عرزم نے شاویز کے آفس کا دروازہ ناک کیا ۔۔۔ اور اندر سے اجازت ملنے پر آفس میں داخل ہوگیا۔۔۔ شاویز جو لیپ ٹاپ پر شاید کچھ کام رہا تھا نے چونک کر عرزم کو دیکھا۔۔۔
یہاں کیوں آئے ہو؟؟؟
شاویز نے سنجیدگی سے عرزم کے چہرے کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
غالبا آج آپ ٹیسٹ لینے والے ہیں شاویز سر۔۔۔ اور مجھے سی آر کا میسج آیا تھا کہ آپ نے خصوصی پیغام میرے لئے بھیجوایا ہے۔۔۔ اس لئے میں نے سوچا خصوصی طور پر آپکو ملاقات کا شرف بخشا جائے۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے بولا اور بنا شاویز کی اجازت کے اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
مجھے کوئی شوق نہیں ہے تم سے ملنے کا ۔۔۔ ایز آ ٹیچر میں نے بس میسج کروایا تھا۔۔۔۔
شاویز کے جواب پر عرزم کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی ۔۔۔
آپ میں اور زیمی میں ایک چیز کامن ہے اور وہ ہے بری ایکٹنگ ۔
شاویز نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا ۔۔۔
زیمی بالکل ٹھیک ہے اور آج دوپہر تک ڈسچارج ہو جائے گا۔۔۔۔
عرزم نے شاویز کی طرف دیکھ کر جواب دیا تو شاویز نظریں چرا گیا کیونکہ اس نے واقعی اسے اسی لیے بلایا تھا تاکہ زیام کے بارے میں معلوم کر سکے۔۔۔۔
مجھے کوئی غرض نہیں ہے کہ زیام کیسا ہے یا نہیں ۔۔۔ سمجھے تم۔۔۔ اب جائو کلاس میں میرا وقت برباد مت کرو۔۔۔۔۔
شاویز چاہتے ہوئے بھی اپنا لہجہ سخت نہیں کر سکا۔۔۔۔
عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر آہستہ سے اٹھ کر اس کے بالکل مقابل آیا۔۔۔۔
مجھے معلوم ہے شاویز بھائی کی آپ اوپر سے جتنے بھی سخت ہوں لیکن زیام سے بہت محبت کرتے ہیں۔۔۔ اس لئے تو آج یہاں بیٹھے ہیں۔۔۔ ورنہ آپ اچھے سے جانتے تھے کہ میں زیمی کو ہرٹ کرنے والے کو معمولی سی سزا ہرگز نہیں دیتا ۔۔۔
خیر چلتا ہوں۔۔۔۔ مجھے ہاسپٹل جانا ہے زیمی کے پاس ۔۔۔ اور آپ اپنا ٹیسٹ کا ڈرامہ ختم کر سکتے ہیں ۔۔۔
عرزم یہ بول کر ابھی دروازے کے پاس پہنچا تھا جب شاویز نے اسے آواز دی۔۔۔۔
عرزم ۔۔۔۔
عرزم نے مڑ کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔
کیوں کرتے ہو اس سے بے غرض محبت ۔۔۔ حالانکہ کل اس کی وجہ سے تمہاری ریپوٹیشن بھی خراب ہوئی تھی۔۔۔۔
شاویز کے سوال پر عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا ۔۔۔ اور سنجیدگی سے بولا۔۔۔۔
محبت میں بھی اگر غرض ہو تو وہ محبت تو نہیں ہوتی شاویز بھائی بس مطلب پرستی ہوتی ہے اور رہی اس کی وجہ سے میری عزت خراب ہونے کی بات تو مجھے فرق نہیں پڑتا دنیا کیا سوچتی ہے یا کیا کہتی ہے۔۔۔۔ لیکن میرا یقین مانیے میں زیام کو عزت اور محبت دونوں دلائوں گا۔۔ آپ کی طرح خاموش نہیں رہوں گا ۔۔۔۔۔ پر اس سے پہلے اس کے مجرموں کو سب کے سامنے سزا دوں گا۔۔۔۔ آپ کو آپکے سوال کا جواب اگر مل گیا ہو تو کیا میں جا سکتا ہوں؟؟؟
عرزم کے جواب پر شاویز خاموش ہوگیا تھا اور اپنا سر اثبات میں ہلا کر اسے اجازت دی تھی ۔۔۔ عرزم لمحے کی تاخیر کئے بنا وہاں سے چلا گیا تھا جبکہ شاویز کرسی پر بیٹھ کر اپنے رویے پر غور کرنے لگا جو بچپن سے لے کر اب تک اس نے زیام کے ساتھ اپنایا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
زیام کی رپورٹس آگئی تھیں ۔۔ ڈاکٹر نے چوکیدار کو اپنے کیبن میں بلایا تو عرزم بھی اس کے ساتھ اندر چلا گیا ۔۔۔ دونوں ڈاکٹر کے سامنے بیٹھے تھے جب ڈاکٹر نے بات کا آغاز کیا۔۔۔
آپ کو بچے کے بارے میں ان کے والدین کو بتا دینا چاہیے۔۔۔ کیونکہ اسے ناصرف محبت بلکہ بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔۔۔
ہوا کیا ہے ڈاکٹر؟؟؟
عرزم نے ڈاکٹر کی بات درمیان میں کاٹ کر کہا تو ڈاکٹر نے ایک نظر چوکیدار کو دیکھا جس کے ریکویسٹ کرنے پر عرزم کو اندر آنے کی اجازت دی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر نے ایک لمبی سانس خارج کی اور عرزم کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔۔
اس کے ہرٹ کے ایک والو بند ہو چکا ہے۔۔۔ فلحال تو میڈیسن اس کے لئے کافی ہوگی لیکن اس کنڈیشن میں ٹینشن ان کے لئے بالکل بھی اچھی نہیں ہے ۔۔۔ اس لئے آپ انہیں ان کے پیرنٹس۔۔۔۔۔
وہ مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا ڈاکٹر۔۔۔ اور اپنے پیرنٹس کے پاس تو بالکل نہیں ۔۔۔ جن لوگوں نے اسے سکول داخل کروانے کے بعد اس کی خبر نہ لی ہو میں ایسے لوگوں کو زیام کی زندگی کیسے سونپ دوں؟؟؟ وہ یہاں سے کہیں نہیں جائے گا ۔۔۔۔
عرزم ان کی بات دوبارہ کاٹ کر سنجیدگی سے بولا ۔۔۔۔ ڈاکٹر اور چوکیدار تو اسے ایک نظر دیکھ کر رہ گئے تھے۔۔۔۔
لیکن بیٹا اسے توجہ کی کافی ضرورت ہے۔۔۔
ڈاکٹر نے عرزم کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔
اس کے لئے میری توجہ کافی ہوگی۔۔۔ آپ پلیز میڈیسن لکھ دیں اور اس کی ڈائیٹ کا بھی بتا دیں ۔۔۔۔
عرزم ڈاکٹر سے بات کرتے ہوئے کوئی بچہ نہیں بلکہ ایک میچوں انسان لگ رہا تھا۔۔۔
ڈاکٹر اور چوکیدار کے کافی سمجھانے پر بھی جب وہ نہ مانا تو ڈاکٹر نے اسے میڈیسن لکھ کر دی اور کچھ ہدایات بھی کیں۔۔۔
عرزم ڈاکٹر کے کیبن سے نکل کر سیدھے زیام کے پاس وارڈ میں گیا۔۔۔
زیمی۔۔۔
زیام جو سو رہا تھا عرزم کی پکار پر آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا۔۔
تم مجھے چھوڑ کر نہیں جائو گے نہ عرزی۔۔۔۔۔
ششش۔۔۔ بالکل چپ۔۔۔ میں کیوں تمہیں چھوڑ کر جائوں گا۔۔۔ ہاں تب غصہ آگیا تھا تھوڑا اس لئے باہر چلا گیا اور تم نے اتنی سی بات کو دل پر لے لیا۔۔۔ اور بے ہوش ہو کر سیدھے ہسپتال پہنچ گئے۔۔۔ ذرا ھو میرا خیال ہو تمہیں ۔۔۔۔
عرزم اس کا دھیان بٹانے کے لئے نان سٹاپ بول رہا تھا اور جس میں کامیاب بھی رہا ۔۔۔ زیام نے مسکراتے ہوئے عرزم کو دیکھا۔۔۔
تم بہت اچھے ہو عرزم۔۔۔
میں اچھا نہیں ہوں زیمی بس تمہیں اچھا نظر آتا ہوں۔۔۔۔ خیر یہ باتیں چھوڑو اور یہ بتائو کہ وہ لڑکا کون تھا؟؟؟
وہ پاپا کے ایک دوست کا بیٹا تھا ایک دفعہ ہمارے گھر آیا تھا تب ہی ممی نے اسے میرے بارے میں سب بتایا تھا۔۔ اور اس نے مجھے کافی مارا تھا اور میرے ساتھ بدتمیزی سے بھی بات کی تھی ۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں ممی ہر کسی کے سامنے میری سچائی کو کھولنا شروع کر دیتی ہیں۔۔۔
زیام بولتے بولتے اداس ہوگیا تو عرزم نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔۔۔
نام کیا ہے اس لڑکے کا؟؟؟
باقر علی ۔۔۔ ہمارا سینئیر ہے۔۔۔
زیام کے بتانے پر عرزم نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا اور زیام سے باتوں میں مشغول ہوگیا۔۔۔۔
اگلے دن جب زیام ڈسچارج ہو کر ہاسٹل واپس آیا تو ہاسٹل کے حال میں بہت سے لڑکوں کو کھڑے دیکھا ۔۔۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ باقر کا آج صبح اس کی گاڑی کے بریک فیل ہونے کی وجہ سے اس کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے جس کے باعث وہ معذور ہوگیا ہے۔۔۔
زیام کو پہلے تو جھٹکا لگا تھا لیکن جب اس نے عرزم کی نارمل شکل دیکھی تھی زیام کی چھٹی حس نے کچھ غلط ہونے کا احساس دلایا۔۔۔ زیام وہاں سے سیدھے اپنے روم میں آیا ۔۔ عرزم بھی پیچھے پیچھے روم میں آیا۔۔۔
زیمی ۔۔۔ یہ تمہاری میڈیسن ہے جو تم نے لنچ کے بعد کھانی ہے۔۔۔ اور یہ والی۔۔۔۔
تم صبح سے کہاں تھے عرزی؟؟؟
زیام کے لہجے کا خوف عرزم کو واضح محسوس ہوا تھا۔۔۔
کام تھا ایک ۔۔۔
عرزم نظریں چراتے ہوئے بولا۔۔۔
کیسا کام؟؟؟
زیام نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔
جواب میں عرزم لب بھینچ گیا۔۔۔۔
عرزم تم باور سے ملنے گئے تھے کیا؟؟؟ اور اس کے ساتھ جو ہوا وہ حادثہ نہیں تھا نا؟؟؟
زیام تمہیں آ رام کرنا چاہیے۔۔۔ میں باہر جا رہا ہوں کچھ دیر کے لئے پھر تمہارے لئے کچھ کھانے کو لائوں گا۔۔۔
عرزم اس سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا اس لئے اس کے سامنے سے جانا ہی بہتر سمجھا۔۔۔لیکن زیام نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے سر پر رکھ کر نم آنکھوں سے بولا۔۔۔۔
عرزی۔۔۔ میری قسم کھائو کہ تم نے باقر کے ساتھ کچھ نہیں کیا ۔۔۔
عرزم کی گرین آنکھوں میں ایک دم سرخی چھائی تھی۔۔۔ اس نے غصے سے زیام کو دیکھا تھا۔۔۔۔ اور پھر اپنا ہاتھ اس کے سر سے ہٹا کر بولا۔۔۔۔
جو شخص تمہاری تکلیف کا باعث بنے گا عرزم حیدر اس شخص کا نام و نشان دنیا سے ختم کر دے گا۔۔۔ قسمت اچھے تھی کہ سالا بچ گیا ورنہ اپنے ہاتھوں سے میں اسے جان سے مار دیتا۔۔۔
دوسروں کو سزا سنانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیا کرو عرزم حیدر کیونکہ اگر غلطی اس کی تھی تو قصوروار تم بھی ہو ۔۔۔ تم نے بھی تو مجھ سے دور جا کر مجھے تکلیف دی۔۔۔ تو خود کو سزا دی کیا۔۔؟؟؟نہیں نا۔۔۔ جب خود کو سزا نہیں دی تو دوسروں کے جج بننا بھی چھوڑ دو۔۔۔
زیام جانتا تھا غصہ کرنے سے معاملہ مزید بگڑے گا اس لئے نارمل لہجے میں اس دیکھ کر بولا۔۔۔
تمہیں کس نے کہا کہ میں نے خود کو سزا نہیں دی۔۔۔۔؟؟؟
عرزم مسکراتے ہوئے اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھا تو زیام نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔۔
عرزم نے آہستہ سے اپنی شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھولے جہاں عین دل کے مقام پر زیام کا نام لکھا گیا تھا اور اس نام کو دیکھ کر زیام کی آنکھوں میں خوف واضح جھلکا تھا۔۔۔ کیونکہ ٹیٹو پر بنے زخم اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ یہ نام کل رات ہی لکھوایا گیا ہے۔۔۔۔۔۔
کیوں بنوایا یہ؟؟؟
خود کو سزا دی ہے ۔۔۔ اگر کم ہے تو جو تم سزا دو گے مجھے منظور ہوگی ۔۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے بولا اور اس کے سامنے سے اٹھ گیا کیونکہ وہ اسے خوفزدہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔
تم سائیکو ہو۔۔۔۔ اگر مشین اندر چلی جاتی تو جانتے ہو تمہاری جان بھی جا سکتی تھی ۔۔۔۔
زیام معصومیت سے بولا تو عرزم نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔۔۔۔
نہیں مرتا میں کم ازکم تب تک تو نہیں جب تک تمہاری طرف سے مطمئن نہ ہو جائوں ۔۔۔ خیر میڈیسن میں ناغہ نہیں ہونا چاہیے ڈاکٹر کے ہدایات پر لازمی عمل کرنا ہے کیونکہ میں تمہاری زندگی کے معاملے میں لاپرواہی برداشت نہیں کروں گا۔۔۔۔
ڈاکٹر نے ہاسپٹل میں ہی زیام کو اس کی کنڈیشن کے بارے میں بتا دیا تھا تاکہ وہ اپنے پیرنٹس کے پاس چلا جائے لیکن اس نے بھی عرزم کے موقف کو ترجیح دی تھی۔۔۔ ڈاکٹر نے تاسف سے دونوں ڈھیٹوں کو دیکھا تھا کیونکہ دونوں ہی ڈاکٹر کی بات نہیں مان رہے تھے۔۔۔۔۔۔
زیام کو عرزم کی حرکت بالکل پسند نہیں آئی تھی ۔۔۔ لیکن سمجھانے کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔۔۔ کیونکہ وہ اتنا تو جان گیا تھا کہ وہ پاگل نہیں بلکہ بہت ہی بڑا سائیکو ہے جو اس کے معاملے میں زیرو ٹالرینس رکھتا تھا۔۔۔۔ ۔۔
یااللہ اس بے عقل کو عقل اور ہدایت دے آمین۔۔۔
زیام نے دل میں دعا مانگی اور بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند گیا ۔۔۔ جبکہ زیام اسے دیکھ کر مسکرایا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
زیمی تو مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہا ؟؟؟
عرزم جو زیام سے ہاسپٹل سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا جنجھلا کر بولا۔۔۔۔ لیکن زیام کی سنجیدگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔۔۔ وہ ہنوز خاموشی سے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہا تھا۔۔۔ عرزم نے ایک دم بریک لگائی اور زیام کو دیکھا جس کی نظروں کا ارتکاز اب ہاتھوں کی لکیروں میں شفٹ ہوگیا تھا۔۔۔۔
زیمی ۔۔۔ پلیز یار بتا تو سہی کہ ناراض کیوں ہے؟؟؟
زیام نے ایک نظر عرزم کو دیکھا اور پھر طنزیہ انداز میں بولا۔۔۔
تمہیں پرواہ ہے میری ؟؟؟
ہاں بالکل ہے پرواہ ۔۔۔ اب بولو ناراض کیوں ہو؟؟؟؟
بچہ بننے کی کوشش بھی مت کرو کیونکہ اچھے سے جانتا ہوں اس لڑکے کی زبان تم نے ہی کاٹی ہے اور اسے بڑی طرح تشدد کا نشانہ بھی بنایا ہے۔۔۔۔
زیام کے لہجے میں ناراضگی نہیں بلکہ دکھ تھا جو عرزم کو بالکل اچھا نہیں لگا۔۔۔
تو تمہارا کیا خیال ہے کہ میں اسے معاف کر دیتا جس کی وجہ سے تم کل ہاسپٹل میں تھے۔۔۔۔
عرزم کا لہجہ نا چاہتے ہوئے بھی سخت ہوگیا تھا جبکہ زیام نے لب بھینچ کر اسے دیکھا تھا۔۔
ہر غلطی کی سزا نہیں ہوتی ۔۔۔ معاف کرنا سیکھو عرزم حیدر ۔۔۔
ٹھیک کہا تم نے غلطی کی سزا نہیں ہوتی گناہ کی ہوتی ہے تو تمہارے خیال سے یہ گناہ نہیں ہے کسی پر اتنا گھٹیا الزام لگانا۔۔۔۔
میں پھر بھی معاف کر دیتا۔۔۔ کیونکہ مجھے یقین ہے جب میں خاموش ہوتا ہوں تو خدا میرا معاملہ دیکھ لیتا ہے۔۔۔ اور جب وہ معاملہ دیکھتا ہے تو انسان کی پکڑ بہت سختی سے ہوتی ہے۔۔۔ اور مجھے تمہارے لئے ڈر لگنے لگا ہے کیونکہ تمہیں سزا دینے کا حق نہیں ہے۔۔۔۔ تم خدا کے سامنے دعا کر سکتے ہو۔۔۔ کوئی دل دکھائے تو معاملہ اللہ کے سپرد کر دو۔۔۔
زیام نے سنجیدگی سے کہا جبکہ عرزم اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔۔۔۔
اور اگر کوئی روح کو زخم دے تو اس کے لئے کیا کرنا چاہیے زیمی؟؟؟
عرزم حیدر اگر روح سے مراد میری ذات ہے تو میرا یقین مانو مجھے تکلیف صرف تب ہوتی ہے جب تم کسی انسان کو حیوانیت دکھاتے ہو۔۔۔ اس لئے دوسروں کو سزا دینے کی بجائے اپنی اصلاح کر لو ۔۔۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پچھتانے کا وقت بھی میسر نہ ہو۔۔۔۔
تم جانتے ہو تم پر اتنے گندے الزامات کس نے لگائے ہیں؟؟؟
عرزم طنزیہ انداز میں بولا تو زیام نے لب بھینچ لئے۔۔۔۔
مجھے نہیں جاننا۔۔۔۔
زیام نے سنجیدگی سے کہا اور رخ موڑ کر باہر کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ۔۔۔۔
عرزم نے بمشکل اپنا غصہ کنٹرول کیا اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔ اب گاڑی میں صرف خاموشی تھی ۔۔ اور یہ خاموشی دونوں کے درمیان زندگی میں پہلی بار آئی تھی۔۔۔۔
اس خوفناک خاموشی کو دونوں نے شدت سے محسوس کیا تھا ۔۔۔ اور دونوں کو یہ خاموشی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ لگ رہی تھی۔۔۔
عرزم نے اس کے گھر کے سامنے گاڑی روکی اور کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا جب زیام نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کر دیا اور چپ چاپ گاڑی سے اتر کر انیکسی کی طرف چلا گیا جبکہ عرزم نے غصے سے اسٹیئرنگ پر ہاتھ مارا تھا۔۔۔ پہلی دفعہ وہ ناراض لگ رہا تھا اور عرزم حیدر کو لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کے دل۔کو چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔۔
کیا واقعی یہ طوفان آنے سے پہلے کی خاموشی ثابت ہونے والی تھی یا قسمت اس بار دونوں کو بڑی آزمائش میں ڈالنے والی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔