مہندی کا فنکشن اپنی پوری آب و تاب سے لان میں جاری تھا۔۔۔ حاشر اور شمائل کو اکھٹا بٹھا کر انکی مہندی کی رسم ادا کی جا رہی تھی۔۔۔ رحاب کو سب کچھ عرزم کے بغیر ادھورا سا لگ رہا تھا وہ کارنر میں لگے ایک ٹیبل پر جا کر بیٹھ گئی جب اس کا دھیان زیام کی طرف گیا ۔۔۔ اس نے زیام کو کہیں نہیں دیکھا تھا۔۔۔ وہ اٹھی اور انیکسی کی طرف چلہ گئی کیونکہ اس انیکسی کے ایک کمرے کی لائٹ آن نظر آ رہی تھی اور اس کمرے کی کھڑکی کھلی تھی جہاں سے کوئی لان میں موجود لوگوں کو دیکھ رہا تھا ۔۔ دور سے رحاب کو صرف اس انسان کا سایہ نظر آیا لیکن جیسے ہی اس کی نظر زیام پر پڑی جو کھڑکی میں کھڑا نم آنکھوں سے مسکرا رہا تھا۔۔۔ رحاب نے انیکسی کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔ تو زیام کو اپنا وہم لگا ۔۔۔ لیکن جب دوبارہ دستک ہوئی تو زیام مڑا اور کمرے سے باہر نکل کر دروازہ کھولا لیکن جیسے ہی اس کی نظر رحاب پر پڑی اس کی پیشانی پر لاتعداد شکنیں نمودار ہوئیں ۔۔۔۔
تم ۔۔یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟؟
رحاب اس کو جواب دئیے بغیر اسے سائیڈ پر کر کے اندر آگئی۔۔۔ جبکہ زیام لب بھینچ کر رہ گیا ۔۔۔۔
تم گھر آئے مہمانوں سے یہ پوچھتے ہو کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں؟؟؟
رحاب معصومیت طاری کرتے ہوئے بولی جبکہ زیام کو اس کی معصومیت زہر لگ رہی تھی۔۔۔
تم میری نہیں ۔۔ اس علویز کی مہمان ہو۔۔۔ تو برائے مہربانی یہاں سے چلی جائو کیونکہ میں تم جیسی گھٹیا لڑکی کی وجہ سے یہاں پر بھی بدنام نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔
زیام کے الفاظ سے زیادہ رحاب کو اس کے لہجے نے ہرٹ کیا تھا۔۔۔ وہ بے ساختہ لب بھینچ گئی تھی۔۔۔
ایم سوری فار دیٹ ۔۔۔ لیکن میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا سب ؟؟ مجھے ایسا کرنے کے لئے مجبور کیا گیا تھا۔۔۔
رحاب نا چاہتے ہوئے بھی سختی سے بولی تھی ۔۔۔۔
اوو ۔۔۔ پلیز مس رحاب حسن۔۔ تم جیسی لڑکی مجبور کبھی نہیں ہوسکتی۔۔۔ اور بالفرض اگر ایسا ہے بھی تو پھر بھی تمہاری کوئی وضاحت مجھے میری اذیت کم نہیں کر سکتی۔۔۔۔
زیام نے اسے گھور کر کہا۔۔۔
اگر میں کہوں کہ میں نے عرزم کی وجہ سے ایسا کیا تھا تو۔۔۔۔
رحاب جاننا چاہتی تھی کہ وہ عرزم کے معاملے کتنا مخلص ہے اس لئے اس نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔۔۔۔
عرزم کی وجہ سے کیوں؟؟؟
زیام نے سپاٹ چہرے سے پوچھا۔۔۔
محبت کرتی ہوں اس سے لیکن اس انسان کو تمہارے سوا کوئی نظر ہی نہیں آتا تھا اس لئے میں نے تمہیں اس سے دور کرنے کی کوشش کی ۔۔ جس میں مجھے لگتا تھا کامیاب بھی رہی لیکن اگلے دن اسے پھر تمہارے ساتھ دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ وہ کم از کم تمہارے معاملے میں کافی ڈھیٹ ہے۔۔۔۔
زیام تو محبت نام کے لفظ پر حیران کم اور شاک ذیادہ تھا۔۔۔
تم اس سے محبت کرتی ہو؟؟؟
جواب میں رحاب اسے دیکھ کر مسکرائی اور اپنا سر اثبات میں ہلا دیا کیونکہ اس کا تیر نشانے پر لگا تھا ۔۔۔ زیام کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔ سفید رنگ میں سرخی نمایاں ہونے لگی تھی۔۔۔ بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے وہ رحاب سے گویا ہوا۔۔۔
تم اس سے محبت نہیں کرتی ۔۔۔ تمہیں تو محبت کے معنی تک نہیں معلوم۔۔۔۔ محبت۔۔۔۔ جانتی ہو اس کا تو میم ہی مار دیتا ہے آپکی انا۔۔ ضد۔۔ غرور کو۔۔۔ اور جب یہ سب ختم ہو جاتا ہے تو عشق کے عین کا آغاز ہو جاتا ہے ۔۔۔ تم اس سے لفظی محبت کرتی ہو جبکہ زیام علوی کے لئے وہ عشق کی انتہا ہے۔۔۔۔۔
جواب میں رحاب کے پاس واقعی کچھ نہیں تھا کہنے کو۔۔۔۔
محبت کا اظہار کرنا آسان ہوتا ہے لیکن عمل بہت مشکل۔۔۔ کاش تم نے بھی اس سے عملا محبت کی ہوتی تو آج یوں میرے سامنے لاجواب نہ ہوتی۔۔۔۔۔
رحاب سرجھکا کر مسکرائی تھی۔۔۔ وہ واقعی عرزم کا وجود کسی کے ساتھ شئیر نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
ٹھیک کہا تم نے۔۔۔۔ میری محبت لفظی ہے عملی نہیں ۔۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی ایسا ہے تو اس نے مجھے اپنی زندگی میں شامل کیوں کیا ہے۔۔۔؟؟؟ کیوں مجھ سے نکاح کر کے بیوی کا درجہ دیا؟؟
رحاب کے الفاظ پر زیام نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔۔
تم جھوٹ بول رہی ہو۔۔۔ عرزی۔۔۔ ایسا کچھ نہیں کر سکتا۔۔ وہ مجھے بتائے بغیر کچھ نہیں کرے گا۔۔۔ اور نہ کبھی جھوٹ بولے گا۔۔۔ سمجھی تم۔۔ اب نکلو یہاں سے۔۔۔
زیام نے غصے سے رحاب کو دیکھ کر دروازے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
مجھے حیرت ہوتی ہے تم پر ۔۔۔ تم کیسے دوست ہو ؟؟؟ جہاں اعتبار کی ضرورت ہوتی ہے وہاں تم دامن چھڑا جاتے ہو اور جہاں اسے تمہارا ساتھ چاہیے ہوتا ہے تم اسے دنیا کے سامنے ذلیل کر دیتے ہو۔۔۔
رحاب سنجیدگی سے بولی۔۔۔ جبکہ زیام رخ موڑ گیا تھا۔۔۔
تم جانتے ہو وہ انسان کیا کچھ کر رہا ہے تمہارے لئے جسے تم دنیا کے سامنے بے اعتباری سونپ چکے ہو ؟؟؟ میں بتاتی ہوں۔۔۔ اپنے باپ سے پیسے لے کر دو مہینے پہلے ایک بلڈنگ کو خرید کر وہاں تم جیسے لوگوں کے لئے این جی او کھول چکا ہے جسکا نام بھی اس نے تمہارے نام پر رکھا۔۔۔ زیام فاؤنڈیشن ۔۔ اس نے یہ بات سب سے چھپائی ہوئی ہے کیونکہ وہ تمہیں اپنی برتھ ڈے والے دن دکھانا چاہتا تھا۔۔۔ اور جہاں تک بات ہے یونیورسٹی میں لگے پوسٹرز کی تو وہ تمہاری گریٹ ماما نائلہ علوی نے لگوائے تھے۔۔۔ اس نے نا صرف پوسٹر لگانے والوں کو سزا دی تھی بلکہ یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف کیس درج کیا ہے؟؟ جس کا گواہ تمہارا خود کا باپ ہے۔۔۔
رحاب غصے سے بول رہی تھی جبکہ زیام کی آنکھوں میں بی یقینی اور ناسمجھی واضح تھی ۔۔۔
یہی جاننا چاہتے ہو نا کہ مجھے کیسے پتہ سب کچھ؟؟ محبت کرتی ہوں اس سے آج سے نہیں پچھلے پانچ سالوں سے۔۔۔ اس کے ایک ایک لمحے کی خبر رکھتی ہوں میں۔۔۔ لیکن تم جانتے ہو وہ مجھ سے محبت تو کرتا ہے لیکن تمہاری جگہ کسی کو نہیں دیتا۔۔۔ مجھے بھی نہیں ۔۔۔ خیر میرے لئے یہی کافی ہے کہ وہ مجھے اپنی زندگی کا حصہ بنا چکا ہے۔۔۔۔ چلتی ہوں کل تیار رہنا
یونیورسٹی کے پاس والے ہوٹل میں اس نے بلایا ہے ۔۔۔ وہی جگہ ہے جہاں تم جیسے اور لوگ بھی ہیں ۔۔۔
رحاب اسے ایک نظر دیکھ کر باہر نکل گئی جبکہ وہ نم آنکھوں سے مسکرایا تھا۔۔۔۔
پاگل ہے یہ لڑکی ۔۔۔ اس کی کل نہیں آج برتھ ڈے ہے کیونکہ بارہ بج کر ایک منٹ ہو چکا ہے۔۔۔ چلو زیمی جلدی سے تیار ہو جائو ۔۔۔ کیونکہ وہ گدھا باہر گاڑی میں ضرور ویٹ کر رہا ہوگا۔۔۔
زیام یہ بول کر جلدی سے کمرے کی طرف گیا۔۔ اور کپڑے نکال کر واش روم کی طرف چلا گیا۔۔۔۔
تیار ہو کر وہ انیکسی سے نکلا اور بنا کی کسی طرف دیکھے وہ گھر سے باہر نکل گیا۔۔۔ لیکن جیسے ہی اس کی نظر خالی روڈ پر پڑی اس کی ساری خوشی ہوا ہو گئی ۔۔۔
وہ مایوس ہو کر واپس جانے کے لئے پلٹا جب ایک گاڑی اچانک آ کر رکی اور ہارن دینے لگی۔۔۔ زیام نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے سنجیدہ سے عرزم کو دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
عرزم نے اس کی طرف دیکھے بغیر گاڑی دوبار سٹارٹ کر دی۔۔۔ ابھی دس منٹ ہی گزرے تھے جب زیام نے اسے ڈرتے ڈرتے وش کیا۔۔۔۔
ہیپی برتھ ڈے۔۔۔
جواب میں عرزم نے ایک کاٹ دار نظر اس پر ڈالی اور دوبارہ ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہوگیا۔۔۔ زیام نے مسکرا کر اس کے ناراض چہرے کو دیکھا تھا۔۔۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟؟
جہنم میں۔۔۔۔
عرزم نے گاڑی کی سپیڈ تیز کرتے ہوئے غصے سے کہا۔۔۔
اوو بھائی گاڑی روک مجھے نہیں جانا تیرے ساتھ جہنم میں۔۔ میں تو جنت میں جائوں گا۔۔
زیام مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تو عرزم نے اسے گھورا اور گاڑی کو بریک لگا دی۔۔۔۔
وہ ایک نظر زیام کو دیکھ کر گاڑی سے اتر گیا۔۔۔ روڈ پر پیدل چلنے لگا۔۔۔ زیام بھی جلدی سے اتر کر اس کے پیچھے بھاگا ۔۔۔۔
ابے رک ۔۔۔ مجھے اس سنسان روڈ پر چھوڑ کر تو کہاں جا رہا ہے۔۔۔
زیام علوی دفعہ ہو جائو یہاں سے ۔۔۔ میں منہ توڑ دوں گا تمہارا ۔۔ اگر اب میرا پیچھا کیا تو۔۔۔
عرزم انگلی کے اشارے سے اسے وارن کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا جب زیام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے مقابل کیا اور پھر اس کے گلے لگ گیا۔۔۔۔
تم جانتے ہو میں ان کو سب کی نظروں میں نہیں گرا سکتا تھا ۔۔۔ اس دن اگر ان کا ساتھ نہیں دیتا تو شاید خود سے نظریں نہ ملا پاتا۔۔۔ ایک ماں کو غلط ثابت نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ میں جانتا ہوں پچھلے دو ہفتوں سے تم سے بات نہیں کی اس کا تمہیں غصہ ہے لیکن یار تمہارے پاگل پن کو کم کرنے کا یہی طریقہ مجھے سمجھ آیا تھا۔۔۔
زیام اس کے گلے لگ کر معصومیت سے بول رہا تھا جبکہ عرزم نے مسکرا کر اسے خود سے الگ کیا ۔۔
تم جانتے ہو ہماری دوستی کی خاصیت کیا ہے ؟؟ ایک دوسرے سے خود سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔۔ مجھے غصہ آیا تھا تمہاری ماں پر۔۔۔ اور تم جانتے تھے میں سزا دئیے بغیر پیچھے نہیں ہٹتا ۔۔۔ اس لئے تم نے اس دن میری بجائے ان کا ساتھ دیا ۔۔۔ مجھے دکھ ہوا تھا۔۔۔ تکلیف حد سے سوا تھی ۔۔۔ اور اوپر سے تمہاری ناراضگی مجھے درد کی نئی تعریف سے آشنا کر رہی تھی ۔۔۔ اگلی دفعہ اتنی بڑی سزا مت دینا زیمی۔۔۔ یار سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔
اچھا ۔۔ یہ سب باتیں چھوڑو اور یہ بتائو یہ مس رحاب کا کیا قصہ ہے؟؟؟
زیام نے سنجیدگی سے پوچھا تو عرزم سر جھکا کر مسکرا دیا۔۔۔
اوو مائے گاڈ ۔۔۔ ڈونٹ ٹیل می کہ تم شرما رہے ہو۔۔۔۔
زیام نے اسے تنگ کیا۔۔۔
جواب میں عرزم نے اسے گھورا اور پھر آہستہ سے چلتے ہوئے اسے الف سے لے کر یہ تک ساری بات بتا دی۔۔۔
تم اس کے معاملے میں سنجیدہ ہو؟؟
زیام کے سوال پر عرزم نے چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔
کیا مطلب ہے تمہارا۔؟؟؟ سنجیدہ ہوں اس لئے تو وہ میرے نکاح میں ہے۔۔۔
اسے کبھی چھوڑنا مت عرزی۔۔۔ وہ بھلے ہی منہ پھٹ ہے لیکن دل کی صاف ہے۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔
جانتا ہوں ۔۔۔ اس لئے تو صبح ہی ماما اور پاپا سے بات کروں گا اور اسے آفیشلی اپنے نام کروائوں گا۔۔۔
عرزم کی آنکھوں میں رحاب کے لئے محبت تھی۔۔۔ زیام مطمئن سا مسکرا دیا کیونکہ وہ جانتا تھا اس کے لئے وہ صرف جنون کا جذبہ رکھتا تھا۔۔۔
زیمی۔۔۔ ہاں یاد آیا۔۔۔ تمہارے لئے ہارٹ ڈونر مل گیا ہے۔۔۔ اور انشاءاللہ اب اسی مہینے کے آخر میں تمہاری سرجری ہوگی۔۔۔
عرزم کی بات پر زیام نے اسے ناسمجھی سے دیکھا تھا۔۔۔
انکل ناصر نے بتایا تھا تمہارے دو والو بند ہو چکے ہیں اور تیسرا بھی ذیادہ سے ذیادہ ڈیڑھ مہینے تک بند ہو جائے گا اور تمہارے معاملے میں کوئی رسک نہیں یار ۔۔۔
تم میرے وجود کو آسمان پر بٹھا چکے ہو جبکہ یہ فرش پر رہنے کے قابل بھی نہیں ۔۔۔
اب ذیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ بتا کہاں ہے میرا گفٹ؟؟؟
عرزم نے اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
گھر رہ گیا ہے۔۔۔ جلدی جلدی میں بھول گیا۔۔۔ صبح لا دوں گا۔۔۔
زیام مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔۔۔
کنجوس آدمی جھوٹ تو نہیں بول رہے۔۔۔۔
عرزم مشکوک ہوا۔۔۔
نہیں بول رہا یار۔۔۔
کھا میری قسم تو ہر بار کی طرح مجھے اس بار بھی ٹرخا نہیں رہا ۔۔۔
میں کوئی قسم نہیں کھا رہا۔۔۔
زیام نے سنجیدگی سے انکار کیا۔۔۔
کیوں ڈرتے ہو کہیں تمہاری جھوٹی قسم کھانے سے میں مر ور نہ جائوں۔۔۔
فضول بولتے ہو تم۔۔۔
زیام نے اسے گھور کر کہا۔۔
آئی نو۔۔۔۔
عرزم مسکرایا تھا۔۔۔
چل گھر چلتے ہیں۔۔ کافی لیٹ ہوگیا ہے۔۔۔
زیام نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تو عرزم مسکراتے ہوئے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ گاڑی میں بیٹھتا زیام کی آواز سنائی دی۔۔۔
زیام فاؤنڈیشن کا مجھ سے کیوں چھپایا؟؟؟
کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا تو مجھے مومن سمجھنا شروع کر دو۔۔۔
یہ بول کر عرزم گاڑی میں بیٹھ گیا جبکہ زیام نے اسے گھور کر دیکھا۔۔۔
میں تمہیں مومن کبھی نہیں سمجھتا ۔۔۔
زیام کی بات پر عرزم مسکرایا تھا ۔۔۔
ایک حیوان کبھی مومن نہیں ہوسکتا کیونکہ حیوان کبھی بدلتے نہیں ۔۔۔ اب ایسے گھور کر مت دیکھ میں ڈر جائوں گا۔۔۔۔
عرزم کی بات پر زیام نے سر جھٹکا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔۔
اسی طرح وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے گھر پہنچ گئے اور عرزم زیام کو چھوڑ کر اپنے گھر کی طرف چلا گیا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح وہ ناشتے کی ٹیبل پر آیا تو فائزہ اور حیدر حسن نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔۔۔
اسے حیرت ہوئی۔۔۔۔ اس لئے جان بوجھ کر اونچی آواز میں بولا۔۔۔
گڈ مارننگ۔۔۔ ماما پاپا۔۔۔
لیکن جواب ندارد ۔۔۔۔
آپ دونوں مجھ سے ناراض ہیں؟؟؟
عرزم نے دونوں کو دیکھ کر پوچھا۔۔۔
لیکن پھر بھی کوئی جواب نہیں ملا بلکہ فائزہ بیگم حیدر حسن کے ساتھ باتوں میں مشغول ہو گئی تھیں۔۔۔
ماما پاپا آپ اپنے اکلوتے بیٹے کو اگنور کر رہے ہیں؟؟؟
عرزم اب کی بار کچھ صدمے اور بے یقینی کی کیفیت سے بولا ۔۔۔۔۔
دونوں نے اسے دیکھا بلکہ حیدر حسن نے تو باقاعدہ اسے گھورا تھا۔۔۔
کیا تم نے اپنے باپ سے کچھ کہا؟؟؟
پاپا ۔۔۔ ماما کیا ہوگیا ہے آپ دونوں کو ؟؟ کیوں بچوں کی طرح ری ایکٹ کر رہے ہیں؟؟؟
عرزم جھنجلا کر بولا۔۔۔
کیونکہ ہمارا دماغ خراب ہے۔۔۔
حیدر حسن نے سپاٹ چہرے سے جواب دیا۔۔۔
ماما۔۔۔ آپ بتائیں کیا ہوا ہے؟؟؟
عرزم نے نرمی سے فائزہ بیگم سے پوچھا۔۔۔
عرزم مجھے یہ بتائو کہ اگر کوئی بیٹا اپنے ماں باپ کو بغیر بتائے شادی کر لے تو ایسے ماں باپ کو کیا کرنا چاہیے؟؟؟
عرزم کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی تھی لیکن وہ بظاہر خود کا نارمل رکھتے ہوئے بولا۔۔۔
ماما ایسے بیٹے کو تو گھر سے نکال دینا چاہیے۔۔۔
تو پھر بیٹا جی اپنا سامان پیک کریں اور نکلیں میرے گھر سے۔۔۔
حیدر حسن نے عرزم کی طرف دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔۔۔
لیکن۔۔۔پاپا میں نے کیا کیا ہے؟؟؟
تمہارا کیا خیال تھا کہ جب تمہارے بچے مجھے دادا ۔۔۔ دادا پکارتے تب مجھے معلوم ہوتا کہ تم نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے؟؟؟
عرزم آہستہ سے اپنی جگہ سے اٹھا کیونکہ حیدر صاحب غصے سے اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔
پاپا۔۔۔ دیکھیں میری بات سنیں۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔۔
عرزم پیچھے کی طرف قدم اٹھاتا تھوک نگل کر بولا۔۔۔۔
تو کیا زیام جھوٹ بول رہا ہے؟؟؟ اور یہ بھی کہہ دو تم کسی رحاب کو نہیں جانتے۔۔۔۔
حیدر حسن نے دانت پیس کر پوچھا۔۔۔
کمینے انسان ایسا گفٹ کون دیتا ہے سالگرہ کا؟؟؟
عرزم بڑبڑایا۔۔۔اور پیچھے کیچن کی دیوار کے ساتھ لگ گیا۔۔۔
پاپا میری بات سنیں ۔۔۔ وہ سب مجبوری میں ہوا تھا ۔۔۔
عرزم جلدی سے بولا تو حیدر حسن کے قدم وہیں رک گئے جبکہ فائزہ بیگم نے عرزم کو گھورا تھا کیونکہ زیام انہیں پہلے ہی سب کچھ بتا چکا تھا۔۔۔۔
ٹھیک ہے مجبوری میں ہوا تھا تو آج ہی اس بچی کو اپنے نکاح سے آزاد کرو۔۔۔ اور اس کے ماں باپ سے بھی معافی مانگو۔۔۔
حیدر حسن کی بات ہر عرزم نے فائزہ بیگم کو دیکھا تھا جو حیدر حسن کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔۔۔
پاپا۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔۔ نکاح کوئی گڈے گڑیا کا کھیل تھوڑی ہے۔۔۔ اور ویسے بھی میں اس سے محبت کرتا ہوں ۔۔ کسی قیمت پر اس کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
عرزم انہیں دیکھ کر بولا تو یکدم فضا میں حیدر اور فائزہ بیگم کے قہقے گونجے تھے۔۔۔ عرزم ہونقوں کی طرح انہیں دیکھ رہا تھا جو مسلسل ہنس رہے تھے۔۔۔ چند سیکنڈ میں وہ سارا معاملہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے باپ سے اس کے منہ سے سچ اگلوانے کے لئے یہ سب کیا ہے۔۔۔
ناٹ فئیر ماما پاپا۔۔۔
عرزم یہ بول کر وہاں سے لائونج میں چلا گیا جبکہ وہ دونوں مسکراتے ہوئے اس کے پاس دائیں بائیں صوفے پر بیٹھ گئے تھے۔۔۔
خوش رکھو گے اسے؟؟
فائزہ بیگم نے سنجیدگی سے پوچھا ۔۔۔
جب تک زندگی ہے ماما تب تک اس کے لبوں پر مسکراہٹ ختم نہیں ہوگی ۔۔ ہاں مرنے کا بعد۔۔۔۔
عرزم ۔۔۔
دونوں نے بیک وقت اسے ٹوکا تھا۔۔۔
سوری سوری۔۔۔ غلطی سے نکل گیا۔۔۔
عرزم دونوں کے گرد اپنے بازو رکھتے ہوئے نرمی سے بولا۔۔۔
تمہیں اپنے غصے کو کنٹرول کرنا ہوگا عرزم کیونکہ تمہاری جلد بازی تم سے بہت غلط فیصلے کروا دیتی ہے۔۔۔۔
حیدر حسن کے ایک جملے میں چھپی نصیحت کو اچھی طرح سے سمجھ گیا تھا وہ جانتا تھا اس کے باپ نے یہ نصیحت رحاب کے ساتھ نکاح کرنے کی وجہ سے کی تھی۔۔۔ اس نے مسکرا کر اپنا سر اثبات میں ہلایا۔۔۔۔
اووو مجھے یاد ہی نہیں رہا۔۔۔
ہیپی برتھ ڈے مائے سن۔۔۔ اللہ تمہیں دنیا جہاں کی ساری خوشیاں دے آمین۔۔۔
حیدر حسن نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا تھا جبکہ فائزہ بیگم نے مصنوعی خفگی سے دونوں کو دیکھا تھا۔۔۔
پہلے میں نے اپنے بیٹے کو وش کرنا تھا حیدر۔۔۔
چلیں آپ اب کر لیں۔۔۔ اس کی کونسی دس مائیں ہیں جس کی وجہ سے آپ ناراض ہو رہی ہیں۔۔۔
حیدر حسن نے مصنوعی تاسف سے کہا تو فائزہ بیگم نے ایک ترچھی نگاہ ان پر ڈالی تھی ۔۔۔
وہ میں جہانگیر علوی سے حسن نیازی کا نمبر لیتا ہوں پھر ان سے رابطہ کر کے آج شام ہی چلتے ہیں اپنے بیٹے کی خوشی کو ان سے مانگنے۔۔۔۔
حیدر یہ بول کر اٹھ گئے جبکہ فائزہ بیگم نے مسکرا کر عرزم کی پیشانی اور سر پر بوسہ دیا تھا۔۔۔
اللہ تمہیں لمبی اور پرسکون زندگی دے آمین۔۔۔
جواب میں عرزم نے بھی ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور انکو اپنے ساتھ لگا لیا ۔۔۔
یہ خوشیاں کتنی دیر کے لئے تھی یہ تو کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔۔ شاید اس بار وقت ان کی خوشیوں کے دن لمبے کرنے والا تھا یا تقدیر ایک بڑا امتحان لے کر انہیں غموں سے آشنا کروانے والی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔