ماضی
وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ گزر رہا تھا ۔۔۔ دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں گزر رہے تھے۔۔۔ آٹھ ماہ گزر چکے تھے ۔۔ اس دوران رحاب اور عرزم کے تقریبا پانچ بار ہی ملاقات ہوئی تھی۔۔۔ آج انہوں نے سکول میں فئیر ویل پارٹی ارینج کی تھی اپنے سینئرز کی۔۔۔ عرزم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا جب اسے اچانک محسوس ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا تو زیام اپنی کمر پر لڑاکا عورتوں کی طرح بازو رکھے اسے گھور رہا تھا ۔۔۔۔
کیا ہے؟؟؟؟
عرزم کو اس کے انداز پر ہنسی تو بہت آئی لیکن وہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔۔۔
مجھے سچ سچ بتائو تم مجھ سے کیا چھپا رہے ہو؟؟؟ میں کافی عرصے سے تمہاری حرکتیں نوٹ کر رہا ہوں جو کو مجھے شریفانہ بالکل نہیں لگ رہی ۔۔۔۔۔
زیام دانت پیس کر بولا تو عرزم نے قہقہ لگایا۔۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔۔
تمہیں واقعی لگتا ہے میں تم سے کچھ چھپا رہا ہوں؟؟؟؟
عرزم نے ہنستے ہوئے پوچھا ۔۔۔
لے۔۔۔ مجھے کافی عرصے سے تم مشکوک لگ رہے ہو۔۔۔ اب بتانا پسند فرمائیں گے جناب کے کس خوشی میں آئینے میں اپنی ڈراونی شکل دیکھ کر مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔
ہائے زیمی کیا پوچھ بیٹھے ہو؟؟؟
عرزم دل پر ہاتھ رکھ کر ایکٹنگ کرتے ہوئے اپنے سنگل بیڈ پر گرا۔۔۔
زیادہ کچھ نہیں بس ۔۔۔ تمہاری حرکتوں کے بارے میں پوچھ رہا ہوں ۔۔ اب اوور ایکٹنگ بند کر اور مجھے بتائو کہ تم کیا چھپا رہے ہو ۔۔۔۔۔۔
یار زیمی پہلے وعدہ کر مذاق نہیں اڑائے گا۔۔۔۔۔
عرزم نے اس کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا جبکہ زیام کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ اچھا۔۔۔ وعدہ۔۔۔
زیمی۔۔۔ وہ میں۔۔۔ کیسے بتائوں؟؟؟
عرزم شرما کر بولا جبکہ زیام کی تو مانو آنکھیں پوری پوری باہر آگئی تھیں عرزم کو شرماتے دیکھ کر ۔۔۔۔
تم شرما رہے ہو عرزی۔؟؟؟؟
زیام بے یقینی سے بولا جبکہ عرزم نے اس کی بات پر اسے گھورا۔۔۔۔ زیام نے گڑبڑا کر اپنا منہ بند کیا ۔۔۔
اچھا اچھا بتائو ۔۔۔۔
زیمی۔۔ میں بس اس سے چھے بار ہی ملا ہوں لیکن مجھے لگتا ہے وہ ہمیشہ سے میرے ساتھ تھی۔۔۔ اسے دیکھتا ہوں تو دل کرتا ہے کچھ اور دیکھائی نہ دے۔۔۔۔
کیوں اندھے ہونے کا ارادہ ہے؟؟؟
زیام نے جل کر کہا۔۔۔
عرزم نے اسے گھورا اور دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔۔
اپنی چونچ بند رکھنا اب ۔۔ جب تک میں پوری بات نہ کر لو۔۔۔
زیام منہ بنا کر بیڈ پر بیٹھ گیا کیونکہ اتنا تو سمجھ گیا تھا کہ معاملہ کسی لڑکی ہے۔۔۔
پہلی ملاقات ہماری اچھی نہیں تھی رہی لیکن آہستہ آہستہ مجھے اسے چھپ چھپ کر دیکھنا اس کی مسکراہٹ اس کی آواز سب اچھا لگنے لگا اور تمہیں معلوم ہے یہ سب کب سے ہو رہا ہے ؟؟؟؟
عرزم نے جوش سے بتاتے ہوئے زیام کو دیکھا جو مسکرا اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔اور اس کے دیکھنے پر اپنا سر نفی میں ہلا گیا۔۔۔
جب وہ ایک کتے سے ڈر کر میرے پاس آئی تھی۔۔۔ وہ بہت پیاری ہے یار۔۔۔ ہاں تھوڑی سی موٹی ہے لیکن دل کی بہت اچھی ہے۔۔۔ اور معصوم بھی ۔۔۔ بالکل تمہاری طرح۔۔۔۔ تمہیں معلوم ہے اسے میں نے اپنا نام پرنس بتایا تو اس نے یقین کر لیا ۔۔۔
کیا نام ہے اس لڑکی کا ؟؟؟؟
زیام کی آواز بہت ہلکی تھی جس پر عرزم نے ایکدم اسے دیکھا جو اس کے دیکھنے پر چہرہ جھکا گیا تھا۔۔۔۔
زیمی۔۔۔
عرزم نے اسے پکارا تو زیام کا جھکا سر مزید جھک گیا۔۔۔ شاید نہیں یقینا وہ بے آواز رو رہا تھا۔۔۔
عرزم اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا ۔۔۔ اور دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ پکڑ کر اپنی طرف کیا ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کہ ماجرہ کیا ہے۔۔۔
میری زندگی میں چاہے جتنے بھی لوگ آئیں ۔۔۔ وہ کبھی بھی تمہاری جگہ نہیں کے سکتے۔۔۔ تم جانتے ہو میں نے تم سے دوستی کیوں کی تھی؟؟؟
عرزم کے پوچھنے پر اس نے معصومیت سے اپنا سر نفی میں ہلا ہلایا۔۔۔
تاکہ زندگی میں کبھی تمہاری آنکھوں میں آنسو نہ دیکھوں۔۔۔ تمہاری مسکراہٹ بہت پیاری ہے اور اپنی فضول سوچوں میں کی وجہ سے اسے ختم مت کرو۔۔۔۔ اور اس سے زیادہ اب میں گھٹنوں کے بل بیٹھ نہیں سکتا ۔۔۔ اس لئے اب جلدی سے اٹھو اور کپڑے چینج کر کے آئو تاکہ پارٹی میں جم کر کھانا کھا کر آئیں ۔۔۔۔
عرزم نے آخری بات اس کا دھیان بٹانے کے لئے کی جس میں وہ کامیاب بھی ہوگیا تھا۔۔۔۔
بھکڑ۔۔۔۔
زیام یہ بول کر کمرے میں موجود الماری کی طرف بڑھ گیا جبکہ عرزم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔۔۔۔
کبھی کبھی تم واقعی لڑکیوں کی طرح بیہیو کرتے ہو زیمی۔۔۔۔
عرزم کے الفاظ پر زیام کے الماری سے کپڑے نکالتے ہاتھ کانپے تھے۔۔۔
عرزم نے مذاق میں کہا تھا زیام کو لگ رہا تھا جیسے اس کا مذاق اڑایا گیا ہو۔۔۔۔۔
ت۔۔تت تم نے نام نہیں بتایا اس لڑکی کا؟؟؟
میری زندگی کی روشنی ۔۔۔ میری رے۔۔۔۔ تم تیار ہو جائو آج ملوائوں گا اس سے۔۔۔۔
عرزم کے چہرے کی خوشی دیدنی تھی جبکہ زیام سپاٹ چہرے کے ساتھ کپڑے لے کر واش روم کی طرف چلا گیا۔۔۔۔
آج میری زندگی کا سب سے یادگار دن ہوگا ۔۔۔ رے۔۔۔ کیونکہ آج میں تمہیں اپنی فیلنگز کے بارے میں بتائوں گا۔۔۔۔۔
عرزم نے مسکراتے ہوئے دل میں سوچا۔۔۔۔
لیکن کہتے ہیں نہ کبھی کبھی جو سوچا جائے ویسا بالکل نہیں ہوتا کیونکہ جو ذات اوپر بیٹھی ہے وہ سوچ چکی ہوتی ہے کہ انسان کو کس چیز کی ضرورت ہے اور کس نے کیا بات کب کرنی ہے۔۔۔ اللہ سب جاننے والا ہے ۔۔۔ وہ دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی ۔۔۔۔ انسان نہیں جانتا کہ اس نے کب کیا کرنا ہے کیونکہ دن، تاریخ اور وقت خدا مقرر کرتا ہے ۔۔۔ اس لئے اس کے فیصلے پر سر جھکا دو اور اسی پر یقین کرو کیونکہ وہ ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔۔۔۔ وہ کبھی آپ کو آپکی برداشت سے زیادہ نہیں آزمائے گا۔۔۔۔ تم جو چاہو وہ دیتا ہے بس یقین اور صبر شرط ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پارٹی رات آٹھ بجے شروع ہوئی تھی ۔۔۔ عرزم جب سے آیا تھا تب سے اس کی متلاشی نگاہیں رحاب کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔۔۔ زیام اس کی بے چینی نوٹ کر کے مسکرا رہا تھا۔۔۔ عرزم کی جیسے ہی نگاہ دائیں طرف اٹھی وہ رحاب کو دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔۔۔۔
بلیک کلر کا گائون پہنے، دو انچ کی ہیل ، کالے بالوں کو جوڑے میں قید کئے، آنکھوں میں گہرا کاجل لگائے، لبوں پر ڈارک ریڈ لپ اسٹک لگائے وہ مسکراتے ہوئے اپنی کسی دوست سے بات کر رہی تھی۔۔۔
عرزی۔۔۔۔
عرزی۔۔۔
عرزم نے زیام کے آواز پر چونک کر اسے دیکھا ۔۔۔
ہاں۔۔۔
میں واش روم سے ہو کر آتا ہوں۔۔۔
زیام یہ بول کر وہاں سے چلا گیا جبکہ عرزم نے گردن موڑ کر رحاب خو دیکھا لیکن جیسے ہی اس کی نظر رحاب سے تھوڑے دور کھڑے لڑکوں پر پڑی اسے بے تحاشہ غصہ آیا ۔۔۔ کیونکہ رحاب ڈوپٹے سے بے نیاز اور اردگرد سے بے خبر تھی۔۔۔
عرزم نے بمشکل اپنے غصے کو کنٹرول کیا اور رحاب کی طرف چل دیا۔۔۔ رحاب کے پاس پہنچ کر اس نے رحاب کو مکمل اگنور کرتے ہوئے اس کی دوست سے بولا۔۔۔۔
مجھے آپکی فرینڈ سے دو منٹ بات کرنی ہے ۔۔ اکیلے میں۔۔۔
رحاب عرزم کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔۔۔
یس۔۔۔ وائے ناٹ۔۔۔
وہ لڑکی عرزم کو دیکھ کر مسکرائی اور رحاب کو بعد میں آنے کا اشارہ کرتی وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔
چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔
عرزم نے یہ بول کر اسے بائیں بازو سے پکڑا اور پارٹی حال سے باہر اس کی بیک سائیڈ پر لے گیا۔۔۔۔۔
رحاب نے حیرت سے اس کا رویہ دیکھا تھا۔۔۔۔
تم۔۔۔۔
ڈوپٹہ کہاں ہے تمہارا؟؟؟
اس سے پہلے رحاب کچھ بولتی عرزم نے اس کی طرف پشت کرکے پوچھا۔۔۔۔ رحاب نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔۔
نظر نہیں آ رہا کہ میں نے گائون پہنا ہے اور اس کے ساتھ ڈوپٹہ نہیں ہوتا۔۔۔۔
رحاب کے جواب پر عرزم نے پلٹ کر اسے سرد نگاہوں سے دیکھا تھا۔۔۔ رحاب نے ایک نظر اس کی گرین میں بڑھتی سرخی دیکھی تو اس کی زبان گویا تالو سے چپک گئی تھی۔۔۔
مجھے یہ نہیں سننا کہ اس کے ساتھ ڈوپٹہ تھا یا نہیں ۔۔۔ مجھے بس آئندہ تم آس حلیے میں کسی کے سامنے نظر نہیں آئو۔۔۔۔
عرزم نے سخت لہجے میں رحاب کو کہا ۔۔۔ رحاب پہلے تو شاک ہوئی لیکن جب کچھ سمجھی تو مصنوعی سنجیدگی خود پر طاری کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔
دیکھو پرنس ہم اچھے دوست ہیں۔۔۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم مجھ پر پابندیاں لگائو گے۔۔۔ مجھے جیسے اچھا لگے گا میں ویسی ہی ڈریسنگ کروں گی۔۔۔
رحاب کے جواب پر عرزم نے اسے گھورا اور دانت پیستے ہوئے بولا۔۔۔
مجھے فالتو بکواس نہیں سننی۔۔۔ میں نے جو کہہ دیا ہے اس پر تم لازمی عمل کرو گی۔۔۔ سمجھی۔۔۔
میں کیوں عمل کروں گی؟؟؟ اور تم ہوتے کون ہو مجھے اپنے حکم کے پابند کرنے والے۔۔۔ ہم دوست ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم۔۔۔۔۔۔
آئی لو یو۔۔۔ ڈیم اٹ۔۔۔۔
رحاب پر تو مانو سکتہ طاری ہوگیا تھا۔۔۔ دس منٹ خاموشی کے بعد جب رحاب کچھ نہ بولی تو عرزم نے اسے دیکھا جس کے چہرے سے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ وہ خوش ہو رہی ہے یا نہیں۔۔۔۔
رحاب کو ایک دم شرارت سوجھی اور بولی۔۔۔۔
بٹ آئی ڈونٹ لو یو۔۔۔اور ہم صرف دوست ہیں پرنس۔۔۔ ویسے بھی ہم ابھی چھوٹے ہیں۔۔۔۔
مجھے فرق نہیں پڑتا کہ تمہارا جواب کیا ہے ۔۔۔ مجھے بس تم سے محبت ہے اور میں کسی کی نظریں تم پر برداشت نہیں کرسکتا ۔۔۔ خود کی حفاظت کرنا شروع کر دو رے۔۔۔۔ کیونکہ تم پر اب صرف میرا حق ہے۔۔ اب تم مانو یا نہ مانو۔۔۔ اور رہی بات عمر کی تو میں شادی کا نہیں بول رہا ۔۔۔۔ شادی سیٹل ہونے کے بعد ہی کروں گا۔۔۔ ابھی اسی لئے تمہیں بتا دیا تاکہ تمہارا دھیان کسی دوسری طرف نہ جائے۔۔۔ اب تم پر ہوگا کہ تم زبردستی میری زندگی کا حصہ بنتی ہو یا اپنی مرضی سے لیکن دونوں صورتوں میں تمہیں میری زندگی میں آنا ہے۔۔۔
رحاب اس کی بات پر مسکراتے ہوئے سر جھکا گئی۔۔۔
وہ تو اسی دن سے اسے سوچ رہی تھی جب اس نے اسے کتے سے بچایا تھا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ نرمی سے بات کی تھی۔۔۔
میں جائوں۔۔۔۔
رحاب شرمیلی آواز میں بولی تو عرزم نے ایک نظر اسے دیکھا جو شرماتے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
نہیں ابھی تم سیدھے ہاسٹل جائو گی۔۔۔۔ کیونکہ تمہارے لئے پارٹی ختم ہوگئی ہے۔۔۔
عرزم کی بات پر رحاب پورا منہ کھولے اسے دیکھ کر رہ گئی تھی ۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔
گو بیک رے۔۔۔۔ ادر وائز میں خود تمہیں چھوڑ کر آئوں گا۔۔۔ ہاں یہ ٹھیک ہے ۔۔ چلو میں تمہیں ہاسٹل تک چھوڑ دیتا ہوں ۔۔۔ ویسے بھی واک کئے کافی دن ہوگئے ہیں۔۔۔
عرزم نے یہ بول کر اس کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے بیرونی دروازے کی طرف چل دیا جبکہ رحاب مسکراتے ہوئے اس سے باتیں کرنا شروع ہوگئی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حال
جیسے ہی وہ روم میں داخل ہوا سامنے زیام کو دیکھا جو ہاسپٹل کے بیڈ پر سو رہا تھا۔۔۔۔ عرزم آگے بڑھا اور اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔ کتنی ہی دیر وہ اس معصوم چہرے کو دیکھتا رہا ۔۔۔
کاش کہ میں تمہاری زندگی میں موجود ہر خلا کو پر کر سکتا۔۔۔ لیکن یہ کاش ہی تو کبھی پورا نہیں ہو سکتا ہے۔۔۔۔
عرزم نے دل میں سوچا۔۔۔ زیام جو سو رہا تھا بیڈ ہلنے کی وجہ سے اٹھ گیا وہ جانتا تھا کہ عرزم ہی ہوگا لیکن شاید وہ اس کا سامنا کرنے کی ہمت بھی اپنے اندر مفقود پا رہا تھا۔۔۔
زیمی۔۔۔
عرزم نے اس کی پلکوں کی لرزش سے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ اٹھ گیا ہے ۔۔۔ زیام ہنوز ویسے ہی رہا تو عرزم نے حیرت سے اس کا اگنور کرنا دیکھا۔۔۔۔
زیام علوی تم اٹھ رہے ہو یا میں اپنے طریقے سے اٹھائوں ۔۔۔۔
زیام نے پھر بھی کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا اب جو ہوگا اس کا ذمہ دار تو خود ہوگا۔۔۔
یہ بول کر عرزم نے اسے گدگدی سٹارٹ کر دی۔۔ زیام جلدی سے اٹھ کر بیٹھا تھا۔۔۔
ہاہاہاہا۔۔۔۔ پلیز۔۔۔ عرزی۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔
بس کر۔۔۔۔
زیام ہنستے ہوئے بولا ۔۔ عرزم مسکراتے ہوئے پیچھے ہوا کیونکہ ابھی اس کی کنڈیشن ذیادہ سٹیبل نہیں تھی۔۔۔ عرزم اس کے پائوں کی طرف بیٹھ گیا لیکن اس کا دھیان زمین پر تھا جبکہ زیام نے اسے ایک نظر دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔۔
ناراض ہو؟؟؟
نہیں۔۔۔
عرزم نے ایک لفظی جواب دیا۔۔۔
پھر خاموش کیوں ہو؟؟؟
کیونکہ میرے الفاظ ختم ہوگئے ہیں۔۔۔
زیام نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر اپنے ہاتھوں کو۔۔۔۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔۔ کافی دیر خاموشی کے بعد کمرے میں عرزم کی بھرائی ہوئی آواز گونجی تھی۔۔۔
میں دوبارہ تمہیں اس حالت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔ میرے لئے یہ احساس ہی جان لیوا ہے کہ اگر میں ذرا سی بھی دیر کر دیتا تو کیا ہوتا ۔۔۔۔۔
کیا ہوتا؟؟؟ کچھ بھی تو نہیں۔۔۔ انفیکٹ اس دنیا سے بوجھ کم ہوجاتا۔۔۔
زیام نے جواب اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھ کر دیا۔۔۔
عرزم نے بے ساختہ نم آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔۔۔
کیا تم چاہتے ہو کہ میں اپنی سانسیں اپنے ہاتھوں سے ختم کر لوں؟؟؟
عرزم کی خفگی بھری آواز پر زیام نے ایک نظر اسے دیکھا جو رو رہا تھا۔۔۔ زیام نے زندگی میں تیسری بار اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے اور تینوں دفعہ وہ اس کے لئے رویا تھا۔۔۔۔
مجھ جیسے حقیر شخص کے لئے اپنے قیمتی آنسو ضائع مت کرو ۔۔۔
میں ڈر گیا تھا ۔۔۔ تم میری کمزوری ہو زیمی۔۔۔ ایسی کمزوری جس پر اگر کوئی وار کرتا ہے تو عرزم حیدر کی روح کی چیخیں نکل آتی ہیں۔۔۔ تم میرے بھائی نہیں ہو بلکہ بھائیوں سے بڑھ کر ہو ۔۔۔۔ اگر مجھے کوئی دوستی کا مطلب پوچھتا ہے تو میرے منہ سے صرف تمہارا نام نکلتا ہے۔۔۔ میری بے بسی دیکھ لو کہ میں چاہ کر تمہیں اس اذیت سے نہ بچا پایا جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔۔۔۔
عرزم اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام کر رو دیا تھا جبکہ زیام نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔
تم کیوں مجھ جیسے شخص پر اپنا وقت ضائع کر رہے ہو؟؟؟ تم چل جائو یہاں سے کیونکہ میں نہیں چاہتا تمہاری زندگی پر میری وجہ سے کوئی اثر پڑے۔۔۔
زیام روتے ہوئے بول رہا تھا جب عرزم نے جھٹکے سے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔۔۔ گرین آنکھوں میں سرخی ایک دم تیز ہوئی تھی۔۔۔ آنسوئوں کی جگہ غصے نے لے لی تھی۔۔۔۔
تمہاری فالتو بکواس سننے کا وقت نہیں میرے پاس ۔۔۔ جا رہا ہوں اور تب واپس آئوں گا جب تک تمہارے مجرم کو سزا نہ دے لوں۔۔۔ اور ہاں اس بار سزا پھانسی سے کم کسی صورت نہیں ہوگی۔۔۔۔
عرزم یہ بول کر اٹھا تھا جب زیام نے اس کا بازو پکڑ کر اپنا سر نفی میں ہلایا۔۔۔
تم ایسا کچھ نہیں کرو گے ۔۔۔ پلیز۔۔۔۔
میں ایسا کر کے رہوں گا۔۔۔ پورے پانچ گھنٹے، نو منٹ، اور اڑتیس سیکنڈ میں جس اذیت میں گزارے ہیں اس کا حساب الگ سے ہوگا۔۔۔ اور زیمی اس بار تم اپنی قسم کو میرے قدموں کی زنجیر بنانے کا سوچنا بھی مت کیونکہ جس نے بھی یہ کام کیا ہے اس نے میرے اندر کے حیوان کو ان زنجیروں سے آزاد کر دیا ہے ۔۔۔۔
زیام کو پہلی بار عرزم کی آنکھوں سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔۔۔
عرز۔۔۔۔
شٹ اپ زیمی۔۔۔ کوئی بھی تمہارے لئے کچھ بھی بولے گا اور میں برداشت کر لوں گا ۔؟؟؟ اس شخص کو اب معلوم ہوگا کہ عرزم حیدر کی جہاں برداشت ختم ہوتی ہے وہیں سے اس کی حیوانیت شروع ہوتی ہے۔۔۔۔ اب تم اتنا مت سوچو اور آرام کرو۔۔۔ کل صبح ملتے ہیں کیونکہ انکل ناصر بول رہے ہیں کل تک تمہیں ڈسچارج کر دیں گے۔۔۔۔
عرزم اسے لٹاتے ہوئے بولا۔۔۔ جبکہ زیام نے بے بسی سے اسے دیکھا۔۔۔
میں جانتا ہوں تمہیں میری آنکھوں کا رنگ پسند نہیں لیکن وہ کیا ہے نہ تھوڑی دیر پہلے منہ دھو رہا تھا تو غلطی سے ایک انگلی آنکھ میں لینز پر۔لگ گئی ۔۔۔ اور وہ نکل کر گر گیا۔۔۔ اب ایسے مت گھورو۔۔۔ جاتے ہوئے میڈیکل سٹور سے لے لیتا ہوں ۔۔۔
عرزم زیام کو سیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا جبکہ زیام نے اسے گھورا تھا کیونکہ اس کا اندازہ بالکل ٹھیک تھا زیام کو اس کی گرین آنکھوں سے خوف آتا تھا ۔۔۔ اس نے کبھی عرزم سے کہا نہیں لیکن عرزم جانتا تھا اس لئے وہ برائون کلر کے لینز استعمال کرتا تھا۔۔۔ جیسے ہو زیام کو لٹا کر مڑا۔۔۔
زیام کی آواز کمرے میں گونجی۔۔۔
میں تم سے ناراض ہوں اب دوبارہ یہاں مت آنا۔۔۔
اوکے آ کر منا لوں گا۔۔۔
عرزم یہ بول کر دروازے کھول کر باہر چلا گیا جبکہ زیام دل ہی دل میں اس کی خہریت کی دعا کرنے لگا۔۔۔اس سے پہلے وہ دوبارہ سوتا اسے کمرے کا دروازہ کھولنے کی آواز آئی۔۔۔ آنکھیں کھول کر دیکھا تو سامنے ہی جہانگیر علوی کھڑے تھے۔۔۔۔۔ زیام نے ایک نظر انہیں دیکھ کر چہرہ دوری طرف کر لیا ۔۔۔ اس کی معصومیت پر جہانگیر علوی کو ٹوٹ کر پیار آیا۔۔۔
کیسے ہو؟؟؟
زیام نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔
ناراض ہو؟؟؟
جہانگیر علوی نے اس کا چہرہ اپنی طرف کرکے پوچھا۔۔۔
کیا مجھے ناراض ہونے کا حق ہے؟؟؟
زیام نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
ہاں بالکل حق ہے۔۔۔ تم میری اولاد ہو۔۔ باپ ہوں تمہارا۔۔۔
جہانگیر علوی نے مسکرا کر کہا۔۔۔
شاید صرف نام کے۔۔۔
زیام زخمی سا مسکرا کر بولا۔۔۔
جہانگیر اس کے جواب پر لب بھینچ گئے تھے۔۔۔
معاف کردو اپنے باپ کو ۔۔۔ مجھے تم سے غافل نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔ مجھے یہی لگا کہ ۔۔۔۔
جہانگیر بول رہے تھے جب زیام نے ان کی بات درمیان میں کاٹ دی۔۔۔۔۔
غافل۔۔۔ کیوں ڈیڈ۔۔۔ کیوں غافل تھے آپ مجھ سے۔۔۔ کیا میں بیمار نہیں ہوتا تھا؟؟؟ کیا مجھے تکلیف نہیں ہوتی تھی؟؟؟ کیا مجھے آپ کی توجہ کہ ضرورت نہیں تھی۔۔۔؟؟؟ کیا صرف پیسا ہی انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔
زیام کے الفاظ جہانگیر علوی کو مزید شرمندہ کر گئے تھے۔۔۔
میں جانتا تھا کہ اگر آپ نے ایک بار مجھے خود سے دور کر دیا تو بھول جائیں گے کہ زیام علوی نام کا کوئی رشتہ بھی آپ سے جڑا ہے۔۔۔ اور آپ نے وہی کیا ڈیڈ۔۔۔۔ کیوں کیا آپ نے ایسا؟؟؟ کیا آپ کی اور ممی کی محبت پر میرا کوئی حق نہیں تھا۔۔۔ آپ سب لوگ اپنی زندگی میں اتنے مگن تھے کہ مجھے بھول گئے۔۔۔ خیر مجھے اس بات کا کوئی افسوس نہیں ہے کیونکہ میری زندگی کی ساری محرومیاں عرزم حیدر نے پوری کر دی ہیں۔۔۔ ہر بچے کے لئے اس کے والدین بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن میں نے تو ان کے ہوتے ہوئے بھی یتیمی کی زندگی گزاری ہے۔۔۔ خیر مجھے آپ سے کوئی شکوہ نہیں کیونکہ میری جیسی اولاد کو زندہ رکھنا ہی آپ لوگوں کا احسان عظیم ہے۔۔۔ آپ جانتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کے بعد اگر زیام علوی کے لئے اس دنیا میں کوئی عزت اور احترام کے قابل ہے تو وہ عرزم حیدر ہے۔۔۔۔ میں مر تو سکتا ہوں لیکن اس پر کوئی حرف نہیں آنے دے سکتا۔۔۔۔
آپ جانتے ہیں ڈیڈ اس پوسٹر پر کیا لکھا تھا؟؟؟
اس پر لکھا تھا آپکا نامرد بیٹا ہوس کار ہے۔۔۔ وہ ریپ کرتا ہے لوگوں کے ۔۔۔ اور تو اور عرزم حیدر کے ساتھ بھی۔۔۔۔۔۔
شدت ضبط سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔۔۔۔
ششش۔۔۔ بالکل چپ۔۔۔ اپنے باپ پر ایک آخری دفعہ بھروسہ کر لو۔۔۔ میں ان سب لوگوں کا سزا دینے کا اختیار رکھتا ہوں جنہوں نے میرے بیٹے کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔
جہانگیر علوی نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور زیام بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔۔۔۔
ڈیڈ وعدہ کریں عرزم پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔۔۔۔
زیام روتے ہوئے ان کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بولا تو جہانگیر عمومی نے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔۔
وعدہ ۔۔۔
اگر جہانگیر علوی کو معلوم ہوجاتا کہ یہ وعدہ ان کو کتنا مہنگا پڑنے والا ہے تو وہ شاید کبھی بھی حامی نہیں بھرتے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔