کنیز چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی چل رہی تھی۔ دھوپ سے بچنے کے لیے اس نے پلو کو سر اور گردن کے گرد لپیٹ لیا تھا۔ اس کے باوجود گرمی سے اس کا چہر تمتما رہا تھا۔ وہ بائیں طرف ہٹ کر ایک پرانی شکستہ بلڈنگ کے سائے میں چلنے لگی۔ بلڈنگ کی دیوار پر کچھ پوسٹر چپکے ہوئے تھے۔ جو اب کہیں کہیں سے پھٹ چکے تھے۔ ان پوسٹروں کو وہ آتے جاتے پہلے بھی کئی بار دیکھ چکی تھی۔ پوسٹروں میں رام، سیتا اور لکشمن کی تصویریں بنی تھیں اور ان کی پیشانی پر ’’جے شری رام‘‘ لکھا ہوا تھا۔
اتنے میں اسے کلو کی دکان کا بورڈ نظر آ گیا۔ ’’ہندوستان مٹن شاپ۔‘‘
کنیز ایک ہاتھ سے پنا پلو سنبھالتی ہوئی دوکان میں داخل ہو گئی۔
کنیز کو دیکھتے ہی کلو قصائی نے ہانک لگائی۔
’’ارے کنیز تو؟.... آ جا.... آ جا....‘‘
پھر اس کے سینے تک ابھرے ہوئے پیٹ کی طرف دیکھ کر بولا۔
’’مگر تو اس حال میں کیوں چلی آئی.... غلام کہاں ہے؟‘‘
’’وہ کام پر گئے ہیں ...‘‘
’’ارے چالی محلے میں لڑکے بالے مر گئے ہیں کیا؟ کسی لونڈے کو بھیج دیتی...‘‘
’’کوئی دکھائی نہیں دیا...‘‘
’’مگر تجھے اس حال میں زیادہ چلنا پھرنا نہیں چاہیے ...‘‘
’’نہیں کلو بھیا! ڈاکٹر ایسے میں زیادہ چلنے پھرنے کو بولتے ہیں۔‘‘ اس نے قدرے شرماتے ہوئے نظریں جھکا لیں۔
’’اچھا... اچھا.... چل بول کیا چاہیے ...‘‘
’’پاؤ کیلو قیمہ چاہیے ....‘‘
’’اچھا ادھر پھلاٹ پر بیٹھ جا۔ ابھی تول دیتا ہوں۔‘‘
’’نہیں۔ میں ٹھیک ہوں .... تم دے دو...‘‘
کلو کے سامنے کلو ڈیڑھ کلوں کوٹا ہوا قیمہ رکھا تھا۔ اس نے اسی میں سے مٹھی بھر قیمہ ترازو میں ڈال کر پاؤ کیلو قیمہ تول دیا۔ کندے پر پڑے گوشت کے لوتھڑے میں سے ایک کر کری ہڈی چھانٹی اور قیمے میں ڈال دی۔ اور قیمہ پولی تھین کی تھیلی میں ڈالتا ہوا بولا....
’’لے۔‘‘
کنیز نے ہتھیلی لے لی اور مٹھی میں دبے ہوئے پیسے کلو کی طرف بڑھا دیے۔
’’رہنے دے میں غلام سے لے لوں گا۔‘‘
’’وہی دے گئے ہیں۔‘‘
’’اچھالا۔‘‘
کلو نے پیسے لے کر گلے میں ڈال دیے .... کنیز جانے کے لیے مڑی تو بولا۔
’’رک جا... یہ لے ایک گردہ رکھا ہے ....یہ بھی لیتی جا۔‘‘
اس نے گردے کے چار ٹکڑے کر دیے۔
’’نہیں کلو بھیا.... میں اتنے پیسے نہیں لائی تھی...‘‘
’’پیسے کی بات کون کرتا ہے .... لے ہماری طرف سے کھا لے ...‘‘
’’نہیں ... نہیں چاہیے۔‘‘
’’ارے یہ گردہ ہم تجھے تھوڑی دے رہے ہیں۔ یہ تو ہمارے ہونے والے بھتیجے کے لیے ہے ... لے ... لے ...‘‘
کلو نے شرارت سے مسکراتے ہوئے اس کے ابھرے پیٹ کی طرف ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔
’’تم بہت خراب ہو... کلو بھیا۔‘‘
کنیز کا چہرہ شرم سے سرخ ہو گیا۔
’’اب خراب کیا اور اچھے کیا۔ جیسے بھی ہیں تیرے جیٹھ ہیں۔‘‘
کنیز نے جھجکتے ہوئے تھیلی آگے بڑھائی اور کلو نے گردہ تھیلی میں ڈال دیا۔
’’اچھا چلتی ہوں۔‘‘ کنیز جانے کے لیے مڑی۔
دکان کے ایک کونے میں ذبح کیا ہوا بکرا ٹنگا تھا جسے ایک چھوکرا چھیل رہا تھا۔ بکرا پورا چھیلا جا چکا تھا۔ چھوکرے نے چھری سے بکرے کا پیٹ چیر دیا ’’بق‘‘ سے ایک بڑی اوجھڑی باہر نکل آئی۔ کنیز نے ایک جھرجھری سی لی اور جھٹ سے منہ پھیر لیا اور دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ کلو قصائی اسے دروازے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھتا رہا۔ کنیز دھیرے دھیرے گھسٹتے ہوئے قدم اٹھا رہی تھی۔ پیٹ کے ابھر جانے سے اس کی کمر پشت کی جانب دوہری ہو گئی تھی۔ اور گردن پیچھے کو تن گئی تھی۔ صاف لگتا تھا کہ اسے چلنے میں کافی دقت ہو رہی ہے۔ اس کا دوپٹہ سر سے ڈھلک کر گردن میں جھول رہا تھا۔ اور چوٹی کسی مری ہوئی چھچھوندری کی طرح پشت پر لٹک رہی تھی۔ اس نے میکسی پہن رکھی تھی اس لیے اس کے ڈیل ڈول کا صحیح انداز لگانا مشکل تھا۔ لیکن میکسی کی آستینوں سے جھانکتی ہوئی بانہوں سے لگتا تھا بس اوسط درجے کی صحت ہے اس کی۔ نہ بہت اچھی نہ بہت خراب۔
کلو اسے دروازے سے نکل کر سڑک پر پہنچے تک دیکھتا رہا۔ پھر ایک ٹھنڈی سانس کھینچ کر بولا، ’’کیسی چھوکری تھی کیسی ہو گئی۔‘‘ اس کے لہجے میں تاسف تھا۔
’’کیا بولے استاد!‘‘
بکرا چھیلتے چھوکرے نے پلٹ کر شرارت سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بے تو اپنا کام کر۔‘‘
’’ہم سے مت چھپاؤ استاد کسی زمانے میں تم اس کے آ سک تھے۔‘‘
’’ابے تھے .... مگر اب وہ ہمارے دوست کی گھر والی ہے۔ الٹی سیدھی بات بولا سالے تو بکرے کی طرح چھیل کر رکھ دوں گا۔‘‘
’’معاف کرنا استاد... غلطی ہو گئی۔‘‘
چھوکرے نے کلو کے تیور دیکھ کر پینترا بدلا...
کلو جیب میں بیڑی ٹٹولنے لاپ۔
کنیز بائیں ہاتھ میں پولی تھین کی تھیلی لٹکائے دھیرے دھیرے چلی جا رہی تھی۔ بارہ ساڑھے بارہ کا عمل تھا۔ وسط اپریل کا سورج ٹھیک اس کے سر پر چمک رہا تھا۔ اس نے دوپٹہ سر پر ڈال لیا اور دائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے اپنا چہر پونچھا۔ اسے اس چلچلاتی دھوپ میں چلنا بھاری پڑ رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسنے لگی۔ کیا ضرورت تھی اسے اس بھری دوپہر میں باہر نکلنے کی۔ آج اگر قیمہ نہیں کھاتی تو کونسی قیامت آ جاتی۔ مگر اسے فوراً بھیکن بوا کی یاد آ گئی۔ ’’ان دنوں اگر کوئی چیز کھانے کا جی کرے تو من کو مارنا نہیں چاہیے۔ اس سے بچے پر برا اثر پڑتا ہے۔‘‘
بس اسی خیال سے اس نے غلام سے کہا تھا کہ اس کا قیمہ کھانے کو جی کر رہا ہے۔ غلام پہلے تو لمحے بھر کے لیے سوچ میں پڑ گال۔ کیوں کہ مہینے کی ستائیس تاریخ تھی اور ابھی تنخواہ میں تین چار دن باقی تھے۔ پھر بھی اس نے اپنے بیڑی کا نڈی کے لیے رکھے ہوئے دس روپے اسے دے دیے تھے۔ کنیز کے پاس پانچ سات روپے تو تھے ہی۔ گوشت اس قدر مہنگا ہو گیا تھا کہ بکرے کا گوشت کھانا اب ان کے بس کا نہیں رہا تھا۔ بس دال روٹی اور چٹنی اچار پر گزارا ہو جاتا تھا۔ مہینے میں ایک یا دو بار ہی وہ لوگ گوشت لا پاتے تھے۔ مگر جب سے وہ حاملہ ہوئی تھی غلام ہر اتوار کو اس کے لیے آدھا کیلو گوشت لانے لگا تھا۔ یہ قیمہ کھانے کی سنک تو بیچ ہی میں جاگ اٹھی تھی۔
اس وقت اسے ایک ایک قدم من من بھر کا لگ رہا تھا۔ مگر ساتھ ہی یہ اطمینان بھی تھا کہ گھر زیادہ دور نہیں ہے۔ بس چوتھے بجلی کے کھمبے کے بعد گلی میں مڑتے ہی رام بچن کی چالی تھی۔ چالی نمبر تین اور کھولی نمبر پانچ۔ بس یہی اس کا گھر تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سب سے پہلے مٹکے سے کم سے کم دو ڈونگے پانی پئیے گی۔ منہ پر ٹھنڈے پانی کے چھپا کے مارے گی۔ پھر اطمینان سے بیٹھ کر قیمہ پکائے گی۔ آٹا گوندھا ہوا رکھا ہے۔ گرم گرم دو پراٹھے ڈالے گی اور کھڑکی کے پاس بیٹھ کر پچھواڑے میدان کا نظارہ کرتے ہوئے قیمہ اور پراٹھا کھائے گی۔ اس کے ساتھ آم کا اچار بھی تو ہو گا۔ اماں نے کل ہی تولا کر دیا تھا۔ پھر اسے خیال آیا کہ کلو نے قیمہ کے ساتھ ایک گردہ بھی تو دیا ہے۔ واہ قیمہ گردہ واقعی مزہ آ جائے گا۔ اس کے جی میں آیا کہ اڑ کر اپنی کھولی میں پہنچ جائے۔ پھر اچانک اسے لگا۔ اسے وہ مفت کا گردہ نہیں لینا چاہیے تھے۔ مگر وہ کیا کرتی کلو کا اصرار ایسا تھا کہ وہ منع نہیں کر سکتی تھی۔ وہ غلام کا دوست تھا اور شادی کے بعد کئی بار ان کے گھر بھی آ چکا تھا۔ چائے پی چکا تھا مگر اس نے کبھی ایسی ویسی بات نہیں کی تھی۔ البتہ شادی سے پہلے اس نے دو چار بار ضرور تنگ کیا تھا۔ مگر شادی سے پہلے تو اسے کئی لوگوں نے تنگ کیا تھا۔ جب وہ ہائی اسکول جانے کے لیے سبز فراک، سفید شلوار، اوڑھنی پہنے، دو چوٹیاں ڈالے سرخ اسکارف باندھے نکلتی تھی تو گھر سے لے کر اسکول تک پتہ نہیں، کتنے فقرے، کتنی سیٹیاں اس کا تعاقب کرتی تھیں۔ چال کے دو چار چھوکرے تو اس کے پیچھے پیچھے اسے اسکول تک چھوڑ کر لوٹتے تھے۔
کلو قصائی شادی شدہ تھا۔ ایک بچے کا باپ تھا۔ اس نے وہ گردہ ضرور اسے اپنا سمجھ کر دیا تھا۔ اسے خواہ مخواہ اس پر شک نہیں کرنا چاہیے۔
اب بلی کا بس ایک کھمبا رہ گیا تھا۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر ہو گیا تھا۔ اور اسے صاف لگ رہا تھا پسینے کی تلیاں میکسی کے اندر اس کی گردن سے پیٹھ کی طرف رینگ رہی ہیں۔ اس نے دوپٹے سے اپنا چہرہ پونچھا۔ اور تبھی پتا نہیں کیا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں لٹکی ہوئی قیمے کی تھیلی ایک جھٹکے کے ساتھ اس کی انگلیوں میں سے نکل گئی۔ اس نے گھبرا کر جو نظر ڈالی تو دیکھا ایک کتیا منہ میں تھیلی دبائے ایک طرف بھاگی جا رہی ہے۔ اس نے اضطراری طور پر دونوں ہاتھ ہلا ہلا کر منہ سے ہش ہش کی آواز نکالی۔ مگر کتیا نے تھیلی منہ سے نہیں چھوڑی۔ اس نے پہلی نظر میں دیکھ لیا تھا کہ کتیا کا پیٹ بھی پھولا ہوا تھا۔ اور وہ بھی تیز نہیں بھاگ پا رہی تھی۔ کنیز کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے منہ کا نوالہ چھین لیا ہو۔ اسے کتیا پر بڑا غصہ آیا۔ مگر وہ کیا کر سکتی تھی۔ کتیا اب ایک طرف مڑ کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ کنیز چند لمحے اسی طرح بے بسی کے عالم میں کھڑی دوپٹے سے اپنے چہرے کا پسینہ پونچھتی رہی۔ پھر حسرت سے ایک نظر اس طرف ڈالی جدھر کتیا گئی تھی۔ اور بھاری قدموں کے ساتھ گلی میں رام بچن چالی کی طرف مڑ گئی۔ قدم تو اس کے پہلے ہی بھاری تھے مگر اب من بھی بھاری ہو گیا تھا۔ اسے ہر قدم پر لگنے لگا۔ بس وہ وہیں کہیں دھم سے ڈھیر ہو جائے گی۔
گھر پہنچ کر اس نے دروازہ بند کر لیا۔ اور چار پائی پر جا کر پسر گئی۔ وہ دھیرے دھیرے ہانپ رہی تھی۔ وہ تھوڑی دیر تک اسی طرح لیٹی رہی۔ پھر چہرے کا پسینہ پونچھ کر اٹھی۔ مٹکے سے ایک ڈونگا پانی نکالا اور چار پائی کی پٹی سے ٹک کر دھیرے دھیرے پانی پینے لگی۔ پانی پینے کے بعد اسے اپنے اندر پھیلی ہوئی بے چینی میں کمی کا احساس ہوا۔ جیسے اڑتی ہوئی دھول پر پانی کے چھینٹے پڑ گئے ہوں۔ اسے بھوک بھی لگ رہی تھی۔ اسے یاد آیا روٹی کی ٹوکری میں دو روٹیاں پڑی ہیں۔ صبح غلام کو ٹفن بنا کر دیا تھا۔ روٹی اور آلود کی بچی ہوئی سبزی تو اس نے ناشتے میں کھا لی تھی۔ مگر دو روٹیاں بچ گئی تھیں۔ اس نے کپڑے میں لپٹی ہوئی روٹیاں نکالیں۔ ان پر تھوڑا سا اچار رکھا۔ اور گلاس میں پانی لے کر کھڑکی کے پاس آ کر بیٹھی گئی۔ روٹی کا نوالہ بنایا اور منہ میں ڈال کر دھیرے دھیرے چبانے لگی۔ کھڑکی کے باہر پچھواڑے کے کھلے میدان میں دھوپ کی چادر تنی ہوئی تھی۔
دائیں طرف املی کے پیڑ کے نیچے ایک ٹرک کھڑا تھا۔ شاید ڈرائیور کہیں روٹی کھانے گیا تھا۔ ٹرک کے پیچھے اسے ویسے ہی دو پوسٹر چپکے نظر آئے، جیسے اس نے بلڈنگ کی دیوار پر دیکھے تھے۔ ایک پوسٹر آدھا پھٹ گیا تھا اور ہوا سے فرفر لہرا رہا تھا۔ اس کی نظر ٹرک کے نیچے گئی۔ ٹرک کے سائے میں وہی کتیا جس نے اس کے قیمے کی تھیلی جھپٹی تھی۔ اطمینان سے بیٹھی ہڈی چچوڑ رہی تھی۔ شاید یہ وہی کر کری ہڈی تھی جو قیمے میں کلو نے اوپر سے ڈالی تھی۔ قیمے کا اب کہیں نام و نشان نہیں تھا۔ کتیا سارا قیمہ چٹ کر چکی تھی۔ کنیز کا چلتا ہوا منہ رک گیا۔ قیمے کی یاد آتے ہی اسے اپنے منہ کا لقمہ مٹی کے ڈھیلے کی طرح بے مزہ لگنے لگا۔ وہ حسرت، غصہ اور نفرت سے کتیا کو دیکھنے لگی جو منہ ٹیڑھا کر کر کے ہڈی کو چبانے کی کوشش کر رہی تھی۔
’’حرامزادی....‘‘ کنیز کے ہونٹوں سے بے ساختہ گالی نکلی۔ اگر اس نے وہ تھیلی نہ چھینی ہوتی تو اس وقت وہ قیمہ بھون رہی ہوتی۔ اور قیمے کی خوشبو سے کھولی مہک رہی ہوتی پھر قیمے کے ساتھ گرم گرم پر اٹھوں کے تصور سے اس کے منہ میں پانی آ گیا اور اس کے نتھنے قیمے کی خوشبو کا خیال کر کے پھولنے پچکنے لگے۔
کتیا شاید اب ہڈی بھی ہڑپ کر چکی تھی۔ کیوں کہ وہ اپنی لپ لپ کرتی زبان سے اپنی بانچھیں چاٹتی ہوئی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ اگر کنیز اس کے قریب ہوتی تو کوئی پتھر اٹھا کر اس پر مار چکی ہوتی۔ مگر وہ اس کی دسترس سے باہر تھی۔ اس نے دوبارہ دھیرے دھیرے اپنا منہ چلانا شروع کیا۔ مگر اب سچ مچ روٹی کھانے میں مزہ نہیں آ رہا تھا۔ اس نے بچی ہوئی روٹی کو رو مال میں لپیٹ کر رکھ دیا۔ پانی کا گلاس اٹھایا اور گھونٹ گھونٹ پانی پینے لگی۔ اس کی نظریں اب بھی کتیا پر جمی تھیں۔ کتیا اب ٹانگیں پسارے لیٹ گئی تھی۔ اس کا پھولا ہوا پیٹ اب صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ہلکے گلابی رنگ کے پیٹ پر اس کی چھاتیوں کے ابھرے بونڈے دور سے نظر آ رہے تھے۔ کتیا نے آنکھیں بند کر لی تھی۔ اس کے وجود پر چھائی ہوئی طمانیت اس کی شکم سیری کی شہادت دے رہی تھی۔
کنیز نے پانی پی کر گلاس نیچے رکھا۔ اب اس پر بھی کسلمندی طاری ہونے لگی تھی۔ اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے سرہانے رکھے تکیے کو درست کیا اور لیٹ گئی۔ سر پر بجلی کا پنکھا گھر گھرا رہا تھا۔ اس کے باوجود اسے گرمی کا احساس ہوا۔ اس نے گلے میں پڑے دوپٹے کو ایک طرف ڈال دیا۔ میکسی کے اوپر کے دونوں بٹن کھول دیے۔ تھوڑی ہوا تو لگی مگر گرمی کا احساس کم نہیں ہوا۔ اس نے اپنی میکسی کو گھنٹوں تک چڑھا لیا۔ ننگی پنڈلیوں کو ہوا لگی تو اسے اچھا لگا۔ اس نے میکسی رانوں تک چڑھا لی اور اچھا لگا۔ اس نے بند دروازے پر ایک نگاہ ڈالی اور میکسی کو سینے تک کھینچ لیا۔ اب وہ تقریباً ننگی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اپنے پھولے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ آٹھواں مہینہ چل رہا تھا بس ایک آدھ مہینے کی بات تھی۔ اس نے اچانک کسی خیال سے ایک جھرجھری سی لی اور جھٹ سے میکسی کو نیچے کھینچ لیا۔ اب اس کی پلکیں بوجھل ہونے لگی تھیں۔ پنکھے کی گھوں گھوں کے ساتھ پتا نہیں وہ کب نیند کی وادی میں اتر گئی۔ نیند میں اسے عجیب الٹے سیدھے خواب آتے رہے۔ کلو کی دوکان میں قطار سے چھیلے ہوئے بکرے ٹنگے ہیں۔ گوشت کی سرخی جگہ جگہ سے جھلک رہی ہے۔ تبھی ایک کالا کلوٹا شخص لنگوٹی لگائے آتا ہے۔ اور چھری سے ایک بعد ایک بکروں کا پیٹ چیرتا چلا جاتا ہے۔ ہر وار کے ساتھ بکری کی اوجڑی ’بق بق‘ باہر نکلتی ہے اور لمبی لمبی آنتیں لٹکنے لگتی ہے۔ اس کی ماں آتی ہے۔
’’بیٹا کنیز! دیکھ میں تیرے لیے کیا لائی ہوں۔‘‘
وہ یہ سوچ کر کہ گرم گرم قیمہ ہو گا۔ کٹورے کا ڈھکنا ہٹاتی ہے۔ کٹورے میں کوئی پتلا شور بے دار سالن ہے۔ جس کا رنگ خون کی طرح سرخ ہے۔ ’’ماں یہ کیا؟‘‘ ماں غائب ہو جاتی ہے اور غلام کٹورا اٹھا کر سارا شور بہ پی جاتا ہے۔ وہ اسے منع کرنا چاہتی ہے۔ مگر منع نہیں کر پاتی۔ کبھی اسے لگتا ہے کہ اس کا پیٹ اس قدر پھول گیا ہے کہ اب اسے اپنے پیٹ کے ساتھ ایک قدم چلنا بھی محال ہے۔ وہ دونوں ہاتھ ٹیک کر اٹھنا چاہتی ہے مگر اس کے ہاتھ کچی زمین میں دھنس جاتے ہیں اور وہ چت لیٹی رہ جاتی ہے۔ اس کی نظر چھت پر پڑتی ہے۔ چھت میں ایک چھینکا لٹک رہا ہے جس میں ایک مٹکی ہے۔ مٹکی میں شاید دودھ یا دہی ہے۔ مٹکی رس رہی ہے اور سفید سفید دودھ قطرہ قطرہ اس کے پھولے پیٹ پر ٹپک رہا ہے۔ اسے اچانک خیال آتا ہے اگر چھینکا ٹوٹ گیا تو مٹکی سیدھے اس کے پیٹ پر آ کر گرے گی اور اچانک اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ ایک کربناک چیخ اس کے کانوں سے ٹکراتی ہے۔ جیسے کوئی مر رہا ہو۔ ساتھ ہی موٹر کی گھڑ گھڑ کی آواز۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھتی ہے۔ کھڑکی سے باہر نظر ڈالتی ہے۔ اور جو منظر اسے نظر آتا ہے۔ اسے دیکھ کر اس کی چیخ نکل جاتی ہے۔ کتیا جس ٹرک کے نیچے سوئی تھی وہ میدان سے نکل کر سڑک پر پہنچ چکا ہے۔ اور ٹرک کے نیچے سوئی ہوئی کتیا خون میں لت پت چھٹ پٹا رہی ہے۔ اس کا پیٹ پچک گیا ہے اور گوشت کے تین چار خون آلود لوتھڑے اس کی دم سے لٹک رہے ہیں کتیا کی چیخ اب ٹوٹے ہارمونیم کے سر کی طرح دھیمی پڑتی جا رہی تھی۔ یک بارگی اس نے اپنی ہی جگہ ایک گھمیرا لیا زور سے تڑپی اور ٹھنڈی ہو گئی۔ ٹرک دور جا چکا تھا۔ فضا میں اب پہلے کی طرح خاموشی تھی۔ البتہ رہ رہ کر ان خون آلود گوشت کے لوتھڑوں میں ہلکی سی جنبش ہو جاتی تھی۔ ایسی جنبش جو دیکھنے والے کے جسم میں جھر جھری پیدا کر دے۔ کنیز کی پھٹی آنکھیں اب بھی کتیا کی لاش پر جمی ہوئی تھیں اور سانس تیزی سے اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ ایسا بھیانک منظر اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کے سینے میں کوئی چیز اٹکی ہوئی ہے جو اس کے پورے وجود کو بے چین کیے ہوئے ہے وہ اگر باہر نکل جائے تو اسے ذرا راحت ملے اسے کچھ دیر پہلے کتیا پر بے حد غصہ آیا تھا۔ اگر وہ اس کے ہاتھ آتی تو وہ اسے دو ایک پتھر بھی مارتی ایک آدھ ڈنڈا بھی لگاتی۔ مگر جو ہوا تھا ویسا اس نے ہر گز نہیں چاہا تھا۔ قیمے کے چھین جانے کا اسے بے حد دکھ ہوا تھا مگر جو کچھ کتیا کے ساتھ ہوا یہ اس کے لیے انتہائی اذیت ناک تھا۔ اس واقعے نے اس کے روئیں روئیں میں کپکپی بھر دی تھی۔ اس کی رگوں سے ایک سنسنی اس کے سینے کی طرف رینگ رہی تھی۔ اچانک سینے سے منہ کی جانب ایک بگولہ سا اٹھا۔ ایک ہچکی آئی اور وہ یک بیک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ آنکھوں سے جیسے آنسوؤں کا جھرنا پھوٹ پڑا۔ وہ کیوں رو رہی تھی خود اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ جانے وہ کتنی دیر تک روتی رہی۔ جب سینے کا غبار ذرا کم ہوا تو اس نے ڈرتے ڈرتے کتیا کی لاش کی طرف دیکھا۔ دو کوے ان گوشت کے لوتھڑوں پر ٹھونگیں مار رہے تھے۔ دور ایک لڑکا پاخانے کے لیے بیٹھا ان کوؤں کو گھور رہا تھا۔ پھر اس نے پاس سے ایک کنکری اٹھائی اور کوؤں کی طرف پھینکی۔ ایک کوا اڑ کر دور جا بیٹھا مگر دوسرا بس ذرا سا پھدکا۔ اس کی چونچ میں مردہ کتیا کی ایک لمبی آنت تھی۔ جسے وہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ کنیز کو متلی کا احساس ہوا۔ اسے ابکائی آئی۔ وہ اٹھ کر موری میں گئی اور قے کرنے لگی۔ قے تو نہیں ہوئی مگر منہ سے کڑوا کسیلا لعاب نکلنے لگا۔ آنکھ اور ناک سے بھی پانی بہنے لگا۔ تھوڑی دیر تک یہی کیفیت رہی۔ پھر جب بے چینی ذرا کم ہوئی تو اس نے کلا کیا۔ منہ پر پانی کے کچھ چھپا کے دیے اور آدھ گلاس پانی پی کر دوبارہ چار پائی پر آ بیٹھی۔ اب کھڑکی کے باہر دیکھنے کی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے کھڑکی بند کر دی اور چار پائی پر لیٹ گئی۔ دیوار گھڑی نے ٹن ٹن چار بجائے غلام کے آنے کا وقت ہو گیا تھا۔ وہ فرسٹ شفٹ میں کام کرتا تھا اور ساڑھے تین بجے کارخانے سے چھوٹ کر چار اور ساڑھے چار کے درمیان گھر آ جاتا تھا۔ اس نے سوچا وہ آج غلام کو ساری تفصیل بتا دے گی۔ اچانک اسے اپنی ناف کے نیچے ایک کسک سی محسوس ہوئی۔ وہ چت لیٹی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اپنا پیٹ سہلانے لگی۔ کسک اوپر کی طرف بڑھتی جا رہی تھی۔ جیسے ناف کے نیچے کوئی کنکھجورا اس کے سینے کی طرف رینگ رہا ہو۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ جھک کر اپنے پیٹ کو دیکھنے لگی۔ ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق تو ابھی ایک مہینہ باقی ہے۔ پھر؟ یہ ٹیس! یہ کسک! درد مسلسل اوپر کی طرف رینگ رہا تھا۔ اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا۔ اس کے پورے بدن سے دھیرے دھیرے پسینہ پھوٹ رہا تھا۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ دستک یقیناً غلام کی تھی۔ وہ لڑکھڑاتی ہوئی اٹھی۔ پلنگ کی پٹی کا سہارا لے کر سٹکنی کھول دی۔ سامنے غلام کھڑا تھا۔ غلام نے اس کا پسینے سے تر زرد چہرہ دیکھا۔ ’’ارے کیا ہوا؟‘‘
’’درد ہو رہا ہے۔ پیٹ میں بہت درد ہو رہا ہے۔‘‘ وہ ہونٹ بھینچ کر پلنگ پر بیٹھ گئی۔
’’مگر... اتنی جلدی...؟‘‘
’’پتا نہیں۔‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے کہا۔
تبھی، اس کی نظر کھلے دروازے کی طرف اٹھ گئی۔ وہاں ایک بد ہیئت شخص کھڑا تھا۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ اور اس کے ہاتھ میں چم چم کرتی لمبی سی، چھری تھی۔
’’وہ۔ وہ کون ہے؟‘‘
اس نے باہر کی طرف دیکھتے ہوئے خوف زدہ لہجے میں پوچھا۔
’’کہاں؟‘‘ غلام نے پلٹ کر دیکھا۔
دروازے کے باہر ایک فقیر کھڑا تھا جس کے ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے ہاتھ میں چمٹا تھا اور گھنی داڑھی میں اس کا چہرہ تقریباً چھپ گیا تھا۔ سر کی جٹائیں سانپوں کی طرح کاندھے پر پڑی جھول رہی تھیں۔ فقیر نے چمٹا بجاتے ہوئے نعرہ لگایا۔
’’الا اللہ‘‘
’’ارے وہ تو فقیر ہے۔‘‘ غلام بولا۔
’’فقیر؟‘‘ اس نے بمشکل دوہرایا۔
درد کی ایک تیز لہر بجلی کے کرنٹ کی طرح اس کے جسم میں پھیل گئی۔ اس کے منہ سے ایک کریہہ چیخ نکلی اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔
جب اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھی۔ غلام اس کے سرہانے پریشان سا بیٹھا تھا۔ اس نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں۔ اس کا گلا خشک ہو رہا تھا۔ اس نے انتہائی نقاہت سے کہا۔
’’پانی!‘‘
غلام نے پاس رکھے ہوئے کٹورے سے چمچ میں پانی لے کر دو تین چمچ اس کے حلق میں ٹپکائے۔
’’اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘ غلام نے تھکے تھکے لہجے میں پوچھا۔
اس نے جواب دینے کے بجائے کمزور ہاتھ سے اپنا پیٹ ٹٹولا۔ پھر گھبرائی نظروں سے پیٹ کی طرف دیکھا۔ پیٹ پچک گیا تھا۔
’’یہ کیا ہو گیا؟‘‘ اس نے کچھ تلاش کرتے ہوئے اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائی۔
’’گھبراؤ نہیں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ غلام نے تسلی دی۔
کنیز کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا۔ دہی کی ہانڈی میں چھید ہو گیا تھا۔
’’دل چھوٹا نہ کرو... ڈاکٹر نے رونے دھونے سے منع کیا ہے۔ تم بچ گئیں بہت ہے۔‘‘
غلام نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار سے کہا۔
’’کیا تھا؟‘‘ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’دو تھے۔ جڑواں۔ مگر دونوں مردہ۔‘‘
غلام کا لہجہ بھی کربناک ہو گیا۔
اتنے میں کلو قصائی کی آواز سنائی دی۔
’’غلام! چلو نیچے ٹیکسی کھڑی ہے۔‘‘
اس نے گردن کو ذرا سا خم کر کے دیکھا۔ سامنے کلو قصائی کھڑا اسے متاسفانہ انداز میں دیکھ رہا تھا۔ اس کا چہرہ پنے دن سے تر تھا۔
’’کیسی ہے کنیز تو؟‘‘
’’ٹھیک ہوں۔‘‘
اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا۔ اور اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبا لیا۔
’’چلو کنیز، ہمیں اسی وقت یہاں سے نکل جانا ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’گھر۔‘‘
’’مگر کیوں؟‘‘
’’ارے ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ بابری مسجد گرا دی گئی۔ شہر میں کرفیو لگنے کا ڈر ہے۔ اس سے پہلے ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ چلو۔‘‘
غلام نے اس کی گدن کے نیچے ہاتھ دے کر اسے اٹھایا۔
کنیز اٹھ تو گئی مگر اس کی آنکھوں کے نیچے اندھیرا سا چھانے لگا۔ اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے اور آنکھیں بند کر لیں۔ ایک ٹرک گھڑ گھڑاتا ہوا اس کی آنکھوں سے اوجھل ہوتا جا رہا تھا اور اس کے پیچھے آدھا لٹکا ہوا پوسٹر فرفر ہوا میں لہرا رہا تھا۔
٭٭٭