جب اس کی آنکھ کھلی تو فجر کی اذان ہو رہی تھی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ بغل میں بیوی بے خبر سورہی تھی بلکہ ہلکے ہلکے خراٹے بھی لے رہی تھی۔ وہ مسکرایا، بیوی اکثر اس کے خرّاٹوں کا ذکر کیا کرتی ہے مگر اب وہ خود خرّاٹے لے رہی تھی اور اپنے خرّاٹوں سے بے خبر تھی۔ یہ خرّاٹے بھی عجیب چیز ہیں۔ خرّاٹے لینے والا تو گہری نیند کے مزے لے رہا ہوتا ہے اور اسے پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ دوسروں کو کس قدر ڈسٹرب کر رہا ہے۔ وہ پلنگ سے اترا واش روم سے فارغ ہوا۔ وضو کیا اور الماری سے مصلّیٰ نکال کر فجر کی نماز ادا کی۔ مصلّیٰ لپیٹ کر دوبارہ الماری میں رکھ دیا۔ بیوی اسی طرح خرّاٹے لے رہی تھی۔ وہ اپنے بیڈروم سے باہر نکلا۔ پورا گھر سنّاٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بیٹے بہو کے کمرے کی طرف دیکھا۔ دروازہ بند تھا۔ بہو عموماً اس وقت اٹھ جاتی تھی۔ شاید آج اس کی بھی آنکھ لگ گئی تھی۔ اس کے لیے سیر پر جانے سے پہلے صبح کی چائے بہو ہی بناتی تھی۔ بیوی گٹھیا کی پرانی مریضہ تھی عرصہ ہوا اس نے اسے صبح جگانا چھوڑ دیا تھا۔ اس نے سوچا خود ہی ایک کپ چائے بنا لے مگر برتنوں کی کھٹر پٹر سے خواہ مخواہ سب کے آرام میں خلل پڑنے کے خیال سے ارادہ ترک کر دیا۔ سوچا آج باہر ہی کسی ٹپری پر چائے پی لے گا۔ شال کاندھے پر ڈالی، جوتے پہنے اور آہستگی سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔
سپیدۂ صبح نمودار ہو چکی تھی۔ آسمان کا رنگ ہلکا پڑ گیا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی فرحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ سڑک سنسان تھی، سڑک کے کنارے درختوں پر چڑیاں چہچہانے لگی تھیں۔ ایک طرف دو کتّے خوش فغلیوں میں مصروف تھے۔ اس کے قدم جو گرس پارک کی طرف اٹھ رہے تھے۔ وہ آج اپنے آپ کونسبتاً بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ عموماً صبح اٹھنے کے بعد تھوڑی دیر تک جو کسلمندی کا احساس ہوتا تھا وہ آج ندارد تھا، گٹھیا کی شکایت تو اسے بھی تھی مگر روزانہ صبح کی سیر سے کافی افاقہ تھا، ایک زمانے میں وہ فٹ بال کا اچھا کھلاڑی تھا۔ ریاستی سطح پر اس نے کئی میچوں میں حصہ لیا تھا اور کئی میڈل بھی جیتے تھے مگر آگے چل کر گھریلو ذمہ داریوں اور بڑھتی عمر کے ساتھ دھیرے دھیرے فٹ بال کا شوق ماند پڑتا چلا گیا۔ تِس پر گٹھیا کے مرض نے تو بالکل لاچار کر دیا۔ اب فٹ بال صرف اس کی یادوں میں زندہ تھا۔ آج بھی کہیں فٹ بال کا میچ ہو رہا ہو تو وہ بڑے شوق سے دیکھنے جاتا ہے۔ ٹی وی پر تو روزانہ وہ اسپورٹس چینل پر صرف فٹ بال کا میچ ہی دیکھتا ہے۔ فٹ بال کے خیال کے ساتھ اس کی ایک سنہری یاد بھی جڑی ہوئی تھی۔
پونے میں ریاست کا فائنل میچ تھا۔ مقابل ٹیم برابر کی ٹکّر دے رہی تھی۔ دونوں کے چار چار گول ہو چکے تھے۔ آخری پانچ منٹ باقی تھے۔ دونوں ٹیم کہ کھلاڑی جان کی بازی لگائے ہوئے تھے۔ وہ بھی پورے فارم میں تھا۔ ٹیم کے چار گول میں سے دو گول اس نے بنائے تھے۔ گیند دھیرے دھیرے مقابل ٹیم کے گول پوسٹ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میدان میں تماشائیوں نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی ٹیم کا ایک کھلاڑی ڈربلنگ Dribbling کرتا ہوا اس کی طرف آ رہا ہے۔ وہ چوکنّا ہو گیا کھلاڑی نے گیند اسے پاس کی وہ نیٹ کے قریب تھا۔ جوں ہی گیند آئی اس نے سرعت سے کک لگائی۔ گیند گول کیپر کے سر پر سے ہوتی ہوئی سیدھے گول پوسٹ کے اندر چلی گئی۔ آخری گول ہو گیا۔ ان کی ٹیم جیت گئی۔ میدان خوشی کے نعروں سے گونجنے لگا، ساتھی کھلاڑی اس پر ٹوٹ پڑے وہ ان کی گرفت سے نکل کر پویلین کی طرف دوڑنے لگا۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ تماشائیوں میں ایک سیاہ فام لڑکی بیریئر پھلانگ کر دوڑتی ہوئی اس کی طرف آ رہی ہے۔ اس نے پیلے رنگ کی شارٹ اسکرٹ پہن رکھی تھی۔ اس کی نصف سے زیادہ چمکدار رانیں دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ وہ غالباً افریقہ کے کسی علاقے کی باشندہ معلوم ہوتی تھی۔ اس کے سر پر سیاہ گھنگریالے بالوں کو دیکھ کر شہد کے بڑے سے چھتّے کا گمان ہوتا تھا۔ وہ سیدھے اس کی پاس آئی اور گلے میں بانہیں ڈال کر اپنے گرم گرم گداز ہونٹ اس کے ہونٹوں پر پیوست کر دیے۔ یہ سب اتنا غیر متوقع تھا کہ وہ سٹ پٹا گیا۔ لمحہ بھر کو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ البتہ اس کے دونوں ہاتھ اضطراری طور پر اس کی کمر کے گرد حمائل ہو گئے، اور اس نے بھی پوری گرم جوشی کے ساتھ اسے بھینچ لیا۔ ہنسی، قہقہوں اور نعروں سے میدان گویا ہوا میں اڑا جا رہا تھا۔ اتنے میں گراؤنڈ کے سیکوریٹی گارڈز ان کی طرف دوڑے مگر اس سے پہلے کہ وہ ان تک پہنچتے وہ اس سے چھٹک کر بجلی کی سرعت کے ساتھ ایک طرف بھاگ گئی۔ گارڈز اس کے پیچھے لپکے مگر وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی تماش بینوں کی بھیڑ میں گم ہو گئی۔ اس کے ساتھی کھلاڑی اسے کاندھے پر اٹھائے پویلین کی طرف جا رہے تھے۔ مگر وہ مڑ مڑ کر اسی طرف دیکھتا رہا جہاں لڑکی تماشائیوں کے درمیان غائب ہوئی تھی۔
یہ واقعہ اس کے ذہن پر ایسا نقش ہوا کہ اس کے بعد جب بھی وہ میدان میں اترتا اس کی متجسس نگاہیں تماشائیوں میں اسے تلاش کرنے لگتیں اور ہر سیاہ فام لڑکی پر اس کا گمان گزرتا مگر وہ لڑکی اسے پھر کبھی نظر نہیں آئی۔ البتہ اس کے بوسے کی تپش کو وہ تا عمر محسوس کرتا رہا۔ اس کی شادی ہو گئی۔ سہاگ رات پر جب اس نے بیوی کا پہلا بوسہ لیا تو ایک دم اسے اس لڑکی کے سرخ گداز اور گرم ہونٹ یاد آ گئے۔ اس کے بعد اس نے اپنی بیوی کے ہزاروں بوسے لیے ہوں گے مگر اس سیاہ فام لڑکی کے آتشیں بوسے کی حرارت کو وہ کبھی فراموش نہیں کر سکا۔
وہ سوچنے لگا بعض اوقات معمول واقعات بھی زندگی کے کینواس پر کیسا گہرا نقش چھوڑ جاتے ہیں۔ اس نے ایک اچھی اور اطمینان بخش زندگی گزاری تھی۔ سلیقہ مند، خوبصورت بیوی، ہونہار بیٹا، خدمت گزار بہو، ہیرے جیسے دو پیارے پیارے پوتے، پنشن کے علاوہ کئی لاکھ کی فکس ڈپازٹ، بیٹا ایک بڑی فرم میں منیجر، موٹی تنخواہ، بہو ٹیچر، گھر میں روپیوں کی ریل پیل، کسی چیز کی کمی نہیں، کوئی حسرت نہیں، چار سال قبل میاں بیوی حج سے بھی سرفراز ہو چکے تھے۔ پچھلے سال پوری فیملی عمرہ بھی کر آئی۔ اسے مذہب سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا مگر ریٹائرمینٹ کے بعد فجر اور مغرب کی نمازیں پڑھ لیا کرتا، البتہ جمعہ کی نماز کبھی ناغہ نہ کرتا۔ رمضان میں کبھی کبھی گنڈے دار روزے بھی رکھ لیا کرتا۔
وہ ایک سیدھا سادہ عام سا شخص تھا۔ کلرک تھا تب اپنے باس کا احترام کرتا اور اس کے احکامات کی پیروی کرنا اپنا فرض سمجھتا۔ جب خود آفیسر بنا تو اپنے ماتحتین سے نرم روی اور کشادہ قلبی سے پیش آتا، وہ اپنے اسٹاف میں کافی ہر دلعزیز تھا۔ جب وہ ریٹائر ہوا تو اس کے اسٹاف نے اسے ایک شاندار سینڈ آف پارٹی دی اور بطور گفٹ قیمتی سونے کی گھڑی پیش کی۔
ریٹائرمینٹ کے بعد چند ماہ میں ہی اس کا وزن بڑھنے لگا۔ فیملی ڈاکٹر نے بتایا کہ بڑھاپے میں وزن بڑھنا خطرے سے خالی نہیں۔ کولیسٹرول کو کنٹرول میں رکھو اور روزانہ ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ واک کرو۔ گھر سے ذرا فاصلے پر جوگرس پارک تھا اس نے پہلی فرصت میں جوگرس پارک کی ممبرشپ لے لی اور روزانہ صبح واک کرنا اپنا معمول بنا لیا۔
چلتے چلتے اچانک اسے ٹھوکر لگی۔ وہ گرتے گرتے بچا۔ ایک روڑا جوتے کی نیچے آ گیا تھا۔ اس نے ہلکی سی ٹھوکر کے ساتھ روڑے کو ایک طرف ہٹا دیا۔ ایک موٹر سائیکل پھٹپھٹاتی ہوئی اس کے قریب سے نکل گئی۔ اس نے ارد گرد نگاہ ڈالی۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ وہ بے خیالی میں کسی اور طرف نکل آیا ہے۔ جوگرس پارک کا راستہ تو پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ اسے کوفت بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ ایسا کیسے ہوا؟ روزانہ کا دیکھا بھالا راستہ وہ کیسے بھول گیا۔ وہ کافی دُور نکل آیا تھا مگر واپس مڑنے کی بجائے وہ آگے بڑھتا رہا۔ سوچا اگلے کسی موڑ پر جوگرس پارک کی طرف مڑ جائے گا۔ سورج نکل آیا تھا اور کنکنی دھوپ میں تمازت محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے شال کو لپیٹ کر ہاتھ میں لے لیا۔ جیب سے رو مال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھا۔ اسے تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے اِدھر ادھر دیکھا سامنے ایک بس اسٹاپ نظر آ رہا تھا مگر وہاں کوئی مسافر دکھائی نہیں دیا۔ اس نے سوچا بس اسٹاپ پر تھوڑا سُستا لینا چاہئے۔ وہ بس اسٹاپ کے قریب پہنچا۔ بس اسٹاپ کی پیشانی پر کینسل لکھا ہوا تھا اور اس کی حالت بڑی خستہ تھی۔ وہ بس اسٹاپ کی شکستہ نشست پر بیٹھ گیا۔ کافی دن نکل آیا تھا۔ اس نے سوچا اب جوگرس پارک جانا بیکار ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ تھوڑا سُستا کر وہ واپس گھر چلا جائے گا۔ سڑک پر اکّا دکّا سواری آ جا رہی تھی۔ اس نے نشست کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔ اسے بڑی راحت ملی۔ اس پر ہلکی سے غنودگی طاری ہونے لگی۔ پھر اسے پتا نہیں وہ کتنی دیر تک اسی کیفیت میں بیٹھا رہا۔ جب آنکھ کھلی تو اس نے مچ مچاتی آنکھوں سے اپنے ارد گرد دیکھا۔ چاروں طرف ایک غبار آلود سنّاٹا پھیلا ہوا تھا۔ اس نے آنکھیں ملیں۔ عینک اتار کر شیشے صاف کئے اور دوبارہ عینک لگا کر اپنے چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ یہ تو قبرستان ہے۔ وہ قبرستان میں بچھی ایک بینچ پر بیٹھا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا یہ تو وہی قبرستان ہے جو جوگرس پارک سے ذرا سے فاصلے پر واقع تھا اور وہ کئی بار مختلف جنازوں کے ساتھ یہاں آ چکا تھا۔ اسے یاد آیا کہ بس اسٹاپ پرسُستاتے وقت اس کی آنکھ جھپک گئی تھی۔ تو کیا وہ غنودگی کے عالم میں چلتا ہوا جوگرس پارک کی بجائے قبرستان آ گیا تھا۔ مگر اسے کبھی نیند میں چلنے کا مرض تو نہیں تھا۔ اس نے سوچا یہ تو بڑی تشویش کی بات ہے۔ ڈاکٹر سے مشورہ لینا پڑے گا۔ وہ کپڑے جھاڑتا ہوا اٹھا اور قبروں کے درمیان بنی ہوئی روش پر چلتا ہوا گیٹ کی طرف بڑھا۔ چند قدم چلا تھا کہ سامنے گیٹ سے ایک جنازہ داخل ہوتا نظر آیا۔ لوگ سفید گول ٹوپیاں اوڑھے یا سروں پر رو مال باندھے جنازے کو کاندھا دیتے ہوئے چلے آ رہے تھے۔ وہ چلتے چلتے رک گیا۔ جنازے کو پیٹھ دکھانا مناسب نہیں تھا، اسے جنازے میں کچھ شناسا چہرے بھی نظر آئے۔ اسے تشویش ہوئی۔ کس کا جنازہ ہے؟ لوگ جنازہ لئے ایک تازہ کھُدی ہوئی قبر کے پاس پہنچ گئے۔ جنازے کو اتار کر زمین پر رکھا۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا بھیڑ کے قریب پہنچا۔ ایک شناسا چہرے والے سے پوچھا ’’کون تھا؟‘‘ وہ کوئی جواب دئیے بغیر آگے بڑھ گیا۔ شاید اس نے اس کا سوال ہی نہیں سنا۔
جنازے میں شریک لوگ قبرستان میں اِدھر ادھر بکھر گئے تھے۔ کچھ قبرستان میں بچھی بینچوں میں بیٹھ گئے۔ بعض چار چار پانچ پانچ کی ٹکڑیوں میں بٹے دھیمے دھیمے بتیا رہے تھے۔ دن ڈھل رہا تھا۔ سایے لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ اسے ایک بار پھر حیرت نے آ گھیرا۔ پورا دِن گزر گیا اور اسے پتا بھی نہیں چلا۔ اتنے میں کسی نے آواز دی۔ ’’میّت کے رشتے دار آخری دیدار کر لیں‘‘ اس نے سوچا کسی سے کچھ پوچھنے کی بجائے خود چل کی دیکھ لینا چاہئے کہ میّت کس کی ہے؟
لوگ قبر کو گھیرے کھڑے تھے وہ لوگوں کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا قبر کے کنارے پہنچ گیا۔ قبر میں جھانک کر دیکھا۔ میّت کو قبر میں لٹا دیا گیا تھا۔ کوئی شخص قبر میں ہی کھڑا تھا۔ ارے یہ تو غوث محمد تھا۔ جو اکثر محلے والوں کی موت مٹّی یا شادی بیاہ میں پیش پیش رہتا تھا۔ مولوی صاحب کی آواز آئی
’’چہرہ دکھاؤ۔‘‘
غوث محمد نے جھک کر میّت کے چہرے سے کفن ہٹایا۔ اس نے میّت کو غور سے دیکھا۔ اسے جھٹکا سا لگا۔ میت کی شکل اس سے ملتی جلتی تھی۔ یہاں تک کہ اس کے سیدھے گال پر بڑا سا مسا بھی صاف نظر آ رہا تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے گال پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے گال پر بھی ویسا ہی مسّا موجود تھا۔ اس نے گھبرا کر اطراف کے لوگوں پر نگاہ ڈالی۔ بیشتر اس کے عزیز رشتے دار تھے۔ چھوٹا بھائی اختر، اس کا بیٹا اکرم، غفور چچا، اس کا دوست امین مرزا، اس نے دیکھا اکرم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ منہ پر رو مال رکھے اپنی سسکیوں کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا۔
چھوٹے بھائی کا بھی تقریباً وہی حال تھا۔ غوث محمد نے جھک کر میّت کا چہرہ کفن سے ڈھک دیا اور جلدی جلدی قبر میں برگے لگانے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس نے بیٹے کو آواز دی۔ ’’اکرم!‘‘ پھر چھوٹے بھائی کو پکارا۔۔۔ ’’اختر!‘‘ مگر اس کی آواز کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔ غوث محمد برگے لگانے کے بعد اچک کر قبر کے باہر آ گیا۔ مولوی صاحب نے آواز لگائی۔
’’قل کی مٹّی دیجئے۔۔۔‘‘ لوگ مٹھیاں بھر بھر کر قبر میں مٹّی ڈالنے لگے۔ غوث محمد اور گورکن پھاؤڑوں کے ذریعے تیزی سے قبر میں مٹّی سرکانے لگے۔ اس نے ایک چیخ ماری۔
’’ارے سنو! آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ کسے گاڑ رہے ہیں۔ میری طرف دیکھو۔ میں زندہ ہوں۔ کیا تم سب لوگ اندھے بہرے ہو گئے ہو؟ کیا تمہیں میں دکھائی نہیں دے رہا ہوں؟ کیا تمہیں میری چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہے؟‘‘
بھر بھر۔۔۔ بھر بھر۔۔۔ قبر مٹّی سے بھرتی جا رہی تھی۔ وہ چیختا، روتا، بلبلاتا، وہیں قبر کے سرہانے اکڑوں بیٹھ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قبر مٹّی سے بھر دی گئی۔ غفور چچا نے اگر بتّیوں کا بنڈل نکالا اور ایک ساتھ دس پندرہ اگر بتّیاں سُلگائیں اور انہیں قبر کی مٹّی میں کھبو دیا۔ وہ اسی طرح قبر کے سرہانے اکڑوں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اب اس میں رونے کی سکت بھی باقی نہیں تھی۔ مولوی صاحب نے فاتحہ پڑھی اور لوگوں کی بھیڑ چھٹنے لگی۔ اس کا بیٹا، بھائی چچا اور دوست رشتہ دار سب ایک ایک کر کے قبرستان سے باہر نکل گئے۔ وہ اس طرح گم سم قبر کے سرہانے بیٹھا رہا۔ اگر بتیاں سلگ رہی تھیں اور ان کا دھواں بل کھاتا ہوا، ہوا میں تحلیل ہوتا جا رہا تھا۔ اگر بتیوں کی راکھ جھڑ جھڑ کر زمین پر گر رہی تھی۔ اسے محسوس ہوا کہ اب اس کا وجود بھی اگر بتیوں کی راکھ کی طرح جھڑ جھڑ۔۔۔ جھڑ جھڑ کر زمین پر گر رہا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا پورا وجود ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مٹی ہو گیا، اور آخر میں اس کے ہونے کا احساس بھی دھوئیں کی طرح دھیرے دھیرے فضا میں تحلیل ہوتے ہوئے گم ہو گیا۔
٭٭٭
تشکر: عامر صدیقی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید