زیام جیسے ہی مطلوبہ کمرے میں پہنچا اس کا استقبال اندھیرے نے کیا۔۔۔
رحاب۔۔۔ رحاب۔۔۔
زیام نے کمرے میں پہنچ کر جیسے ہی رحاب کو پکارا کمرے کا دروازہ بند ہوگیا ۔۔۔۔ اور اسے اپنی گردن پر کچھ چبتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ سمجھتا وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوگیا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرزم فائزہ کو ابھی میڈیسن کھلا کر اپنی کمرے میں پہنچا ہی تھا جب اس کا پائوں کمرے میں موجود ٹیبل سے ٹکرایا ۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔۔
عرزم نے ایک نظر اپنے دائیں پائوں کو دیکھا جس کے انگوٹھے سے خون نکلنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔
اوو نو۔۔۔۔ یہ چوٹ بھی ابھی لگنی تھی۔۔۔
عرزم خود سے بڑبڑایا اور فرسٹ ایڈ باکس لے کر خود ہی پٹی کرنے لگا۔۔۔
حیدر جو اپنے کمرے میں جا رہے تھے عرزم کے کمرے کا دروازہ کھلا دیکھ کر اس کی طرف بڑھے لیکن جیسے ہی ان کی نظر سامنے اٹھی۔۔۔ وہ ایک دم سے پریشان ہوگئے۔۔ کیونکہ سامنے ہی عرزم پٹی کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔
حیدر جلدی سے آگے بڑھے اور اس کے مقابل بیٹھ کر اس کے ہاتھ سے فرسٹ ایڈ باکس لے لیا۔۔۔۔ آوٹ عرزم کو پٹی کرنے لگے۔۔۔ چوٹ ذیادہ نہیں تھی لیکن خون پھر بھی کافی بہہ رہا تھا۔۔۔
عرزم نے بغیر کچھ کہے انہیں پٹی کرنے دی۔۔۔ جب وہ بینڈیج کرچکے تو عرزم کی چہرے کی طرف دیکھا جو انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
انسان کو اتنا بھی لاپرواہ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔
چوٹ ذیادہ نہیں ہے لیکن پھر بھی تمہارا کافی خون نکلا ہے اس لئے ابھی فلحال چلنے سے تھوڑی پرہیز ہی کرنا ۔۔۔۔
حیدر یہ بول کر وہاں سے جانے لگے جب عرزم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور انہیں روکا۔۔۔۔۔
مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ آپ مجھ سے دنیا میں سب سے ذیادہ محبت کرتے ہیں۔۔۔ میری چوٹ پر تکلیف آپ کے چہرے سے عیاں ہوتی ہے۔۔۔ لیکن کبھی کبھی میں سوچتا ہوں یہ تو قدرتی محبت ہوتی ہے جو ہر باپ کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔۔۔ زندگی میں ۔۔ میں نے آپ سے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی۔۔۔ لیکن پھر بھی پتہ نہیں کیوں ہمارے درمیان اتنے فاصلے ہیں کہ فرمائشیں تو دور کی بات ضرورتوں کے لئے بھی ہمیں کسی تیسرے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔۔۔ خیر مجھے آپ سے بس اتنا کہنا کہ ان فاصلوں کو اتنا بھی مت بڑھائیں کہ لوٹ آنے کی گنجائش بھی باقی نہ بچے۔۔۔۔ بینڈیج کے لئے تھینکس۔۔۔
عرزم نے یہ بول کر ہاتھ چھوڑ دیا تھا جبکہ حیدر حسن کی آنکھیں ایک لمحے میں نم ہوئیں تھیں ۔۔۔
باپ کو شکریہ بولو گے اب؟؟؟
حیدر حسن نے شکوہ کناں نظروں سے پوچھا تھا۔۔۔۔
عرزم نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر ان کے گلے لگ گیا ۔۔۔۔
اتنے سالوں کا غبار نکال رہا تھا وہ رو کر ۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا آج اسے کیا ہوا ہے لیکن اتنا سمجھ گیا تھا کہ باپ کے بغیر وہ کچھ نہیں ہے۔۔۔۔
شرم کرو اتنے بڑے ہو کر رو رہے ہو۔۔۔۔
حیدر نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
جواب میں عرزم مسکرا دیا۔۔۔۔
میں جانتا ہوں عرزم میں نےکبھی تمہاری اور زیام کی دوستی کو ایکسیپٹ نہیں کیا ۔۔۔ لیکن میں مجبور تھا اور یہ مجبوری تب تک تھی جب تک تم نے مجھے میرا بیٹا نہیں لوٹایا ۔۔۔۔ اب جب میرا بیٹا میرے پاس ہے تو مجھے زیام اور تمہاری دوستی سے کوئی مسئلہ نہیں ۔۔۔ جب میرا بیٹا اس دنیا سے اپنے دوست کے لئے لڑ سکتا ہے تو میں اپنے بیٹے کے لئے اس دنیا سے لڑ سکتا ہوں ۔۔۔۔
حیدر حسن نے یہ بول کر عرزم کی پیشانی پر بوسہ دیا اور عرزم جو ان کی باتوں سے شاک میں پہنچ گیا تھا ان کے بوسہ لینے پر جیسے ہوش میں آیا تھا۔۔۔۔
ڈیڈ۔۔۔ مطلب زیمی اس گھر میں آ سکتا ہے نا؟؟؟
بالکل آ سکتا ہے۔۔۔۔
حیدر نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
تھینکیو سو مچ ڈیڈ ۔۔۔ آپ نہیں جانتے آپ نے مجھے کتنی بڑی خوشخبری دی ہے ۔۔۔۔
عرزم ایک دفعہ پر فرط جذبات میں ان کے گلے لگا تھا۔۔۔
اچھا اب ریسٹ کرو۔۔۔ میں تمہاری ماما کو دیکھ لوں۔۔۔۔
حیدر حسن اس کا گال تھپتھپا کر چلے گئے جبکہ عرزم نے موبائل کی تلاش میں ادھر ادھر نظر دوڑائی ۔۔۔ کیونکہ اسے یہ خوشخبری سب سے پہلے زیام کو سنانی تھی۔۔۔۔
سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر اسے موبائل پڑا نظر آیا جلدی سے موبائل لے کر اس نے زیام کو کال کی۔۔۔
تین چار دفعہ کال کرنے کے بعد بھی جب اس نے کال ریسیو نہیں کی تو عرزم نے موبائل بیڈ پر پھینک دیا۔۔۔
کمینے انسان ایسی بھی کیا ناراضگی کہ کال ریسیو نہیں کر رہے ہو؟؟؟ چلو کوئی نئیں صبح ملتا ہوں اور پھر تمہیں سرپرائز دیتا ہوں۔۔۔
عرزم خود سے بڑبڑایا ۔۔۔
خوشی اس کے لئے ایک چھوٹا لفظ تھا جو وہ محسوس کر رہا تھا لیکن اسے نہیں معلوم تھا کہ یہ خوشی کتنا بڑا طوفان لانے والی ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح زیام نے بمشکل اپنی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔ اس کا سر بہت بھاری ہو رہا تھا ۔۔۔ حواس کچھ بیدار ہوئے تو کمرے میں کسی کی سسکیاں سنائی دیں ۔۔۔ جیسے ہی اس نے سامنے دیکھا تو آدھی کھلی آنکھیں پوری کھل گئیں ۔۔۔ سامنے ہی رحاب بیٹھی تھی جس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے تھے۔۔۔ چہرہ کافی سوجا ہوا تھا اور ایک دو جگہ سے نیلا بھی تھا۔۔۔ بمشکل اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامتے وہ رحاب کے پاس پہنچا تھا جو تین چار قدم کی دوری پر بیٹھی رو رہی تھی ۔۔۔
ر۔۔۔رحاب۔۔۔ کیا ہوا تمہیں؟؟؟
زیام نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔۔۔ رحاب ایک جھٹکے سے وہاں سے دور ہوئی تھی ۔۔۔
تم گھٹیا انسان۔۔۔۔ دور رہو مجھ سے۔۔۔ اپنی ہوس پوری کرکے بھی تسکین نہیں ہوئی تمہاری جو پھر سے قریب آ رہے ہو۔۔۔
رحاب چیختے ہوئے بولی تھی جبکہ اس کی بات پر زیام مکمل حواس میں آ چکا تھا۔۔۔۔
یہ تم کیا بول رہی ہو ۔۔۔؟؟؟ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ۔۔۔
ہاں اب تم بولو گے ہی کہ تم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔ میں نے تم پر بھروسہ کرکے دوستی کی تھی لیکن تم نے میرے ساتھ ۔۔۔۔۔
رحاب بولتے بولتے رو دی تھی جبکہ زیام ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا۔۔۔
تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔ میں ایسا کر ہی نہیں سکتا۔۔۔۔
زیام نے بمشکل اپنا غصہ ضبط کیا تھا۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔
رحاب نے قہقہ لگا کر جیسے اس کا مذاق اڑایا تھا۔۔۔
زیام نے الجھن سے اسے دیکھا تھا اسے رحاب کی دماغی حالت پر شبہ ہو رہا تھا۔۔۔۔
یہ بات تم جانتے ہو کہ تم نے کچھ نہیں کیا میں جانتی ہوں کہ ہمارے درمیاں کچھ نہیں ہوا لیکن تم ثابت کیسے کرو گے؟؟؟؟ اب میں دیکھتی ہوں تمہارا وہ سوکالڈ دوست تمہیں کیسے ڈیفینڈکرتا ہے؟؟؟؟
رحاب نے آخری بات کافی حقارت سے کہی تھی۔۔۔
زیام کو ایک لمحہ لگا تھا سارا معاملہ سمجھنے میں۔۔۔۔
تم گھٹیا ایک لڑکی ہو۔۔۔۔
زیام نے بے بسی سے بس اتنا ہی کہا تھا۔۔۔۔۔
ویٹ بےبی۔۔۔ ابھی پانچ منٹ ہیں اس دروازے کے کھلنے میں۔۔۔ اور تم جانتے ہو کہ یہ دروازہ کون کھولے گا۔۔۔۔ عرزم حیدر ۔۔۔۔
زیام نے غصے میں اس کے دونوں بازئوں کو دبوچا تھا اور غصے سے بولا تھا۔۔۔۔
اگر زیام علوی کوٹھے پر ایک طوائف کے ساتھ بھی ہوگا تو عرزم حیدر تب بھی زیام علوی کا یقین کرے گا ۔۔۔۔ یاد رکھنا تم نے بہت غلط حرکت کی ہے اور اس بار میں بھی تمہیں عرزم سے نہیں بچا سکوں گا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ مزید کچھ بولتا کمرے کا دروازہ کھلا اور سامنے ہی عرزم کے ساتھ شاویز ،نتاشا ، اور یونی کے کافی لوگ کھڑے تھے ۔۔۔۔ جھٹکا عرزم کو تب لگا جب رحاب کو غیر مناسب حالت میں زیام کے اتنے قریب دیکھا تھا۔۔۔۔ زیام نے ایک جھٹکے سے رحاب کو خود سے دور کیا تھا۔۔۔۔ جبکہ رحاب مگر مچھ کے آنسو بہانا شروع کر چکی تھی ۔۔۔۔
شاویز نے آگے بڑھ کر رحاب کو اپنی جیکٹ پہنائی تھی جبکہ عرزم اپنی جگہ پتھر کا ہوگیا تھا۔۔۔۔
شاویز نے جیسے ہی زیام کو دیکھا وہ سر جھکا گیا تھا کیونکہ شاویز کی آنکھوں میں اس وقت شکوہ تھا ۔۔۔۔
بھائی میری بات۔۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔
اس سے پہلے زیام اپنی بات مکمل کرتا کمرے میں تھپڑ کی آواز گونجی تھی ۔۔۔۔
وہ تھپڑ زیام کو کسی اور نہیں بلکہ اس کے یقین اسکے اعتماد عرزم حیدر نے مارا تھا۔۔۔۔۔
زیام نے بے یقینی سے بائیں گال پر ہاتھ رکھ کر عرزم کو دیکھا تھا جس کا چہرہ سپاٹ تھا ۔۔۔۔ جبکہ شاویز نے شاکڈ نظروں سے عرزم کا یہ روپ دیکھا تھا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا تم اتنی گندی اور گھٹیا سوچ کے مالک ہو۔۔۔۔
عرزم نے بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
عرز۔۔۔۔۔
زیام نے بے یقینی سے اتنا ہی کہا تھا جب عرزم نے اسے ٹوک دیا۔۔۔
خبردار ۔۔۔۔ اس گندی زبان سے نام مت لینا میرا ۔۔۔۔ تم اس قدر گھٹیا حرکت کرو گے مجھے اگر اندازہ ہوتا تو میں یقینا زندہ دفنا چکا ہوتا۔۔۔
شدت ضبط سے اس کی آنکھوں میں سرخی بڑھتی جا رہی تھی جبکہ زیام اپنی جگہ سن ہو گیا تھا۔۔۔۔
شاویز سر آپ رحاب کو لے جائیں یہاں سے اور پلیز ان کی حالت درست کریں ۔۔۔۔
عرزم یہ بول کر وہاں سے جانے لگا جب زیام کا سکتہ ٹوٹا اور وہ اس کے سامنے آیا۔۔۔۔
میں نے کچھ نہیں کیا عرزم۔۔۔ تم جانتے ہو میں ایسا کچھ کر ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔ پلیز میرا یقین کرو۔۔۔۔
ہٹو آگے سے۔۔۔۔
عرزم نے اسے دیکھے بغیر کہا تھا۔۔
نہیں ۔۔۔ میں نہیں ہٹوں گا۔۔ تم میری بات سنے بغیر نہیں جا سکتے ۔ تم نے جیسا دیکھا ویسا کچھ نہیں ہے میرا یقین کرو پلیز۔۔۔۔ یہ رحاب جھوٹ بول رہی ہے ۔۔۔ میں۔۔۔
بس کرو زیام علوی ۔۔۔۔ اور کتنا جھوٹ بولو گے۔۔۔۔ کل دوپہر سے تمہارا فون آف ہے اور رحاب کے گھر والے الگ پریشان ہیں ۔۔۔ حالت دیکھو اس کی اور تم بول رہے ہو تمہارا یقین کروں ۔۔۔۔ زبردستی کا مطلب سمجھتے ہو ۔۔۔ وہ کی ہے تم نے اس کے ساتھ۔۔۔ لوگ تمہیں تو کچھ نہیں کہیں گے عزت اس کی خراب ہوئی ہے۔۔۔۔
عرزم اس دیکھے بغیر ہی بولا تھا۔۔۔۔
عرزم پلیز میری طرف دیکھو۔۔ میں سچ۔۔۔۔
نفرت کرتا ہوں اس چہرے سے میں۔۔۔ جس کے پیچھے ایک شیطان چھپا ہے۔۔۔۔
عرزم دھاڑا تھا جبکہ زیام اپنی جگہ سے دو قدم پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔
کتنا مان تھا اسے لیکن وہ تو ٹوٹ گیا تھا۔۔۔ آج اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ تپتی دھوپ میں کھڑا ہو گیا ہے۔۔۔۔ آنسو بے ساختہ اس کے گال بھگونے لگے تھے۔۔۔۔ عرزم ایک نظر اسے دیکھ کر باہر نکل گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ جبکہ باقی سب حقارت سے زیام کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
شاویز رحاب کو لے کر وہاں سے چلا گیا تھا ۔۔۔۔ آج وہ اکیلا رہ گیا تھا۔۔۔
صرف ایک وہی تو تھا جو اس کا یقین کرتا تھا اس کے لئے دنیا سے لڑتا تھا آج وہی دنیا کے لئے اسے چھوڑ گیا تھا ۔۔۔۔
میں ہمت نہیں ہاروں گا۔۔۔ میں جانتا ہوں تم غصے میں اس لئے تم ایسا بول کر گئے ہو۔۔۔ جب تمہارا غصہ ٹھنڈا ہوگا تم خود آئو گے میرے پاس۔۔۔۔ پلیز عرزم واپس آ جائو۔۔۔۔
زیام روتے روتے خود سے بولا تھا۔۔
کتنا مشکل ہوتا ہے اس انسان کی بے رخی بے اعتنائی کو برداشت کرنا جو آپ کے لئے پوری دنیا ہو۔۔۔ انسان تب نہیں ٹوٹتا جب لوگ اسے برا بھلا کہتے ہیں وہ تب ٹوٹتا ہے جب اسے سائبان فراہم کرنے والا تپتی دھوپ میں کھڑا کرتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
پانچ سال گزر گئے تھے لیکن نائلہ کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا تھا الٹا اس نے شاویز اور شمائل کو بھی زیام سے کافی دور کر دیا تھا۔۔۔ جہانگیر علوی کو یہ چیز ناگوار گزری تھی لیکن وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے تھے۔۔۔ کیونکہ ایک طرف زیام تھا تو دوسری طرف ان کے دونوں بچے اور جان سے پیاری بیوی تھی ۔۔۔۔ زیام شروع شروع میں تو نائلہ کے پاس جاتا تھا لیکن ایک دو دفعہ اس نے کافی بڑے طریقے سے زیام کو مارا تھا جس سے وہ ڈر گیا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ نائلہ اس سے نفرت کیوں کرتی ہے۔۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سمجھ گیا تھا کہ نائلہ نے شاویز اور شمائل کو کیوں اس سے دور رکھا تھا ۔۔۔ کیوں وہ خود اتنی نفرت کرتی تھیں ۔۔۔۔ صرف ایک دائی ماں تھی جو اس سے بغیر کسی غرض کے محبت کرتی تھیں ۔۔۔ نائلہ یا بچوں کی گھر میں موجودگی میں زیام کو کمرہ نشین ہونا پڑتا تھا ۔۔۔ دس سال کا ہوگیا تھا وہ لیکن دماغی لحاظ سے ایک میچور شخص بن چکا تھا۔۔۔۔ جہانگیر وکالت کی وجہ سے گھر میں کم ہی ہوتے تھے اس لئے وہ زیام کو کم ہی وقت دیتے تھے ۔۔۔
لیکن زیام کے لئے ان کے پانچ منٹ بھی کافی اہمیت رکھتے تھے ۔۔۔۔
ایک دن نائلہ کی کچھ دوستیں گھر میں آئیں تھی ۔۔۔شاویز اور شمائل کالج اور سکول گئے تھے جبکہ جہانگیر علوی کورٹ میں تھے۔۔۔ زیام جو بخار کی وجہ سے آج گھر تھا اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا جب اسے بھوک محسوس ہوئی ۔۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ باہر نائلہ کی دوستیں آئی ہیں اس لئے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلا اور جیسے ہی لائونج میں پہنچا لیکن سامنے ہی نائلہ بیگم کو کچھ عورتوں کے ساتھ بیٹھے دیکھ کر اس کا رنگ فق ہوا اور اس سے پہلے وہ مڑتا ایک عورت کی اس پر نظر پڑی اور اس نے نائلہ کو مخاطب کیا۔۔۔۔
نائلہ یہ بچہ کون ہے؟؟؟؟
نائلہ جو مسکرا رہی تھی اس عورت کی آواز پر جیسے ہی اپنے عقب میں دیکھا اس کا چہرہ ایک پل میں سپاٹ ہوا تھا۔۔۔۔
نائلہ کے بولنے سے پہلے ہی اس کی دوسری سہیلی بولی ۔۔۔۔
نائلہ یہ زیام ہے نا؟؟؟؟
نائلہ نے ایک قہر برساتی نظر اس پر ڈالی اور بولی۔۔۔۔
کم بیک یور روم ۔۔۔۔
زیام نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بنا وہاں سے دوڑ لگائی تھی ۔۔۔
کیونکہ نائلہ کی آنکھوں میں موجود سرخی اس کو خوف میں مبتلا کر گئی تھی۔۔۔۔۔
نائلہ نے بمشکل مسکرا کر جواب دیا تھا ۔۔۔۔
ہاں یہ زیام ہی ہے۔۔۔۔
بھئی ہمیں بھی بتائو اتنا پیارا بچہ تھا کون؟؟؟
ایک عورت نے مسکرا کر پوچھا ۔۔۔
میرا چھوٹا بیٹا ہے زیام۔۔۔۔
نائلہ اس وقت بمشکل اپنا غصہ ضبط کئے ہوئے تھی ۔۔۔ جبکہ وہی عورت جس نے زیام کا پوچھا تھا تمسخرانہ انداز میں بولی۔۔۔۔
بیٹا۔۔۔۔ لیکن میں نے تو سنا تھا وہ نارمل نہیں ابنارمل ہے ۔۔۔۔
ابنارمل ۔۔۔۔ لیکن فزیکلی تو وہ بالکل ٹھیک لگ رہا تھا۔۔۔۔
نائلہ سے پہلے ایک عورت نے حیرت سے کہا۔۔۔۔۔
نائلہ نے سختی سے اپنی مٹھیاں بند کیں ۔۔۔ شدت ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔۔۔
وہ تھرڈ جینڈر ہے ۔۔۔۔۔
ہوگئی تسلی سب کی تو دفعہ ہو جائو سب یہاں سے۔۔۔۔۔
نائلہ بولی نہیں دھاڑی تھی۔۔۔۔۔ جبکہ سب عورتیں اس کے سرخ چہرے کو دیکھ کر وہاں سے نکلتی چلی گئیں تھی ۔۔۔۔
ان کے جاتے ہی نائلہ نے دائی ماں کو آواز دی۔۔۔۔
دائی ماں۔۔۔۔ دائی ماں۔۔۔۔
جی جی۔۔۔۔ بیگم صاحبہ۔۔۔
دائی ہانپتی ہوئی وہاں پہنچی تھی ۔۔۔۔
زیام کو بلائیں ۔۔۔۔
دائی ماں نے حیرت سے نائلہ کو دیکھا ۔۔۔
بیگم صاحبہ کوئی بات ہوئی کیا؟؟ آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں؟؟؟
دائی ماں میرا سر مت کھائیں اور اسے بلا کر لائیں ۔۔۔۔۔
نائلہ نے چیختے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
دائی ماں ایک لمحے میں وہاں سے زیام کے کمرے کی طرف گئی تھیں لیکن انہیں کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا تھا اس لئے انہوں نے پہلے جہانگیر کو کال کی جس نے ریسیو ہی نہیں کی۔۔۔
یااللہ میرے بچے کی حفاظت فرما۔۔۔۔۔
دائی ماں نے جہانگیر کے کال ریسیو نہ کرنے پر آسمان کی طرف دیکھ کر دعا کی۔۔۔۔
اور زیام کو نائلہ کا پیغام دیا۔۔۔۔ زیام جانتا تھا آج اس کی خیر نہیں لیکن پھر بھی ماں کے بلاوے پر لائونج میں چلا آیا۔۔۔۔
نائلہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور تقریبا چیختے ہوئے بولی۔۔۔۔
کس کی اجازت سے تم باہر نکلے تھے۔۔؟؟؟؟
ممی وہ ۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتا نائلہ نے لیدر کی بیلٹ سے اسے مارنا شروع کر دیا۔۔۔۔ دائی ماں نے مداخلت کی کوشش کی لیکن نائلہ نے انہیں بھی گھر سے نکالنے کی دھمکی دے دی۔۔۔۔ وہ دس سالہ معصوم بچہ روتا بلاتا رہا لیکن نائلہ کو اس پر ترس نہیں آیا یہاں تک کہ اس کے جسم سے خون نکلنا شروع ہوگیا۔۔۔۔۔
ممی پلیز مجھے معاف کردیں۔۔۔ ممی پلیز مت ماریں مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔ آپکو اللہ کا واسطہ ہے پلیز رک جائیں۔۔۔۔
اس دس سالہ بچے کی آہ بکار پر گویا نائلہ نے کان بند کر لئے تھے ۔۔۔۔ اور تب تک اسے مارا جب تک وہ نیم بے ہوش نہیں ہوگیا۔۔۔۔
دائی ماں نے اس دوران کافی دفعہ جہانگیر کو کال کی ۔۔۔ تقریبا گیارہویں کال پر جب جہانگیر نے کال ریسیو کی تو اسے کے کانوں میں زیام کی چیخیں گونج اٹھی تھیں ۔۔۔ دائی ماں نے روتے ہوئے انہیں سب بتایا تو انہوں نے کال بند کی اور جلدی سے گھر پہنچے ۔۔۔ آدھے گھنٹے بعد وہ علوی ہائوس پہنچا تھا جہاں سامنے ہی لائونج میں زیام کا لباس جگہ جگہ سے پھٹا ہوا تھا اور اس کے جسم سے خون نکل رہا تھا۔۔۔ وہ بے ہوش تھا جبکہ دائی ماں روتے ہوئے اسے مسلسل ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں ۔۔۔ جہانگیر دوڑ کر وہاں پہنچے اور زیام کو اٹھا کر گاڑی میں پچھلی سیٹ پر بیٹھے اور نم آنکھوں سے اس کی پیشانی چومی ۔۔۔۔
ڈرائیور جلدی چلو ۔۔۔۔
جہانگیر کے آنسو زیام کی پیشانی پر گر رہے تھے۔۔۔۔
ایم سوری زیام۔۔۔
یہ بول کر وہ زیام کو سر اپنے سینے سے لگا کر بچوں کی طرح رو دئیے تھے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
عرزم کا یونی رکنے کا اب کوئی ارادہ نہیں تھا اس لئے وہ سیدھے گھر آگیا اور خود کو کمرے میں بند کردیا۔۔۔۔
صبح سے شام ہوگئی تھی لیکن اس نے دروازہ نہیں کھولا تھا۔۔۔۔ تب ہی اس کے کمرے کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔۔۔۔
عرزم نے سرخ آنکھوں کے ساتھ ایک منظر دروازے کو دیکھا اور پھر بھاری لہجے میں بولا۔۔۔۔
کون۔۔۔۔۔
عرزم پلیز دروازہ کھولو۔۔۔ میری بات سنو۔۔۔ میں بے قصور ہوں۔۔۔ پلیز ایک بار میری بات سن لو۔۔۔
زیام کی آواز جیسے ہی اس کی کانوں میں پہنچی اس کا غصہ پھر سے تازہ ہوگیا۔۔۔۔
دفعہ ہو جائو یہاں سے ۔۔۔۔
عرزم چیختے ہوئے بولا تھا۔۔۔
پلیز عرزم ایک دفعہ میری بات سن لے۔۔۔ پھر تو جیسا بولے گا میں ویسا کروں گا۔۔۔۔
زیام نے بھرائے لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔
زیام جو یونی میں عرزم کو ڈھونڈ رہا تھا اسے فائزہ کی کال آئی کہ آج وہ اپنی بہن کے پاس دوسرے شہر جا رہی ہیں حیدر کے ساتھ تو عرزم گھر پر ہے۔۔۔۔۔ زیام بنا تاخیر کئے وہاں پہنچا تھا ۔۔۔
پہلے تو لائونج میں بیٹھ کر اس کا انتظار کرتا رہا لیکن پھر جب شام ہوگئی تو وہ ہمت کرکے اس کمرے تک پہنچا تھا۔۔۔۔
عرزم نے سرخ آنکھوں کو ذور سے میچا تھا اور ایک بڑی سانس لے کر خود کو ریلیکس کیا تھا ۔۔۔ پھر دو منٹ بعد اس نے دروازہ کھولا اور بنا زیام کی طرف دیکھے سرد آواز میں بولا۔۔۔۔
بولو۔۔۔۔
عرزم میں نے کچھ نہیں کیا تو جانتا ہے میں ایسی کوئی حرکت کرنے سے پہلے مرنا پسند کروں گا وہ رحاب۔۔۔۔۔
ابھی وہ اتنا ہی بولا تھا جب عرزم نے ایک اور تھپڑ اس کے گال پر مارا تھا۔۔۔۔۔
زیام لڑکھڑاتے ہوئے دو قدم دور ہٹا تھا۔۔۔ اور بے یقینی سے عرزم کو دیکھا ۔۔۔۔۔
نام مت لو اس گھٹیا لڑکی کا ۔۔۔۔ منع کیا تھا نا میں نے کوئی بھی ہماری دوستی کے درمیان نہیں آئے گا۔۔۔ پھر کیوں تم نے اس سے رابطہ رکھا۔۔۔۔ تم نے مجھ سے اس گھٹیا لڑکی کے لئے جھوٹ بولا۔۔۔۔
زیام نے نم آنکھوں سے عرزم کو دیکھا اور اسے کے گلے ملنے لگا جب عرزم نے اسے دھکا دیا ۔۔۔۔
دور رہو مجھ سے۔۔۔۔ تم ۔۔۔ کچھ نہیں لگتا میں تمہارا ۔۔۔سمجھے تم۔۔۔ جائو اس کمینی کے پاس جس نے تم پر اتنا گندا الزام لگایا ہے۔۔۔
عرزم ۔۔۔ مطلب تمہیں مجھ پر یقین ہے نا کہ میں ایسا کچھ نہیں کر سکتا ۔۔۔
مجھے نہیں ہے تم پر یقین۔۔۔
زیام چہرہ سپاٹ کرکے بولا۔۔۔ تو زیام نے الجھن سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔