تم یونیورسٹی نہیں آ رہے ہو ۔۔۔ اور اب دوبارہ مجھے کال کر کے ڈسٹرب مت کرنا۔۔۔ میں واپسی پر ملتا ہوں تم سے۔۔۔۔
زیام نے سختی سے اسے منع کیا تھا کیونکہ صبح ہی فائزہ بیگم نے اسے کال کر کے بتایا تھا کہ عرزم کو کافی تیز بخار ہے۔۔۔۔ اور وہ یونی جانے کی ضد کر رہا ہے ۔۔۔ اور زیام کے علاوہ کوئی بھی اس سے اپنی بات نہیں منوا سکتا تھا۔۔۔
زیام کال بند کر کے بس سٹاپ پر پہنچا کیونکہ عرزم روز اسے پک کرتا تھا اور آج وہ نہیں آیا تھا اس لئے اسے آج اکیلے ہی جانا تھا ۔۔۔۔
جیسے ہی بس آئی وہ بس میں سوار ہوا ۔۔۔۔ بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی تو اس نے یونیورسٹی تک کا سفر کھڑے ہو کر کیا۔۔۔۔ یونیورسٹی سے کافی فاصلے پر وہ اترا ۔۔۔ جیسے جیسے یونیورسٹی قریب آ رہی تھی اس کا دل عجیب انداز میں گھبرا رہا تھا جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔۔۔۔
وہ یونیورسٹی میں جیسے ہی داخل ہوا سب اسے معمول کی طرح ہی لگا ۔۔۔ لیکن کچھ تھا جو اسے کھٹک رہا تھا ۔۔۔ وہ سیدھے کلاس روم کی طرف گیا ۔۔۔ ابھی اسے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کلاس روم میں بیٹھے جب رحاب نتاشا کے ساتھ کلاس میں آئی ۔۔۔ جیسے ہی رحاب نے زیام کو دیکھا تو مسکرائی ۔۔ جواب میں زیام بھی مسکرا دیا۔۔۔
نتاشا تم بیٹھو میں آتی ہوں۔۔۔
رحاب یہ بول کر زیام کے پاس چلی گئی جو پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا ۔۔۔
گڈ مارننگ۔۔۔ زیام۔۔۔
رحاب مسکرا کر بولی۔۔
مارننگ۔۔۔۔
زیام نے بھی مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
کیسے ہو؟؟؟
الحمداللہ میں بالکل ٹھیک آپ سنائیں ۔۔۔۔
میں بھی ٹھیک ہوں ۔۔۔ تم آج اکیلے ۔؟؟؟ تمہارا دوست نہیں نظر آ رہا ۔؟؟؟
اس کے طبیعت تھوڑی خراب ہے اس لئے وہ آج چھٹی پر ہے۔۔۔
اوووو۔۔۔ کیا ذیادہ خراب ہے طبیعت؟؟؟
رحاب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔
نہیں بس بخار ہے ۔۔۔ انشاء اللہ کل تک ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔
زیام کے لہجے میں عرزم کے لئے بہت زیادہ محبت تھی۔۔۔
اللہ کرے۔۔۔۔
رحاب بولی۔۔۔
آپ کی نیک تمنائوں کا شکریہ۔۔۔
ڈونٹ بی فارمل یار۔۔۔ ہم کلاس فیلوز ہیں تو یہ آپ جناب کی طرح بات مت کرو۔۔۔
اوکے آئی ول ٹرائی ۔۔۔۔۔۔
زیام نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟؟؟
تھوڑی دیر خاموشی کے بعد رحاب نے پوچھا ۔۔۔۔
آپ ایک اچھی لڑکی ہیں رحاب۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے آپ کسی مشکل میں گرفتار ہوں۔۔ اس لئے معذرت۔۔۔ میں عرزم کے علاوہ کسی سے دوستی نہیں کر سکتا اور نا ہی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔
ایم سوری اگر تمہیں برا لگا۔۔۔۔
زیام نے رحاب کا سپاٹ چہرہ دیکھ کر کہا۔۔۔
اٹس اوکے۔۔۔ مجھے لگا تھا تم نے میری معذرت قبول کر لی ہوگی لیکن میں غلط تھی تم نے شاید اس دن والی بات کو دل پر لگا لیا ہے۔۔۔ اس لئے تم مجھ سے دوستی نہیں کرنا چاہتے۔۔۔۔
رحاب سنجیدگی سے بولی اور وہاں سے جانے لگی جب زیام نے اسے پکارا۔۔۔۔
رحاب ۔۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔ تو پھر میں دوسری پکی سمجھوں؟؟؟؟
رحاب خوشی سے بولی۔۔۔
جبکہ زیام کو اس وقت عرزم کی کمی شدید محسوس ہوئی تھی کیونکہ وہ اس طرح کے معاملات آسانی سے ہینڈل کر لیتا تھا۔۔۔
زیام نے فقط اپنا سر اثبات می ہلایا اور منہ سے صرف اتنا ہی بولا۔۔۔۔۔
اوکے۔۔۔۔۔
شکریہ زیام ۔۔۔ مجھے امید ہے ہماری دوستی یادگار رہے گی۔۔۔۔
رحاب کے چہرے پر عجیب سی چمک تھی جبکہ زیام نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا تھا۔۔۔۔
اچھا لیکچر کے بعد ملتے ہیں ۔۔۔
رحاب یہ بول کر وہاں سے اپنی سیٹ پر چلی گئی جبکہ زیام نے اپنا موبائل نکال کر سامنے کیا اور اپنی اور عرزم کی کور پک دیکھ کر بولا۔۔۔
ہوپ سو کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا ۔۔۔۔
جبکہ سر کے آنے پر وہ لیکچر کی طرف متوجہ ہوگیا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن عرزم کا بخار اترا تو نہیں لیکن کم ضرور ہو گیا تھا اس لئے وہ زیام کی بھی سنے بغیر آج یونیورسٹی آگیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔
صبح سے وہ مسلسل بیٹھے کچھ اکتا سا گیا تھا اس لئے وہ شاویز کے کلاس میں آنے سے پہلے ہی زیام کو بتا کر باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
رحاب نے جیسے ہی زیام کو اکیلا دیکھا اس کے پاس پیچھے آگے اور عرزم کی جگہ پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
ہیلو زیمی۔۔۔ کیسے ہو؟؟؟
میں ٹھیک ہوں تم سنائو؟؟؟
زیام نے مسکرا کر پوچھا۔۔۔
میں بالکل فٹ۔۔۔
گڈ۔۔۔۔
اس سے پہلے ان دونوں میں مزید بات چیت ہوتی شاویز کلاس میں آگیا ۔۔۔ سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔۔۔
شاویز کی نظر جیسے ہی زیام کے ساتھ بیٹھی رحاب پر پڑی اس کا چہرہ سپاٹ ہو گیا۔۔۔ زیام نے یہ چیز با خوبی نوٹ کی تھی۔۔۔ لیکچر کے دوران بھی کافی بار رحاب اور زیام کو مسکراتے دیکھ چکا تھا۔۔۔ لیکن اس نے نظر انداز کیا ۔۔۔
جیسے ہی لیکچر ختم ہوا شاویز نے زیام کو پکارا۔۔۔
زیام علوی۔۔۔۔
یس سر۔۔۔۔
زیام نے نرمی سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
مجھے آپ سے کچھ کام ہے تو آپ مجھے ٹھیک پانچ منٹ بعد میرے آفس میں ملیں ۔۔۔
شاویز یہ بول۔کر وہاں سے چلا گیا جبکہ زیام نے مسکرا کر اس کی پشت کو دیکھا تھا۔۔
تم سر کی بات سن آئو پھر ہم لوگ کیفے میں ملتے ہیں۔۔
رحاب نے مسکرا کر کہا اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔
زیام نے جیسے ہی شاویز کے آفس کا دروازہ ناک کیا اندر سے آواز آئی ۔۔۔
کمنگ۔۔۔۔
شاویز جو کسی کتاب کی ورق گرادنی کر رہا تھا نے سامنے کھڑے زیام کو دیکھا اور سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔
جو لوگ بڑی خواہشیں کرتے ہیں وہ شاید اپنی اصلیت بھول جاتے ہیں۔۔ خواہش تب ہی پوری ہوتی ہے جب اسے حاصل کرنے کی آپ میں ہمت ہوتی ہے ۔۔۔ اور زیام علوی اپنی اوقات سے اونچی پرواز اڑنے کی کوشش مت کرنا ورنہ منہ کے بل گرو گے اور میرا یقین مانو تمہیں سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔
شاویز نے جتنی سنجیدگی سے کہا تھا زیام نے اتنی نرمی سے مسکراتے ہوئے اسے جواب دیا۔۔۔۔
کسی شے کو حاصل کرنے کا ارادہ اور قوت ہوتو وہ آپکی طلب بن جاتی ہے ۔۔ اکنامکس کے مطابق تو یہی تعریف پڑھی تھی میں نے لیکن وہ کیا ہے نا بھائی اگر انسان خواہش نہیں کرے گا تو وہ اللہ سے امید کیسے باندھے گا۔۔۔ مجھے منہ کے بل گرنے سے پہلے وہ سنبھالنے والا کوئی نا کوئی تو ضرور بھیجے گا۔۔۔ اور یہ میری امید نہیں بلکہ یقین ہے
اب آپ بتائیں گے کہ آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے سر؟؟؟؟
زیام علوی تم جانتے ہو اگر یہاں پر میں تمہاری حقیقت کے بارے میں بتادوں تو تمہارے ساتھ کیا ہوگا؟؟؟
میں بتاتا ہوں۔۔۔ یہ جو لڑکیاں تمہارے آس پاس ہیں نا یہی سب سے پہلے تمہاری ذات کی دھجیاں بکھیریں گی اس لئے بہتر ہے کہ تم خود کو اپنی ذات تک محدود رکھو۔۔۔
یہ دھمکی ہے؟؟؟؟
زیام کو پہلی دفعہ اس کے بے حس بننے پر رونا آ رہا تھا۔۔۔
نہیں یہ صرف دھمکی نہیں بلکہ ایک حقیقت بھی ہے۔۔۔
شاویز نے مسکرا کر کہا تو زیام نے نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔۔۔۔
آپ ہر بار کی طرح اس بار بھی مجھے توڑنے کہ نئے حربے استعمال کر رہے ہیں۔۔۔ یاد رکھئے گا اس بار آپ مجھے توڑ نہیں سکیں گے کیونکہ اس بار میں آپکا ڈر آپکو لوٹائو گا۔۔۔۔ اگر میری سچائی کھلی تو ایک سچ یہ بھی تو ہے کہ شاویز علوی میرا بڑا بھائی ہے ۔۔۔ اگر کانٹے میرے راستے میں ہوں گے تو پھول تو میں آپ کے راستے میں بھی نہیں رہنے دوں گا۔۔۔۔ اٹس یور برادر پرامس ۔۔۔۔
زیام نے شاویز کی آنکھوں میں دیکھ کر سرد لہجے میں کہا تو شاویز نے خود کو کنٹرول کرتے ہوئے اسے سرخ آنکھوں سے گھورا۔۔۔
اگر گدھا چار دن شیر کے ساتھ رہے تو وہ شیر نہیں بن جاتا مسٹر زیام علوی۔۔۔
شاویز کا اشارہ اس کی اور عرزم کی دوستی کی طرف تھا ۔۔۔
ٹھیک کہا آپ نے سر۔۔۔۔ لیکن وہ کیا ہے نا شیر کے ساتھ رہنے سے گدھا کو شکار کرنا تو آ ہی سکتا ہے یہ بات اچھے سے یاد رکھیے گا ۔۔۔۔ میں ہر بار معاف کردوں گا غلطی سے بھی یہ سوچ اپنے ذہن میں مت لائیے گا کیونکہ میں واقعی بار بار معاف کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا ۔۔۔
زیام یہ بول کر وہاں سے چلا گیا جبکہ شاویز شاکڈ نظروں سے اس کی پشت دیکھ کر رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ کبھی بھی مجھے نہیں سمجھ سکتا۔۔۔
شاویز بڑبڑایا اور سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحاب کب سے کیفے میں نتاشا کے ساتھ بیٹھی قہقے لگا رک ہنس رہی تھی اور عرزم کوفت سے اس کی آواز کو برداشت کر رہا تھا۔۔۔۔
یا اللہ اس بلا کی آواز بند کر دے۔۔۔
آمین۔۔۔
عرزم نے دل میں دعا مانگی اور خود ہی آمین بول کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
لائک سیریسلی ۔۔۔۔ کوئی اتنا کیسے ہنس سکتا ہے۔۔۔ میں تو کبھی زندگی میں اتنا خوش نہیں ہوا ۔۔۔۔ خیر مجھے تو یہی نہیں معلوم کہ میں آخری دفعہ خوش کب ہوا تھا؟؟؟
عرزم رحاب کے چہرے کو مسلسل دیکھ کر دل ہی دل میں خود سے سوال جواب کر رہا تھا۔۔۔۔
رحاب جو کب سے اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپش محسوس کر رہی تھی نے ایک دم اپنے دائیں طرف گردن گھمائی تو عرزم کو خود کو دیکھتا پایا۔۔۔۔
رحاب نے پہلے تو اگنور کرنا چاہا لیکن جیسے ہی اس کی نظر عرزم کی برائون آنکھوں میں بڑھتی سرخی پر پڑی وہ چونک گئی تھی۔۔۔ کیونکہ اس کی آنکھیں عجیب سے تاثر سے چمک رہی تھیں ۔۔۔۔
عرزم نے رحاب کے دیکھنے پر اپنے تاثرات یک دم ہی سنجیدہ کئے اور پھر سر جھکا گیا۔۔۔۔
رحاب نے بھی نظروں کا زاویہ بدل لیا لیکن کچھ تھا جو اسے بے چین کر گیا تھا ۔۔۔۔ ان سرخ آنکھوں کی چمک میں وہ شاید خود کو بھول گئی تھی۔۔۔۔
لاحول و لاقوت ۔۔۔۔
روحی کیا ہو گیا ہے تجھے۔۔۔ ایسے بھی کوئی دیکھتا ہے کسی کو؟؟؟ نجانے کیا سوچ رہا ہوگا سڑیل ۔۔۔۔ مجھے کیا جو بھی سوچے۔۔۔ میری آنکھیں میری مرضی۔۔۔ ہاں میں جہاں مرضی دیکھوں۔۔۔ اسے کیا ۔۔۔
رحاب خود سے بڑبڑائی تو نتاشا نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔۔
روحی کیا بول رہی ہو؟؟؟
کچھ نہیں تاشی ۔۔۔ تو آرڈر کر میں ابھی آئی۔۔۔
رحاب یہ بول کر وہاں سے اٹھی اور جیسے ہی کیفے سے باہر نکلنے لگی راستے میں پڑے پتھر پر اس کا پائوں اٹکا اور اس سے پہلے وہ گرتی زیام نے بروقت اسے سنبھالا تھا ۔۔۔ زیام کے دونوں بازو اس کے گرد حصار کھینچ گئے تھے جبکہ رحاب نے اپنے دونوں بازو اس کی گردن میں حائل کئے تھے ۔۔۔ یہ سب اتنا اچانک ہوا کہ دونوں ہی سمجھ نا سکے۔۔۔ رحاب نے ایک نظر زیام کو دیکھا اور پھر سنبھل کر اس سے علیحدہ ہوئی۔۔۔
ایم سوری۔۔
رحاب غصے اور حیا کے ملے جلے تاثرات اور سرخ چہرے کے ساتھ بولی ۔۔۔
اٹس اوکے۔۔۔۔
زیام بمشکل مسکرا کر بولا ۔۔۔ اور وہاں سے کیفے کے اندر چلا گیا ۔۔۔ جبکہ رحاب کو اس کی مسکراہٹ میں موجود نمی کا احساس شدت سے ہوا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
جہانگیر بہت خوش تھا کہ نائلہ نے اس کے بات مان لی ہے ۔۔۔ لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی خاموشی کیا رنگ لانے والی ہے۔۔۔
جیسے جیسے ڈلیوری ڈیٹ قریب آ رہی تھی جہانگیر کی خوشی میں اضافہ ہو رہا تھا۔۔۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اپنے باقی بچوں سے محبت نہیں کرتا تھا لیکن اپنے اس بچے سے وہ کچھ زیادہ ہی محبت کر رہا تھا جس نے اس دنیا میں ابھی آنکھیں ہی نہیں کھولی تھیں ۔۔۔۔
نائلہ جہانگیر کی طرح خوش نہیں تھی ۔۔ البتہ اس نے ایک شرط رکھی تھی کہ وہ اس بچے کو نہیں پا لے گی ۔۔۔ جہانگیر کو پہلے تو کافی افسوس ہوا لیکن بعد میں یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی کیونکہ کوئی بھی ماں اپنے بچے کے لئے سخت نہیں ہو سکتی۔۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے ان کی ہر سوچ غلط ثابت ہونے والی ہے۔۔۔ ۔ وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ گزر رہا تھا ۔۔ پھر آخر وہ دن بھی آ ہی گیا جب نائلہ کو درد کے باعث ہاسپٹل لایا گیا۔۔۔۔
جہانگیر ہاسپٹل کے کوریڈور میں ٹہل رہا تھا اور نائلہ کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہا تھا۔۔۔
لیڈی ڈاکٹر جیسے ہی آپریشن تھیٹر سے باہر آئی جہانگیر بھاگ کر اس کی جانب گیا اور بولا۔۔۔
ڈاکٹر میری وائف کیسی ہیں؟؟؟؟
مسٹر جہانگیر وہ اور بےبی بالکل ٹھیک ہیں ہم تھوڑی دیر تک انہیں روم میں شفٹ کر دیں گے پھر آپ ان سے مل لیجیے گا۔۔۔۔ لیکن اس سے پہلے مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے آپ پلیز میرے ساتھ آئیں۔۔۔
ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں کہا اور وہاں سے اپنے کیبن کی طرف چلی گئی۔۔۔ جبکہ جہانگیر پریشانی سے ڈاکٹر کے پیچھے چل پڑا۔۔۔۔
بیٹھیں ۔۔۔۔
ڈاکٹر نے ایک کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
جہانگیر نے نشست پر بیٹھتے ہی استفسار کیا۔۔۔
ڈاکٹر سب ٹھیک ہے نا؟؟؟؟
مسٹر جہانگیر ۔۔۔ آپ شاید اللہ کے بہت ہی نیک بندے ہیں جو اللہ نے آپکو اپنی آزمائش کے لئے چنا ہے ۔۔۔ میں بس دعا کروں گی کہ اللہ آپکو استقامت اور ہمت دے۔۔۔
ڈاکٹر سب ٹھیک ہے نا؟؟؟؟
جہانگیر نے ڈاکٹر کی بات درمیاں میں ہی کاٹ کر ایک بات پھر اپنا سوال دہرایا ۔۔۔۔
ویسے تو سب ٹھیک ہے لیکن ۔۔۔
لیکن کیا ڈاکٹر؟؟؟؟
جہانگیر کا اضطراب حد سے بڑھ رہا تھا۔۔۔
مسز نائلہ علوی کی کنڈیشن ایسی تھی کہ ہمیں ان کا آپریٹ کرنا پڑا ۔۔ آپریشن کے دوران کافی کملیکیشنز ہوئیں اور مجھے یہ بات بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ اب وہ کبھی کنسیو نہیں کر سکیں گی۔۔۔۔۔
جہانگیر کا رنگ ایک پل میں فق ہوا تھا ۔۔۔۔ لیکن جلد ہی اس نے اپنے اعصاب پر قابو پا لیا تھا۔۔۔۔
یہ اللہ کی مرضی ہے اور میں اس کی رضا میں راضی ہوں۔۔۔۔۔
سامنے بیٹھی لیڈی ڈاکٹر نے کافی حیرانی سے جہانگیر کو دیکھا تھا۔۔۔
ایک اور بات بتانی تھی آپکو مسٹر جہانگیر۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر نے ایک نظر جہانگیر کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔
جی بولیں۔۔۔۔
جہانگیر سپاٹ چہرے سے بولا۔۔۔۔
جواب میں جو ڈاکٹر نے اسے بتایا وہ سن کر جہانگیر علوی کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا تھا ۔۔۔
ضبط کی سرخی آنکھوں میں واضح پھیل چکی تھی ۔۔۔ وہ سر جھکا گیا تھا ۔۔۔۔
کیا نائلہ قبول کر لے گی؟؟؟؟
جہانگیر نے خود سے سوال کیا لیکن اس کا جواب وہ پہلے سے جانتا تھا۔۔۔
ڈاکٹر نے ایک افسوس بھری جہانگیر پر ڈالی اور پھر کیبن سے باہر چلی گئی۔۔۔ جبکہ جہانگیر علوی قسمت کی ستم ظریفی پر بچوں کی طرح بلک بلک کر رویا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
کیا بات ہوئی تھی تیری آج شاویز سر سے؟؟؟؟
رحاب اور عرزم چھٹی کے بعد پارکنگ کی طرف جا رہے تھے جب عرزم نے نارمل لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔
کچھ خاص نہیں یار۔۔۔۔۔ تو بتا طبیعت کیسی ہے اب؟؟؟؟
زیام نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی جو کہ بیکار تھی۔۔۔
اگر تو بات ٹالنے کی کوشش کر رہا ہے تو بیکار ہے زیمی کیونکہ اگر تم مجھے نہیں بتائو گے تو میں تمہارے بھائی سے جاکر پوچھ لوں گا۔۔۔۔
عرزم نے اس کے سامنے آکر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا ۔۔۔۔
تم ہر دفعہ مجھے بلیک میل کرتے ہو عرزی۔۔۔۔۔۔
زیام نے گویا ہار مانتے ہوئے کہا۔۔۔
آ ہاں۔۔۔۔ تصیح کر لو۔۔۔ صرف تمہارے گھر والوں کے معاملے میں ایسا کرتا ہوں۔۔۔۔ اب بولو کیا کہا ڈاکٹر شاویز نے؟؟؟؟
جواب میں زیام نے اسے الف سے لے کر یے تک ساری بات بتا دی لیکن رحاب سے دوستی کی بات کو گول کر گیا ۔۔۔۔
عرزم نے اسے کافی شاکڈ نظروں سے دیکھا کیونکہ وہ زیام سے اتنی بہادری کی توقع نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔
تو نے سچ میں اس ڈاکٹر( شاویز) سے یہ کہا؟؟؟؟
تو یقین نا کرنے والی کونسی بات ہے؟؟؟
زیام نے عرزم کو گھورا تھا۔۔۔۔
نہیں مطلب ڈاکٹر شاویز نے چپ چاپ یہ برداشت کر لیا۔۔۔
عرزم اس کے گھورنے پر گڑبڑا کر بولا۔۔۔۔
جب بات صرف میری ہوتی ہے میں خاموش ہو جاتا ہوں عرزی لیکن جہاں بات ہماری دوستی یا تمہارے اوپر آئے گی میں برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔
زیام کا لہجہ عرزم کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر گیا تھا۔۔۔۔۔
اچھا یہ سب چھوڑو اور مجھے یہ بتائو کہ اس لڑکی سے جسٹ سلام دعا کی حد تک تعلق ہے نا تمہارا ؟؟؟؟
عرزم نے رحاب کے متعلق پوچھا ۔۔۔
کیا مطلب ہے تمہارا؟؟؟
زیام نے نظریں چرا کر پوچھا۔۔۔۔
زیمی مطلب صاف ہے ۔۔۔۔ میں کسی تیسرے کو ہمارے درمیان برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔
عرزم نے اس کا نظریں چرانا دیکھ لیا تھا اس لئے ذرا سخت الفاظ میں بولا۔۔۔۔
اور اگر کل کو تیری بیوی آگئی تو کیا پھر تو مجھے یاد رکھے گا؟؟؟
زیام نے مسکرا کر شرارت سے پوچھا۔۔۔
تمہیں کس نے کہا ہے کہ میں شادی کروں گا۔۔۔۔ جو چیز تم سے دوری کا باعث بنے وہ مجھے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
عرزم یہ بول کر گاڑی میں بیٹھ گیا جبکہ زیام کا منہ کھل گیا تھا اس کی بات پر۔۔۔۔
وہ جلدی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھا اور عرزم کو گھورنے لگا جبکہ عرزم خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔۔
کیا ہے گھور کیوں رہے ہو؟؟؟؟
عرزم نے اسے مسلسل خود کو دیکھتے پا کر پوچھا۔۔۔۔
مجھے تمہارے بچوں کا چچا بننا ہے وہ بھی ہر حال میں۔۔۔ سمجھے تم۔۔۔
زیام دانت پیس کر بولا۔۔۔۔
اووو ہو۔۔۔۔ تو اس کے لئے کونسا شادی ضروری ہے ۔۔۔ وہ۔۔۔
ابھی اس کی بات منہ میں تھی جب زیام نے اس کی بات کاٹ دی اور بولا۔۔۔۔۔
گاڑی روک۔۔۔۔
عرزم نے ایک نظر اس کے سخت تاثرات دیکھے اور پھر جلدی سے گاڑی کو روڈ کی ایک سائیڈ پر کھڑا کر دیا۔۔۔۔۔ جیسے ہی گاڑی رکی زیام نے عرزم کی پٹائی شروع کر دی۔۔۔۔ جب وہ مار مار کر تھک گیا تو بولا۔۔۔۔۔
کمینے انسان۔۔۔۔ آئندہ اگر اس قسم کا مذاق کیا نا تو تجھے چلتی گاڑی سے دھکا دے دوں گا ۔۔۔۔
عرزم جو پہلے ہی بخار سے جل رہا تھا اب مزید نڈھال ہوگیا ۔۔۔۔
میں بیمار ہوں۔۔۔۔
عرزم نے جیسے اسے اطلاع دی ۔۔۔۔
تو۔۔۔۔۔۔
زیام نے اسے گھور کر پوچھا۔۔۔۔
تو تمہیں مجھے مارنا نہیں چاہیے تھا۔۔۔۔۔
عرزم دوبارہ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے معصومیت کے سارے ریکارڈ توڑ کر بولا۔۔۔۔
بیمار تھا اسی لئے میں لحاظ کر گیا ۔۔۔
یہ لحاظ تھا۔؟؟؟؟
عرزم نے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیا جہاں دونوں گالوں پر اس کے تھپڑوں کے نشانات واضح ہو رہے تھے۔۔۔۔
ہاں اب اتنا سا لحاظ تو میں کر ہی سکتا ہوں آفٹر آل اتنے سالوں کی دوستی ہے ہماری ۔۔۔۔۔۔
زیام کی بات لڑ عرزم کے لبوں پر ایک جاندار مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔۔
تو ایک نمبر کا ڈیش انسان ہے سالے۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ اطلاع کے لئے۔۔۔۔
زیام نے مسکرا کر کہا تو عرزم نے اپنا سر نفی میں ہلایا ۔۔۔۔
اور گاڑی ڈرائیو کرنے لگا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیڈ ہم لوگ کب جا رہے ہیں شمائل بھابھی سے ملنے؟؟؟؟
رات کے کھانے کے بعد سب لائونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے جب رحاب نے حسن نیازی سے پوچھا ۔۔۔۔
اس کی بات پر جہاں حسن اور اجالا کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی وہیں حاشر نے اسے گھورنے کی ناکام کوشش کی تھی۔۔۔
جب میرا بچہ بولے۔۔۔
تو ٹھیک ہے کل سنڈے ہے ہم لوگ کل ہی جا رہے ہیں ان کے گھر ۔۔۔
رحاب دونوں ہاتھوں سے تالی بجا کر ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
کل ۔۔۔ لیکن کل تو میری ایک میٹنگ ہے ۔۔۔۔
حسن نیازی کی بات پر رحاب منہ بسور کر بولی۔۔۔۔۔۔
ناٹ فئیر ڈیڈ۔۔۔
اوکے فائن ۔۔۔ ہم لوگ کل انشاء اللہ چلتے ہیں آپ کی بھابھی سے ملنے۔۔۔ ویسے روحی اگر تمہیں بھابھی پسند نہ آئی تو پھر کیا کرو گی۔۔۔۔؟؟؟
حسن نیازی مذاق میں بولے ۔۔۔۔
تو کیا پھر میں ڈھونڈوں گی نئی بھابھی۔۔۔۔
رحاب کی بات پر جہاں چائے پیتے رحاب کو اچھو لگا وہیں حسن اور اجالا نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا۔۔۔۔
تم مذاق کر رہی ہو؟؟؟؟
حاشر نے بے یقینی سے پوچھا۔۔۔۔
نہیں بالکل سنجیدہ ہوں۔۔۔۔
رحاب بمشکل اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے بولی۔۔۔۔
یار تم اپنے بھائی کی نظر سے دیکھو گی تو تمہیں وہ اچھی لگے گی۔۔۔۔
حاشر جلدی سے بولا ۔۔۔
اگر میں اسے آپکی نظر سے بھی دیکھوں گی نا بھائی تو بھی مجھے وہ اچھی نہیں لگے گی کیونکہ آپکی وہ محبت ہے ۔۔۔ اور آپکی محبت سے محبت کرنا رحاب حسن کا فرض ہے سو ڈونٹ وری ریجیکشن کا کوئی چانس نہیں۔۔۔۔
رحاب نے مسکراتے ہوئے حاشر کے گلے میں بازو ڈال کر اپنی بات مکمل کی۔۔۔۔
حاشر نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔۔۔
آئی نو میری جان۔۔۔ اینڈ تھینکس ۔۔۔
حاشر اور رحاب ہم دونوں بھی یہاں موجود ہیں۔۔۔
حسن نیازی نے مصنوعی ناراضگی سے دونوں کو دیکھ کر کہا تو دونوں نے ایک نظر انہیں دیکھا اور پھر ایک ساتھ قہقہ لگایا۔۔۔۔
ڈیڈ۔۔۔ آئی تھینک کہ آپ جیلس ویلس فیل کر رہے ہیں۔۔۔۔
حاشر شرارت سے بولا۔۔۔ تو حسن نیازی نے اسے گھورا اور دانت پیس کر بولے۔۔۔۔
مجھے جیلس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میری بیوی کافی ہے مجھ سے محبت کرنے کے لئے۔۔۔ کیوں مسز نیازی کرتی ہیں نا مجھ سے محبت؟؟؟؟
حسن نیازی نے پاس بیٹھی اجالا کو اپنے حصار میں لے کر پوچھا ۔۔۔ جہاں حاشر نے ہوٹنگ کی وہیں رحاب اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔ کیونکہ وہ کم از کم اجالا کے اپنے باپ کے دل میں موجود اجالا کی محبت نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔