فرہان منہ لٹکاۓ اسپتال کے کمرے سے باہر آیا عدیل اسکی حالت دیکھ کر مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کر پایا تھا
کیا ہوا منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے ؟
یار وہ بھول چکی ہے سب یہاں کہ مجھے کہتی ہے کہ میں اس پر لائن مارنے کی کوشش کر رہا ہوں تم ہی بتاٶ اپنی بیوی پر کوئ تھوڑی نہ لائن مارتا ہے
عدیل نے ایک بار پھر ہنسی کنٹرول کی تھی
اچھا یہ بتاٶ گھر کب جارہے ہیں ؟؟؟
ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ہم اسے لیکر جاسکتے ہیں گھر
اور ہاں سب سے اہم بات عدیل اپنے ذہن پر زور ڈالتے ہوۓ بولا
شہباز پکڑا گیا وہ ابھی تھانے میں ہے
فرہان کی طبیعت کے ایک دم سے 12 بج گۓ
مجھے اس سے ملنا ہے عدیل
وہ تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں میں اس سے ملنے جاٶں گا تو جاٶں گا بس
اچھا ٹھیک ہے لیکن یار اسکا باپ ایک نمبر کا کمینہ انسان ہے
ہمیں اس کے باپ سے کوئ لینا دینا نہیں بس ہمیں مجرم کو اسکے جرم کی سزا دینی ہے
تم سمجھ نہیں رہے اسکا باپ ایک نمبر کا غنڈہ موالی ہے وہ اپنے بیٹے کو بچانے کیلیے ہر حد پار کر جاۓ گا
مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ہمیں تو بس ثبوت عدالت تک پہنچانے ہیں بس پھر اسکا باپ بھی کچھ نہیں کر پاۓ گا
ہمممم بات تو تمہاری ٹھیک ہے ہم اپنی طرف پوری کوشش کریں گے اس کو اپنے انجام تک پہنچانے کی عدیل مسکرایا
یار جب تم ساتھ ہو تو مجھے کسی کا ڈر نہیں فرہان بھی اسکی طرف دیکھ کر مسکرایا
تبھی نرس پیپرز لے کر آگئ
مسٹر فرہان یہ پیپرز فل کرکے آپ اپنی وائف کو گھر لے کر جا سکتے ہیں
فرہان نے نرس سے پیپرز لے کرسائن کیے
اور کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا
_____________________
میں کہاں ہوں؟؟؟ مجھے بتاٶ تم لوگ کون ہو ؟؟؟اور کیوں لاۓ ہو مجھے یہاں ؟؟؟؟
ثمن ان سے سوال پہ سوال پوچھ رہی تھی
رباب اور عدیل نے مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی ہوئ تھی
فرہان اپنا سر دونوں ہاتھوں سے تھام کر بیٹھا ہوا تھا
اچانک بولا
میں آپکا شوہر ہوں ،یہ آپکا کا گھر ہے اور پلیز اتنے سارے سوال ایک ساتھ مت پوچھا کریں
فرہان کی حالت دیکھ رباب اپنی ہنسی مزید کنٹرول نہیں کرپائ
فرہان نےمڑ کر دیکھا بھابھی ؟؟؟
آپ ہنس رہی ہیں ؟؟؟
گردن گھما کر دیکھا تو ثمن اور عدیل بھی ہنس رہے تھے
فرہان دونوں ہاتھ بغل گیر کرکے بولا
کیا ڈرامہ ہے یار ؟؟؟
کیوں ہنس رہے ہو آپ لوگ ؟؟؟
بابا میں بتاتا ہوں آپکو ثمن ماما کو سب یاد ہے وہ بس ایکٹینگ کر رہی ہیں
حدید کہیں سے بھاگا بھاگا آیا
فرہان کچھ دیرر کیلیے چھپ ہی ہوگیا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو
آپ لوگوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا ؟ کیا آ لوگوں کو نظر نہیں آ رہا تھا کتنا پریشان تھا میں ؟؟؟ اب وہ سیریس ہوچکا تھا
کیوں آپ کیوں پریشان تھے ؟؟ اس بار بولنے کی باری ثمن کی تھی
تمہارے لیے
میرے لیے لیکن کیوں ؟ ثمن کا چہرہ ہر قسم کے تاثر سے خالی تھا
کیونکہ ۔۔۔۔۔اسے الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ وہ کیا کہے
میں نے آپ سے کچھ پوچھا ہے وکیل صاحب ؟؟
تم میری بیوی ہو اور مجھے تمہاری فکر تھی
ثمن استہزائیہ ہنسی
آپکو میری فکر کب سے ہونے لگی میں تو اس گھر کی نوکرانی ہوں نہ بس ہم میں فرق صرف یہ ہے کہ میں آپ پر حرام نہیں ہوں یہی کہتے تھے نہ آپ
یہ سب ڈرامہ رباب بھابھی کےکہنے پر کیا تھا میں نے ورنہ میں تو اسی دن سب چھوڑ کر چلی جاتی جس دن مجھے ہوش آیا تھا
یاد رکھیے گا بے حس بنا دیا ہے آپ نے مجھے اب مجھے کوئ فرق نہیں پڑتا چاہے جو بھی ہوجاۓ مجھے محبت سے فرصت نہیں ملی تھی ورنہ کرکے بتاتی آپکو کہ نفرت کیسے کی جاتی ہے
وہ تیز تیز قدموں سے اپنے کمرے میں چلی گئ
فرہان ثمن کے بدلنے پر شاکڈ تھا
عدیل اور رباب کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے روانہ ہوگۓ فرہان ویسا کا ویسا ہی کھڑا رہا
ثمن غلط نہیں تھی یہ بات وہ خود بھی جانتا تھا
___________________
فرہان ٹی وی دیکھ رہا تھا جب اسکے موبائل پر رنگ بجی
اسنے موبائل اٹھایا تو کسی انجانے نمبر سے کال آ رہی تھی
جیسے ہی اس نے موبائل کان سے لگایا دوسری جانب سے بھاری آواز سنائ دی
میں جانتا ہوں تم کون ہو اور کہاں رہتے ہو؟؟
تو ؟؟؟؟ فرہاننے دو ٹوک کہا
تو یہ کہ شہباز کو کچھ نہیں ہونا چاہیے تم اس کے خلاف ایسا ویسا کچھ درج نہیں کروگے عدالت میں
کیوں ؟؟ وہ ایک قاتل ہے اور میں ایک وکیل اور قاتل کو پھانسی تک پہنچانا میرا فرض ہے
تو کیا تم چاہتے ہو کہ اپنا فرض پورا کرتے کرتے اوپر پہنچ جاٶ
مجھے کسی چیز کا کوئ ڈر نہیں سمجھے تم اور تم ہوتے کون ہوں مجھے دھمکی دینے والے ؟؟؟
میں جو بھی ہوں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ تمہاری بیوی بہت خوبصورت ہے اور تمہارا بیٹا جس سکول میں پڑتا ہے اس کا ایڈریس میں جانتا ہوں تم بچے ہو ابھی اس لیے پیار سے سمجھا رہا ہوں
تم ہو کون ؟؟ بیغرت انسان تم ملو مجھے پھر پتہ چلے گا پیٹ پیچھے وار کرنا تم لوگوں کا کام ہے ڈرپوکو !!!
آٶ آمنے سامنے مسلہ حل کرتے ہیں
فرہان بولتا گیا مگر تب تک موبائل بند ہوچکا تھا
فرہان نے غصے سے موبائل زمیں پر دے مارا
اس کا سر درد سے پھٹنے والا تھا وہ مسلسل اسی سوچ میں گم تھا کہ فون کرنے والا ہے کون ؟؟؟
اور قاتل سے اسا تعلق کیا ہے ؟؟
ﻣﺤﺒﺖ
ﺍﯾﮏ ﻣﮑﺎﺭ ﺩﺷﻤﻦ ہے
اس سے ہرحال میں لڑنا ہی پڑتا ہے
ﭼﮭﭗ ﮐﺮ ﻟﮍﻭ ﯾﺎ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﺁﺧﺮﯼ ﺩﺍﺅ ﯾﮩﯽ ﭼﻠﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﺐ ﮨﺎﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ صرف تہی دست رہ جاۓ گا
اور کبھی یہ محبت بڑی ظالم شے ثابت ہوتی ہے برباد کرکے رکھ دیتی ہے انسان کو بے حس بنا دیتی ہے اور کبھی کبھی بے حس ہونے کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے
ثمن خود نہیں بدلی تھی اسکو محبت نے بدل دیا تھا وہ محبت جو اس نے شدت سے کی تھی جس نے ثمن کو موم سے پتھر کردیا تھا
موم سے پتھر ہونے تک کا مرحلہ بہت دردناک ہوتا ہے اذیت ناک ،بے رحم اور ظالم ترین
اور یہ جو لوگ کہتے ہیں نہ کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے
ہر بات ہر رویہ اور ہر عمل پر رد عمل دینا ضروری نہیں ہوتا اس کے برعکس بے پرواہی برتنا اور خاموشی اختیار کرنا بہترین جواب کہلاتا ہے۔۔۔!!
لیکن جب سامنے والے کو یہ آپکی بزدلی لگے تو پھر موم سے پتھر ہونا پڑتا ہے
ثمن کی بھی حالت کچھ ایسی ہی تھی
آج وہ گارڈن میں حدید کے ساتھ فٹبال کھیل رہی تھی جب فرہان کی نظر اس پڑی وہ کچن میں چاۓ بنا رہا تھا سامنے کھڑکی تھی جس سے گارڈن صاف نظر آتا تھا اسی کھڑکی سے وہ ان دونوں کو کھیلتے ہوۓ دیکھ رہا رہا تھا کتنا حسین منظر تھا
ان دونوں کو دیکھتے دیکھتے اس کے ذہن میں فون پر ہونے والی گفتگو گھومنے لگی اس کے چہرے مسکراہٹ اچانک غائب ہوگئ
اگر سچ میں ان لوگوں نے ان دونوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو وہ کیا کرے گا
اس نے چاۓ کپ میں انڈھیل دی اس سے پہلے وہ گھونٹ بھرتا بال اسکے کپ سے ٹکرائ اور کپ زمین پر جا گرا
تبھی ثمن کی نظر فرہان پر پڑی جس کی نظریں صاف کہہ رہی تھی یہ کیا کردیا تم نے اتنی محنت سے تو چاۓ بنائی تھی مگر پھر بھی وہ مسکرا دیا
ثمن نے اسکی مسکراہٹ نظرانداز کردی اور حدید کا ہاتھ پکڑ کر اسکے سامنے سے چلی گئ
وہ اس سنسان جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں کچھ دیر پہلے چہل قدمی ہو رہی تھی اب وہاں کوئی نہیں تھا صرف خاموشی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی
فرہان کے دل کو کچھ ہونے لگا اس سے مزید وہاں کھڑے رہنا برداشت نہ ہوسکا وہ کچن سے نکل گیا
*****************
وہ تھانے میں شہباز کے آمنے سامنے کھڑا تھا اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے
کتنی دیر سے وہ دونوں ایک دوسرے کو گھور رہے تھے
کیا سوچ رہے ہو وکیل صاحب ؟؟؟
شہباز نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا
سوچ رہا ہوں کہ کاش میں قانون کا رکھولا نہ ہوتا
وہ سہاٹ لیجے میں بولا
ہاہاہاہاہا تو ؟؟؟ تو کیا اکھاڑ لیتے میرا
اکھاڑ تو میں اب بھی بہت کچھ سکتا ہوں لیکن تھوڑا وقت گزرنے دو
ویسے آپکی بیوی تھی بڑی خوبصورت اب افسوس ہو رہا کاش گاڑی سے کچلنے کی بجاۓ گاڑی می بٹھا لیتا ساتھ
اس کا انداز تمسخرانہ تھا
بدزات انسان !!! تیری تو ۔۔۔فرہان نے اسے گریبان سے جھکڑ لیا
تبھی عدیل آیا اور چڑوالیا شہباز کو
اور آپکی وہ دوسری بیوی کیا نام تھا اسکا وہ یاد کرنے کی ایکٹنگ کرکے بولا ہاں ؟!!! ثمن وہ بھی تو قیامت ہے توبہ توبہ
غصے کے مارے فرہان کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں
اس سے پہلے کہ وہ شہباز کو ادھر کا ادھر ہی قتل کر ڈالتا عدیل اسکو اپنے دونوں ہاتھوں بڑی مشکل سے روکا
یار وہ تجھے اکسا رہا ہے جال بچھا رہا ہے تیرے لیے تو چل یہاں سے چل عدیل اسے اپنے ساتھ زبردستی لے کر جارہا تھا
وہ تو مجھ سے پیار کرتی ہے وکیل صاحب میری گرل فرینڈ جو ٹھہری ظالم پوری کی پوری نشے کی بوتل ہے وہ قہقہ لگاکر بولا
فرہان کا ضبط جواب دے گیا اس نے عدیل کو دھکا دے کر خود سے الگ کیا اور شہباز کا کا گلہ دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا اس اس قدر گلہ دبایا کہ شہباز کا چہرہ سرخ ہوگیا
تبھی پولیس آفسر اندر آیا اور اس سے شہباز کو بامشکل چڑوالیا
وہ شہباز کو اپنے ساتھ لے گیا جبکہ فرہان میز کو لات مار کر پرے گرادیا
عدیل اسے افسوس بھری نظروں سے دیکھتا رہ گیا
*********************
اگلے دن اس نے حدید کو خود سکول ڈراپ کیا لیکن ثمن کی ٹینشن اس کو مزید کھائی جارہی تھی اسنے ثمن کو موبائل بھی خرید کر دے دیا تھا
وہ اس کا ہر طرح سے خیال رکھنے لگا تھا مگر ثمن اس سے آج بھی بات نہیں کرتی تھی کیونکہ اس کے پیار ی توہین کی گئ تھی اور اسکی انا پر چوٹ لگی تھی وہ کیسے ہنسی خوشی بات کرتی اس انسان سے جس نے اسے اتنی تکلیف پہنچائ ہو
یہ الگ بات تھی کہ ثمن اسکا فون نہیں اٹھاتی تھی لیکن کسی ضروری میسج کا ریپلائ کردیا کرتی تھی مگر پھر فون کرنے والا دل میں فون اٹھانے کی امید لیے لیے روز کال کرتا تھا
آج بھی ہمیشہ کی طرح اس دو ، تین بار کال کی اور ثمب نے اگنور کردیں وہ گھر میں اکیلی تھی ٹی وی پر کوئی ڈرامہ چل رہا تھا وہ صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی
جب اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی اسے لگا حدید ہوگا کیونکہ اس کے سکول سے واپسی کا ٹائم ہو رہا تھا اس وقت ڈرائیور اسے گھر ڈراپ کرتا
پھر بھی کافی وقت گزرنے کے بعد جب اس نے حدید کی کوئی آواز نہیں سنی تو کچھ پریشان ہوئ کیونکہ وہ سکول سے آتے ساتھ ہی اسے سلام کیا کرتا
ثمن ٹی وی آف کرکے باہر نکلی دیکھا تو صحن میں گاڑی نہیں تھی جس کا مطلب تھا ابھی حدید نہیں آیا لیکن دروازہ کیسے کھلا کیونکہ گھر میں اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا شاید ہوا سے کھلا ہو اسنے خود کو دلاسہ دیا
اس سے پہلے کہ وہ واپس مڑتی لائٹ چلی گئی پورے گھر میں اندھیرا چھا گیا
ک_کون ہے ؟
کچن سے کوئ شیشہ ٹوٹنے کی آواز سنائ دی ثمن کے اوسان خطا ہوۓ ڈر کے مارے اسکا کلیجہ منہ کو آنے لگا
اسنے بہت ساری ہمت جمع کی اور دوبارہ آواز لگائی
ک ک ک کوئ ہے وہاں ؟؟
لیکن سامنے سے کوئ جواب نہ ملا
وہ سکھ سانس لینے ہی لگی تھی تبھی کسی کے قدموں کی آہٹ سنائ دی
اس کا دل دھڑک کر باہر آنے کو تھا
سامنے چمکیلا سا کچھ دکھائ دے رہا تھا اسنے غور کیا تو کسی کی آنکھیں تھیں جو اندھیرے میں بھی چمک رہی تھیں
ثمن خود کو کوس رہی تھی کہ کاش موبائل اس کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ فرہان کو کال کرلیتی اس کے ہاتھ ٹھنڈے پڑ چکے تھے پاٶں میں جان باقی نہ تھی
قدموں کی آہٹ قریب آتی گئی
چمکتی آنکھوں اور اس کے بیج کا فاصلہ کم ہوتا گیا ڈر کی وجہ ثمن کی حالت ایسی ہوچی تھی کہ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پا رہی تھی
_________
ثمن نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا تبھی اسکے کانوں میں بلی کی آواز سنائ دی اسنے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ چمکتی آنکھوں والا کوئ اور نہیں بلکہ بلی تھی
اس نے سکھ کا سانس لیا تبھی کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ثمن کے اوسان خطا ہوۓ اسنے فوراً سے پلٹ کر دیکھا تو فرہان کھڑا تھا
وہ مکمل ڈری ہوئ تھی فرہان کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں پانی بھر آیا اس وقت فرہان کو اس پر ایسا ہی پیار آیا جیسے کسی چھوٹے بچے پر آتا ہے
اس نے ثمن کو اپنے ساتھ لگایا ثمن کے آنسو ٹپکنے لگے
رو رہی ہو ؟؟ اسے ترس آ رہا تھا ثمن پر
ثمن نے نفی میں گردن ہلائ
سچ بتاٶ نہ پلیز کیوں رو رہی ہو ؟؟
اس سے پہلے کہ ثمن کمزور پڑ جاتی اس نے خود کو فرہان سے الگ کیا
اس سے پہلے کہ وہ جاتی فرہان نے اس کا بازو تھام لیا
اندھیرا ہے میرا موبائل رکھ لو ٹارچ آن کر لینا
مجھے ضرورت نہیں کسی کی چیزوں کی اسکی بات سے ہی اسکی بے رخی ظاہر ہو رہی تھی
فرہان کا ہاتھ ویسے ہی رہ گیا جس میں اسنے موبائل پکڑ کر اسکی طرف بڑھایا تھا
وہ بے پرواہ سی وہاں سے چلی گئ اور مڑ کر بھی نہیں دیکھا
اتنی دیر میں لائٹ آگئ اور سارا گھر روشن ہوا
یہ محبت بھی کتنی عجیب شے ہے نہ جس کے پاس ہو اسے فقیر سے بادشاہ کر دیتی ہے اور جس کے پاس نہیں ہو اسے بادشاہ سے فقیر کر دیتی ہے
یک دم ثمن کے رونے کی آواز اسے سنائی دی
وہ بھاگا بھاگا اس کے کمرے میں گیا دیکھا تو زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رو رہی تھی
کیا ہوا ثمن وہ اس کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ ثمن نے دونوں ہاتھوں میں اسکا ہاتھ تھام لیا
ہم خالی ہاتھ رہ گۓ فرہان ہم خالی ہاتھ رہ گۓ وہ زار و قطار رو رہی تھی
کیا ہوا بتاٶ شاباش فرہان اسے چھوٹے بچوں جیسا ٹریٹ کر رہا تھا۔