عرزم جب سے ہاسپٹل سے آیا تھا کمرے میں بند تھا ۔۔۔ فائزہ بیگم کو پریشانی نے جکڑ لیا تھا کیونکہ وہ کبھی بھی اس طرح ان کے گھر پر ہوتے ہوئے کمرہ نشین نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔
عرزی۔۔۔۔ عرزی۔۔۔۔
فائزہ بیگم کی آواز پر عرزم جو کمرے میں بیڈ پر بیٹھا لیپٹاپ کو گود میں رکھے ماتھے پر شکن لائے ، گرین آنکھوں میں غصہ لائے کچھ سرچ کام کر رہا تھا ۔۔۔ فائزہ بیگم کی آواز پر ایکدم نارمل موڈ میں واپس آیا تھا اور لیپ ٹاپ آف کر کے دروازے کو کھولا تھا۔۔۔۔۔ سامنے ہی فائزہ بیگم مشکوک نظروں سے عرزم کو دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔
کیا کر رہے تھے؟؟؟
انداز میں پریشانی اور سختی ایک ساتھ آئی تھی۔۔۔
ماما سو رہا تھا ۔۔۔ آپ نے اٹھا دیا ۔۔۔
عرزم مصنوعی خفگی سے بولا۔۔۔ جبکہ فائزہ بیگم اس کی آنکھوں کی سرخی دیکھ کر شرمندہ ہوگئیں کیونکہ انہیں یہ لگ رہا تھا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کی نیند پوری نہیں ہونے دی۔۔۔۔
عرزم نے باخوبی انکی شرمندہ چہرہ کو دیکھا تھا۔۔۔۔
اوووو۔۔۔ پلیز۔۔۔ ماما۔۔۔ اب یوں سیڈ مت ہوں۔۔ میں ویسے بھی اٹھنے والا تھا کیونکہ کچھ کام سے باہر جانا تھا۔۔۔۔
عرزم انکی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے مسکرا کر بولا۔۔۔۔
رات کے نو بجے تمہیں کونسا کام پڑ گیا ہے؟؟؟
فائزہ بیگم نے اسے مصنوعی گھورا تھا۔۔۔
ماما۔۔۔ ایک کلاس فیلو سے کچھ نوٹس چاہیے تھے کیونکہ صبح ٹیسٹ ہے اور میرے شاید گم ہوگئے ہیں۔۔۔۔۔
عرزی۔۔۔ تم بہت لاپرواہ ہوتے جا رہے ہو۔۔۔ پڑھائی کے معاملے میں اتنی غیر سنجیدگی کون دکھاتا ہے۔۔۔ کل ٹیسٹ ہے اور رات کے نو بجے جناب کو خیال آ رہا ہے کہ نوٹس بھی لینے ہیں۔۔۔۔ میں کرتی ہوں تمہارے پاپا سے بات۔۔۔ وہی تمہیں سدھار سکتے ہیں۔۔۔۔۔
فائزہ بیگم کی بات پر عرزم نے مسکراتے ہوئے انہیں گلے لگایا۔۔۔
اچھا اب پاپا کو درمیان میں مت لائیں اور اگر وہ میرا پوچھیں تو انہیں بتا دیجیے گا کہ گیارہ بجے تک واپس آ جائوں گا۔۔۔
یہ بول کر اس نے فائزہ بیگم کو خود سے الگ کیا اور جلدی سے اپنا موبائل اٹھا کر باہر کی جانب چل دیا۔۔۔۔
اچانک وہ رکا اور پلٹ کر واپس آیا فائزہ بیگم جو اسے ہی دیکھ رہی تھیں ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگیں۔۔۔۔
اس نے فائزہ بیگم کو دونوں شانوں سے تھاما اور مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
دعا کیجیے گا کہ آپکا بیٹا زندگی کے ہر امتحان میں کامیاب ہو۔۔۔۔۔
یہ بول کر وہ جلدی سے پلٹ گیا اور لمبے لمبے ڈاگ بھرتا لائونج کا دروازہ عبور کر گیا۔۔۔۔
آمین۔۔۔
فائزہ بیگم نے دل میں کہا اور پھر حیدر حسن کی آواز پر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے بلیو توتھ ڈیوائس کان سے لگائی اور ایک نمبر پر کال کر کے موبائل ڈیش بورڈ پر رکھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔۔
ہاں بولو۔۔ ٹھیک ہے ۔۔ نظر رکھو اس پر آ رہا ہوں میں۔۔۔۔
عرزم نے یہ بول کر کال ڈراپ کر دی اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔۔۔
آج تم دیکھو گے مسٹر کہ زیام علوی پر انگلی اٹھا کر تم نے کس طوفان کو دعوت دی ہے۔۔۔۔۔
عرزم نے دل میں سوچا اور گاڑی ایک کلب کے سامنے روکی۔۔۔۔ ایک پراسرار مسکراہٹ نے اس کے لبوں کو چھوا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرزم کلب کے اندر گیا تو وہاں کا نظارہ اس کے ماتھے پر لاتعداد شکنوں کو جال بنا گیا تھا۔۔۔ لڑکے اور لڑکیاں آپس میں اس طرح سے بیٹھے تھے کہ عرزم کو نظریں اٹھانا مشکل ہو رہا تھا وہ وہاں نہیں آنا چاہتا تھا لیکن زیام کے لئے وہ دنیا کے کسی کونے بھی جا سکتا تھا۔۔۔۔ تقریبا دس منٹ کے اردگرد نظریں دوڑانے کے بعد اسے مطلوبہ شخص مل چکا تھا۔۔۔ گرین آنکھوں میں ایک چمک آئی تھی۔۔۔ وہ مطلوبہ شخص کی جانب دیکھ کٹ مسکرایا اور ایک لڑکے کو اشارہ کیا جو شاید وہاں پر شراب سرو کر رہا تھا۔۔ وہ لڑکا عرزم کی طرف آیا تو عرزم نے ایک پیکٹ اس کے ہاتھ میں دیا اور اس کے کان میں کچھ بولا۔۔۔ اس لڑکے نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور اسے لیفٹ سائیڈ کی طرف ایک اشارہ کیا۔۔۔ جواب میں عرزم سپاٹ چہرے کے ساتھ وہاں سے اس روم میں چلا گیا تھا۔۔۔۔
عرزم روم میں موجود صوفے پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا جب ایک شخص لڑکھڑاتے ہوئے روم میں داخل ہوا۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے کے اندر آیا عرزم نے ایک ذور دار پنچ اس کے منہ پر مارا جس کے باعث وہ گر گیا۔۔۔ عرزم نے جلدی سے دروازے کو لاک کیا اور پھر اس شخص کی طرف بڑھا جو شاید شراب اور عرزم کے ایک پنچ سے ہی نڈھال ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ وہ شخص آنکھیں کھولنے کی کوشش کر رہا تھا جبکہ سامنے کا منظر دھندلا رہا تھا۔۔۔۔
کامران رائو ۔۔۔۔ تم یاد رکھو گے اپنے انجام کو۔۔۔۔
عرزم اس کے کان میں غرایا تھا جب وہی ویٹر کلب کے بیک ڈرو سے اندر آیا جسے عرزم نے پیسے دئیے تھے۔۔۔۔
سی سی ٹی وی فوٹیج ڈیلیٹ ہوچکی ہے سر اور میں آپکو جانتا ہی نہیں ہوں اور نہ میں نے آپکو دیکھا ہے۔۔۔۔
وہ ویٹر سر جھکا کر بول رہا تھا جب عرزم نے کامران کو ایک نظر دیکھا اور پھر ویٹر کو دیکھ کر بولا۔۔۔
راستہ صاف ہے نہ؟؟؟
جج۔جی۔۔۔سر۔۔۔
وہ ویٹر بولا اور جلدی سے سائیڈ پر ہوگیا کیونکہ عرزم کامران کو گردن سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر لے کر جا رہا تھا۔۔۔۔
عرزم نے اسے گاڑی کی ڈکی میں ڈالا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی ۔۔۔۔ تقریبا آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ ایک سنسان سڑک پر آگیا ۔۔ اور گاڑی روک کر اس نے کامران کو باہر نکالا جو بمشکل ہی اپنے قدموں پر کھڑا ہو پا رہا تھا۔۔۔۔ عرزم نے گاڑی میں سے پانی کی بوتل نکالی اور اس میں موجود پانی کامران کے منہ پر گرایا۔۔۔ جس سے وہ تھوڑا سا حواس میں آیا تھا ۔۔۔ لیکن جیسے ہی اس نے سامنے عرزم کو دیکھا اس کا سارا نشہ اڑ گیا تھا۔۔۔
کیسے بھول سکتا تھا وہ اسے۔۔۔ ابھی کل ہی تو یونیورسٹی کی پارکنگ میں ان دونوں کی لڑائی ہوئی تھی۔۔۔۔
تت۔۔تم۔۔۔ مجھے کیوں یہاں لائے ہو؟؟؟
کامران نے اردگرد نظریں دوڑانے کے بعد اس سے پوچھا۔۔۔۔۔۔
چلو اچھا ہے تم نے پہچان تو لیا۔۔۔ ورنہ مجھے لگا تھا کہ تم میرا سارا وقت تمہیں یاد دلانے میں لگ جائے گا۔۔۔
عرزم پراسرار سا مسکرایا تھا جبکہ آنکھیں ابھی سرخ تھیں۔۔۔ گرین آنکھوں اس مقابل پر خوف طاری ہو رہا تھا۔۔۔۔
دیکھو کل بھی تم نے مجھے مارا تھا اور میں نے کچھ نہیں کہا تھا ۔۔ کل کا معاملہ رفع دفعہ ہوگیا تھا تو آج تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟؟؟؟
کامران رائو۔۔۔ نہ تم انجان ہو کہ میں یہاں تمہیں کیوں لایا اور نہ ہی تمہیں انجان بننے کا ناٹک کرنا چاہیے کیونکہ یہ تمہارے لئے اچھا نہیں ہوگا۔۔۔۔
عرزم کی بات ابھی منہ تھی جب کامران نے ایک پنچ اس کے منہ پر مارا ۔۔۔ اور وہاں سے بھاگنے لگا جب عرزم نے اپنی پوری طاقت سے اسے ایک تھپڑ دائیں گال پر رسید کیا تھا۔۔۔۔
تمہاری اتنی ہمت نہیں ہونی چاہیے رائو۔۔۔ اب جو پوچھوں گا اس کا جواب صاف صاف دینا۔۔۔ ورنہ ابھی صرف منہ سے خون نکلا ہے تب خون سے تم نکلو گے۔۔۔۔
کامران جو اس کے تھپڑ سے زمین پر گرا تھا نے ڈرتے ہوئے عرزم کو دیکھا۔۔۔۔ اور اپنا سراثبات میں ہلایا ۔۔
پوسٹر کیوں لگائے تھے یونی میں؟؟؟ کیا تم نہیں جانتے تھے کہ عرزم حیدر اگر تم پر تمہارے دوستوں کے ہوتے ہوئے ہاتھ اٹھا سکتا ہے تو اس حرکت پر کیا حال کرے گا؟؟؟؟؟
میں۔۔ن۔۔۔ نے ۔۔ک۔کچھ۔۔ نن۔۔۔نہیں۔۔۔کک۔۔ کیا؟؟؟؟؟
عرزم نے ایک اور تھپڑ اسے مارا تھا ۔۔۔
جھوٹ بالکل نہیں۔۔۔
عرزم نے انگلی کے اشارے سے اسے وارن کیا تھا۔۔۔
میں سچ بول رہا۔۔۔۔
ابھی اس کے الفاظ منہ میں تھے جب عرزم نے اپنا بیلٹ نکالا اور اسے مارنا شروع کیا ۔۔۔ اس انسان سڑک پر اس کی چیخیں تھیں اور عرزم کی سفاکیت ۔۔۔۔
تمہیں ۔۔۔تمہارے۔۔۔ دوست۔۔۔ کا۔۔ واسطہ ۔۔ہے ۔۔۔ایک۔۔۔ بار۔۔۔ میری۔۔۔ بات ۔۔۔سن ۔۔۔لو۔۔۔ پلیز۔۔۔۔
تقریبا بیس منٹ بعد اس نے اٹک اٹک کر کہا تھا۔۔۔ عرزم ناچاہتے ہوئے بھی اس بار اس کی بات سننے کے لئے پیچھے ہٹا تھا۔۔۔
میں نے یہ سب نہیں کیا بلکہ میں نے صرف پوسٹر لگوائے تھے ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس پوسٹر میں کیا تھا ۔۔۔ وہ تو آج یونیورسٹی جا کر معلوم ہوا تھا۔۔۔۔ پلیز مجھے چھوڑ دو میری کوئی غلطی نہیں ہے۔۔۔۔ ۔۔۔
آخری بات وہ ہاتھ جوڑ کر بول رہا تھا جبکہ عرزم اس کے سامنے نیچے بیٹھا اور سرد آواز میں بولا۔۔۔۔
کون تھا؟؟؟؟
میں نہیں جانتا ۔۔۔ ایک عورت تھی جو تقریبا چالیس کی لگ رہی تھی۔۔۔ کافی ماڈرن تھی ۔۔۔۔اور۔۔۔۔
نام کیا تھا اس کا ؟؟؟؟
عرزم اپنے خیالات کو جھٹک رہا تھا ۔۔۔۔۔ کیونکہ جو خاکہ اس کے دماغ میں بن رہا تھا وہ ناقابل یقین تھا۔۔۔۔
نام نہیں بتایا تھا ۔۔۔ جب ہماری پارکنگ میں لڑائی ہوئی تب ہی وہ تھوڑی دیر بعد مجھے وہاں ملی تھی۔۔۔ مجھے پیسے دئیے اور پوسٹر دئیے ۔۔۔۔
کیا یہ تھی وہ؟؟؟؟
عرزم نے موبائل پر ایک پک اسے دکھائی تھی اور دل ہی دل میں اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ یااللہ ایسا کچھ نہ ہو۔۔۔۔
کامران رائو نے اثبات میں سر ہلایا تو عرزم حیدر کو زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا لگا تھا۔۔۔۔
تم جھوٹ بول رہے ہو نا؟؟؟ وہ ایسا نہیں کر سکتیں ۔۔۔۔۔
عرزم نے اپنا سر نفی میں ہلایا ۔۔۔۔
میں سچ بول رہا ہوں۔۔۔ ان کی گاڑی کا نمبر بھی مجھے یاد ہے۔۔۔ 5767ایکس ۔۔۔۔
عرزم نے اپنے ہاتھوں میں سر تھام لیا تھا جبکہ کامران رائو نے آہستہ سے اس سے دور ہونے کی کوشش کی تھی۔۔۔
Naila Alwi you will have to pay ۔۔۔۔
عرزم چیختے ہوئے خود سے بولا تھا۔۔۔۔ جبکہ اس کی دھاڑ پر کامران جو تین چار قدم ہی اس سے دور ہوا تھا کانپ گیا تھا۔۔۔۔ عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔ کامران تو بے یقین تھا کہ وہ اسے زندہ چھوڑ گیا تھا لیکن جلد ہی اس کی خوش فہمی ختم ہوگئی کیونکہ عرزم واپس آ رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں پیٹرول تھا۔۔۔۔
عرزم نے پیٹرول اس پر چھڑکا ۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔ پلیز مجھے جانے دو۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا ۔۔۔ پلیز۔۔۔ تمہیں تمہارے دوست۔۔۔۔۔۔
ششش۔۔۔۔ بالکل چپ ۔۔۔۔ مجھے شور پسند نہیں ہے رائو۔۔۔۔
اس کی گرین آنکھوں اس وقت صرف حیوانیت تھی۔۔۔۔
چلو ایک کام کرتے ہیں۔۔۔ زندگی چاہتے ہو نا؟؟؟ تو یہ لو بلیڈ اور اپنے ہاتھوں سے اپنی زبان کاٹ دو۔۔۔ کیونکہ اسی زبان سے تم نے اسے ہرٹ کیا تھا۔۔۔ ورنہ میں زندہ جلا دو گا۔۔۔۔
رائو نے ایک نظر اسے دیکھا اور بولنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ عرزم نے اسے زمین پر لیٹا کر اس کا منہ کھولا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی زبان کاٹ دی تھی بنا اس کی چیخیں کی پرواہ کئے۔۔۔۔
جب میری اتنی جرت نہیں کہ اسے ہرٹ کر سکوں تو پھر تمہارا تو وجود ہی بے معنی ہے۔۔۔۔
عرزم اسے دیکھ کر بولا جو غنودگی میں جا رہا تھا ۔۔۔ درد شاید ناقابل برداشت تھا۔۔۔۔ جو وہ بے ہوش ہو گیا تھا۔۔۔ عرزم اسے گھسیٹتے ہوئے گاڑی تک لایا اور اب اس کی منزل ہاسپٹل تھی کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ زندگی بھر وہ تڑپے اور زیام علوی کو پکارنے والے انداز کو یاد کر روئے۔۔۔۔ وہ اسے زندگی بھر کی سزا دے گیا تھا ۔۔ اس کا جنون سر چڑ کر بول رہا تھا۔۔ اور اب نجانے اس کا جنون کتنے لوگوں کی زندگی تباہ کرنے والا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
عرزم خوش تھا کہ محبت کی راستے میں وہ اکیلا نہیں چل رہا تھا ۔۔۔ مسکراہٹ تو اس کے لبوں سے چپک کر رہ گئی تھی۔۔۔ رحاب کو ہاسٹل چھوڑ کر وہ واپس آ رہا تھا جب اسے بوائز ہاسٹل کے گیٹ سے تھوڑے فاصلے پر زیام نظر آیا ۔۔۔ زیام کی جیسے ہی نظر عرزم پر پڑی اس کا رنگ متغیر ہوگیا تھا۔۔۔ پاس کھڑا لڑکا ہنستے ہوئے اس سے کچھ بول رہا تھا ۔۔۔ عرزم کو دور سے ہی احساس ہوگیا تھا کہ زیام ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ دوسرے لڑکے کی عرزم کی طرف پشت تھی اس لئے وہ عرزم کا نہ دیکھ سکا ۔۔۔۔ ابھی عرزم زیام سے دس قدم دور تھا جب زیام نے اس کی طرف آنا چاہا تو اس لڑکے نے زیام کے آگے پائوں کر دیا ۔۔۔ زیام اچانک منہ کے بل گرا تھا۔۔۔ عرزم بھاگتے ہوئے اس کے پاس پہنچا تھا ۔۔۔۔
زیمی۔۔۔۔ تم ٹھیک ہو؟؟؟
عرزم نے اسے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
زیام نے اپنا سر اثبات میں ہلایا اور اس سے پہلے وہ کچھ بولتا اس لڑکے کے الفاظ زیام اور عرزم کو اس کو دیکھنے پر مجبور کر گئے تھے۔۔۔۔
اوئے۔۔۔ زیام۔ یہ دوست ہے تمہارا؟؟؟۔۔
زیام کے بولنے سے پہلے ہی عرزم بول پڑا ۔۔۔ ۔۔
ہم دوست ہے یا نہیں یہ تو میں تمہیں بعد میں بتائوں گا ۔۔۔ سالے تمہارے ہمت کیسے ہوئی اسے نیچے گرانے کی؟؟؟
عرزم یہ بول کر اسے مارنے کے لئے آگے بڑھا جب زیام نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
عرزی۔۔۔ چل یار ۔۔ چھوڑ ۔۔۔ ویسے بھی میری ہی غلطی تھی ۔۔۔ چل چلتے ہیں۔۔۔۔
ہاں ہاں لے جائو اسے۔۔۔ یہ بھی تمہاری طرح نامرد ہی ہوگا۔۔۔
کیونکہ تمہاری جیسی مخلوق سے نارمل انسان تو دوستی کرنے سے رہا۔۔۔۔
اس لڑکے نے جیسے تمسخر اڑایا تھا۔۔۔۔ اور عرزم نے ایک نظر زیام کو دیکھا جس کی گرفت خودبخود اس کے بازو پر ڈھیلی ہوگئی تھی۔۔۔ اس کی گرین آنکھیں لمحے میں سرخ ہوئی تھیں ۔۔۔۔
عرزم نے آگے بڑھ کر اس لڑکے کو کالر سے دبوچا اور غراتے ہوئے بولا۔۔۔۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی گھٹیا الفاظ استعمال کرنے کی؟؟؟ مردانگی تو تجھے میں دکھاتا ہوں؟۔۔۔۔۔۔
یہ بول کر عرزم نے باقاعدہ اس کی پٹائی شروع کر دی تھی جبکہ وہ لڑکا بھی عرزم کو مار رہا تھا۔۔۔ دونوں لڑ رہے تھے جبکہ زیام مسلسل عرزم کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔ چار پانچ لڑکے جو وہاں سے گزر رہے تھے انہوں نے آ کر اس لڑکے کو اور عرزم کو پکڑ کر الگ کیا تھا۔۔۔
چھوڑو مجھے میں اس کا منہ توڑ دوں گا ۔۔۔ اس کی ہمت کیسے ہوئی زیمی کو گالی دینے کی؟؟؟؟
عرزم مسلسل تین لڑکوں کی گرفت میں اسے مارنے کے لئے آگے بڑھ رہا تھا ۔۔۔۔
مجھے مارنے سے پہلے پوچھ لو اپنے نام نہاد دوست سے کہ میں نے اسے گالی دی ہے یا اس کی سچائی بیان کی ہے ۔۔۔۔
اس لڑکے الفاظ عرزم کو مزید طیش دلا رہے تھے۔۔۔
میں بول رہا ہوں چھوڑو مجھے میں اس کی جان لے لوں گا۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ان لڑکوں نے عرزم کو ہاسٹل بھیج دیا جبکہ وہ لڑکے روڈ سے تھوڑی دور کھڑی گاڑی پر بیٹھ کر چلا گیا۔۔۔۔ زیام بھی عرزم کے ساتھ ہی ہاسٹل چلا گیا تھا۔۔۔
عرزم کمرے کے مسلسل چکر کاٹ رہا تھا جبکہ زیام اپنے بیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا۔۔۔ عرزم جب تھک گیا تو زیام کو گھورنے لگا۔۔۔۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی جب لوگ تمہیں کچلنا چاہتے ہیں تو تم ان کے آگے کھڑے کیوں ہو جاتے ہو؟؟؟ میں منہ توڑ دیتا اس کا ۔۔۔ مجھے تو رہ رہ کر غصہ آ رہا ہے کہ اس لڑکے منہ توڑنے کی بجائے تم مجھے یہاں لے آئے۔۔۔۔ تم نے۔۔۔۔۔
عرزم ابھی بول رہا تھا جب زیام کے الفاظ اس پر سکتہ طاری کر گئے تھے۔۔۔۔
وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا ۔۔۔ میں نارمل انسان نہیں ہوں ۔۔۔ کچھ لوگوں کی نظر میں خواجہ سرا۔۔۔ کچھ کی نظر میں ہیجڑا اور تم جیسے لوگوں کی نظر میں نا مرد۔۔۔۔
یہ سچ ہے کہ میں نارمل نہیں ہوں۔۔۔ لیکن کیا مجھے زندہ رہنے کا بھی حق نہیں ہے۔۔۔۔
زیام نے نم سرخ آنکھیں اوپر اٹھائیں تھیں اور عرزم کو دیکھا تھا جو بے یقینی اور شاک سے زیام کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ حقارت کا تاثر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہا تھا۔۔۔۔
تم نے مجھ سے جھوٹ بولا؟؟؟؟
عرزم بے یقینی سے بولا۔۔۔۔
عرزی ۔۔۔۔۔
شٹ اپ۔۔۔۔۔
عرزی۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ میری بات سنو۔۔۔
زیام روتے ہوئے اس کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔
سٹاپ اٹ۔۔۔ ڈونٹ موو ۔۔۔۔ میرے پاس آنے کی ہمت بھی مت کرنا۔۔۔ تم چیٹر ہو۔۔۔۔ تم جھوٹے ہو۔۔۔ تم نے میرا اعتبار توڑا ہے۔۔۔۔
عرزم چیخا تھا اور ہاتھ کے اشارے سے اسے خود کے نزدیک آنے سے منع کیا تھا۔۔۔
زیام کے آنسو فرش پر گر رہے تھے جبکہ عرزم مسلسل نفی میں سر ہلا کر وہاں سے جانے لگا جب زیام کے الفاظ پر اس قدم رکے تھے۔۔۔۔
مجھے چھوڑ کر مت جائو عرزم۔۔۔ میں اس دنیا کی بھیڑ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔۔۔ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ خدا کے لئے عرزم اپنے زیمی کو معاف کر دو۔۔۔ میں مر جائوں گا۔۔۔۔ میری دنیا تم تک محدود ہے پلیز اس دنیا کو مجھ سے دور مت کرنا۔۔۔۔۔۔
زیام روتے ہوئے زمین پر بیٹھ گیا تھا اور اس کا سانس اکھڑنا شروع ہوگیا تھا عرزم کی چونکہ پشت تھی اس لئے وہ زیام کی حالت نہیں دیکھ سکا تھا ۔۔۔ چند لمے وہ رکا تھا پھر لمبے لمبے ڈاگ بھرتا کمرے سے نکل گیا تھا۔۔۔۔۔ جبکہ زیام کو سانس لینے میں مزید دشواری پیش آ رہی تھی ۔۔۔
میری سانسیں واقعی تم سے جڑی ہیں عرزم حیدر۔۔۔۔۔
زیام نے دل میں سوچا اور وہیں فرش پر بے ہوش ہوگیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔