زیام جاگنگ کر کے واپس آیا تو اسے گھر میں معمول سے زیادہ چہل پہل دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ مسئلہ بیگم بھی خلاف معمول آج صبح کی آٹھ گئیں تھی اور گارڈن میں کھڑی ہو کر ملازموں کو ہدایتں دے رہی تھی۔۔۔
خان بابا ۔۔۔۔ آج مجھے شکایت کا کوئی موقع نہیں ملنا چاہیے آج ہماری فیملی کے لئے خاص دن ہے اور۔۔
ابھی نائلہ کی بات منہ میں تھی جب اس کی نظر زیام پر پڑی جو مسلسل مسکرا کر انہیں دیکھ رہا تھا۔۔۔ نائلہ بیگم کی پیشانی پر ایک دم ان گنت بلوں کو اضافہ ہوا تھا۔۔۔اور پھر ملازموں کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولیں۔۔۔۔
اب آپ سب جائیں اور اپنا کام کریں۔۔۔۔
سب ملازم جب وہاں سے چلے گئے تو زیام مسکراتے ہوئے نائلہ بیگم کے پاس آیا اور بولا۔۔۔۔۔
گڈ مارننگ ممی ۔۔۔۔۔۔
مارننگ۔۔۔۔
نائلہ بیگم نے سپاٹ چہرے سے جواب دیا اور وہاں سے جانے کے لئے پلٹیں لیکن زیام کی آواز نے ان کے قدم روک دئیے۔۔۔۔۔
میں آج آپ کا چہرہ ایک ہفتے بعد دیکھ رہا ہوں ۔۔۔ دو منٹ تو رک جائیں۔۔۔۔
زیام کے لہجے میں موجود یاسیت نائلہ بیگم نے باخوبی محسوس کی تھی لیکن وہ پتھر دل بنی رہنا چاہتی تھیں۔۔۔۔
نائلہ بیگم نے زیام کا چہرہ دیکھا اور پھر اپنی آواز کو سرد بناتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔
آج شمائل کے رشتے کے لئے کچھ لوگ آ رہے ہیں۔۔۔ اور میں نہیں چاہتی کہ کوئی بدمزگی ہو اس لئے آج یا تو گھر سے باہر رہنا یا انیکسی کے اندر کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ تمہارا منحوس سایہ میری بیٹی کی خوشیوں پر پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الفاظ سے زیادہ ان کے پتھریلے لہجے نے زیام کے دل کے ہزاروں ٹکڑے کئے تھے۔۔۔۔۔ تکلیف اتنی تھی کہ آنکھوں میں درد نمی بن کر چمکا تھا۔۔۔۔ لیکن جب بولا تو لہجہ میں دنیا جہاں کی محبت سمٹ آئی تھی۔۔۔۔
بہت زیادہ محبت کرتا ہوں میں آپ سے ۔۔۔ اور یہ محبت اس لئے نہیں کہ آپ میری ماں ہیں بلکہ اس لئے ہے کہ آپ اس دنیا پر میری جنت ہیں۔۔۔۔ میں واقعی ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جن کو جنت میں جانے کے لئے آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے اور مجھے یقین ہے میں ایک دن اپنی اس جنت کو حاصل کر لوں گا۔۔۔۔۔ اور آپ بے فکر رہیں میری وجہ سے آپکے گھر کی خوشیوں میں کبھی کمی نہیں ہوگی۔۔۔۔ ہیو آ گڈ ڈے۔۔۔۔۔
یہ بول کر وہ دو قدم آگے آیا تھا اور بغیر نائلہ بیگم کو چھوئے ان کی پیشانی پر زندگی میں پہلی دفعہ بوسہ دیا تھا ۔۔۔۔
نائلہ بیگم خود کو پگھلنے نہیں دے سکتیں تھی اس لئے وہ پیچھے ہوگئیں تو زیام زخمی سا مسکرایا۔۔۔۔
دور رہو مجھ سے اور تمہاری ہمت کیسی ہوئی مجھے چھونے کی ؟؟؟؟
نائلہ بیگم نے غصے سے سرخ ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔۔
آپ کی پیشانی پر ممتا کا نور چمکتا ہے میں تو بس اس نور کو محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ اور رہی چھونے کی بات تو میں آپ کے وجود کو ہی حصہ ہوں ممی مجھے اتنا حق تو ہے ۔۔۔۔۔ اور آپ چاہ کر بھی مجھے میرا یہ حق لینے سے نہیں روک سکتیں ۔۔۔۔۔
زیام یہ بول کر وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ نائلہ بیگم نے ویران آنکھوں سے اس کی پشت کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔
اپنے روم میں آنے کے بعد زیام کا ضبط جواب دے گیا تھا ۔۔۔۔ وہ وہیں دروازے کے ساتھ بیٹھ گیا اور موبائل سے نائلہ بیگم کی تصویر سے مخاطب ہو کر بچوں کی طرح رو دیا تھا۔۔۔۔۔
میری کیا غلطی ہے ممی ؟؟؟ کیوں اتنی نفرت کرتی ہیں مجھ سے۔۔۔۔؟؟؟؟ مجھے آپکی یہ بے رخی بے اعتنائی مار ڈالے گی ۔۔۔۔ میں تھک گیا ہوں آپکی نفرت کا سامنا کرتے کرتے ۔۔۔۔ میں ٹوٹ رہا ہوں۔۔۔ آپکو اللہ کا واسطہ ہے مجھے بکھرنے سے پہلے سمیٹ لیں۔۔۔ میں ہر روز مر مر کر جیتا ہوں۔۔۔۔ آپکے پیار کا حقدار تو میں بھی ہوں پھر کیوں آپ مجھے دھتکارتی ہیں۔۔؟؟؟ کیوں مجھے میری برداشت سے زیادہ آزما رہی ہیں؟؟؟ میرے مرنے سے پہلے ایک بار مجھے اپنی ممتا کی چادر میں چھپا لیجیئے گا ۔۔۔۔ پلیز ممی صرف ایک بار مجھے اپنی آغوش میں لے لیں۔۔۔
اس کی ہچکیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا ۔۔۔۔ آنسوئوں کو جیسے آج بہنے کا بہانہ مل گیا تھا۔۔۔۔۔ جب جب نائلہ بیگم اس سے بے رخی برتتی تھیں تب تب اس کا دل خود کو ختم کرنے کا کرتا تھا کیونکہ وہ ان کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت برداشت نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔۔۔
لیکن صرف عرزم وہ شخص تھا جس سے اس نے وعدہ کیا تھا وہ خود کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔۔۔۔۔۔۔
کیا واقعی اس کی آزمائش کبھی نہ ختم ہونے والی تھی یا پھر نائلہ بیگم کے حصے میں پچھتاوا آنے والا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں اس بچے کو فیڈ کروائوں گی؟؟؟؟
ساری سچائی جاننے کے بعد نائلہ کسی طور راضی نہیں ہو رہی تھی اس بچے کو دیکھنے اور دودھ پلانے کے لئے اور یہ چیز جہانگیر کو مزید دکھ میں مبتلا کر رہی تھی ۔۔۔۔
پلیز نائلہ ۔۔۔۔ وہ معصوم ہے ۔۔۔۔۔
جہانگیر نے منت کی تھی۔۔۔
اسی بچے کی خاطر تم نے مجھ سے تعلق ختم کرنے کی بات کی تھی جہانگیر ۔۔۔۔ اور اب جب میں یہ جانتی ہوں کہ یہ ایک۔۔۔۔۔
پلیز نائلہ کوئی ایسا لفظ استعمال مت کرنا جس سے میں ہمارے رشتے کا لحاظ بھول جائوں۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانگیر نے نائلہ کی بات کو درمیان میں ہی کاٹ کر کہا ۔۔۔۔
جانتے ہو جہانگیر علوی ۔۔۔ مجھے اس بچے سے نفرت ہو رہی ہے ۔۔۔۔ کیونکہ ایک تو یہ ہمارے درمیان علیحدگی کا باعث بن رہا ہے اور دوسرا معاشرے میں اس کو اس نظر سے دیکھا جائے گا جو صرف ایک گالی سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔
اسے میری نظروں سے دور کر دو جہانگیر ورنہ میں خود کو ختم کر لوں گی اور تم جانتے ہو میں اپنی بات پر عمل کرنے سے گریز نہیں کروں گی۔۔۔۔
جہانگیر علوی نے تاسف سے اس پتھر دل ماں کو دیکھا تھا جو اپنے بچے کو ایک نظر دیکھنے پر بھی راضی نہیں تھی ۔۔۔۔
جہانگیر نے وہ بچہ اٹھایا اور کمرے سے باہر چلے گیا جبکہ نائلہ کی آنکھوں میں نمی نے بسیرا کیا تھا۔۔
وہ کیوں رو رہی تھی یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی لیکن وقت شاید اسے بہت اچھی طرح سے سمجھانے والا تھا۔۔۔۔
ایک مہینہ ہو گیا تھا زیام کی پیدائش کو اور اس ایک مہینے میں نائلہ نے اسے مکمل اگنور کیا ہوا تھا جبکہ جہانگیر نے زیام کو ایک ملازمہ کے حوالے کر رکھا تھا ۔۔۔ حیرت کی بات ہے اس کے رونے پر بھی نائلہ کا دل نرم نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ الٹا وہ اس عورت کو ڈانٹ دیتی تھی کہ وہ اسے لے کر یہاں سے چلی جائے۔۔۔۔ شاویز اور شمائل بھی زیام سے دور رہتے تھے لیکن صرف ماں کے سامنے جیسے ہی نائلہ بیگم کہیں اوجھل ہوتیں وہ اس ننھے کھلونے کے ساتھ مصروف ہو جاتے ۔۔۔۔ نائلہ بیگم نے ان کو سختی سے زیام سے دور کر رکھا تھا ایک جہانگیر علوی ہی تھے جو زیام کی ضرورت کا ہر خیال رکھتے تھے۔۔۔۔۔ لیکن جو بھی تھا وہ ماں کی کمی پوری نہیں کر پا رہے تھے۔۔۔۔۔۔ زیام کو روتے دیکھ ان کا دل نائلہ کو جھنجھوڑنے کا کرتا تھا کہ کیوں وہ اپنی خود ساختہ میں اس حد تک چلی گئی تھی کہ اسے اپنے بچے رونا نظر نہیں آتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن نیازی اپنی فیملی کے ساتھ جہانگیر کے گھر آئے تھے۔۔۔ اور حاشر اور شمائل کی پسندیدگی دیکھتے ہوئے دونوں فیملیز نے اگلے ماہ کی تین تاریخ فکس کر دی تھی ۔۔۔ رحاب کو شمائل بہت پسند آئی تھی۔۔۔ شاویز شمائل کا بھائی ہے یہ چیز رحاب کے لئے کافی حیران کن تھی ۔۔۔۔ شاویز نے فارمل طریقے سے ہی رحاب سے بات کی تھی ۔۔۔۔ حاشر نے شمائل سے زیام کے متعلق پوچھا تو اس نے بات کو گھما دیا۔۔۔۔ سب خوش تھے۔۔۔ جیسے ہی ڈیٹ فکس ہوئی رحاب اپنا موبائل پکڑ کر باہر لان میں چلی گئی تاکہ نتاشا کو بتا سکے۔۔۔۔۔
ہیلو تاشی۔۔۔۔ ہاں یار بھابھی بہت ہی پیاری ہیں۔۔۔ ہاں مجھے بہت پسند آئی ہیں۔۔۔ نہیں ۔۔۔ نہیں۔۔۔ ہاں اگلے ماہ کی تین تاریخ فائنل ہوئی ہے۔۔۔ چلو کل یونی سے واپسی پر شاپنگ پر چلیں گے۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔ ملتے ہیں کل۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔۔
رحاب کی خوشی اسکے لہجے سے واضح محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔ جیسے ہی نتاشا کال بند کر کے پلٹی عرزم سے ٹکڑا گئی ۔۔۔عرزم جو نیچے دھیان کئے انیکسی کی طرف جا رہا تھا گرتے گرتے سنبھلا تھا۔۔۔۔
جبکہ رحاب نے بھی خود کو بمشکل گرنے سے بچایا تھا۔۔۔
جیسے ہی دونوں سنبھلے دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔۔
تم۔۔۔۔
دونوں ایک ساتھ بولے۔۔۔۔
گھٹیا انسان میرا پیچھا کر رہے ہو؟؟؟؟
رحاب نے دانت پیس کر اس سے پوچھا ۔۔۔۔
جبکہ عرزم نے اس کے الزام پر اسے گھورا تھا۔۔۔۔
مجھے کوئی ضرورت نہیں تم جیسی لڑکی کا پیچھا کرنے کی اور ویسے بھی مجھے لگ رہا ہے تم
میرا پیچھا کر رہی ہو؟؟؟؟
تم حد سے بڑھ رہے ہو مسٹر عرزم حیدر۔۔۔۔
رحاب نے غصے سے سرخ ہوتے ہوئے دبی دبی آواز میں کہا تھا۔۔۔۔
عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا ۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ سمجھتی وہ اسے اپنے حصار میں قید کر چکا تھا۔۔۔۔
میری حدود کو کبھی ماپنے کی کوشش مت کرنا ورنہ میرا یقین مانو میں تمہارا حشر تمہاری سوچ سے زیادہ برا کروں گا ۔۔۔۔۔
عرزم نے جھک کر اس کے کان میں سرگوشیانہ انداز میں کہا جبکہ رحاب جو اس کی قربت پر سانس روکے کھڑی تھی ۔۔۔اس کی بات پر ہوش میں آئی اور اس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
ڈونٹ ویسٹ یور انرجی بےبی۔۔۔ یہ عرزم حیدر کی گرفت ہے جس سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔۔۔۔۔
عرزم اسے دیکھ کر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔۔۔۔
جبکہ رحاب کی آنکھوں میں نمی نے اپنی جگہ فورا بنائی تھی۔۔۔جسے عرزم نے مہبوت ہو کر دیکھا تھا ۔۔۔ کالی اور گہری آنکھوں میں درد تھا تکلیف تھی ، اور شکوہ تھا جو عرزم کو اس وقت نظریں چرانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔ عرزم کی گرفت ڈھیلی ہوگئی تھی لیکن اس نے رحاب کو ابھی بھی اپنے حصار سے نکلنے نہیں دیا تھا۔۔۔۔
یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟؟
عرزم نے سنجیدگی سے پوچھا تھا ۔۔۔
بھائی کی شادی کی ڈیٹ فکس کرنے آئی تھی اپنی فیملی کے ساتھ۔۔۔
رحاب نے خلاف توقع نارمل لہجے میں جواب دیا تھا شاید اب وہ مزاحمت کرتے کرتے تھک گئی تھی۔۔۔
تم شمائل آپی کی بات کر رہی ہو؟؟؟
عرزم نے بے یقینی سے پوچھا تھا۔۔۔
جواب میں اس نے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا تھا۔۔۔
جائو۔۔۔۔
عرزم نے اسے ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا۔۔۔۔۔
رحاب نے ایک نظر اپنے بازو کو دیکھا اور پھر عرزم کو جو انیکسی کی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔۔
اگر بات میرے مقصد کی نہ ہوتی تو تم دیکھتے کہ تمہارا پالا کس سے پڑا ہے۔۔۔ گھٹیا انسان۔۔۔
رحاب نے خود سے کہا اور پھر اپنا بازو سہلاتے ہوئے گھر کے اندر کی طرف چلی گئی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما۔۔۔۔ ماما۔۔۔۔۔۔
عرزم صبح صبح ناشتے کے لئے ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھا فائزہ کو آواز دے رہا تھا جب حیدر باہر نکلے۔۔۔۔۔
کیا ہے صبح صبح شور کیوں مچا رہے ہو؟؟؟
حیدر نے عرزم کو گھور کر پوچھا۔۔۔۔
آپ ماما ہیں کیا ؟؟؟ جو آپکو بتائوں ۔۔۔۔
عرزم خلاف توقع مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
باپ ہوں تمہارا ۔۔۔۔ اور میری بیوی سے کیا کام ہے تمہیں؟؟؟
حیدر بھی اسے مسلسل گھور رہے تھے۔۔۔
آپکی جو بیوی ہوتی ہیں نا؟؟؟ وہ آج سے بیس سال پہلے میری ماں کے عہدے پر فائز ہوچکی ہوں لہذا آپ انہیں ہی بلائیں ۔۔۔
عرزم نے سنجیدگی سےکہا اور اس سے پہلے کہ حیدر کوئی جواب دیتے فائزہ بیگم باہر آئیں۔۔۔۔
کیا ہے عرزم ؟؟؟ کیوں شور مچا رہے ہو؟؟؟؟
ان کا سرخ چہرہ دیکھ کر عرزم اپنا ناشتہ بھول گیا اور جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے ان کے پاس پہنچا جو اب لائونج میں صوفے پر بیٹھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
ماما کیا ہوا ہے آپکو ؟؟؟ طبیعت تو ٹھیک ہے آپکی؟؟؟ آپکا رنگ اتنا ریڈ کیوں ہو رہا ہے؟؟؟
عرزم نے ایک ہی سانس میں ان سے سوال پوچھے۔۔۔
کچھ نہیں میری جان بس ہلکا سا بخار ہو گیا ہے۔۔۔۔
فائزہ نے صوفے کی پشت سے ٹیک۔لگا کر جواب دیا۔۔۔۔
یہ ذرا سا بخار نہیں ہے ماما۔۔۔۔ آپ ابھی اٹھیں ۔۔۔ میں گاڑی نکالتا ہوں ۔۔۔ ہم ڈاکٹر کے پاس چل رہے ہیں۔۔۔۔
عرزم نے فائزہ کی پیشانی چھو کر کہا اور پھر جلدی سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔۔۔۔
عرزم میں ٹھیک ہوں۔۔۔ تمہارے بابا نے رات کو ہی ڈاکٹر کو کال کرکے بلا لیا تھا۔۔۔ ابھی ناشتہ کرکے میڈیسن لیتی ہوں۔۔۔۔ ناشتے سے یاد آیا تم نے ناشتہ کیا ؟؟؟؟
فائزہ بیگم نے مسکرا کے بتاتے ہوئے آخر میں اس سے پوچھا۔۔۔ جبکہ حیدر حسن مسکرا کر دونوں ماں بیٹے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
مجھے بھوک نہیں ہے ۔۔۔۔
عرزم سر جھکا کر بولا۔۔۔۔
اس وقت فائزہ کو وہ ایک معصوم بچہ لگ رہا تھا جو اپنی ماں کی تھوڑی سی تکلیف پر ہی گھبرا گیا تھا۔۔۔۔ فائزہ نے اسے ایک نظر دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔۔
تم آج بھی بچوں کی طرح پریشان ہوتے ہو۔۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔۔ ادھر آئو میرے پاس۔۔۔
فائزہ نے اپنا دایاں ہاتھ اس کے آگے پھیلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
عرزم نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر ان کا ہاتھ تھام کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔۔۔۔ جبکہ سر ابھی بھی جھکا ہوا تھا۔۔۔
فائزہ نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ پکڑ کر اپنی طرف کیا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔۔۔
میری جان ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔ زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ ادھر بیٹھو میں ناشتہ بنا کر لاتی ہوں۔۔۔۔
جیسے ہی فائزہ بیگم اٹھنے لگیں عرزم نے ان کی گود میں سر رکھ دیا۔۔۔ اس کی بچپن کی عادت تھی وہ فائزہ کو بیماری کی حالت میں کبھی خود سے دور نہیں جانے دیتے تھا۔۔۔۔ فائزہ نے مسکرا کر اس کے بالوں کو اپنے ہاتھ سے سنوارہ اور بولیں۔۔۔۔
ایک معمولی سا بخار ہوا ہے کوئی جان لیوا بیماری تو نہیں کہ تم اس طرح ری ایکٹ کر رہے ہو ۔۔۔۔۔
ماما۔۔۔۔ فائزہ۔۔۔۔۔
عرزم اور حیدر حسن ایک ساتھ بولے تھے۔۔۔۔
ماما۔۔۔ آپ میرے لئے بہت زیادہ قیمتی ہو۔۔۔ اتنی قیمتی کہ میں آپ کے لئے آپکے شوہر کو برداشت کر رہا ہوں۔۔۔۔۔
عرزم نے آخری بات شرارت سے بولی جبکہ فائزہ نے اسے گھورا تھا۔۔۔
حیدر حسن نے نفی میں اپنا سر ہلایا تھا۔۔۔
مجال ہے جو آپکا بیٹا سدھر جائے۔۔۔
انہوں نے فائزہ بیگم کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔
اچھا تم یونی کے لئے لیٹ ہو رہے ہو گے ۔۔۔ پیچھے ہٹو میں ناشتہ بنائوں۔۔۔ ورنہ تم دونوں کو بھوکا جانا پڑے گا۔۔۔
آپکو کس نے کہا میں یونی جا رہا ہوں۔۔۔ میں آپکے پاس رک رہا ہوں۔۔ جب تک آپ ٹھیک نہیں ہو جاتیں۔۔۔۔
عرزم ڈونٹ بیہو لائک آ کڈ ۔۔۔۔۔
فائزہ نے اسے مصنوعی گھور کر کہا حالانکہ جانتی تھی وہ نہیں جائے گا۔۔۔
تو بچہ ہی ہوں نا میں آپکا۔۔۔۔
عرزم بھی چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوئے بولا۔۔۔
چھے فٹ آٹھ انچ کا بچہ میں نے تو پہلی دفعہ دیکھا ہے۔۔۔۔
اس بار جواب حیدر حسن نے دیا تھا۔۔۔
چلیں شکر ہے دیکھ تو۔لیا ۔۔۔۔ اب آپ جائیں اور اپنے بیٹے اور بیوی کے لئے ناشتہ بنا کر لائیں۔۔۔ کیونکہ مجھے کچھ بنانا نہیں آتا۔۔۔ ماما کو بنانے نہیں دوں گا۔۔۔ اور کوک کے ہاتھ کا ہم تینوں نہیں کھائیں گے۔۔۔
عرزم نے مسکراہٹ ضبط کرتے ان کے چہرے کو دیکھا تھا جو شاکڈ کی کیفیت میں اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔
مجھے کھانا بنانا نہیں آتا۔۔۔
حیدر حسن نے ایک نظر فائزہ کو گھورا جو بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کر رہی تھیں ۔۔۔۔
اچھا نہیں آتا ۔۔۔۔۔ مطلب ماما جب پاپا نے آپکو پرپوز کیا تھا اس وقت انہوں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا کہ وہ کوکنگ کلاسز لے رہے ہیں۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی اگر وہ آپ سے سچا پیار کرتے تو آپکی بھوک کا خیال کرتے کیونکہ آپ نے تو میڈیسن بھی کھانی ہے۔۔۔
عرزم۔۔۔۔ چپ کر جائو ۔۔۔۔
فائزہ نے ہنستے ہوئے کہا تھا جبکہ حیدر نے ایک نظر اپنے بیٹے کو دیکھا تھا جو آج خلاف معمول ان سے نرمی سے بات کر رہا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے جا رہا ہوں۔۔۔ لیکن صرف اس لئے کہ میں اپنی بیوی کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا۔۔۔
حیدر یہ بول کر کیچن کی جانب چلے گئے جبکہ عرزم اور فائزہ نے بے ساختہ قہقہ لگایا۔۔۔۔۔
ماما۔۔۔ میں زیمی کو کال کرکے بتا دیتا ہوں کے آج میں نہیں آ رہا۔۔۔
عرزم یہ بول کر زیام کو کال کرنے لگا ۔۔۔۔۔ کافی کوشش کرنے کے بعد بھی جب کال نہیں ملی تو وہ موبائل وہیں ٹیبل پر رکھ کر فائزہ کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے کہ بعد میں کال کر لے گا۔۔۔۔ لیکن وہ نہیں جانتا تھا آج وہ زندگی کی سب سے قیمتی چیز کو خود سے دور کرنے والا ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
میں بات ہی نہیں کروں گا اس کمینے انسان سے۔۔۔۔ اگر آج چھٹی کرنی تھی تو مجھے بھی بتا دیتا ۔۔۔۔ اب جتنی مرضی کال کرو میں نہیں کروں گا ریسیو۔۔۔۔۔
زیام گرائونڈ میں بیٹھا موبائل کو دیکھ کر بول رہا تھا ۔۔۔۔
جب اس کے موبائل پر عرزم کا میسج آیا۔۔۔۔
ماما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اس لئے نہیں آیا۔۔۔ اور زیادہ فکر مت کرنا بس بخار ہی ہوا ہے۔۔۔ ابھی میڈیسن لے کر سو رہی ہیں۔۔۔۔۔
زیام اس کا میسج پڑھ کر مسکرایا۔۔۔۔
کمینہ جانتا ہے کہ میں کیا کیا پوچھوں گا اس لئے خود ہی بتا دیا۔۔۔
میں واپسی پر چکر لگائوں گا۔۔۔۔
زیام نے رپلائی کیا۔۔۔
اس سے پہلے وہ عرزم سے کوئی اور بات کرتا اس کے موبائل پر رحاب کی کال آنے لگی۔۔۔ زیام نے کال ریسیو کی اور کچھ بولنے سے پہلے ہی اس کے کانوں میں رحاب کی چیخ گونجی تھی۔۔۔۔
پلیز مجھے بچائو۔۔۔ زیام۔۔۔ پلیز مجھے اس بچا لو۔۔۔۔۔
کہاں ہو تم رحاب؟؟؟؟
زیام نے بمشکل خود پر کنٹرول کرتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔۔ یہ سوچ ہی اس کی جان کے رہی تھی کہ اس کی دوست مشکل میں ہے۔۔۔۔
میں پرانی لائبریری کے ساتھ جو روم ہے ادھر ہوں۔۔۔۔ پلیز مجھے بچا لو۔۔۔۔۔
اس سے پہلے زیام مزید کچھ پوچھتا رحاب کی کال ڈراپ ہوگئی تھی۔۔۔۔
یااللہ رحاب کو کچھ مت کرنا۔۔۔۔
زیام آسمان کی طرف دیکھ کر بولا اور جلدی سے اس بلاک کی طرف بھاگا تھا ۔۔۔
وہ اندھا دھند بھاگ رہا تھا اس لئے سامنے سے آتی نتاشا کو نہ دیکھ سکا اور اس سے ٹکرا گیا۔۔۔۔۔
ایم سوری ۔۔۔
زیام جلدی سے یہ بول کر وہاں سے گیا تھا کیونکہ ابھی اسے رحاب کے علاوہ کچھ نہیں سمجھ آ رہا تھا۔۔۔۔۔
نتاشا نے ایک غصے بھری نظر اس پر ڈالی اور پھر خود سے بولی۔۔۔۔
بیچارا۔۔۔۔ آج تو گیا کام سے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔