو
فرہان نے خونخوار نظروں سے ثمن کی طرف دیکھا
ثمن نے دونوں ہاتھ حیرت کے مارے اپنے منہ پر رکھے ہوۓ تھے اس سے پہلے کہ فرہان کوئ رد عمل دکھاتا اس کے فون کی رنگ بجی آفس سے فون تھا
دیکھ لوں گا تمہیں وہ اسے وارن کرتا ہوا چلا گیا
ثمب حیرت کا پتلا بنی کھڑی رہی اس کی آنکھوں میں آنسو کا ایک ریلا تھا جو بہے جا رہا تھا رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا
میں نے چاہا تھا زخم بھر جائیں
زخم ہی زخم بھر گئے مجھ میں۔