تین دن بعد اسکی شادی تھی آج اس کا کالج میں آخری دن تھا سب لوگ خوشیاں ما رہے تھے لاسٹ ڈے سیلیبریٹ کر رہے تھے ایک وہی سب سے الگ منہ لٹکا کر بیٹھی ہوئ تھی فاریہ اور نوشین اس کی طرف آئیں
ثمن کا ہوا تمہیں سب خیر تو ہے نہ__؟فاریہ نے پوچھا
ہاں سب خیریت ہے ثمن نے منہ اوپر کیا اور بات ختم کرکے پھر سے منہ نیچے کر لیا
مجھے لگتا ہے اس کی طبیعت صاف کرنی پڑے گی آج خوشی کا دن ہے سب لوگ انجواۓ کر رہے اور یہ یہاں منہ لٹکا کر ماتم کر رہی ہے اس بار بولنے کی باری نوشین کی تھی
اس بار تو ثمن نے منہ بھی نہیں اٹھایا بس آنکھوں سے ٹپ ٹپ کرکے آنسو گرنے لگ گۓ
ارے ۔۔۔یہ دیکھو میڈم رو رہی ہے آج رونے کا دن تھوڑی ہے نوشین نے منہ بنا کر کہا
ثمن سچ سچ بتاٶ سب ٹھیک تو ہے نہ فاریہ اس بار فکرمندی سے گویا ہوئی
ثمن نے چہرہ اوپر کیا اسکی بڑی بڑی آنکھیں اس وقت پانی کی ٹینکی بنی ہوئ تھیں ناک سرخ ہوچکی تھی
تم جانتی ہو نہ دونوں کہ میرے گھر والے زبردستی میری شادی کروا رہے ہیں مجھے وہ لڑکا بلکل پسند نہیں نہ ہی میں جانتی ہوں اسے بس ایک بار دیکھا ہی ہے
تمہارے گھر والوں کو شاید تم انسان نہیں لگتی نوشین کو اسکی حالت پر افسوس ہو رہا تھا
تم شہباز کو کیوں نہیں ملواتی اپنے گھر والوں سے ؟فاریہ نے اسکو آئیڈیا دیا
ملوا چکی ہوں اپنے بھائ سے لیکن بھائ کو شہباز پسند نہیں آیا میں شہباز کے بغیر مر جاٶں گی فاریہ،،( ثمن کے رونے میں اضافہ ہوا)
اچھا ایک کام کرو کیا نام ہے تمہارے اس منگیتر کا ؟فاریہ نے پوچھا
فرہان
اسکو فون کرو اور شادی سے منع کردو( ایک اور مشورہ مفت میں دیا جا چکا تھا )
م۔م۔میں کیسے کروں منع ؟ ثمن شاکڈ نظروں سے اسے گھورنے لگی
لو بھئ جیسے کرتے ہیں منع ویسے ہی کردو نوشین نے دو ٹوک کہا
”میرے پاس نمبر نہیں ہے اسکا“
واہ بھئ دو روپے کی تالیاں تمہارے لیے پھر وہ رک کر بولی ایک کام کرو کسی نہ کسی طرح وہ نمبر چوری کرلو
ثمن کو پلان اچھا لگا تھا
_______________________
حنا لاٶنج میں بیٹھی ٹی وی پر کوئ پروگرام دیکھنے میں مصروف تھی جب کچن سے علی نے آواز دی بے بی ڈارلنگ ڈنر تیار ہے ٹیبل سیٹ کرلو میں آتا ہوں کھانا لیکر
اوکے کہہ کر وہ اٹھ کر ٹیبل سیٹ کرنے لگی
وہ کھانے کا ٹیبل سیٹ کر چکی تب تک علی کھانا لے آیا
یہ لے مائ سویٹ سویٹ بے بی ڈارلنگ وہ کھانا رکھتے ہوۓ بولا
تھینک یو سو مچ سویٹو وہ اس کے گال پر بوسہ دے کر بولی
علی مسکرایا
تھینک یو جان علی نے اس کو اپنے ساتھ لگایا
حنا نے اس کے کندھے پر سر رکھ کر کہا تھینک یو فار وٹ ،،؟
فار کمپلیٹ مائ ورلڈ علی نے اس کے ماتھے پر بوسہ لیا
حنا مسکرائ اور اس سے الگ ہوئ
اچھا اچھا اب یہ چاپلوسی بند کرو جلدی جلدی ناشتہ کرلو آفس سے دیر ہوجاۓ گی
تمہارا مطلب میں چاپلوسی کرتا ہوں وہ منہ بنا کر بیٹھ گیا
ہاہاہاہا ہاں نہ یہ صبح صبح چاپلوسی ہی تو ہے مجھے کچن سے نکال دیتے ہو خود بناتے ہو ناشتہ حنا نے اسے مزید تپایا
حد ہوگئ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا اس نے منہ بنا کر کہا
حنا نے پلیٹ میں چاول ڈال کر علی کے سامنے کردی اب وہ اپنی پلیٹ میں چاول ڈال رہی تھی
یہ کیا کر رہی ہو بے بی ڈارلنگ ؟؟
چاول ڈال رہی ہوں اپنی پلیٹ میں حنا نے مسکرا کر جواب دیا
ایک ہی پلیٹ سے کھاتے ہیں نہ علی نے بچوں جیسے انداز میں کہا
حنا کو اس کے انداز پر بے تحاشہ ہنسی آئ
افف یہ چاپلوسی وہ اسے چڑانے کیلیے بولی
حنا نے چاولوں سے چمچ بھرا اس سے پہلے کہ وہ چاول کھاتی علی انے اسکا ہاتھ پکڑ لیا اور چمچ اپنے منہ میں ڈال لیا
یہ چاپلوسی نہیں محبت ہے میری جان اسنے آنکھ ماری حنا کا شرم کے مارے چہرہ سرخ ہوگیا
علی نے اسکی حالت دیکھ کر قہقہ بلند کیا حنا نے اسکے کندھے پر مکا مارا
آہ۔۔۔۔ ظالم عورت وہ اپنے کندھے کو سہلاتے ہوۓ بولا
حنا کا قہقہہ بلند ہوا
علی اسکو دیکھ کر مسکرایا
حنا تم ہمیشہ مسکراتی ہو تم نہیں جانتی تم میری زندگی ہو جب جب تم مسکراتی ہو میری دنیا مسکراتی ہے مجھے جینے کا احساس ہوتا ہے
حنا نے علی کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا میں جانتی ہوں علی لیکن یہ بھی جان لینا جتنی محبت تمہیں مجھ سے نہ اس سے دو گنا محبت ہے مجھے تم سے تم ہی میری دنیا ہو میرا جہان ہو میرے دوست ہو میرے ہمدرد ہو میرے سب کچھ تمہی ہو
اب بس کر پگلی رولاۓ گی کیا ؟وہ ہنسا
حنا اسکی طرف دیکھ کر مسکرائ
دونوں کو دیکھ کر زندگی مسکرا رہی تھی
___________________
وہ سفید شرٹ بلیک پینٹ میں ملبوس تھا اسکے پرفیوم کی ہلکی ہلکی مہک پورے آفس میں چھائ ہوئ تھی ڈارک براٶن چمکدار گھنے سٹائل سے بناۓ ہوۓ بال ماتھے پر گرے ہوۓ ہوۓ تھے وہ آفس میں بیٹھا ہوا لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا جب فون کی رنگ بجی
اسنے نمبر دیکھا انجان نمبر تھا اس نے موبائل کان سے لگایا
ہیلو۔۔۔؟
دوسری جانب سے خوبصورت زنانہ آواز سنائی دی
کیا آپ فرہان بات کت رہے ہیں ؟
یس میں فرہان ہوں اور آپ ۔۔۔؟
میں ثمن بات کر رہی ہوں پلیز آپ اس شادی سے انکار کردیں
میں شادی سے انکار کیوں کردوں ، مس ثمن ؟
کیونکہ میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں اور اسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں
وٹ ؟ اسکا لہجہ سپاٹ تھا
یس دوسری جانب سے فورا جواب آیا تھا
کسی اور سے محبت آپ کرتی ہیں میں نہیں اور اس رشتے سے پرابلم آپکو ہے مجھے نہیں تو انکار بھی آپ ہی کردیں اور ہاں اب میرے پاس فضول ٹائم نہیں کل نکاح ہے مجھے تیاری بھی کرنی ہے اللہ حافظ کہہ کراسنے موبائل بند کردیا
________________________
رات کا وقت تھا وہ اوپر چھت پر کھڑی علی کا انتظار کر رہی تھی جب بھی وہ لیٹ ہوتا وہ ہمیشہ چھت پر اسکا انتظار کرتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اسکو چھو کر گزرہی تھی
زندگی کتنی خبصورت ہے اس بات کا احساس علی کی موجودگی اسے ہمیشہ دلایا کرتی تھی
تب ہی اسکو سفید گاڑی گھر کے دروازے میں اندر داخل ہوتی نظر آئی وہ بھاگی بھاگی نیچے گئ علی آفس سے آ چکا تھا
وہ لاٶنج کے دروازے سے داخل ہوا حنا پانی کا گلاس لیے کھڑی تھی
علی نے اسے اپنے ساتھ لگایا وہ ہمیشہ باہر سے آنے پر حنا کو اپنے ساتھ لگاتا اور اسکے ماتھے پر بوسہ دیا کرتا تھا
علی نے پانی پیا اور گلاس حنا کو پکڑا دیا جو پہلے سے ہی گلاس لینے کھڑی تھی
کیسا گزرا دن ؟ اندر جاتے ہوۓ حنا نے اس سے پوچھا
بہت اچھا گزرا آجکا دن لیکن ایک پرابلم تھی
کیا پرابلم تھی ؟؟؟حنا ایک دم سیرئیس ہوگئ
بہت مس کیا تمہیں علی نے اسکے کمر کے گرد اپنے بازوؤں کا گھیراٶ ڈالا
حنا نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا
ایک بات بتاٶں آپکو؟؟؟؟
جی فرمائیے نہ میڈم جی
آپ بہت ٹھرکی ہیں وہ خود کو چھڑا کر بولی
ہین ۔۔۔وہ حیران ہوا
ہاں نہ بہت ٹھرک جھاڑتے رہتے ہیں آپ
لو جی اپنی بیوی سے محبت کرنا ٹھرک پن کہاں سے ہوا ،؟؟
اچھا چھوڑیں یہ باتیں ڈنر تیار ہے آپ فریش ہوجائیں تب تک میں کھانا لگاتی ہوں
تم نے کھانا نہیں کھایا اب تک ؟؟
آپ ساتھ نہیں تھے تو کیسے کھاتی آپ کے بغیر ؟؟
میں نے کتنی بار کہا ہے حنا کھانا کا لیا کرو میرے لیے انتظار مت کیا کرو
کیوں ۔۔۔کیوں نہ کروں انتظار ؟ وہ ناراض ہوئی
کیا پتا کبھی جو میں لوٹ آیا ہی نہ تو ؟ میرے بغیر کھانا ہی چھوڑ دو گی
علی یہ کیسی باتیں کر رہے ہو میری عمر بھی تمہیں لگ جائیں میری یہی دعا ہے مجھ سے بچھڑ کر زندگی کی سزا مت دینا
علی نے حنا کو اپنے سینے سے لگایا نہیں جاٶں گا چھوڑ کر وعدہ ہے میرا
دونوں کے بیچ خاموشی چھا گئی
پھر علی نے اسکو خود سے الگ کیا اچھا بابا اب موڈ اچھا کرو اور جلدی سے کھانا گرم کرو میں فریش ہوکر آتا ہوں
_____________________
وہ دلہن کے روپ میں تیار بیٹھی تھی سرخ بھاری لہنگے میں اسکی دودھیا رنگت اور بھی نکھری ہوئی تھی اسکی بڑی بڑی آنکھیں پانیوں سے بھری ہوئ تھی
آج اسکا نکاح تھا
ایک طرف وہ دل ہی دل میں دعا مانگ رہی تھی کہ کچھ ایسا ہوجاۓ کہ اسکی شادی رہ جاۓ
دوسری طرف وہ شہباز کے ساتھ مل کر بھاگنے کا پروگرام بنا چکی تھی اب بس شہباز کے آنے کا انتظار تھا
وہ کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی جب اسکی امی اندر داخل ہوئ
ثمن بیٹھے لڑکے والے آچکے ہیں تیار رہنا
ثمن کا دل کیا ابھی وہ زہر کھا کر مرجاۓ
امی باہر گئ تبھی اس کے موبائل کی رنگ بجی اسنے فٹافٹ موبائل اٹھایا جس پر شہباز کا نام چمک رہا تھا
خوشی کی ایک لہر دوڑ گئ اس کے دل میں امید کی کرن پیدا ہوئ
اس نے موبائل کان سے لگایا
تیار ہو ؟
ہاں
آٶ پھر میں باہر ہی کھڑا ہوں
اپنے کپڑے اور ضروری سامان اس نے باندھ لیا اور بیگ لیکر کمرے سے نکل گئ
_________________
وہ آفس میں بیٹھا ہوا لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپکر رہا تھا جب فون کی رنگ سنائ دی
اس نے موبائل ہاتھ میں پکڑا سکرین پر بےبی ڈارلنگ چمکتا ہوا نظر آ رہا تھا اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئ اور فون ریسیو کیا
ہیلو علی اسپیکنگ۔۔۔۔۔
جی وکیل صاحب جانتی ہوں کہ آپ ہی ہو حنا کی آواز سن کر اسکی روح تک
اچھا جی۔۔۔بتائیے پھر کیسے یاد آئ میری جان کو میری یاد ؟؟
آفس سے جلدی آئیے گا آج شاپنگ پر جانے کا موڈ ہے
”اسکی آواز میں ایسا کچھ تو تھا کہ علی کا دل کیا کی ابھی اسی وقت اڑ کر حنا کے پاس پہنچ جاۓ“
ٹھیک ہے میں ابھی آ رہا ہوں تم تیار ہو جاٶ تب تک
علی۔۔۔۔؟
جی علی کی جان۔۔۔؟
کچھ نہیں۔۔
بتاٶ نہ پلیز ”وہ بچوں جیسی التجا کر رہا تھا “
پریشان تو نہیں ہوں گے نہ ؟؟
نہیں ہوں گا پکا
وعدہ۔۔۔؟؟
ہاں بابا ٫وعدہ
میری طبیعت خراب ہو رہی ہے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا
کیا ہوا حنا،،؟سب ٹھیک تو ہے طبیعت کیوں خراب ہو رہی ہے ؟؟
پریشان نہ ہو علی بس زرا سا چکر آ گیا تھا
اچانک دروازے کی بیل بجی اور اسے گاڑی کی آواز سنائ دی اسنے جھانک کر دیکھا تو علی گھر آچکا تھا حنا کی آنکھیں نم ہوگئیں
کتنی محبت کرتا تھا وہ شخص اس سے کہ اس کے لیے ہواٶں میں اڑتا ہوا آیا
وہ لاٶنج میں داخل ہوا اور حنا کی حالت دیکھی وہ واقعی ٹھیک نہیں لگ رہی تھی
بےبی ڈارلنگ کیا ہوا تمہیں ؟؟؟
وہ بھاگ کر اسکے چوڑے سینے سے جا لگی اور بچوں کی طرح اس کے سینے میں چھپ گئ
کیا ہوا حنا علی اس کے ماتھے پر بوسہ لیتے ہوۓ بولا
آپ مجھ سے اتنی محبت کیوں کرتے ہو علی ___؟
کیونکہ مجھے تم بہت پسند ہو میری پیاری
علی مجھے بہت ڈر لگتا ہے وہ دونوں ہاتھوں میں اسکا چہرہ تھامے ہوۓ تھی
کس بات کا ڈر ؟؟
مجھے کچھ ہو گیا تو ؟؟
کیا پاگلوں جیسی باتیں کر رہی ہو یار ؟!!
علی سچ میں کبھی بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آتے رہتے ہیں میں کوشش کرتی ہوں رد کرنے کی لیکن ناممکن ہوتا ہے میرے لیے مجھے لگتا ہے میں حقیقت کو جھٹلانے کی ناکام کوشش کر رہی ہوں
اسکی آنکھوں میں کچھ تو تھا کہ علی کا دل کٹ کر رہ گیا
دوبارہ ایسی باتیں مت کرنا پلیز حنا تم جانتی ہوں نہ جیسے ایک بادشاہ کی جان ایک طوطے میں بسی تھی ویسے ہی میری جان تم میں بسی ہے علی حنا سے ہے اگر حنا نہیں تو علی نہیں یاد رکھنا
اوہو( وہ اچانک کچھ یاد آجانے والے انداز میں بولا) چلو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں
اب ٹھیک ہوں میری جان حنا بڑے پیار سے مسکرا کر بولی
نہ نہ ابھی چلنا ہے مطلب ابھی چلنا ہے( وہ اپنی ضد پر اڑا رہا)
اچھا ٹھیک ہے میں تیار ہوکر آتی ہوں وہ اسکے کندھے پر بوسہ دے کر بولی
جاٶ جلدی آنا ویٹ کر رہا ہوں میں
بس پانچ منٹ لگیں گے
ہمممم اوکے
_______________________
بڑی مہارت سے اپنا بیگ اور زیور لے کر وہ بھاگ رہی تھی تاکہ کوئ اسے دیکھ نہ لیں
پاٶں میں پہنی پائل اسنے پہلے ہی اتار دی تھی ورنہ وہ چیخ چیخ اس کے بھاگنے کا ثبوت دیتیں
گھر کے پچھلے دروازے سے بھاگنا انتہائ آسان تھا کیونکہ یہ دروازہ آنے جانے کیلیے بلکل بھی استعمال نہیں ہوتا تھا
اس لیے ثمن کیلیے اس دروازے سے باہر بھاگنا کوئ مشکل کام نہ تھا
اس نے گھر کےباہر ایک کونے سے دیکھا بارات آچکی تھی گھر کے آس پاس گہما گہمی تھی اسکو گھر سے بھاگتے ہوۓ خوشی نہیں ہورہی تھی نہ ہی اپنے والدین کو چھوڑ کر بھاگنا آسان تھا لیکن وہ مجبور تھی
اسکی شادی کسی ایسے شخص سے ہورہی تھی جس سے وہ پیار نہیں کرتی تھی
کچھ دور تک نکلی تو شہباز اسس مل گیا
شکر ہے تم آگۓ میں بہت پریشان تھی وہ اسکا ہاتھ تھام کر بولی
شہباز نے اپنا ہاتھ چھڑوالیا
ثمن نے حیران و پریشان نظروں سے اسے دیکھا
میں نے بہت کوشش کی ثمن مگر۔۔۔!
مگر کیا شہباز ۔۔۔؟
میرے گھر والے نہیں مان رہے رشتے کیلیے
تم مجھے اب بتا رہے ہو شہباز جبکہ میں اپنی شادی، اپنا گھر ،اپنے ماں باپ سبکو چھوڑ کر تمہارے پاس آئ ہوں
مجھے پتا ہے ثمن لیکن میں تم سے شادی نہیں کرسکتا میرے گھر والے کبھی نہیں مانیں گے
میں سب کچھ چھوڑ کر آئ ہوں اور تمہیں گھر والوں کی پڑی ہے ابھی کچھ بھی کرکے تمہیں مجھ سے شادی کرنی پڑے گی شہباز
ہاہاہاہاہاہا میں نے تم سے کہاں تھا کہ گھر سے بھاگ آٶ؟؟
تم نے فون کرکے کہا کہ میں بھاگ رہی ہوں میں نے کہا تھا ٹھیک ہے آٶ لیکن یہ نہیں کہا میں نے کہ شادی کروں گا تم سے
ثمن ہاتھ جوڑے اس کی منتیں کر رہی تھیں اور مقابل اسکا مزاق اڑا رہا تھا
پلیز شہباز مت کرو ایسا
ثمن ڈارلنگ میں تم سے شادی تو نہیں کرسکتا البتہ ایک رات تم میرے پاس گزار سکتی ہو
ثمن کو اسکا مطلب سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی تبھی اس نے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کردیا
شہباز کو اس تھپڑ پر شدت سے غصہ آیا
اسنے ایک ہاتھ سے اسے بالوں سے پکڑا اور دوسرے سے تھپڑ مارنے ہی لگا تھا کہ کسی نے اسکا ہاتھ پکڑکر پیچھے کو جھٹک دیا اور ایک کے بعد دو تھپڑ اس کے منہ پر جھاڑ دیے
ثمن نے امید بھری نظروں سے اپنے مسیحا کو چہرہ دیکھنے کیلیے نظریں اوپر کی جانب اٹھائیں
ایک زور دار تھپڑ اس کے نرم و ملائم گالوں پر پڑا وہ سسک کر پیچھے کو ہوئ
تم ہو کون اور تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی؟؟
فرہان نام ہے میرا ،میں وکیل ہوں اور اگر( اس نے انگلی سے اشارہ کیا )دوبارہ مجھے اس لڑکی کے آس پاس نظر آۓ تو ایسا کیس بناٶں گا تمہارے خلاف کہ تمہاری نسلیں تک یاد رکھیں گی
شہباز کیلیے یہ دھمکی بہت بڑی تھی وہ وہی سے چلتا بنا
ثمن تو اس سے نظریں ملانے کی قابل ہی نہ رہی تھی جس سے وہ بھاگ رہی تھی آج اسی نے اسکی عزت پر حرف آنے نہیں دیا
اب چلو یہاں سے (فرہان کا لہجہ سپاٹ تھا)
ثمن مرے مرے قدم اٹھاتی ہوئی واپسی کہ راہ پر چل دی
فرہان اسکے پیچھے چل دیا۔۔