بابا !! وہ بھاگا بھاگا فرہان کے پاس پینچا بابا میرا بازو جل گیا بابا وہ رو رو کر اسے بتا رہا تھا
اوہ مائ گاڈ ! یہ کیسے جلا بابا کی جان ؟ وہ اس کے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا
کیا میرا منہ دیکھتی رہیں گی ؟ یا فرسٹ ایڈ باکس لے آئیں گی آپ
اس نے ثمن کومخاطب کیا جو ڈری ,سہمی ہوئ کھڑی تھی
کوئ جواب دیے بغیر باکس لینے چلی گئ
جب وہ باکس لے آئ تو فرہان نے جلدی جلدی حدید کے بازو پر مرہم لگایا اور اسے گود میں لیے کمرے میں چلاگیا
ثمن وہی کھڑی رہی کہ کاش وہ حدید کو کھانا بنا کر دے دیتی تو کیا ہوجاتا باپ کے سلوک کا بدلہ اس ننھی سی جان سے لینا کوئ اچھا کام تو نہ تھا
اسے اپنی غلطی کا احساس تھا وہ چاہتی تھی کہ وقت مڑے اور حدید کو وہ کھانا بنا کر اپنے ہاتھوں سے کھلاۓ
لیکن اب روۓ کیا جب چڑیا چگ گئ کھیت
کبھی کبھی زندگی ہم سے وہ ہوجاتا ہے جو ہم کرنا نہیں چاہتے کچھ ایسے کام جن سے بعد میں ہمیں پچھتانا پڑتا ہے ہر انسان کے ساتھ ایسا ہوتا ہے
آج اس کے ساتھ بھی ہوا وہ خود کو مٹا دے ختم کردے یا کیا سزا دے یہ وہ نہیں جانتی تھی لیکن آج وہ جی بھر کر پچھتا رہی تھی ایک معصوم کا ہاتھ جلا جس کی وجہ یہ بنی تھی
اب ثمن نے دل میں ٹھان لی کہ وہ حدید کو کبھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دے گی
وہ اس سے اتنا ہی پیار کرے گی جتنا پیار ایک سگی ماں اپنے بیٹے سے کرتی ہے وہ اسکی کوئ بات نہیں جھٹلاۓ گی اس نے خود سے پکا وعدہ کر لیا تھا
___________________
حدید ابھی چلنا سیکھ رہا تھا اپنے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوۓ علی کے پاس جاتا تو کبھی حنا کے پاس وہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے ہوۓ تھے حدید جب جب یہ تھوڑا سا فاصلہ بھی طے کرتا تو علی اور حنا تالیاں بجا کر اسکی حوصلہ افزائی کرتے
وہ چھوٹا بچہ خوشی کے مارے بیٹھنے تک کا نام بھی نہ لیتا وہ اسطرح تھکن سے وہ کبھی گرتے گرتے بچتا
آج بھی ہمیشہ کی طرح اپنی من مانیاں کرکے وہ گھوڑے بیچ کر سورہا تھا
حنا اسکے پاس بیٹھی تھی
علی !!!
جی فرمائیے میڈم
حدید کا ہمیشہ خیال رکھنا وعدہ کرو مجھ سے میں رہوں یا نہ رہوں
تم اسے کبھی کوئ تکلیف کوئ پریشانی پہنچننے نہیں دوگے وعدہ کرو علی
یہ کیسی باتیں کر رہی ہو حنا ؟؟؟؟ تم جانتی ہو کہ میں ان باتوں سے کتنا اداس ہوجاتا ہوں ہم دونوں اسکا خیال رکھیں گے اپنے بیٹے کو اپنے سامنے بڑا ہوتا ہوا دیکھیں گے
لیکن علی مجھے بہت برے خیالات آتے ہیں تم جانتے ہو میں نے خواب دیکھا اس میں تم اور حدید تھے بس میں کہیں نہیں تھی لیکن تم دونوں ہی خوش تھے
میرے بغیر بھی بہت سکون تھا حدید کے چہرے پر بہت سکون تھا
اچھا اگر پھر مجھے کچھ ہوگیا تو ؟ میں مر گیا تو ؟؟؟
حنا نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھا بس کرو علی میرے سامنے ایسی باتیں مت کیا کرو
میں چاہتی ہوں میری عمر بھی تمہیں لگ جاۓ میں جی نہیں پاٶں گی تمہارے بغیر
اب بس کرو یہ باتیں ہم دونوں کو اپنے بیٹے کو بڑا ہوتے دیکھنا ہے ایک دوسرے کو بوڑھا ہوتے دیکھنا ہے ایک دوسرے کے دانت گرتے ہوۓ دیکھنے ہیں
حنا ہنسی آپ بہت برے لگو گے دانت گرنے کے بعد
تم بہت پیاری لگو گی بوڑھی ہونے کے بعد
دونوں کا قہقہا بلند ہوا
حنا نے سر علی کے کندھے پر رکھا علی نے اس کے ماتھے ہر بوسہ لیا
وہ دونوں انکی زندگی میں آنے والے طوفان سے ناواقف تھے جو انکی زندگی کو برباد کرنے والا تھا
_________________
وہ مرے مرے قدم اٹھاتی ہوئ فرہان کے کمرے میں داخل ہوئ
حدید فرہان کے سینے پر لیٹا ہوا تھا دونوں باپ بیٹا خواب خرگوش سو رہے تھے اس نے غور کیا تو فرہان شوز پہنے ہی سویا ہوا تھا ایسے لگ رہا تھ حدید کے بازو پر مرہم لگانے کے بعد وہ اسے چھپ کرواتا ہوا سوگیا ہو
ثمن کو اس پر ناجانے کیوں ترس آیا
وہ بیڈ کے پاس آہستہ سے آئ تاکہ انکی نیند میں خلل نہ آۓ اور آہستہ سے فرہان کے شوز کے تسمے کھولنے لگی اس سے پہلے کے وہ اسکے شوز اتارتی اسکی آنکھ کھل گئ
فرہان نے جھٹ سے اپنے پاٶں پیچھے کیے اور حدید کو بہت آہستہ سے خود سے الگ کیا اسے بیڈ پر لٹانے کے بعد فرہان نے ایک نظر ثمن پر ڈالی
جو کسی مجرم کی طرح اس کے سامنے کھڑی تھی میں شرمندہ۔۔۔۔۔؟
شششششششش !!!
ابھی اسکا جملہ ادا نہیں ہوا تھا کہ فرہان نے اسے خاموش رہنے کو کہا تاکہ حدید جاگ نہ جاۓ
اسے ہاتھ سے پکڑ کر باہر لے آیا
کیا چاہتی ہو تم بولو ؟؟ کیا چاہتی ہو تم وہ یک دم اس پر دھاڑا
ثمن سہم گئ اسنے فرہان کو اتنا غصہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا
تم( وہ اسکی طرف انگلی سے اشارہ کرکے بولا) تم جو اس چھوٹے سے بچے کو یہ جو بار بار ماں کے طعنے دیتی ہو کہ کدھر کدھر گئ تم جانتی بھی وہ کہاں ہے ؟
ثمن نے پہلی بار اندازہ لگایا تھا کہ فرہان کی آنکھوں می پانی تھا اور اسے چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا تھا
نہیں میں نہیں جانتی وہ کہاں ہے ؟
شششش چھپ ایک دم چھپ فرہان نے اسکو کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا خبردار جو اپنی زبان پر میری بیوی کا ذکر مت کرنا
بیوی اگر وہ اسکی بیوی تھی تو کیا ثمن اسکی بیوی نہیں تھی وہ اپنا گھر بار چھوڑے اس کے گھر آئ تھی اس نے بیوی تک کا درجہ بھی نہ دیا
میں سوریکہنا چاہتی ہوں میں وعدہ کرتی ہوں فرہان حدید کو کوئ دکھ نہیں پہنچے گا آج کے بعد میں نا سمجھ تھی مجھے معاف کردو فرہان
وہ ہاتھ جوڑ کر رو ر کر التجا کر رہی تھی آنسو لگاتار بہتے جا رہے تھے
یہ ناٹک میرے سامنے نہ کرو تمہیں معافی کبھی نہیں ملے گی تم جانتی ہو !! جب جب تمہیں دیکھتا ہوں میرا خون کھولنے لگتا ہے میرا خود پر کنٹرول نہیں رہتا
اس نے فرہان کا ہاتھ تھاما پلیز ایسا مت کہے فرہان مجھ سے اتنی نفرت مت کریں
جو بھی تھا کہیں نہ کہیں ثمن کے دل میں فرہان کی محبت کا دیا جلنے لگا تھا
فرہان نے اپنا ہاتھ چھڑایا
ہاتھ مت لگاٶ مجھے اس وقت اس سے پہلے کہ تم پر میرا ہاتھ اٹھ جاۓ چلی جاٶ یہاں سے وہ اس پر بری طرح چیخا
ایک لمحہ کیلیے ثمن کو سمجھ ہی نہ آئ کہ وہ کیا کرے پھر وہ منہ پر ہاتھ رکھے بھاگی بھاگی اپنے کمرے کی
طرف گئ
فرہان نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور وہاں کرسی پر بیٹھ گیا
___________________
کالی آندھی چمکتی بجلی اور تیز بارش اسکی کھڑکی سے یہ منظر نظر آ رہا تھا
وہ یہ دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ کاش بارش کے پانی میں اداسیاں بھی بہہ جایا کرتیں
کاش آسمان کے اک کونے سے دوسرے کونے میں جا کر غائب ہوتی
اس بجلی کی کڑک سے دکھ بھی سہم جایا کرتے
لیکن یہ اس کی سوچ ہی رہے گی
یہ اداسییاں یہ دکھ ساتھ ساتھ سفر کرتے رہیں گے
زندگی انہی کے سنگ اختتام کی جانب بڑھتی رہے گی
اور اک روز ہم انہی اداسیوں کو اوڑھ کر مٹی کی گہرائیوں میں کھو جاییں گے
وہ بارش کے قطروں کو گرتے دیکھ کر سوچ رہی تھی
کہ
ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﭨﻮﭨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮧ ﻣﺸﮑﻞ ﭼﻨﺪ ﺑﺎﺭ ﮨﯽ ﺟﮍ ﭘﺎﺗﯽ ﮨﮯ - ﺍﯾﮏ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻼ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭨﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟٌﮍ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﯿﻄﺮﺡ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ -
ﻟﯿﮑﻦ ﮐﭽﮫ ﺣﺴﺎﺱ ﺩﻝ ﺭﻭﺯ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺗﻮﮌ ﭘﮭﻮﮌ ﺳﮯ ﺑﮧ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﻤﺒﮭﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺩﮬﮍﮐﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩیتے ہیں
کتنا سنگ دل تھا وہ شخص کتنا ظالم تھا نہ وہ ثمن نے اپنا بازو دیکھا وہ اسے بازو سے پکڑ کر کمرے سے باہر لایا تھا اس کے بازو پر انگلیوں کے نشان واضع تھے
وہ آج اپنے بچپن کو یاد کررہی تھی جب جب بارش ہوتی وہ نہایا کرتی تھی
لیکن آج ،آج اسکی زندگی ویسی نہیں تھی اسکو مجرم بنایا گیا تھا اور کوئ جرم بھی نہیں بتایا جا رہا تھا
باہر بادل برس رہے تھے یہاں اسکی آنکھیں برس رہی تھیں بارش اندر بھی ہو رہی تھی اور باہر بھی
___________________
علی ابھی تک تیار نہیں ہوۓ آپ؟؟؟؟ حد ہوگئ !
حنا بالوں کو برش کرکے بولی
کیا ہوا ابھی ابھی تو ناشتہ کیا ہے ویسے بھی آج سنڈے ہے چھٹی ہے آفس سے حدید بیڈ پر لیٹا ہوا حدید اسکے اوپر بیٹھا ہوا کار سے کھیل رہا تھا
میں آفس کی بات نہیں کر رہی
تو ؟ وہ اٹھا اور تکیہ گود میں رکھ کر بولا
حدید اب بیڈ پر سے اترنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا
ہمارا حدید پورے دو سال کا ہونے والا ہے اسکی برتھ ڈے ہے کل اس لیے جلدی سے ریڈی ہوجائیں
وہ اس کے کپڑے الماری سے نکال کر بولی
جلدی سے چینج کرلیں تب ت ہم ماں بیٹا نیچے لاٶن میں آپکا ویٹ کرتے ہیں
اوکے وہ منہ بنا کر واش روم میں گھس گیا
حنا اور حدید آپس میں کھیل رہے تھے جب وہ نیچے آیا حنا سرخ لانگ فراک میں اسکو بہت پیاری لگ رہی تھی
چلیں بیوٹی فل ؟ وہ شرارتا آنکھ مار کر بولا
بلکل ہینڈسم چلتے ہیں وہ بھی شرارتا بولی
چلو بابا کی جان چلتے ہیں وہ حدید کو گود میں اٹھا کر بولا
وہ تینوں گاڑی میں بیٹھیں کچھ ہی دیر میں گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی
کچھ ہی دیر میں وہ لوگ شاپنگ مال میں موجود تھے
حنا نے اپنی پسند سے حدید کیلیے بہت سارے کپڑے اور کھلونے خریدے
اس کے بعد علی کے کیلیے بھی اس نے پرفیوم اور دو سوٹ خریدے اس کے منع کرنے کے باوجود ایک فراک اس نے اپنے لیے بھی خریدی جو علی کے فرمائش پر لی گئ
وہ مال کے باہر کھڑے تھے علی نے سامان حنا کے حوالے کیا اور خود پارکنگ سے گاڑی لانے چلا گیا
حنا نے حدید کو گوڈ میں اٹھایا ہوا تھا جب سامنے سے غبارے بیچنے والا آیا
بلون ۔۔۔بلون حدید غبارے لینا چاہتا تھا وہ حنا کا لاڈلہ تھا اسے منع نہیں کرسکتی تھی اس نے حدید کو گود سے اتارا چونکہ غباروں والا سڑک کے پار تھا اس کیے اس نے حدید کو ساتھ لے جانا مناسب نہیں سمجھا
سامنے سے علی کی کار اسکو نظر آگئ تو مطمئن تھی کہ علی حدید کو سنبھال لے گا
وہ جیسے ہی سڑک پار کرنے لگی آگے سے تیزی سے آت ہوئ گاڑی اسکی طرف مڑی اور زوردار ٹکر مار دی حنا خون میں لت پت دور جا گری ___________
وہ صبح کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی سب سے پہلے وہ اٹھی نماز پڑھی اسکے بعد مشین لگائ کپڑے دھوۓ سکھانے کیلیے تار پر ڈال دیے اس کے بعد پراٹھے بنانے کے لیے آٹا گوندھ کر فریج میں رکھ دیا اور جلدی سے رات پڑے ہوۓ برتن دھونے لگی
برتن دھوکر فارغ ہوئ ہوئ تو حدید اور فرہان کیلیے پراٹھے بنانے لگی کچھ ہی دیر میں کچن پراٹھوں کی خوشبو سے مہک اٹھا
حدید ناشتہ کرنے نیچے آیا اسکا بازو پہلے کی نسبت قدرے بہتر ہوچکا تھا وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا ہوا کھانے کے میز تک آیا
گڈ مارننگ ینگ مین !!
ثمن نے بہت ہی پیار سے کہا تھا
گڈ مارننگ ۔۔۔وہ چھوٹا سا بچہ ہلکا سا مسکرا دیا
ثمن کو اسکی مسکراہٹ بہت ہی پیاری لگی تھی
آپ آملیٹ کھائیں گے ؟
اسنے چھوٹے سے حدید کے گال پر بوسہ لیا
نہیں میں بریڈ کھاٶں گا
لیکن ماما نے اپنے بےبی کیلیے پراٹھا بھی بنایا ہے وہ نہیں کھائیں گے آپ
کھاٶں گا نہ ماما وہ خوش ہوا
اوکے مائ جان لیکن میں اپنے ہاتھوں سے کھلاٶں گی آپکو اوکے ؟؟
اوکے ماما وہ خوش ہو کر کرسی پر بیٹھ گیا
ثمن پراٹھا لے آئ اور اس کے پاس بیٹھ کر کھلانے لگی
تبھی فرہان سیڑھیاں اترتا دکھائ دیا
وہ بلیو شرٹ وائٹ پینٹ پہنے ہوۓ تھا ایک ہاتھ میں وائٹ کوٹ ہاتھ لیے ہوۓ تھا جبکہ دوسرے ہاتھ میں لیپ ٹاپ والا بیگ تھا گہرے براٶن بال بے ترتیب تھے مطلب اس نے ابھی بال نہیں بناۓ تھے
کیا ہو رہا ہے یہاں ؟ اس نے ان دونوں کو مخاطب کیا
بابا ! ماما مجھے پراٹھا کھلا رہی ہیں حدید نے خوش ہوکر بتایا
وٹ ؟؟؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئ اپنے غلیظ ہاتھوں سے میرے بیٹے کو کھانا کھلانے کی
اس نے حدید کو گود میں اٹھایا اور ثمن کو بالوں سے جھکڑ لیا
ایک سسکی اس کے منہ سے نکلی
تم جانتی ہو نہ کہ مجھے تم سے کس قدر نفرت ہے تمہارا وجود میرے لیے ناقابل برداشت ہے
کیا ملایا ہے تم نے اس میں ؟؟؟ بتاٶ ؟؟
وہ پراٹھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بولا
میں نے کچھ نہیں ملایا فرہان پلیز ایسا نہ کہے اس کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت بہہ رہے تھے
فرہان نے اسے بالوں سے کھینچ کر ایک طرف کیا میں تمہیں وارن کرتا ہوں اگر میرے بیٹے کو کچھ بھی ہوا نہ میں تمہیں زندہ جلادوں گا سمجھی ؟؟ اسے دکھا دیتے ہوۓ بولا
اور حدید کو گود میں اٹھاۓ باہر نکل گیا
اس ثمن کو آج خون کے آنسو رولایا تھا یہ کس گناہ کی سزا تھی اسے بتایا بھی نہیں جا رہا تھا
سب کچھ بد مزہ ہوچکا تھا کچھ بھی اب اچھا نہیں لگ رہا تھا
بال کھینچنے کی وجہ سے اس کے سر میں شدت سے درد ہونے لگا
___________________
حنا خون میں لت پت پڑی ہوئ فرہان اپنے حواس کھو چکا تھا وہ بھاگا بھاگا اس کے پاس آیا
حنا کے سر سے شدت سے خون بہہ رہا تھا آس پاس کھڑے لوگ حدید کو اس کے پاس لے آۓ تھے قیامت تھی اداسی تھی اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جانے والا طوفان تھا کانوں میں چھبتی خاموشی تھی
کسی سے ہمیشہ بچھڑ جانے کا ڈر تھا کسی کو جھو دینےکا خوف تھا
حنا ۔۔۔ اس نے دھیرے سے پکارا
تم مجھے سن رہی ہو نہ ؟؟
حنا ۔۔۔!!!
وہ اس جے قریب گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا چاروں طرف بھیڑ تھی انجانے لوگ کھڑے تھے جو اپنا تھا وہ تو کھو گیا تھا شاید
حنا !! اٹھو تنگ مت کرو پلیز وہ اس کے چہرے کو ہاتھ لگاتے ہوۓ بولا
وہ سب سے بے خبر آنکھ بند کیے ہوۓ تھی
حنا اٹھو !!! اس بار فرہان چیخا تھا
آس پاس کھڑے لوگوں میں سے چند آگے آۓ انھوں فرہان کو دلاسا دلانا چاہا تب تک ایمبولینس پہنچ گئ
کچھ ہی دیر میں وہ لوگ ہسپتال پہنچ گۓ تھے فرہان سارے راستے میں خاموش رہا تھا بس اپنے سامنے اپنے ہمسفر کو دیکھی جا ریا تھا
حنا کو آئ سی یو میں لے جایا گیا اسکی حالت بہت خراب تھی
فرہان حدید کو گود میں لیے بینچ پر بیٹھ گیا تھا
وہ دعا کیلیے ہاتھ اٹھاۓ ہوۓ تھا
قیامت سا منظر تھا جب ایک ہی انسان آپ کی دنیا ہو اور آپ سے ہمیشہ کیلیےروٹھنے لگے
لوگ کہتے ہیں مرد رویا نہیں کرتے لیکن آج وہ رہا رہا تھا لوگ کہتے ہیں مرد کمزور نہیں پڑتے لیکن آج وہ اس قدر کمزور پڑھ چکا تھا کہ اس کے پاس آنسو بہانے کے سوا کوئ چارا نہیں تھا آج وہ بے بسی کی انتہا پر تھا اہنے معصوم بیٹے کو خود سے لگاۓ ہوۓ وہ بے آواز رو رہا تھا
مسٹر علی !!!
ڈاکٹر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا
علی نے مڑ کر نم آنکھوں میں ایک امید لیے ڈاکٹر کو دیکھا
ایم سوری ،،،، ہم نے پوری کوشش کی لیکن ۔۔۔۔ش از نو مور
اس کے قدموں سے زمین نکل گئ تھی آسمان اسکے سر پرگرا تھا اسکا وجود کمزور پڑ رہا تھا
بابا ! حدید کی آواز اسے بہت دور سے آتی ہوئ سنائ دی جو اس کے ساتھ ہی بیٹھا تھا
ماما کہاں ہیں ؟؟؟
اس چھوٹے سے بچے کو جواب دینے کیلیےاس نے اپنے کپکپاتے لبوں سے الفاظ ادا کرنے کی کوشش کیلیکن وہ نہیں کرسکا تھا
حدید کو سینے سے لگاۓ وہ آٹھ آٹھ آنسو رو رہا تھا اسکا سب کچھ ختم ہوچکا تھا ساری خوشیوں کا اینڈ ہو چکا تھا سب کچھ برباد ہوچکا اسکی دنیا اجڑ گئ تھی۔