وہ حدید ۔۔۔۔
کیا ہوا حدید کو؟؟؟
حدید کو کوئ لے گیا ہے ابھی ڈرائیور کا فون آیا تھا
کیا ؟؟؟
تبھی فرہان کے موبائل پر رنگ ہوئ
کوئ انجان نمبر تھا اس نے کال ریسیو کی
اگر اپنے بیٹے کی خیر چاہتے ہو تو کیس واپس لو ورنہ اپنے بیٹے کو بھول جاٶ
میرے بیٹے کو اگر معمولی سا بھی نقصان پہنچا نہ تو میں دنیا کو آگ لگا دوں گا سمجھے تم
لیکن تب تک کال کاٹی جا چکی تھی
اب کیا ہوگا فرہان ؟؟ ہمیں ہمارا بیٹا کب ملے گا ؟؟؟ وہ آنکھوں میں آنسو لیے اسے ایک امید سے دیکھ رہی تھی
میں ڈھونڈ کر لاٶں گا حدید تم سنبھالو خو کو
اگر حدید کو کچھ بھی ہوا نہ فرہان یاد رکھنا میں کسی کو نہیں بخشوں گی تمہیں بھی نہیں وہ اسے انگلی سے وارن کرکے بولی
فرہان نے عدیل کو کال ملائ
ثمن کمرے سے باہر نکل گئ
عدیل سے بات کرنے کے بعد جب وہ کمرے سے باہر نکل آیا تو دیکھا کہ ثمن جاں نماز بچھا کر دعا مانگ رہی تھی وہ رو رہی تھی گڑ گڑا رہی تھی دعا مانگ رہی تھی بھیک مانگ رہی تھی تڑپ رہی تھی
فرہان سے مزید دیکھا نہ گیا اسکی آنکھیں بھیگ گئیں اور فوراً وہاں سے گزر گیا
*********************
میرا بیٹا اگر مجھے نہ ملا تو میں پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا
عدیل اور فرہان تھانے میں بیٹھے تھے فرہان نے حدید کے اغواء ہونے کی رپورٹ کروائی تھی
اور خود سے بھی لوگ لگا رکھے جو حدید کو ڈھونڈ رہے تھے تاکہ جلد سے جلد حدید کو ڈھونڈا جا سکے
حوصلہ رکھو عدیل نے اس کے کندھے پر تھپکی دی
تبھی فرہان کے موبائل پر رنگ بجی
سکرین پر ثمن کا نام چمک رہا تھا اس نے کال ریسیو کی
بہت جلدی فون اٹھا لیا تم نے تو کوئ مردانہ آواز تھی جسے وہ پہلے سن چکا تھا
کون ہو تم ؟؟؟ اور اس نمبر سے کیسے فون کیا تم نے ؟؟ وہ اٹھ کھڑا ہوا
ہاہاہاہاہاہاہاہا بلند قہقہ لگا دوسری جانب سے
بکواس بند کر کے بات کرو یہ میری بیوی کا نمبر ہے
تمہارے پاس کیسے آیا وہ اس قدر غصے میں تھا کہ اس کے ماتھے پسینا لکیر کی صورت میں اسکے چہرے پر گر رہا تھا
آپکی بیوی ہمارے قید میں ہے ہاہاہا
کمینے تمہاری دشمنی مجھ سے میرے بیٹے اور بیوی سے نہیں ان دونوں کو جانے دو اور بتاٶ مجھے کہاں ملنا ہے آمنے سامنے بات ہوگی
میری دشمنی تم سے تو نہیں وہ پھر ہنسا
پھر ؟؟؟
تمہاری بیوی میری سابقہ معشوقہ ہے میں اسے جانے نہیں دے سکتا
بکواس بند کرو شہباز تو یہاں جیل میں ہے کون ہو تم ؟؟؟
اسی اثنا میں تھانے میں بھاگ دوڑ شروع ہوگئ
کیا ہوا عدیل نے کسی پولیس آفیسر سے پوچھا
شہباز نام کا لڑکا جیل سے فرار ہوچکا ہے
اوہ مائ گاڈ عدیل نے اپنا سر پکڑ لیا
بھاگ ہی گۓ نہ اپنی اوقات دکھا کر کمینے میری فیملی سے دور رہنا میں ان کیلیے ہر حد سے گزر جاٶں گا
مجھ تک پہنچ سکتے ہو تو پہنچ جاٶ ہاہاہاہاہااہاہا
رابطہ منقطع ہوا
فہان موبائل کو گھورتا ہی رہ گیا
تمہیں پتہ ہے کہ تم نے سہی راستہ جانتے ہو ؟؟؟
**********************
ہاں مجھے انفارمیشن تو یہی دی گئ تھی
پولیس کا بتا دیتے نہ کچھ آفیسرز تو ہوتے ہمارے ساتھ
نہیں ، یہ کام میں اپنے طریقے سے کرنا چاہتا ہوں
یہی مسلہ ہے تم سب کام خراب کردیتے ہو ہمیشہ ایسا کرتے ہو
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے اور گاڑی ہوا سے باتیں کرتے ہوۓ راستوں سے گزر رہی تھی جب عدیل نے فرہان سے کہا
گاڑی ایک بڑے گیٹ کے سامنے رکی
عدیل نے حیرت سے فرہان کو دیکھا
اتر جاٶ
لیکن یہ تو میرا گھر ہے
میں نے کہا نہ کہ اتر جاٶ گاڑی سے
لیکن ،،،،
کچھ مت پوچو اتر جاٶ
لیکن حدید اور بھابھی ؟؟؟؟
وہ یہی کہیں ہیں
میرے گھر میں ؟؟؟
شششش فرہان نے اسے چھپ رہنے کا اشارہ کیا
____________
تم نے تو کہا تھا کہ ہم شہباز کو ڈھونڈنے جا رہے ہیں لیکن یہاں کیوں اس طرح سے چھپ نہ کرواٶ مجھے عدیل نے بد مزہ ہوکر کہا
”تم میرے ساتھ نہیں جا رہے“ فرہان نے دو ٹوک کہا
لیکن میں ساتھ کیوں نہیں جا رہا ؟؟؟ وضاحت کرو
کیونکہ یہ میری فیملی کا مسلہ ہے ہمارا اپنا گھریلو مسلہ ہے تم جاٶ اپنے گھر
میں دوست ہوں تمہارا میں ساتھ نہیں جاٶں گا تو کون جاۓ گا وہ ضد کر رہا تھا
فرہان کو ہار ماننی ہی پڑی اور پھر گاڑی سٹارٹ کردی
اب گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں تھی جو انجان راستوں سے گزر رہی تھی
******************************
تم آج بھی مجھ سے محبت کرتی ہو ثمن ڈارلنگ شہباز ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا
کو ایک تاریک کمرے میں بند کیا وہ دونوں کرسیوں سے بندھے ہوۓ تھے گیا تھا جہاں ہلکی ہلکی روشنی روشن دان سے اندر داخل ہو رہی تھی
مجھے تم سے رتی بھر محبت نہیں رہی شہباز تم اتنے گرے ہوۓ ہو پتہ چل گیا ہے مجھے وہ نفرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی
جھوٹ پھر سے جھوٹ ایک اور جھوٹ زمین پر جوس کا خالی ڈبہ پڑا تھا وہ اسے زوردار کک (لات) مار کر بولا
جھوٹ نہیں سچ ، تم یاد کرو وہ دن جب میں تمہارے لیے روئ تھی گڑ گڑائ تھی تم سے اپنی محبت کی بھیک مانگی تھی لیکن تم صرف اور صرف مجھے رسوا کرنا چاہتے تھے بیج راہ پر چھوڑ دینا چاہتے تھے
وہ ڈھیٹوں کی طرح ہنسی جا رہا تھا
ثمن کو لگا کہ وہ اس سے بات کرکے فضول میں اپنا دماغ خراب کر رہی ہے
تم جانتی ہو ؟؟ مجھے تم سے محبت تھی ہی نہیں کبھی بھی نہیں تھی محبت تم سے صرف ٹائم پاس کیا تمہارے ساتھ
ثمن کی آنکھوں میں آنسو آگۓ شاید یہ پچھتاوے کے آنسو تھے کیوں کبھی وہ اس شخص کیلیے اپنی ماں سے لڑتی تھی اپنے بھائیوں سے بھی لڑی یہاں تک کہ اپنے شوہر سے بھی
لیکن اب مجھے احساس ہوچکا ہے کہ میں غلط تھا تم مجھ سے بچھڑ گئ تو مجھے احساس ہوا ثمن کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں شاید کہ جی نہیں سکوں گا تمہارے بنا یہ سب کچھ میں تمہارے لیے کر رہا ہوں تم آزاد ہوجاٶ گی اس زبردستی کے رشتے سے اس قید سے میں جانتا ہوں فرہان تم سے نوکروں سے بدتر سلوک کرتا ہے
بس کرو خدارا بس کرو اور امتحان نہ لو میرا میں تم سے محبت نہیں کرتی ہاں پہلے یہ بے وقفی کر چکی لیکن میں صرف اپنے شوہر سے محبت کرتی ہوں تم سے نہیں تم سے تو اب بس گھن ہی آتی ہے مجھے
شہباز کی رگیں تن گئیں غصے سے منہ سرخ ہوگیا
مجھے بتاٶ میرا بیٹا کہاں ہے ؟؟؟
تمہارا بیٹا ؟؟؟ وہ تمہارا بیٹا کب سے ہوا ؟؟؟ وہ تمہارے شوہر کا بیٹا ہے سوتیلا ہے وہ تمہارا مر چکی ہے اسکی ماں
وہ میرا بیٹا ہے سمجھے تم اسے لے آٶ یہاں اس معصوم کو ایک چوٹ بھی نہیں آنی چاہیے
تبھی دروازے پر دستک ہوئ
آجاٶ !!
کھانا لایا ہوں بھاٶ
لے آٶ رکھ دو میز پر
وہ کھانا رکھ کر چلا گیا
اب شہباز کرسی سے بندھی ہوئ ثمن کے ہاتھ کھول رہا تھا
چلو کھانا کھاٶ
نہیں کھاٶں گی سنا تم نے دور کرو یہ کھانا مجھ سے مجھے صرف میرا بیٹا چاہیے
شہباز کھڑا ہوا جیسے اس کے پاس کوئ اور چارا نہ ہو
چلو میرے ساتھ مل لو اپنے بیٹے سے
ثمن اس کے پیچھے پیچھے چل دی
کچھ ہی دیر میں وہ کچھ ویران سی ٹوٹی پھوٹی جگہ پر موجود تھی جہاں دور دور تک کوئ نہیں تھا ایک سناٹا تھا جو کانوں میں چھب رہا تھا
میرا بیٹا کہاں ہے؟ یہ کونسی جگہ ہے ؟؟؟
شہباز نے تین بار تالی بجائ تو ان کے بائیں جانب سے کچھ غنڈے نما لڑکے آگے آ رہے تھے ان میں ایک نےحدید کو گود میں لیا ہوا تھا
حدید نے ثمن کی طرف مسکراہٹ اچھالی تھی ثمن بھی جواب میں مسکرا کر رہ گئ
وہ لوگ قریب آۓ تو حدید کو گود سے اتار دیا وہ بھاگا بھاگا ثمن کے پاس وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئ
وہ بھاگتا ہوا اس اسکے پاس آیا ثمن نے اسکو کس کر گلے لگایا ماتھا چوما اس کی آنکھیں برسنا شروع ہوگئیں اف اللہ یہ بچہ میری وجہ سے اس حال میں ہے میں کیسے نکالوں اسے اس جہنم سے وہ خود کو کوس رہی تھی کاش وہ یہاں سے اس بچے کو چڑا لے
ماما کیوں رو رہی ہو ؟؟ وہ معصومانہ انداز میں بولا ثمن نے اسے دوبارہ گلے سے لگایا
اب بس کرو ختم کرو یہ ڈرامہ
اوۓ لے جا اسے شہباز ان غنڈے نما لڑکوں سے بولا
نہیں !!!ثمن نے حدید کو گلے لگایا ہوا تھا کوئ قریب نہیں آۓ گا مت چھینو اسے مجھ سے جانے دو اسے حدید نے دونوں ہاتھوں سے ثمن کا بازو پکڑ رکھا تھا وہ لوگ انھیں ایک دوسرے سے دور کر رہے تھے حدید رو رہا تھا
شہباز نے ثمن کے بالوں کو مٹھی میں پکڑ لیا اور زور سے کھینچا درد کی شدت سے ثمن کے منہ سے آہ نکلی
چھوڑ دو میری ماما کو بزدل کہیں کے عورتوں پر ہاتھ اٹھاتے ہو حدید نے اسے للکارا جس کو وہ غنڈے نما لڑکے اٹھا کر لے جا رہے تھے
شہباز نے اس کی طرف دیکھا اور تمسخرانہ ہنسا اس نے ثمن کے بالوں کو چھوڑ دیا تم باپ بیٹے کو گالیاں ہی آتی ہیں بس آٶ ادھر آٶ میلا بچہ
حدید اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوۓ تھا
تمہیں ڈر نہیں لگتا مجھے سے ہاں
نہیں لگتا ڈر آپ گندے ہو میرے بابا کہتے ہیں گندے لوگوں سے نہیں ڈرتے
تھوڑی دیر پہلے جو بچہ رو رہا تھا اب وہی شہباز کو منہ توڑ جواب دے رہا تھا
حدید بیٹا ماما کے پاس آٶ وہ گندے ہیں نہ ان کے پاس نہ جاٶ ثمب جو دوسری طرف کھڑی تھی
نہیں ماما ہمیں سکول میں ٹیچر پڑھاتی ہیں God helo those who help themselves
حدید بیٹا پلیز!!! وہ ہاتھ جوڑ رہی تھی اسکو ڈر تھا کہیں وہ لوگ حدید کو نقصان نہ پہنچا دیں
اچھا تو میں گندہ ہوں شہباز اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا
صرف گندے ہی نہیں بزدل بھی ہو آپ
شہباز نے ایک زور دار تھپڑ حدید کے منہ پر مارا جس کی شدت اتنی تھی کہ حدید دور جا گرا
ثمن کے پیروں تلے زمین نکل گئ تھی
یہ دیکھا صرف ایک تھپڑ کی مار ہو تم شہباز کے ساتھ ساتھ اس کے غنڈوں نےبھی قہقہ لگایا
حدید دوبارہ اٹھا اور پھر سے اسی جگہ کھڑا ہوا جہاں وہ پہلے کھڑا ہوا تھا مجھے آپ سے ڈر نہیں لگتا
اس بار شہباز نے جیب سے پستول نکالی اور حدید سےکہا اب کگتا ہے ڈر ؟؟؟
شہباز وہ بچہ ہے معصوم ہے اسے جانے دو ثمن نے التجا کی تھی
ہاہاہاہاہا بچہ ، اب تک تو بچہ ہی سمجھ رہا تھا میں اسے لیکن یہ تو دشمن کا بیٹا ہے نہ تو اسے کیسے چھوڑ سکتا ہوں ،،،؟
شہباز نے حدید کے ماتھے کا پستول سے نشانہ لیا
حدید اب بھی اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا
شہباز رک جاٶ تم ہی نے اسکی ماں کا قتل کیا اب تم ہی اسے نقصان پینچا رہے ہو اتنے بے درد نہ بنو وہ چھوٹا ہے معصوم ہے اتنا ظلم نہ کرو خدا کا واسطہ ہے تمہیں مجھے ماردو لیکن اسے جانے دو
یک دم گولی چلی ثمن نے دونوں آنکھیں ڈھانپ لی اور آواز کے ساتھ ہی گر گئ۔