سب نے اپنی سلامتی مانگی !
میں نے پکارا یا خدا میرا عشق _
یہ کیسے ہوسکتا ہے یار
حور مسلسل کمرے میں گھومتی بول رہی تھی
جبکہ سحر سر جھکائے بیٹھی تھی جیسے ساری غلطی اسی کی ہو
سبحان اور ثوبان ایک ساتھ روم میں داخل ہوئے
ہیلو بھابھی کیسی ہیں آپ سبحان سحر کو تنگ کرتا ہوا بولا
بھابھی کہنے پر سحر کے چہرے پر خوبصورت رنگ پھیلے
جبکہ
دوسری طرف حور کے چہرے پر سایہ سا لہرایا
ہیلو جل ککڑی اب کی بار سبحان حور سے مخاطب ہوا
حور خاموش رہی
تو بھابھی جی کوئی آؤٹنگ کے پلین بنائے
کؤئی گھومنے پھرنے جائیں سبحان پھر سے سحر کو تنگ کرنے لگا
جبکہ حور کی برداشت شاید صرف یہی تک تھی
حور سرعت سے اٹھ کر وہان سے چل دی
قربانی دینا آسان تھا پر اب سب دیکھنا اور برداشت کرنا بہت مشکل تھا
کہاں آسان ہوتا ہے اپنی محبت کو کسی اور کے پاس دیکھنا
پر
اب وہ کسی کے سامنے بکھرنا نہیں چاہتی تھی
اگر قربانی دی تھی تو اپنی زات کا بھرم بھی تو رکھنا تھا
اور
ایک عورت کے پاس سوائے بھرم کے ہوتا ہی کیا ہے
کچھ بھی نہیں
جس دن اس کا بھرم ٹوٹ جائے کسی نامحرم کے سامنے اس دن اسکا معیار ہی گرجاتا ہے
کبھی وہ سر اٹھا کے جینے کے قابل نہیں رہتی
حور یار چچ افسوس ہے تم پر ایک نامحرم کیلئے رو رہی ہو
اسکے اندر سے کہیں سے آواز آئی شاید یہ ضمیر کی آواز تھی
محبت تھی وہ میری حور چلائی
تمہاری محبت تھی پر اب وہ کسی اور کا شوہر ہے
اور یہ تمہاری اپنی ہی مہربانیاں ہیں
افسوس حور ملک تم تو اپنی زبان اور اپنے فیصلے پر بھی قائم نہیں رہ سکتی
حور اب کی بار خاموش رہی کہتی بھی کیا اسکے پاس کہنے کو تھا ہی کیا
حور صبر کرو اسکا ضمیر اسے ایک بار پھر عدالت میں لے لے کھڑا تھا
اور تمہارے خدا کا تم سے وعدہ ہے کہ تمہارے صبر کا تمہیں عظیم اجر ملے گا
لیکن صبر اور برداشت کی حد ہوتی ہے حور منمنائی
اسے اپنی ہی دلیل بھونڈی سے لگی
ہاہاہاہاہاہا حور ملک ایک نامحرم کی محبت سے بچھڑنے کو تم صبر کی انتہا کہتی ہو
حور ان عورتوں کا کیا ہوتا ہوگا جنہیں انکے شوہر طلاق دے دیتے ہیں
انکے تو محرم چھوڑ دیتے ہیں
اور یہ تمہارا نامحرم تھا حور
اور اس نے بھی کبھی تم سے اپنی محبت کا عہد نہیں کیا تھا
بتایا تھا اس نے مجھے حور بولی
کب حور ملک تب جب وہ کسی اور کا شوہر تھا
ٹھیک ہے جاؤ حو چھین لو اپنی دوست سے اسکی خوشیاں
لیکن
کیا اسکئ خوشیاں چھین کے کیا تم خوش رہ سکو گی
نہیں حور ملک نہیں
میری خوشیاں کہاں گئی حور نے سوال کیا
تمہارے خدا کا تم سے وعدہ ہے دوسروں کو خوشیاں دو وہ تمہیں دے گا
اوہ دی گریٹ حور ثوبان بولا
حور نے آنسو صاف کرتے ہوئے پیچھے مڑ کا ثوبان کی طرف دیکھا
حور ملک میں آپ سے کچھ کہنے آیا تھا
ہاں کہو حور بولی
جو لوگ دوسروں کی محبت کا مزاق اڑاتے ہیں نا
محبت ان سے روٹھ جاتی ہے
اور
تم نے حور ملک میری محبت کا مزاق اڑایا ہے تمہیں کبھی محبت نہیں ملے گی
تم محبت کیلئے ترسو گی
میں ایک عام انسان ہوں اور اپنی محبت چھیننے والے کو معاف نہیں کرسکتا حور ملک تم نے میری محبت چھینی ہے تمہیں کبھی بھی محبت نہیں ملے گی
یہ کہتے ہوئے ثوبان وہاں سے چل دیا
جبکہ حور زمین پر بیٹھ گئی
اور پرانی یادیں اسکے سامنے مووی کی طرح چلنےلگی
ماضی
حور کی رات کے ناجانے کونسے پہر آنکھ کھلی
اسکا حلق خشک ہورہا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر لیمپ آن کیا
اور
پانی کا جگ پڑا
مگر جگ خالی پڑا تھا
لیکن رات کے وقت صرف پانی پینے کیلئے اُٹھ کر جانے کا کوئی موڈ نہیں تھا
اس نے دوبارہ سو جانا چاہا
لیکن
حلق میں پیاس کی شدت سے کانٹے چبھ رہے تھے
آخرکار ناچاہتے ہوئے بھی وہ پانی پینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی
حور پانی پی کر جیسے ہی اپنے روم میں جانے لگی
اسے سحر کے روم کی لائٹ جلتی ہوئی نظر آئی
بے اختیار اسکی نظریں وال کلاک پر گئی
تین بج رہے تھے
یہ سحر ابھی تک سوئی نہیں رب خیر کریں
حور نے بڑبڑاتے ہوئے اپنے قدم سحر کے روم کی طرف بڑھائے
سحر کے روم کا ڈور کھلا تھا
سامنے سحر جانماز پربیٹھی دعا مانگنے میں مصروف تھی
حور جو آگے بڑھنے ہی والی تھی
پر سحر کی آواز میں گھلی نمی محسوس کرکے ٹھٹک گئی
وہ خاموشی سے سحر کو سننے لگی
یارب مجھے اس عزیت سے نکال دے کیوں مجھے ایسی محبت میں ڈالا جو کبھی میری ہو ہی نہیں سکتی
میں اپنی دوست کی خوشیوں کی تاک میں بیٹھی ہوں
ننن نہیں میں ایسا نہیں کرسکتی میں حور کی خوشیاں نہیں چھین سکتی
ثوبان صرف حور کا ہے
اے میرے پروردگار! مجھے صبر دے
مجھے اتنا حوصلہ دے کہ میں اپنی دوست کی خوشیوں میں خوش ہو سکوں
اور بس پھر یہی تک تھی حور کی برداشت
وہ جس خاموشی سے آئی تھی اسی خاموشی سے پلٹ گئی تھی
اس رات اس نے وعدہ کرلیا تھا ثوبان ملک کی زندگی سے دور جانے کا
سحر کو اسکی خوشیاں دلانے کا
اگر سحر دوست ہونے کا حق ادا کررہی تھی
تو
اب اس کی باری تھی
دوستی کوئی اتنی آسان تھوڑی تھی
دوستی آزمائش مانگتی ہے
اور
آج حور کی دوستی نے آزمائش مانگی تھی
تو
حور ملک کو آزمائش مین پورا اترنا تھا
اس کے لِیے چاہے اسے اپنی خوشیوں کا گلہ گھونٹنا پڑتا
سحر ملک پرسکون ہو کر سوچکی تھی
اس نے اپنا دکھ اپنی خدا کو سنا دیا تھا
اور
بے شک خدا بہتر مددگار ہے
اس نے اپنے جذبوں کا رازداں صرف اپنے رب کوبنایا تھا
پر
آج وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ آج اسکے جذوبوں کا ہمراز کوئی اور بھی بن چکا تھا
سوچا تھا آج تیرے سوا کچھ اور سوچوں گی
ابھی تک اس سوچ میں ہوں کہ کیا سوچوں
آئی ایم سوری آئی ایم لیٹ حور ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھتے ہوئے بولی
حور تم ٹھیک ہو ثوبان کی مما بولی
جی بڑی مما کیوں کیا ہوا
آپکی آئیز ریڈ ہورہی ہیں آپ ٹھیک نہیں لگ رہی
مما رات کو صحیح سے سو نہیں سکی اس وجہ سے
جو لوگ دوسروں کی نیندیں حرام کرتے ہیں وہ خود کیسے سو سکتے ہیں
رب انکی نیند اور مسکراہٹ دونوں چھین لیتا ثوبان حور کی طرف جھک کر دھیمی آواز میں بولا
جسے سوائے حور کے کوئی بھی نا سن سکا
اس سے پہلے کے حور ثوبان کو کوئی جواب دیتی
ثونان سحر سے مخاطب ہوا
سحر میرا خیال ہے کہ تمہیں اب یہاں بیٹھا چاہیے ثونان حور کی کرسی کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا
بچپن سے حور اور ثوبان ایک ساتھ بیٹھتے تھے
سحر کے ساتھ نکاح کے بعد بھی حور وہی بیٹھتی رہی
اور
نا ہی کسی نے خاص نوٹس لیا
ثوبان کی بات پر سب بڑے ہنس دیے
جبکہ حور جانتی تھی کہ یہ سب ثوبان اسے تنگ کرنے کیلئے کررہا ہے
سحر تم یہاں آجاؤ
حور کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی
اوکے سحر جلدی سے آجاؤ ہم لیٹ ہورہے ہیں یونی کیلئے
سحر کے ساتھ حور بھی اُٹھی
حور پلیز تم ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ
وئی نیڈ سم پرائیوسی
جبکہ حور کا چہرہ ایک دم سفید پڑا تھا
کیا کہہ رہے ہو ثوبان حور ہمارے ساتھ جائے گی
اوہ کم آن سحر تمہارا شوہر میں ہوں حور نہیں
ثوبان سحر کا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے چل دیا
جبکہ حور ششدر سی کھڑی رہ گئی