وہ مارچ کی ایک صاف و شفاف صبح تھی اور سورج پہاڑی کے پیچھے سے یوں طلوع ہو رہا تھا جیسے کوئی نٹ کھٹ بالک کسی نئی شرارت کی فکر میں دیوار کی اوٹ سے جھانک رہا ہو۔ صبح کی ہوا کے لطیف اور خوش گوار جھونکے جوار کی پکی فصل کو ہولے ہولے چھیڑتے گزر رہے تھے، جیسے ماں اپنے بچے کے بالوں میں پیار سے انگلیاں پھیر رہی ہو۔ فضا میں جوار کی مہک بسی ہوئی تھی اور درختوں پر چڑیاں چہچہا رہی تھیں۔ بھرت پور کی اکلوتی بڑی سڑک اور گلیاں تقریباً سنسان تھیں۔ البتہ گھروں کے آنگنوں سے بیلوں کے ڈکرانے اور بکریوں کے ممیانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ کسی گھر سے ایک آدھ بچے کی چیخ کر رونے کی آواز بھی آ جاتی۔ ایک بنیا اپنی دکان کا ایک پٹ کھولے دکان کی چوکھٹ پر بیٹھا داتون کر رہا تھا۔ دو گوالے سروں پر دودھ کی کین رکھے لپ لپ جھپ جھپ گزر رہے تھے۔ سامنے سے ایک گوالا سائیکل پر سوار چلا آ رہا تھا۔ اس کی سائیکل کے ہنڈل سے دودھ کی خالی کینیں لٹکی ہوئی تھیں۔ جو سائیکل کے مڈگاڈوں سے ٹکرا ٹکرا کر کھڑ پڑ کھڑ پڑ کر رہی تھیں۔
تبھی بھرت پور میں ایک جیپ گاڑی داخل ہوئی۔ جیپ گاڑی کی باڈی پر چاروں طرف سے بڑے بڑے بینرس لگے ہوئے تھے جن پر جلی حرفوں میں مختلف نعرے لکھے تھے اور ہر بینر پر سورج کا نشان بنا ہوا تھا۔ جیپ گاڑی کے دائیں بائیں پارٹی کے جھنڈے فر فرا رہے تھے۔ پیچھے دو بڑے سے بھونپو بھی فٹ تھے۔ جیپ گاڑی میں چار پانچ نوجوان بیٹھے تھے۔ جیپ گاڑی دھول اڑاتی سڑک پر آ گئی۔ اور اسی وقت بھونپو سے آواز آئی۔
’’بھرت پور کے باسیو! جاگو غفلت سے جاگو۔۔۔ ابھی نہیں جاگے تو کبھی نہیں جاگو گے۔ دیکھو رات بیت گئی۔ اندھیرا چھٹ گیا۔ نا انصافی نابرابری، بھوک اور بے کاری کا اندھیرا۔۔۔ نیا سورج طلوع ہو رہا ہے۔ یاد رکھو سورج صرف اونچی عمارتوں اور محل دو محلوں کو روشن نہیں کرتا۔ وہ جھونپڑوں، جھگیوں میں بھی اپنا نور بکھیرتا ہے۔ یہ سورج تمہاری خوش حالی اور مسرتوں کا ضامن ہے۔ یاد رکھو سورج کا نشان۔۔۔ جاگ اٹھا ہندوستان۔۔۔ جاگو تم بھی جاگو اور اپنے محبوب لیڈر الحاج مرزا تراب علی کو ووٹ دو۔‘‘
’’مرزا تراب علی۔۔۔ زندہ باد۔۔۔‘‘
بھونپو کی آواز سے سب سے پہلے تو بوڑھے اپنی اپنی اونگھ سے جاگے۔ پھر جوان آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے۔ بلکہ بعض کو ان کی بیویوں، ماؤں اور بہنوں نے جھنجھوڑ کر جگایا۔ سب اپنے اپنے بستروں سے اٹھ بیٹھے۔ دروازے وا ہونے لگے۔ لوگ دروازے کھول کھول کر ور انڈوں، چبوتروں، گیلریوں اور سیڑھیوں پر آ آ کر کھڑے ہو گئے۔ کھڑکیوں کے پٹ کھلے اور عورتیں گردنیں نکال نکال کر جھانکنے لگیں۔ بچے ماؤں کے کاندھوں کے اوپر سے اور باپوں کی ٹانگوں کے بیچ میں سے نکل نکل کر اپنی کیچ بھری آنکھوں کو ملتے، بہتی ناکوں کو الٹی ہتھیلیوں سے پونچھتے کچھ تجسس، کچھ استعجاب، کچھ خوف، کچھ اضطراب کی کیفیت میں ادھر ادھر تاکنے لگے۔ بوڑھے آنکھوں پر اپنی لرزتی ہتھیلیوں کا چھجّا بنائے اور نوجوان پیشانیوں پر بل ڈالے اس طرف نہارنے لگے جدھر سے بھونپو کی آواز آ رہی تھی۔ جیپ گاڑی بھرت پور کی بڑی سڑک پر دھول اڑاتی آگے ہی آگے بڑھتی جا رہی تھی۔ جیپ کی رفتار بہت دھیمی تھی۔ جیپ کے بھونپو سے اعلان نشر ہو رہا تھا۔
’’صاحبو! آئیے، گرام پنچایت کے میدان میں بابائے قوم الحاج مرزا تراب علی۔ بنفس بنفیس آپ سے خطاب کرنے تشریف لا رہے ہیں۔‘‘
ایک بوڑھے نے اپنی کیچ بھری آنکھیں مچمچاتے دوسرے بوڑھے سے پوچھا۔
’’یہ مرزا تراب علی کون صاحب ہیں؟‘‘
’’کوئی نیتا لگت ہیں۔‘‘ دوسرے کا جواب۔
’’نیتا، ہمارے جمانے میں تو گاندھی بپّا، جواہر لال، مولانا آجاد جیسے لوگ نیتا ہوتے تھے یہ کیسے نیتا ہیں؟‘‘
’’یہ نئے جمانے کے نیتا ہیں چاچا!‘‘ ایک نوجوان۔
’’کتاب کرنے آ رہے ہیں۔ کیا مطلب؟‘‘
’’کتاب نہیں۔ خطاب۔‘‘
بھرت پور کے اکلوتے کالج، کیرتی مہاودیالے کے لیکچرر بولے جو کالج میں اردو پڑھاتے تھے۔
’’ہاں۔ ہاں وہی کھتاب کرنے آ رہے ہیں۔ مطلب کیا کرنے آ رہے ہیں؟‘‘
’’بھاشن دینے آ رہے ہیں۔‘‘
’’آچھا۔۔۔ بھاشن دینے۔۔۔ ہم سمجھے۔۔۔ کھتاب مانے کوئی پاٹھ واٹھ کرنے آ رہے ہیں۔‘‘
’’پاٹھ پنڈت لوگ کرتے ہیں کاکا۔۔۔ نیتا لوگ بھاشن دیتے ہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں مالوم ہے۔۔۔‘‘ کاکا کو نوجوان لیکچرر کی علمیت ناگوار لگی۔
گرام پنچایت کے اکلوتے میدان میں ایک بڑا سا چوکور سرکاری چبوترا بنا ہوا تھا جس پر ایک چھت بھی پڑی ہوئی تھی۔ اکثر رام لیلا کے ناٹک اور نو ٹنکیاں وغیرہ اسی چبوترے پر کھیلے جاتے۔ ہولی کے موقع پر میدان میں بڑا سا گڈھا کھود کر اس میں آگ روشن کی جاتی اور ’ہولیکا‘ کو جلایا جاتا۔ گنپتی کے موقع پر یہاں ایک بہت بڑا گنپتی بھی بٹھایا جاتا۔ محرم میں اسی چبوترے سے ’تعزیے‘ بھی اٹھتے اور انھیں یہیں لا کر ٹھنڈا کیا جاتا۔ عید میلاد کا جلوس بھی اسی میدان سے نکلتا تھا۔ اور اگر کوئی چھوٹا موٹا منتری یا نیتا اس گاؤں سے گزرتا تو اس کے اعزاز میں اسی میدان میں جلسہ منعقد ہوتا اور وہ منتری یا نیتا اسی چبوترے سے گاؤں والوں کو خطاب کرتا۔ بھرت پور ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جس میں ہندو مسلم کی ملی جلی آبادی تھی۔ مگر ان میں پیشے کے اعتبار سے اکثریت گوالوں کی تھی جن میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی۔ دس پندرہ کرسچنوں کے بھی گھر تھے اور ان کا ایک مختصر سا چرچ بھی تھا جہاں وہ اپنی اتوار کی عبادت کر لیا کرتے تھے۔
بھرت پور کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ یہاں آج تک کوئی فساد نہیں ہوا تھا۔ ملک میں آئے دن ہونے والے فسادات کی خبریں یہاں بھی پہنچتیں۔ ٹی وی اور ریڈیو سے خبریں نشر ہوتیں مگر بھرت پور کے لوگوں پر ان فسادات کی خبروں کا کوئی خاص ردِ عمل نہ ہوتا۔ بیچارے اپنے مویشیوں میں اور کھیتی باڑی میں ایسے منہمک رہتے کہ انھیں ان خرافات کی طرف دھیان دینے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔
ایسا نہیں تھا کہ بھرت پور میں جھگڑے فساد نہیں ہوتے تھے۔ جھگڑے زیادہ تر روز مرّہ کی معمولی باتوں پر ہوتے اور بڑے بزرگوں کے بیچ بچاؤ یا پنچوں کے کہنے پر فوراً ختم بھی ہو جاتے۔ ان میں مذہبی فسادات کی بربریت اور شدت پسندی نہ ہوتی۔ دو ایک دفعہ مذہبی معاملوں پر بھی گرما گرمی ہوئی تھی مگر گاؤں والوں نے خود ہی مل ملا کر اسے طے کر لیا تھا۔
سورج آسمان پر اب کئی گز اوپر آ چکا تھا۔ لوگ ایک ایک دو دو کر کے گرام پنچایت کے میدان میں جمع ہونے لگے۔ میدان کے چبوترے کو رنگ برنگی جھنڈوں اور پتاکوں سے سجا دیا گیا تھا۔ چبوترے پر چار پانچ کرسیاں اور ایک میز بھی رکھ دی گئی تھی میز پر غلاف بچھا تھا اور اس پر ایک گلدان رکھا تھا۔ لوگ میدان میں آ آ کر چبوترے کے سامنے بیٹھتے جا رہے تھے۔ جن میں بوڑھے اور جوان بھی شامل تھے۔ کچھ نو عمر لڑکے میدان میں ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے۔ ایک طرف بوڑھوں کے درمیان چلم بھی چل رہی تھی۔ نوجوان ایک دوسرے کو کہنیوں سے ٹھوکے دیتے کسی مذاق پر رہ رہ کر قہقہے لگا رہے تھے۔ تبھی میدان میں ایک طرف وہی صبح والی جیپ آ کر کھڑی ہو گئی جو بھونپو پر بار بار تراب علی کی آمد کا اعلان کر رہی تھی جیپ کے پیچھے تین چار کاریں بھی تھیں۔ کاروں کے دروازے کھلے اور چند کرتے پاجامے پہنے موٹے تازے لوگ باہر نکلے جو لباس کے اعتبار سے تو سفید پوش تھے مگر جانے کیوں ان کے کرخت چہرے ان کے لباس سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ سب خراماں خراماں چبوترے کی طرف بڑھے۔ سب سے آگے آگے مرزا تراب علی چل رہے تھے جو کالی شیروانی اور سفید چوڑی دار پاجامہ زیب تن کیے ہوئے تھے اور جن کے سر پر فر کی بھوری ٹوپی تھی۔ چبوترے پر کھڑے نوجوانوں نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور انھیں چبوترے پر بچھی کرسیوں پر بٹھایا۔ تراب علی کی کرسی سب سے اونچی تھی۔ ایک نوجوان نے مختصر طور پر مہمانوں کا تعارف کرایا۔ جلسے کی غرض و غایت بتائی۔ دو ایک چھوٹی موٹی تقریریں ہوئیں پھر تراب علی کے نام کا اعلان ہوا۔
تراب علی اپنی شیروانی کا دامن سنبھالتے مائک پر آئے۔ میدان میں خاموشی چھا گئی ادھر ادھر اچھلتے کودتے بچوں کو چند لوگوں نے ڈپٹ کر چپ کرایا۔ تراب علی نے گلا صاف کر کے کہنا شروع کیا۔ ’’بھرت پور کے باسیو! ہمارا نام تراب علی ہے۔ ہم اس گاؤں کے نہیں ہیں۔ اور نہ ہی اس سے پہلے کبھی ہم اس گاؤں میں آئے۔ ممکن ہے آپ نے پہلے کبھی ہمارا نام بھی نہ سنا ہو۔ مگر یقین جانیے ہم نے خواب میں بار ہا اس گاؤں کو دیکھا ہے آپ کے چہرے دیکھتے ہوئے ہمیں محسوس ہو رہا ہے ہم ایک ایک چہرے سے آشنا ہیں۔ ہم نے جب بھرت پور آنے کا قصد کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ بھرت پور کے باسیوں نے یہ طے کیا ہے کہ وہ صرف اسی امیدوار کو ووٹ دیں گے جو گوالا برادری سے تعلق رکھتا ہو گا۔ بڑا اچھا فیصلہ ہے۔ اس معاملے میں ہم بھی آپ کے حامی ہیں۔ مگر ہم آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اس حلقے سے چودہ امیدوار کھڑے ہیں اور ان میں ایک بھی گوالا یعنی آپ کی برادری سے تعلق نہیں رکھتا۔ میں بھی گوالا نہیں ہوں مگر میں جو بات کہنے جا رہا ہوں اسے ذرا غور سے سنیے۔ میں ایک سچا ہندوستانی ہوں ساتھ ہی ایک پکا مسلمان بھی ہوں۔ ایک طرف مجھے اس بات پر ناز ہے کہ میرے اجداد نے اس سرزمین سے اتنا پیار کیا ہے کہ اسے فردوس بریں بنا دیا۔ تو دوسری طرف مجھے فخر ہے کہ میں اس رسول کا کلمہ پڑھتا ہوں جس نے دائی حلیمہ کی آغوش میں پرورش پائی تھی۔ دائی حلیمہ کون تھیں؟ ایک گوالن ہی تو تھیں۔ میرا رسولؐ۔ میرا کالی کمبلی والا گوالا نہیں تھا مگر اس نے دائی حلیمہ کی بکریاں چرائی ہیں، اپنے مقدس ہاتھوں سے بکریوں کا دودھ دوہا ہے، ان کی مینگنیاں صاف کی ہیں۔ انہیں دلارا اور ٹِٹکارا ہے۔ بے شک وہ گوالا نہیں تھا مگر اس نے گوالے کے سارے کام انجام دیے ہیں اب آپ ہی بتائیے جب میرے نبیؐ دو جہاں کے سردار نے دودھ دوہا ہے اور بکریوں کے گلے کی نگہبانی کی ہے تو پھر ان کی امت کا ایک گنہ گار خادم بھلا اس کام سے اپنے آپ کو علاحدہ کیوں کر سمجھ سکتا ہے؟‘‘
چبوترے کے آس پاس کھڑے چند نوجوانوں نے مرزا تراب علی زندہ باد کا نعرہ لگایا۔
تراب علی نے ایک لمحہ توقف کیا پھر آگے اسی جوش سے بولے۔
’’آج اس بھرت پر میں۔۔۔ گوالوں کی اس چھوٹی مگر قدیم بستی میں۔۔۔ میں اپنے آقائے نامدار سرکار دو عالم حضرت محمدؐ کی خاکِ پا کے صدقے میں اپنے آپ کو گوالا برداری میں شامل کرنے کا شرف حاصل کرتا ہوں، میں آپ کے سامنے اپنے ہاتھوں سے دودھ دوہ کر یہ ثابت کر دوں گا کہ میں گوالا نہیں ہوں مگر گوالوں سے الگ بھی نہیں ہوں۔‘‘
ایک بار پھر تالیوں کی کڑکڑاہٹ سے میدان گونج اٹھا۔ تراب علی کہہ رہے تھے۔
’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس مبارک کام کے لیے بیسیوں حضرات اپنی اپنی گائیں، بھینسیں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس مرحلے میں بھی میرا نبیؐ میری رہنمائی کرے گا۔ یاد کیجیے خدا کے رسولؐ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینے پہنچے تھے تب مدینے کا ہر شخص انہیں اپنا مہمان بنانا چاہتا تھا مگر آپ نے اعلان کیا تھا کہ۔۔۔
’ہماری اونٹنی جس مکان کے سامنے ٹھہرے گی ہم اس کے گھر مہمان ہوں گے۔‘
اور آپؐ کی اونٹنی شہر کے آخر میں ایک غریب انصاری کے گھر کے سامنے رکی تھی اور آپؐ اسی صحابی کے مہمان ہوئے تھے۔۔۔ ہم بھی حضور کے نقش قدم پر چلیں گے اور گاؤں کے آخر میں جس گوالے کا گھر پڑے گا اسی کے آنگن میں دودھ دوہ کر خود کو آپ کی برادری کا ایک رکن، بنا لیں گے۔‘‘
ایک بار پھر مرزا تراب علی زندہ باد کا نعرہ لگا۔
تراب علی کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔
جلسہ ختم ہوا۔ تراب علی چبوترے سے نیچے اترے۔ پارٹی کے رضا کاروں نے انھیں گھیر لیا۔ ان کے گلے میں ان کی ناک تک پھولوں کی مالائیں پڑی ہوئی تھیں۔ تراب علی دونوں ہاتھ جوڑ کر سب کر نمسکار کرتے اور سب کے نمسکار قبولتے ایک طرف چلنے لگے۔ لوگ باگ بھی ایک جلوس کی شکل میں ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ ہر دس بارہ قدم پر پارٹی کے رضا کار ’’تراب علی زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ جلوس گاؤں کی اکلوتی بڑی سڑک سے گزر رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف لوگ اپنے اپنے گھروں کے سامنے کھڑے تجسس نگاہوں سے جلوس کو دیکھ رہے تھے۔ عورتیں کھڑکیوں اور نیم وا دروازوں کے پیچھے حیرت اور دلچسپی سے جلوس کا نظارہ کر رہی تھیں۔ تراب علی آگے آگے دونوں ہاتھ جوڑے سراپا، نمسکار بنے چل رہے تھے۔ سب کو یہی فکر تھی کہ دیکھیں تراب علی کس کے گھر چل کر دودھ دوہتے ہیں۔
آخر جلوس گاؤں کے باہر آ گیا۔ گاؤں کے باہر ہریجنوں کی بستی تھی۔ اب جلوس ہریجن واڑے سے گزر رہا تھا۔ تھوڑی دور چل کر ہریجن واڑہ بھی ختم ہو گیا اور تراب علی ایک بے حد شکستہ اور معمولی مکان کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے یہ مادھو گوالے کا مکان تھا جس کی دیواریں کچی مٹی کی تھیں اور جس کی چھت ناریل اور تاڑ کے پتوں سے چھائی ہوئی تھی۔ باہر اپنے مکان کے کچے چبوترے پر بیٹھا مادھو بیڑی پی رہا تھا۔ اس کی بیوی دیوار پر گوبر کے اپلے تھاپ رہی تھی۔ اور پاس ہی دروازے کے سامنے کھونٹے سے ایک چتکبری گائے بندھی ہوئی تھی۔ اس کی سیاہ پیشانی پر دوسینگوں کے بیچ میں سفید ہلال کا سا نشان بنا ہوا تھا۔ تراب علی نے مادھو کو پرنام کیا۔ مادھو بوکھلا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی بیوی نے بھی گھبرا کر اس ہجوم کو دیکھا اور اپنے گوبر سے سنے ہاتھوں ہی سے آنچل درست کرتی ہوئی گھر میں چلی گئی۔ تراب علی مادھو کے قریب آئے۔ اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور پلٹ کر گائے کو عقیدت اور پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
’’ساتھیو! ہم اسی گیّاں کا دودھ دوہیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں یہی گاؤں کا آخری مکان ہے۔‘‘ ادھر ادھر سے آوازیں آنے لگیں۔
’’ہاں یہی ہے۔۔۔ یہی ہے۔‘‘
مادھو ان سب کو حیرت اور خوف سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اتنے میں ایک رضا کار نے آگے بڑھ کر مادھو کو حقیقت حال سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اگر تراب علی نے اس کی گائے کا دودھ دوہ دیا تو اس کی یعنی مادھو کی قسمت ہی سنور جائے گی۔
مادھو مٹی کا مادھو بنا منہ کھولے آنکھیں پھاڑے ایک ایک کا منہ تک رہا تھا۔ پوری بات تو اس کی سمجھ میں نہیں آئی مگر وہ اتنا سمجھ گیا کہ اس کی گائے کا دودھ دوہنے کی بات ہو رہی ہے۔
وہ منع کرنا چاہتا تھا کیوں کہ ابھی صبح ہی اس نے گائے کا دودھ دوہا تھا۔ اس نے منع کرنے کے لیے ’نہیں‘ میں گردن ہلانی چاہی مگر اپنی عادت کے مطابق جلدی جلدی ’ہاں‘ میں گردن ہلا دی جو گردن پشتہا پشت سے ’ہاں‘ میں ہلنے کی عادی ہو وہ یکلخت ’نا‘ میں کیوں کر ہل سکتی تھی۔
رضا کاروں نے ایک دم سے ہو ہلا کیا کہیں سے چم چم کرتی پیتل کی ایک کلسی آ گئی۔ کوئی ایک بالٹی میں پانی لے آیا۔ تراب علی نے اپنی شیروانی کی دونوں آستینیں چڑھائیں اور مادھو کی گائے کے پیروں کے پاس بیٹھ گئے۔ ہجوم نے انھیں اور گائے کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ رضا کاروں نے ایک دوسرے کے ہاتھ تھام کر ایک حلقہ سا بنایا اور ہجوم کو آگے بڑھنے سے روکنے لگے۔ لوگ ایک دوسرے کے کاندھوں پر سے اچھل اچھل کر تراب علی کو دودھ دوہتا دیکھ رہے تھے۔ بعض لڑکے آس پاس کے درختوں پر چڑھ کر نظارہ کرنے لگے۔ تراب علی نے لوٹے میں پانی لیا پہلے اپنے ہاتھ دھوئے پھر گائے کے تھنوں پر پانی ٹپکایا۔ گائے ذرا کسمسائی۔ مگر تراب علی نے پچکار کر اسے شانت کیا۔ پیتل کی کلسی کو اس کی ٹانگوں کے نیچے رکھا اور کسی مشاق گوالے کی طرح دونوں ہاتھوں سے اس کے تھن سہلانے لگے۔ لوگ سانسیں روکے کھڑے تھے۔ سہلاتے سہلاتے تراب علی نے دفعتاً دونوں مٹھیاں کس کر جو زور سے کھینچا تو ’چرر ر‘ کی آواز کے ساتھ سانپ کی زبان کی طرح پتلی مگر پگھلی ہوئی چاندنی جیسی سفید دودھ کی دھار پیتل کی کلسی میں گری۔ کئی لوگوں کی زبان سے بے ساختہ، واہ نکلی۔ مجمع میں جیسے حیرت اور خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
تراب علی ’’چر چر۔۔۔ چرچر۔۔۔‘‘ دودھ دوہ رہے تھے اور چاروں طرف سے نعرہ ہائے تحسین کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔ مادھو یہ سب دیکھ رہا تھا وہ کہنا چاہتا تھا۔ ’’بس کرو بھائی، میری گیّاں ابھی بیائی ہے بچھڑے کے لیے تو کچھ دودھ رہنے دو۔‘ مگر وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ چپ چاپ کھڑا حیران آنکھوں سے تراب علی کو دودھ دوہتا دیکھتا رہا۔ جب کلسی تقریباً ایک تہائی بھر گئی تب تراب علی اپنے ہاتھ دھوتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک رضا کار نے آگے بڑھ کر تولیہ پیش کیا۔ تراب علی تولیہ سے ہاتھ خشک کرتے مادھو کی طرف مڑے۔
’’بھائی مادھو! ہم تمہارے بہت شکر گزار ہیں کہ تم نے ہمیں اپنی گیّاں کا دودھ دوہنے کا موقع فراہم کیا۔ تمہاری اس کشادہ دلی کا ذکر ہم ودھان سبھا میں کریں گے اور تمہیں زندگی بھر یاد رکھیں گے۔‘‘
پھر وہ مجمع کی جانب مڑ کر گویا ہوئے۔
’’بھائیو! اب تو آپ لوگوں کو یقین ہو گیا نا کہ تراب علی آپ کا اپنا بندہ ہے۔‘‘
بیشتر لوگ تو چپ رہے مگر پارٹی کے رضا کار ’جی ہاں‘ ’جی ہاں‘ کہتے ہوئے گردنیں ہلانے لگے۔ رضا کاروں نے مجمع کو ہٹا کر تراب علی کے لیے راستہ بنایا۔ اور تراب علی تیز تیز چلتے ہوئے اپنی کار میں جا کر بیٹھ گئے۔ پارٹی کے دوسرے لوگ بھی اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہو گئے۔ اور کاروں کا یہ قافلہ تراب علی زندہ باد کے نعروں کی گونج میں دھول اڑاتا ایک طرف کو روانہ ہو گیا۔ گاؤں کے بچے شور مچاتے تھوڑے دور تک کاروں کے پیچھے بھاگے مگر کاریں جلد ہی دور نکل گئیں۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ مادھو اپنی گائے کے پاس کھڑا اس غبار کی جانب دیکھ رہا تھا جس کے پیچھے تراب علی اور ان کی کاروں کا قافلہ روپوش ہو گیا تھا۔ گائے اپنی دم سے مکھیاں اڑاتی، کنوتیاں ہلاتی دھیرے دھیرے جگالی کر رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی لا تعلقی تھی اور اس کے پیروں کے پاس وہ پیتل کی کلسی لڑھکی پڑی تھی جس میں ابھی ابھی تراب علی نے دودھ دوہا تھا۔ کلسی کا دودھ فرش پر بہہ کر مٹی میں جذب ہو چکا تھا اور آس پاس مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ مادھو دھیرے دھیرے چلتا ہوا گائے کے پاس آیا پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔ گائے نے ایک جھرجھری سی لی۔ مادھو دوبارہ اپنے چبوترے پر آ کر بیٹھ گیا۔ مادھو کی گھر والی جو ابھی تک دروازے کی اوٹ سے سارا تماشہ دیکھ رہی تھی دروازہ کھول کر باہر آئی۔ اس کی گود میں ان کا تین سال کا کالا کلوٹا مریل سابچہ تھا۔ جس کے ہاتھ پاؤں سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے مگر پیٹ ڈھول پر مڑھے چمڑے کی ماند تنا ہوا تھا۔ بچہ متواتر ریں ریں کیے جا رہا تھا۔ بیوی نے مادھو سے پوچھا۔
’’کون تھے یہ لوگ؟‘‘
’’مالوم نئیں۔۔۔‘‘ مادھو نے جیب سے بیڑی نکالی۔
’’انہوں نے اپنی گیّاں کا دودھ کیوں دوہا۔۔۔؟‘‘
’’مالوم نئیں۔۔۔‘‘ مادھو نے بیڑی ہونٹوں میں دبا لی۔
’’تم نے پوچھا نئیں؟‘‘
’’پوچھا تھا۔۔۔ مگر انہوں نے جو کچھ بتایا میری سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔‘‘ مادھو نے بیڑی سلگا کر ایک گہرا کش لیا۔
’’ارے انہوں نے جبردستی اپنی گیّاں کا دودھ نکالا اور تم بولتے ہو میرے کو مالوم نئیں۔ اور اس پر جُلم یہ کہ بنا کھائے پئیے پورا دودھ گرا دیا اور چلے گئے۔‘‘
مادھو کچھ نہیں بولا۔ وہ خلاء میں دیکھتا بیڑی کے کش لے رہا تھا۔ اس کی بیوی تھوڑی دیر تک بک بک جھک جھک کرتی رہی جب دیکھا کہ مادھو ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے تو اپنے ریں ریں کرتے بچے کی پیٹھ پر دھپ لگائی اور پیر پٹکتی ہوئی اندر چلی گئی۔
ابھی سورج نصف النہار پر نہیں آیا تھا۔ بھرت پور کے چھوٹے سے بازار کی ساری دکانیں کھل گئی تھیں۔ جن کی کل تعداد چار چھ سے زیادہ نہیں تھی۔ روزانہ صبح سڑک کے کنارے سے سبزی بیچنے والی عورتیں اپنی ٹوکریاں تقریباً خالی کر چکی تھیں۔ بلکہ دو ایک نون تیل اور بچوں کے لیے چنا سینگ خرید کر اپنے گھروں کو سدھار بھی چکی تھیں۔ کاشی رام کے سدانند ہندو ہوٹل میں تھا مسن ایلوایڈیسن کے زمانے کا پرانا گراموفون بج رہا تھا۔ ’آہیں نہ بھری شکوے نہ کری، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا۔‘ کاشی رام کرسی پر بیٹھا کاؤنٹر ٹیبل پر اپنی انگلیوں سے بے آواز تال دے رہا تھا۔ ہوٹل میں چار پانچ میلی کچیلی میزیں لگی تھیں جن پر ڈھیر ساری مکھیاں بھن بھنا رہی تھیں۔ صرف دائیں کونے کی ایک میز پر بنڈی دھوتی پہنے دو لوگ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ہوٹل کا اکلوتا ویٹر چڈی بنیان پہنے، دائیں کاندھے پر میلا سا تولیہ ڈالے ایک کونے میں پیر پر پیر رکھے کھڑا گانے کی دھن پر اپنا گھٹنا ہلا رہا تھا۔ ہوٹل کے سامنے جمنا داس پان والے کی پان پٹّی کی دکان تھی۔ دکان میں ٹرانزسٹر پر کسی نئی فلم کا کوئی انتہائی شور انگیز گیت بج رہا تھا۔ سڑک کے کنارے املی کے درخت کے نیچے شمسو ٹانگے والا اپنے ٹانگے میں بیٹھے بیٹھے اونگھ گیا تھا۔ اور اس کے ٹانگے میں جُتی کنگال گھوڑی کنوتیاں پھٹپھٹاتی، اپنی دم سے بار بار مکھیاں اڑا رہی تھی۔ پاس ہی تین چار لونڈے ایک دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھے صبح تراب علی کے دودھ دوہنے والے واقعہ کو لے کر ہنسی ٹھٹھا کر رہے تھے۔
یکایک کہیں سے شنکھ پھونکنے کی آواز آئی۔ شنکھ کے فوراً بعد دھم دھم ڈھول بجنے لگا۔ لونڈے چونک چونک کر آواز کی سمت دیکھنے لگے۔ شمسو ہڑ بڑا کر نیند سے جاگا۔ جمنا داس نے ٹرانزسٹر کا کان اینٹھا۔ کاشی رام نے بھی گراموفون بند کر دیا۔ اتنے میں سامنے سے بیل گاڑیوں کا ایک جلوس آتا دکھائی دیا۔ سب سے آگے جو بیل گاڑی تھی اس پر ایک شخص کھڑا بھونپو منہ سے لگائے چیخ رہا تا۔
’’بھرت پوپر کے باسیو! کبھی کبھی ایک صحیح فیصلہ اتہاس کا رخ موڑ دیتا ہے۔ اور اب سمے آ گیا ہے کہ آپ پنڈت اونکار ناتھ کو ووٹ دے کر ایک نئے اتہاس کی شروعات کریں۔ پنڈت جی بھرت پور والوں کے لیے اجنبی نہیں ہیں۔ پنڈت جی کے پتا شری پنڈت ہزاری پرساد کے نام سے کون واقف نہیں۔ یہ وہی ہزاری پرساد ہیں جنہوں نے آنند پور میں مہالکشمی کا بھویہ مندر بنایا ہے اور جس کی سالانہ جاترا میں آپ لوگ بھی شریک ہوتے ہیں۔ پتاشری تو دھرم کی سیوا کر رہے ہیں مگر پنڈت اونکار ناتھ ’لوک سیوا‘ میں وشواس رکھتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی آواز ودھان سبھا تک پہنچے تو پنڈت اونکار ناتھ ہی کو ووٹ دیجئے کیوں کہ پنڈت اونکار ناتھ کی آواز آپ کی آواز ہے۔ پنڈت جی کا نشان ہے ’رتھ‘ رتھ جو ہمارے دھرم، ہماری سنسکرتی اور ہمارے راشٹر کا پرتیک ہے۔ ’’پنڈت اونکار ناتھ زندہ باد؟‘‘ اس بیل گاڑی کے پیچھے تقریباً بیس پچیس بیل گاڑیاں چلی آ رہی تھیں۔ ہر گاڑی میں دس دس بارہ بارہ نوجوان کھڑے چیخ چلا رہے تھے، ناچ رہے تھے، اودھم مچا رہے تھے۔ ایک بیل گاڑی پر ایک بہت بڑے رتھ کا ماڈل بنا ہوا تھا، اس رتھ میں پنڈت اونکار ناتھ سفید دھوتی کرتا پہنے، ماتھے پر تلک لگائے، گلے میں پھولوں کی مالا ڈالے، ہونٹوں پر ایک عدد دلآویز مسکان چپکائے دونوں ہاتھ جوڑے کھڑے تھے۔ اور جھک جھک کر سڑک کے دونوں طرف کھڑے لوگوں کو پر نام کر رہے تھے۔
گاؤں کے بے کار نوجوان اور آوارہ چھوکرے گاڑیوں کے آس پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔ ایک بار پھر گھروں کی کھڑکیوں ورانڈوں اور مکانوں کے چھجوں کے نیچے انسانی سروں کا جنگل اگ آیا۔ ڈھم ڈھم ڈھول بج رہا تھا۔ شنکھ پھونکے جا رہے تھے اور بار بار پنڈت اونکار ناتھ کی جے جے کار ہو رہی تھی یکایک پنڈت جی نے اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے۔ دفعتاً ڈھول اور شنکھ خاموش ہو گئے، نعرے رک گئے۔ اور چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ ایک نوجوان نے لپک کر بھونپو پنڈت جی کے سامنے کر دیا اور پنڈت جی نے گلا صاف کر کے کہنا شروع کیا۔
’’بھرت پور کے باسیو! ہمارا آپ کا سمبندھ بہت پرانا ہے۔ میرا پریچئے تو ابھی ابھی دیا جا چکا ہے۔ میں اپنے بارے میں زیادہ باتیں کرنا یا سننا پسند نہیں کرتا۔ میں اپنا اصلی پریچئے تو آپ لوگوں کو اسی وقت دے سکوں گا جب آپ مجھے چن کر ودھان سبھا میں بھیجیں گے۔ میں جانتا ہوں بھرت پور والے بڑے کام کا جی لوگ ہیں وہ فالتو راج نیتی میں اپنا سمے نشٹ نہیں کرتے مگر یہ بھی سچ ہے کہ راج نیتی کے بنا اس دیش کا کاروبار نہیں چل سکتا۔ ایک صاف ستھری حکومت بنانے کے لیے آپ جیسے بے غرض لوگوں کو آگے بڑھنا ہو گا۔ دو گھنٹے پہلے جو مہاشے یہاں بھاشن دینے آئے تھے ان کا بھرت پور سے دور دور تک کوئی سمبندھ نہیں۔ میں کہتا ہوں صرف دودھ دوہنے سے کوئی جاتی برادری والا نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے محمد پیغمبر کی مثال دی کہ وہ بکریاں چراتے تھے اور دودھ دوہتے تھے اس پر ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر میں پوچھتا ہوں ان مثالوں کے لیے آخر سمندر پار جانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارے پرانوں میں سب سے بڑی مثال تو ماکھن چور نند لال ہری گوپال کی ہے۔ مجھ بتائیے شری کرشن سے بڑا گوالا اس دھرتی پر پیدا ہوا ہے؟ نہیں نا۔۔۔ تو پھر سن لیجیے ہمارا یعنی پنڈت اونکار ناتھ کا رشتہ سیدھے کرشن گوپال ہی سے جڑتا ہے۔‘‘
’پنڈت اونکار ناتھ کی جے‘ کے نعرے سے پورا میدان گونج اٹھا۔ پنڈت جی لمحہ بھر کو رکے پھر بولے۔ ’’ہم اسی وقت چل کر اپنے ہاتھوں سے آپ کو دودھ دوہ کر بتائیں گے۔ اور اسی گؤ ماتا کا دودھ دوہیں گے جس کا اس سے پہلے دوہا گیا۔ ارے پرائے آ کر ہماری ماتا کا دودھ دوہ لیں اور ہم جو اس کی سنتان ہیں اپنی ماتا کے کشیر امرت سے محروم ہو جائیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘
ایک بار پھر بیل گاڑیوں کا جلوس مادھو کے گھر کی طرف بڑھا۔ چھوکرے بالے گاڑیوں کے پیچھے ہولیے کچھ اور لوگ بھی جو مفت کی تفریح کے دلدادہ تھے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر مادھو کے گھر کی طرف چلے۔ ڈھول بجاتا، شنکھ اور نعرے لگاتا ہوا جلوس مادھو کے گھر کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔ مادھو جلوس کو دیکھ کر ایک بار پھر سٹپٹا گیا۔ سٹپٹا کر کھڑا ہو گیا۔ پنڈت اونکار ناتھ دھوتی کا چھور سنبھالتے اپنی رتھ گاڑی سے اترے۔ مادھو کے پاس آئے۔ مادھو منہ کھولے آنکھیں پھاڑے انھیں دیکھ رہا تھا۔ پنڈت جی سفید براق لباس میں آکاش دوت معلوم ہو رہے تھے۔ ان کی چوڑی روشن پیشانی پر سرخ تلک ان کی شخصیت کو مزید جاذب نظر بنا رہا تھا۔ پنڈت جی مادھو کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ پھر دونوں ہاتھ جوڑ کر بولے۔
’’مادھو! ہم تم سے پرارتھنا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی گیّاں کا دودھ دوہنے کی اجازت دو۔ ہم اپنے ہاتھوں سے دودھ دوہ کر یہ ثابت کر دینا چاہتے ہیں کہ اصلی گوالے ہم ہیں۔‘‘
اوراس سے پہلے کہ مادھو ہاں یا نا کہتا پھر کوئی ایک پیتل کا بھانڈا لے آیا۔ پنڈت اونکار ناتھ نے کہا۔ ’’ہم دودھ دوہنے سے پہلے گؤ ماتا کی شدھی کریں گے۔ پرائے ہاتھوں کے لمس سے ماتا اپوتر ہو گئی ہے۔‘‘ ترنت کوئی دوڑ کر مندر کے پجاری سے پنچ پاتر میں گنگا جل لے آیا۔ پنڈت اونکار ناتھ نے اپنے گلے سے سونے کی زنجیر نکالی اور اسے گنگا جل میں ڈبویا، پھر خود زیر لب کوئی منتر پڑھتے ہوئے گائے پر گنگا جل کے چھینٹے دینے لگے۔ تھوڑا سا گلال گائے کی پونچھ پر لگایا۔ اور دودھ دوہنے بیٹھ گئے جو صبح سے دو دفعہ دوہا جا چکا تھا۔ تھنوں میں ہاتھ لگاتے ہی گائے نے پچھلا پاؤں جھٹکا اور بھانڈا لڑھک کر دور جا پڑا۔ پنڈت اونکار ناتھ منتر بُدبُداتے ہوئے اٹھے گائے کے پٹھے پر ہاتھ رکھ کر اسے چمکارا۔ دونوں ہاتھ جوڑ کر گائے کو پرنام کیا۔ ایک رضا کار نے بھانڈا لا کر پھر گائے کے تھنوں کے پاس رکھ دیا اور پنڈت جی دوبارہ دودھ دوہنے بیٹھ گئے۔ گائے کو پچکارتے پچکارتے تھنوں کو تھام لیا۔ گائے نے کوئی تعرض نہیں کیا۔ تھوڑی دیر تک اس کے تھنوں کو سہلا کر انھوں نے جو کھینچا تو پتلی سفید دودھ کی دھار سیدھی بھانڈے میں گری، ہر ہر مہادیو کے نعرے سے بھرت پور گونج اٹھا۔ تقریباً پاؤ بھانڈا دودھ دوہنے کے بعد پنڈت جی اٹھ کھڑے ہوئے۔ پنڈت جی نے محسوس کر لیا کہ گائے کے تھنوں میں اب دودھ کا ایک قطرہ بھی باقی نہیں ہے۔ ادھر گائے بھی دوبارہ پاؤں جھٹکنے لگی تھی۔
کچھ لوگوں نے بڑھ کر پنڈت جی کے گلے میں پھول مالائیں ڈالیں۔ پنڈت جی نے وہ ساری پھول مالائیں گائے کہ گلے میں ڈال دیں۔ ایک بار پھر پنڈت جی کی جے جے کار ہوئی۔ پنڈت جی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’مادھو کہاں ہے؟‘‘
’’وہ کھڑا ہے۔‘‘ کسی نے اشارہ کیا۔
مادھو اپنے شکستہ مکان کے دروازے میں حیران و پریشان کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کے ہونٹ ایک دوسرے پر اس قدر سختی سے جمے ہوئے تھے کہ لگتا تھا اب وہ قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔ پنڈت جی بڑی اپنائیت سے آگے بڑھے اور مادھو کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔
’’دھنیہ ہو مادھو! تم اور تمہاری گائے آج پورے راشٹر کی آتما کا پرتیک بن گئے ہیں۔‘‘
مادھو کچھ نہ بولا۔ وہ بولتا بھی کیا۔ پوری صورت حال اس کے لیے نا قابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ پنڈت اونکار ناتھ اپنی رتھ گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔ بیل گاڑیوں کا قافلہ نعروں کی گونج میں دھول اڑاتا، شنکھ بھونکتا، ڈھول بجاتا ایک طرف کو روانہ ہو گیا۔ بیل گاڑیوں کے ساتھ آئے ہوئے گاؤں والے اور چھوکرے بالے بھی واپس اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
اب سورج مغرب کی طرف جھکنے لگا تھا اور سایے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ لوگ دوپہر کا بھوجن کر کے چارپائیوں اور انڈوں اور آنگنوں میں پیڑوں کے نیچے بیٹھے بیڑی اور چلم پیتے اور تمباکو چونا کھاتے ہوئے آج کے جلسوں اور جلوسوں اور نیتاؤں کے دودھ دوہنے کی باتوں کو لے کر اپنی اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق خیال آرائیاں کر رہے تھے۔ کچھ لوگ مرزا تراب علی کی بھلمنساہٹ اور سادگی کی تعریف کر رہے تھے اور کچھ پنڈت اونکار ناتھ کے علمی گھرانے اور ان کی قومی اسپرٹ کے گن گا رہے تھے۔ ادھر مادھو اپنے گھر کے دروازے کے سامنے فکر مند بیٹھا تھا۔ آج اس نے دوپہر کی روٹی بھی ٹھیک سے نہیں کھائی تھی۔ بیوی نے جوار کی دو موٹی روٹیوں کے ساتھ بینگن کا ساگ پروسا تھا۔ آدھی پیاز کی ڈلی بھی رکھی تھی مگر وہ بڑی مشکل سے صرف ایک روٹی اور تھوڑا سا ساگ حلق سے اتار سکا۔ پھر غٹ غٹ آدھا لوٹا پانی پی کر دھوتی سے منہ پونچھتا دہلیز میں آ کر بیٹھ گیا تھا۔ سامنے بندھی گائے کو غور سے دیکھا گائے اپنے آگے پڑی خشک گھاس کی پتیوں کو دھیرے دھیرے چبا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں کوئی بھاؤ نہیں تھا۔ مادھو کی نگاہ اس کے تھنوں پر پڑی۔ اسے لگا آج اس کے تھن معمول سے زیادہ لٹکے ہوئے ہیں۔ مادھو نے اسے تشویش سے دیکھا۔ بیڑی کے دو تین کش لیے اور گھٹنوں میں سر ڈال کر بیٹھ گیا۔ بیوی نے روٹی کھائی، بچے کو روٹی کھلائی۔ برتن سمیٹ کر ایک طرف رکھے اور ایک کونے میں بوریا ڈال کر بچے کو پہلو میں لیے لیٹ گئی۔ اس نے مادھو سے اس کی چنتا کا سبب بھی نہیں پوچھا۔ پوچھنا بھی فضول تھا۔ مادھو ایک ہی جواب دیتا۔ ’’مالوم نئیں۔۔۔‘‘
مادھو دروازے میں بیٹھے بیٹھے اپنے گھٹنے پر ٹھوڑی رکھے اونگھ گیا۔
اتنے میں چاروں طرف سے تیز ہوا کے جھکّڑ چلنے لگے۔ جیسے زبردست آندھی آ رہی ہو۔ مادھو کا شکستہ مکان خشک ٹہنی کی طرح کانپنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ بے شمار مویشی جن میں گائیں، بیل، بھینسیں اور سانڈ بھی شامل تھے دندناتے چلے آ رہے ہیں۔ تب اسے پتا چلا کہ در اصل وہ آندھی نہیں تھی بلکہ ان جانوروں کے دوڑنے کی دھمک سے زمین کانپ رہی ہے۔ مگر یہ کیا؟
ان جانوروں میں سب سے آگے اس کی اپنی گائے تھی اس کی آنکھیں الٹی ہوئی تھیں، نتھنے پھڑ پھڑا رہے تھے اور منہ سے چھاگ نکل رہا تھا۔ وہ سر کو جھکائے دونوں سینگیں آگے کیے سیدھے، اسی کی طرف دوڑتی چلی آ رہی تھی۔ گویا صرف ایک ہی ٹکر میں اسے دھرتی کے دوسرے سرے پر اچھال دے گی۔ وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اسے رکنے کا اشارہ کیا مگر گائے کی رفتار میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔ گائے قریب آتی جا رہی تھی۔ قریب اور قریب مارے خوف کے اس کے حلق سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکل گئی۔ اچانک اسے ٹھسکا لگا اور اس نے کھانستے ہوئے آنکھیں کھول دیں۔ سامنے گائے اسی طرح کھونٹی سے بندھی دم سے مکھیاں اڑاتی آہستہ آہستہ منہ چلا رہی تھیں۔ مادھو نے اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھا اور ہونٹوں پرد و انگلیاں رکھ کر انگلیوں کی جھری میں سے منہ میں بھر آئے لعاب کو ’پچ‘ سے تھوکا۔
اچانک اسے ایک بار پھر لوگوں کے نعروں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے کسی متوحش جانور کی طرح ادھر ادھر نگاہ ڈالی۔ نعروں کی آواز قریب آتی جا رہی تھی۔ تبھی اس نے دیکھا کہ گاؤں کی اسی اکلوتی سڑک پر ایک اور جلوس چلا آ رہا ہے۔ آگے آگے کوئی شخص دھوتی کرتا پہنے گلے میں پھولوں کی مالائیں ڈالے چل رہا تھا اور اس کے پیچھے کچھ لوگ مٹھیاں بھینچ بھینچ کر نعرے لگا رہے تھے۔ چند لمبے بالوں اور دبلے جسموں والے نوجوان کسی چالو فلم کی دھن پر ناچ رہے تھے۔
مادھو ایک دم سے کھڑا ہو گیا۔ جلوس والے اس کے گھر کے سامنے آ کر رک گئے۔ دھوتی کرتے والے نے دونوں ہاتھ جوڑ کر مادھو کو پرنام کیا اور اپنے زردی مائل دانتوں کی نمائش کرتا خواہ مخواہ ’ہی ہی‘ کرنے لگا۔ پھر بولا۔
’’مادھو بھائے! میرا نام بابو راؤ ہے۔ گریب لوگوں کی سیوا کے واسطے الیکشن میں کھڑا ہوں۔ میں بھی پہلے تمہارے مافک گریب تھا۔ ابھی اپنے کو بھگوان نے دو پیسہ دیا ہے پن میں گریبی کو نہیں بھولا۔۔۔ گریب ہی گریب کے کام آتا ہے۔ یہ پیسے والے ایک نمبر کے حرامی ہوتے ہیں۔ گریب کا کھون چوستے ہیں۔ سالے جونک ہوتے ہیں جونک۔۔۔ میں نے سنا ہے میرے سے پہلے ادھر دو نیتا لوگ آ کر گئے۔ تمہاری گائے کا دودھ بھی نکالا۔ دونوں پاکھنڈی تھے۔ کھالی دودھ نکالنے سے کوئی گوالا نہیں ہو جاتا۔ ارے میں تو بچپن سے گؤ ماتا کی سیوا کرتا آیا ہوں، اس کا گوبر اٹھانا اسے نہلانا، اس کا دودھ نکالنا اپنی گھٹی میں پڑا ہے۔ یہی اپنا کام ہے۔ دودھ کیسے نکالا جاتا ہے میرے سے پوچھو۔۔۔ مادھو بھائے میرے کو اپنی گائے کا تھوڑا سا دودھ نکالنے دو۔۔۔‘‘
مادھو نے ترنت بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’نہیں، بھگوان کے لیے۔۔۔ اب اور نہیں۔۔۔ گائے کے تھن میں اب ایک بوند بھی دودھ نہیں ہے۔ میں اب اسے ہاتھ لگانے نہیں دوں گا۔‘‘
’’مادھو بھائے! بات کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اگر میں نے تمہاری گائے کا دودھ نہیں نکالا تو بڑی بے اجّتی ہو گی کیوں کہ وہ لوگوں نے تمہاری گائے کا دودھ نکالا ہے۔ میں تھوڑا سا نکالوں گا جادا نہیں۔۔۔ مادھو بھائے! گریب کی اجّت گریب کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔‘‘
مادھو نے بہت منع کیا مگر بابو راؤ ہاتھ جوڑ کر ایک ہی بات دوہراتا رہا۔
’’گریب کی اجّت گریب کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔‘‘ بابو راؤ کے ساتھیوں نے بھی مادھو کو سمجھایا۔ دو چار اسے گھیر کر کھڑے ہو گئے۔ ہر کوئی اسے سمجھا رہا تھا۔ وہ بار بار منع کر رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، انھیں کیسے سمجھائے کیسے منع کرے کیوں کہ وہ تو اس کی سن ہی نہیں رہے تھے صرف اپنی ہی کہے جا رہے تھے۔
پھر پتا نہیں کب اور کیسے ایک لوٹا منگوا لیا گیا۔ اور مادھو نے دیکھا کہ بابو راؤ اس کی گائے کے پیروں کے پاس بیٹھا اسے پچکار رہا ہے۔ مادھو لوگوں کے نرغے میں گھرا ایک عجیب سی بے بسی کے ساتھ یہ سب دیکھ رہا تھا۔ گائے بے چینی سے پچھلے پاؤں جھٹک رہی تھی۔ بار بار دم ہلا رہی تھی۔ دائیں بائیں سینگ چلا رہی تھی۔ مگر بابو راؤ کافی ضدی تھا۔ اس نے کسی نہ کسی طرح اس کے تھنوں سے تھوڑا سا دودھ نچوڑ ہی لیا۔ بابو راؤ کے چھوکرے ایک بڑا سا دائرہ بنا کر ’’گویندا آلا رے آلا‘‘ گانے لگے۔۔۔ مادھو آنکھیں پھاڑے یہ سب دیکھتا رہا۔ پھر جانے کب بابو راؤ نے اسے دھنیہ واد کہا۔ کب وہ لوگ وہاں سے رخصت ہوئے۔ مادھو کو کچھ بھی یاد نہیں۔ جب اس کے حواس ذرا درست ہوئے تو اس نے دیکھا کہ سب لوگ جا چکے ہیں اور پچھم کی طرف سورج چند گز اور جھک گیا ہے اور پہاڑی کے پیچھے جیسے کسی نے بہت بڑا الاؤ روشن کر دیا ہے۔ پھر اس نے اپنی گائے پر نگاہ ڈالی اور ایک دم سے چونک گیا۔ گائے اب زمین پر بیٹھ چکی تھی بلکہ لیٹ چکی تھی۔ اس کا جگالی کرتا منہ بھی بند تھا اور اس کی سفید شیشہ آنکھوں کے ڈھیلے کافی پھیل گئے تھے۔ اس نے اس کے تھنوں کی طرف دیکھا۔ تھن سوجے ہوئے لگ رہے تھے اور رنگ بھی گہرا گلابی ہو گیا تھا۔ اسے لگا اگر اب کے انھیں کسی نے ذرا سا بھی چھیڑا تو بجائے دودھ کے خون کے سرخ سرخ قطرے ٹپکنے لگیں گے۔ وہ گائے کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اس کا ماتھا سہلانے لگا۔ پھر قریب پڑی خشک گھاس کے چند تنکے اس کی طرف بڑھائے گائے گھاس کھانے کی بجائے اس کا ہاتھ چاٹنے لگی۔ مادھو کا دل بھر آیا۔ اور وہ منہ سے چ۔۔۔ چ۔۔۔ کی آواز نکالتا ہوا اسے پچکارنے لگا۔۔۔ جانے وہ کتنی دیر تک گائے کے پاس بیٹھا اسے پچکارتا رہا۔ شام کے سایے لمبے ہونے لگے تھے۔ آسمان پر بگلوں کی ایک ڈار اڑتی ہوئی کسی طرف کو جا رہی تھی۔ پہاڑ اور جنگل سے ڈھور لوٹ رہے تھے۔ گڈریے چھوکروں کی ایہہ، ایہہ، ٹر، ٹر، ٹر کی آوازیں آ رہی تھیں۔ مادھو گائے کے پاس سے اٹھ کر دوبارہ اپنی دہلیز پر آ کر بیٹھ گیا۔ اس کی خوف زدہ نظریں گاؤں کی سڑک پر جمی ہوئی تھیں۔۔۔ اگرچہ سڑک پر دور تک کوئی راہ گیر دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر نہ جانے کیوں اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
٭٭٭