اجالا بیگم رحاب کے کمرے میں آئیں تو رحاب انہیں کہیں نظر نہیں آئی البتہ واش روم سے پانی گرنے کی آواز سن کر وہ وہیں رک گئیں ۔۔۔
پتہ بھی یے چوٹ لگی ہے سر پر لیکن نہیں پھر بھی شاور لے رہی ہے یہ لڑکی ۔۔۔ میں کیا کروں اس کا؟؟؟
اجالا بیگم نے دل میں سوچا اور رحاب کے کمرے میں موجود بیڈ پر بیٹھ گئیں۔۔۔۔
رحاب جیسے ہی نہا کر نکلی سامنے اجالا بیگم کو دیکھ کر اس کے تاثرات بگڑ گئے تھے جو اجالابیگم کو باخوبی نظر آگئے تھے۔۔۔۔ لیکن انہوں نے اگنور کیا۔۔۔۔ اور خود کو نارمل ظاہر کرتے ہوئے بولیں۔۔۔
روحی بیٹا۔۔۔ سر پر چوٹ لگی ہے۔۔ تمہیں نہانا نہیں چاہیے تھا۔۔ تمہارا زخم مزید خراب ہو سکتا ہے۔۔۔۔
رحاب جو اجالا بیگم کو مکمل اگنور کر کے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ڈرائیر سے اپنے بال خشک کر رہی تھی ۔۔۔ ان کی بات پر مڑی اور سرد لہجے میں بولی۔۔۔۔
خدا کا واسطہ ہے آپکو میرے سامنے یہ جھوٹا پیار ظاہر نہ کیا کریں کیونکہ آپکے دکھاوے کا اثر حاشر بھائی پر ہوسکتا ہے مجھ پر نہیں ۔۔۔
روحی تمہیں میری محبت پر یقین کیوں نہیں ہے؟؟؟
اجالا بیگم بے بسی سے بولیں تھیں ۔۔۔
کیا آپ نے یقین کیا تھا میری محبت کا ؟؟؟
رحاب نا چاہتے ہوئے بھی اس بار اپنے لہجے کی سختی ذیادہ کر گئی تھی۔۔۔۔
کیا تم آج بھی اس چھوٹی سی بات۔۔۔۔۔۔
وہ چھوٹی سی بات نہیں تھی مسز نیازی ۔۔۔۔
رحاب ڈرائیر کو ڈریسنگ ٹیبل پر پھینک کر ان کی بات درمیاں میں کاٹ کر بولی۔۔۔۔
مجھے زندہ لاش بنا دیا ہے آپ نے اور آپ کہہ رہی ہیں چھوٹی سی بات۔۔۔۔۔ آپ کی اس چھوٹی سی بات نے میرے احساسات مٹی میں ملا دئیے ۔۔۔ مجھے زندہ جلا دیا آپ کی اس چھوٹی سی غلطی نے۔۔۔۔۔
رحاب کانپتے ہوئے بول رہی تھی اس کا چہرہ ضبط کے مارے سرخ ہوگیا تھا وہ چاہ کر بھی اپنے آنسو روک نہیں سکی۔۔۔۔ اجالا بیگم کی آنکھیں بھی نمکین پانی سے بھر گئی تھیں ۔۔۔
ابھی تو میں نے اسے محسوس کیا تھا ۔۔۔ محبت کیا ہوتی ہے یہ جاننا شروع کیا تھا۔۔۔ آپ نے اپنی محبت کو آڑ بنا کر مجھ سے میری روح کو الگ کر دیا۔۔۔۔ کیوں کیا آپ نے ایسا؟؟؟ کیوں مجھے میری برداشت سے زیادہ آزمایا آپ نے۔۔۔؟؟؟ کیوں نہیں سمجھیں کہ میں پرنس کے بغیر مر جائوں گی۔۔۔۔
اجالا بیگم کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ رحاب کو ٹوٹتے دیکھ کر وہ خود بھی تو ٹوٹ رہی تھیں ۔۔۔
آپ جانتی ہیں جب وہ مجھے رے بلاتا تھا میری دل میں شدت سے خواہش جاگتی تھی کہ کاش اس نام سے کوئی کبھی کسی کو نہ پکارے ۔۔۔ وہ مجھے کہتا تھا میں اس کی رے ہوں۔۔۔ جس سے اس کی زندگی کا اندھیرا ہمیشہ کےلئے ختم ہو جائے گا۔۔۔۔ لیکن آپ کی وجہ سے میں نے اپنے ہاتھوں سے اس کی زندگی کو اندھیروں میں دھکیل دیا ۔۔۔۔۔۔ نفرت کرتی ہوں میں آپ سے سنا آپ نے مسز نیازی صرف نفرت کرتی ہوں آپ سے ۔۔۔۔
رحاب نے آخری بات اجالا بیگم کی آنکھوں میں دیکھ کر کہی اور ان سے رخ موڑ گئی۔۔۔۔
میں جانتی ہوں روحی میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا ۔۔۔ پلیز مجھے ایک موقع دے دو۔۔۔ میں نہیں برداشت کر سکوں گی تمہاری نفرت ۔۔۔۔
اجالا بیگم کی بات پر روحی طنزیہ مسکرائی تھی۔۔۔۔
تو برداشت پیدا کریں مسز نیازی کیونکہ میں اب چاہ کر بھی اپنے دل میں آپکے لئے محبت پیدا نہیں کر سکتی۔۔۔۔ اور کس بات کی معافی مانگ رہی ہیں آپ؟؟؟ قرض سمجھ کر جو محبت مجھے دی تھی آپ نے اس کو میں سود سمیت لوٹا چکی ہوں ۔۔۔ اب مجھ سے کسی چیز کی امید مت رکھیں ۔۔۔۔
رحاب نے سرد لہجے میں کہا جبکہ اجالا بیگم کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔۔
روحی پلیز۔۔۔ مجھے ایک موقع دو۔۔۔ تم جو بولو گی میں کروں گی۔۔۔ لیکن پلیز مجھے میری بیٹی لوٹا دو۔۔۔۔۔
اجالا بیگم کی بات پر روحی نے ایک نظر ان کے روئے ہوئے چہرے کو دیکھا اور پھر سپاٹ چہرے سے ان کے مقابل کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔۔
سوچ لیں کیونکہ میری معافی آپ سے بہت کچھ چھین سکتی ہے۔۔۔
رحاب کی بات پر جہاں اجالا بیگم کے چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ الجھن آئی وہیں رحاب کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔۔۔۔
مطلب؟؟؟؟ تم نے مجھے معاف کر دیا۔۔۔۔
معافی آپکو تب ملے گی مسز نیازی جب میرا پرنس مجھے ملے گا۔۔۔۔ اب آپ جا سکتی ہیں کیونکہ میں مزید آپ کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔
رحاب نے یہ بول کر رخ موڑ لیا جبکہ اجالا بیگم نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔۔۔۔
روح۔۔۔۔۔
لیو می آلون ۔۔۔۔۔
رحاب بولی نہیں چیخی تھی جبکہ اجالابیگم لمحے کی تاخیر کئے بنا وہاں سے نکلی تھیں ۔۔۔۔۔
رحاب نے ایک نظر بند دروازے کو دیکھا اور پھر آئینے میں اپنے عکس کو دیکھ کر بے ساختہ اپنی پیشانی پر زخم والی جگہ ہاتھ رکھا اور تصور میں پرنس کو مخاطب کر کے بولی۔۔۔۔
تمہارے دئیے ہوئے زخموں پر مرہم بھی تم ہی رکھو گے ۔۔۔ پرنس۔۔۔ کیونکہ تمہارے رے خود کو تمہارے حوالے کر چکی ہے۔۔۔۔
یہ بول کر وہ خود سے مسکرائی تھی۔۔۔۔
شاید نہیں یقینا وقت اس کے اندھی محبت کا بھرم بہت جلدی توڑنے والا تھا۔۔۔۔اور اس کی مسکراہٹ آنسوئوں میں بدلنے والی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو عرزم ۔۔۔ نہ صرف اس سے معافی مانگنے آیا تھا بلکہ اس کے لئے کافی شاپنگ بھی کر کے آیا تھا جس میں اس کے لئے برانڈڈ شرٹس اور جینز ۔۔۔ کچھ پرفیومز ۔۔۔ شوز اور بھی ضرورت کی کافی چیزیں تھیں۔۔۔ پہلے تو زیام نے منع کر دیا لیکن پھر دائی ماں اور عرزم کے کافی اصرار پر اس نے وہ تمام چیزیں اپنے پاس رکھیں تھیں ۔۔۔ زیام جانتا تھا کہ عرزم اس بات کو بھولنے والا نہیں لیکن اسے اس بات کا بھی یقین تھا کہ اب اس لڑکے کو کم از کم وہ کچھ نہیں کہے گا۔۔۔ اگلے دن عرزم نے زیام کو یونیورسٹی کے لئے پک کیا اور دونوں یونیورسٹی پہنچے ۔۔۔
زیمی تو چل میں گاڑی پارک کر کے آتا ہوں ۔۔۔
عرزم مسکراتے ہوئے بولا تو زیام اپنا سر اثبات میں ہلا کر وہاں سے یونیورسٹی کے داخلی دروازے کی طرف چلا گیا ۔۔۔ زیام جیسے ہی یونی میں داخل ہوا اسے کچھ خلاف معمول الجھن سی ہوئی تھی ۔۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سب لوگ اسے دیکھ رہے ہیں۔۔۔ زیام نے اردگرد نظریں دوڑائیں تو واقعی ایسا تھا ۔۔۔ کچھ آنکھوں میں حقارت جبکہ کچھ میں نفرت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔ زیام نے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹکا اور تیز تیز قدم اٹھا کر اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا ۔۔۔ وہ نظریں جھکا کر چل رہا تھا جب کسی سے ٹکرایا ۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ سامنے والے کو دیکھتا کسی نے اس کے بائیں رخسار پر ذور سے تھپڑ رسید کیا ۔۔۔
زیام لڑکھڑاتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔۔
غلیظ انسان تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ٹکرانے کی؟؟؟؟
سامنے ایک چھے فٹ کا لڑکا تھا جو خونخوار نظروں سے زیام کو گھور رہا تھا۔۔۔ زیام نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے رخسار پر رکھا اور مدہم آواز میں بولا۔۔۔۔
ایم سوری ۔۔۔۔
اس لڑکے نے ایک قہر برساتی نظر اس پر ڈالی اور آگے بڑھ گیا۔۔۔ زیام نے شکر کا سانس لیا تھا کہ وہاں عرزم نہیں تھا ۔۔۔ لیکن جلد ہی اس کا اطمینان رخصت ہوگیا تھا۔۔۔سامنے دیوار پر اس کی کل والے کپڑوں میں تصویر نما پوسٹر لگا تھا جس پر لکھے الفاظ زیام علوی کا سانس روک گئے تھے۔۔۔۔ اس نے بمشکل خود کو گرنے سے بچانے کے لئے دیوار کا سہارا لیا۔۔۔ لیکن جیسے ہی اس کی نظر مختلف دیواروں پر اٹھ رہی تھی اس کا رنگ فق ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔
نہیں ۔۔۔۔ ج۔۔جج۔۔جھوٹ ہے یہ۔۔۔۔
زیام چیخا تھا جبکہ اردگرد کھڑے سٹوڈنٹس اس کی چیخ پر متوجہ ہوئے تھے۔۔۔۔
زیام نم آنکھوں سے روتے ہوئے چیخ رہا تھا جب اچانک اسے سانس لینے میں دشواری محسوس ہونے لگی۔۔۔ اس سے پہلے وہ خود کو سنبھالتا وہ بے ہوش ہو چکا تھا ۔۔۔۔ کسی سٹوڈنٹ نے بھی اس کے پاس جا کر اسے چیک کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔
ادھر عرزم جو گاڑی پارک کر کے یونی کے اندر جانے لگا تھا سامنے سے آتی رحاب کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا ۔۔۔۔
بلیو جینز پر لیمن کلر کی ٹاپ پہنے، گلے میں مفلر لٹکائے، آنکھوں میں گہرا کاجل ۔۔۔ لبوں پر ریڈ لپ اسٹک لگائے، بالوں کی ٹیل پونی بنائے ، ہیل پہنے اردگرد سے بے نیاز چلی آ رہی تھی ۔۔۔ سب لوگوں کی ستائشی نظریں اس پر اٹھ رہی تھیں ۔۔۔ عرزم تو چند پل کے لئے مہبوت رہ گیا تھا اسے دیکھ کر لیکن جلد ہی اس نے خود کو کمپوز کیا اور اردگرد نظر دوڑائی ۔۔۔ پارکنگ میں موجود تقریبا سب لڑکے مڑ مڑ کر رحاب کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ عرزم کے ماتھے پر شکنوں کا جال نمودار ہوا اور غصے سے اس نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بنائی تھی ۔۔۔۔ ضبط کے کڑے مراحل سے گزرتے ہوئے اس نے اپنی نظر اس سے ہٹائی اور یونی کے اندر جانے لگا جب رحاب کی آواز اس کے کانوں میں پڑی ۔۔۔۔۔
عرزم حیدر۔۔۔۔۔
عرزم مڑا اور آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔۔۔
رحاب مسکراتے ہوئے اس کے مقابل آئی تھی اور طنزیہ بولی ۔۔۔۔
تمہارا وہ بے بی بوائے دوست کہاں ہے؟؟؟
عرزم کو غصہ تو بہت آیا لیکن پھر خود کو کنٹرول کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
مائینڈ یور لینگویج مس رحاب حسن۔۔۔ حشر بگاڑ دوں گا تمہارا اگر اپنی گندی زبان سے اس کا نام بھی لیا تو۔۔۔۔
اوپس ۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔ سوری۔۔۔ عرزم حیدر۔۔۔ لیکن میں نے تمہارے دوست کا نام لیا ہی نہیں ۔۔۔ میں تو تمہارا نام لے رہی ہوں۔۔۔۔
رحاب دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولی تھی ۔۔۔ جبکہ عرزم کا دل اس وقت رحاب کو تہس نہس کرنے کا کر رہا تھا ۔۔۔۔ لیکن وہ بمشکل خود پر ضبط کر کے خاموش رہا اور وہاں سے جانے کے لئے پلٹ گیا ۔۔۔۔
حیرت ہے اس کی بولتی بند ہوگئی ۔۔۔۔ چل روحی کلاس کا وقت ہو رہا ہے۔۔۔۔
رحاب مسکراتے ہوئے اس کی پشت کو دیکھ کر بڑبڑائی ۔۔۔ اور یونیورسٹی کے اندر داخل ہوگئی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرزم نے یونیورسٹی کے اندر داخل ہوا تو اس کی نظر بے اختیار سامنے دیوار پر اٹھی جہاں بڑا سا زیام کا پوسٹر لگا تھا ۔۔۔۔ عرزم کو پہلے تو اپنا وہم لگا لیکن جیسے ہی وہ دیوار کے تھوڑا نزدیک آیا اس پر لکھے الفاظ عرزم حیدر کے اشتعال کو دعوت دے گئے تھے ۔۔۔ وہ اردگرد کی پرواہ کئے بغیر اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بھاگا تھا جہاں زیام کا وجود بے حس و حرکت کوریڈور میں پڑا تھا اور کچھ سٹوڈنٹس اس کے وجود کو نفرت سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔
عرزم کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے زیام کو بے ہوش دیکھ کر۔۔۔ وہ بھاگ کر زیام تک پہنچا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ کر پریشانی سے بولا۔۔۔۔
زیمی ۔۔۔ زیمی۔۔۔ آنکھیں کھولو ۔۔۔۔ زیمی دیکھ یار میں یہاں ہوں۔۔۔ میں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمہیں ۔۔۔ سنا تم نے۔۔۔
عرزم نے نم آنکھوں سے اس کا چہرہ تھپتھپایا تھا ۔۔۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے زندگی میں پہلی بار وہ محسوس کر رہا تھا کہ جسم سے جان کیسے نکلتی ہے۔۔۔ اس نے زیام کی پلس چیک کی جو بہت سلو چل رہی تھی ۔۔۔۔
عرزم نے ارد گرد کی پرواہ کئے بغیر اسے اٹھایا اور تقریبا بھاگتے ہوئے پارکنگ میں پہنچا ۔۔۔ اسے بیک سیٹ پر لٹا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر آیا ۔۔۔ ہاتھوں میں کپکپاہٹ تھی جس کی وجہ سے اس سے گاڑی سٹارٹ نہیں ہو رہی تھی ۔۔۔
رحاب نے جب اسے زیام کو اٹھائے بھاگتے دیکھا تو اس کے پیچھے آئی لیکن عرزم کی حالت پر اسے واقعی اس وقت ترس آ رہا تھا جو خود بھی کانپ رہا تھا ۔۔۔ رحاب نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اسے بازو سے پکڑ کر باہر نکالا۔۔۔ عرزم بغیر کسی حس و حرکت کے باہر نکلا ۔۔۔ اس کی کپکپاہٹ رحاب واضح محسوس کر رہی تھی ۔۔۔ رحاب نے اسے دوسری سیٹ پر بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔ عرزم گردن موڑے مسلسل زیام کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ رو رہا ہے ۔۔۔ رحاب نے ایک نظر اسے دیکھا تو شدت سے اس نے زیام کی تندرستی کی دعا دل میں مانگی تھی۔۔ تقریبا آدھے گھنٹے بعد وہ ایک ہاسپٹل کی پارکنگ میں رکے تھے ۔۔۔ رحاب کے اترنے سے پہلے ہی عرزم اترا ۔۔ اور زیام کو اٹھا کر اندر کی طرف بھاگا ۔۔۔۔ رحاب بھی پریشانی میں اس کے پیچھے تقریبا بھاگتے ہوئے گئی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر ۔۔۔ ڈاکٹر۔۔۔۔ پلیز سیو ہم ۔۔۔
عرزم چیختے ہوئے ڈاکٹر کو بلا رہا تھا ۔۔۔۔
ڈاکٹر ناصر جو کہ حیدر حسن کے کافی پرانے دوست تھے عرزم کو ہاسپٹل میں چیختے دیکھ کر اس کی طرف بڑھے ۔۔۔ اور زیام کو اس کی گود میں دیکھ کر سب سمجھ گئے۔۔ وہ جانتے تھے عرزم کی زیام سے دوستی کو ۔۔۔ اس وقت کچھ پوچھنے کی بجائے انہوں نے زیام کی پلس چیک تو وہ بہت سلو تھی ۔۔۔
انہوں نے وارڈ بوائز کو اشارہ کیا تو وہ سٹریچر کی مدد سے اسے سیدھا آئی سی یو میں لے گئے ۔۔۔
ڈونٹ وری عرزم ۔۔۔ جسٹ پرے فار ہم۔۔۔۔۔
ڈاکٹر ناصر یہ بول کر آئی سی یو کی طرف چلے گئے جبکہ عرزم وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔ اسے ٹوٹا ہوا دیکھ کر رحاب کو دیکھ وہ رہا تھا ۔۔۔ اس نے تو ہمیشہ اسے رعب جھاڑتے دیکھا تھا یا غصے میں دیکھا تھا ۔۔۔ لیکن اس طرح اسے دیکھ کر رحاب کی آنکھیں خوبخود نم ہوگئیں تھیں ۔۔۔۔ لیکن زیام کی کنڈیشن اتنی خراب کیوں ہوئی رحاب کو یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔۔۔۔۔
عرزم اور زیام کے ساتھ قسمت کیا کھیل کھیلنے والی تھی ۔۔۔۔ کیا دونوں ہمیشہ کے لئے الگ ہونے والے تھے یا وقت ایک اور امتحان لینے والا تھا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرزم کورویڈور میں بینچ پر بیٹھا ساکت نظروں سے آئی سی یو کے دروازے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ رحاب نے ترحم بھری نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔
رحاب ڈرتے ڈرتے عرزم کے پاس بیٹھی تھی۔۔۔ عرزم نے اس پر دھیان نہیں دیا یا شاید اسے اس وقت زیام کے علاوہ کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔ رحاب ہمت کر کے بولی۔۔۔
وہ ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔
عرزم نے لمحے کی تاخیر کئے بنا اسے دیکھا تھا ۔۔۔۔ عرزم کی سرخ آنکھوں سے رحاب کو خود محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔۔
میں نے کہا تھا زیام علوی عرزم حیدر کی دھڑکن ہے ۔۔۔ پھر کیوں تم نے مجھ سے میری سانسیں چھیننے کی کوشش کی؟؟؟ کیوں تم ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ دیتی۔۔۔۔ یہاں سے دفعہ ہو جائو رحاب ورنہ میں واقعی تمہارا قتل عبرتناک بنا دوں گا۔۔۔
رحاب واقعی کانپ گئی تھی اس کا زیام کے لئے جنونی انداز دیکھ کر ۔۔۔ لیکن نا چاہتے ہوئے بھی اس بار وہ اسے وضاحت دینے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔۔
میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ اور میں نہیں جانتی کہ تم کو بارے میں بات کر رہے ہو ۔۔۔۔۔۔
رحاب یہ بول کر وہاں سے اٹھنے لگی تھی جب عرزم نے اچانک اس کا گلہ دبوچ لیا تھا۔۔۔۔۔
رحاب حسن میں ہر اس انسان کی سانسیں روک دوں گا جو مجھے زیام علوی سے دور کرنے کی کوشش کرے گا۔۔۔۔ اور میرا یقین مانو اگر پوسٹر والی حرکت کے پیچھے تمہارا ہاتھ ہوا تو تمہیں زندہ جلا دوں گا۔۔۔۔
عرزم دبی آواز میں غرا کر بولا جبکہ رحاب کی آنکھیں باہر آ رہی تھیں۔۔ وہ مسلسل اس کے ہاتھ کو گردن سے ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔۔ جبکہ عرزم کی گرفت سخت ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔
رحاب کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی ۔۔۔ آہستہ سے اس کی مزاحمت کم ہو رہی تھی جب عرزم نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا ۔۔۔۔۔۔ رحاب جلدی سے پیچھے ہٹی تھی اور اپنی سانسیں ہموار کرنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔ جیسے ہی اس کی سانسیں ہموار ہوئیں اس نے نم آنکھوں سے عرزم کو دیکھا۔۔۔۔۔
مانا کے اعتبار کے قابل نہیں ہوں ۔۔۔ لیکن ضروری نہیں ہے اگر ایک بار تمہارا اعتبار توڑا تو ہر بار یہی کروں گی۔۔۔ جتنی محبت تمہیں زیام علوی سے ہے کیا اس محبت کے ایک فیصد کی بھی حقدار نہیں ہوں میں؟؟؟؟
رحاب نے شکوہ کناں نظروں سے عرزم کو دیکھا تھا۔۔۔ عرزم نے پہلے تو ناسمجھی سے اسے دیکھا لیکن پھر نظریں چرا سرد آواز میں بولا۔۔۔۔
جسٹ لیو می آلون ۔۔۔۔۔
محبت کرتی ہوں تم سے پرنس۔۔۔ نہیں چھوڑ سکتی تمہیں ایسے ۔۔۔ تمہیں میری ضرورت ۔۔۔۔۔۔
عرزم کو حقیقتا شاک لگا تھا رحاب کے منہ سے پرنس کا لفظ سن کر لیکن وہ خود کو کمزور نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے اس کی بات درمیاں میں کاٹ کر بولا۔۔۔۔۔
مجھے نہیں معلوم تم کس بارے میں بات کر رہی ہو۔۔۔ اور نہ ہی مجھے جاننا ہے۔۔۔ اور رہی ضرورت کی بات تو عرزم کی ضرورت صرف زیام علوی ہے۔۔۔۔ اب جائو یہاں سے اس سے پہلے کہ میں سارے لحاظ بھول کر تمہیں یہاں سے بھیجوں ۔۔۔۔
عرزم یہ بول کر وہاں سے اٹھ گیا تھا۔۔۔ جبکہ رحاب نے آنسو بھری نظروں سے اس کی پشت کو دیکھا اور وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔۔۔۔ عرزم نے غصے سے اپنا دایاں ہاتھ دیوار پر مارا تھا۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید اپنا غصہ دیوار پر نکالتا ڈاکٹر ناصر کی آواز پر وہ پلٹا۔۔۔۔
عرزم۔۔۔۔
عرزم نے پلٹ کر ڈاکٹر کو دیکھا اور بے چینی سے بولا۔۔۔۔
انکل زیمی۔۔۔ کیسا ہے۔۔؟؟؟ وہ ٹھیک ہے نا؟؟؟
چلو میرے آفس میں جا کر بات کرتے ہیں۔۔۔
ڈاکٹر ناصر یہ بول کر وہاں سے اپنے آفس کی طرف چلے گئے جبکہ عرزم بھی پریشان سا ان کے پیچھے چلنے لگا۔۔۔
عرزم جونہی ان کے روم میں داخل ہوا ۔۔۔ بے چینی سے بولا۔۔۔
انکل سب ٹھیک ہے نا؟؟؟
دیکھو عرزم ۔۔ میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ زیام کے ہارٹ کا ایک والو بند ہے۔۔۔۔ تو اسے کسی قسم کی ٹینشن نہیں ہونی چاہیے۔۔ اور میڈیسن بھی اسے روزانہ لینی ہوگی۔۔۔۔ لیکن پچھلے کافی دنوں سے شاید وہ میڈیسن نہیں لے رہا اس لئے اس کی ہارٹ بیٹ سلو ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔ اب وہ ٹھیک ہے لیکن میرا مشورہ مانو تو جلد ہی اس کی ہارٹ سرجری کروا لو ۔۔۔۔ کیونکہ اس طرح وہ اپنی زندگی کو مزید رسکی بناتا جا رہا ہے۔۔۔۔
ڈاکٹر کی بات پر عرزم نے کرسی کی پشت کو مضبوطی سے تھاما تھا۔۔۔۔
لیکن پچھلی دفعہ آپ نے کہا تھا اسے سرجری کی ضرورت نہیں میڈیسن کافی ہے۔۔۔
عرزم کو اپنی آواز کھائی میں سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔
ینگ مین ۔۔۔ پچھلی بار وہ اس حالت میں میرے پاس نہیں آیا تھا۔۔۔ خیر اس کی کنڈیشن دیکھ کر میں کہہ رہا ہوں۔۔۔ ویسا کیا میں جان سکتا ہوں اس کی حالت اتنی بگڑ کیسے گئی؟؟؟؟؟
ڈاکٹر کی بات پر عرزم کے دماغ میں ایک دم وہ پوسٹر آیا تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ بولتا کمرے میں داخل ہوتے شخص کو دیکھ کر عرزم کا غصہ پھر سے تازہ ہوگیا تھا ۔۔۔۔
بمشکل لب بھینچ کر اس نے خود کو کمپوز کیا تھا۔۔۔۔ جہانگیر علوی نے ایک نظر عرزم کو دیکھا اور پھر ڈاکٹر ناصر کو۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ کچھ پوچھتے عرزم کی آواز کمرے میں گونجی۔۔۔۔
کیا لینے آئے ہیں آپ؟؟؟؟
جہانگیر علوی نے عرزم کو دیکھا جو سرخ چہرے کے ساتھ بمشکل خود کو کنٹرول کئے ہوئے تھا۔۔۔
ناصر کیا ہوا ہے زیام کو؟؟؟
جہانگیر علوی نے عرزم کو اگنور کرکے ڈاکٹر سے پوچھا۔۔۔
ان سے کیا پوچھ رہے ہیں ؟؟؟ میں بتاتا ہوں آپکو؟؟؟
عرزم ان کے مقابل کھڑے ہوکر سرد آواز میں بولا تھا۔۔۔۔
جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ہوا ہے زیام کو تو سنیں۔۔۔۔ آج سے پانچ سال پہلے اس کے ہارٹ کا ایک والو بند ہوچکا تھا۔۔۔ جو آپ سب کی کرم نوازی تھی۔۔۔ اگر وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو آپ لوگ اسے جینے کیوں نہیں دیتے۔؟؟؟ کیوں اس کی سانسوں کو وقت سے پہلے بند کرنا چاہتے ہیں؟؟؟
جہانگیر علوی نے شاک کی کیفیت میں عرزم کو دیکھا تھا۔۔۔ کیا وہ زیام کے بارے میں اتنا لاعلم تھے۔۔۔
عرزم کی آواز ان کے حواس سلب کر رہی تھی۔۔۔۔
جانتے ہیں آپ جب پانچ سال پہلے مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نارمل انسان نہیں ہے تو میں نے بھی عام لوگوں کی طرح اسے خود سے دور کر دیا تھا لیکن جانتے ہیں آپ یہ دوری صرف ایک گھنٹے کی تھی اور اس ایک گھنٹے میں مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ میرے وجود میں بستا ہے زیام علوی۔۔۔۔ لیکن اس ایک گھنٹے میں ۔۔۔ میں نے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کردی ۔۔۔ اس سے غافل رہ کر۔۔۔ اگر اس دن میں واپس ہاسٹل نہ جاتا تو شاید ۔۔۔۔۔
عرزم ضبط سے لب بھینچ گیا تھا۔۔۔
وارڈن اور چوکیدار اسے ہاسپٹل لے کر گئے تو آپ جانتے ہیں ڈاکٹر نے اس کا فارم فل کرتے وقت اسے لاوارث بنا دیا تھا۔۔۔۔ لیکن جیسے ہی مجھے اس کے بارے میں پتہ چلا میں خود کو کوستے ہوئے ہاسپٹل پہنچا اور اس سے پہلے کہ ڈاکٹر لاوارثوں کی طرح اس کا علاج کرتے میں نے اس کے فارم پر آپ کا نام لکھا۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ موت کی تکلیف کیا ہے؟؟؟ لیکن آج جب میں نے اس کے بے ہوش وجود کو اٹھایا تھا تو مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ جب کسی کی روح قبض ہونے والی ہوتی ہے تو یقینا اتنی ہی اذیت ہوتی ہوگی۔۔۔۔ آج سے پانچ سال پہلے جب میں نے انجانے میں اسے تکلیف دی تھی تو جانتے ہیں کا کیا تھا خود کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔
یہ بول کر عرزم نے اپنی شرٹ کے اوپری دو بٹن کھولے جہاں عین دل کے مقام پر زیام کا نام لکھا تھا ۔۔۔
جتنی تکلیف اسے ہوئی تھی اتنی محسوس کرنا چاہتا تھا۔۔۔ اگر کبھی وہ آپ کی یا آپکی فیملی کی وجہ سے ہرٹ ہوتا تھا جانتے ہیں اس کی طبیعت خراب کیوں نہیں ہوتی تھی کیونکہ عرزم حیدر اسے اپنے پاگل پن میں اتنا الجھا دیتا تھا کہ وہ آپ لوگوں کو بھول ہی جاتا تھا ۔۔۔۔ اس کی میڈیسن میں کبھی کوئی ناغہ نہیں ہوتا تھا ۔۔۔ مجھے لگتا تھا کہ میں اسے اس دنیا سے محفوظ کر لوں گا۔۔۔ اس کی معصومیت کو کبھی ختم نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ لیکن میں تو غلط نکلا جہاں آپ جیسے منصف ہوں وہاں زیام جیسے لوگ کہاں زندہ رہتے ہیں؟؟؟؟ خیر آپ نہیں سمجھیں گے اس کی تکلیف؟؟؟ آپ بس نام کے باپ ہیں۔۔۔ اور ایک بے حس انسان۔۔۔ لیکن اس بار زیام کو جس نے بھی تکلیف پہنچانے کی غلطی کی ہے اسے عرزم حیدر انسان نہیں حیوان بن کر سزا دے گا۔۔۔
عرزم اپنے آنسو صاف کرتا وہاں سے جانے لگا جب جہانگیر علوی نے نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کس حالت میں ہے؟؟ شاید کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔ لیکن کیا تم مجھے بتا سکتے ہو ایسا کیا ہوا ہے جس سے وہ آج اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ اپنی سانسیں تک روکنا اسے آسان لگنے لگا ۔۔۔۔۔
عرزم نے نظریں چرائیں اور ضبط کرتے ہوئے بولا۔۔۔۔
آج یونی میں ۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اس حال میں ہے۔۔۔۔
عرزم نے انہیں ساری بات بتائی ۔۔۔
میرا بچہ ایسا نہیں ہے ۔۔۔ جس کسی نے یہ کیا ہے میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔
جہانگیر علوی کی آنکھوں میں سرخی بڑھنے لگی تھی ۔۔۔ جبکہ ڈاکٹر ناصر نے دکھ سے دونوں کو دیکھا تھا۔۔۔۔
میرا بیٹا ہوس کا پجاری نامرد نہیں ہے۔۔۔۔۔
جہانگیر بولتے ہوئے رو دئیے تھے۔۔۔ جبکہ عرزم نے ایک نظر انہیں دیکھا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ جہانگیر علوی نائلہ بیگم کی وجہ سے زیام سے دور رہتے ہیں ۔۔۔ وہ سر جھٹک کر باہر نکل گیا۔۔۔ جبکہ جہانگیر علوی کو شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ وہ زیام کے متعلق لاپرواہ ہو کر سنگین غلطی کر چکے ہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔