رحاب جیسے ہی اپنے گھر کے لائونج میں داخل ہوئی سامنے اجالا بیگم پر نظر پڑتے ہی اس نے بے ساختہ لب بھینچے تھے۔۔ وہ سیدھا اپنے کمرے کی طرف جانا چاہتی تھی لیکن اجالابیگم کی آواز نے اس کے قدموں میں زنجیر ڈال دی تھی ۔۔۔۔
روحی سلام کرنا بھول گئی ہو؟؟؟ یا اپنی ماں کو سلام کرنے سے تمہاری شان میں کمی آ جائے گی۔۔۔۔
اجالا بیگم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔
آپ میری ماں نہیں ہیں۔۔۔
رحاب ایک دم غصے سے مڑی تھی ۔۔۔
تمہارے جھٹلانے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔۔۔ اور ویسے بھی ۔۔۔۔
اووو مائے گاڈ یہ تمہارے ہاتھ پر چوٹ کیسے آئی؟؟؟؟؟
اجالا نے اس کے سرخ چہرے کو دیکھا لیکن جیسے ہی ان کی نظر اس کے ہاتھ پر بندھی پٹی کو دیکھا وہ حقیقتا پریشان ہوئیں تھیں ۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔ سریسلی ۔۔۔ آپ پریشان ہیں۔۔۔۔۔ جوک آف دا ڈے۔۔۔ مسز اجالا حسن نیازی میرے لئے پریشان ہیں۔۔۔
رحاب نے ہنستے ہوئے اجالا بیگم کی پریشانی کا جیسے مذاق اڑایا تھا۔۔۔
روحی پلیز ۔۔۔۔ یہ چوٹ کیسے آئی؟ پین کلر لی کیا؟ اور زخم ذیادہ گہرہ تو نہیں؟
سٹاپ اٹ پلیز۔۔۔۔۔ اپنی ایکٹنگ بند کریں ۔۔۔ کس چوٹ کی بات کر رہی ہیں آپ ؟ اس چوٹ کی جو میرے ہاتھ پر لگی یا اس چوٹ کی جو میرے دل پر لگی ہے۔۔۔۔ آپ جانتی ہیں۔۔۔ چوٹ کی گہرائی چاہے جتنی بھی ہو درد مسلسل نہیں ہوتا ہے۔ لیکن جب یہی درد شدت اختیار کرتا ہے نا مسز اجالا حسن نیازی تو وہ زخم آپکو ناسور لگنے لگتا ہے۔۔۔۔
رحاب نم آنکھوں سے اتنا بول کر اپنے کمرے میں چلی گئی تھی جبکہ اجالا بیگم نے اپنے آنسوئوں پر بند باندھنے کی ناکام کوشش کی تھی۔۔۔
فقط ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا مت دو مجھے روحی۔۔۔۔۔ تمہاری ماں کا صبر وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو رہا ہے۔۔۔
اجالابیگم نے اس کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھ کر خود سے کہا۔۔۔ لیکن آنسوئوں نے ان کا صبر کا بھرم توڑ دیا تھا شاید۔۔۔ اس لئے تو آج دس سالوں بعد وہ اسی دن کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ڈنر لگا دیا ہے حیدر ۔۔۔ آپ اب ٹی وی کی جان چھوڑ دیں اور کھانا کھا لیں۔۔۔۔۔
فائزہ نے مسکراتے ہوئے لائونج میں بیٹھے حیدر سے کہا جو ٹی وی پر کوئی نیوز چینل دیکھ رہے تھے ۔۔۔ حیدر ان کی بات پر مسکرائے اور ٹی وی آف کر کے ڈائنگ ٹیبل پر آئے۔۔۔۔
جو حکم بیگم صاحبہ۔۔۔۔
حیدر نے تھوڑا سا جھک کر سینے پر ہاتھ باندھ کر شوخی سے کہا۔۔۔۔
حیدر کبھی کبھی مجھے واقعی نہیں لگتا کہ آپ ایک جوان بیٹے کے باپ ہیں۔۔۔۔۔
فائزہ نے مصنوعی خفگی سے شکایت کی۔۔۔۔
یہ تو مجھے بھی نہیں لگتا۔۔۔ کیونکہ آپکا بیٹا تو مجھے اپنا باپ ہی نہیں سمجھتا۔۔۔۔
حیدر حسن نے سنجیدگی سے فائزہ کو دیکھے بغیر کہا۔۔۔ فائزہ جو ان کے آگے پلیٹ رکھ رہی تھیں۔۔۔ ان کی سنجیدگی کو دیکھ کر چونکی۔۔۔ لیکن پھر خاموش ہی رہیں۔۔۔۔ حیدر نے بھی مزید کوئی بات کئے کھانا کھانا شروع کر دیا۔۔۔۔
ویسے کہاں ہیں آپ کے لاڈلے؟؟؟؟
حیدر نے کھانا کھاتے ہوئے فائزہ سے پوچھا۔۔۔
وہ سو گیا ہے۔۔۔۔
فائزہ نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔
سو گیا ہے یا باپ کو یہ جتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اسکا باپ دنیا کا سب سے ظالم انسان ہے۔۔۔
حیدر کیا ہوگیا ہے آپکو۔۔۔۔ وہ کیوں ایسا کچھ سمجھے گا یا جتلائے گا۔۔ اور یہ بار بار پلیز میرا بیٹا اسے کہنا بند کریں وہ ہمارا بیٹا ہے۔۔۔۔
فائزہ بیگم نے اس بار کچھ ناراضگی سے حیدر کو دیکھ کر جواب دیا۔۔۔۔
میرا بیٹا کہلوانے کے قابل تو بنے ۔۔۔۔
حیدر منہ میں بڑبڑائے۔۔۔۔ لیکن ان کی بڑبڑاہٹ اتنی اونچی ضرور تھی کہ ان سے دو قدم سے فاصلے پر کھڑے عرزم نے صاف صاف سنی تھی ۔۔۔
قسم سے ڈیڈ مجھے ایسی کوئی خواہش نہیں ہے کہ آپ مجھے اپنا بیٹا سمجھیں۔۔۔۔ اور رہی قابل بننے کی بات تو ایسی قابلیت سے میں بچا جس میں انسان انسانیت کے درجے سے گر جائے۔۔۔۔
عرزم نے اپنی جگہ پر بیٹھتے ہوئے نارمل انداز میں کہا ۔۔۔۔۔
بی ہیو یور سیلف عرزم۔۔۔۔ کیا تم بھول گئے ہو کہ تم اس وقت اپنے باپ سے بات کر رہے ہو؟؟؟
حیدر کے سخت تاثرات دیکھ کر فائزہ بیگم نے عرزم کو ڈانٹا۔۔۔۔
نہیں مام۔۔۔۔ میں نہیں بھولا۔۔۔۔ البتہ ڈیڈ بھول گئے ہیں کہ ان کا کوئی بیٹا بھی ہے۔۔۔
عرزم۔۔۔۔۔۔
فائزہ نے تنبیہی انداز میں اسے ٹوکا۔۔۔
ہاں میں واقعی بھول گیا ہوں کہ تم میرے بیٹے ہو۔۔۔۔ کیونکہ میرے بیٹے کے دوست کم ازکم ۔۔۔۔۔۔
بس ڈیڈ زیمی کے خلاف آپ ایسا کوئی لفظ استعمال مت کیجیے گا جس کے بعد میں یہ بھول جائوں کے آپ میرے باپ ہیں۔۔۔۔
عرزم نے غصے سے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے حیدر حسن کی بات کاٹی تھی ۔۔۔ کیونکہ وہ جانتا تھا جو لفظ وہ زیام کے لئے استعمال کریں گے وہ عرزم حیدر کے لیے صبر کی آخری حد ہوگی۔۔۔۔۔
کاش کہ میں بے اولاد ہی ہوتا کم از کم تم جیسی نافرمان اور بدتمیز اولاد کے دکھ کو تو نا جھیلنا پڑتا۔۔۔۔
حیدر خدا کے لئے بس کر دیں۔۔۔۔
فائزہ بیگم نے نم آنکھوں سے انہیں ٹوکا تھا اور ساتھ ہی عرزم کو دیکھ کر اسے جانے کے لئے کہا تھا۔۔۔
عرزم تم اپنے کمرے میں جائو۔۔۔۔
عرزم اپنی ماں کے آنسو دیکھ کر لب بھینچ گیا تھا اور بنا کچھ کہے اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔۔۔۔
میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ مجھ سے زیادہ محبت اگر اس دنیا میں کوئی عرزم کو کرتا ہے تو وہ آپ ہیں حیدر ۔۔۔ لیکن آج مجھے لگ رہا ہے کہ میں غلط تھی۔۔۔ آپ نے فقط اپنے آپ سے محبت کی ہے۔۔۔ اس معاشرے میں اپنے رتبے کو قائم رکھنے کے لئے آپ نا صرف خود کو بلکہ عرزم کو بھی اذیت دے رہے ہیں۔۔ اور آپ دونوں کو اس حال میں دیکھ کر میری برداشت ختم ہو رہی ہے۔۔۔۔ خدا کے لئے اسے اس کے حال پرچھوڑ دیں۔۔۔۔
فائزہ یہ بول کر وہاں سے چلی گئیں تھیں جبکہ حیدر حسن اپنی جگہ سے ہل نہیں سکے تھے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیمی بیٹا۔۔۔۔ آ جائو کھانا کھا لو۔۔۔
ایک پچپن سالہ خاتون نے زیام سے کہا جو کمرے میں موجود رائٹنگ ٹیبل پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔۔۔
دائی ماں بھوک نہیں ہے۔۔۔
زیمی بیٹا ۔۔۔ آج میں نے تمہارے من پسند دال چاول اور ساتھ رائتہ بنایا ہے۔۔۔ اب بھی نہیں کھائے گا۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا ۔۔۔ دائی ماں مجھے واقعی بھوک نہیں ہے۔۔۔ آپ کھا لیں۔۔۔۔
زیام نے قہقہ لگا کر دائی ماں کو جواب دیا۔۔۔ لیکن اس قہقے میں موجود درد دائی ماں سے پوشیدہ نہیں تھا۔۔۔۔
کیا ہوا ؟؟؟ کسی نے کچھ کہا ہے کیا؟؟؟
دائی ماں ایک بات پوچھوں؟؟؟
زیام نے جواب دینے کی بجائے عجیب لہجے میں اجازت مانگی۔۔۔
ہاں پوچھو۔۔۔۔ اور ویسے بھی ایسی کونسی بات ہے جس کو جاننے کے لئے تمہیں میری اجازت درکار ہے۔۔۔
دائی ماں زندگی اتنے امتحان کیوں لیتی ہے؟ میں جب بھی کوشش کرتا ہوں آگے بڑھنے کی مجھے یہ معاشرہ پیچھے دھکیل دیتا ہے ۔۔۔ جب جب میں نے زندگی کے امتحانات میں پاس ہونے کے لئے محنت کی ہے مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔۔۔
زیمی بیٹا ہوا کیا ہے؟ تم آج اتنی افسردہ باتیں کیوں کر رہے ہو؟ کل تو تم خوش تھے آج کیا ہوا؟ عرزی کے ساتھ لڑائی ہوئی ہے کیا؟؟؟
نہیں دائی ماں ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔ آج یونیورسٹی میں شاویز۔۔
اس سے پہلے زیام اپنی بات مکمل کرتا کمرے کے دروازے پر کسی نے دستک دی۔۔۔۔
زیام نے جیسے ہی دروازہ کھولا سامنے ہی گھر کے ملازم کو دیکھ کر اذیت سے مسکرایا تھا۔۔۔۔
صاحب وہ آپکو بڑے صاحب بلا رہے ہیں۔۔۔۔
تم چلو میں آتا ہوں ۔۔۔
زیام نے ملازم سے کہا اور پھر دائی ماں کی طرف مڑا۔۔۔
دائی ماں آپ سو جائیں ۔۔۔ میں آتا ہوں۔۔۔۔
یہ بول کر وہ انیکسی سے نکلا اور گھر کے لان سے ہوتا ہوا لائونج میں داخل ہوا۔۔۔ وہ جانتا تھا آج بھی بنا قصور کے وہ سزا وار ہوگا۔۔۔ کیونکہ یہ بلاوے اس کے لئے کبھی بھی سکون کا باعث نہیں رہے تھے۔۔۔۔
جیسے ہی وہ لائونج میں داخل ہوا سامنے ہی سب گھر والوں کو دیکھ کر وہ مسکرایا ۔۔۔۔
آپ نے بلایا ۔۔۔۔۔
وہ بلاتمہید جہانگیر علوی سے مخاطب ہوا۔۔۔۔ جو سامنے ہی صوفے پر بڑی شان سے بیٹھے تھے۔۔۔۔
تم نے شاویز کی یونیورسٹی میں داخلہ کیوں لیا؟؟؟
جہانگیر علوی نے زیام کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
زیام نے ایک نظر دوسرے صوفے پر موجود شاویز کو دیکھا ۔۔۔ جو سر جھکائے بیٹھا تھا۔۔۔۔
مجھے نہیں پتہ تھا کہ عرزم نے میرا ایڈمیشن وہاں کروایا ہے ۔۔۔ اگر پتہ ہوتا تو میں یقینا آپ کی نام نہاد عزت پر کوئی حرف نہیں آنے دیتا۔۔۔۔
زیام نے اطمینان سے جواب دیا۔۔۔۔
مجھے نہیں معلوم کہ تمہارا ایڈمیشن کس نے کروایا یا کس نے نہیں میں بس اتنا جانتا ہوں کہ تم کل سے شاویز کی یونیورسٹی نہیں جائو گے۔۔۔۔
جہانگیر علوی نے غصے سے زیام کو دیکھ کر کہا۔۔۔۔
اور ایسا میں کیوں کروں گا؟؟؟؟
زیام نے سکون سے پوچھا۔۔۔ اس کا اطمینان جہانگیر علوی کو زہر لگ رہا تھا۔۔۔۔
کیونکہ میں کہہ رہا ہوں اس لئے۔۔۔۔
معذرت سر۔۔۔ لیکن میں ایسا کچھ نہیں کروں گا۔۔۔۔
تم جانتے ہو تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ تم مجھے یعنی اپنے باپ کو منع کر رہے ہو ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
جہانگیر علوی نے سرخ آنکھوں سے زیام کو گھور کر پوچھا۔۔۔
نہیں۔۔۔ اگر یہ حکم میرے باپ کا ہوتا تو میں یقینا ماں جاتا لیکن یہ حکم شاویز علوی کے باپ اور جسٹس جہانگیر علوی کا ہے اس لئے میں کسی صورت نہیں مان سکتا۔۔۔
زیام یہ بول کر وہاں سے جانے لگا جب نائلہ کی آواز نے اس کے قدم روک دئیے۔۔۔۔
زیام علوی یہ مت بھولو کہ یہ جو تمہاری پہچان ہے نا یہ تمہارے باپ کی ہی دین ہے۔۔۔۔ اس لئے اپنی اوقات مت بھولو۔۔۔۔
زیام نے نم آنکھوں سے مڑ کر اپنی ماں کو دیکھا تھا۔۔۔۔
ٹھیک کہا آپ نے یہ سب کچھ میرے باپ کی ہی دین ہے۔۔۔ میں کون ہوتا ہوں انکار کرنے والا۔۔۔۔ میں اپنی اوقات نہیں بھولا ممی لیکن شاید آپ بھول گئیں ہیں کہ میں بھی آپکا ہی بیٹا ہوں۔۔۔۔
زیام ۔۔۔۔۔
جہانگیر علوی نے سپاٹ چہرے سے زیام کو پکارا تھا۔۔۔ ان کی پکار میں موجود تنبہہ کو زیام باخوبی سمجھ گیا تھا۔۔۔۔۔
زیام نے نم آنکھوں سے جہانگیر علوی کو دیکھا تھا۔۔۔۔ کیا کچھ نا تھا ان آنکھوں میں۔۔۔ بے بسی، دکھ تکلیف، اور ان لفظوں کی اذیت جو نائلہ کی زبان سے کسی نشتر کی طرح اس کی روح میں پیوست ہوئے تھے۔۔۔۔۔ جہانگیر علوی نظریں چراگئے تھے۔۔۔ زیام مڑ کر تیز تیز قدموں سے وہاں سے نکل گیا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیمی ۔۔۔۔ کیا کہہ رہے تھے جہانگیر صاحب۔۔۔۔
جیسے ہی زیام انیکسی میں داخل ہوا دائی ماں نے تشویش زدہ انداز میں پوچھا۔۔۔۔
زیام زخمی سا مسکرایا۔۔۔ اور بولا۔۔۔۔
دائی ماں ۔۔۔ کیا کہہ سکتے ہیں وہ مجھے۔۔۔۔؟؟؟ مجھ سے بات کرنے کے لئے ان کو شاید اپنے معیار سے بہت نیچے آنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔
کیا نائلہ میڈم نے کچھ کہا؟؟؟
الفاظ زخمی نہیں کرتے دائی ماں ۔۔۔۔ لہجے کا وار انسان کی روح کو چھلنی کرتا ہے۔۔۔ اگر مجھ سے کوئی یہ پوچھے نا کہ اس دنیا میں کیا چیز حاصل کرنا چاہتے ہو۔۔۔ تو آپ جانتی ہیں کہ میرا جواب کیا ہوگا؟؟؟
زیام نے دائی ماں کو دیکھا ۔۔۔ دائی ماں کو وہ ہوش و حواس میں نہیں لگ رہا تھا۔۔۔
ماما کی محبت چاہیے مجھے ۔۔۔۔ دائی ماں۔۔۔۔ مجھے ان کی محبت چاہیے۔۔۔۔
زیام بولتے بولتے اپنا ضبط کھو گیا تھا ۔۔۔ دائی ماں نے آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگایا تھا۔۔۔ وہ جانتی تھیں چاہے کچھ بھی ہوجائے زیام انہیں کچھ نہیں بتائے گا۔۔۔ وہ اکیلا سب سہہ جائے گا۔۔۔ لیکن یہ برداشت کب تک اسے کے ساتھ رہے گی۔۔۔ دائی ماں کی سوچ یہاں ختم ہو جاتی تھی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دس منٹ میں ریڈی ہو جائو میں تمہیں پک کرنے آ رہا ہوں۔۔۔۔
زیام نے جیسے ہی عرزم کی کال ریسیو کی ۔۔۔ عرزم کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔۔۔
لیکن اس عنایت کی وجہ؟؟اور ویسے بھی ابھی مجھے ریڈی ہونے میں کم از کم آدھا گھنٹہ تو لگے گا۔۔
زیام علوی آپ شاید بھول رہے ہیں کہ اس وقت آپ کس سے مخاطب ہیں۔۔۔۔۔
عرزم دانت پیس کر بولا۔۔۔
نہیں بالکل نہیں ۔۔۔ میں نہیں بھولا کہ اس وقت میں دنیا کے سب سے نکمے اور کمینے آدمی سے مخاطب ہوں۔۔۔۔۔
زیمی۔۔۔ تو نے بریک فاسٹ میں کیا آج کوے کا آملیٹ کھایا ہے جو اتنا بول رہا ہے۔۔۔۔
عرزم نے ڈرائیو کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔
ہاں کھایا ہے اور تیرے لئے اسی کوے کے پائے بنائیں ہیں۔۔۔ آ جائو اور آ کر کھا لو۔۔۔۔۔
زیام نے یہ بول کر کال ڈراپ کر دی اور دائی ماں سے مخاطب ہوا۔۔۔۔
آپ جانتی ہیں کہ وہ ہر چیز کو سر پر سوار کر لیتا ہے تو پھر آپ نے کیوں اسے کچھ بھی بتایا۔۔۔۔۔
میں نے کب بتایا۔۔۔ اور ویسے بھی تم نے مجھے کچھ نہیں بتایا تھا تو میں نے سوچا کہ عرزم کو بول دیتی ہوں تم سے خود پوچھ لے۔۔۔۔ کیونکہ اس سے تم واقعی کچھ نہیں چھپا سکتے۔۔۔۔
دائی ماں۔۔۔۔
زیام نے احتجاج انہیں پکارا۔۔۔
کیا دائی ماں۔۔۔۔ تم جانتے ہو کہ تمہارے چہرے پر مسکراہٹ صرف وہی لا سکتا ہے۔۔۔ اور تمہاری مسکراہٹ دیکھ کر مجھے سکون مل جائے گا۔۔۔۔۔
دائی ماں نے زیام کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
یہ کیا دائی ماں۔۔۔۔ صرف زیمی پر ہی محبت لوٹائیں گی۔۔۔ میں بھی تو آپ کا بیٹا ہوں۔۔۔
عرزم جو ابھی ابھی انیکسی میں داخل ہوا تھا ۔۔دائی ماں اور زیام کی باتیں سن کر مصنوعی خفگی سے بولا۔۔۔
دائی ماں نے اس کی پیشانی پر بھی بوسہ دیا اور محبت بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔۔
میرا بچہ۔۔۔۔۔ تم دونوں مجھے بہت عزیز ہو۔۔۔ تم بیٹھو میں ناشتہ لے کر آتی ہوں۔۔۔۔
دائی ماں یہ بول کر وہاں سے چلی گئیں جبکہ عرزم ٹیبل کے گرد موجود دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
کیا ہوا تھا کل رات کو؟؟؟
عرزم نے بنا تمہید کے زیام کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ بس دائی ماں کو ہر بات پر ٹینشن لینے کی عادت ہے اور کچھ نہیں۔۔۔۔
زیام نے مسکرا کر جواب دیا۔۔۔
تم جانتے ہو زیمی میں جھوٹ کو صرف تب ہی برداشت کرتا ہوں جب مجھے پتہ ہوتا ہے کہ تمہارا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔۔۔۔لیکن جب مجھے %1 بھی معلوم ہوجائے کہ اسی جھوٹ سے تم نے کتنے آنسو بہائے ہیں تو میں اپنی برادشت کھو دیتا ہوں۔۔۔۔ اور جہاں عرزم حیدر کی برداشت ختم ہوئی ہے وہیں اس کا انتقام شروع ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔
اب بولو۔۔۔۔ میں اپنے طریقے سے معلوم کروں یا تم مجھے بتا رہے ہو کہ کل رات کیا ہوا؟؟؟؟؟
عرزم مجھے تمہارے جنون سے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔ تمہیں کم از کم میرے معاملے میں اتنا پوزیسیو نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔۔ لوگ تمہیں سائیکو سمجھنا شروع کر دیں گے۔۔۔۔۔
مجھے یہ مت بتائو کہ مجھے کیا کرنا چاہیے یا کیا نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ لوگ کیا کہتے ہیں اس چیز کی پرواہ کم از کم میں تو نہیں کرتا۔۔۔ اب سیدھے طریقے سے سب بتائو گے یا میں تمہارے باپ کا ناشتہ ہضم کروا کر آئوں۔۔۔۔۔
عرزم کی آخری بات میں چھپی دھمکی کو زیام باخوبی سمجھ گیا تھا ۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے کچھ نا بتایا تو وہ جہانگیر علوی کے پاس پہنچ جائے گا۔۔۔
تم سے بڑا بلیک میلر میں نے آج تک نہیں دیکھا۔۔۔۔
زیام دانت پیس کر بولا۔۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ سب کچھ اسے بتا دیا۔۔۔۔
شاویز بھائی کی کلاس کا ٹائم کیا ہے؟؟؟
عرزم نے ساری بات سن کر اس سے پوچھا۔۔۔۔
زیام نے ناسمجھی سے پوچھا۔۔۔
زیام نے ناسمجھی سے عرزم کو دیکھا ۔۔۔۔۔
کیوں؟؟؟؟؟
ویسے ہی یار۔۔۔ اب تم ساری رات پریشان رہے ہو۔۔۔ اتنا حق تو تمہارے بھائی کا بھی بنتا ہے کہ اسے تھوڑا سا پریشان کیا جائے۔۔۔۔۔
عرزم معصومیت طاری کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
تم ایسا ویسا کچھ نہیں کرو گے۔۔۔۔
زیام نے عرزم کو گھورا ۔۔۔۔
میں یقینا ایسا ویسا کچھ نہیں کروں گا بلکہ میں بہت کچھ کروں گا۔۔۔ زیادہ سے زیادہ تمہارے شاویز بھائی کو وہ یونیورسٹی سے ریزائن کرنا پڑے گا۔۔۔ بس۔۔۔۔
عرزی ۔۔۔۔ یار جانے دے نا بات کو۔۔۔ کیوں بڑھا رہا ہے۔۔۔۔
زیام علوی صاحب۔۔۔۔ رات آٹھ سے صبح سات بجے کے درمیان آپ نے جتنے آنسو بہائے ہیں۔۔۔ ان کا حساب لئے بغیر میں تمہارے بھائی کو نہیں چھوڑنے والا ۔۔۔۔۔ یو نو آئی ایم سائیکو ان یور میٹر۔۔۔۔ اینڈ نو موڑ ڈسکشن پلیز۔۔۔۔۔
عرزم زیام کو منہ کھولتے دیکھ کر سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔
میں یونیورسٹی اکیلا جا رہا ہوں۔۔۔۔
زیام ناراضگی سے ڈائنگ ٹیبل سے اٹھ کر بولا اور وہاں سے جانے لگا جب عرزم کی آواز نے اس کے قدم روک دئیے ۔۔۔۔۔
میں جانتا ہوں تم اکیلے بھاڑ میں بھی جا سکتے ہو ۔۔ لیکن وہ کیا ہے نا میں تمہارے بغیر یہاں سے نہیں جا رہا اور اگر تم اکیلے یونیورسٹی گئے تو دوسری صورت میں مجھے تمہارے گھر پر رہنا پڑے گا ۔۔۔
دنیا میں پتہ نہیں کتنے گھٹیا بلیک میلر مرے ہوں گے جب تم پیدا ہوئے تھے۔۔۔۔
زیام نے اس کی بات میں چھپی دھمکی کو سمجھ کر دانت پیس کر کہا ۔۔۔۔
آئی تھنک ایک ہزار تو مرے ہی ہوں گے۔۔۔۔۔
عرزم بھی اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے بولا۔۔۔۔
تم بھائی کو کچھ نہیں کہو گے۔۔۔۔
اوکے یار کچھ نہیں کہتا تمہارے بھائی کو لیکن اگر اس نے پہل کی تو تم مجھے نہیں رکو گے۔۔۔۔
عرزم نے اس کی ناراضگی کو دیکھ کر ہامی بھری۔۔۔۔
اوکے ٹھیک ہے۔۔۔۔
چلو لیٹ ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔
زیام کی بات پر عرزم نے صرف اتنا کہا۔۔۔۔۔
اور انیکسی سے باہر چلا گیا۔۔۔۔ جبکہ زیام بھی اس کی پیچھے مطمئن سا چل دیا۔۔۔ لیکن وہ واقعی نہیں جانتا تھا کہ اس کا اطمینان کتنی جلدی ختم ہونے والا ہے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میکرو اکنامکس کی کلاس تھی جو غالبا آج پروفیسر کے نا آنے کی وجہ سے فری تھی ۔۔۔ عرزم ایک کال سننے باہر گیا تھا جبکہ زیام کلاس میں بیٹھا کچھ نوٹ کر رہا تھا جب اسے رحاب کی آواز سنائی دی جو غالبا نتاشا سے کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔
یار نتاشا۔۔۔۔ تم جانتی ہو یہ چھوٹے موٹے زخم مجھے اس تکلیف کا احساس ہی نہیں ہونے دیتے جس کو میں برسوں سے جھیل رہی ہوں۔۔۔۔
رحاب کی آنکھوں میں موجود نمی زیام کو دور سے ہی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ زیام نہیں جانتا تھا کہ وہ کیوں رحاب کو سن رہا ہے لیکن اسے کچھ پل کے لئے واقعی اس کا درد اپنا درد محسوس ہو رہا تھا۔۔۔ کل والے واقعے کو بھلائے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور رحاب سے دو قدم فاصلے پر رک کر نرم لہجے میں بولا۔۔۔۔۔۔
اللہ کبھی بھی آپ کو آپ کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا۔۔۔ اور اگر آزمائش کا وقت زیادہ ہو جائے تو سمجھ لیں کہ خدا اپنے بندے کو ہر وقت اپنے سامنے دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔
رحاب نے پہلے تو ناسمجھی سے اسے دیکھا اور پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے مقابل کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
مسٹر ایکس۔۔وائے۔۔۔۔ یا جو بھی نام ہے تمہارا۔۔۔۔ میں نے تم سے کوئی مشورہ نہیں مانگا اس لئے براہ مہربانی اپنی سو کالڈ فلاسفی اپنے پاس رکھو ۔ تم جیسے ہی لڑکے ہوتے ہیں تو جو لڑکی دیکھی نہیں کہ آ گئے ان کو پٹانے۔۔ اور ویسے بھی اگر اتنا ہی شوق ہو رہا ہے لڑکی پٹانے کا تو اپنے لیول کی ڈھونڈو کیونکہ تمہاری ان اوچھی حرکتوں سے رحاب حسن واقعی امپریس نہیں ہونے والی۔۔۔۔۔۔
رحاب نے زیام کو حقارت سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ڈونٹ کراس یور لمنٹ مس رحاب حسن۔۔۔۔۔۔ ادر وائز آئی ایم ناٹ رسپونسیبل فار یور لاس ۔۔۔۔
عرزم جو کلاس میں ابھی داخل ہوا تھا ۔۔رحاب کی بات سن کر بمشکل خود کو کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
زیام نے مڑ کر عرزم کو دیکھا اور اپنا سر نفی میں ہلایا۔۔۔۔۔
ہو دا ہیل آر یو۔۔۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے اس لہجے میں بات کرنے کی ۔۔۔۔
رحاب نے تیز آواز میں بدتمیزی سے پوچھا۔۔۔۔۔
شکر کرو ابھی تک صرف بات کر رہا ہوں۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔۔
چھوڑ نا یار۔۔۔ چل یہاں سے۔۔۔۔
زیام سب کلاس والوں کو وہاں اکھٹے ہوتے دیکھ کر جلدی سے آگے بڑھا اور عرزم کو بازو سے پکڑ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔
عرزم نے اسے گھورا اور اپنا بازو چھڑوا کر بولا۔۔۔۔
جسٹ سٹے آئوٹ آف مائے برادر ۔۔۔۔
یہ بول کر وہ وہاں سے چلا گیا جبکہ زیام جلدی سے اس کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔۔ رحاب نے ایک نظر سب کلاس فیلوز کو دیکھا اور شرمندگی سے سر جھکا گئی لیکن جلد ہی اس کی شرمندگی ختم ہو کر غصے میں بدل گئی تھی۔۔۔
یو ول ویٹ فار مائے ریوینج مسٹر
رحاب نے دل میں سوچا اور کلاس سے واک آئوٹ کر گئی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔