زیام کے ساتھ ساتھ شاویز کے چہرے کا رنگ بھی فق ہو گیا تھا کیونکہ سامنے ہی نائلہ بیگم غصے کے ساتھ دونوں کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔
نائلہ بیگم کمرے کے اندر آئیں اور ان دونوں کے سامنے رک گئیں ۔۔۔
ممی وہ میں۔۔۔۔
اس سے پہلے زیام اپنی بات مکمل کرتا نائلہ نے ایک تھپڑ اس کے دائیں گال پر رسید کیا۔۔۔۔۔
ڈونٹ کال می ممی۔۔۔۔ انڈرسٹینڈ۔۔۔۔
نائلہ بیگم نے انگلی اٹھا کر زیام کو غصے سے کہا۔۔۔۔۔
اور تم شاویز ۔۔۔۔۔ جائو جا کر دوبارہ سے نہا کر کپڑے چینج کرو۔۔۔
نائلہ کی بات پر شاویز نے بے یقینی جبکہ زیام نے دکھ سے دیکھا تھا۔۔۔۔
ممی۔۔۔
سنا نہیں شاویز جائو اور جا کر کپڑے تبدیل کرو۔۔۔۔۔
نائلہ نے گھور کر شاویز سے کہا۔۔۔۔
شاویز نے تاسف سے انہیں دیکھا۔۔۔
مجھے لیٹ ہو رہا ہے ممی میں چلتا ہوں اللہ حافظ۔۔۔۔
شاویز بنا نائلہ کی بات کی تکمیل کئے وہاں سے چلا گیا جبکہ زیام ابھی تک اسی جگہ ساکن کھڑا تھا۔۔۔۔
کتنی دفعہ کہا ہے کہ دور رہا کرو میرے بچوں سے۔۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا کیا؟؟؟؟ اپنا منحوس سایہ میرے بچوں سے دور رکھو ورنہ انجام کے ذمے دار تم خود ہوگے۔۔۔۔۔
نائلہ کی بات پر زیام زخمی سا مسکرایا اور بولا۔۔۔۔
ایم سوری کہ میرا منحوس سایہ آپکے بچوں پر پڑتا ہے ۔۔۔۔ ایم سوری کہ میں آپکے بچوں کو اپنا بھائی بہن مانتا ہوں۔۔۔ اینڈ ایم سوری کہ میں چاہ کر بھی آپ سے نفرت نہیں کر سکا۔۔۔۔
زیام یہ بول کر وہاں سے چلا گیا جبکہ نائلہ نے ایک نظر اپنے ہاتھ کو دیکھا اور پھر سر جھٹک کر واش روم کی طرف چلی گئیں ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحاب نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں تو خود کو بیڈ پر پایا۔۔۔۔ بیڈ کا سہارا لے کر اس نے بیڈ کرائون سے ٹیک لگائی اور سر کو تھام لیا جہاں بینڈیج لگی ہوئی تھی ۔۔۔
جیسے جیسے اس کی حواس بحال ہو رہے تھے اسے کا سرمزہد چکرا رہا تھا۔۔۔ کمرے میں موجود تمام دیواروں پر اس کی تصاویر تھیں ۔۔۔ اور یہ تصاویر اس کی سات سال پرانی تھیں ۔۔۔ پہلا دھیان جس شخص کی طرف گیا تھا یہ سوچ کر ہی اس کا دل خوش ہوگیا تھا اور خوشی میں اس کی منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔۔۔۔
پرنس۔۔۔۔۔
اس نے تمام تصاویر کو دیکھنا شروع کیا اور مسکراتے ہوئے خود سے بولی۔۔۔۔
میں جانتی تھی تم اپنا وعدہ نبھائو گے۔۔۔۔ پرنس۔۔۔۔ تمہاری رے تمہیں بہت یاد کرتی تھی۔۔۔۔ میں جانتی ہوں تم ناراض ہو گے لیکن مجھے یقین ہے سچ جاننے پر تم مجھے معاف کر دو گے ۔۔۔۔۔ کیونکہ تمہاری رے اب کبھی تمہیں چھوڑ کر نہیں جائے گی۔۔۔۔۔
میں کتنی موٹی تھی سات سال پہلے ۔۔۔۔۔ مجھے پرنس نے کیسے پہچانا ہوگا؟؟؟؟ ہاں اس نے کہا تھا وہ میری محبت کو محسوس کرکے واپس آئے گا۔۔۔۔ اے اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے پرنس سے ملا دیا۔۔۔۔۔
رحاب کی خوشی اس کی چہرے سے واضح عیاں ہو رہی تھی ۔۔۔
لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتی تھی کہ یہی خوشی اس کے لئے کیا طوفان لانے والی ہے ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
جہانگیر علوی نے زیام کے ٹھیک ہوتے ہی اس کا داخلہ ایک بورڈنگ سکول میں کروا دیا ۔۔۔ زیام جانتا تھا کہ اس کا باپ مزید اب اس کی ماں کے حوالے سے دی گئی تکلیفوں کو برداشت نہیں کرے گا اس لئے وہ بھی اپنے باپ کے فیصلے سے مطمئن تھا۔۔۔ جہانگیر نے سکول کے پرنسپل سے مل کر ساری فارملییٹیز پوری کیں اور زیام کو نصیحتیں کر کے واپس آگئے۔۔۔۔ زیام دس سال کا تھا لیکن اس کا داخلہ تیسری کلاس میں کیا گیا ۔۔۔۔ وہ خوش نہیں لیکن اپنے باپ کے فیصلے پر پرسکون ضرور تھا۔۔۔۔۔ ایک مہینہ ہوگیا تھا اسے وہاں اسے وہاں کوئی پریشانی نہیں ہوئی پھر ایک دن اس کی ملاقات عرزم سے ہوئی ۔۔۔۔۔
زیام جیسے ہی اپنی جگہ پر بیٹھنے لگا اس کے کچھ کلاس فیلوز نے اسے وہاں بیٹھنے نہ دیا۔۔۔ اگر وہ سب سے پچھلی سیٹ پر جاتا تو وہاں سے ایک لڑکا اسے آگے دھکیل دیتا اور اگر آگے اپنی سیٹ پر جاتا تو وہاں سے دوسرا لڑکا اسے پیچھے دھکیل دیتا۔۔۔۔
عرزم جس نے کافی ضد کرکے اس سکول میں ایڈمیشن لیا تھا آج ہی وہ کلاس میں پہنچا تھا ۔۔۔ لیکن کلاس کا نظارہ دیکھ کر اسے بے ساختہ زیام پر ترس آیا ۔۔۔ زیام روتے ہوئے مسلسل کبھی ادھر کبھی ادھر جا رہا تھا۔۔۔۔ عرزم کو اس بات پر کافی غصہ آیا ۔۔۔ غصے سے اس کی چھوٹی سی ناک سرخ ہوگئی ۔۔۔ وہ کلاس کے اندر گیا اور زیام کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔۔
تمہاری سیٹ کہاں ہے؟؟؟؟
زیام نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر انگلی سے آگے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔ عرزم نے ایک نظر وہاں کھڑے لڑکے کو دیکھا اور پھر وہاں سے دائیں سائیڈ کی طرف خالی سیٹ پر جا کر بیٹھ گیا اور زیام کو بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا۔۔۔
آج سے تم میرے ساتھ ہی اس سیٹ پر بیٹھو گے ۔۔۔۔
عرزم نے زیام کو دیکھ کر کہا ۔۔۔۔
زیام نے ایک نظر ان دونوں لڑکوں کو دیکھا اور پھر عرزم کو جو مسلسل انہی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔
زیام کو کافی عجیب لگا ۔۔۔ اس لئے وہ اس کے پاس سے اٹھنے لگا جب عرزم نے اس کا بازو پکڑ کے اسے واپس بٹھایا۔۔۔۔
سنائی نہیں دیتا یہاں ہی بیٹھو گے تم اب۔۔۔۔ اور ان لڑکوں کو تو میں چھوڑوں گا نہیں ۔۔۔۔
عرزم نے دانت پیسے۔۔۔۔
زیام نے جلدی سے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔۔
نام کیا ہے تمہارا؟؟؟
عرزم نے تھوڑی دیر بعد زیام سے پوچھا۔۔۔
زیام علوی ۔۔۔۔
میرا نام عرزم حیدر ہے۔۔۔ میرا کوئی دوست نہیں ہے اس لئے آج سے تم میرے دوست ہو۔۔۔۔
اس کی بات سن کر جہاں زیام کے چہرے پر بے یقینی چھائی وہیں عرزم کے چہرے پر اطمینان تھا۔۔۔۔
ایسے مت دیکھو۔۔۔ مجھے نہیں معلوم دوست کیسے بناتے ہیں۔؟؟؟ اگر کوئی گفٹ دینے سے تم دوستی کرو گے تو میں تمہیں کوئی گفٹ دینے والا نہیں کیونکہ میری پاکٹ منی میں فلحال تمہارے گفٹ کا حصہ نہیں ہے ۔۔۔ اگلے مہینے لے دوں گا ۔۔۔۔۔
عرزم نے اپنے دماغ کے حساب سے اندازہ لگایا تو زیام کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی ۔۔۔
نہیں مجھے کچھ نہیں چاہیے ۔۔۔
زیام نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔
تم ہنستے ہوئے کافی کیوٹ لگتے ہو زیمی ۔۔۔۔۔
عرزم نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا ۔۔۔
زیمی؟؟؟؟
زیام نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔۔
بھئی تمہارا نک نیم ۔۔۔
زیام سے زیمی ہی بنتا ہے اگر تمہیں پسند نہیں تو کوئی بات نہیں میں پھر بھی اسی نام نام سے بلائوں گا۔۔۔۔۔
عرزم کی باتوں سے زیام کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلتی جا رہی تھی ۔۔۔ اور یہی عرزم کا مقصد تھا ۔۔۔ وہ زیام کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔ کیوں دیکھنا چاہتا تھا یہ نہیں معلوم بس وہ اس کی آنکھوں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا اور ایسا کیوں تھا وہ یہ بھی سمجھ نہیں سکا تھا۔۔۔۔
یہ بات سچ تھی اس نے کبھی دوستی میں پہل نہیں کی لیکن زیام کے معاملے میں وہ یہ بھی کر گزرا تھا۔۔۔۔
دو دن بعد جب فائزہ عرزم سے ملنے آئی تو اس نے کافی اصرار کیا کہ وہ ضد چھوڑ دے لیکن اس کا جواب سن کر فائزہ بیگم حیران کم شاکڈ ذیادہ ہوگئیں تھیں۔۔۔۔
پلیز عرزم واپس آ جائو ۔۔۔ ماما مس یو آ لاٹ ۔۔۔۔
ماما پلیز ایموشنل بلیک میل مت کریں۔۔۔ مجھے واپس اس گھر میں نہیں جانا جہاں دادو اور دادی نہیں ہیں ۔۔۔۔۔
عرزم پلیز بیٹا ۔۔۔۔
اووو پلیز ماما۔۔۔ ڈیڈ کو بولیں مجھے آپ کے تھرو ٹریپ مت کریں ۔۔۔۔ دیکھنے میں بچہ لگتا ہوں لیکن ہوں نہیں ۔۔۔۔
عرزم اس وقت واقعی دس سالہ بچہ نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
اچھا گھر کب آئو گے مجھ سے ملنے؟؟؟،
پتہ نہیں۔۔۔
عرزم نے کندھے اچکا دئیے ۔۔۔
اور سکول پسند آیا تمہیں؟؟؟
فائزہ نے مسکرا کر پوچھا کیونکہ جانتی تھیں کہ وہ عرزم حیدر ہے حیدر حسن کا ضدی بیٹا جو کبھی بھی اپنے کہے سے پیچھے نہیں ہٹنے والا۔۔۔۔
ہاں بس ٹھیک ہے۔۔۔ ایک دوست بنایا ہے میں نے اس کا نام زیام ہے بہت اچھا لڑکا ہے ۔۔۔ آپ وارڈن سے بول کر ہمارا روم ایک کروا دیجیئے گا کیونکہ وہ بہت معصوم ہے میں نہیں چاہتا کسی کی وجہ سے وہ روئے۔۔۔۔
عرزم کی بات پر فائزہ کی مسکراہٹ ایک پل میں سمٹی تھی۔۔۔ کیونکہ یہ بات وہ اچھے سے جانتی تھی وہ ریزرو نیچر کا ہے ۔۔۔ کبھی دوست نہیں بناتا ۔۔۔
مجھے ملوائو گے نہیں اپنے دوست سے؟؟؟
نہیں۔۔۔ وہ تھوڑا سا شائے ہے ابھی میرے ساتھ بھی صحیح سے باغ نہیں کرتا اس لئے تو بول رہا ہوں کہ اس کا سامان میرے روم میں شفٹ کروا دیں۔۔۔
عرزم نے سنجیدگی سے جواب دیا۔۔۔۔
اوکے میں کرتی ہوں وارڈن سے بات لیکن ایک بات تو بتائو ایسا کیا ہے تمہارے دوست میں جو تم اسے اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہو؟؟؟؟
مجھے اسے پروٹیکٹ کرنا ہے ۔۔۔۔
کس سے پروٹیکٹ کرنا ہے ؟؟؟؟
فائزہ کو عرزم اس وقت دس نہیں بیس سالہ نوجوان لگ رہا تھا جو کسی کا محافظ بننا چاہتا تھا۔۔۔۔
سب سے۔۔۔ اور پلیز ذیادہ سوال مت کریں۔۔۔ میری کلاس کا وقت ہو رہا ہے اس لئے میں جا رہا ہوں ۔۔۔
عرزم یہ بول کر فائزہ کی پیشانی پر جھکا اور بوسہ لے کر وہاں سے چلا گیا جبکہ فائزہ کو نئی سوچوں نے گھیر لیا تھا۔۔۔۔
یہ ان کا بیٹا تو نہیں تھا جو خود میں رہتا تھا یہ تو کوئی اور ہی تھا۔۔۔۔
ہوپ سو کہ یہ کچھ غلط نہ کرے۔۔۔۔
فائزہ خود سے بڑبڑائیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
رحاب کو پرنس کا انتظار کرتے تقریبا چار گھنٹے ہوگئے تھے ۔۔ لیکن وہ تھا کہ سامنے ہی نہیں آ رہا تھا۔۔۔ کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو کمرے کو لاک پاکر واپس بیٹھ گئی ۔۔۔
یااللہ پرنس کو بھیج دیں۔۔ یہ انتظار تو میری جان لے لے گا۔۔۔۔ پتہ نہیں سات سالوں میں اس میں کون کون سی تبدیلی آئی ہوگی؟؟؟ پہلے تو کافی کیوٹ تھا۔۔۔ اور میری طرح موٹا تھا اب پتہ نہیں کیسا ہوگا؟؟؟؟
رحاب خود سے باتیں کر رہی تھی جب اچانک اس کا دھیان اپنے سر پر لگی بینڈیج پر گیا۔۔۔۔
میرا موبائل کہاں ہے ابھی تو یونی آف ہونے میں دو گھنٹے ہیں اگر پرنس نہ آیا تو میں گھر کیسے جائوں گی؟؟؟؟
رحاب کے چہرے پر پریشانی کی واضح جھلک رہی تھی ۔۔۔۔
یااللہ پلیز پرنس کو بھیج دے ۔۔۔۔
رحاب نے شدت سے دعا مانگی تھی اور شاید وقت قبولیت تھا کہ اسے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی اس کی دروازے کی طرف پشت تھی وہ مسکرائی تھی ۔۔۔
تھینکیو سو مچ اللہ تعالی ۔۔۔
وہ خود سے بڑبڑائی اور آہستہ سے پیچھے مڑی ۔۔۔ سامنے نقاب میں ایک شخص کھڑا تھا جس کی گرین آنکھوں میں ویرانی تھی جبکہ رحاب کو ایک لمحہ لگا تھا اس کو پہچاننے میں۔۔۔
پرنس۔۔۔۔
رحاب خوشی سے بولی اور آگے بڑھی اس سے پہلے وہ اسے ہاتھ لگا کر محسوس کرتی سامنے والے شخص نے ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا ۔۔۔۔
رحاب کے قدم جہاں تھے وہیں ساکت ہوگئے ۔۔۔
پرن۔۔۔۔۔
شششش۔۔۔۔۔۔
آواز نہیں نکلے تمہاری۔۔۔۔
مقابل شخص کی آواز کے ساتھ ساتھ اس کا لہجہ بھی سرد تھا۔۔۔
رحاب کو لگا جیسے اس نے یہ آواز اور یہ لہجہ کہیں سنا ہے لیکن کہاں یہ سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔
ایم سوری پلیز جو کچھ ہوا وہ۔۔۔۔
رحاب نم آنکھوں سے بولی تھی ۔۔۔
سنائی نہیں دے رہا ۔۔۔ آئی سیڈ شٹ اپ۔۔۔۔۔
اس بار پرنس بولا نہیں بلکہ دھاڑا تھا۔۔۔ رحاب کانپ گئی تھی اس کی آواز سے ۔۔۔
سات سال ۔۔۔۔ پچھلے سات سالوں کا حساب پہلے پورا ہوگا اس کے بعد تم بولو گی۔۔۔۔
آج میں بولوں گا اور تم سنو گی۔۔۔ تمہاری بے وفائی کی سزا میں تمہیں دے کر رہوں گا۔۔۔۔۔
رحاب کے آنسو اس کے گالوں پر نکل آئے تھے وہ اس لئے نہیں رو رہی تھی کہ اسے پرنس کے الفاظ تکلیف دے رہے تھے وہ اس لئے رو رہی تھی کہ پرنس کو وہ خود سے زیادہ تکلیف میں محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔ جن آنکھوں میں اسے اپنا عکس نظر آتا تھا آج ان آنکھوں میں ویرانی تھی۔۔۔۔
تم میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی نہیں۔۔۔غلطی نہیں بلکہ گناہ ہو۔۔۔۔۔
رحاب نے تڑپ کر سر اٹھایا تھا ۔۔۔۔
کیوں راستے میں چھوڑ دیا مجھے۔۔۔۔ مانتا ہوں کہ سات سال پہلے میں تمہاری اور تمہاری ماں کی نظر میں بچہ تھا لیکن میرے جذبے تو سچے تھے نا؟؟؟ تم نے مجھے خود سے دور کرنے کے لئے مجھے میری نظروں میں گرادیا ۔۔۔۔ کاش میرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہارے نام تک کو اپنی زندگی سے نکال دیتا۔۔۔۔ لیکن کمبخت اختیار ہی تو نہیں ہے میرے پاس۔۔۔۔۔
وہ بے بسی سے مسکرایا تھا ۔۔۔رحاب نے کم از کم اس نے اس کی آواز اور آنکھوں سے یہی اندازہ لگایا تھا۔۔۔
میری روح کو زخم دئیے ہیں تم نے ۔۔۔۔۔ جانتی ہو کتنا تڑپا تھا میں؟؟؟ نہیں تم جان ہی نہیں سکتی۔۔۔۔ کیونکہ محبت کرنے والے بے وفا نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔
اس بار اس نے رحاب کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا تھا ۔۔۔۔
میں مجبور تھی۔۔۔۔۔۔
رحاب نے بولنے کی کوشش کی تو پرنس نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور اس کے لبوں پر انگلی رکھی ۔۔۔۔ ایک کی آنکھوں میں ڈر تھا تو دوسرے کی آنکھوں میں وحشت تھی۔۔۔۔
ششش۔۔۔۔۔
ایسی کونسی مجبوری تھی جس کی وجہ سے تم نے اپنے پرنس کو دھوکا دیا ۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟
ما۔۔۔ما۔۔۔۔۔
رحاب کے لفظی جواب میں جہاں پرنس کی گرفت ڈھیلی ہوئی تھی ۔۔۔
اپنی بے وفائی کو بار بار اپنی ماں کے ساتھ منسوب مت کرو۔۔۔کیونکہ ۔ میرے جذبوں کی قیمت میں وصول کرکے رہوں گا۔۔۔۔
اگر تمہیں لگتا ہے کہ میں بے وفا ہوں تو تم جو سزا دو گے مجھے منظور ہے لیکن خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔۔۔۔
رحاب پوری طرح سے آج ٹوٹ کر بکھر رہی تھی ۔۔۔۔۔
معافی کا ڈرامہ مت کرو میرے سامنے کیونکہ میں جانتا ہوں تم صرف لوگوں کو پاگل بنانا جانتی ہو۔۔۔۔۔۔ انہی آنسوئوں کی وجہ سے میرا دل مجھے دغا سے گیا تھا لیکن آج تمہارے آنسو مجھے سکون دے رہے ہیں۔۔۔۔ سنا تم نے اور میرا وعدہ ہے ان آنسوئوں کو تمہاری قسمت کا حصہ بنا کر رہوں گا۔۔۔۔
تم معاف کیوں نہیں کرسکتے مجھے؟؟؟ تمہیں اسی محبت کا واسطہ ہے جو کبھی تم نے مجھ سے کی تھی ۔۔۔ پلیز مجھے ایک آخری چانس دے دو۔۔۔۔
رحاب اس کے قدموں میں ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے بولی تھی۔۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔ تمہیں ایک چانس چاہیے نا؟؟؟ کیا کرسکتی ہو؟؟؟
پرنس اس کے مقابل بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
جو تم بولو گے۔۔۔۔
رحاب کی دیوانگی اس وقت اس کے حواس سلب کر چکی تھی۔۔۔۔
سات سال پہلے جو کام بقول تمہارے ادھورا رہ گیا تھا آج اسے پورا کرنا ہے ۔۔۔۔۔
پرنس کے الفاظ پر رحاب ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹی تھی ۔۔۔۔
سر خود بخود نفی میں ہلا تھا۔۔۔ پرنس کے لبوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی تھی ۔۔۔۔
مجھے تمہاری پرمیشن چاہیے بھی نہیں دس منٹ میں منہ دھو کر باہر آئو نکاح ہے ہمارا ۔۔۔۔
پرنس یہ بول کر وہاں سے اٹھا تھا جبکہ رحاب نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔۔۔۔
کیا اس کے بعد تم یقین کر لو گے اس دن میں نے سب جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔۔۔۔۔
ہاں شاید۔۔۔۔
رحاب اپنی جگہ سے اٹھی تھی اور مسکراتے ہوئے اس کے قریب ہوئی تھی۔۔۔۔
سات سال پہلے تمہیں کھونے کی غلطی کی تھی لیکن آج یہ غلطی میں دہرائوں گی نہیں ۔۔۔ آج اگر کوئی رحاب حسن سے اس کی جان بھی مانگ لے نا تو رحاب منع نہیں کرتی ۔۔۔ کیونکہ آج میں نے تمہیں محسوس کیا ہے۔۔۔۔۔۔
پرنس نے ایک نظر رحاب کی آنکھوں میں دیکھا اور ہاتھ چھڑوا کر وہاں سے جانے لگا جب رحاب نے اس کے چہرے کو چھونے کی ناکام کوشش کی۔۔۔۔۔ کیونکہ پرنس نے بروقت رحاب کا وہی ہاتھ پکڑ کر اس کی کمر پر لگا دیا تھا۔۔۔۔۔
وعدہ کیا تھا تم سے کہ اب تمہیں اپنا چہرہ تب دکھائوں گا جب تم مکمل میری دسترس میں ہوگی ۔۔۔۔
تو کیا نکاح کے بعد اجازت ہوگی مجھے کہ میں تمہاری آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ سکوں؟؟؟؟
رحاب نے اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب کیا تھا ۔۔۔ اتنا کہ دونوں کی سانسیں الجھنے لگی تھیں ۔۔۔ چند لمحے دونوں ایک دوسرے میں کھوئے رہے ۔۔۔۔ پھر رحاب نے آنکھیں بند کر کے جیسے ہی اپنے لب پرنس کی پیشانی کے قریب کئے پرنس نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا اور باہر نکل گیا۔۔۔۔۔ جبکہ رحاب لڑکھڑائی تھی ۔۔۔ لیکن مسکراہٹ اس کے لبوں پر جم سی گئی تھی ۔۔۔
مسز اجالا حسن نیازی آپ کی وجہ سے میں نے پرنس کو کھویا تھا لیکن اب آپکو ہی پرنس کو میری زندگی میں واپس لانا ہے۔۔۔۔
رحاب دل میں سوچ کر مسکرائی اور فریش ہونے کے لئے کمرے میں موجود واش روم میں چلی گئی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
فائزہ نے عرزم کی ضد پر زیام کو عرزم کے روم شفٹ کروا دیا تھا اگرچہ یہ کام اس کے لئے مشکل تھا لیکن حیدر حسن کی سفارش کی وجہ سے یہ کام جلدی ہوگیا ۔۔۔۔ حیدر حسن چونکہ اس بورڈنگ سکول کے ٹرسٹی تھے اس لئے ان کی ایک فون کال پر انہوں نے عرزم کی بات مان لی تھی۔۔۔۔
چار ماہ ہوگئے تھے ان کی دوستی کو اور اس دوران زیام کافی حد تک عرزم کے ساتھ اٹیچ ہوگیا تھا ۔۔۔
ان تین ماہ کے دوران اس نے زیام کو ایک لمحے کے لئے بھی تنہا محسوس ہونے نہیں دیا ۔۔۔۔۔ سائے کی طرح وہ اس کے ساتھ رہتا تھا ۔۔۔ کسی کی جرت نہیں ہوتی تھی عرزم کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کیونکہ تقریبا سارے سکول کو معلوم تھا کہ اس کے فادر اس سکول کے ٹرسٹی ہیں ۔۔۔ ہاں اگر زیام کو کوئی کچھ کہتا تھا تو عرزم حیدر اس انسان کو وہ سزا دیتا تھا جو اس کی عمر اور سوچ سے زیادہ ہوتی تھی ۔۔۔۔
کلاس میں جن دو لڑکوں نے زیام کو سیٹ کے لئے ٹارچر کیا تھا ان کی سیٹس پر عرزم نے دوسرے دن ہی ان کے آنے سے پہلے گلو ڈال دی تھی جیسے ہی وہ بیٹھے تھے ان کی پینٹ پھٹ گئی تھیں ۔۔۔
اور ساری کلاس میں ان دونوں کا اچھا خاصہ مذاق اڑایا گیا تھا۔۔۔
اس واقعہ کے بعد کلاس کے سٹوڈنٹس بھی زیام سے دور ہی رہتے تھے۔۔۔۔
وقت کا کام ہے گزرنا سو گزر رہا تھا ۔۔۔۔ تین سال ہوگئے تھے ان کی دوستی کو ۔۔۔ دونوں ایک دوسرے ساتھ خوش رہتے تھے۔۔۔ عرزم اب تک زیام کی فیملی کے متعلق نہیں جانتا تھا ۔۔۔۔ فیملی کے ذکر پر زیام کی آنکھیں ہمیشہ نم ہو جاتیں تھیں اور عرزم اس کے آنسوئوں کی وجہ نہیں جاننا چاہتا تھا ۔۔۔کیونکہ زیام کے آنسوئوں سے عرزم کو تکلیف ہوتی تھی۔۔۔۔۔
زیام کمرے میں موجود سٹڈی ٹیبل کے ساتھ موجود کرسی پر بیٹھ کر پڑھ رہا تھا کہ عرزم روم میں داخل ہوا ۔۔۔
زیام نے مسکرا کر اسے دیکھا اور سلام کیا۔۔۔۔
اسلام وعلیکم۔۔۔۔
وعلیکم اسلام زیمی۔۔۔۔
کیا کر رہے تھے؟؟؟
عرزم نے ہاتھ میں موجود کیک کو کمرے میں موجود دو سنگل بیڈ میں سے ایک بیڈ پر رکھتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔
کچھ نہیں پڑھ رہا تھا ۔۔۔۔
اچھا پڑھائی کو چھوڑو ادھر آئو کیک کٹ کریں ۔۔۔۔
عرزم نے اس کا بازو پکڑ کر اسے بیڈ پر بٹھایا اور خود کیک والا ڈبہ کھولا ۔۔۔۔
ہیپی تھرڈ سیکسیس فل ائیر آف فرینڈشپ ۔۔۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔۔ جبکہ زیام نے ایک ہلکی سی چپت اس کے سر پر ماری تھی۔۔۔۔
تھینکس ۔۔۔۔
پھر دونوں نے مل کر کیک کٹ کیا تھا ۔۔۔
ایک دوسرے کو کھلانے کم لگانے کے بعد دونوں نے باری باری منہ دھویا تھا ۔۔۔۔
یار عرزی تم مجھے چھوڑو گے تو نہیں؟؟؟؟
زیام اور عرزم سونے کے لئے اپنے اپنے بیڈ پر لیٹے تھے جب زیام نے کسی خدشے کی تحت پوچھا ۔۔۔۔
عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر چھت کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
اور اگر چھوڑ دیا تو کیا ہوگا؟؟؟؟
تو زیام علوی مر جائے گا۔۔۔۔
زیام کی آواز میں اس بار نمی نے بسیرا کیا تھا ۔۔۔۔
عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا اور آٹھ کر اس کے پاس آیا اور ایک ذور دار تھپڑ اس کے دائیں گال پر رسید کیا۔۔۔
زیام نے پہلے تو ناسمجھی اور پھر خفگی سے عرزم کو دیکھا ۔۔۔۔۔
چل تھپڑ مار مجھے ۔۔۔۔
عرزم نے سنجیدگی سے کہا تھا جبکہ زیام نے عرزم کو ایسے دیکھا جیسے اس کی دماغی حالت خراب ہو ۔۔۔۔
سنائی نہیں دے رہا مار نہ تھپڑ ۔۔۔۔
عرزم نے سخت لہجے میں کہا لیکن زیام نے ناراضگی سے چہرے دوسری سائیڈ پر کر لیا ۔۔۔۔
نہیں مار سکتا۔۔۔ تمہاری طرح غنڈہ نہیں ہوں میں ۔۔۔
زیام کے جواب پر عرزم کو ہنسی تو بہت آئی لیکن وہ دبا گیا ۔۔۔۔
جس طرح تم میرے کہنے پر بھی مجھے پر ہاتھ نہیں اٹھا رہے اسی طرح میں تمہارے کہنے پر بھی تمہیں چھوڑنے والا نہیں ۔۔۔۔ سمجھے ۔۔۔
زیام نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر مصنوعی خفگی سے بولا۔۔۔
سے سوری ۔۔۔۔
عرزم نے ایک ہلکی سی چپت اس کی سر پر لگائی اور پھر کان پکڑ کر بولا۔۔۔
سوری یار ۔۔۔ یہ الفاظ تو میں مر کر بھی تمہیں نہ بولوں ۔۔۔ اور ویسے بھی مجھے تمہاری بات پر غصہ آیا تھا اور اس سے بہتر مثال میں تمہیں دے نہیں سکتا تھا۔۔۔
عرزم کا اشارہ تھپڑ کی طرف تھا ۔۔۔۔
جبکہ زیام نے مسکرا کر عرزم کو دیکھا اور بولا۔۔۔۔
امید ہے عرزم حیدر اپنی زبان سے مکرے گا نہیں ۔۔۔۔
جس دن مکر گیا نا؟؟؟ اس دن جان سے مار دینا ۔۔۔۔
عرزم کے چہرے پر ایک دم سختی آئی تھی۔۔۔
اووو ہیرو ۔۔۔۔ ڈائیلوگ بازی بند کر اور مجھے سونے دے صبح انگلش کا ٹیسٹ ہے۔۔۔
زیام نے ہاتھ جوڑ کر کہا ۔۔۔
عرزم نے مصنوعی خفگی سے اسے دیکھا اور گنگناتے ہوئے بولا۔۔۔۔
مطلب دی دنیا اے۔۔۔۔ مطلب دی یاری اے۔۔۔
ابھی اس نے اتنا ہی بولا تھا جب زیام نے پاس پڑے کشن اسے مار کر چپ کروایا تھا۔۔۔۔
عرزم اپنے بیڈ پر لیٹا اور زیام کو ایک نظر دیکھا جو مسکراتے ہوئے سو گیا تھا ۔۔۔۔
میں اللہ سے دعا کرتا ہوں تمہارے چہرے کی مسکراہٹ ہمیشہ ایسی رہے۔۔۔ اور دعا کے بعد کوشش ضرور کرتا ہوں اسے برقرار رکھنے کی ۔۔۔
عرزم بھی مسکرا کر آنکھیں موند گیا تھا۔۔۔
شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ اس مسکراہٹ کے لئے وہ کیا کچھ قربان کرنے والا ہے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔