حیدر حسن نے جہانگیر علوی سے حسن نیازی کا نمبر لیا اور ان سے بات کی۔۔۔ اور شام کو گھر آنے کی دعوت دی۔۔ جس پر انہوں نے حاشر کی بارات کا بتا کر معذرت کی اور اگلے ہفتے کی دعوت قبول کی حیدر حسن تو خود فائزہ کے ساتھ ان کی طرف جانا چاہتے تھے لیکن عرزم کی ضد کی وجہ سے انہوں نے حسن کی فیملی کو دعوت پر مدعو کیا۔۔۔۔۔۔ جس پر حسن نیازی نے ہامی بھر لی کیونکہ حیدر ان سے رحاب اور عرزم کے رشتے کی بات کر چکے تھے۔۔۔۔
عرزم اپنے روم بیڈ پر لیٹا رحاب کے بارے میں سوچ رہا تھا اور پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک رحاب کے نام سے تھی ۔۔۔۔
کچھ عرصہ رے۔۔۔ اس کے بعد تم مکمل میری دسترس میں ہوگی۔۔۔
عرزم خود سے بولا ۔۔۔
اچانک کمرے کی خاموشی کو موبائل فون کی بیل نے توڑا ۔۔۔ عرزم نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا تو زیمی کالنگ دیکھ کر مسکرایا۔۔۔
عرزم نے کال ریسیو کی اور اس سے پہلے وہ کچھ بولتا دوسری طرف سے زیام بولنا شروع ہو گیا۔۔۔
مجھے فائزہ آنٹی نے جذباتی طور پر بلیک میل کیا تھا ۔۔ اس لئے مجھے ان کو تمہارے اور رحاب کے بارے میں سب سچ بتانا پڑا ۔۔۔ ورنہ تم جانتے ہو میں کبھی بھی ان کو تمہاری کارناموں کے بارے میں نہیں بتاتا ۔۔۔۔۔ اور
بس۔۔ بس۔۔ سٹاپ اٹ زیمی۔۔۔ کتنا بولتے ہو تم۔۔۔۔
عرزم نے اسے ٹوک کر مسکراتے لہجے میں کہا ۔۔۔۔
مجھے لگا تم ناراض ہو جائو گے۔۔۔
زیام علوی ایک بات ذہن نشین کر لو میں ہماری دوستی میں ناراضگی کو کبھی نہیں آنے دے سکتا ۔۔۔ اب فضول باتیں چھوڑو اور یہ بتائو کیا کر رہے تھے؟؟؟
کچھ نہیں یار ۔۔۔ بس دائی ماں گھر نہیں ہیں تو انیکسی کی صفائی کر رہا تھا۔۔۔۔
زیام کی بات پر عرزم نے قہقہ لگایا۔۔۔ تو زیام کو احساس ہو گیا تھا کہ اپنی شامت کو وہ خود دعوت دے چکا ہے ۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ مطلب اس وقت تم کام والی ماسی بنے ہوئے ہو۔۔۔۔
فالتو کی بکواس بند کرنے کا کیا لیں گے آپ؟؟؟
زیام دانت پیس کر بولا۔۔۔۔
تیری بھابھی سے ایک ملاقات ۔۔۔ وہ بھی تنہائی میں۔۔۔ جہاں صرف میں ہوں اور وہ ہو۔۔۔
عرزم جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کے لئے بولا اور حسب توقع اس کا ری ایکشن بالکل ویسا ہی تھا ۔۔۔۔
بھاڑ میں گئے تم۔۔۔۔ بھاڑ میں گئی بھابھی ۔۔۔ میرا دماغ خراب مت کرو گھٹیا انسان۔۔۔ مجھے کام کرنے ہیں اللہ حافظ ۔۔۔۔
زیام نے غصے سے بول کر کال ڈراپ کر دی جبکہ عرزم ارے ارے ہی کرتا رہ گیا۔۔۔۔
صفائی کرکے بات کرتا ہوں۔۔۔۔
دو منٹ بعد زیام کا میسج آیا تو عرزم کی مسکراہٹ گہری ہوگئی۔۔۔
چلیں مسز اب آپکی باری۔۔۔
عرزم نے یہ بول کر رحاب کو کال کی ۔۔۔
رات دیر تک جاگنے کی وجہ سے رحاب ابھی سوئی ہوئی تھی جب اس کا موبائل رنگ کرنے لگا ۔۔۔۔ رحاب نے موبائل کا نمبر دیکھے بغیر کال اٹھائی ۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔
باخدا یہ دوری برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ میں تو اس دن کے انتظار میں ہوں جب تم میرے پاس ہوگی ۔۔۔۔
عرزم کا محبت بھرا لہجہ رحاب کی نیند تباہ کر گیا تھا ۔۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی۔۔۔ دل کی دھڑکن معمول سے تیز ہوگئی تھی۔۔۔ سفید رنگ سرخی مائل ہوگیا تھا۔۔۔ پلکیں لرز گئیں تھیں ۔۔۔۔ موبائل ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے رہ گیا۔۔۔۔
تت۔۔تم۔۔۔
بمشکل پھنسی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔
ہائے کاش اس وقت میں تمہارے سامنے ہوتا تو تمہاری بوکھلاہٹ دیکھ سکتا۔۔۔ تمہارے چہرے پر حیا کے رنگ بہت سجتے ہیں رے۔۔۔ اور مجھے یہ رنگ بہت پسند ہیں۔۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے کروٹ بدل کر بولا۔۔۔
کیسے ہو؟؟؟
تمہارے بغیر کیسا ہو سکتا ہوں؟؟؟
عرزم نے الٹا اس سے سوال کیا۔۔۔۔
تم مجھے نروس کر رہے ہو ۔۔۔
رحاب روہانسی ہوئی تھی۔۔۔
اور تم مجھے مزید بے قرار کر رہی ہو۔۔۔۔
جواب میں رحاب خاموش ہو گئی ۔۔۔ جبکہ عرزم مسکراتے ہوئے موبائل کو دیکھنے لگا جہاں کال تو آن تھی مگر سانس لینے کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی ۔۔۔۔
رے۔۔۔۔
شدت جذبات سے بھیگی پکار پر رحاب کی دھڑکنیں تھم سی گئی تھیں ۔۔۔۔
رے ۔۔۔ ایم سوری۔۔۔
عرزم کے لہجے کی ندامت اس کی سچائی کی گواہ بن کر رحاب کے دل میں موجود ہلکی سی گرد کو بھی صاف کر گئی تھی۔۔۔
کس لئے۔؟؟؟؟
تمہارے ساتھ ہر معاملے میں زبردستی کرنے لئے۔۔۔ تمہیں آزمانے کے لئے؟؟ تم سے تمہاری مرضی کے بغیر اپنا حق وصولنے کے لئے۔۔۔۔ تمہیں تنہا چھوڑنے کے لئے۔۔۔
مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں پرنس۔۔۔ کیونکہ نکاح میں مرضی میری بھی تھی ۔۔۔۔ تو پھر تم تنہا قصور وار تو نہیں ہو۔۔۔
رحاب نم آنکھوں سے مسکرائی تھی گویا زندگی مسکراہٹ لوٹا گئی تھی۔۔۔۔
جو بھی تھا مجھے تمہاری مرضی کے بغیر اپنا حق وصول نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔ لیکن میں مجبور ہوگیا تھا ۔۔۔ دل کے آگے جو تڑپ رہا تھا تمہاری قربت کے لئے۔۔۔۔ اپنے بے لگام جذبوں کو لگام ڈالنا چاہتا تھا لیکن وہ سب بے خودی میں ہوا تھا۔۔۔
عرزم کا لہجہ اس بار آنسوئوں کی آمیزش سے تر تھا۔۔۔ رحاب تو تڑپ اٹھی تھی ۔۔۔۔
پرنس ۔۔۔ پلیز سب بھول جائو۔۔۔ اور مجھے اپنی زندگی میں شامل کر لو۔۔۔۔
پاپا اور ماما سے بات کر چکا ہوں میں اور نیکسٹ ویک تمہاری فیملی کو ڈنر پر انوائیٹ کیا ہے پاپا نے ۔۔۔ انکا ارادہ تمہاری رخصتی کا ہے۔۔ کیونکہ وہ سب جان گئے ہیں نکاح کے بارے میں ۔۔۔۔
جواب میں رحاب کھل کر مسکرائی تھی۔۔۔
ایک وعدہ کرو گے۔۔۔؟؟؟
کیسا وعدہ؟؟؟
مجھ سے کبھی دور نہ جانا۔۔۔ اور نہ ہی کبھی مجھ پر بے اعتباری ظاہر کرنا۔۔۔ کیونکہ دونوں صورتیں تمہاری رے سے زندگی کی امید چھین لیں گی۔۔۔۔
رے۔۔۔ پرامس یار۔۔۔ کبھی نہیں ہوگا ایسا۔۔۔
عرزم کی بات پر رحاب مسکرائی تھی اور اس سے پہلے کوئی جواب دیتی اجالا بیگم کمرے کے اندر داخل ہوئیں۔۔۔
میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔۔۔
رحاب نے یہ بول کر جلدی سے کال ڈراپ کر دی۔۔۔ اور سوالیہ نظروں سے اجالا بیگم کو دیکھنے لگی جیسے ان کے یہاں آنے کا مقصد پوچھ رہی ہو۔۔۔۔۔
تو وہ پھر سے واپس آگیا ہے تمہاری زندگی میں۔۔؟؟؟؟
اجالا بیگم نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔۔
جب سب کچھ آپ سن چکی ہیں تو پھر پوچھنے کا مقصد؟؟؟
رحاب نا چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوگئی تھی۔۔۔۔
تمہارے لئے ایک پرپوزل آیا ہے۔۔۔ حیدر حسن کے بیٹے عرزم کا ۔۔ تمہارے بابا نے ہی کہا ہے تم سے پوچھ کر انہیں بتا دوں کیونکہ وہ جلد از جلد تمہاری شادی کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔
اجالا بیگم بولتے ہوئے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں جبکہ رحاب نے بے یقینی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے انکو دیکھا تھا ۔۔۔۔
آپ سچ کہہ رہی ہیں؟؟؟
ہاں سچ ہے۔۔۔ لیکن اس بار میں تمہیں پرنس سے الگ نہیں کرنا چاہتی اس لئے میں انکو انکار کرنے جا رہی ہوں اس رشتے کے لئے۔۔۔۔
اجالا بیگم اپنی سمجھ کے مطابق بولیں لیکن رحاب نے انکا ہاتھ تھام لیا۔۔۔۔
عرزم ہی پرنس ہے اور خداراہ اس بار اسے نادانی میں بھی مجھ سے دور مت کیجئیے گا۔۔۔۔
رحاب کی آواز میں التجا تھی۔۔۔
جبکہ اجالا بیگم نے حیرانگی سے رحاب کو دیکھا ۔۔۔
ٹھیک ہے جیسے میری روحی خوش۔۔۔
وہ اداس سا مسکرائی تھیں ۔۔۔ ان کے لئے یہی بہت تھا کہ جو غلطی انہوں نے سالوں پہلے کر کے اپنی بیٹی کو کھو دیا تھا اب وہ کسی قیمت پر نہ دہرائیں ۔۔۔۔
اجالا بیگم پلٹ کر دروازے تک آئیں تھی جب رحاب نے پیچھے سے ان کو اپنے حصار میں لے کر ان کے کندھے پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا۔۔۔۔
آئی ۔۔۔۔مسڈ۔۔۔ یو ۔۔۔۔ موم۔۔۔۔۔
اجالا بیگم نم آنکھوں سے پلٹیں اور رحاب کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر دیوانہ وار چومنے لگیں۔۔۔۔
میری۔۔۔بچی۔۔۔۔
اجالا بیگم نے اسے گلے سے لگایا اور دونوں نے رونا شروع کر دیا۔۔۔۔
حسن نیازی جو اجالابیگم کو ڈھونڈ رہے تھے رحاب کے کمرے کی طرف آئے اور ان دونوں کو یوں دیکھ کر مسکرائے تھے۔۔۔
ارے ۔۔ یہ میری آنکھیں کیا دیکھ رہی ہیں ؟؟؟ ماں بیٹی ایک دوسرے کے کو گلے لگائے کھڑی ہیں۔۔۔۔
حسن نیازی کی بات پر رحاب اور اجالا نے انہیں دیکھا اور پھر ہنسنا شروع کر دیا ۔۔۔۔
ڈیڈ جیلس مت ہوں آپ بھی آ جائیں ۔۔۔۔۔
رحاب اجالا بیگم کے گرد دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے شرارت سے بولی۔۔۔
تو پھر میں تو اپنی جان سے عزیز بیوی کو ہی گلے لگائوں گا۔۔۔۔
حسن نیازی شرارت سے بول کر جیسے ہی اجالابیگم کی طرف بڑھے
رحاب انہیں گھور کر اجالا کے آگے آ گئی۔۔۔
یہ ابھی صرف میری ماما ہیں ۔۔۔ آپ اپنی بیوی کو اپنے کمرے میں ڈھونڈیں ۔۔۔۔۔
رحاب کی بات پر حسن نیازی نے بچوں کی طرح منہ بسورا جبکہ اجالابیگم نے بے ساختہ قہقہ لگایا۔۔۔
حسن نیازی پرسکون ہوگئے تھے اجالا بیگم کو عرصے بعد اس طرح ہنستے دیکھ کر جبکہ رحاب کے چہرے پر بچوں جیسی مسکراہٹ انہیں مطمئن کر گئی تھی ۔۔۔ وہ اللہ کا شکر کرتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے تھے۔۔۔۔۔ جبکہ رحاب اجالا بیگم کو اپنے پاس بیڈ پر بٹھا کر ان کی گود میں سر رکھ کر ان سے باتیں کرنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہفتے بعد رحاب اور اس کی فیملی حیدر حسن کے گھر آئی تھی۔۔۔ عرزم سے مل کر حاشر اور حسن نیازی مطمئن ہوگئے تھے۔۔۔ دونوں فیملیز کو کوئی ایشو نہیں تھا اس لئے دونوں کی شادی ٹھیک تین ہفتوں بعد طے پائی تھی۔۔۔ دونوں بہت خوش تھے۔۔۔
دوسری طرف جہانگیر ہائوس میں نائلہ بیگم کو شمائل کے ذریعے سب کو معلوم ہوگیا تھا رحاب اور عرزم کہ شادی کا ۔۔۔۔ زیام کو عرزم نے خود بتایا تھا ۔۔۔ اور وہ عرزم کی خوشی میں خوش تھا۔۔۔۔
ایک مہینے بعد:::::::
دونوں گھرانوں میں خوشی کا سماں تھا۔۔۔ آج دونوں کی مہندی تھی۔۔۔ اور مہندی سے پہلے دونوں کا ایک بات پھر نکاح ہوا تھا ۔۔۔ دوسرے دفعہ نکاح کے بارے میں زیام عرزم ۔۔رحاب۔۔۔ اور عرزم کی فیملی ہی جانتی تھی ۔۔۔۔ جہانگیر علوی بھی اپنی فیملی کے ساتھ آئے تھے ۔۔۔ نائلہ بیگم نے البتہ کسی کو مبارک دینے کی زحمت نہیں کی تھی۔۔۔ ویسے بھی ان کی مبارک کی ضرورت کسی نے محسوس نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
مہندی کا فنکشن نیازی ہائوس میں ہوا تھا ۔۔۔ عرزم اور اس کی فیملی اپنے گھر واپس جا چکی تھی ۔۔۔ اور جہانگیر علوی بھی سب کے ساتھ گھر واپس چلے گئے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انفارمیشن غلط نہیں ہونی چاہیے اکرم ورنہ تم جانتے ہو رائو تمہارا کیا حال کرے گا۔۔۔۔؟؟؟
عالم رائو جو پچھلے ایک مہینے سے اپنے بیٹے کی حالت کی وجہ سے شدید اشتعال میں تھا ۔۔۔ آج اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے شراب پیتے ہوئے سامنے کھڑے شخص سے بولا۔۔۔۔
سرکار۔۔۔ خبر بالکل پکی ہے ۔۔۔ چھوٹے صاحب کو حیدر حسن کے بیٹے نے ہی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔۔۔ کلب والوں سے پوچھ گچھ پر ایک ویٹر کی مشکوک حرکتوں سے ہم نے اسے اپنی حراست میں لیا تو اس نے ایک سکیچ بنوایا تھا جو اسی لڑکے کا ہے جس کی چھوٹے صاحب سے یونیورسٹی پارکنگ میں لڑائی ہوئی تھی۔۔۔ چھوٹے صاحب کے دوست حامد نے پہنچانا ہے اس لڑکے کو۔۔۔اور آپ تو جانتے ہیں اکرم آپ کا نمک ہر صورت میں حلال کرتا ہے۔۔۔۔
اکرم نے عالم رائو کو سرجھکا کر ساری تفصیل سے آگاہ کیا۔۔۔
اکرم مجھے وہ لڑکا ہر حال میں چاہیے۔۔۔ اس نے صرف میرے بیٹے کی زبان کاٹی ہے نا میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کروں گا۔۔۔۔
عالم رائو نے غصے سے دھاڑتے ہوئے کہا۔۔۔ سامنے کھڑا اکرم بھی کانپ گیا تھا۔۔۔۔
لیکن سر اس پر ہاتھ ڈالنا آسان نہیں ہے ۔۔۔ کیونکہ میرے ذرائع کے مطابق آج کل اس کی شادی کی وجہ سے اس کی سیکیورٹی اس کے باپ نے بڑھا دی ہے۔۔۔
دو دن اکرم ۔۔ اگر دو دنوں میں وہ کتا میرے سامنے نہ ہوا تو تم اور تمہاری فیملی جان سے جائو گے۔۔۔ اب دفعہ ہو جائو یہاں سے۔۔۔۔
عالم رائو کی بات پر اکرم نے تھوک نگلا اور جلدی سے اپنا سر اثبات میں ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔
ریڈی فار مائے ریوینج ۔۔۔ حیدر حسن سن۔۔۔۔۔۔۔
عالم رائو نے یہ بول کر قہقہ لگایا۔۔۔۔ اور ٹیبل پر پڑی شراب کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحاب ڈیپ ریڈ کلر کے لہنگے میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔ جبکہ عرزم آف وائٹ کلر کی شیروانی پر مہرون کلا پہنے سب کی توجہ خود کو کھینچ رہا تھا۔۔۔۔۔ زیام وائیٹ کلر کی شلوار قمیض پہنے بہت پیارا لگ رہا تھا۔۔۔۔ سب ہی خوش تھے اپنی اپنی جگہ سوائے نائلہ بیگم کے جو زیام کے مسکراتے چہرے کو ناگواری سے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔ رحاب اور عرزم کو سٹیج پر ایک ساتھ بٹھایا ہوا تھا۔۔۔ دونوں کو دیکھ کر تقریب میں موجود ہر شخص ماشاءاللہ کہہ رہا تھا۔۔۔۔ رات کے تقریبا دس بجے رخصتی کا شور اٹھا تو رحاب اپنے بھائی اور باپ کے گلے لگ کر بہت روئی تھی۔۔۔ یہ لمحہ ہی ایسا تھا کہ سب کی آنکھیں اشکوں سے بھر گئیں تھیں ۔۔۔۔ اجالا بیگم بھی رحاب سے مل کر اپنا ضبط کھو گئی تھیں ۔۔۔ حسن نیازی نے آگے بڑھ کر دونوں ماں بیٹی کو الگ کیا اور رحاب کو گاڑی میں بٹھایا ۔۔۔۔ عرزم کو وہ رحاب کا خیال رکھنے کی تلقین کرنا نہیں بھولے تھے۔۔۔۔
وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر فائزہ بیگم کے ساتھ بیٹھی مسلسل رو رہی تھی اور عرزم بار بار فرنٹ سیٹ پر بیٹھا پہلو بدل رہا تھا۔۔۔ جب اس کا ضبط جواب دے گیا تو وہ پیچھے مڑا اور فائزہ بیگم کو دیکھ کر بولا۔۔۔۔
ماما۔۔۔ آپکو اللہ کا واسطہ ہے اپنی بہو کی سوں سوں بند کروادیں ۔۔۔کب سے گاڑی میں موجود خاموشی کے تسلسل کو توڑ رہی ہے۔۔۔۔
فائزہ بیگم نے اسے گھورا جبکہ رحاب نے نم آنکھوں سے اسے دیکھ کر دانت پیسے اور دل ہی دل میں اسے اچھی صلواتیں سنا دی تھیں۔۔۔
جبکہ فائزہ کی گھوری پر وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔
گھر آکر کافی دیر تک رسموں کا سلسلہ جاری رہا ۔۔ تقریبا بارہ بجے فائزہ بیگم اسے عرزم کے کمرے میں چھوڑ کر گئی تھیں ۔۔ وہ مسلسل ایک گھنٹے سے اس کا انتظار کررہی تھی ۔۔۔ جو زیام کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔۔۔ حیدر حسن نے جا کر ان دونوں کو اچھی خاصی ڈانٹ پلائی تب جا کر وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگا جبکہ زیام گیسٹ روم میں رک گیا تھا۔۔۔۔
عرزم جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا رحاب کو دیکھ کر بے ساختہ مسکرایا جو بیڈ کرائون سے ٹیک لگائے سوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔ عرزم دروازہ لاک کر کے اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔ رحاب جو بیڈ ہلنے کی وجہ سے جاگ گئی تھی سامنے عرزم کو بیٹھا دیکھ کر نروس ہوئی۔۔۔
آپ۔۔۔۔ آپ کب آئے؟؟؟؟
ہیں۔۔ ہیں۔۔۔ رے۔۔۔تم نے مجھے ابھی آپ کہا نہ؟؟ یا میرے کان بج رہے ہیں؟؟؟
عرزم مصنوعی حیرانگی ظاہر کرتے ہوئے شرارت سے بولا تو رحاب نے اسے ایک نظر دیکھا اور سر جھکا گئی۔۔۔
رے۔۔زبان اپنے گھر بھول آئی ہو؟؟
آپ چاہتے کیا ہیں؟؟ ماما نے کہا ہے آپکو آپ کہنے کو؟؟ کیونکہ ان کی نظر میں مجھے آپکو عزت دینے چاہیے اور رہی زبان کی بات تو اگر آپ مجھ سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں تو بتا دیں ۔۔ یوں بات بات پر تنگ نہیں کریں۔ اور۔۔۔۔۔
رحاب نان سٹاپ بول رہی تھی جب عرزم نے اس کے لبوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھی۔۔۔ اور رحاب کے لفظوں کو بریک لگی۔۔۔ پلکیں بے ساختہ لرزنا شروع ہو گئیں تھیں ۔۔۔ رخسار لمحے کی تاخیر کئے بنا گلنار ہوگئے تھے۔۔۔ ہاتھوں میں آئی نمی کو وہ چھپا گئی تھی۔۔۔ عرزم بے ساختہ جھکا تھا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا ۔۔۔۔
تم میری زندگی میں کسی نیکی کا اجر ہو رے۔۔۔۔
رحاب نے بے ساختہ اس کی طرف دیکھا تھا جس کی آنکھوں اور لہجے میں نمی تھی ۔۔۔۔
پرنس ۔۔۔۔
رحاب نے اسے پکارا تھا۔۔۔
ایم سوری۔۔۔تھوڑا سینٹی ٹائپ ہوگیا۔۔۔ یہ دیکھو تمہاری منہ دکھائی کا تحفہ؟؟؟
عرزم نے بولتے ہوئے ایک ڈائمنڈ رنگ اسے پہنا دی ۔۔۔ رحاب نے مسکراتی آنکھوں سے رنگ کو دیکھا تھا۔۔۔
تھینکس۔۔۔۔۔
رحاب نے عرزم کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔
شکریہ میں اپنے طریقے سے وصول کروں گا مائے ڈئیر وائف ۔۔۔۔۔۔۔
عرزم نے بولتے ہی رحاب کو اپنے حصار میں قید کر لیا جبکہ رحاب نے مسکراتے ہوئے اسے خود کو سونپ دیا۔۔۔ دونوں خوش تھے لیکن آنے والا وقت شاید ان کو خوش نہیں رہنے دینا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔ اگلی صبح دونوں کے لئے بہت خوشگوار تھی ۔۔ مسکراہٹ دونوں کے چہروں پر چپک کر رہ گئی تھی جو سب گھر والے باخوبی نوٹ کر رہے تھے ۔۔۔۔ حاشر اور شمائل رحاب کا ناشتہ لے کر آئے تھے جو سب نے ہنسی مذاق میں ختم کیا ۔۔۔ دوگھنٹے رک کر شمائل اور حاشر واپس چلے گئے تھے جبکہ ۔ رحاب کو عرزم پارلر چھوڑ آیا تھا ۔۔ اسے پارلر چھوڑنے کے بعد وہ جیسے ہی گھر پہنچا اس کا رخ گیسٹ روم کی طرف تھا جہاں زیام رکا ہوا تھا۔۔۔ وہ دروازہ ناک کئے بغیر ہی اندر آگیا ۔۔۔ لیکن اندر کوئی نہیں تھا۔۔۔ عرزم نے واش روم کا دروازہ ناک کیا لیکن وہ دستک دینے سے ہی کھل گیا۔۔۔۔
یہ کمینہ۔۔۔ مجھے بغیر بتائے چلا گیا۔۔۔ ابھی بتاتا ہوں۔۔۔۔
عرزم خود سے بڑبڑایا اور موبائل نکال کر اسے کال کرنے لگا۔۔۔۔ اس کا نمبر آف جا رہا تھا ۔۔۔
تو مل مجھے آج گدھے۔۔۔ تجھے تیری نانی یاد نہ کروائی تو میرا نام بھی عرزم نہیں ۔۔۔۔۔
عرزم بڑبڑاتے ہوئے روم سے نکل رہا تھا جب اس کے موبائل پر رحاب کے نمبر سے کال آئی۔۔عرزم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔۔۔ اس نے دوسری بیل پر کال ریسیو کی ۔۔۔
لگتا ہے مسز دل نہیں لگ رہا میرے بغیر۔۔۔۔۔
دوسروں کی زندگی سے کھیلنے کا بہت شوق ہے نا تمہیں عرزم حیدر ۔۔۔ چلو آج میں تمہاری زندگی سے کھیلتا ہوں۔۔ بچا سکتے ہو اپنی بیوی کو تو بچا لو۔۔۔۔
دوسری طرف کوئی آدمی تھا ۔۔ جس کی بات پر عرزم کا موبائل اس کے ہاتھوں سے گرتے گرتے بچا۔۔۔
کک کون ہو تم۔۔۔ اور رحاب کہاں ہے؟؟؟ اگر تم نے اسے ہاتھ بھی لگایا تو میں تمہیں زندہ جلا دوں گا۔۔۔ بتائو میری بیوی کہاں ہے؟؟؟
عرزم کے چلانے پر حیدر حسن اور فائزہ جو لائونج میں بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔۔۔ ایک دم اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے ۔۔۔ جبکہ عرزم کو اپنے پیروں پر کھڑا رہنا مشکل لگ رہا تھا ۔۔۔۔ دوسری طرف سے قہقہ لگا کر کال ڈراپ کر دی گئی تھی ۔۔۔۔
عرزم جلدی سے داخلی دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا جب حیدر حسن نے اسے روکا۔۔۔
عرزم کیا ہوا ہے؟؟ اور روحی کہاں ہے؟؟؟
پاپا مجھے اس نمبر کی لوکیشن چاہیے۔۔۔ میں جا رہا ہوں ۔۔ مجھے سینڈ کر دیجئے گا۔۔۔
عرزم لیکن روحی کہاں ہے؟؟؟
اب کی بار فائزہ بیگم نے پوچھا ۔۔۔
ماما۔۔۔ میں نہیں جانتا۔۔۔ لیکن بہت جلد وہ آپکے سامنے ہوگی۔۔۔۔
عرزم عجلت میں باہر نکلا تھا جبکہ حیدر نے ٹیلی فون کمپنی میں اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا ۔۔۔ جس نے دو منٹ بعد لوکیشن شہر سے باہر ایک پرانے ہوٹل کی بتائی جو کھنڈر نما سا تھا۔۔۔
عرزم نے جیسے ہی حیدر کا میسج پڑھا اس نے گاڑی اسی روڈ کہ طرف موڑ دی۔۔۔۔
یااللہ پلیز سیو ہر ۔۔۔۔
عرزم نے دل میں دعا کی تھی۔۔۔۔
ابھی وہ اس روڈ پر جا رہا تھا جب ایک انجان نمبر سے اسے میسج وصول ہوا۔۔۔۔
زیام علوی کی سانسیں ختم ہونے سے بچا لو عرزم حیدر۔۔۔۔
میسج پڑھ کر عرزم نے گاڑی کو بے ساختہ بریک لگائی ۔۔۔
جان تو اب صحیح معنوں میں نکلی تھی۔۔۔
نہیں زیمی نہیں۔۔۔۔
عرزم خود سے بڑبڑایا اور جلدی سے اس کے نمبر پر کال کی جو بند آ رہا تھا۔۔۔ اس نے شاویز کو کال کی تو پتہ چلا کہ شاویز گھر پر نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
عرزم نے بنا کچھ کہے سنے کال ڈراپ کر دی۔۔۔۔
دماغ تھا کہ مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔۔۔۔ دل کہ دھڑکن اتنی تیز تھی کہ عرزم کو گاڑی میں گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔۔۔۔ وہ گاڑی سے باہر نکلا اور ایک دم سے چیخ کر زیام کا نام پکارنے لگا۔۔۔۔ لوگوں نے مڑ مڑ کر اسے دیکھا تھا ۔۔۔
عرزم بی بریو۔۔۔ اینڈ کنٹرول یور سیلف ۔۔۔ جسٹ تھینک ابائوٹ یور اینیمی ۔۔۔۔۔
کون کر سکتا ہے ایسا ؟؟؟
عرزم سوچو جلدی سے۔۔۔۔
عرزم گاڑی کے پاس چکر لگاتا ہوا خود سے بولا۔۔۔۔
کامران رائو ۔۔۔ نہیں وہ نہیں کر سکتا ۔۔۔ نائلہ علوی۔۔۔۔ نہیں وہ رحاب کو کیوں اغوا کروائیں گی ؟؟؟ یہ تو طے ہے کہ دونوں کو ایک ہی شخص نے اغوا کیا ہے ۔۔۔ لیکن کون؟؟؟؟
کون ہے وہ؟؟؟
عرزم گاڑی پر ہاتھ مارتے ہوئے غصے سے چلایا۔۔۔ جب ایک دم سے ذہن میں جھماکہ ہوا۔۔۔۔
عالم رائو۔۔۔۔
اگر یہ تمہارا کام ہوا عالم رائو تو آئی سویر آئی ول کل یو باسٹرڈ ۔۔۔۔
عرزم خود سے بڑبڑایا اور دوبارہ سے گاڑی میں بیٹھ کر اسی ہوٹل کی طرف چل دیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحاب کو پارلر آئے ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی جب ایک لڑکی نے اسے پیغام دیا کہ باہر کوئی عرزم حیدر اسے بلا رہا ہے۔۔۔۔ رحاب یہی سوچ کر باہر آئی شاید وہ کچھ بھول گئی تھی جو عرزم واپس دینے آیا ہو۔۔۔ لیکن جیسے ہی وہ پارلر سے روڈ پر کھڑی ایک گاڑی کے پاس آئی ۔۔۔ پیچھے سے کسی نے اس کے منہ پر رومال رکھا ۔۔۔ رحاب نے کافی مزاحمت کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکی ۔۔۔ چند منٹ کی مزاحمت کے بعد رحاب ہوش و خرد سے بیگانہ ہوگئی تھی ۔۔۔ دو آدمیوں نے اسے اٹھا کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈالا اور پھر ان میں سے ایک آدمی نے عالم رائو کی ہدایات کے مطابق عرزم کے نمبر پر کال کی۔۔۔اور جلد ہی وہاں سے گاڑی زن سے بھگا کر لے گئے۔۔۔
عالم رائو کو بس عرزم اپنے سامنے چاہیے تھا ۔۔۔ اس لئے اس نے رحاب کو اغوا کروایا ۔۔۔ عرزم آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد اس کھنڈر نما ہوٹل کے سامنے تھا۔۔۔ گاڑی سے نکل کر وہ جلدی سے اندر بھاگا تھا ۔۔۔
جلدی جلدی سڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ دسویں منزل پر پہنچا جب اسے کسی آدمی کی آواز آئی ۔۔۔۔۔
جو شاید دوسرے آدمی کو کچھ بتا رہا تھا۔۔۔ عرزم کو ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ منزل کے بہت قریب ہے۔۔۔
سارے راستے وہ رحاب اور عرزم کی سلامتی کی دعائیں مانگتا آیا تھا۔۔۔
عرزم دیوار کے ساتھ لگے آہستہ سے چلتے ہوئے ان آدمیوں تک پہنچا ۔۔۔ جو شکل سے ہی شرابی لگ رہے تھے۔۔۔ عرزم نے دیکھا تو دو آدمی تھے جو ایک کمرے کے دروازے کے باہر کھڑے تھے۔۔ یقینا رحاب اور زیام اس کے اندر تھے۔۔۔۔ عرزم نے سوچا اور ایک آدمی جس کی پشت عرزم کی طرف تھی کے سر پر اپنی ٹانگ سے کک لگائی وہ لڑکھڑایا تو عرزم نے موقع دیکھ کر اس کے ہاتھوں سے گن چھینی اور ایک لمحے کی تاخیر کئے بنا اس نے دوسرے آدمی پر گولی چلائی جو عرزم پر نشانہ باندھ رہا تھا ۔۔۔ گولی سیدھے اس کی پیشانی پر پیوست ہوئی تھی اور وہ دھڑام سے نیچے گرا تھا ۔۔۔ پھر پہلے آدمی کو موقع دئیے بغیر اس نے دو گولیاں اس پر چلائیں تھی جو اس کے پیٹ اور عین دل کے مقام پر لگی تھیں۔۔۔ اس نے باپ سے چھپ کر چھے ماہ گن چلانے کی ٹرینگ لی تھی ۔۔۔ جو آج اس کے کام آ گئی تھی۔۔۔ پھر ایک فائر اس نے دروازے کے لاک پر کیا تو دروازہ کھل گیا۔۔۔۔
جیسے ہی وہ اندر بڑھا ۔۔۔ سامنے ہی رحاب کو کرسی پر رسیوں سے باندھا گیا تھا ۔۔۔عرزم کی گرین آنکھیں غصے کی زیادتی سے سرخ ہوئی تھیں ۔۔۔۔ وہ گن پھینک کر اس کی طرف بھاگا تھا۔۔۔۔اور یہی عرزم زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر چکا تھا۔۔۔۔
رے۔۔۔
شدت ضبط سے اس نے پکارا تھا لیکن مقابل کو ہوش کہاں تھا۔۔۔۔
عرزم نے جلدی سے اسے رسیوں سے آزاد کیا ۔۔۔اور اس کا چہرہ تھپتھپایا ۔۔۔۔۔
عالم رائو جو گولیوں کی آواز سن کر اپنے آدمیوں کے ساتھ وہاں آیا تھا سامنے عرزم کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آئی۔۔۔ ایسی چمک جیسے شکاری کی آنکھوں میں آتی ہے شکار کو دیکھ کر۔۔۔۔۔۔
ویلکم۔۔۔ عرزم حیدر ویلکم۔۔۔۔ کیسا سفر رہا تمہارا؟؟؟
عالم رائو آگے بڑھتے ہوئے بولا ۔۔۔ جبکہ اس کے آدمیوں نے عرزم کے سر پر بندوق تان لی ۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ عالم رائو کا چہرہ نہیں دیکھ سکا ۔۔۔لیکن جیسے ہی عالم رائو اس کے سامنے آیا عرزم ایک جھٹکے سے کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو اغوا کرنے کی؟؟؟؟
عرزم کی دھاڑ پر دو آدمی جو اس کے سر بندوقیں تان کر کھڑے تھے۔۔۔ کانپ گئے۔۔۔
جیسے تمہاری ہمت ہوئی تھی میرے بیٹے کو مارنے اور اس کی زبان کاٹنے کی۔۔۔۔
عالم رائو ۔۔۔ اس نے جو کیا تھا ۔۔۔ شکر کرو کے اسے زندہ چھوڑ دیا ورنہ آج اپنے بیٹے کا سوگ منا رہے ہوتے۔۔۔۔۔ اب مجھے جانے دو رائو ورنہ تم جانتے نہیں ہوں کہا عرزم حیدر سے ٹکر لینے کا انجام کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔ تم اس پوزیشن میں نہیں ہو عرزم حیدر کہ مجھے دھمکی دے سکو۔۔۔
عالم رائو نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا جبکہ عرزم نے لب بھینچ لئے تھے۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا رحاب کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔۔ وہ جلدی سے نیچے بیٹھا تھا۔۔۔۔
رے۔۔۔۔ آر یو اوکے؟؟؟
عرزم اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھامتے ہوئے فکر مندی سے بولا۔۔۔
رحاب نے اپنی آنکھیں آہستہ سے کھولیں تو سامنے ہی عرزم کو خود پر جھکے دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔۔۔
میں ٹھیک ہوں پرنس۔۔۔۔
اللہ کا شکر ہے۔۔۔
عرزم بے ساختہ بولا۔۔۔۔اور عالم رائو کی طرف بڑھا جو شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔
زیام کہاں ہے رائو؟؟؟
کون زیام ۔۔ میں کسی زیام کو نہیں جانتا۔۔۔۔
عالم رائو کی بات پر عرزم آگے بڑھا اور اس کے منہ پر ایک ذور دار پنچ رسید کیا۔۔۔ عالم رائو لڑکھڑایا جبکہ ان دونوں آدمیوں نے اس کے اشارے پر بندوقیں رحاب پر تان لی تھیں ۔۔۔
پرنس۔۔۔۔
رحاب نے بے ساختہ اسے پکارا تھا۔۔۔ عرزم نے مڑ کر دیکھا ۔۔۔۔اور پھر عالم رائو کہ طرف دیکھ کر بولا۔۔۔
زیام علوی کہاں ہے رائو۔۔۔ آخری بار پوچھ رہا ہوں کیونکہ اس کے بعد تم جان جائو گے کہ میں کون ہوں؟؟؟
ہاہاہاہا۔۔۔میں تو ڈر گیا ۔۔۔اگر نہ بتائوں تو کیا بگاڑ لو گے میرا ۔۔؟؟؟
زیادہ کچھ نہیں تمہارا معذور بیٹا جو اس وقت تمہارے گھر کے اوپر والے پورشن کے بائیں کمرے میں موجود بیڈ پر سو رہا ہے وہ جان سے جائے گا۔۔۔ اور تمہاری جان سے پیاری بیوی جو اس وقت کیچن میں موجود کوک کو ہدایت دے رہی ہے اس کو زندہ جلا دوں گا۔۔۔۔ اور یقین مانو میرے آدمی اشارے کے منتظر ہیں ۔۔۔۔ یقین نہ آئے تو گھر پر کال کر کے پوچھ لو۔۔۔۔
عرزم اطمینان سے بولا جبکہ عالم رائو کا سارا سکون بھک سے اڑا تھا۔۔۔
اس نے گھر کر نمبر پر کال کی تو وہ بند تھا جب اس نے اکرم کر کال کی لیکن اس کا نمبر بھی بند تھا۔۔۔۔
میں جان سے مار دوں گا تمہیں ۔۔۔
عالم رائو موبائل زمین پر پھینکتے ہوئے عرزم کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔۔۔
زیام کہاں ہے رائو؟؟ میں جانتا ہوں وہ تمہارے پاس ہے۔۔۔ جتنی جلدی تم بتائو گے اتنی ہی جلدی میں تمہارے بیٹے اور بیوی کو چھوڑ دوں گا۔۔۔
وہ میرے پاس نہیں ہے۔۔ اور میں نہیں جانتا وہ کہاں ہے؟؟؟
تم جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔
عرزم نے اسے غصے سے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔
تمہاری مرضی ہے یقین کرو یا نہیں ۔۔۔۔ اب میری فیملی کو چھوڑ دو۔۔۔
ہمارے گھر میں صحیح سلامت پہنچتے ہی تمہاری فیملی کو چھوڑ دوں گا۔۔۔
عرزم یہ بول کر رحاب کی طرف مڑا۔۔۔ اتنے میں ایک آدمی کے موبائل پر اکرم کے نمبر سے کال آئی۔۔۔ اور اس نے بتایا کہ وہ اور رائو کی فیملی بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ اس آدمی نے عالم رائو کو چیخ کر بتایا۔۔۔ عرزم صرف اسے ڈرانا چاہتا تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہو گیا تھا ۔۔۔
عرزم نے جلدی سے رحاب کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے بھاگنے لگا جب عالم رائو نے اپنے ایک آدمی سے گن چھینی اور عرزم کا نشانہ لے کر یکے بعد دیگرے تین چار گولیاں چلائیں۔۔ رحاب۔۔۔
عرزم چیختے ہوئے مڑا تھا جہاں رحاب کے پیٹ سے خون تیزی سے بہنا شروع ہو گیا تھا۔۔۔۔ عالم رائو نے دوسری دفعہ جیسے ہی نشانہ باندھا کسی نے اس کے سینے کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔۔۔ اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ حسن نیازی تھے جبکہ ان کے ساتھ باقی کے اہلکاروں نے وہاں موجود دونوں آدمیوں کو حراست میں لے لیا تھا۔۔۔ حسن نیازی کو حیدر حسن نے بروقت ساری بات بتا کر وہاں پہنچنے کے لئے کہا تھا۔۔ ٹریفک کی وجہ سے وہ پانچ منٹ لیٹ تھے جس کا خمیازہ وہ بھگت چکے تھے۔۔۔ رحاب کے خون میں لت پت وجود کی صورت میں۔۔۔
رے۔۔ ویک اپ یار۔۔۔
عرزم اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا جو سانس بھی بمشکل لے پا رہی تھی۔۔۔۔
عرزم اسے اٹھائو ۔۔۔ ہمیں اسے ہاسپٹل لے کر جاناہوگا۔۔۔
حسن نیازی نے نم آنکھوں سے رحاب کا وجود دیکھا تھا ۔۔۔ عرزم نے بنا کچھ دیکھے اور سنے بغیر اسے اٹھایا اور نیچے کی طرف بھاگا۔۔۔۔۔
ریش ڈرائیونگ کرکے وہ بیس منٹ میں ہاسپٹل پہنچا تھا۔۔۔
رحاب کو آئی سی یو میں لے جایا گیا تھا۔۔۔ چونکہ حسن نیازی خود پولیس میں تھے اس لئے ڈاکٹرز جلدی سے رحاب کو اند لے گئے تھے۔۔ حسن اور عرزم باہر کوریڈور میں اس کی زندگی کی دعائیں کرنا شروع ہوگئے تھے۔۔۔۔
ابھی آدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا جب ڈاکٹر ناصر جو وہاں سے گزر رہے تھے جلدی سے عرزم کی طرف بڑھے۔۔۔۔
عرزم۔۔۔
عرزم نے انکی پکار پر سر اٹھایا۔۔۔
تھینک گاڈ تم آ گئے ہو ہاسپٹل۔۔۔ اب جلدی سے ڈونر کو کال کرو۔۔۔ کیونکہ زیام کی حالت بہت سیریس ہے ہمیں فوری اس کی سرجری کرنی ہے ۔۔۔۔
ڈاکٹر ناصر پریشانی سے بول رہے تھے جبکہ عرزم کو گہرا شاک پہنچا تھا ۔۔۔
انکل یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟؟ کیا ہوا ہے زیمی کو ؟؟
کیا تمہیں نہیں معلوم کہ وہ دوگھنٹے سے آئی سی یو میں ہے۔۔۔
عرزم کی صحیح معنوں میں جان نکلی تھی ۔۔۔۔ وہ ایکدم نیچے بیٹھا تھا۔۔۔
وہ ڈونر تو دس دن پہلے ہی مر چکا ہے۔۔ اور نیا ڈونر ابھی نہیں ملا مجھے ۔۔۔
عرزم ۔۔۔ کیا بول رہے ہو۔۔۔ اس کی زندگی صرف ڈونر ملنے سے ہی بچ سکتی ہے۔۔۔
انکل میں کچھ کرتا ہوں آپ پلیز زیمی کو کچھ مت ہونے دینا ۔۔۔
عرزم یہ بول کر ہوسپٹل کی پارکنگ میں آیا تھا جب اس کی نظر نائلہ بیگم پر پڑی۔۔۔ عرزم شدید اشتعال میں انکی طرف بڑھا تھا۔۔۔
کیا لینے آئی ہیں آپ ؟؟ یہ دیکھنے آئی ہیں کہ وہ زندہ ہے یا مر گیا ہے؟؟ ایک بات اچھے سے ذہن نشین کر لیں مسز علوی میں اسے کچھ ہونے نہیں دوں گا۔۔۔ سنا آپ نے میں اسے بچا کر رہوں گا۔۔۔
عرزم غصے سے بول رہا تھا جب نائلہ بیگم نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔
میں کتنی غلط تھی عرزم کہ سمجھ ہی نہ سکی وہ مجھ سے کتنی محبت کرتا ہے۔۔۔ وہ بہت اچھا ہے۔۔ شاید میں ہی اس کی ماں بننے کے قابل نہیں ہوں۔۔۔ تم جانتے ہو وہ بھی نارمل بچوں کی طرح زندگی گزار سکتا تھا لیکن میری وجہ سے اسے ہمیشہ دکھوں کا سامنا کرنا پڑا ۔۔۔
عرزم نے لب بھینچ کر ان کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں تکلیف واضع طور پر نظر آ رہی تھی ۔۔۔
وہ میرے وجود کا حصہ تھا میری ممتا پر اس کا حق تھا لیکن میں نے اسے کچھ نہیں دیا۔۔ آج بھی وہ میری وجہ سے ہاسپٹل میں ہے۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اس کے ہرٹ کے دو والو بند ہیں ۔۔۔ میں اس سے نفرت کرتی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا اس کی وجہ سے میرا معاشرے میں مقام ختم ہو جائے گا۔۔ میں ایک خواجہ سرا کی ماں کہلائی جائوں گی۔۔۔ اور ہائی سوسائٹی میں اپنا سٹیٹس برقرار رکھنے کے لئے اپنے اولاد تک کو مار دیا۔۔۔۔ اسے اتنی تکلیف دی کہ ایک ماں کا مطلب ہی بدل ڈالا اس کے لئے۔۔۔
تم جانتے ہو وہ آج میرے کمرے میں آیا تھا مجھ سے ملنے۔۔۔ لیکن میں نے اسے یہ بول کر دھتکار دیا کہ وہ ایک ہیجڑا ہے ۔۔۔اور ایک ہیجڑے سے ملنے کا شوق مجھے نہیں ہے۔۔۔
عرزم نے اس بات پر بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کیا۔۔۔
وہ اپنی ماں کے منہ سے یہ الفاظ سنتے ہی بے ہوش ہوگیا۔۔۔ پہلے تو مجھے سمجھ نہیں آئی پھر جہانگیر اور شاویز اسے ہاسپٹل لے آئے۔۔ میں حیران تھی کہ میں اس کے لئے پریشان ہو رہی تھی۔۔۔ اسی پریشانی میں جب میں انیکسی میں اس کے کمرے میں گئی تو اس کے ٹیبل پر ایک ڈائری پڑی تھی۔۔۔ جس میں اس نے میری محبت کی دعائیں خدا سے مانگیں تھی ۔۔۔ اس نے میری توجہ کو اللہ سے مانگا تھا۔۔۔ میں تو مر چکی ہوں یہ دیکھ کر میری اولاد کو میں اتنا تڑپا رہی تھی۔۔۔ میں بہت گناہ گار ہوں لیکن خدا سے دعا کر رہی ہوں کہ اسے کچھ نہ ہو۔۔۔۔۔
نائلہ بیگم روتے روتے نیچے بیٹھ گئی تھی جبکہ عرزم واپس جانے کے لئے مڑا کیونکہ اس وقت انہیں تسلی نہیں دے سکتا تھا ۔۔۔ اسے کسی ڈونر کا انتظام کرنا تھا۔۔۔
تم کہاں جا رہے ہو عرزم؟؟؟
زیام کے لئے کسی ڈونر کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں ۔۔۔ پلیز دعا کیجئیے گا کہ وہ مل جائے۔۔۔
عرزم مڑے بغیر بولا ۔۔۔
تمہیں ڈونر ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ میں زیام کو اپنا دل دینے کو تیار ہوں۔۔۔
نائلہ بیگم کی بات پر عرزم سرعت سے ان تک پہنچا تھا ۔۔۔
دیکھیں زیمی آپ سے بہت محبت کرتا ہے۔۔ اس لئے کوئی بھی جذباتی فیصلہ مت کریں ۔۔۔
یہ جذباتی فیصلہ نہیں ہے عرزم یہ اس کی ساری تکلیفوں کا مداوا ہے۔۔ میں اگر زندہ رہی تو مجھے لگتا ہے میرے اندر پھر سے وہی نائلہ سر اٹھائے گی جس کے لئے یہ معاشرہ ضروری ہے۔۔۔ اور میں ویسے دوبارہ کسی صورت نہیں بننا چاہتی ۔۔۔ پلیز میری بات مان لو۔۔۔۔
لیکن آنٹی وہ۔۔۔۔
عرزم نے کچھ نے کچھ کہنا چاہا جب نائلہ بیگم نے اسے ٹوک دیا۔۔۔
پلیز عرزم اور تم کبھی کسی کو مت بتانا کہ زیام کو دل اس کی ماں نے دیا ہے۔۔۔یہاں تک کے ذیمی کو بھی نہیں ۔۔۔ پلیز۔۔۔ تمہیں زیام کی زندگی کا واسطہ ہے مجھے مت رکو۔۔
عرزم نا چاہتے ہوئے بھی مان گیا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رحاب اور عرزم دونوں کا آپریشن کامیاب رہا تھا۔۔۔ رحاب کو دو ہفتوں بعد ڈسچارج کر دیا گیا تھا۔۔۔ جبکہ زیام ابھی ہاسپٹل ہی تھا۔۔۔
رحاب اپنے کمرے میں لیٹی تھی جب اسے اپنے چہرے پر نمی محسوس ہوئی۔۔۔۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا عرزم رو رہا تھا۔۔۔
جانتی ہو رے۔۔۔ محبت میں ساری بات ظرف کی ہوتی ہے ۔۔ اگر ظرف بڑھا ہو تو انسان اپنے محبوب کی بڑی سے بڑی غلطی کو نظر انداز کر دیتا ہے۔۔ لیکن پتہ ہے کیا اس ظرف کو صرف ایک چیز ختم کرتی ہے اور وہ ہے بے وفائی۔۔ اور تم نے اسے مجھ سے چھین کر بے وفائی ظاہر کر دی ہے۔۔ اب میں چاہ کر بھی وفا کے ساتھ لگی بے کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔۔۔
پرنس۔۔۔ تم جانتے ہو تم کیا بول رہے ہو؟؟ جو ہوا اس میں میرا کیا قصور تھا؟؟ بچہ تو میں نے بھی اپنا کھویا ہے۔۔۔ کیا مجھے تکلیف نہیں ہوتی اور تم مجھے ہی بے وفائی کے طعنے دے رہے ہو۔۔۔۔
رحاب نے عرزم کے ہاتھ جھٹکے تھے ۔۔ اور چیخ کر بول رہی تھی جب عرزم نے اسے اپنے حصار میں لیا ۔۔۔۔
ڈاکٹر نے رحاب کی سرجری کے بعد عرزم کو بتایا تھا کہ انکی تقریبا دو ماہ کی پریگنینسی تھی ۔۔ جو وہ کنسیو نہیں کرسکی ۔۔۔ تب سے عرزم کو لگتا تھا اگر رحاب اس کے سامنے نہ آتی تو اس کا بچہ بچ سکتا تھا۔۔۔
ایم سوری۔۔ تمہیں ہرٹ کرنے کے لئے ۔۔ لیکن میں چاہ کر بھی نہیں بھول سکتا کہ تم نے میرے زندگی میرے بچے کی قربانی دے کر بچائی ہے۔۔۔۔
رحاب اس کے کندھے پر سر رکھ کر شدت سے رو دی تھی۔۔۔
جبکہ عرزم کے آنسو رحاب کے بالوں میں جذب ہو رہے تھے۔۔۔۔
دونوں کا غم تازہ تھا ۔۔۔ اس لئے دونوں کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کس کے ساتھ اس کو شئیر کریں۔۔۔ وقت بہت بڑا مسیحا ہے جو بڑے سے بڑا زخم بھی بھر دیتا ہے اور ان دونوں کا زخم بھی وقت نے ہی بھرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سات سال بعد۔۔۔۔۔۔۔
شافع۔۔۔۔ گر جائو گے ۔۔۔ پلیز واپس آ جائو۔۔۔
رحاب اپنے تین سالہ بیٹے کے پیچھے بھاگتے ہوئے روہانسی ہو کر بولی تھی ۔۔۔ جو گارڈن میں بھاگ رہا تھا ۔۔۔ گارڈن میں فائزہ اور حیدر مسکراتے ہوئے سب دیکھ رہے تھے ۔۔۔
عرزم کی گاڑی جونہی گھر میں داخل ہوئی شافع ۔۔۔
پاپا ۔۔۔ پاپا۔۔۔ پکارتا اس کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
عرزم کے ساتھ زیام بھی تھا۔۔
شافع پہلے عرزم سے ملا جس نے اس کے دونوں گالوں پر بوسہ دیا تھا اور پھر زیام کی طرف بڑھ گیا جس کو ڈیڈ کہتا تھا۔۔۔
ڈیڈ۔۔۔ زیام نے مسکراتے ہوئے اس کے دونوں گالوں پر بوسہ دیا۔۔۔
ڈیڈ کی جان۔۔۔۔
شافع عرزم سے زیادہ زیام سے اٹیچ تھا ۔۔ اور وجہ زیام صاحب دن میں چار دفعہ اسے باہر گھمانے لے جاتے تھے۔ اور ان کی من پسند چاکلیٹس بھی دلاتے تھے۔۔۔ زیام فاؤنڈیشن کو زیام ہی دیکھتا تھا جبکہ عرزم حیدر صاحب کے بزنس کو سنبھال رہا تھا۔۔۔
ڈیڈ۔۔۔ باہر جانا۔۔۔۔
شافع زیام کو دیکھ کر بولا۔۔۔ جبکہ عرزم نے اسے گھورا تھا جو اس کو سرے سے ہی اگنور کر گیا تھا۔۔۔
بالکل میری جان چلو چلتے ہیں۔۔۔
زیام اسے گود میں اٹھائے باہر نکل گیا جبکہ عرزم سر جھٹک کر حیدر حسن کے پاس گارڈن میں آگیا۔۔۔ رحاب اس کے لئے چائے بنانے چلی گئی تھی ۔۔۔
سات سال پہلے ۔۔۔ جب نائلہ نے زیام کو ہرٹ ڈونیٹ کیا تھا جس کا کسی کو علم نہیں تھا۔۔۔ کیونکہ عرزم نے ڈاکٹر ناصر کی مدد سے ان کی موت کو طبعی موت بنا دیا تھا ۔۔۔۔ وہ ایسا کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن نائلہ بیگم سے کئے وعدے کی بنا پر مجبور تھا۔۔۔ شاویز کی شادی اس کی کزن نمرہ سے ہوگئی تھی ۔۔۔ شمائل اور حاشر کے دو بیٹے تھے۔۔۔ جبکہ شاویز اور نمرہ کی ایک ہی بیٹی تھی ۔۔۔۔
زندگی کبھی کسی کو بے سہارا نہیں چھوڑتی ۔۔۔۔ ایسے بہت سے زیام ہیں جن کو عرزم جیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ خدا کے لئے ان کا سہارا بنیں ۔۔۔ اگر نہیں بن سکتے تو انہیں معاشرے میں گالی بھی مت بنائیں ۔۔۔۔ خواجہ سرا کوئی غلیظ انسان نہیں ہوتا۔۔۔ وہ تو مرد اور عورت دونوں سے معتبر ہوتا ہے۔۔۔ خداراہ اس چیز کو سمجھیں اور اس ان کو عزت دیں۔۔۔۔
۔(ختم شد)