ندی بہت بڑی تھی۔ کسی زمانے میں اس کا پاٹ کافی چوڑا رہا ہو گا۔ مگر اب تو بے چاری سوکھ ساکھ کر اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔ ایک زمانہ تھا جب اس کے دونوں کناروں پر تاڑ اور ناریل کے آسمان گیر درخت اگے ہوئے تھے جن کے گھنے سائے ندی کے گہرے، شانت اور شفاف پانی میں یوں ایستادہ نظر آتے جیسے کسی پر جلال بادشاہ کے دربار میں مصاحب سر نیوڑھائے کھڑے ہوں۔ مگر اب درختوں کی ساری شادابی لُٹ چکی تھی اور ان کے ٹُنڈ مُنڈ خشک صورت تنے کسی قحط زدہ علاقے کے بھوکے کنگال لوگوں کی طرح بے رونق اور نادار لگ رہے تھے۔
ندی بہت بڑی تھی اور اس کا پاٹ اب بھی گزری ہوئی عظمت اور وسعت کی غمازی کرتا نظر آتا۔ مگر اب اس طرح خشک ہو گئی تھی کہ جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے بے ڈھنگے ٹاپو ابھر آئے تھے۔ حدِّ نظر تک چھوٹے بڑے بے شمار ٹاپو۔
اب ان ٹاپوؤں پر کہیں کہیں خودرو گھاس اور جنگلی جھاڑیاں بھی اگ آئی تھیں، جن میں ہزاروں لاکھوں ٹڈے اور جھینگر شب و روز پھُدکتے رہتے۔ گھاس کے نیچے کیچڑ میں لاکھوں کیڑے رینگتے کلبلاتے رہتے اور جب دوپہر کی تپا دینے والی دھوپ میں کم کم گدلا بدبو دار پانی تپنے لگتا تو ندی کی مچھلیاں اس طرح ادھر ادھر منہ چھپاتی پھرتیں جیسے کسی پردہ دار گھرانے کی بہو بیٹیاں بھرے بازار میں بے نقاب کر دی گئی ہوں۔ مچھلیوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی تھی اور ٹڈے، جھینگر، کیڑے مکوڑوں اور مینڈکوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ دوپہر ڈھلے ندی کے نیم گرم، گدلے پانی سے چھوٹے بڑے بے شمار مینڈک نکلتے اور ان ٹاپوؤں پر بیٹھ کر ٹراتے رہتے۔ ہر ٹاپو پر ایک بڑے مینڈک کا قبضہ تھا اور ہر ایک کے چھوٹے چھوٹے سیکڑوں معتقد یا حلقہ بگوش تھے۔ جو ہر دم اس کی ٹراہٹ کی تائید میں خود بھی ٹراتے رہتے۔
’’میں اس ندی کا وارث ہوں۔‘‘ بڑا مینڈک۔
’’ہاں! آپ اس ندی کے وارث ہیں۔‘‘ چھوٹے مینڈک۔
’’اس ندی کے ایک ایک ٹاپو پر میرا اختیار ہے۔‘‘
’’اس ندی کے ایک ایک ٹاپو پر آپ کا اختیار ہے۔‘‘
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ چاہوں تو۔۔۔‘‘
بڑا مینڈک مناسب دعوے کے لیے آنکھیں مٹکا مٹکا کر ادھر ادھر دیکھتا اور ذرا سے توقف کے بعد کہتا۔
’’میں چاہوں تو ایک جست میں اس چمکتے سورج کو آسمان سے نوچ کر پاتال میں پھینک دوں۔‘‘
’’آپ چاہیں تو۔۔۔‘‘ چھوٹے مینڈک دھوپ سے اپنی آنکھوں کو مچمچاتے ہوئے حسبِ عادت بڑے مینڈک کی تائید کرتے کہ بڑے مینڈک کی خوشنودی ان کی زندگی کا واحد مقصد تھا۔
پھر پاس ہی کے کسی ٹاپو سے ایک موٹے پیٹ اور پتلی ٹانگوں والا کوئی مینڈک گمبھیر آواز میں اپنے معتقد سے پوچھتا۔
’’کون ہے یہ؟ کون ہے یہ احمق؟‘‘
ایک طرار مینڈک پھُدک کر کہتا۔
’’وہی ہمارا ذلیل پڑوسی ہے۔ جس کے اجداد حضور کے کفش بردار رہ چکے ہیں۔‘‘
’’اوہو، اس نمک حرام سے کہو کہ سورج پر کمند ڈالنے سے پہلے ہمارے قدم چومے کہ خورشید ہمارے نقشِ کف پا کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
اس کی لن ترانی کے جواب میں کسی تیسرے ٹاپو سے آواز آتی۔
’’یہ کون گستاخ ہے۔ اسے آگاہ کر دو، اپنی زبان کو قابو میں رکھے کہ ہم زبان دروازوں کی زبانیں یوں کھینچ لیتے ہیں جیسے ملک الموت جسم سے روح۔‘‘
’’خاموش، خاموش، اس ندی کا ایک ایک ٹاپو ہماری زد میں ہے۔‘‘
اس کے بعد ہر ٹاپو سے ایک نئی آواز بلند ہونے لگتی۔ ہر آواز پہلی آواز سے زیادہ تیز ہر دعویٰ پہلے دعوے سے زیادہ بلند و رافع۔ ایسا شور مچتا کہ بے چاری مچھلیاں خوفزدہ ہو کر چہ بچوں کی تہوں میں جا چھپتیں۔ درختوں کی شاخوں پر بیٹھے پرند پھڑ پھڑا کر اڑتے اور جدھر جس کا سینگ سماتا چلا جاتا ٹرّا ٹرا کر مینڈکوں کے گلے رُندھ جاتے، پھول پھول کر پیٹ پھٹ جاتے اور بیسوں مینڈک اپنے ہی بلند بانگ دعووں کے وزن تلے دب دب کر کچل جاتے۔ اور پھر دھیرے دھیرے تمام ٹاپوؤں پر ایک خوفناک سکوت طاری ہو جاتا نہ کسی مینڈک کی ٹرٹر نہ کسی جھینگر کی جھائیں جھائیں۔ مگر یہ سکوت ایک مختصر سے وقفے کے لیے ہوتا۔ دوسرے دن پھر مینڈک اپنے اپنے ٹاپوؤں پر جمع ہوتے اور پھر وہی لاف گزاف۔ ایک دن اسی طرح بڑے چھوٹے مینڈک اپنے اپنے ٹاپوؤں سے گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے تھے۔ ایک دوسرے کو ذلیل کر رہے تھے، گالیاں بک رہے تھے۔ مچھلیاں چھوٹے چھوٹے چہ بچوں میں اوپری سطح پر تیرتی اس لڑائی کو خوف اور حیرت سے دیکھ رہی تھیں۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے گھاس اور پودوں کی جڑوں میں دبک گئے تھے۔ ندی کے کنارے پھدکتی چڑیاں دم بخود اس بحث کو سن رہی تھیں۔
تبھی ندی کے ایک گوشے میں کچھ ہلچل سی ہوئی۔ پہلے تو سطح آب پر بڑے بڑے بلبلے پیدا ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کوئی پانی کی سطح پر نمودار ہوا۔ یہ ایک بے حد بوڑھا مگر مچھ تھا۔ اتنا بوڑھا کہ اس کی کیچلیاں جھڑ چکی تھیں۔ دُم کے دانتے کندے پڑ گئے تھے اور اس کی پشت پر باریک باریک سبزہ اگ آیا تھا۔ اس نے اپنی پوری قوت سے دُم کو اس کیچڑ آلود پانی کی سطح پر دے مارا۔ ایک زور کا چھپا کا ہوا اور پانی کے چھینٹے اڑ کر دور دور تک پہنچے۔ مختلف ٹاپوؤں پر شور مچاتے مینڈک یک بیک چپ ہو گئے۔ سب اپنی پچھلی ٹانگوں پر اچک اچک کر اس آواز کی سمت دیکھنے لگے۔ آخر سبوں نے بوڑھے مگر مچھ کو دیکھ لیا۔ سبھی مینڈک بوڑھے مگرمچھ کا بے حد احترام کرتے تھے بلکہ بعض اس سے خوف زدہ بھی رہتے تھے۔ کیوں کہ ان کے آباء و اجداد کے مطابق بوڑھا مگر مچھ اس ندی کی بدلتی ہوئی تاریخ کا چشم دید گواہ تھا۔
اس کی عمر کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کی ہستی صدیوں کے دوش پر قرنوں کا فاصلہ طے کر چکی تھی۔ تمام مینڈکوں نے ٹرا ٹرا کر بوڑھے مگرمچھ کی جے جے کار کی۔ بوڑھے مگرمچھ نے اپنی بھاری دُم پٹک کر اور اپنا لمبا چوڑا جبڑا کھول کر خوشی کا اظہار کیا۔ پھر رینگتا ہوا ایک اونچی چٹان پر چڑھ گیا۔ چٹان پر پہنچ کر اس نے ندی کے اطراف نگاہ ڈالی۔۔۔ اب ندی۔۔۔ ندی کہاں تھی؟ وہ تو بس چند ٹاپوؤں اور چہ بچوں کا مجموعہ ہو کر رہ گئی تھی۔ جگہ جگہ ریت کے خشک تو دے ابھر آئے تھے۔ کہیں کہیں گڈھوں میں پانی کے بجائے صرف کیچڑ تھا۔ ندی کے دونوں کناروں پر خود روگھاس ضرور اگی ہوئی تھی مگر پانی کی کمی کے کارن گھاس کا رنگ بھی زرد پڑتا جا رہا تھا۔ ناریل، سپاری اور تاڑ کے درخت بانس کے جنگل کی طرح خشک اور ویران لگ رہے تھے۔ ندی کی اس بدلی ہوئی کیفیت کو دیکھ کر مگرمچھ کا دل بھر آیا۔ قریب تھا کہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے جھرنے بہہ نکلتے۔ اس نے کمالِ ضبط سے ان آنسوؤں کو روکا۔ مبادا ندی کے یہ بے ضمیر باسی انھیں حسبِ روایت مگرمچھ کے آنسو کہہ کر ان کی تضحیک نہ کریں پھر اس نے اپنے دیدے گھما کر ادھر ادھر ٹاپوؤں پر بیٹھے مینڈکوں کو دیکھا۔ سارے مینڈک دم سادھے بیٹھے تھے۔ مگرمچھ نے پھنکار کر گلا صاف کیا، پھر بھرائی آواز میں بولا:
’’اے ندی کے باسیو! کبھی تم نے اس بلند چٹان سے ندی کو دیکھا ہے؟‘‘
تمام مینڈک ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر سبوں نے بیک زبان اعتراف کیا۔
’’نہیں۔۔۔ ہم نے اس بلند چٹان سے کبھی ندی کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’دیکھو! یہاں سے ندی کو دیکھو تو تم پر تمہارے بے بضاعت ٹاپوؤں کی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔‘‘
’’مگر ہم وہاں سے ندی کو کیوں دیکھیں کہ ندی تو ہمارے لہو میں جاری و ساری ہے۔‘‘
’’عریاں حقیقتوں کو سیمابی لفظوں کا لباس نہ پہناؤ کہ الفاظ جذبے کے اظہار کا بہت ادنیٰ ذریعہ ہیں۔ خود تسلّی، عارضی اطمینان کی سبیل ضرور ہے مگر یہی اطمینان مکمل تباہی کا پہلا بگل بھی ہے۔‘‘
تبھی ایک کونے سے ایک پستہ قد زرد فام مینڈک نے ٹرا کر کہا:
’’میں دیکھ سکتا ہوں۔ بلندی سے میں ندی کا نظارہ کر سکتا ہوں۔‘‘
تمام مینڈک اس زرد فام مینڈک کی طرف مڑے۔ وہ پندرہ بیس مینڈکوں کے کاندھوں پر چڑھا سینہ پھلائے نہایت حقارت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے مگرمچھ سے مخاطب ہو کر کہا:
’’اے دانائے راز! کیا میں ان تمام سفالی ہستیوں سے سر بلند نہیں ہوں کہ یہ ندی کراں تا کراں میری نگاہ کی زد میں ہے۔‘‘
ابھی اس کے الفاظ فضا میں گونج ہی رہے تھے کہ مینڈکوں کا اہرام لرزا اور ایک دوسرے کے کاندھوں پر چڑھے ہوئے مینڈک دھپ دھپ نیچے لڑھک گئے۔ دو چار کمزور مینڈکوں کی تو آنتیں نکل آئیں۔ بعض وہیں ڈھیر ہو گئے۔ ارد گرد کے ٹاپوؤں کے مینڈک بے تحاشا قہقہے لگانے لگے۔ ہنسی قہقہے، فقرے بازی اور شور و غوغا سے تھوڑی دیر تک کان پڑی آواز سنائی نہیں دی۔
آخر مگرمچھ کو مداخلت کرنی پڑی۔
’’خاموش، خاموش اے ندی کے باسیو! خاموش، یہ جائے مسرت نہیں مقام عبرت ہے کہ تمہاری چھوٹی چھوٹی نفرتوں نے تمہارے قد گھٹا دیے ہیں اور تم۔۔۔ تم سب اپنی ہی لاشوں پر قہقہے لگانے کے لیے زندہ ہو۔‘‘
’’اے صاحب عقل و دانش! کیا ہمیں اپنے دشمن کی مات پر خوش ہونے کا حق نہیں۔ یہ فتنۂ حرام عرصۂ دراز سے دوسروں کے کاندھوں پر چڑھ کر ہمیں دھمکاتا رہتا تھا۔‘‘
’’دشمن!‘‘ مگرمچھ نے ایک گہری سانس کھینچی۔
’’تم نہیں جانتے کہ بعض اوقات دشمنی بھی تمہارے ظرف کا پیمانہ بن جاتی ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو مرنے والے کی صورت میں تمہیں اپنی صورت دکھائی دے گی۔ کان کھول کر سنو۔ اس کی آواز میں تمہیں اپنی آواز سنائی دے گی۔ دشمن کی شناخت مشکل ہے اس لیے کہ دوست کی شناخت مشکل ہے۔‘‘
’’اے مدّبر وقت! تو ہی ہمیں کوئی تدبیر بتا کہ ہمارے دل نفرتوں کے غبار سے دھُل جائیں اور ہمارے سینے محبتوں کے نور سے معمور ہو جائیں۔ تجھے ہم عقل و فہم کا پتلا اور تجربات کا مرقع جانتے ہیں۔‘‘
’’اگر ماحول ساز گار نہ ہو تو تدّبر تضحیک کا نشانہ اور تجربہ تہمت کا بہانہ بن جاتا ہے یاد رکھو گھورے پر کبھی گلاب نہیں کھلتے۔ تم نے نفرت بوئی تھی نفرت ہی کاٹو گے۔۔۔‘‘
’’مگر تیرے سوا کون ہماری رہنمائی کر سکتا ہے کہ ہم بالاتفاق رائے تجھے اپنا مرّبی سمجھتے ہیں۔‘‘
ایک چتکبرا مینڈک پھدک کر مگرمچھ کے قریب ہوتا ہوا مکھن چپڑے لہجے میں بولا۔ اور پھر اس انداز سے چاروں طرف دیدے گھمائے جیسے اپنے ہم جلیسوں سے کہہ رہا ہو۔ میرا کاٹا کبھی بھولے سے نہ پانی مانگے۔
بوڑھا مگرمچھ اس چالاک مینڈک کی نیت بھانپ گیا۔ ایک نگاہ غلط انداز اس پر ڈالی اور پھر دوسرے مینڈکوں سے مخاطب ہوا۔
’’مرّبی ایک ایسے بد طینت شخص کو کہتے ہیں جو زیر دستوں کی دست گیری محض اس لیے کرتا ہے کہ وہ تاحیات اس کی غلامی کا دم بھرتے رہیں۔‘‘
مگرمچھ کے اس کرارے جواب نے مختلف ٹاپوؤں میں ایک غلغلہ ڈال دیا۔ دیر تک مینڈک ٹراتے اور قہقہے لگاتے رہے اور وہ چت کبرا مینڈک غصے اور ندامت سے پیچ و تاب کھانے لگا۔ جب شور ذرا کم ہوا تو چت کبرا مینڈک ہوا میں قلابازی کھاتا ہوا چیخا۔
’’اَنا۔۔۔ اے ناصح نامہربان، تیری تلخ نوائی نے میری انا کو لہو لہان کر دیا۔ اپنی انا کی حفاظت میری زندگی کا مقصد اعلیٰ ہے۔ میں تلوار کا گھاؤسہہ سکتا ہوں۔ اپنی انا پر ضرب نہیں سہہ سکتا۔‘‘
’’اَنا‘‘۔۔۔ مگرمچھ نے اس چھوٹے سے مینڈک کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے حقارت سے کہا۔
’’چیونٹی اپنے منہ میں شکر کا دانہ لیے چلتی ہے تو اپنی دانست میں سات پہاڑوں کا بوجھ اس پر لدا ہوتا ہے۔ تم اپنی ڈیڑھ انچ کی انانیت کو آخر اس قدر اہمیت کیوں دیتے ہو جو پانی کے ایک ریلے سے بہہ جاتی ہے، ہوا کے ایک معمولی جھونکے سے اڑ جاتی ہے۔ جب تک تمہاری انانیت تمہارے وجود کا حصہ نہیں بنتی، وہ چھپکلی کی کٹی دُم کی مانند بے حقیقت اور حقیر ہے۔ تمہاری مشکل یہ ہے کہ تم سب چھوٹے چھوٹے جزیروں میں بٹے ہو اور ہر کوئی اپنے جزیرے کو کرّہ ارض کے برابر سمجھتا ہے۔‘‘
مگرمچھ کا یہ وار بہت صاف اور تیکھا تھا۔ شدید تکلیف سے ان کے لہو میں گرہیں پڑ گئیں۔ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ غصہ ذلّت اور ندامت نے ان کی عجیب کیفیت کر دی تھی۔ انھیں لگ رہا تھا کوئی انھیں رسّی کی طرح بٹتا جا رہا ہے۔ مگر وہ کیا کر سکتے تھے کہ ان کے پاس نہ سانپ کا سا پھن تھا، نہ بچھو کا ساڈنک۔ البتہ وہ چیخ سکتے تھے کہ اب ان کی چیخ ہی ان کے وجود کی گواہی بن سکتی تھی۔ لہذا ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ بیک زبان ٹرّانے لگے۔ اپنی ہستی کی انتہائی بنیادوں سے ٹرّانے لگے۔ مگرمچھ ضبط و تحمل سے ان کی ٹراہٹ سنتا رہا۔ اور خاموشی سے ان کے گلوں کی پھولتی پچکتی جھلیوں کو دیکھتا رہا۔ جب ٹراتے ٹراتے ان کی گردنوں کی جھلیاں لٹک گئیں، پیٹ پچک گئے۔ تب مگرمچھ نے آہستہ سے گردن اٹھائی۔ یہاں سے وہاں تک بکھرے ہوئے مینڈکوں پر ایک متاسفانہ نگاہ ڈالی، چھوٹے بڑے، نیلے پیلے، کالے، سفید، دبلے پتلے، موٹے تگڑے۔ سارے کے سارے مینڈک منہ کھولے، گردنیں ڈالے گہری گہری سانسیں لے رہے تھے۔ اب ان کی آخری چیخ بھی ان کے سینے کی لحد میں سوچکی تھی۔ آخر ایک طویل وقفے کے بعد مگرمچھ گویا ہوا۔
’’اے ندی کے باسیو! تم میں سے ہر کوئی خود غرضی کے محور پر پھرکی کی طرح گھوم رہا ہے۔ تمہاری نظروں میں سارے رنگ یوں گڈ مڈ ہو گئے ہیں کہ اب رنگوں کی تمیز ممکن نہیں۔ لہذا اب میرے پاس تم سب کے لیے ایک سفّاک دعا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میں دعا مانگتا ہوں۔ دعا کے اختتام پر بآوازِ بلند ’آمین‘ کہنا۔ یہی تمہاری نجات کا آخری حیلہ ہے۔‘‘
مینڈکوں نے مگرمچھ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اپنے کرچی کرچی وجود کے ساتھ ٹُکر ٹُکر اسے گھورتے رہے۔ اب اجالے کے پر سمٹنے لگے تھے۔ سورج ایک کیکر کے دو شاخے میں پھنسا پھڑ پھڑا رہا تھا۔ اس کے خون کی لالی قطرہ قطرہ ندی کے چہ بچوں میں سونا گھول رہی تھی۔ فضا میں ایک عجب سی دل کو مسوس دینے والی اداسی بس گئی تھی۔ تبھی مگرمچھ نے آسمان کی طرف منہ اٹھایا۔ آنکھیں بند کر لیں اور دعا مانگنے لگا۔
’’اے بحر و بر کے مالک! اے خشکی کو تری اور تری کو خشکی میں بدلنے والے۔۔۔ زمانہ بیت گیا یہ ندی سوکھتی جا رہی ہے اور ہم کہ جنھیں ایک ہی ندی کے باسی کہلانا تھا، الگ الگ ٹاپوؤں میں بٹ گئے ہیں۔ اے قطرے سے دریا بہانے والے اور ندیوں کو سمندر سے ملانے والے ہمارے رب! ہماری اس سوکھی ندی میں کسی صورت باڑھ کا سامان پیدا کر، تاکہ ہم جوان چھوٹے چھوٹے ٹاپوؤں میں تقسیم ہو گئے ہیں پھر اسی ندی میں گھل مل جائیں۔ اور اس کے وسیع دامن میں جذب ہو کر اسی کا ایک حصہ بن جائیں!
سیلاب! صرف ایک تندو تیز سیلاب!!‘‘
مگرمچھ دعا ختم کر کے تھوڑی دیر تک آنکھیں موندے مینڈکوں کے ’آمین‘ کہنے کا منتظر رہا۔ مگر جب کافی دیر گزر جانے کے بعد بھی کہیں سے ’آمین‘ کی صدا نہیں آئی تب اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ارد گرد کے ٹاپو خالی پڑے تھے۔ تمام مینڈک ندی کے کم کم، گدلے اور بدبو دار پانی میں ڈبکیاں لگا چکے تھے۔
٭٭٭