اور پھر نارد نے والیا سے پوچھا
’’تو یہ ککرم کس کے لیے کرتا ہے؟‘‘
والیا نے نیزے کو اپنے ہاتھوں پر تولتے ہوئے جواب دیا۔
’’اپنے بیوی بچّوں کے لیے‘‘
نارد مضحکہ اڑانے والے انداز میں ہنسے، والیا انھیں سُرخ آنکھوں سے گھورتا ہوا بولا۔
کیوں؟ تو کیوں ہنستا ہے‘‘
’’تیری مورکھتا پر‘‘
والیا نے نیزہ فضا میں بلند کرتے ہوئے گرج کر کہا۔
’ ’بتا کیوں ہنسا، ورنہ بیندھ کر رکھ دوں گا۔‘‘
نارد اسی پُر سکون انداز میں بولے۔
’’سچ میں تیری مورکھتا پر ہنس رہا ہوں، کیوں کہ تیرے چاروں طرف گھور اندھکار پھیلا ہے۔ اور تو نہیں جانتا کہ تجھے کدھر جانا ہے، تو جن لوگوں کے لیے یہ ککرم کر رہا ہے۔ وہ سب اپنے اپنے سوارتھ کے لیے تجھ سے بندھے ہوئے ہیں۔ جب تجھ سے ان پاپوں کا حساب مانگا جائے گا، اس وقت نہ تیری بیوی تیرے کام آئے گی نہ تیرے بچّے۔‘‘
’’ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے۔ میں جو کچھ کر رہا ہوں، ان کے سُکھ اور آرام کے لیے کر رہا ہوں، جب اس کا بھگتان ہو گا وہ سب میرے ساتھ ہوں گے۔‘‘
’’جا!جا کر اپنی بیوی بچّوں سے پوچھ کرا کہ وہ لوگ تیرے کرموں کے ساجھی دار ہیں یا نہیں۔‘‘
والیا اپنی گپھا میں لوٹ گیا، بیوی، بچّے اور دوسرے گھر والوں سے باری باری پوچھا کہ کیا وہ لوگ اس کے کرموں کے ساجھی دار ہیں؟‘‘
جیسا کہ رامائن میں آگے لکھا ہے۔ وہ سبھی لوگ نفی میں جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’تیرے کرم تیرے ساتھ، ہم تو کیوَل تیرے دھن، سادھن کے بھوکتا ہیں۔‘‘
والیا یہ جواب سُن کر کانپ جاتا ہے۔ اور یہ کہانی پڑھتے پڑھتے وہ خود بھی کانپ گیا۔ اس کی پیشانی پسینے سے تر ہو گئی اور دل کی دھڑکن اچانک بڑھ گئی۔ جانے اس چھوٹی سی کتھا میں ایسا کیا تھا کہ یک بیک وہ بے حد مضطرب ہو گیا۔ اس نے گھبرا کر ایک نظر اپنے ارد گرد ڈالی۔ اسے لگا وہ اپنے فلیٹ کے ڈرائینگ روم میں نہیں ہزاروں برس سے بندھیاگری کے گھنے جنگل میں کھڑا ہے۔ اور ایک غیبی آواز اس کے چاروں طرف ہواؤں کے دوش پر سرسراتی پھر ہی ہے۔
’’کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘
’’کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘
اور پھر۔۔۔ جیسے سیکڑوں چڑیلیں ایک ساتھ چنگھاڑتی ہیں۔
’ ’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں‘‘
کمرے میں رکھے ٹی وی سیٹ سے نارد کا چہرہ جھانکتا ہے۔ گلے میں تنبورا لٹکائے منجیرا بجاتے نارد کی آواز آتی ہے۔
’’نا۔۔۔ را۔۔۔ ئن۔۔۔ نا۔۔۔ را۔۔۔ ئن، کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘
دیوار پر ٹنگی اٹالین گھڑی کا پنڈولم ہلتا ہے۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘
قیمتی وارڈروب ڈائننگ ٹیبل، کرسیاں، فرج، ایکویریم، بلجمی گلاس کا شوکیس، ٹی وی سیٹ، چھت میں لٹکتا آرائش شمع دان، دیواریں، کھڑکیاں، کھڑکیوں میں لٹکتے ریشمی پردے، غرض کمرہ، کمرے کی ہر چیز اس سے بس ایک ہی سوال پوچھ رہی تھی۔
’’کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘
اور دیوار پر ٹنگی گھڑی کا پنڈولم متواتر ایک ہی لے میں ہِل رہا تھا۔
’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔‘‘
اس نے پیشانی کا پسینہ پونچھا، رامائن کو بند کر کے میز پر ایک طرف رکھ دیا۔ اچانک الماری کے قد آدم شیشے میں اسے اپنا عکس نظر آیا۔ بدن پر لنگوٹی، داڑھی اور بال بے تحاشا بڑھے ہوئے، سُرخ آنکھیں، ہاتھ میں نیزہ۔ اف۔۔۔ والیا، اس نے خوف سے آنکھیں میچ لیں۔ اتنے میں اس کی بیوی کی آواز اس کے کانوں میں آئی۔
’ ’اچھا تو میں چلتی ہوں، آپ کے لیے کھچڑی بنا دی ہے۔ دہی فرج میں رکھا ہے۔‘‘
بیوی اپنی ساڑی کی چنّٹیں ٹھیک کرتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہ چند لمحے ہونّقوں کی طرح بیوی کی طرف دیکھتا رہا۔ اچانک بولا ’’سُنو‘‘
بیوی جاتے جاتے رُک کر مُڑی ’ ’کیا ہے؟‘‘
اس نے دھیان سے دیکھا، بیوی نے وہی بارہ ہزار والی ساڑی پہنی تھی جو اس نے پچھلے ہفتے خریدی تھی۔ گلے میں قیمتی ہار، منگل سوتر، کانوں میں ٹاپس، کلائیوں میں سونے کی چوڑیاں، گھڑی، ناک میں کیٖل، اس کے بالوں کا جوڑا بہت پُر کشش لگ رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر تک بیوی کی طرف دیکھتا رہا۔
بیوی شرما گئی، اس نے ساڑی کا پلّو ٹھیک کرتے ہوئے مسکرا کر کہا ’ ’کیا ارادہ ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔۔۔‘‘ وہ ہڑ بڑا گیا، پھر سنبھل کر پوچھا
’’کب تک لوٹو گے تم لوگ؟‘‘
’’برتھ ڈے کی تو پارٹی ہے، جلد ہی آ جائیں گے۔‘‘
اتنے میں نیچے سے پپو کی آواز آئی۔
’’ممّی!چلو نا، کیا کر رہی ہو کب سے؟‘‘
’’اچھا جاؤ۔۔۔ دیکھو بچّے انتظار کر رہے ہیں۔‘‘
بیوی چلی گئی، دروازہ ایک ہلکے سے کھٹکے کے ساتھ خود بخود بند ہو گیا۔ جانے وہ کتنی دیر تک یونہی چپ چاپ بیٹھا رہا۔ کمرے میں گھڑی کی ٹِک ٹِک کے سوا دوسری کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ اس خاموشی سے اسے وحشت ہونے لگی۔ وہ اٹھ کر دھیرے دھیرے چلتا ہوا پھر شیشے کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ دیر تک اپنے ہی عکس کو گھورتا رہا۔ پھولے گال، چھوٹی آنکھیں، بڑھا ہوا پیٹ، سر کے بال نصف سے زیادہ اڑ چکے تھے۔ ایک دفعہ اس نے اپنے تیزی سے اڑتے بالوں پر تشویش کا اظہار کیا تو بیوی نے کہا تھا۔
’’آپ کو معلوم ہے آدمی گنجا ہونے لگتا ہے تو اس کی ہتھیلی میں دولت کی لکیریں زیادہ گہری ہونے لگتی ہیں۔ چوڑی پیشانی دولت کی نشانی ہے۔‘‘
اس وقت وہ مسکرا کر چپ ہو گیا تھا، مگر اب وہ سوچنے لگا، بیوی کا وہ جملہ کتنا خود غرضانہ تھا، اسے اپنے بال بے حد عزیز تھے۔ وہ منٹوں آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال درست کیا کرتا تھا۔ اور اس کی بیوی کے نزدیک گویا اس کے بالوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی۔ بس ہتھیلی میں دولت کی لکیریں گہری ہوتی جائیں۔ دولت، دولت، دولت۔ کیا مِلا اسے اتنی دولت کما کر؟ یہی نا کہ اس کے بچّے کانوینٹ میں پڑھنے لگ گئے۔ فرج کا ٹھنڈا پانی پینے اور ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھانا سیکھ گئے۔ بیوی قیمتی ساڑیاں اور زیورات پہن کر اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں کو مرعوب کرنے کا ہنر جان گئی۔ ماں کاشی یاترا کے لیے روانہ ہو گئی مگر اسے کیا مِلا۔ گنجا پن، بے خوابی گھبراہٹ، ڈپریشن اور کبھی کبھی دل کو مسوس دینے والی اداسی؟ اسے پانچ سال پہلے جنتا چال کی اپنی چھوٹی سی کھولی یاد آ گئی۔ جس میں سیلن کی وجہ سے عجیب سی بدبو پھیل گئی تھی۔ دیواروں میں لونا لگا تھا اور برسات کے موسم میں چھت کثیر البول مریض کی طرح قطرہ قطرہ ٹپکتی رہتی تھی۔ راتوں میں مچھر جتھوں کی شکل میں یلغار کرتے اور بے شمار کھٹمل ان کا خون چوستے رہتے۔ اس سب کے باوجود وہاں کبھی اسے بے خوابی کی شکایت نہیں ہوئی تھی، نہ اس پر گھبراہٹ کے دورے پڑتے تھے۔ نہ اس کا بلڈ پریشر ہائی ہوا تھا۔ ٹھیک ہے وہاں اسے فِرج کا ٹھنڈا پانی نہیں ملتا تھا۔ ڈائننگ ٹیبل کی بجائے چٹائی پر بیٹھ کر کھانا کھانا پڑتا تھا۔ ڈنلپ کے نرم گدّوں کی بجائے گٹھلی دار گدڑیوں پر سوتا تھا، مگر گہری نیند سوتا تھا، آج اس نے اپنے فلیٹ میں آرام و آسائش کی ہر چیز مہیّا کر لی تھی۔ مگر من کی شانتی گنوا بیٹھا تھا۔ اب وہ چار گھنٹوں کی نیند کے لیے بھی سلیپنگ پلس کا محتاج تھا۔ اس کے فرج میں مرغی انڈا، مٹن مکھن سب بھرا رہتا تھا۔ مگر اسے صرف دہی اور چاول ہی کھانا پڑتا۔ ڈاکٹر کی ہدایت بھی یہی تھی۔ اس نے اپنے پھولے پیٹ پر ہاتھ پھرایا۔ اس کی پتلی پتلی ٹانگوں پر اب پھولا پیٹ عجیب بد وضع لگ رہا تھا۔ اس نے دیوار پر لگی اپنی تصویر کی طرف دیکھا، آئینے میں کھڑی پرچھائیں اور اس تصویر میں کتنا فرق ہے۔ دس برس پہلے کتنا اسمارٹ تھا وہ۔
دس برس، دس صدیاں، دس ہزار صدیاں، سچ مچ اس نے دس برس میں کافی لمبی مسافت طے کر لی تھی، اتنی لمبی کہ اب پیچھے پلٹ کر دیکھنا بھی نا ممکن تھا۔
یہ آرام دہ فلیٹ، قیمتی فرنیچر، اعلیٰ قسم کی کراکری، نفیس کپڑے، زیورات دس برس پہلے اس کے پاس کچھ بھی تو نہیں تھا۔ تو کیا وہ ان ساری چیزوں کو کسی ندی میں بہا دے؟ کسی خیراتی ادارے کو خیرات کر دے پھینک دے، جلا دے کیا کرے؟ کیا کرے آخر؟ یہ ساری چیزیں جو، اب اس کی اور اس کی بیوی کی زندگی کا لازمی جز بن چکی تھیں۔ جن کے بغیر اب ان کے لیے زندگی کا کوئی تصوّر نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ ساری چیزیں یک بیک ضائع کر دینا اب ممکن ہے؟
اٹالین گھڑی کا پنڈولم ہِل رہا تھا۔
’’نہیں، نہیں۔۔۔ نہیں، نہیں‘‘
وہ خود بدل سکتا تھا۔ مگر اپنے سارے گھر والوں کو بدلنا کیونکر ممکن تھا؟
کیا اس کی بیوی اور بچّے دس سال پیچھے کی زندگی میں لوٹنے کو تیار ہو جائیں گے؟ ہر گز نہیں۔
اس کی بیوی تو اب نئے ماحول میں ایسے رچ بس گئی تھی جیسے اس نے غربت کے دن دیکھے ہی نہ تھے، وہ میک اَپ کرنا، شاپنگ پر جانا، اور پارٹیوں میں شریک ہونا ایسے سیکھ گئی تھی جیسے یہ سب اس کے خاندان میں پشتہا پشت سے چلا آ رہا ہو۔ اس کی بے شمار سہیلیاں بن گئی تھیں۔ اس نے کہیں شام کی انگلش کلاس بھی جوائن کر لی تھی۔ اور ضرورت پر ویل کم، گڈ بائی، گڈ مارننگ، ہاؤ آر یو اور فائن جیسے الفاظ روز مرّہ کی گفتگو میں کثرت سے استعمال کرنے لگی تھی۔ اب اس کے گھر کے سبھی لوگ ناشتے کو بریک فاسٹ اور دوپہر کے کھانے کو لنچ کہنے لگے تھے۔ پہلے اس کی دونوں لڑکیاں میونسپلٹی کے اسکول میں پڑھتی تھیں، مگر اب دونوں کانوینٹ میں پڑھنے لگی تھیں۔ لڑکا کا مکس پڑھتا تھا۔ ابھی اس کی ناک بہنا بند نہیں ہوئی تھی مگر بیوی نے اعلان کر دیا کہ وہ اسے پائلٹ بنائے گی۔ عرصہ ہوا اس کی بیوی نے زمین پر دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔ ماں کو اس کی اندرونی اور بیرونی سرگرمیوں کا زیادہ علم نہیں تھا۔ بس وہ آئے دن بھجن، کِرتن اور پوجا پاٹھ میں اپنا وقت گزار لیتی تھی۔ وہ اپنے بیٹے بہو اور پوتے پوتیوں کو پھولتا، پھلتا دیکھ کر سمجھتی تھی کہ یہ ساری خوشی اطمینان اور سکون اسی کی اپاسنا اور پرارتھنا کا نتیجہ ہے۔ اس کی اَنتم اچھا تھی کہ وہ ایک برس کاشی میں گزارے، اور اب پچھلے چار مہینے سے ماں کاشی میں تھی اور اِیشور درشن سے آتمْ شانتی لابھ کر رہی تھی۔
بظاہر اس کے ارد گرد سب کچھ بہت اطمینان بخش تھا۔ اطمینان بخش۔ پُر سکون اور مسرّتوں سے پُر۔ مگر جانے کیوں، کبھی کبھی وہ بے حد اداس ہو جاتا۔ اس وقت نہ اسے فرج کا ٹھنڈا پانی اچھا لگتا نہ پنکھے کی ہوا سُہاتی۔ اس وقت اسے بیوی کا میک اَپ زدہ چہرہ کسی بھُتنی کے چہرے سے مشابہ دکھائی دیتا اور بچّوں کی قلقاریں سانپوں کی پھپھکاریں معلوم ہوتیں۔ پانڈے سیّد اور نائر کی دوستی نے اسے اس اداسی سے چھٹکارا پانے کا گُر بتا دیا تھا، اور اب وہ کم از کم اتنی شرابوں کے نام جاننے لگا تھا جتنی اس کی ہتھیلی کی لکیریں۔
’’رَم۔۔۔ دشمنِ غم‘‘ اسے اپنے ایک شاعر دوست کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی۔
رَم۔۔۔ ہاں۔۔۔ اور اس نے جلدی سے کتابوں کی الماری کھولی اور کتابوں کے پیچھے چھپا کر رکھی ہوئی رَم کی بوتل نکالی۔ گلاس لے کر پھر کُرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ دو بڑی چُسکیوں نے ہی اس کی اداسی کو اس طرح چھانٹ دیا جیسے بارش کی پہلی پھوار تالاب پر جمی کائی کو چھانٹ دیتی ہے۔
’ ’ہُم۔۔۔ اس نے میز پر پڑی رامائن کی طرف دیکھا، مگر اب اس کے اندر کوئی ہلچل نہیں ہوئی، وہ اب نارد کے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے مستعد تھا۔
کہاں ہے وہ سوال؟ اس نے تیسری چُسکی لی اور رامائن کو الٹنے پلٹنے لگا۔ نارد نے مسکرا کر پوچھا۔
’ ’بتا تو یہ ککرم کس کے لیے کرتا ہے؟‘‘
ہش۔۔۔ ش۔۔۔ ش۔۔۔ ککرم، یہ ککرم ہے؟ جو کچھ میں کر رہا ہوں وہ ککرم ہے؟ یعنی ایک اچھے معقول مکان کی خواہش کرنا، بچّوں کو اچھی تعلیم دلانا، بیوی کو پہنانا اوڑھانا، ماں کی خواہش کا احترام کرنا یہ سب ککرم ہے؟
نارد کا دوسرا سوال سانپ کی طرح پھن اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔
’’کیا تیرے بیوی بچّے تیرے کرموں کے ساجھی دار بنیں گے؟‘‘
اور یک بیک اس کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس نے گلاس اٹھا کر ہونٹوں سے لگا لیا اور ایک ہی سانس میں سارا گلاس خالی کر گیا۔ اس نے دوبارہ رامائن کو بند کر کے ایک طرف کو سرکادیا۔ اسے اب رامائن سے ڈر لگنے لگا۔ اس نے رامائن اس لیے پڑھنا شروع کیا تھا کہ من کو شانتی ملے۔ یہاں تو اس کا سارا سکون حرام ہو گیا تھا۔ اسے اب بیوی پر غصہ آنے لگا۔ اسی نے تو اسے مشورہ دیا تھا کہ گھر میں پڑے پڑے تمھارا من گھبراتا ہو گا۔ دھارمِک پستکیں پڑھو، من کو شانتی ملے گی۔ ڈاکٹر نے کہا تھا معمولی سا بلڈ پریشر ہے، چار چھ روز کے آرام سے نارمل ہو جائے گا۔ اس نے بھی سوچا ٹھیک ہے۔ ایک ہفتے ہی کی تو بات ہے، اس ایک ہفتے کو دھارمِک ہفتہ سمجھ کر منا لیں گے۔ دارو، سگریٹ اورماس تو خود ڈاکٹر منع کر چکا ہے۔ تھوڑا دھارمِک پستکوں کا ادّھین کر لیں گے۔ دھرم پالن ہو جائے گا، اس نے شروع کے دو تین روز گیتا کا پاٹھ کیا۔ مگر اس میں تو صرف بھگوان کرشن کے اپدیش ہی اپدیش تھے۔ اسے مزا نہیں آیا۔ پھر اس نے رامائن پڑھنا شروع کیا مگر شروع کے صفحات پر ہی والیا اور نارد کے واقعہ نے اسے لرزا کر رکھ دیا۔ رامائن کو اس نے اپنے سے دور تو سرکادیا۔ مگر جوں ہی اس پر نظر پڑتی اسے نارد کا سوال سُنائی دیتا۔ ’ ’تو یہ سب ککرم کس لیے کرتا ہے؟‘‘
اب وہ نارد کو کیسے سمجھائے کہ آج کے زمانے میں اپنی تنخواہ کے علاوہ اوپر سے پانچ دس ہزار کا کمانا کوئی ککرم نہیں ہے۔ بیوی کو چند زیورات بنا دینا بچّوں کو کانوینٹ اسکول میں پڑھانا، گھر میں ٹی وی، فرج اور ڈائننگ ٹیبل کا رکھنا، پاپ نہیں آج کی ضرورت ہے۔ ماحول کا تقاضا ہے۔
جب تک یہ چیزیں اس کے پاس نہیں تھیں، وہ لوگوں کی نظروں میں کتنا حقیر تھا۔
پانڈے اکثر اس سے کہتا ’’بیٹا! اپنی روِش نہیں بدلو گے تو ایک دن دس بائی دس کی کھولی میں خون تھوکتے مر جاؤ گے اور بیوی بچّے سڑکوں پر بھیک مانگتے پھریں گے۔‘‘
بظاہر وہ پانڈے اور دوسرے ساتھیوں کی ان چبھتی باتوں کو ہنس کر ٹال جاتا، مگر اندر جب گہرے میں سے کچھ چٹختا سا محسوس ہوتا، دل ڈوبنے لگتا اور ایک لمحے کو اس کی نظروں کے سامنے اپنی بیوی اور بچّوں کی تصویر گھوم جاتی۔
اس کی جوان اور خوبصورت بیوی کسی بنگلے میں جھوٹے برتن مانجھ رہی ہے۔ اس کا بلاؤز جگہ جگہ سے پھٹ گیا ہے۔ ساڑی پھٹ گئی ہے اور بنگلے کے موٹے سیٹھئے کی نظریں اس کے بدن کے عریاں حصّوں پر گڑی جا رہی ہیں۔ اس کے بچّے فٹ پاتھ پر بیٹھے۔۔۔ ر ریا۔۔۔ ریاکر راہ گیروں سے بھیک مانگ رہے ہیں۔ ماں۔۔۔ ماں کی لاش کمرے کے سیلن زدہ فرش پر تختہ بنی پڑی ہے۔ اف اس کی پیشانی پر پسینہ چھلچھلاتا آتا اور اسے لگتا وہ اچانک اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ایک معمولی سی ٹھوکر پر بھی ریت کے گھروندے کی طرح بِکھر جائے گا اس وقت اس کے کانوں میں جیسے کوئی زور زور سے چیخنے لگتا۔
’’اپنی روِش بدلو، ورنہ خون تھوکتے تھوکتے مر جاؤ گے۔‘‘
ساتھیوں کے زہر میں بجھے جملے، بیوی کی حسرت بھری فرمائشیں، بچّوں کی تڑپ، ماں کی کھانسی۔ آخر ایک دن وہ اپنی روش بدلنے پر مجبور ہو گیا۔ مگر یہ تبدیلی اس کے اندر دھیرے دھیرے اور غیر محسوس طریقے سے آئی تھی اور اس کے ساتھ ہی سب کچھ بہت ٹھیک ٹھاک ہوتا گیا تھا۔
گھر میں بیوی کا مرجھایا چہرہ کنول کی طرح کھلنے لگا، بچّوں کی چہکار میں اضافہ ہوتا گیا۔ ماں کی کھانسی کم ہوتے ہوتے بند ہو گئی۔ سب خوش تھے اور سب کو خوش دیکھ کر وہ بھی خوش تھا مگر آج والیا کی کتھا نے اسے بے حد مضطرب کر دیا تھا۔
اس نے رم کا تیسرا پیگ بنایا۔
سچ! وہ کیوں بیوی بچّوں کے لیے اپنے آپ کو گناہ گار کرے، انھیں پالنے کی ذمہ داری ضرور اس کی ہے۔ اور وہ انھیں اپنے ضمیر کو آلودہ کئے بغیر بھی پال سکتا ہے۔ یقیناًاس نے یہ سب ایک بہتر زندگی کے حصول کی خاطر کیا تھا مگر اس کی زندگی کا رس تواس کے بیوی بچّوں کو طراوت بخش رہا تھا۔ اس کے حصے میں تو زہر ہی زہر آیا تھا۔
وہ تیسرا پیگ بھی خالی کر گیا اور انتہائی تلخی سے منہ بنا کر خالی گلاس کو گھورنے لگا۔ تھوڑی دیر تک خالی گلاس کو گھورتا رہا۔ پھر ایک جھٹکے سے بوتل اٹھائی اور چوتھا پیگ انڈیلنے لگا۔
’’بس۔۔۔ کل وہ بیوی سے صاف صاف کہہ دے گا کہ اب وہ مزید بار اٹھانے کے قابل نہیں رہا ہے۔ ورنہ اس کے کاندھے ٹوٹ جائیں گے وہ لوٹ رہا ہے۔ وہ دس برس پیچھے لوٹ رہا ہے۔ آگے بڑھتے وقت بیوی ہمیشہ اس کی پیٹھ ٹھونکتی رہی تھی۔ اب پیچھے لوٹنے میں بھی اس کا ساتھ دے مگر کیا وہ مان جائے گی؟ ماننا ہی پڑے گا۔ بہت ہو گیا، آدمی سونے کا نوالہ کھائے، مگر من کی شانتی نہ ہو تو سب بیکار ہے۔ اب وہ صرف وہی کرے گا جو اس کا ضمیر کہتا ہے۔
چوتھا پیگ بھی ختم ہو گیا، اب وہ کرسی پر بیٹھا بیٹھا جھوم رہا تھا۔ دیواریں کھڑکیاں، کمرہ کمرے کی ہر چیز، اس کے گرد رقص کر رہی تھی، اور وہ اپنی گردن کبھی ادھر کبھی ادھر گھماتا لہک لہک کر انھیں رقص کرتا دیکھ رہا تھا۔
میز پر رکھی بوتل بھی آہستہ آہستہ تھرکنے لگی، اس نے ہاتھ بڑھا کر بوتل کی گردن دبوچ لی۔ گلاس میں شراب انڈیلی، گلاس کو آنکھوں کے برابر لا کر پیگ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ مگر اندازہ لگانا مشکل تھا، ایک پر ایک دو دو تین تین گلاس چڑھے ہوئے تھے۔ اس نے تھک ہار کر گلاس کو پھر میز پر رکھ دیا۔ اور جگ سے گلاس میں پانی انڈیلنا چاہا۔ جگ خالی تھا، اس نے جھنجھلا کر جگ دوبارہ میز پر پٹکا اور گلاس اٹھا کر منہ سے لگا لیا۔ نیٹ رم ایک جلتے تیر کی طرح حلق کو چھیلتی ہوئی معدے کے اندر اتر گئی۔ اس نے بہت بُرا سا منہ بنایا۔ گلاس کو میز پر پٹخ کر کھڑا ہو گیا۔ مگر پیر بُری طرح لڑکھڑا گئے۔ ڈگمگا کر پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اب کمرہ اور کمرے کی چیزوں کا رقص بہت تیز ہو گیا تھا، اور ساری چیزیں ایک خاص لَے میں پوچھ رہی تھیں۔
’’تو یہ ککرم کس کے لیے کرتا ہے؟‘‘
’’تو یہ ککرم کس کے لیے کرتا ہے؟‘‘
اسے غصہ آ گیا، وہ پھر لڑکھڑا تا ہوا کرسی سے اٹھا۔ اس نے اس طرح دونوں ہاتھ پھیلائے جیسے گردِش کرتے کمرے اور رقص کرتی چیزوں کو تھام کر اپنی اپنی جگہ کھڑا کر دینا چاہتا ہو۔ ہر چیز اس کے پاس سے کترا کر نکل رہی تھی، وہ دونوں ہاتھ پھیلا پھیلا کر چیزوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا۔ مگر کوئی چیز اس کے ہاتھ نہیں آ رہی تھی۔ بالآخر وہ تھک گیا، تھک کر ہانپنے لگا۔ چیزوں کا رقص جاری تھا۔ اچانک کمرے کی دیواریں اپنی جگہ سے سرک سرک کر اسے دبوچ لینے کو بڑھیں۔ چھت بیٹھنے لگی، وہ لڑکھڑا کر گرا، یکے بعد دیگر کمرے کی اشیاء اس پر ڈھیر ہوتی چلی گئیں اور اس کا دم گھٹنے لگا۔ آنکھیں خود بخود بند ہو گئیں، اس کے بعد اسے کسی بات کا ہوش نہیں رہا۔
٭٭٭