رات اپنی پوری دہشت ناکی کے ساتھ شہر پر چھائی تھی۔ سڑکوں اور گلیوں میں اتنا اندھیرا تھا گویا سارا شہرسیاہ کمبل تانے سو رہا ہو۔ چاروں طرف ایک بھیا نک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سردی کی شدت سے جسم کا خون برف ہوا جا رہا تھا، کہیں بھی کسی قسم کی کوئی آواز نہیں تھی صرف میرے بوٹوں کی کھٹ کھٹ سے فضا میں ہلکا سا ارتعاش تھا۔ اس سناٹے میں یہ کھٹ کھٹ سماعت پر بہت گراں گزر رہی تھی۔ دور کسی کتے کے رونے کی آواز آئی اور میں نے ایک جھر جھری سی لی۔ پیروں میں ہلکی سی لرزش ہوئی مگر میرے قدم تیزی سے بڑھتے رہے میں نے اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نظر ڈالی پونے نو بج رہے تھے۔ کرفیو لگنے میں صرف پندرہ منٹ باقی تھے اور گھر ابھی دور تھا۔ میری رفتار از خود مزید تیز ہو گئی۔
سڑک پر جگہ جگہ بسوں کی کھڑکیوں کے شیشے اور سوڈا واٹر کی بوتلوں کی کرچیں بکھری پڑی تھیں۔ رات کے اندھیرے میں یہ کانچ کے ٹکڑے زمین سے رستے آنسوؤں کی مانند چمک رہے تھے۔ بائیں طرف فٹ پاتھ سے لگ کر ایک جلی ہوئی کار کا ڈھانچہ نظر آ رہا تھا۔ اس کے انجن سے ابھی تک دھواں نکل رہا تھا۔ سڑک کے کنارے لگے لیمپ پوسٹوں کے سارے بلب یا تو پھوڑ دیے گئے تھے یا چرا لیے گئے تھے اور یہاں سے وہاں تک سڑک اس دلہن کی طرح اداس پڑی تھی، جس کا سہاگ اجڑ گیا ہو، دائیں طرف کی فٹ پاتھ پر صرف ایک مر کری بتی روشن تھی جس کا اجالا اور بھی بھیانک لگ رہا تھا۔
اچانک مجھے ٹھوکر لگی اور میں منھ کے بل گرتے گرتے بچا بیچ سڑک پر بڑے بڑے پتھر بکھرے پڑے تھے۔ جو شاید ٹریفک کو روکنے کے لیے ڈالے گئے تھے۔ میں بڑی دیر سے سگریٹ کی طلب محسوس کر رہا تھا۔ جیب میں سگریٹ کی ڈبیا اور ماچس بھی رکھی تھی، مگر ایک انجانا خوف مجھے سگریٹ سلگانے سے روک رہا تھا۔ میرے دونوں ہاتھ پتلون کی جیبوں میں ٹھنسے تھے۔ میری انگلیوں نے سگریٹ کی ڈبیا کو چھوا، مگر میں نے سگریٹ نہیں جلائی۔ اپنے خشک ہونٹوں پر صرف زبان پھیر کر رہ گیا۔ سردی میرے خوف کی طرح لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی اور میں سوکھے پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔
دفعتاً میرے بائیں طرف ایک لٹی ہوئی دکان سے ایک بلی فٹ ہاتھ پر کودی۔ میں ٹھٹھک گیا۔ میرا بوٹ ایک جلتی ہوئی لکڑی سے ٹکرایا، اس میں سے کچھ چنگاریاں نکلیں۔ پاس ہی ایک جلے ہوئے باکڑے کا ڈھانچہ کھڑا تھا، اس میں اب تک انگارے دہک رہے تھے۔ میں فوراً پہچان گیا، یہ لالو لنگڑے کاپی۔ سی او تھا جس سے اکثر میں فون کیا کرتا تھا۔ میرے قدم مزید تیزی سے اٹھنے لگے۔ میں جلد از جلد اپنے گھر پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اس وقت میری نظر میں اپنی چھوٹی سی کھولی سے بڑھ کر کوئی مقام محفوظ و مامون نہیں تھا۔
میں نے پھر گھڑی پر نظر ڈالی نو بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ دور کسی پولیس کے سپاہی نے سیٹی بجائی میرا دھڑکتا دل یکبارگی پھر زور سے دھڑکا۔ اب میں اتنی تیزی سے چل رہا تھا کہ میرے چلنے پر دوڑنے کا گمان ہو سکتا تھا۔ میں خوف زدہ نگاہوں سے دائیں بائیں بھی دیکھتا جا رہا تھا۔ سڑک کے دونوں طرف موت کا سا سناٹا تھا کہیں بھی کسی قسم کی آہٹ تک نہیں تھی آسمان پر اکا دُکا تارے دکھائی دے رہے تھے مگر چاند کا کہیں پتا نہیں تھا۔ میں سوچنے لگا شاید فسادیوں نے پتھر مار کر چاند کا فانوس بھی نہ توڑ دیا ہو، یا کسی بہت بڑے جادو گر نے اس جیتے جاگتے شہر کی روح کھینچ لی ہو۔ پورا شہر کسی مر گھٹ کی طرح سنسان پڑا تھا۔ اب میں شیوا جی چوک ہے پر آ گیا تھا۔ اس کے دائیں طرف کی گلی میرے محلے کو جاتی تھی۔ گلی کے موڑ پر مدراسی کا وہ ہوٹل تھا جو تین روز سے بند تھا۔ یہاں کا مسالہ ڈوسا بہت مشہور تھا۔
میں گلی میں اتنی تیزی سے مڑا کہ اندھیرے میں کھڑے بجلی کے کھمبے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ ابھی میں مشکل سے دس پندرہ قدم چلا ہوں گا کہ مجھے گلی کے نکڑ پر ایک سایہ دکھائی دیا۔ میرے قدم ٹھٹھک گئے۔ میں نے تاروں کی ملگجی روشنی میں دیکھا وہ سایہ بھی جہاں تھا وہیں رک گیا ہے۔ میرے جسم میں ایک لرزش سانپ کی طرح لہرا گئی اور میں نے محسوس کیا کہ اس خون کو منجمد کر دینے والی سردی میں بھی میری پیشانی پسینے سے بھیگ گئی ہے۔ میرے ہونٹ پھڑپھڑائے۔ شاید میں پوچھنا چاہتا تھا:
’’کون ہے؟‘‘
مگر آواز کا پنچھی حلق کے اندر رہی چھٹپٹا کر رہ گیا۔ پتلون کی جیبوں میں اچانک میری انگلیاں کانپیں اور پسینے سے ہتھیلیاں بھیگ گئیں۔ میری آنکھوں میں وہ ساری خبریں بجلی کی طرح کوند گئیں جو پچھلے تین دنوں سے اخباروں میں شائع ہو رہی تھیں، یاٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہو رہی تھیں۔ لوٹ مار، آتش زنی، چھرے بازی اور قتل و غارت گری کی دل دہلا دینے والی خبریں۔ میری آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔
موت اور مجھ میں صرف چار قدموں ہی کا تو فاصلہ تھا، حلق میں میری آواز زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔ میں کہنا چاہتا تھا:
’’مجھے مت مارو خدا کے لیے مجھے مت مارو میرے بیوی بچے میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ میری بوڑھی ماں میری راہ دیکھ رہی ہو گی۔ یہ میری گھڑی، بٹوا، انگوٹھی، پین، سب لے لو۔ مجھے چھوڑ دو۔۔۔ چھوڑ دو۔‘‘
مگر ہزار کوشش کے باوجود میرے حلق سے کوئی آواز نہیں نکل سکی، بس ہونٹ پھڑپھڑاتے رہے۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا بٹوا اور گھڑی نکالی اور دو قدم آگے بڑھا۔ ایک ایک قدم پہاڑ کی طرح بھاری تھا۔ سائے میں بھی حرکت ہوئی میں سمجھ گیا کہ وہ اپنی جیب سے چھرا نکال رہا ہو گا۔ میں نے اضطراری طور پر اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ لیا۔ خوف سے پیٹ کے اندر آنتیں تک سکڑ گئی تھیں۔
سائے نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے یقیناً وہ جھپٹ پڑنے کے لیے تیار تھا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے مارے خوف کے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنی پوری طاقت سے کچھ کہنے کے لیے ہونٹ کھولے۔ مگر اچانک مجھے محسوس ہوا میرے حلق میں کانٹے سے اگ آئے ہیں اور خوف و دہشت سے مجھ پر لرزہ طاری ہو گیا ہے۔ میرے قدموں کے نیچے زمین بھی میرے وجود کی طرح کانپ رہی تھی۔ میرے کانوں میں آواز آئی:
’’مجھے نہ مارو۔۔۔ بھگوان کے لیے مجھے نہ مارو یہ میرا بٹوہ گھڑی، پین سب لے لو میں تمہارے پاؤں پڑتا ہوں۔ مجھے مت مارو۔‘‘
میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں کیوں کہ وہ آواز میری تو نہیں تھی۔ میں نے دیکھا کہ میرے قدموں پر سر جھکائے کوئی شخص گڑگڑا رہا ہے اور اس کے کانپتے ہاتھ میری لرزتی ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں۔
٭٭٭