کیا مطلب یقین نہیں ہے؟؟؟
زیام نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔۔
دفعہ ہو جائو یہاں سے ۔۔۔ دماغ خراب نہیں کرو میرا اب۔۔۔
عرزم چاہتے ہوئے بھی اس بار اپنا لہجہ سخت نہیں کر سکا تھا۔۔۔۔۔
عرزم مجھے لگتا تھا کہ دنیا میں اگر میرے لئے کوئی کھڑا ہو سکتا ہے تو وہ تم ہو۔۔۔ کیونکہ تم ہی ہو جو مجھے جانتے اور سمجھتے ہو۔۔۔ لیکن تم۔۔۔۔
لیکن کیا؟؟؟
عرزم نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں ۔۔۔۔
زیام کو اس کی سرخ آنکھوں سے خوف محسوس ہوا تھا اس لئے بات بدل گیا۔۔۔ جبکہ اس کے اس طرح کرنے سے عرزم کے چہرے پر بے ساختہ مسکراہٹ آئی۔۔۔۔ جسے وہ سر جھکا کر چھپا گیا تھا۔۔۔۔
تم نے مجھ سے کیوں چھپایا کہ تم اس سے رابطے میں ہو؟؟؟؟
تھوڑی دیر بعد عرزم نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
کیونکہ مجھے لگا تھا تم غصہ کرو گے ۔۔۔۔
زیام معصومیت سے سر جھکا کر بولا جیسے کسی جرم کا اعتراف کر رہا ہو۔۔۔
تمہیں میرے غصے کی پرواہ ہے زیمی لیکن میری نہیں ۔۔۔
کیونکہ اگر تمہیں میری پرواہ ہوتی تو اس گھٹیا لڑکی کے کو ہماری دوستی میں نہیں لاتے۔۔۔۔
عرزم کے لہجے میں موجود دکھ زیام کو واضح محسوس ہوا تھا۔۔۔۔
ایم سوری ۔۔۔۔
تمہیں سوری بولنے کی ضرورت نہیں ہے زیمی ۔۔۔ مجھے غصہ تھا جو میں نے تم پر نکال بھی لیا ۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا ہمارے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہو۔۔۔ اس لئے مجھ اب سچ سچ بتائو تم اس کے ساتھ کیا کر رہے تھے اس روم میں ۔۔۔۔
زیام نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سر جھکا کر اسے کال سے لے کر رحاب کی باتوں تک سب بتادیا ۔۔۔۔
انجیکشن کہاں لگا تھا؟؟؟
عرزم کا غصہ پھر سے عود آیا تھا۔۔۔
ی۔۔۔ یہاں گر ۔۔۔۔گردن پر۔۔۔
زیام اس کی آنکھوں کی بڑھتی سرخ سے اس کے غصے کا اندازہ لگا چکا تھا۔۔۔
عرزم نے اس کی گردن کے بائیں طرف کندھے کے قریب ایک چھوٹا سا نشان دیکھا اور لب بھینچ گیا۔۔۔۔
شی ول ہیو ٹو پے فار دس۔۔۔
عرزم۔۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔۔
اس نے تم پر الزام نہیں لگایا اس نے عرزم حیدر کے کردار پر انگلی اٹھائی ہے ۔۔۔ رحاب حسن یقینا اب جان جائے گی کہ عورت ہو یا مرد جب بات کردار پر آتی ہے تو وہ برداشت کی آخری حد ہوتی ہے ۔۔۔۔
عرزم تم رحاب ۔۔۔۔۔
زیمی ۔۔۔ اگر اب تم نے اپنی زبان سے اس کا نام لیا تو میں اس سے پہلے تمہیں قتل کروں گا سمجھے ۔۔۔۔
عرزم نے اسے گھورا تھا۔۔۔
اچھا نہیں لیتا نام۔۔۔ اب تو موڈ ٹھیک کرو۔۔۔۔
زیام نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔
ایم سوری ۔۔۔ میں نے تم پر اٹھایا۔۔۔
عرزم نے جیسے ہی اس کا سوجا ہوا گال دیکھا شرمندگی سے بولا۔۔۔۔
ویسے تم نے مجھے تھپڑ کیوں مارے تھے۔۔۔۔
زیام نے مصنوعی خفگی سے پوچھا ۔۔۔۔
کیونکہ کوئی دوسرا اس وقت اگر تمہیں کچھ کہتا یا ہاتھ لگاتا تو میں اسے اسی وقت ختم کر دیتا اور تم جانتے ہو میرے لئے یہ مشکل نہیں ہوتا۔۔۔۔ تمہیں تکلیف یا درد دینے کا حق میں کسی کو نہیں دیتا زیام علوی ۔۔۔۔یہاں تک کے خود کو بھی نہیں ۔۔۔۔ اور جو انسان ایسا کرتا ہے وہ سزا کا حقدار ہوتا ہے ۔۔۔۔
عرزم نے بولتے بولتے اپنا دایاں ہاتھ کمرے میں موجود آئینے پر ذور سے مارا تھا ۔۔۔ زیام نے ڈر کر آنکھیں بند کی تھیں ۔۔۔۔۔۔ آئینہ ایک لمحے میں ٹوٹا تھا۔۔۔۔ زیام نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں عرزم کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا ۔۔۔
عرزی۔۔۔۔ پاگل ہو کیا۔۔؟؟؟ ایسے بھی کوئی کرتا ہے کیا؟؟؟
زیام غصے سے بول کر اس کے پاس آیا اور فرسٹ ایڈ باکس لے کر اس کا ہاتھ پکڑا تھا عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔۔۔۔
اسے تمہارے آنسوئوں کی قیمت سود سمیت چکانی ہوگی ۔۔۔۔
زیام نے ایک خفا نظر اس پر ڈالی اور اس کے ہاتھ سے کانچ کے ٹکڑے الگ کر کے بینڈیج کی ۔۔۔۔
پاگل۔۔۔ سائیکو۔۔۔۔ بیوقوف ۔۔۔۔ گدھا۔۔۔۔
زیام بینڈیج کرتے ہوئے مسلسل نم آنکھوں سے بڑبڑا رہا تھا۔۔۔۔ جبکہ عرزم کے چہرے پر اس کی بڑبڑاہٹ سے بے ساختہ مسکراہٹ آئی تھی ۔۔۔۔
چلو کہیں ڈنر کرنے چلتے ہیں۔۔۔۔
عرزم یہ بول کر کمرے سے باہر نکل گیا جبکہ زیام نے تاسف سے اس کی پشت کو دیکھا تھا۔۔۔۔
یااللہ اس بے عقل کو عقل دے دے آمین ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روحی یہ سب کچھ ہمارے پلین میں شامل نہیں تھا ۔۔۔ تم بس اسے وہاں قید کرنے والی تھی نا پھر کیوں یہ سب؟؟؟؟ اتنا گھٹیا الزام لگانے سے پہلے اس بیچارے کے فیوچر کے بارے میں ہی سوچ لیتی ۔۔۔۔۔ اس کی چھوڑو اپنے بارے میں ہی سوچ لیتی کہ تمہاری عزت پر بات آئے گی۔۔۔۔
نتاشا آج یونیورسٹی نہیں گئی تھی اور رات کو جب رحاب نے اسے کال کر کے اپنے کارنامے کے بارے میں بتایا تھا وہ سچ میں پریشان ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔
رحاب نے بیزاری سے اس کی بات سنی تھی اور پھر بولی۔۔۔۔
ریلیکس تاشی ۔۔۔۔ کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔ مجھے اس نے ساری کلاس کے سامنے شرمندہ کیا تھا تو میں نے اسے واپس اس کی شرمندگی لوٹا دی۔۔۔ اور ویسے بھی اس کا دوست جو بڑی بڑی دھمکیاں دے کر گیا تھا مجھے اس دن آج بیچارے کی آنکھوں میں سوائے تکلیف کے کچھ نہیں تھا۔۔۔۔
رحاب تم سمجھ نہیں رہی یہ چھوٹی بات نہیں ہے ۔۔۔ اگر سر شاویز نے کسی کو بتا دیا یا کسی دوسرے سٹوڈنٹ نے بات لیک کر دی پھر کیا ہوگا؟؟؟؟
نتاشا نے اسے حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔
وہاں جو سٹوڈنٹس تھے ان سب کو شاویز سر نے سختی سے کچھ بھی بولنے سے منع کر دیا تھا اور مجھے بھی بول رہے تھے کہ میں کسی سے بات نہیں کروں ۔۔۔۔ وہ سب کچھ ہینڈل کر لیں گے۔۔۔ اور یہ بھی کہ زیام کو سزا ضرور ملے گی۔۔۔۔۔۔
روحی ۔۔۔۔ اگر سچ سب کو پتہ چل گیا تو سوچا ہے کیا ہوگا؟؟؟؟
کسی کو کچھ پتہ نہیں چلے گا نتاشا۔۔۔ کیونکہ کل رات میں پر ہی تھی ۔۔۔ اسے وہیں بے ہوش کرکے خود آگئی تھی وہاں سے پھر صبح پانچ بجے تمہارے گھر کا کہہ کر واپس وہاں گئی تھی ۔۔۔
اور ویسے بھی فرض کرو اگر بات لیک ہوئی بھی تو پاپا اور بھائی سب ہینڈل کر لیں گے۔۔۔۔۔
رحاب مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ جبکہ نتاشا کو افسوس ہو رہا تھا اس کی ضد پر ۔۔۔۔۔
روحی لڑکیوں کے پاس صرف ان کی عزت ہوتی ہے جس کی بنا پر وہ اس معاشرے میں سر اٹھا کر چلتی ہیں۔۔۔ یہ اس کانچ کی طرح ہوتی ہے جو ایک بار ٹوٹ جائے تو لوگ اس کے مزید ٹکڑے کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔ اپنا خیال رکھنا ۔۔۔
نتاشا نے یہ بول کر کال ڈراپ کر دی تھی جبکہ رحاب نے ایک نظر موبائل کو دیکھا اور پھر کندھے اچکا دئیے ۔۔۔
فلاسفر ہونا چاہیے تھا اسے۔۔۔۔
رحاب خود سے بولی اور سونے کے لئے لیٹ گئی۔۔۔۔۔
شاید وقت اسے بتانے والا تھا کہ وہ کس حد تک غلط کر چکی ہے یا قسمت اس کا کہا سچ ثابت کرنے والی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی:::
زیام کو جہانگیر اپنے ایک دوست کے ہاسپٹل میں لے گئے تھے تاکہ ان کے گھر کا معاملہ گھر میں رہے ۔۔۔۔ دو دن بعد اسے ہوش آیا تھا اور اس کے لبوں سے جو پہلا جملہ ادا ہوا تھا وہ جہانگیر علوی کے دل کے ہزاروں ٹکڑے کر گیا تھا۔۔۔۔
م۔۔۔۔مم۔۔۔۔۔ممی۔۔۔۔۔ ای۔۔۔ایم۔۔۔۔ س۔۔۔۔سو۔۔ر۔۔ی۔۔۔۔۔
آنکھیں اس کی ہنوز بند تھیں تکلیف اس کی چہرے سے عیاں ہو رہی تھی ۔۔ جہانگیر نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔۔۔ زیام نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں تو سامنے جہانگیر کو نم آنکھوں سے مسکراتے دیکھا۔۔۔۔۔
پا۔۔۔پا۔۔۔۔ ۔۔میں۔۔۔۔ نے۔۔۔۔جا۔۔۔ن۔۔بو۔۔۔جھ۔۔۔۔ کہ۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔کیا۔۔۔۔وہ۔۔۔۔
ششش۔۔۔۔۔۔۔
زیام تکلیف کے باعث اٹک اٹک کر بول رہا تھا جب جہانگیر نے اس کے لبوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کروایا۔۔۔۔۔
جانتا ہوں میں۔۔۔۔ اب ذیادہ مت بولو ورنہ پین ذیادہ ہوگا۔۔۔۔
جہانگیر سے اپنے آنسو روکنے محال ہو رہے تھے۔۔۔ شدت ضبط سے ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔۔۔۔
آ۔۔۔پ۔۔۔۔ ممی۔۔۔۔کو۔۔۔کچھ ۔۔۔۔ مت ۔۔۔ کہیے۔۔۔ گا۔۔۔ ان ۔۔۔ کی ۔۔۔۔ کوئی۔۔۔ غلطی۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہے۔۔۔۔
جہانگیر نے شاکڈ نظروں سے دس سالہ زیام کو دیکھا ۔۔۔ اتنی سی عمر میں اس قدر سمجھداری ۔۔۔ وہ جان گئے تھے نائلہ نے اپنی نفرت میں اس کے معصومیت چھین لی ہے ۔۔۔۔
تم ریسٹ کرو ۔۔۔ میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔۔۔۔۔
جہانگیر یہ بول کر وہاں سے جانے لگے جب زیام کی آواز ان کے پیروں کی زنجیر بن گئی۔۔۔۔
پا۔۔۔۔پا۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ ممی۔۔۔سے۔۔۔۔بہت۔۔۔ پیار۔۔۔کرتا۔۔۔ہوں۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔انہیں ۔۔۔۔ کچھ۔۔۔ مت۔۔۔۔ کہنا۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔۔
کیوں نہ کہوں اس جاہل عورت کو کچھ جس نے تم پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔ صرف پیدا کرنے سے کوئی عورت ماں نہیں بن جاتی ۔۔۔ ماں بننے کےلئے دل و دماغ میں بس اپنی اولاد سے محبت ہی ہونی چاہیے۔۔۔۔
اس نے تمہیں مار کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک خود سر عورت ہے۔۔۔ میں اسے معاف نہیں کرسکتا زیمی۔۔۔۔۔ وہ نہیں ہے لائق معافی کے ۔۔۔۔۔
جہانگیر علوی ضبط کھو گئے تھے اپنا زیام کی بات پر۔۔۔۔۔ اس لئے ناچاہتے ہوئے بھی وہ اپنا لہجہ سنت کرگئے تھے۔۔۔۔۔۔
پا۔۔۔پا۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ پرامس۔۔۔۔می۔۔۔۔
جہانگیر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اپنی آنکھیں بند کر کے لمبا سانس لیا اور بولے ۔۔۔۔
ٹھیک ہے لیکن تمہیں بھی مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا کہ میں جو تم سے مانگو گا وہ تم دو گے ۔۔۔۔۔
ٹھیک ۔۔۔ہے۔۔۔۔۔
تم اب اس گھر میں نہیں رہو گے۔۔۔ تم دائی ماں کے ساتھ اسلام آباد جارہے ہو۔۔۔ باقی کی سٹڈی تم وہیں رہ کر کرو گے ۔۔۔۔
جہانگیر نے ایک لمحے کے لئے بھی زیام کی طرف نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے وہ بے یقینی کی کیفیت میں ہوگا۔۔۔۔اور وہ جانے کے لئے منع کر دے گا ۔ لیکن ان کی توقع کی خلاف اس کا جواب سن کر جہانگیر نے چونک کر اسے دیکھا۔۔۔۔
ٹھیک۔۔۔ہے۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ کوئی ۔۔۔۔ پرابلم۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہے۔۔۔۔
یہ بول کر اس نے آنکھیں بند کر لیں تھیں اور جہانگیر اسے کافی دیر تک دیکھتے رہے۔۔۔۔
کاش کہ تم نائلہ جیسی ماں کی اولاد نہ ہوتے۔۔۔۔۔
جہانگیر نے دل میں سوچا اور باہر چلے گئے جبکہ ان کے جانے کے بعد زیام نے آنکھیں کھولیں اور رونا شروع کر دیا ۔۔۔۔
آئی۔۔۔۔ مس۔۔۔۔یو۔۔۔۔پا۔۔۔پا۔۔۔۔۔
وہ جانتا تھا کہ جہانگیر نے یہ فیصلہ اسے نائلہ بیگم کی وجہ سے کیا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ قسمت اس کے ساتھ اب کیا کھیل کھیلنے والی تھی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
رحاب یونیورسٹی کے لئے جیسے ہی گھر سے گاڑی لے کر نکلی ایک کار نے اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ جیسے ہی سنسان راستہ آیا اسی گاڑی نے رحاب کی گاڑی کو ہٹ کیا ۔۔۔ اس سے پہلے وہ سنبھلتی گاڑی ایک درخت سے ٹکرائی اور ایک چیخ کے ساتھ رحاب ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔۔۔
دوسری گاڑی میں سے ایک شخص باہر نکلا اور رحاب کو دیکھا جو مکمل طور پر بے ہوش تھی۔۔۔ اس شخص نے اسے بازئوں میں اٹھایا اور اپنی گاڑی کے پچھلی سیٹ پر لٹایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا۔۔۔۔ گاڑی سٹارٹ کرنے سے پہلے اس نے ایک نظر رحاب کو دیکھا ۔۔۔۔
کاش کہ میں نے تم سے کبھی محبت نہ کی ہوتی رے۔۔۔۔ کیونکہ جتنی محبت آج سے آٹھ سال پہلے میں نے تم سے کی تھی آج اتنی ہی نفرت کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ تمہیں تمہارے سارے گناہوں کی سزا تمہارا پرنس دے گا۔۔۔۔
اس شخص کی آنکھوں میں یک دم سرد تاثرات چھائے تھے ۔۔۔ اور ایک نفرت بھری نظر رحاب کے وجود پر ڈال کر گاڑی سٹارٹ کر دی ۔۔۔۔۔۔
کاش تمہارے لئے کوئی اتنا وفادار ہوتا کہ مجھے تمہاری زندگی میں واپس نہ آنا پڑتا لیکن دیکھو تم بے مول ہو کہ تم سے کوئی رشتہ سنبھالا نہ گیا۔۔۔ آج تمہارا ڈرائیور چند پیسوں کی خاطر تمہاری زندگی کو خطرے میں ڈال گیا ۔۔۔۔ تمہاری گاڑی کے بریک فیل کروائے تھے میں نے ۔۔۔۔ تاکہ تم مر جائو ۔۔۔ لیکن یہ سزا تو بہت چھوٹی ہوتی ۔۔۔ اس لئے میں نے تمہاری گاڑی کو ہٹ کیا تاکہ تمہیں اپنے پاس رکھ کر تمہیں پل پل کی اذیت سے دوچار کر سکوں ۔۔۔ تم موت کی بھیک مانگو اور وہ موت بھی تم سے منہ موڑ لے ۔۔۔۔۔ تم تڑپو گی میری طرح ۔۔۔۔۔ آئی پرامس کے اب یہ پرنس تمہیں تمہاری سٹوری کا ولن بن کر دکھائے گا۔۔۔۔۔۔
اس شخص کی ہیزل گرین آنکھیں رحاب کے وجود پر تھیں اور سوچوں کا دائرہ ماضی میں کہیں الجھ گیا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی بولیں کیوں یاد کیا ہے آپ نے؟؟؟؟؟
زیام یونیورسٹی کے لئے ریڈی ہو رہا تھا جب ایک ملازم نے اسے شاویز کا پیغام دیا ۔۔۔۔۔ کہ وہ اسے اپنے کمرے میں بلا رہا ہے۔۔۔۔۔
زیام جانتا تھا کہ وہ کل والے واقعے کے بارے میں بات کرے گا ۔۔۔ لیکن اسے فرق نہیں پڑتا تھا کہ کوئی اس کے ساتھ ہے یا نہیں کیونکہ عرزم کے علاوہ وہ کسی کی پرواہ کرتا بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔
شاویز جو آئینے میں کھڑا اپنے اوپر پرفیوم سپرے کر رہا تھا ایک دم مڑا اور پرفیوم کو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ کر زیام کی طرف دیکھا اور بولا ۔۔۔۔
کیا تمہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ کسی کے کمرے میں ناک کر کے آتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟
کیا صبح صبح تمیز سکھانے کے لئے بلایا ہے آپ نے؟؟؟؟ اور ویسے بھی اس گھر میں بدتمیز تو صرف میں ہی ہوں تو پھر مجھے یاد کرنے کی وجہ؟؟؟؟؟
زیام نے طنزیہ لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔
وہ محاورہ تو سنا ہوگا تم نے۔۔۔۔
رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے ۔۔۔۔۔
شاویز نے مسکرا کر اس کے چہرے کو دیکھا جو اس کی بات کا مطلب سمجھ کر لب بھینچ گیا تھا۔۔۔۔۔
خیر کچھ دن تم یونی نہیں جائو گے۔۔۔۔۔
اور میں ایسا کیوں کروں گا؟؟؟؟
زیام نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔۔
کیونکہ کل جو حرکت تم نے کی ہے اس پر سے لوگوں کا دھیان بٹ سکے۔۔۔۔
میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اس لئے میں یونی جائوں گا۔۔۔۔۔
زیام نے دو ٹوک انداز میں کہا۔۔۔
تم یونی نہیں جائو گے ڈیٹس فائنل ۔۔۔۔۔۔
شاویز نے اسے گھورا تھا۔۔۔
میں کسی کے حکم کاغلام نہیں ہوں۔۔۔۔۔
زیام چڑ گیا تھا شاویز کی بات پر۔۔۔۔
جانتا ہوں ۔۔۔۔ یہ جو تم اتنا اکڑ رہے ہو سب عرزم کی وجہ سے ہے ۔۔۔ اور بہت جلد تمہاری یہ اکڑ ٹوٹے گی۔۔۔ اس کی پہلی جھلک تو تم کل دیکھ ہی چکے ہو ۔۔۔۔۔
شاویز نے طنزیہ انداز میں کہا ۔۔۔۔
جسے آپ اکڑ کہہ رہے ہیں وہ میرا یقین ہے۔۔۔ میں جانتا ہوں اگر مجھ پر کوئی مصیبت آئی تو وہ سب سے پہلے میری ڈھال بنے گا۔۔۔ اور جس تھپڑ کی طرف آپکا اشارہ ہے نا مسٹر شاویز علوی۔۔۔۔ وہ اس کا حق ہے اور جب جب وہ یہ حق استعمال کرتا ہے ہمارا رشتہ پہلے سے ذیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ اور رہی یونی جانے کی بات تو یونی تو میں جائوں گا کیونکہ اس سچ کو آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ لڑکی جھوٹی ہے۔۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی جب اللہ اور اسکے رسول کی عدالت میں مجرم نہیں تو دنیا مجھے چاہے پھانسی کی سزا بھی سنا دے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔
زیام یہ بول کر وہاں سے جانے لگا جب شاویز نے اس کا بازو پکڑ کر اسے گلے لگایا۔۔۔۔۔
آئی ایم پرائوڈ آف یو۔۔۔۔۔
شاویز کے لہجے میں نمی تھی جسے زیام نے محسوس کیا تھا ۔۔۔
آپ کیوں ہر بار مجھے مجبور کرتے ہیں کہ میں آپکو غلط سمجھوں۔۔۔۔
زیام کے لہجے میں شکوہ تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے شاویز کوئی جواب دیتا نائلہ بیگم کی آواز پر وہ دونوں مڑے تھے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما۔۔۔۔ میں بتا رہا ہوں آپکو ۔۔۔۔ ڈیڈ نے یقینا دوسری شادی کی ہے۔۔۔
عرزم جو صبح صبح ناشتے کی میز پر بیٹھا حیدر کو دیکھ رہا تھا جو مسلسل موبائل پر کچھ ٹائپ کر رہے تھے۔۔۔ نائلہ جو ان دونوں کو ناشتہ سرو کرنے کے بعد اپنا ناشتہ پلیٹ میں نکال رہی تھیں ۔۔۔ ایک دم چونکیں۔ ۔۔۔۔۔
فالتو مت بولو نہیں کرو صبح صبح۔۔۔۔۔۔۔۔
فائزہ نے عرزم کو گھورا تھا جبکہ حیدر نے مسکراتے ہوئے عرزم کو دیکھا تھا۔۔۔۔
ماما میں سچ کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرزم نے مصنوعی احتجاج کیا۔۔۔۔۔
عرزم اگر تم نہیں چاہتے کہ صبح صبح میرے ہاتھوں سے تمہاری پٹائی ہو تو فالتو باتیں مت کرو ۔۔۔۔۔
فائزہ کے بولنے سے پہلے ہی حیدر حسن نے کہا۔۔۔۔
مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ دونوں کی لڑائی ہوئی ہے۔۔۔؟؟؟؟
عرزم صبح سے ان دونوں کو دیکھ رہا تھا جب سے وہ واپس آئے تھے کام کے علاوہ آپس میں بالکل بات نہیں کر رہے تھے۔۔۔۔ اسی لئے وہ ان دونوں کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔
نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔
فائزہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
عرزم نے سوالیہ نظروں سے حیدر کو دیکھا تھا کہ واقعی ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔
یار وہ کل کالج کی ایک پرانی دوست شافیہ مل گئی تھی راستے میں اور ہم لوگ تمہاری خالہ کی طرف جانے کی بجائے اس کے ساتھ چلے گئے۔۔۔ اس نے رات رکنے کا اصرار کیا لیکن مجھ سے پہلے ہی تمہاری ماں نے منع کر دیا اور ہم تمہاری خالہ کی طرف چلے گئے۔۔۔۔۔ تب سے لے کر اب تک تمہاری ماں کا موڈ آف ہے۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں؟؟؟؟
حیدر حسن معصومیت طاری کرتے ہوئے بولے۔۔۔۔
فرینڈ تھی یا گرل فرینڈ تھی۔۔ میں پوچھتی ہوں ضرورت ہی کیا تھی اس کے گھر جانے کی۔۔۔ دل میں تو لڈو پھوٹ رہے ہوں گے کہ چلو وہ پھر سے واپس آگئی ہے اور فائزہ سے جان چھوٹے گی۔۔۔۔
فائزہ نے غصے سے گھورتے ہوئے حیدر کو دیکھا جبکہ عرزم مسکراہٹ ضبط کرنے کے چکر میں سرخ ہوگیا ۔۔۔۔۔۔
پاپا۔۔۔۔ یہ وہی شافیہ آنٹی ہے نا جو آپکو کالج لائف میں پسند کرتی تھیں اور ابھی تک کنواری ہیں۔۔۔
عرزم مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بولا جبکہ حیدر نے اسے گھورا تھا ۔۔۔۔
تم آگ میں تیل مت ڈالو ۔۔۔۔ تمہاری ماں مجھے اچھے سے جانتی ہے کہ میں اس کے علاوہ کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔۔۔۔
اچھا کیوں نہیں کر سکتے محبت؟؟؟
عرزم حیدر کیونکہ یہ جو دل ہے نا تمہاری ماں کے نام سے دھڑکتا ہے۔۔۔ حیدر نے جواب فائزہ کو دیکھ کر دیا جو ان کے جواب پر مسکرا کر وہاں سے کیچن میں چلی گئی تھیں۔۔۔۔
پاپا۔۔۔۔ محبت میں اگر محبوب بے وفائی کرے تو کیا کرنا چاہیے۔۔۔؟؟؟
زیام نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔
محبت اگر سچی ہوتو بے وفائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔ ہاں محبت میں بدگمانی ضرور آ سکتی ہے لیکن یہ ہم پر ہوتا ہے کہ ہم اس بدگمانی کو بے وفائی میں بدلتے ہیں یا اعتبار میں۔۔۔۔۔۔
حیدر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔
عرزم کے دماغ میں یک دم ماضی کی سوچوں نے جنم لیا تھا ۔۔۔ لیکن وہ سر جھٹک کر ناشتے میں مصروف ہو گیا تھا۔۔۔۔۔
حیدر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اس کے بائیں ہاتھ کو جس وہ ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔۔
وہ اپنی باتوں میں اتنا مصروف تھے کہ دھیان ہی نہیں گیا تھا عرزم کی طرف۔۔۔۔۔۔
یہ تم بائیں ہاتھ سے ناشتہ کیوں کر رہے ہو؟؟؟
عرزم نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر ناشتے کی پلیٹ کو دور ہٹایا۔۔۔
وہ دوسرے ہاتھ پر چھوٹی سی چوٹ لگ گئی تھی۔۔۔
عرزم نے مسکرا کر اپنا دایاں ہاتھ دیکھا تو حیدر نے مشکوک نظروں سے اسے گھورا۔۔۔۔۔
باپ ہوں تمہارا یہ مت بھولا کرو۔۔۔ اور اس سے پہلے میں تمہاری ماں کو بتائوں مجھے سچ سچ بتائو کہ یہ چوٹ کیسے لگی؟؟؟؟
وہ کل واش روم میں پائوں پھسل گیا تھا اور گر گیا ۔۔۔۔۔۔ بس ذرا سی لگی ہے کل تک ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔
عرزم لاپرواہی سے بولا ۔۔۔۔۔
گرنے سے صرف ہاتھ پر ہی چوٹ آتی ہے کیا؟؟؟؟
کیا۔۔۔۔ ڈیڈ آپ بھی پولیس آفیسر کی طرح شروع ہوگئے ہیں بس گر گیا اور لگ گئی چوٹ ۔۔۔
عرزم نے مسکرا کے بات کو ٹالنا چاہا جبکہ حیدر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر بولے۔۔۔۔
اپنا خیال رکھا کرو۔۔۔۔
اوکے ڈیڈ۔۔۔ میں اب یونی کے لئے نکلتا ہوں۔۔۔۔
یہ بول کر وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ حیدر نے ہال کے دروازے تک اس کی پشت کو دیکھا تھا۔۔۔۔
حیدر جانتے تھے کہ عرزم انہیں ڈیڈ دو ہی صورتوں میں کہتا ہے پہلی جب وہ غصے میں ہوتا ہے اور دوسرا جب وہ بات کو ٹالنا چاہتا ہو۔۔۔۔ کیونکہ نارمل موڈ میں وہ کبھی حیدر کو ڈیڈ نہیں کہتا تھا ۔۔۔۔
ہوپ سو آل از ویل۔۔۔۔
حیدر خود سے بڑبڑائے اور ناشتے میں مصروف ہوگئے۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔