عرزم ہاسٹل کے گارڈن میں تنہا ایک بینچ پر بیٹھا تھا۔۔۔ آنسو لگاتار اس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے جبکہ دماغ درد سے پھٹا جا رہا تھا اسے یہاں بیٹھے ہوئے کافی وقت ہوگیا تھا۔۔۔۔ ٹھنڈ بھی کافی بڑھ گئی تھی۔۔۔
تمہیں مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا چاہیے تھا؟؟؟ تم جانتے تھے کہ مجھے دھوکہ دینے والے لوگوں سے نفرت ہے ۔۔۔۔ کیوں کیا تم نے ایسا؟؟؟ زیمی کیوں ؟؟؟؟
عرزم کو دکھ اس بات کا نہیں تھا کہ وہ نارمل انسان نہیں ہے اسے دیکھ تھا تو اس بات کا زیام نے اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی سچائی نہیں بتائی ۔۔۔۔ کیا وہ اعتبار کے قابل نہیں تھا۔۔۔۔
زیمی۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے اتنا درد کس بات پر ہو رہا ہے؟؟؟ لیکن تم سے الگ ہونے کا خیال ہی میرے دماغ کو مفلوج کر رہا ہے۔۔۔ میں تم سے الگ نہیں رہ سکتا کیونکہ میں تم سے الگ رہنا ہی نہیں چاہتا۔۔۔۔
عرزم خود سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔
مجھے نہیں معلوم کہ تم نے مجھے کیوں سب نہیں بتایا لیکن میرا دل تم سے الگ ہونے کو تیار نہیں ہے۔۔۔
لیکن یہ معاشرہ ہماری دوستی کو ایکسیپٹ نہیں کرے گا۔۔۔ عجیب دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے زندگی نے ۔۔۔ راستے چاہے کیسے ہی ہوں منزل موت ہی ہے۔۔۔
یااللہ مجھے راستہ دکھا ۔۔۔
عرزم کا تقریبا ایک گھنٹہ ہوگیا تھا وہاں بیٹھے اور اس دوران اس نے شاید سوچ لیا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔ کافی سوچنے کے بعد وہ واپس اپنے روم کی طرف چل دیا ۔۔۔
وہ اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر گیا تھا۔۔۔
جیسے ہی اس نے روم کا دروازہ کھولا روم میں کوئی نہیں تھا۔۔۔ عرزم کو پریشانی ہوئی کیونکہ وہ اکیلا کبھی بھی رات کو کمرے سے باہر نہیں جاتا تھا۔۔۔ عرزم نے اسے دو تین آوازیں دیں لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔۔۔۔ عرزم نے ساتھ والے کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔۔۔ ایک لڑکا باہر نکلا جو آنکھوں کو ملتے ہوئے عرزم کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
شہروز بھائی۔۔۔ آپ نے زیمی کو کہیں دیکھا ہے؟؟؟
عرزم نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔
ہاں ابھی آدھے گھنٹے پہلے ہی وارڈن چوکیدار انکل کی مدد سے اسے ہاسپٹل لے کر گئے ہیں۔۔۔ شاید بے ہوش ہو گیا تھا۔۔۔۔
شہروز ان کا سینئیر تھا اور ویسے بھی عرزم کے ساتھ اس کی جان پہچان تھی۔۔۔ عرزم تو ہاسپٹل کا نام سنتے ہی گھبرا گیا تھا۔۔۔۔
شہروز بھائی کونسے ہاسپٹل لے کر گئے ہیں؟؟؟
یہ تو مجھے نہیں معلوم لیکن یہاں سے نزدیک تو سول ہاسپٹل ہی ہے۔۔۔ شاید وہاں لے کر گئے ہوں۔۔۔۔
شہروز کندھے اچکاتے ہوئے بولا۔۔۔ جبکہ عرزم الٹے قدموں واپس بھاگا تھا۔۔۔ ابھی وہ ہاسٹل گیٹ کے پاس ہی تھا جب دوسرے چوکیدار نے اسے روک لیا ۔۔۔۔
عرزم بیٹا کہاں جا رہے ہو؟؟؟
چوکیدار چونکہ حیدر حسن کو جانتا تھا اس لئے عرزم کو دیکھ کر پہچان گیا تھا۔۔۔۔
انکل پلیز ابھی میں کسی کو کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں میرا جانا بہت ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔
یہ بول کر عرزم گیٹ سے باہر نکلنے لگا جب چوکیدار نے اسے دوبارہ روک لیا۔۔۔۔
دیکھو بیٹا یہاں پر جتنے بھی لڑکے رہتے ہیں وہ ہمارے ذمے ہیں اگر ان کو کچھ ہوگیا تو ان کے والدین ہم سے سوال جواب کریں گے۔۔۔ اس لئے تم ابھی واپس چلے جائو۔۔۔ جہاں جانا ہوا صبح چلے جانا ۔۔۔۔
انکل آپ چاہتے ہیں کہ صبح تک میں اپنی زندگی کو ختم ہوتے دیکھوں۔۔۔ میں جا رہا ہوں کیونکہ زیمی کو میری ضرورت ہے۔۔۔
عرزم سنجیدگی سے بول کر بنا چوکیدار کی سنے وہاں سے نکل گیا ۔۔۔ جبکہ چوکیدار پیچھے اسے آوازیں ہی دیتا رہ گیا۔۔۔۔
عرزم ایک ٹیکسی کی مدد سے اس ہاسپٹل پہنچا تھا اور ریسیپشن پر پہنچ کر زیام کے متعلق پوچھنے لگا۔۔۔۔
آپی یہاں پر تھوڑی دیر پہلے ایک لڑکے کو لایا گیا ہے جو بے ہوش تھا آپ بتا سکتی ہیں اس وقت وہ کہاں ہے؟؟؟
ریسپشن پر ایک چھبیس سالہ لڑکی بیٹھی تھی اس نے ایک نظر عرزم کو دیکھا اور نرمی سے بولی۔۔۔
آپ کس پیشنٹ کی بات کر رہے ہیں؟؟؟
اس نے بلیو کلر کی شرٹ پہنی تھی اور بلیک کلر کی جینز ۔۔۔ اور۔۔۔
اچھا اچھا۔۔ وہ آئی سی یو میں ہیں؟؟؟ یہاں سے سیدھے جائیں اور پھر لیفٹ سائیڈ پر ٹرن لے لیں۔۔۔
نرس یاد آنے پر بولی۔۔۔ عرزم نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے جانے لگا جب اس کے سامنے لڑکی نے ایک فارم رکھا۔۔۔۔
یہ کیا ہے آپی؟؟؟؟
اس فارم میں آپ نے پیشنٹ کے متعلق ساری معلومات لکھنی ہیں ۔۔۔۔
پیشنٹ کے ساتھ جو آدمی تھا اس نے ہاف فارم فل کیا ہے ۔۔۔ باقی کا آپ کر دیں۔۔۔
وہ لڑکی نرمی سے بول رہی تھی جبکہ عرزم نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور پینسل پکڑ کر فارم فل۔کرنے لگا۔۔ جیسے ہی وہ سرپرست کا نام لکھنے لگا اسے جھٹکا لگا تھا کیونکہ وہاں شاید وارڈن یا چوکیدار نے سلیش ڈال دی تھی۔۔۔ عرزم نت سلیش کے آگے جہانگیر علوی کا نام لکھا تھا اور سارا فارم فل کر کے اس لڑکی کو دیا اور وہاں سے سیدھا آئی سی یو کی جانب گیا۔۔۔۔ آئی سی یو کے سامنے ہی چوکیدار اسے مل گیا۔۔۔
انکل زیمی کیسا ہے؟؟؟
عرزم نے پریشانی سے چوکیدار سے پوچھا۔۔۔ ہاسٹل میں تقریبا ہر کوئی ان دونوں کی دوستی سے واقف تھا ۔۔۔
وہ بالکل ٹھیک ہے۔۔۔ تھوڑی دیر تک اسے وارڈ میں شفٹ کر دیں گے۔۔۔
ویسے اتنی رات کو تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔۔
انکل آپ جانتے ہیں اگر ہاسٹل رکتا تو ساری رات بے سکون رہتا اب اس کے پاس آگیا ہوں تو خود کو پرسکون محسوس کر رہا ہوں۔۔۔
عرزم کے چہرے پر سکون واضع طور پر نظر آ رہا تھا۔۔۔
اور اسی سکون کے لئے تم نے ہاسٹل کے رولز توڑ دئیے ہیں بیٹا جی۔۔۔۔
چوکیدار مصنوعی روب سے بولا۔۔۔ تو عرزم مسکرا دیا۔۔۔۔
رولز بنتے ہی ٹوٹنے کے لئے ہیں۔۔۔ اور ویسے بھی زیام کے سامنے مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔ ویسے ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ وہ بے ہوش کیوں ہوا تھا؟؟؟
عرزم بیٹا ڈا کٹر نے اسے چیک کیا اور کچھ ٹیسٹ لکھ کر دئیے تھے۔۔۔ابھی تو اس کے ٹیسٹ ہوئے ہیں ایک گھنٹے تک رپورٹ آئے گی ۔۔۔ پھر معلوم ہوگا کہ وہ بے ہوش کیوں ہوا تھا۔؟؟؟؟
چوکیدار نے سنجیدگی سے جواب دیا تو عرزم نے اپنا سر اثبات میں ہلایا ۔۔۔
یااللہ ۔۔۔ پلیز زیمی کو بالکل ٹھیک کر دے آمین۔۔۔۔
عرزم نے دل میں دعا مانگی تھی اور وہیں بینچ پر بیٹھ کر زیام سے ملنے کا انتظار کرنے لگا تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
اگلی صبح جب عرزم تیار ہو کر ناشتے کی ٹیبل پر آیا تو وہاں حیدر اور فائزہ پہلے سے ہی موجود تھے۔۔۔
گڈ مارننگ ماما۔۔ پاپا۔۔۔۔
مارننگ۔۔۔۔
حیدر نے اتنا ہی جواب دیا اور ناشتے کی طرف متوجہ ہوگئے جبکہ عرزم بھی اپنی جگہ پر بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگا۔۔۔۔
کل رات کہاں تھے تم؟؟؟؟
حیدر حسن نے کافی دیر بعد سنجیدگی سے عرزم کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
بتایا تو تھا ماما کو نوٹس لینے گیا تھا کلاس فیلو سے۔۔۔
عرزم نے اعتماد سے جھوٹ بولا۔۔۔ جبکہ فائزہ بیگم نے دونوں کو ایک نظر دیکھا اور پھر چائے بنانے کی غرض سے کیچن میں چلی گئیں۔۔۔
تم نے جھوٹ کب سے بولنا شروع کر دیا ہے عرزم ؟؟؟
حیدر کی بات پر عرزم نے نظریں چرائیں تھیں ۔۔۔۔
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں صاف صاف کہیں؟؟؟؟ کونسا جھوٹ بول رہا ہوں آپ سے؟؟؟
زیام علوی وہاں ہاسپٹل میں ہے اور تم بول رہے ہو کہ تم کسی سے نوٹس لینے گئے تھے کیونکہ تمہیں ٹیسٹ تیار کرنا تھا۔۔۔۔ اپنے باپ کو الو کا پٹھا سمجھ رکھا ہے ۔۔۔ کیا مجھے نہیں معلوم تم کل رات کیا گل کھلا کر آئے ہو؟؟؟
حیدر حسن نے عرزم کو گھورتے ہوئے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔۔۔ جبکہ عرزم کی سہی معنوں میں سیٹی گم ہوئی تھی۔۔۔۔
پاپا۔۔۔ مجھے واقعی سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں؟؟؟
کامران رائو کو جانتے ہو؟؟؟
حیدر حسن کے سوال پر عرزم نے بمشکل تھوک نگلا تھا ۔۔۔
نن۔۔نہیں۔۔۔۔ میں نہیں جانتا۔۔۔
اچھا تم نہیں جانتے ۔۔۔ تو پھر وہ کون تھا جسے تم کل ناصر کے پاس ہاسپٹل لے کر گئے تھے۔۔۔
حیدر حسن اب مشکوک نظروں سے عرزم کو دیکھ رہے تھے۔۔۔ جبکہ عرزم کو دل کر رہا تھا کہ یہاں سے غائب ہو جائے۔۔۔
اووو۔۔۔ اچھا اس کا نام کامران رائو تھا۔۔۔ مجھے تو نہیں معلوم ۔۔۔ بیچارے کو کسی نے بڑے طرح تشدد کا نشانہ بنایا تھا ۔۔۔ مجھے تو بے ہوش ملا تھا روڈ پر۔۔ تو میں اسے انکل ناصر کے پاس لے گیا۔۔۔ اب کیسا ہے وہ؟؟؟
عرزم نے جلدی سے خود کمپوز کرتے ہوئے کہانی گھڑی تھی۔۔۔ جبکہ حیدر حسن ایک نظر اپنے بیٹے کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے۔۔۔
وہ عالم رائو کا اکلوتا بیٹا ہے۔۔۔ اور عالم رائو اس ملک کا نامور بزنس مین ۔۔۔ میرے اس سے اچھے تعلقات ہیں ۔۔ اور اس وقت وہ بھی اپنے بیٹے کی وجہ سے کافی غصے اور پریشانی میں ہے۔۔۔ ۔ خیر اس کا بیٹا بالکل ٹھیک نہیں ہے کسی نے اس کی زبان کاٹ دی ہے۔۔۔جس کسی نے بھی یہ کیا ہے رائو اسے زندہ نہیں چھوڑنے والا ہاں عرزم اگر مجھے ذرا سی بھی بھنک پڑی کہ اس سب میں کہیں بھی تمہارا ہاتھ ہے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔۔۔۔
حیدر حسن اس کا گال تھپتھپا کر سنجیدگی سے بولے اور وہاں سے چلے گئے جبکہ عرزم ان کی پشت کو دیکھ کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرزم کا ارادہ سیدھا ہاسپٹل جانے کا تھا ۔۔۔ لیکن سی آر کے میسج کی وجہ سے اسے یونی آ نا پڑا تھا بقول سی آر کے سر شاویز نے خاص طور پر عرزم کو حاضر ہونے کا کہا تھا۔۔۔۔
عرزم یونیورسٹی میں جونہی داخل ہوا کل والا سارا منظر اس کے سامنے آ گیا ۔۔۔ بمشکل اپنا غصہ ضبط کر کے وہ گرائونڈ سے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جا رہا تھا جب اس کی نظر گرائونڈ میں دائیں سائیڈ پر کھڑی رحاب پر پڑی۔۔۔ عرزم تو اسے دیکھ کر مہبوت ہی رہ گیا تھا۔۔۔
رائل بلیو کلر کی شلوار قمیض پہنے ، شانوں پر ڈوپٹہ اوڑھے، آنکھوں میں کاجل لگائے اور لبوں پر لائٹ پنک کلر کی لپ اسٹک لگائے، بالوں کو کھولے ہوئے وہ عرزم کا دل کافی سالوں بعد بھی دھڑکا گئی تھی ۔۔۔۔ رحاب جو مسکراتے ہوئے نتاشا سے بات کر رہی تھی کسی کی نظروں کی تپش خود پر محسوس کرکے جیسے ہی اپنے دائیں جانب مڑی سامنے ہی عرزم کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ جو رحاب کے دیکھنے پر نظروں کا زاویہ بدل گیا تھا اور وہاں سے شاویز کے آفس کی طرف چلا گیا تھا ۔۔۔۔ رحاب جلدی سے نتاشا کو ایکسکیوز کرتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگی تھی۔۔۔ شاویز کا آفس چونکہ سیکنڈ فلور پر تھا اس لئے وہ اس کے پیچھے ہی سڑھیاں چڑھتے ہوئے آ رہی تھی ۔۔۔ عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا جو اس کے دیکھنے پر سڑھیوں سے نیچے دیکھنا شروع کر چکی تھی ۔۔۔۔
عرزم شاویز کے آفس جانے کی بجائے یونیورسٹی کے چوتھے فلور پر چلا گیا جوکہ زیادہ تر سنسان ہی رہتا تھا۔۔۔ رحاب بھی اس کے پیچھے پیچھے وہاں آئی تھی۔۔ لیکن وہاں اسے نہ پاکر حیران ہوئی۔۔۔ کیونکہ اس فلور کے تقریبا سارے کمرے لاک تھے شاید ایک دو کھلا تھا جہاں کاٹھ کباڑ پڑا تھا۔۔۔ رحاب سر جھٹک کر واپس جانے کے لئے مڑی تو اپنے پیچھے کھڑے عرزم سے ٹکرا گئی اس سے پہلے وہ گرتی عرزم نے اسے تھام لیا ۔۔۔ جب اسے محسوس ہوا کہ وہ گرنے سے بچ گئی ہے تو آنکھیں کھول کر عرزم کو دیکھا جو سپاٹ چہرہ لئے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ عرزم نے جلدی سے اسے کھڑا کیا لیکن اسے اپنی گرفت سے آزاد نہیں کیا ۔۔۔۔
میرا پیچھا کیوں کر رہی تھی؟؟؟
عرزم نے سرد آواز میں پوچھا ۔۔۔
رحاب نے ایک نظر اسے دیکھا جس کی بھوری آنکھیں بھی ویرانی کا منظر پیش کر رہی تھیں ۔۔۔۔
مجھے کوئی ضرورت نہیں تمہارا پیچھا کرنے کی ۔۔۔ اب چھوڑ مجھے۔۔۔۔
رحاب کے جواب پر عرزم نے ایک لمحے کی تاخیر کئے بنا اس کے دونوں بازو اس کی کمر کے ساتھ لگائے اور اسے خود سے قریب کر لیا۔۔۔ اتنا قریب کے دونوں میں فاصلہ چند انچ کا بچا تھا۔۔۔ رحاب اس کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔ اسے لگ رہا تھا کہ اس کی سانسیں اس کے چہرے کو جھلسا دیں گی۔۔۔
مجھ سے جھوٹ بولنے کی کوشش بھی مت کرنا مس رحاب ورنہ انجام کی ذمے دار تم خود ہوگی۔۔۔ اب بتائو کیا لینے آئی تھی میرے پیچھے؟؟؟؟
عرزم کے لفاظ کے ساتھ ساتھ رحاب کے بازئوں پر بھی سختی بڑھ گئی تھی۔۔۔ یہاں تک کہ رحاب کے سفید بازئوں میں اس کی انگلیاں دھنستی جا رہی تھی۔۔۔۔ تکلیف کی وجہ سے رحاب کی آنکھوں سے آنسو نکلا جو اس کے گال پر بہہ گیا۔۔۔ جبکہ عرزم کا دل اس کے آنسوئوں کو شدت سے اپنی پوروں سے چننے کا کر رہا تھا ۔۔۔ دل کی اس انوکھی خواہش پر ایک سیکنڈ سے پہلے اس نے لعنت بھیجی تھی۔۔۔۔
میں تمہارا نہیں پرنس کا پیچھا کر رہی تھی۔۔۔ اور میرا نام مس رحاب نہیں مسز رحاب عرزم ہے۔۔۔۔
رحاب نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعتماد سے جواب دیا۔۔۔۔
عرزم کی گرفت خودبخود ڈھیلی ہوگئی تھی۔۔۔ مطلب وہ جانتی تھی کہ عرزم ہی اسکا پرنس ہے۔۔۔۔
جائو یہاں سے۔۔۔۔
عرزم نے اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا اور اس کی طرف پشت کر لی۔۔۔
کیوں جائوں یہاں سے؟؟؟ تم کیا سمجھتے ہو میں بیوقوف ہوں جو تمہیں پہچان نہیں سکوں گی۔۔۔۔۔
رحاب اس کے مقابل آتے ہوئے نم لہجے میں بولی تھی جبکہ عرزم نے اس بار اسے دیکھنے کی غلطی نہیں کی تھی ۔۔۔۔
یہ آنکھوں میں لینز لگائو گے تو تمہیں لگتا تھا کہ تمہارے رے تمہیں ڈھونڈ نہیں پائے گی۔۔۔۔ جس شخص کو میں نے دل میں بسایا تھا اس کی خوشبو تک کو پہچانتی ہوں میں۔۔۔۔ خدا کے لئے پرنس ناراضگی ہے تو اظہار کر دو لیکن یوں بے اعتنائی کا مظاہرہ مت کرو۔۔۔۔
رحاب نے نم لہجے میں بولتے ہوئے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دئیے تھے جبکہ عرزم نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔۔۔۔
اس کے باوجود پتہ ہے تم نے کیا؟؟ تم نے میری روح کو زخم دئیے ہیں ۔۔ اگر اتنی ہی محبت تھی تو یہ بھی جان لیتی کہ زیام علوی میری زندگی میں کیا اہمیت رکھتا ہے۔۔۔ جو الزام تم نے اس پر لگایا تھا نا؟؟ اسی الزام کی وجہ سے آج وہ ہاسپٹل میں پڑا ہے۔۔۔۔ محبت کا دعویدار تو ابلیس بھی تھا لیکن جب اسی محبت نے اسے جھکنے کے لئے کہا تو وہ منکر ہوگیا تھا۔۔۔۔ تمہارا حال بھی بالکل ویسا ہی ہے رحاب حسن کہ تم دعویدار میں سے ہو عمل کرنے والوں میں سے نہیں ۔۔۔۔ پانچ سال پہلے بھی تم نے یہی کیا تھا لفظوں کے جال میں مجھے الجھا کر میرا اعتبار توڑا تھا اور آج بھی تم یہی کر رہی ہو۔۔۔
عرزم سرد لہجے میں بولا تھا۔۔۔ جبکہ رحاب کا سر نفی میں ہلا تھا۔۔۔۔
مجھے معاف کر دو پرنس ۔۔۔۔ جو محبت تم مجھ سے کرتے ہو تمہیں اسی کا واسطہ ہے مجھے اپنی زندگی میں شامل کر لو۔۔۔۔۔ میں نے وہ الزام ۔۔۔۔۔۔
ششش۔۔۔۔۔ بالکل چپ۔۔۔۔ اس بارے میں بالکل بات مت کرنا ۔۔۔ کیونکہ اسی الزام کی بدولت آج تمہاری یہ حالت ہے۔۔۔ بدنامی کا شوق تھا نہ تمہیں تو پورا کر تو رہا ہوں۔۔۔ بس فرق یہ ہوگا کہ تم نے الزام لگایا تھا میں نے عمل کر دیا۔۔۔ اور ہاں رہی محبت کی بات تو اتنا جان لو کہ میری زندگی میں ،میرے دل میں صرف ایک انسان رہتا تھا رہتا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔۔ اور وہ انسان زیام علوی ہے ۔۔۔۔
عرزم نے اسے سخت نظروں سے دیکھ کر کہا۔۔۔۔
تمہاری زندگی میں جب میری جگہ ہی نہیں تھی تو کیوں واپس آئے تھے تم ۔۔۔۔ میں تو پہلے بھی اذیت میں تھی اب بھی ہوں لیکن اگر تمہاری زندگی میں زیام علوی کے علاوہ کسی کی جگہ نہیں تھی کیوں مجھے مجبور کیا خود سے محبت کے لئے ؟؟؟
تاکہ جو تازیانے تم نے اس کی ذات پر لگائے ہیں ان کی اذیت کم کر سکوں ۔۔۔۔
عرزم دھاڑتے ہوئے بولا تھا۔۔۔ رحاب نے سہم کر عرزم کو دیکھا تھا۔۔۔
تم میں اور ایک طوائف میں فرق تب ہی ختم ہوگیا تھا رحاب جب تم نے خود کو میرے آگے پیش کر دیا تھا۔۔۔ تم جیسی گھٹیا لڑکی کہ عرزم کی زندگی میں کوئی جگہ نہیں ۔۔۔۔
رحاب لڑکھڑائی تھی۔۔ وہ تو سمجھی تھی کہ عرزم اس سے ناراض ہوگا لیکن وہ تو اسے بدکردار کہہ رہا تھا۔۔۔۔
تم اپنی محبت کو ایک گالی دے رہے ہو؟؟؟؟
نہیں میری محبت تو اسی وقت ختم ہوگئی تھی جب تم نے زیام کو اپنے لفظوں سے زخمی کیا تھا ۔۔۔ اور اب میں جس سے مخاطب ہوں وہ میرے لئے ایک اجنبی سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔۔
ایسے الفاظ مت نکالو منہ سے پرنس جس کا مداوا ساری زندگی نہ ہو سکے۔۔۔ مجھے طوائف کی گالی پر تماچہ وقت تمہارے منہ پر مارے گا۔۔۔ آج سے بلکہ ابھی سے میرے جذبوں سے میری زندگی اور دل سے تم نکل چکے ہو۔۔۔۔
رحاب یہ بول کر وہاں سے روتے ہوئے بھاگی تھی جبکہ عرزم نے ذور سے اپنا ہاتھ دیوار پر مارا تھا۔۔۔۔
کاش تم نے زیمی کو کبھی ہرٹ نہ کیا ہوتا۔۔۔۔ کاش کہ زیام علوی تمہاری وجہ سے رویا نہ ہوتا۔۔۔ تو آج عرزم حیدر سب بھول کر تمہیں معاف کر دیتا۔۔۔ لیکن جب میں خود اس کے معاملے میں معاف نہیں کرسکتا تو دل کی کیا سنتا ۔۔۔
عرزم خود سے بولا اور خود کو کمپوز کرتے ہوئے شاویز کے آفس جانے کے لئے نیچے کی طرف چل دیا۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔